سورما سنگھ
کہانی کی کہانی
اس کہانی میں حسن سے متاثر ہونے کی فطری جبلت کو بیان کیا گیا ہے۔ سورما سنگھ نابینا سکھ ہے جو گرو دوارے میں مستقل طور پر قیام پذیر ہے۔ وہ چڑچڑا اور بد مزاج ہے، کھانے وغیرہ میں خامیاں نکالتا رہتا ہے لیکن اس کے اندھے پن کی وجہ سے اسے کوئی کچھ نہیں کہتا البتہ عورتوں کی طرف اس کی رغبت اور دلچسپی مذاق کا موضوع بنتی رہتی ہے۔ ایک دن ایک فیملی اسے اپنے کمرے میں رہنے کی اجازت دے دیتی ہے اور سورما سنگھ وہاں ایک عورت کی مترنم آوز سن کر اس کی عمر پوچھ بیٹھتا ہے جس پر ہنگامہ ہوتا ہے، سورما سنگھ عورت کے پیرں پر رخسار رکھ کر معافی ماانگتا ہے اور اس طرح معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔
پچھلی گرمیوں میں جب تفریح کے لیے پہاڑ پر گیا تو وہاں لوگوں کا غیر معمولی رش پایا۔ کوئی ہوٹل، کوئی مکان یا دھرم شالہ خالی نہ تھی۔ بہت دوڑ دھوپ کے بعد کہیں گوردوارے میں جگہ ملی۔ ایک معمولی سا کمرہ تھا اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا باورچی خانہ۔ گوردوارے میں تین روز تک تو مفت رہنے کی اجازت تھی اور اگر اس کے بعد کوئی شخص قیام کرنا چاہے تو پھر دکشنا لی جاتی تھی۔ جنگ سے پہلے تو چار آنے یومیہ بھی شکریہ کے ساتھ قبول کر لیتے تھے۔ لیکن اب جو پوچھا تو دو رپیہ فی یوم کے حساب سے پیشگی دکشنا کا مطالبہ کیا گیا۔ کہنے کو تو دکشنا، لیکن زبردستی اور پیشگی۔ چونکہ گھر سے پہاڑ پر ایک ڈیڑھ ماہ گزارنے کے خیال سے آیا تھا تو لوٹ کر کیسے جاتا۔ چنانچہ دکشنا ادا کر دی گئی۔
اتنے میں یا اس سے زیادہ کرایہ پر اگر ہوٹل میں جگہ مل جاتی تو وہ اور بات تھی۔ وہاں خدمت کے لیے نوکر اور دیگر سہولتیں بھی میسر ہوتی ہیں۔ لیکن اس وقت تو اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ رہا۔ میں یہ بتانا بھول گیا کہ میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی بھی تھا۔
کمرے میں دو کھڑکیاں تھیں۔ ان کھڑکیوں کے سامنے ہم نے اپنی چارپائی بچھا دی۔ ایک نوکر بھی مل گیا۔ باورچی خانے میں اکٹھے دومن کوئلے ڈلوا لیے۔ دو وقت کھانا بھی پکنے لگا۔ خالص گھی ہم اپنے ہمراہ ہی لیتے گئے تھے۔۔۔ میرا پروگرام یہ تھا کہ دن بھر تو چارپائی پر لیٹے لیٹے پڑھا کرتا۔ شام کو چار بجے کے قریب سیر کے لیے نکل جاتا۔ کچھ دیر سیر کرنے کے بعد کسی انگریزی سینما میں کوئی پکچر دیکھ لیتا۔ بس کم و بیش یہی میرا معمول تھا۔ چھوٹے بھائی کو دو چیزوں کا بہت شوق تھا۔ گھوڑے کی سواری کرنے کا اور سکیٹنگ کا۔ دن کا کچھ وقت پڑھنے میں گزارنے کے بعد وہ سکیٹنگ یا گھوڑسواری کے لیے چل کھڑا ہوتا۔ کبھی کبھی اگر وہاں دیکھنے کے قابل کوئی پکچر آتی تو ہم دونوں پکچر دیکھنے کے لیے چلے جاتے تھے۔ اس طرح سے ہماری زندگی گزر رہی تھی۔
چونکہ میں دن بھر کمرے ہی میں رہتا تھا۔ اس لیے اگر کبھی پڑھتے پڑھتے تھک جاتا تو پہاڑوں کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے باہر نکل آتا۔ ہمارے کمرے کے آگے بڑھا ہوا چھوٹا سا چھجا بھی تھا۔ میں جنگلے پر ہاتھ ٹیک کر کھڑا ہو جاتا اور ایک دوسرے کے پیچھے لپکنے والے بادلوں کا تماشا دیکھا کرتا۔ ہمارے کمرے کے ساتھ ہی ایک اور چھوٹا سا کمرا تھا۔ وہاں پر ایک لمبی داڑھی والا سکھ رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک دو شخص اور بھی آن رہتے تھے۔ ہمارے کمرے کے آگے ایک بڑا برآمدہ تھا۔ چند کوٹھریاں بھی تھیں۔ اس برآمدے میں گوردوارے کا باورچی خانہ تھا۔ ہمارے کمرے سے اوپر والی منزل پر بھی متعدد کمرے بنے ہوئے تھے اور نیچے کی منزل پر بھی کمرے تھے۔ یعنی ہمارا کمرہ درمیانی منزل پر تھا۔
جب میں اپنے کمرے کے آگے چھجے پر کھڑا ہوتا تھا تو مجھے ادھر ادھر کی باتیں سننے کا موقع بھی مل جاتا تھا۔ گورو کالنگر (کچن) محض باورچی خانہ ہی نہیں تھا بلکہ اسے گوردوارے کا دار العلوم بھی کہہ لیجیے یا کلب گھر، بس دونوں کا کام دیتا تھا۔ غالباً اسی جگہ میں نے پہلے پہل دو تین مرتبہ سورما سنگھ کا نام سنا تھا۔ جس طرح مسلمانوں میں اندھے شخص کو حافظ جی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اور ہندوؤں میں سورداس جی کہہ کر اسی طرح سکھوں میں اسے سورما سنگھ کہتے ہیں۔
یوں تو سورما کے معنی بہادر کے ہوتے ہیں اور بہادر شخص کی بابت انسان یہی تصور کر سکتا ہے کہ وہ ایک مضبوط، طاقتور اور بارعب شخص ہوگا۔ اسی طرح جیسے سورما سنگھ نام کی وجہ نہ معلوم ہو تو وہ کسی گرانڈیل سکھ کا تصور ہی باندھے گا لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ سورماسنگھ ایک چھوٹے سے قد اور اکہرے بدن کا شخص تھا۔ اس کے چہرے پر چیچک کے بہت گہرے گہرے داغ تھے۔ اس کی آنکھوں میں سفیدی ہی سفیدی تھی۔ پتلیاں تقریباً غائب تھیں۔ اس کا منہ ذرا سا کھلا رہتا تھا۔ اس کے بالوں کا بڑا سا جوڑا بھی اونٹ کے کوہان کی طرح پگڑی میں سے اٹھا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ سر کے پیچھے گدی کے قریب کے بال اس سے سمٹتے نہیں تھے اور اس کی پگڑی میں سے نکل الٹ کر گردن پر گرے رہتے تھے۔ وہ منہ اوپر کو اٹھائے ہوئے چلتا تھا۔ وہ غریب تھا، محتاج تھا، بیکار تھا اور شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ غیر شادی شدہ تھا۔
وہ کچھ عرصے سے مستقل طور پر گوردوارے میں رہتا تھا۔ اس کی رہائش کے لیے کوئی کوٹھری مخصوص تو نہ تھی۔ جہاں جگہ ملتی پڑا رہتا۔ کسی برآمدے میں یا اجازت ملنے پر کسی مسافر کے کمرے میں، یا پھر ہال کمرے میں، اسے دو وقت چائے اور کھانا لنگر سے مفت ملتا تھا، وہ دن بھر ہاتھ میں ایک ٹیڑھی ترچھی لکڑی لیے گھوما کرتا۔ میں نے اسے بازاروں میں آتے جاتے بھی دیکھا تھا۔ پہاڑوں پر سائیکلیں، موٹریں، تانگے تو خیر ہوتے ہی نہیں، پھر بھی گھوڑوں، رکشاؤں اور پیدل چلنے والوں ہی کی کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ لیکن وہ ان سب باتوں سے بےپروا بڑی تیزی سے چلتا تھا، جیسے وہ سب پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہو کہ وہ نابینا نہیں ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دور سے اسے چلتا دیکھیے تو کوئی غیر معمولی بات نظر نہ آتی تھی۔۔۔ اس طرح وہ تین چار مرتبہ خطرناک حادثوں سے بال بال بچ چکا تھا۔ لوگ اسے منع بھی کرتے تھے لیکن جواب میں اس کے ہونٹوں کے گوشوں کی لکیریں اور بھی زیادہ گہری ہوتی تھیں۔
ایک روز شام کے وقت سارا دن پڑھنے کے بعد میں تھکا ماندہ سیر کرنے کی غرض سے باہر نکلا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ بارش نے آن لیا۔ میرے پاس چھتری موجود تھی۔ لیکن بارش کی بوچھار اس قدر تیز تھی کہ میں نے اور آگے بڑھنا مناسب نہ سمجھا۔ چنانچہ لوٹ آیا۔ جب کمرے کے قریب پہنچا تو دیکھا سورما سنگھ میرے دروازے کے آگے والے جنگلے کے قریب کھڑا ہے۔
اس روز ہم دونوں کی آپس میں پہلی دفعہ گفتگو ہوئی۔ سورما سنگھ میرے پڑوسی سردار صاحب کی آمد کا منتظر تھا۔ چونکہ اس وقت میں بھی تنہا تھا اور سورما سنگھ بھی وہاں کھڑا بارش کی آڑی بوچھار سے بچ نہ سکتا تھا اس لیے میں نے اسے اپنے کمرے میں بلا لیا۔ وہ ’’باگورو باگورو‘‘ کرتا اندر آیا اور چونکہ میں نے اسے ذرا حترام کے ساتھ بلایا تھا اس لیے اس نے بھی مجھے ’’چند پند سودمند‘‘ سے نوازنا لازمی سمجھا اور پھر اس کے بعد کیف اور وجدان کی مبہم باتیں ہونے لگیں۔ زندگی کی ناپائیداری، آتما کی لافانیت، کرموں کے پھل پر اس نے چھوٹا سا لکچر دیا۔ میں نے بڑے تحمل کے ساتھ سنا۔ کبیر کے دوہوں اور گوروتیغ بہادر کے شلوکوں کے بعد اس نے ایک شعر گویا کا بھی پڑھا۔۔۔ اور پھر بلھے شاہ کی تصوف سے لبریز کافیوں پر اتر آیا۔
باہر سے آنے والی بارش کے تراڑوں کی آواز میں اس کی درد بھری صدا بلند ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی آواز میں ایک خاص کرارہ پن اور کسک سی تھی۔ بلھے شاہ کی کافیوں کو سن کر ایک مرتبہ تو مجھے جیسے مادہ پرست شخص پر بھی وجد سا طاری ہو گیا۔ اس وقت میں سوچنے لگا کہ زندگی کی اقدار زمانے کی ضرورتوں کے لحاظ سے خواہ بدل کر کچھ سے کچھ ہو جائیں لیکن وجدان کے ایک لمحہ کی لذت سے کیوں کر انکار کیا جا سکتا ہے۔ یہ گمشدگی کی کیفیت سچ مچ حقیقی معلوم ہونے لگی تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ اس طرح سورما سنگھ کی دردناک لے نے ایسا سماں باندھ دیا کہ ایک مرتبہ تو میں بھی مارکسی صراط مستقیم سے بھٹک گیا۔
اس کے چلے جانے کے بعد میں دیر تک اس بات پر غور کرتا رہا کہ روحانیت مشرق کی گھٹی میں پڑ چکی ہے۔ آب و ہوا کا اثر کہیے یا اسے ایشیا والوں کے مخصوص مزاج سے تعبیر کیجیے۔ بہرحال دنیا بھر کے سب سے بڑے بڑے نبی اور روحانی رہبر ایشیا نے پیدا کیے اور اس کی تھوڑی سی جھلک مغرب نے بھی دیکھی لیکن انہوں نے اسے یکسر خلاف مزاج پاکر اسے جھٹک کر پرے پھینک دیا۔ اس طرح بہت دیر تک میرا ذہن فلسفیانہ قلابازیاں کھاتا رہا۔
میرے ساتھ والے کمرے میں جو لمبی داڑھی والے سکھ رہتے تھے، وہ خالص پنجابی نہیں تھے۔ ان کا باپ پنجابی تھا اور ماں یوپی کی عورت تھی۔ عین ممکن ہے کہ سائنس کا کوئی ماہر اس کے سر کی بناوٹ اور ناک کی اوچان یا پھیلاؤ سے بتا سکے کہ وہ خالص پنجابی نسل سے نہیں تھا لیکن بظاہر اس میں اور دیگر سکھوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا۔ اس کی داڑھی بہت لمبی تھی یعنی تقریباً ناف تک پہنچتی تھی۔ ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔ اس لیے داڑھی میں سفید بالوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی۔ چوڑی پیشانی، چھوٹی چھوٹی آنکھیں جن کے نیچے تھیلے لٹکتے دکھائی دے رہے تھے۔ موٹے موٹے ہونٹ، بڑا سا پیٹ، سرپر ڈھیلی ڈھالی بےڈھب پگڑی، گلے میں شیروانی نما عجب بے ڈھنگا کوٹ۔ ان کے حالات سے مجھے زیادہ واقفیت تو حاصل نہیں تھی، بس اس قدر جانتا تھا کہ وہ دن بھر گھوم پھر کر مختلف امراض کی دوائیاں بیچتے تھے۔ اچھے پیسے کماتے تھے اور رات کو بلاناغہ شراب پیتے تھے اور اگر کسی روز بہت بڑی رقم ہاتھ لگ جاتی تو پھر گوردوارے میں کڑاہ پرشاد (حلوا) کرواتے اور اڑوس پڑوس کے لوگوں میں مٹھائی بانٹتے۔
جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں گوردوارے کا لنگر خانہ ایک قسم کا کلیسا گھر بھی تھا۔ بے خانماں غریب لوگوں کو دو تین روز تک کھانا بھی ملتا تھا۔ اس لیے سورما سنگھ کے علاوہ ہر روز نت نئی صورتیں دکھائی دیتی تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے لیے سوسائٹی میں کوئی جگہ نہ تھی۔ ہرمذہب اور ہر قوم کے، ان لوگوں میں صرف ایک بات مشترک تھی وہ یہ کہ وہ سب کے سب بھوکے تھے۔
لنگر کا کل انتظام دو نہنگ سکھوں کے سپرد تھا۔ نہنگ بمعنی مگرمچھ۔ یوں تو سکھ جنگجو قوم ہے، لیکن نہنگ وہ سکھ ہوتے ہیں جو سرپر کفن باندھے پھرتے ہیں۔ وہ عموماً گرہستی کے چکر میں بھی نہیں پھنستے، ضرورت سے زیادہ کوئی شے اپنے پاس نہیں رکھتے۔ ہتھیار بند رہتے ہیں اور ہر دم تیار برتیار۔ عام طور پر نیلے رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں۔ سر پر لمبوتری پگڑی جس میں کرشن جی کے سدرشن چکر کی طرح لوہے کے چکر پھنسے ہوتے ہیں۔ گلے میں لوہے کے منکوں کی مالا، یہ موٹے موٹے لوہے کے کڑے، تلواریں، نیزے و دیگر ہتھیاروں سے لدے پھندے رہتے تھے۔ چنانچہ گوردوارے کے لنگرخانے میں بھی اسی قسم کے دو نہنگ سکھ تھے۔ وہ نوجوان تھے اور خوب موٹے تازے اور تانبے کی طرح سرخ تھے۔ میں ان کی پنڈلیوں کے پھیلاؤ اور کلائیوں کی چوڑائی پر رشک کیا کرتا تھا۔
وہ لوگ تقریباً سارا سارا دن لنگرخانے میں بیٹھے رہتے تھے۔ انہیں کھانے پکانے کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ شام کے وقت لنگر خانے کی رونق بڑھ جاتی تھی۔ سورما سنگھ سرشام ہی بھٹی سے کچھ دور ایک چوکور تختے پر بیٹھ جاتا۔ اگرچہ اس کی کوئی شنوائی نہ تھی۔ لیکن وہ انہیں ہدایتیں کرنے سے کبھی نہ چوکتا تھا۔ دال میں نمک کی اسے ہمیشہ ہی بہت سخت شکایت رہتی تھی۔ دونوں نہنگ اس سے چڑتے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ ان لوگوں کو کھانا پکانے میں کوئی مہارت حاصل نہ تھی۔ وہ لوگ پہاڑوں کے راستے سے ہیم کنڈ جا رہے تھے۔ ہیم کنڈ وہ مقام تھا جہاں گوروگوبند سنگھ جی نے پچھلے جنم میں تپسیا کی تھی۔ لیکن گوردوارے والوں نے انہیں اس جگہ روک لیا۔
صحیح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ لوگ واقعی ہیم کنڈ جا رہے تھے یا نہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اب وہ اگر ذرا بھی بگڑتے تو بس فوراً ہیم کنڈ چلے جانے کی دھمکی دیتے۔ چونکہ گوردوارے والوں کے پاس اس وقت اور کوئی آدمی تھا نہیں، اس لیے ان کے مطالبات مان لیے جاتے تھے۔ اس لحاظ سے دونوں نہنگ واقعی بڑے لاڈلے تھے لیکن سورما سنگھ انہیں ٹوکنے سے کبھی نہیں چوکتا تھا۔ اس پر وہ طیش میں آکر کہتے، ’’ابے یہاں تیری لگائی بیٹھی ہے روٹی پکانے کو۔‘‘
اس پر کئی آدمیوں کے دانت نکل آتے۔ ادھر ادھر پتھریلی زمین پر بیٹھے ہوئے غریب لوگ بڑی دیگ پر نگاہیں جمائے نہنگ سکھوں کی ہر بات پر اظہار خوشنودی کرتے اور پھر ادھر ادھر منڈلانے والے کتوں کو دھتکارنے لگتے۔ نہنگ سکھوں کی زبان سے لگائی کا طعنہ سن کر دفعتاً سورماسنگھ کے چہرے پر روحانیت کا نور جھلکنے لگتا۔ کہتا، ’’میں کسی عورت سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتا۔۔۔‘‘
’’ہوہو۔‘‘ ایک نہنگ مونچھو ں کو تاؤ دیتے ہوئے کہتا، ’’تو بات کرنا پسند نہیں کرتا یا عورتیں تجھ سے بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔۔۔‘‘
وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہ بات سن کر عموماً اس کے کان سرخ ہو جایا کرتے تھے اور وہ بڑی بے اعتنائی سے ہاتھ کی مٹھی پر رخسار رکھ کر منہ پھیر لیتا اور نہنگ سکھ بھی بس کتھا ہی چھیڑ دیتا۔ حاضرین سے مخاطب ہوکر کہتا، ’’اجی سورما سنگھ اس معاملے میں بڑا گھاگ ہے۔ اگر میرے کہنے کا یقین نہ ہو تو دیر سویر آکر چپکے سے دیکھو کہ بھلا سورما سنگھ کیا کر رہے ہیں۔ اب یہاں صحن میں عورتیں دھوپ کھانے کے لیے بیٹھ جاتی ہیں تو یہ بھی سٹک کر ان کے قریب جا بیٹھتا ہے۔ اسے عورتوں کی باتیں سننے کا بڑا شوق ہے۔ کیوں سورما سنگھ آخر تجھے عورتوں کی باتوں میں کیا لطف آتا ہے۔۔۔ صحن کے پرلے کونے کی طرف سورما سنگھ مہاراج کی خاص نگاہ رہتی ہے۔ وہاں عورتیں کپڑے وپڑے دھونے کے لیے بیٹھی ہوتی ہیں۔ ایسے موقعہ پر وہ آدھی ننگی ہی ہوتی ہیں، تو بس یہ بھی ان کے قریب منڈلاتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی سے چھو جاتے ہیں۔ کبھی کسی پر گر پڑتے ہیں۔ دھنیہ ہو مہاراج دھنیہ ہو!‘‘
’’یہ کہہ کر وہ دونوں ہاتھ جوڑ نمسکار کرنے لگتے۔ دوسرا نہنگ سکھ کہتا۔۔۔ جی پرسوں ہی کی بات تو ہے۔ وہ سجن سنگھ کے گھر سے ہے نا بھئی۔ وہ خوب موٹی تازی طرحدار عورت ہے۔ وہ بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی۔ ہمارے سورما وہاں سے پانی لینے کے بہانے سے گئے اور جان بوجھ کر پھسلے اور عین عورت پر کچھ بے ڈھب طریقے سے گرے کہ بس اٹھنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ وہ عورت بھی ایک لڑاکا ہی ہے۔ اس نے سردار سورما سنگھ کی پگڑی اتار کر جوڑا پکڑ لیا اور کھینچتی غسل خانے سے باہر لے آئی اور ان کی چندیا پر تین چار سلیپر جو دیے تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔ اتنے میں عورت کاخصم بھی پہنچ گیا۔ وہ ٹھہرا خونی آدمی۔ وہ تو انہیں پرلوک سیدھا ٹکٹ لے دیتا۔ لیکن لوگوں نے بیچ بچاؤ کر دیا۔۔۔ پچ پچ سورما سنگھ بھئی ذرا پگڑی تو اتار، دیکھیں کتنے بال باقی بچے ہیں۔۔۔‘‘
اس پر فلک شگاف قہقہے بلند ہوتے اور سورما سنگھ بری طرح کھسیا جاتا۔ اس کا چہرہ سرخ سے سرخ تر ہو جاتا۔ حاضرین میں سے کوئی مسکین آواز میں کہتا، ’’جی آنکھوں سے اندھا ہے اسے کچھ دکھائی تو دیتا نہیں، عورت اس کے سامنے الف ننگی بھی کھڑی ہو جائے تو کیا۔۔۔؟‘‘ یہ بات کہنے سے مقصد سورما سنگھ کی طرفداری نہیں بلکہ نہنگ سکھوں کو گرمانا ہوتا تھا۔ چنانچہ وہ بڑے رازدارانہ لہجے میں کہتے، ’’اجی نہیں۔ یہ آواز ہی آواز میں سارا مزا لے جاتے ہیں۔۔۔ یہ عورت کی آواز سے اس کی صورت، اس کے جوبن کے ابھار وغیرہ سب چیزوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔۔۔‘‘ اس طرح نہنگ سکھ اس کی خوب مٹی پلید کرتے تھے اور وہ بھی جہاں تک ہو سکتا ان کے خلاف زہر اگلتا تھا۔ چنانچہ ایک رات گیارہ بجے کے قریب دفعتاً مجھے ایک مہیب چیخ کی آواز آئی۔ میں سویا ہوا تھا۔ یکایک آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد پھر ذبح ہوتے ہوئے جانور کی سی آواز فضا کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ میں فوراً اٹھا۔
’’لوگو بچاؤ۔۔۔ میں مر گیا۔۔۔ مجھے مار ڈالا۔۔۔‘‘ میں نے ٹارچ ہاتھ میں لی۔ ایک نہنگ نیچے کے کمرے میں سے جھپٹ کر باہر نکلتا اور پھر چشم زدن میں تاریکی میں غائب ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ رات کی خاموشی میں چیخوں کی آواز سن کر اور بھی کئی لوگ جمع ہو گئے۔۔۔ کمرے کے اندر سے سورما سنگھ کو باہر نکالا گیا اور پھر اسے اوپر بجلی کی روشنی میں لے آئے۔ اگرچہ اس کے لیے ہر طرف تاریکی تھی۔ وہ ڈرا ہوا تھا۔ اسے اب بھی اس بات کا خوف تھا کہ کوئی اسے مار نہ ڈالے۔ اس پر سوالات کی بوچھاڑ ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ رات کی تاریکی میں ایک نہنگ سکھ نے اسے کمرے میں جا دبوچا اور اس کا ٹینٹوا دباکر اسے جان سے مار ڈالنے کی کوشش کی۔ اس پر نہنگ سکھ کو بلایا گیا۔ اب تک کوٹھری میں چھپے رہنے ہی سےثابت تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
نہنگ سکھ نے کہا وہ اسے روٹی دینے گیا تھا۔ اس پر کسی نے کہا صاحب یہ سورما سنگھ واقعی انہیں بہت تنگ کرتا ہے۔ بچارے سارا سارا دن گوردوارے کی سیوا کریں اور پھر اس لاٹ صاحب کے بچے کو کمرے میں کھانا پہنچا کر آئیں۔ اس پر سورما سنگھ نے کہا کہ لنگر خانے میں وہ سب لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور نہنگ اسے ہمیشہ بہت تنگ کرتے ہیں۔ کبھی اس کی دال میں پیشاب کر دیتے ہیں اور کبھی روٹیاں جلا پھونک کر اس کے منہ پر دے مارتے ہیں۔ اب جو نہنگ سکھ مجھے روٹی دینے کے لیے گیا تو کہنے لگا، ’’ابے حرام زادے، حرام خور۔۔۔‘‘
بہت دیر تک ہنگامہ برپا رہا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ گرم گرم باتوں کے بعد اب صلح کی باتیں ہونے لگیں۔ سورما سنگھ خوب گلا پھاڑ پھاڑ کر بلند آواز میں نہنگ سکھوں کو گالیاں دے رہا تھا۔ آخر گیانی جی نے اسے منع کیا۔ کہنے لگے کہ اس طرح بہت چیخنے سے گلا بیٹھ جائےگا اور پھر دوسرے روز گوردوارے میں وہ شبد نہ گا سکےگا۔ آخر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔
رات کے وقت آٹھ بجے کے قریب ہم سنیما دیکھ کر آ رہے تھے۔ راستے میں چھوٹا بھائی تو سکیٹنگ ہال کی طرف چلا گیا اور میں قدم بہ قدم سیر کرتا اور پہاڑوں کے اتار چڑھاؤ پر ٹمٹماتی ہوئی بتیوں کا تماشہ دیکھتا ہوا نو بجے کے قریب کمرے میں پہنچا۔ دور ہی سے کچھ غیرمعمولی شور سنائی دینے لگا تھا۔ قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ آج پڑوس کے سردار جی کے ہاں جشن ہو رہا ہے۔ اپنے کمرے میں آکر کپڑے بدلے اور تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ خیال تھا کہ جو ناول شروع کر رکھا تھا، آج اس کا باقی حصہ بھی پڑھ کر ختم کر ڈالوں گا۔
لیکن بہت جلد ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ آج کچھ پڑھنا ناممکن ہے۔ پڑوس میں ایسی دھماچوکڑی مچی ہوئی تھی اور مختلف لوگوں کی بے ڈھنگی ملی جلی آوازوں کے شور میں یکسوئی ناممکن تھی۔ کتاب سینے پر دھرے میں ذہنی کش مکش میں مبتلا آنکھیں جھپک رہا تھا کہ میرے دروازے پر دھڑاک دھڑاک دستک کی آواز آئی۔ اٹھا، دروازہ کھولا، دیکھا کہ لمبی داڑھی والے سردارجی ہاتھ میں مٹھائی کا دو نالیے کھڑے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آج انہوں نے مٹھائی تقسیم کی تھی۔ یہ میرا حصہ تھا۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور پھر یونہی بات چیت کرتا ہوا آگے بڑھا۔ ان کے دروازے میں جھانک کر دیکھا تو دونوں نہنگ سکھ، نیز دوتین اور اشخاص کے علاوہ وہاں سورما سنگھ بھی براجمان تھے۔۔۔ آج سب نے پی رکھی تھی۔ صراحی جھوم رہی تھی اور پیمانہ وجد میں آیا ہوا تھا۔
لمبی داڑھی والے سردار صاحب نے داڑھی لہلہاتے ہوئے مجھے محفل میں شمولیت کی دعوت دی۔ لیکن میں نے تماشائی بنا رہنا پسند کیا۔ اس وقت کے سورما سنگھ اور روز مرہ کے سورما سنگھ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ پگڑی سر سے اتر کر اس کی ٹانگوں میں الجھی ہوئی تھی۔ داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ سر کے بال کھل کر شانوں پر آن گرے تھے۔ ہوش و حواس بجانہ تھے۔ بیٹھا سانڈ کی طرح ڈکار رہا تھا۔ ہوا میں ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا۔ اس کی بےنور آنکھوں کے سامنے آج پریاں ناچ رہی تھیں۔ سب لوگ اس کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے اور درمیان میں بیٹھے ہوئے سورما سنگھ نے لہک کر دفعتاً سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، ’’ہائے مار گئی۔۔۔‘‘
دوسروں نے پوچھا، ’’سچے پادشاہو! کون مار گئی۔‘‘ لیکن سورما سنگھ ہر سوال کے جواب میں حال میں آئے ہوئے بدمست شخص کی طرح جواب دیتا، ’’ہائے مار گئی۔۔۔‘‘ نہنگ سکھوں نے از راہِ مذاق اس کی کھوپڑی پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے دیتے ہوئے کہا، ’’اجی سورما سنگھ! واہگورو نام کا جاپ کیجیے۔۔۔۔ بلھے شاہ کی کافیاں سنائیے۔۔۔‘‘
پھر بڑی رقت انگیز آواز میں وہ بلھے شاہ کی تصوف سے لبریز کافیاں سنانے لگا۔۔۔ اس کی آواز میں سوز نہ معلوم کس طرح پیدا ہو جاتا تھا۔ آواز میں درد اور لہجے میں افتادگی ایسی کہ اس تاریک اور غلیظ کمرے میں بیٹھے ہوئے بدمست شرابی سردھننے لگے۔۔۔ اور پھرگاتے گاتے سورما سنگھ کی آواز بھرا گئی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ چراغ کی لو ٹمٹما رہی تھی۔
رم جھم مینہ برسنے کے بعد بارش رک گئی لیکن ابھی بادل چھائے ہوئے تھے۔ فضا بوجھل تھی۔ دو بجے کاوقت تھا۔ اخبار ایک تو یونہی دیر سے آتا تھا، دوسرے اس روز مسلسل بارش کی وجہ سے اور بھی دیر سے ملا۔ میں جلدی جلدی سرخیوں پر نظر دوڑا رہا تھا کہ مختلف آوازوں سےایک مرتبہ پھر گوردوارے کی فضا میں ہل چل پیدا ہو گئی۔ گرم چادر لپیٹے ہوئے کمرے میں سے باہر نکلا تو عین ہمارے کمرے کے نیچے واویلا مچا ہوا تھا۔ نیچے اترا معلوم ہوا وہی سورما سنگھ کے سلسلے میں کوئی جھگڑا ہو رہا تھا۔ گیانی جی بھی کھڑے تھے۔
معلوم ہوا کہ اس کمرے میں دو تین روز سے چند مسافر ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک شادی شدہ نوجوان عورت تھی۔ ایک اس کا بڑا بھائی اور ایک چھوٹی سی بہن اور والدین۔ گوردوارے کے باقی کمرے رکے ہوئے تھے۔ اس لیے اس چھوٹے سے کنبے نے سورما سنگھ کو اپنے کمرے کے اندر گوشے میں بنی ہوئی چھوٹی سی کوٹھری میں رہنے کی اجازت دے دی تھی۔ انہوں نے اس پر رحم دکھایا اور اس نے۔۔۔
جب میں وہاں پہنچا تو اس وقت کا منظر یہ تھا کہ نوجوان عورت کا باپ تو گھر پر نہ تھا۔ باقی لوگ بڑبڑا رہے تھے اور بڑا بھائی سورما سنگھ کو چپت لگا رہا تھا۔ اصل واقعہ یوں پیش آیا کہ عام طور پر سورما سنگھ اپنی کوٹھری میں پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھا رہتا تھا۔ لیکن بعض اوقات کوئی نہ کوئی قابل اعتراض حرکت کر دیتا۔ اس روز جب کہ عورت کا بھائی بھی بازار گیا ہوا تھا، ماں باورچی خانے میں تھی تو سورما سنگھ نے عورت سے دریافت کیا، ’’اجی بھلا آپ کی اس وقت عمر کیا ہوگی۔‘‘ اسی بات پر جھگڑا ہوا۔ بھائی بازار سے آیا۔ یہ بات سنی تو سورما سنگھ کے منہ پر طمانچے مارنے لگا۔ میرے سامنے بھی اس نے دو تین چپت رسید کیے۔ سورما سنگھ کی پگڑی اتر کر اس کے گلے کا ہار ہو رہی تھی۔ گال مارے طمانچوں کے دہک رہے تھے اور مسوڑھوں میں سے خون نکل آیا تھا۔
اور وہ عورت۔۔۔ وہ عورت کیا تھی۔ گلاب جامن تھی۔ خوب موٹی تازی، صحت ور، گندم گوں رنگ، گول چہرے کے نقوش عام سہی لیکن مدھ بھری آنکھیں سنی تو تھیں لیکن دیکھنے کا اتفاق اسی دن ہوا۔۔۔ اور جب اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تو اس کی آواز کے ترنم سے کمرہ گونج اٹھا۔ میں نے ایک لمحہ کے لیے آنکھیں موند کر اس کی آواز کو سنا۔۔۔ واقعی ایسی دل کش آواز والی عورت کی عمر جاننے کا کسے اشتیاق نہ ہوگا۔ عورت کی ماں نے چلاکر کہا، ’’کلمونہے، مشٹنڈے، تجھے شرم نہ آئی۔ ہم نے سورما سنگھ سمجھ کر تجھ پر رحم کھایا اور رہنے کی اجازت دی۔۔۔‘‘ اس پر عورت کے بھائی نے ایک اور چپت رسید کی۔
پلنگ پربیٹھی ہوئی نوجوان عورت بازو اٹھاکر اپنے رنگ دار جوڑے کو انگلیوں سے گھماپھراکر درست کرنے لگی۔ سورما سنگھ مار کھانے میں بہت ماہر تھا۔ اس نے رقت انگیز آواز میں کہا، ’’ماتا جی۔۔۔ میں نے یونہی پونچھا تھا۔۔۔‘‘ ماتا جی نے چمک کر کہا، ’’نگوڑے اب باتیں بناتا ہے۔ اگر سردارجی یہاں ہوتے تو تیری کھال کھینچ دیتے۔۔۔‘‘ اس پر سورما سنگھ اچک کر نوجوان عورت کے قریب جا پہنچا اور ٹٹول کر اس کے دونوں پاؤں پکڑ لیے اور اپنی پیشانی ان پر رکھ دی۔ نوجوان عورت کے بھائی نے اسے جوڑے سے پکڑ کر پرے دھکیل دیا۔ وہ سب لوگ مارے غضب کے لال پیلے ہو رہے تھے۔ لیکن وہ نوجوان عورت جو نئی شادی شدہ دکھائی دیتی تھی، بالکل مطمئن بیٹھی تھی۔ اس کے انداز سے عجب بےاعتنائی ٹپکتی تھی۔ نہ وہ خفا تھی نہ خوش۔ اس دوران میں بڑے ٹھسے سے پلنگ سے پاؤں نیچے لٹکائے بیٹھی رہی۔
گیانی جی کو بہت کم غصہ آیا کرتا تھا۔ وہ عجب ڈھیلے ڈھالے سرد مزاج اور ملائم قسم کے شخص تھے۔ لیکن عورت کے پاؤں چھونے پر انہیں بھی جیسے کوئی چبھن سی محسوس ہوئی ہو، ’’سور، پاجی، کمینے۔۔۔ ایں؟‘‘ رفتہ رفتہ گالیاں دے دے کر اور مار مار کر سب لوگ تھک سے گئے۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر سورما سنگھ نے عورت کے پاؤں پکڑ لیے اور انہیں بڑی نرمی سے سہلاتے ہوئے اپنا گرم گرم رخسار اس پر رکھ دیا۔ اس وقت وہ ایک پالتو جانور کی طرح دکھائی دیتا تھا۔۔۔ اس نے بلھے شاہ کی کافیوں کی سی رقت انگیز آواز میں چند مبہم الفاظ کہے۔ عورتیں رحم دل ہوتی ہیں۔۔۔ چنانچہ جب اس کا بھائی ایک مرتبہ سورما سنگھ کی طرف جھپٹا تو وہ بولی، ’’رہنے دیجیے بھائی صاحب! اور مت ماریے۔۔۔ بچارا سورما سنگھ ہے۔‘‘
اس کے بعد نوجوان عورت نے بلا پاؤں پیچھے ہٹائے ہوئے شیریں آواز اور خالص پنجابی لہجے میں کہا، ’’ہٹ وے، پرے ہٹ۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.