ہمارا جسم پرانا ہے لیکن اس میں ہمیشہ نیا خون دوڑتا رہتا ہے۔ اس نئے خون پر زندگی قائم ہے۔ دنیا کے قدیم نظام میں یہ نیا پن اس کے ایک ایک ذرے میں، ایک ایک ٹہنی میں، ایک ایک قطرے میں، تار میں چھپے ہوئے نغمے کی طرح گونجتا رہتا ہے ۔اور یہ سو سال کی بڑھیا آج بھی نئی دلہن بنی ہوئی ہے۔
جب سے لالہ ڈنگا مل نے نئی شادی کی ہے ان کی جوانی از سر نو عود کر آئی ہے۔ جب پہلی بیوی بقید حیات تھی وہ بہت کم گھر رہتے تھے۔ صبح سے دس گیارہ بجے تک تو پوجا پاٹ ہی کرتے رہتے تھے۔ پھر کھانا کھا کر د کان چلے جاتے۔ وہاں سے ایک بجے رات کولوٹتے اور تھکے ماندے سو جاتے۔ اگر لیلا کبھی کہتی کہ ذرا اور سویرے آجایا کرو تو بگڑ جاتے، ’’تمہارے لیے کیا دکان بند کر دوں یا روز گار چھوڑ دوں۔ یہ وہ زمانہ نہیں ہے کہ ایک لوٹا جل چڑھا کر لکشمی کو خوش کر لیا جائے۔ آج کل لکشمی کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑنا پڑتا ہے تب بھی ان کا منھ سیدھا نہیں ہوتا۔‘‘ لیلا بے چاری خاموش ہو جاتی۔
ابھی چھ مہینے کی بات ہے۔ لیلا کو زور کا بخار تھا لالہ جی دکان پر چلنے لگے تو لیلا نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’دیکھو میری طبیعت اچھی نہیں ہے ذرا سویرے آ جانا۔‘‘
لالہ جی نے پگڑی اتار کر کھونٹی پر لٹکا دی اور بولے، ’’اگر میرے بیٹھے رہنے سے تمہارا جی اچھا ہو جائے تو میں د کان نہ جاؤں گا۔‘‘
لیلا رنجیدہ ہو کر بولی ۔’’میں یہ کب کہتی ہوں کہ تم دکان نہ جاؤ ۔میں تو ذرا سویرے آجانے کو کہتی ہوں۔‘‘
’’تو کیا میں د کان پر بیٹھاموج کرتا ہوں؟‘‘
لیلا کچھ نہ بولی۔ شوہر کی یہ بے اعتنائی اس کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ ادھر کئی دن سے اس کا دل دوز تجربہ ہو رہا تھا کہ اس گھر میں اس کی قدر نہیں ہے۔ اگر اس کی جوانی ڈھل چکی تھی۔ تو اس کا کیا قصور تھا کس کی جوانی ہمیشہ رہتی ہے۔ لازم تو یہ تھا کہ پچپن سال کی رفاقت اب ایک گہرے روحانی تعلق میں تبدیل ہو جاتی جو ظاہر سے بے نیاز رہتی ہے۔ جو عیب کو بھی حسن دیکھنے لگتی ہے، جو پکے پھل کی طرح زیادہ شیریں زیادہ خوشنما ہو جاتی ہے۔
لیکن لالہ جی کا تاجر دل ہر ایک چیز کو تجارت کے ترازو پر تولتا تھا۔ بوڑھی گائے جب نہ دودھ دے سکتی ہو نہ بچے تو اس کے لیے گؤ شالہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ انکے خیال میں لیلا کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ وہ گھر کی مالکن بنی رہے۔ آرام سے کھائے پہنے پڑی رہے۔ اسے اختیار ہے چاہے جتنے زیور بنوائے چاہے جتنی خیرات اور پوجا کرے روزے رکھے۔ صرف ان سے دور رہے۔ فطرت انسانی کی نیرنگیوں کا ایک کرشمہ یہ تھا کہ لالہ جی جس دلجوئی اور حظ سے لیلا کو محروم رکھنا چاہتے تھے۔ خود اسی کے لیے والہانہ سرگرمی سے متلاشی رہتے تھے۔ لیلا چالیس کی ہو کر بوڑھی سمجھ لی گئی تھی مگر وہ پینتالیس سال کے ہو کر ابھی جوان تھے۔ جوانی کے ولولوں اور مسرتوں سے بے قرار لیلا سے اب انہیں ایک طرح کی کراہیت ہوتی تھی اور وہ غریب جب اپنی خامیوں کے حسرتناک احساس کی وجہ سے فطری بے رحمیوں کے ازالے کے لیے رنگ و روغن کی آڑ لیتی تو وہ اس کی بوالہوسی سے اور بھی متنفر ہو جاتے۔’’چہ خوش۔ سات لڑکوں کی تو ماں ہو گئیں، بال کھچڑی ہو گئے چہرہ دھلے ہوئے فلالین کی طرح پر شکن ہو گیا۔ مگر آپ کو ابھی مہاور اور سیندور مہندی اور ابٹن کی ہوس باقی ہے ۔عورتوں کی بھی کیا فطرت ہے۔ نہ جانے کیوں آرائش پر اس قدر جان دیتی ہیں۔ پوچھو اب تمہیں اور کیا چاہیے؟ کیوں نہیں دل کو سمجھا لیتیں کہ جوانی رخصت ہو گئی اور ان تدبیروں سے اسے واپس نہیں بلایا جا سکتا۔‘‘ لیکن وہ خود جوانی کا خواب دیکھتے رہتے تھے۔ طبیعت جوانی سے سیر نہ ہوتی۔ جاڑوں میں کشتوں اور معجونوں کا استعمال کرتے رہتے تھے۔ ہفتہ میں دو بار خضاب لگاتے اور کسی ڈاکٹر سے بندر کے غدودوں کے استعمال سے متعلق خط و کتابت کر رہے تھے۔
لیلا نے انہیں شش و پنج کی حالت میں کھڑا دیکھ کر مایوسانہ انداز سے کہا، ’’کچھ بتلاسکتے ہو کے بجے آؤ گے؟‘‘
لالہ جی نے ملائم لہجے میں کہا۔’’تمہاری طبیعت آج کیسی ہے؟‘‘
لیلا کیا جواب دے؟ اگر کہتی ہے بہت خراب ہے تو شاید یہ حضرت یہیں بیٹھ جائیں اور اسے جلی کٹی سنا کر اپنے دل کا بخار نکالیں۔ اگر کہتی ہے اچھی ہوں تو بے فکر ہو کر دو بجے رات کی خبر لائیں۔ ڈرتے ڈرتے بولی۔’’اب تک تو اچھی تھی لیکن اب کچھ بھاری ہو رہی ہے۔ لیکن تم جاؤ دکان پر لوگ تمہارے منتظر ہوں گے۔ مگر ایشور کے لیے ایک دو نہ بجا دینا، لڑکے سو جاتے ہیں، مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا، طبیعت گھبراتی ہے۔‘‘
سیٹھ جی نے لہجے میں محبت کی چاشنی دے کر کہا۔’’بارہ بجے تک آجاؤں گا، ضرور۔‘‘
لیلا کا چہرہ اتر گیا۔ ’’دس بجے تک نہیں آسکتے؟‘‘
’’ساڑھے گیارہ بجے سے پہلے کسی طرح نہیں۔‘‘
’’ساڑھے دس بھی نہیں۔‘‘
’’اچھا گیارہ بجے۔‘‘
گیارہ پر مصالحت ہو گئی۔ لالہ جی وعدہ کر کے چلے گئے لیکن شام کو ایک دوست نے مجرا سننے کی دعوت دی۔ اب بچارے اس دعوت کوکیسے رد کرتے جب ایک آدمی آپ کو خاطر سے بلاتا ہے تو یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ آپ اس کی دعوت نا منظور کردیں۔ وہ آپ سے کچھ مانگتا نہیں۔ آپ سے کسی طرح کی رعایت کا خواستگار نہیں۔ محض دوستانہ بے تکلفی سے آپ کو اپنی بزم میں شرکت کی دعوت دیتا ہے آپ پر اس کی دعوت قبول کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ گھر کے جنجال سے کسے فرصت ہے ایک نہ ایک کام تو روز لگا ہی رہتا ہے۔ کبھی کوئی بیمار ہے ،کبھی مہمان آئے ہیں، کبھی پوجا ہے، کبھی کچھ کبھی کچھ ۔ اگر آدمی یہ سوچے کہ گھر سے بے فکر ہو کر جائیں گے تو اسے سارے دوستانہ مراسم منقطع کر لینے پڑیں گے۔ اسے شاید ہی گھر سے کبھی فراغت نصیب ہو۔ لالہ جی مجرا سننے چلے گئے تو دو بجے لوٹے۔ آتے ہی اپنے کمرے کی گھڑی کی سوئیاں پیچھے کردیں۔ لیکن ایک گھنٹہ سے زیادہ کی گنجائش کسی طرح نہ نکال سکے دو کو ایک تو کہہ سکتے ہیں گھڑی کی تیزی کے سر الزام رکھا جا سکتا ہے لیکن دو کو بارہ نہیں کہہ سکتے۔ چپکے سے آ کر نوکر کو جگایا کھانا کھا کر آئے تھے اپنے کمرے میں جا کر لیٹ رہے۔ لیلا ان کی راہ دیکھتی، ہر لمحہ د رد اور بے چینی کی بڑھتی ہوئی شدت کا احساس کرتی نہ جانے کب سو گئی تھی۔ اس کو جگانا سوئے فتنہ کو جگانا تھا۔
غریب لیلا اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکی۔ لالہ جی کو اس کی وفات کا بے حد روحانی صدمہ ہوا۔ دوستوں نے تعزیت کے تار بھیجے کئی دن تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ ایک روزانہ اخبار نے مرنے والی کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے اس کی دماغی اور اخلاقی خوبیوں کی مبالغہ آمیز تصویر کھینچی۔ لالہ جی نے ان سب ہمدردوں کا دلی شکریہ ادا کیا اور ان کے خلوص و وفاداری کا اظہار جنت نصیب لیلا کے نام سے لڑکیوں کے لیے پانچ وظیفے قائم کر نے کی صورت میں نمودار ہوا۔ وہ نہیں مریں صاحب میں مر گیا۔ زندگی کی شمع ہدایت گل ہو گئی۔ اب تو جینا اور رونا ہے میں تو ایک حقیر انسان تھا۔ نہ جانے کس کار خیر کے صلے میں مجھے یہ نعمت بارگاہ ایزدی سے عطا ہوئی تھی۔ میں تو اس کی پرستش کرنے کے قابل بھی نہ تھا۔۔۔ وغیرہ۔
چھ مہینے کی عزلت اور نفس کشی کے بعد لالہ ڈنگا مل نے دوستوں کے اصرار سے دوسری شادی کر لی۔ آخر غریب کیا کرتے۔ زندگی میں ایک رفیق کی ضرورت تو جب ہی ہوتی ہے جب پاؤں میں کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رہتی۔
جب سے نئی بیوی آئی ہے۔ لالہ جی کی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب ہو گیا ہے۔ دکان سے اب انہیں اس قدر انہماک نہیں ہے۔ متواتر ہفتوں نہ جانے سے بھی ان کے کاروبار میں کوئی ہرج واقع نہیں ہوتا۔زند گی سے