Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سورج کی موت

سلمی صنم

سورج کی موت

سلمی صنم

MORE BYسلمی صنم

    ارے یہ کیا؟ صبح کا اخبار الٹتے ہوئے جیسے ہی آفتاب خاں کی نظر اس سرخی پرپڑی کہ سورج دھیرے دھیرے گل ہو رہا ہے۔ وہ بےاختیار چونکے۔۔۔ ہوگا یہ کوئی سائنسی انکشاف انہیں کیا پتہ۔ وہ تو بس اتنا جانتے تھے کہ سورج تو سوا نیزے پہ اٹکا ان کے اندر آگ اگل رہا ہے اور پیاس کا وہ عالم ہے کہ وہ ساتوں سمندرپی جائے تب بھی نہ بجھے انہیں لگاوہ ہانپ رہے ہیں جل رہے ہیں۔ راکھ ہورہے ہیں۔۔۔ وہ۔۔۔ ’’نمستے ساؤکار‘‘ کسی کی آواز انہیں خیالوں کی دنیاسے باہر لے آئی۔ دیکھا وہ حجام ما دا تھا۔

    ’’یہ سویرے سویرے کون آمرا‘‘ ان کا سارا وجود ہی جیسے آگ بن گیا، مگر وہ چپ سا ہاتھ باندھے کھڑا ان کی ساری تپش سہتے ہوئے اتنامودب لگ رہا تھا کہ لگا ہوا کا ایک جھونکا سا آیا ہو اور ان کے تپتے وجود کو چھو گیا ہو، وہ سنبھل سے گئے، نہیں اس وقت نہیں مادا دو بجے آنا ’’وہ بولے‘‘روپیہ ضرور ملےگا اور وہ بھی آج ہی‘‘

    مادانے بےیقینی کے عالم میں ان کی جانب دیکھا، اس نے دو بار شیونگ کی تھی ان کی ۔۔اسے بالکل پتہ تھا روپیہ آج نہیں ملےگا، ایسا کئی بار ہوا تھا، مگر پھر بھی وہ کچھ نہ بولا اور ان کا مان رکھتے ہوئے چپ ساچل دیا۔

    یہ تھوڑی سی عزت۔۔۔ یہ ذرا سامان۔۔۔ آفتاب خان کے اندر کہیں طمانیت کی ایک لہر سی ابھری، کیا ہوا؟ وہ پہلی سی شان و شوکت نہ رہی ہو، کہلاتے تو وہ آج بھی ساہوکار ہی تھے، بس ایک لمحہ ایک چھوٹا سا لمحہ۔۔۔ اور پھر وہی تپش وہی سوا نیزے پہ اٹکا سورج اور وہی پیاس کا عالم کہ ساتوں سمندر پی جائے تب بھی نہ بجھے انہوں نے بےاختیار سوچا کاش کہ جوکل سنا تھا وہ خواب ہی ہوتا مگر وہ تو ایک حقیقت تھی، بھرپور، توانا، دھڑکتی ہوئی سانس لیتی ہوئی۔ وہ جو اپنی ننگی پیٹھ پر سورج اٹھائے ان کی حویلی کی بکریاں چرایا کرتا تھا، اس رمضان کے لونڈے نے اتنی جرأت کی تھی اپنے چچا کریمو کو بھیجا تھا۔ ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے اور اس وقت آفتاب خان کو یوں لگا تھا کہ، جیسے زلزلے کا ایک شدید جھٹکا آیا ہو اور وہ آسمان کی بلندیوں سے تحت الثریٰ کی پستیوں میں جا گرے ہو۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ مانا کہ لونڈا تعلیم یافتہ، ڈسٹرکٹ کلکٹر تھا، مگر پھر بھی۔۔۔ پھر بھی تھا وہ ایک نیچ خاندان کاہی نا، اس کا دادا رحیموان کے دادا لیاقت خان کے پاؤں دابنے پر مامور تھا، دادی خیرون بھی، حویلی میں جھاڑو لگایا کرتی تھی، یہ با ت تو سارا گاؤں جانتا تھا، بھولا تو کوئی نہ تھا، بھول تو شاید رمضان کے گھر والے گئے تھے جو شہر ہجرت کرکے اتنا اونچا اڑے تھے کہ اب حویلی کے عظیم الشا ن گنبدوں پہ بیٹھنے کے تمنائی تھے، اف، اتنی ریاکاری، کمینگی۔ وہ توبت سے بن گئے، بےیقینی کے نشتران کے اندر کہیں دورتک بہت گہرے اتر گئے، ایک دلخراش حیرانی ان کے وجود پر حاوی ہو گئی، جی چاہا بے اختیار چاہا کہ اپنے تایا کی طرح اپنی جوتی نکالے اور بےطرح مرمت شروع کر دے سالے کریمو کی خبیث اپنی اوقات بھول گیا تھا، وہ تو بھلا ہو ان کے بھائیوں کا جواس کو باتو ں میں لگاکر حویلی سے باہر لے گئے، ورنہ تووہ وحشی بے لگام منھ زور خواہش ان سے کچھ بھی کروا لیتی، کچھ بھی۔

    سالا کریمو تو چلا گیا مگر ان کے اندر سورج جھونک گیا جو سوا نیزے پہ اٹکا آگ ہی آگ اگل رہا تھا اور پیاس کا وہ عالم تھاکہ ساتوں سمندر پی جائے تب بھی نہ بجھے انہیں لگاوہ ہانپ رہے ہیں، جل رہے ہیں، راکھ ہو رہے ہیں۔ وہ۔۔۔

    ’’نمستے ساہوکار‘‘ کسی کی آواز پھر انہیں خیالوں کی دنیا سے باہر لے آئی۔۔۔ دیکھا سوری اور شنکر تھے جن کے باپ دادا کبھی ان کی زمینوں کے حصے دارتھے، ان کی کل پانچ ایکڑز مین پر وہ فصل اگانے پر مامور تھے اور زراعت کا فقط ایک تہائی حصہ ہی زمینداروں کی نذر کیا جاتا تھا، مگر بھلا ہو بھارت سرکار کا کہ ملک کے زرعی نظام فروغ کی خاطر Tenancy. Act نکالا اور حصہ دار مالک بن گئے۔

    اف! آفتاب خان کی الجھن صدیوں کی تھکی ہوئی ویرانی پر محیط ہو گئی، ان دونوں کو اپنے آگے بٹھاتے ہوئے ان کے دل میں کچھ ٹوٹ سا گیا، وہ جن کے اجداد ان کے آگے کھڑے نہ ہو پاتے تھے وہی لوگ یوں آج ان کے روبرو تھے، جیسے ان ہی میں سے ایک ہو۔ان ہی کے وجودکے حصے دارہو۔

    ’’ساہوکار میری شادی ہے‘‘ سوری نے بڑے ادب سے دعوت نا مہ پیش کیا۔

    وہ بولے کچھ نہیں کیا کہتے؟ یہ وقت بھی کس قدر جلد بدل جاتا ہے، انہیں اخبار کی سرخی یاد آئی، جب تابناک سورج گل ہو سکتا ہے تووہ۔۔۔ وہ کیوں نہیں۔

    آپ ہمارے مائی باپ ہیں۔آپ کا آنا ضروری ہے ’’رخصت لیتے ہوئے۔ جب سوری نے یہ بات کہی تو وہ بے اختیار چونک پڑے، ا س کا چہرہ تکنے لگے، لگا ہوا کا ایک جھونکا سا آیا ہو اور ان کے تپتے وجود کو چھو گیا ہو، یہ تھوڑی سی عزت۔۔۔ یہ ذرا سامان، کہیں اندر طمانیت کی ایک لہرسی ابھری، اتنی وفاداری۔۔۔ اتنی شان تو انہوں نے ضرور رکھ چھوڑی تھی کہ گاؤں میں آج بھی ایسا کوئی نہ تھا جوان کی عزت نہ کرتا تھا، ان کے خلاف مرضی آج تک کسی نے کوئی بات کی تھی نہ کوئی حرکت، مگروہ رمضان کا لونڈا اور اس کی جرأت پتہ نہیں کیسے اور کیوں کر کہاں ڈھیل دی تھی انہوں نے کہ وہ سر پر آ بیٹھنے کا روادار ہوا تھا، پیاسے صحرا کی سلگتی ہواؤں کی طرح ان کا وجود بے سمت وبے منزل ہونے لگا، ان کے اندر چیختے سناٹے کچھ اور گہرے ہونے لگے، سوری اور شنکر تو گئے اور بیتے ہوئے دست بستہ لمحوں کا کرب ان کی آنکھوں میں ٹھہر گیا۔

    ملک کو آزادی ملے تو برسوں بیت چکے تھے مگر لیاقت خان کی زمینداری تو اب بھی قائم تھی، تقریباً دو سو ایکڑز مین، ناریل، آم، سپوٹے اور شہتوت کے بے شمار باغات ایک عظیم الشان حویلی۔۔۔ بےشمار نوکر۔۔۔ بےحساب مویشی۔۔۔ کیا کچھ نہ تھا ان کے پاس۔۔۔ جس کا سارا انتظام ان کے بڑے بیٹے شجاعت خان کے ہاتھوں میں تھا۔ جو کچھ اتنے بےرحم، سخت دل اور جلاد قسم کے شخص تھے کہ ان کی بےمروتی دل آزاری، غیرانسانی سلوک کے چرچے چاروں دشاؤں میں تھے، مجال تھی جو کوئی ان کے خلاف آواز اٹھاتا تھا۔ ذرا سا خلاف مرضی کچھ ہوا نہیں کہ وہ آدمیوں کودرختوں سے باندھ کر ان پر کوڑے برساتے یا اپنے پیر کی جوتی نکال کر بےطرح مرمت کر ڈالتے۔ ان کا وہ رعب وہ دبدبہ تھا کہ جسے دیکھ کر جاگیردارانہ نظام کی یاد آجائے حالانکہ گاؤں میں تو پنچائت راج تھا (یہ الگ بات ہے کہ سرپنچ تو لیاقت خان ہی تھے)

    اور رنگین مزاج اس قدر تھے کہ گاؤں کی کوئی بھی عورت پسند آ جاتی تو اس کو اٹھوا لیتے، فلموں کا بےحد شوق تھا۔ اس لئے گاؤں میں ایک Tent بھی لگوایا تاجہاں رنگین فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔

    گاؤں میں سب کچھ پہلی مرتبہ لیاقت خاں لے کر آئے تھے، اپنے بڑے پوتے کے لیے بائسکل ۔ اعلیٰ نفیس ڈبے بند بسکٹ سے لے کر، حویلی کے لئے Philips کا ریڈیو، ٹیلیفون، موٹرکار اور مستورات کے لئے، یارڈلی (لندن کا) پوڈر، زیورات، انواع قسم کے عطر۔۔۔ اور بھی بہت کچھ۔

    گاؤں کی آبادی مسلمانوں، اونچی نیچی ذات کے ہندؤں کے علاوہ بےشمار ہریجنوں پر مشتمل تھی، صرف چند معتبر لوگوں کو چھوڑکر ایسا کوئی شخص نہ تھا سارے گاؤں میں جو زمینداروں کے آگے کھڑا ہو سکتا تھا، بیٹھنا تو بہت دورکی بات تھی، جس کو بھی حویلی کے آگے سے گزرنا ہوتا تھا اس کو اپنے جوتے چپلیں ہاتھوں میں لے کر گزرنا ہوتا تھا اور وہ بھی ننگے پاؤں یہی اس حویلی کا قانون تھا۔

    گاؤں کے اکلوتے مندر میں جب بھی کوئی تہوار ہوتا دل کھول کر چندہ زمینداروں کے ہاں سے پہنچتا تھا، کچھ اس طرح مسجد میں جب بھی کوئی تبلیغی جماعت آتی وہ مسجد کے بجائے حویلی میں قیام کرتی تھی، امام، مؤذن تو حویلی میں ہی پلتے تھے، عید بقرعید کے موقع پر حویلی میں جماعت کا اہتمام ہوتا تھا اور وہاں سے لوگ عیدگاہ پہنچتے تھے۔ رجب کے کونڈے گیارہویں کی دعوتیں۔ میلاد کی محفلیں، شب برأت کے جلسے، محرم کے تعزیے، علم ، چونگے، شربت، بقر عید کی قربانیاں یہ تمام عید کے تہوار کچھ اس قدر دھوم دھام سے منائی جاتی تھیں کہ آس پاس کے گاؤں سے لوگ حاضری دیتے تھے۔

    اف! یہ شان وشوکت، یہ حکومت،۔۔۔ یہ سب پہ چھاجانے کی منہ زور خواہش۔۔۔ یہ عزت وتکریم حاصل کرنے کا بےلگام جذبہ۔۔۔یہ ظلم ڈھانے کی شیطانی جبلت یہ سب کچھ فقط ایک Tenancy Act کے تحت تباہ ہو گیا، ملک کی ترقی کی خاطر سرکار نے زمینداروں کی وہ حالت کی کہ کچھ نہ رہا کچھ نہ بچا، حویلی والے آسمان کی بلندیوں سے تحت الثریٰ کی پستیوں میں یوں جاگرے کہ عمر بھر کو اٹھ نہ سکے، کل تک جوان کی دو سو ایکڑ زمین کے حصہ دار تھے وہ آناً فاناً ان زمین کے مالک بن بیٹھے، پھر تو گاؤں کی ہوا ہی بدل گئی، ساری جماعتیں مسجد کو منتقل ہو گئی، مسجد کے صدر کوئی اور بن بیٹھے، مندر کے چندے بند ہو گئے۔ باقاعدہ ایلکشن کے تحت گاؤں میں سرپنچ کا چناؤ ہونے لگا اور یہ سب کچھ ایسانہ تھا کہ لیاقت خاں برداشت کر پاتے اس سانحے نے توان کی جان ہی لے لی، شجاعت کے خاں پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ بستر کے ہو رہے اور آفتاب خاں کے والد توبہت پہلے ہی داغ مفارقت دے چکے تھے۔ اب بھرے پرے خاندان کی ساری ذمہ داریاں کے کندھوں پر آ پڑی، جو کچھ بچ رہا تھا اس کو انہوں نے اپنی ماں اور تائی کی مدد سے سنبھالا۔۔۔ بہنوں کی شادیاں کیں، بھائیوں کو تعلیم دلوائی، مگر کبھی کسی کے آگے جھکے نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا، اپنی خاندانی آن وبان کا کچھ زیادہ ہی پاس ولحاظ تھا انہیں اور اس کے لئے کیا کچھ نہیں سہا انہوں نے، کتنی ذہنی اذیتیں نہ اٹھائیں۔۔۔ کیسی کیسی مشقتیں نہ جھیلی مگر کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لایا۔ من ہی من وہ کڑھتے رہے، ٹوٹتے بکھرتے رہے، مسمار راتوں کے سسکتے ہوئے لمحوں میں اپنی باطنی بے کیفی سے الجھتے رہے، اپنی صلیب آپ اٹھاکر ذلت کی راہوں میں دور تک اکیلے تہنا چلتے رہے، لوگوں نے تو وہ درد دیئے کہ وہ اف بھی نہ کر سکے۔ معتبر لوگ تو دور نیچ لوگوں کے بچے بھی تعلیم سے آراستہ ہوکر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے لگے اور شہر ہجرت کرکے وہاں سے دولت کماکر گاؤں میں اپنی جھوٹی شان وشوکت دکھلانے لگے، گاؤں میں بہت سے لوگوں کے پاس موٹر کاریں، ریڈیو، ٹی وی اور بہت سی نمائش کی اشیاء کیا آئیں کہ وہ سب خود کو گاؤں کے رئیس زادوں میں شمار کرنے لگے، پھر دیہی ترقی کے منصوبوں کے تحت گاؤں نے اتنی ترقی کی کہ اس کا نقشہ ہی بدل گیا، لیکن اگر کچھ نہ بدلا تھا تو وہ آفتاب خاں کی سوچ تھی، ان کی نگاہوں میں تو وہ آج بھی رئیس خاندانی شخص تھے، کیا ہوا زمین نہ رہی تھیں کہلاتے وہ اب بھی ساہوکار ہی تھے، حالانکہ ہر کسی کوپتہ تھا کہ ان کی معاشی حالت مستحکم نہیں، مگر کسی نے کبھی بھی انہیں اس بات کا احساس نہیں دلایا تھا، انہیں پتہ تھا ان کی پشت پر تو لوگ دنیاجہاں کی باتیں بناتے ہیں، ہنسی مذاق اُڑتے ہیں، مگر سامنے آکر کبھی کسی نے منہ کھولنے کی جرأت نہ کی اور آج اتنے سالوں بعد پہلی مرتبہ، ہاں بالکل پہلی مرتبہ۔۔۔ رمضان کے لونڈے نے یہ حرکت کی تھی۔ اتنی ذلت۔۔۔ اتنی توہین۔۔۔ اف!! ان کے جسم وجان پر ایک دل فگار سناٹا پھیل گیا۔ ان کے سینے سے اتنی دردناک چیخیں ابھریں کہ ان کا وجودریزہ ریزہ ہو گیا۔ غصہ، پشیمانی، لاچاری، شرمندگی، بےچارگی کے گرم گرم ابلتے آنسوؤں سے ان کا چہرہ بھیگنے لگا، یہ شب وروز کی تپش یہ جلن یہ اذیت ایسی نہ تھی جوحویلی میں کسی سے چھپی رہتی، بھائیوں نے جوان کی یہ حالت دیکھی تو بہت سمجھایا۔

    ’’زمانے بدل گیا ہے بھائی صاحب‘‘ وہ بولے ’’اب کسی شخص کا معیار اس کی خاندان کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی شخصی قابلیت سے قائم کیا جاتا ہے، رمضان کا لونڈاڈی سی ہے وہ چاہے تو سارے گاؤں کی تقدیر بدل سکتا ہے، آپ خود پر قابو رکھئے اور یہ سوچیں کہ آپ اپنی بچی کا بیاہ ایک خاندان سے نہیں ایک شخص سے کر رہے ہیں‘‘۔

    آفتاب خاں نے سب کچھ سنا۔ بھائیوں نے جو کہا وہ غلط تو نہ تھا لیکن کیا کرتے، اس دل کا کیا کرتے جو یہ ماننے کو تیار نہ تھاکہ اپنی لخت جگر کو لیاقت خاں کی پڑپوتی کو۔۔۔ ان کے خدمت گاروں کے حوالے کر دیں۔

    بھائیوں نے لونڈے کو حویلی آنے کی دعوت دی، وہ چپ رہے بھلا اور کرتے بھی کیا؟ کہیں اندر یہ سوچ تھی کہ گاؤں والے اس رشتے کو صحیح نہ جانیں گے، مگر لونڈا جب گاؤں آیا تو ہر کسی نے اس کی وہ آؤبھگت کی کہ وہ انگشت بدنداں رہ گئے، سب بھو ل چکے تھے کہ وہ رمضان کا وہی لونڈا ہے جواپنی ننگی پیٹھ پر سورج اٹھائے حویلی کی بکریاں چرایا کرتا تھا، ان کے لئے تووہ اب ڈی سی کامران تھا جس کی وجاہت، لیاقت اور مالی حیثیت سے ہر کوئی مرعوب تھا، آج لیاقت خاں کی پڑپوتی کی کوئی اہمیت نہ تھی، جوتھا وہ ڈی سی کامران تھا، وہاں کوئی یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ کامران خوش نصیب ہے جو اسے ساہوکار کی بیٹی مل رہی رہے، بلکہ ہر ایک کی زبان پریہی تھا کہ قمر خوش قسمت ہے جو اسے کامران مل رہاہے۔ اف!! یہ روح فرسا تغیر، یہ حوصلہ شکن انقلاب۔۔۔ وقت کی یہ المناک کروٹ آفتاب خاں کو لگا جیسے زلزلے کا ایک شدید جھٹکا آیا ہو اور سارا کائنات زیرو زبر ہو گئی ہو، وہ خود کو کہاں چھپاتے کیا کرتے؟

    کامران نے حویلی میں قد م رکھا تو آفتاب خاں نے دیکھا کہ سورج اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ روشن ہے اور دوپہر کی سلگتی دھوپ سارے گاؤں کو گرما رہی ہے ۔

    جب یہ تابناک سورج ہی گل ہو سکتا ہے تو وہ۔۔۔ وہ ۔۔۔آفتاب خاں نے بےاختیار سوچا، وہ کیوں نہیں اور دفعتاً انہیں لگا جیسے سورج گل ہو چکا ہے، مر چکا ہے اور چاروں طرف اندھیرا پھیل رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے وہ سارا اندھیرا دھیرے دھیران کے دل میں اترنے لگا!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے