Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سفگمو مینو میٹر

بلال حسن منٹو

سفگمو مینو میٹر

بلال حسن منٹو

MORE BYبلال حسن منٹو

    ڈاکٹر زرقا نے بتایا کہ امی کو ہائی بلڈ پریشر رہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک بیماری ہے اور اس کا نام ’’Hypertension‘‘ ہے۔

    ’’ہائپرٹینشن نہ ہو تو کیا ہو؟‘‘ امی نے فون پر آنٹی ارشد سے کہا۔ ’’جمعدارنی، مالی، ان لوگوں کا کتا۔ کوئی ایک مصیبت تو نہیں ہے۔‘‘ وہ ہمارے ہیپی کو نام سے کم ہی بلاتی تھیں اور اسے زیادہ تر’’ان لوگوں کا کتا’’ کہتی تھیں۔ یعنی میرا، نوید بھائی اور ابا کا۔

    ’’ہائپرٹینشن تو ہونا ہی تھی‘‘۔ انھوں نے آہ بھری۔

    مگر اس انکشاف سے کہ انھیں ہائپرٹینشن ہے، وہ کچھ خوش بھی تھیں۔ جیسے یہ کچھ معتبر سی بات ہو۔ ہائپرٹینشن! ایسے باوقار نام کی بیماری ہوئی تھی انھیں۔ رعب دار اور اہم، جس کے بارے میں یہ خطرناک بات بھی مشہور تھی کہ وہ ’’سائیلنٹ کلر’’ ہے۔ یعنی ایسی قاتل بیماری ہے جو ہو سکتا ہے کبھی ظاہر نہ ہو مگر اندر ہی اندر چپکے چپکے انسان کو نیست و نابود کرنے میں مصروف رہے۔

    جب آنٹی ارشد نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ اس بیماری کی وجہ ہماری اس جادوگر محلے دارنی کے جادو ٹونے ہوں جو حاسد ہے اور ہر چھٹی کے دن بلاوجہ ہمارے گھروں میں نمودار ہوتی ہے تو امی نے اس بات کی تردید نہیں کی بلکہ کہا کہ ہاں ہو تو سکتا ہے مگر جادو ٹونے تو وہ ہمارے بچوں کے خلاف کرتی ہے کیونکہ اس کے اپنے بچے نکمے ہیں اور کیا یہ بہتر نہیں کہ جو جادو اور ٹونے وہ میرے بچوں کے خلاف کرتی ہے ان کی زد میں آکر اپنے بچوں کے عوض میں ہی بیمار ہو جاؤں؟

    ’’اور بیماری بھی کیسی، آپا ارشد، بیماری بھی کیسی۔ ہائپرٹینشن۔‘‘

    ’’اف‘‘۔ آنٹی نے دہرایا۔ ’’ہائپرٹینشن‘‘

    آنٹی ارشد کو یہ انوکھا خیال پسند آیا کہ اپنے بچوں کی جگہ وہ بیمار ہو جائیں۔ اس بات میں کچھ روحانی گہرائی دکھتی تھی۔ کچھ ہی دن کے بعد انھوں نے امی سے کہا کہ ان کو بھی وہی کچھ محسوس ہونے لگا ہے جو امی کو ہوتا تھا اور جس کی بنا پر ان کی اس خطرناک بیماری کی تشخیص کی گئی تھی۔

    ’’بالکل وہی ندرت جان۔ سر کے پیچھے گردن میں درد۔ ایسا مستقل درد کہ کسی بھی دوا سے ختم نہ ہو۔‘‘

    ’’آپا، پھر تو آپ کو بھی ہائپرٹینشن ہے۔ یہ تو بالکل میرے والی کیفیت ہے‘‘۔ امی نے کہا۔

    ’’میری پریشانیوں کا کوئی حساب نہیں ڈاکٹر صاحب۔ نہ حد ہے نہ حساب شمار اور اب تو ویسے بھی یہ بیماری ہمارے محلے میں داخل ہو چکی ہے۔‘‘ وہ ڈاکٹر زرقا سے مخاطب تھیں۔

    ’’ابھی کچھ ہی دن پہلے معلوم ہوا ہے کہ ہماری پچھلی گلی میں میری سہیلی کو بھی یہی بیماری لگ چکی ہے۔ وہ دن میں دو بار دوائی لیتی ہے۔ کئی کئی ملی گرام کی۔ ذرا غور سے چیک کریں پلیز۔ میرا اس سے بہت ملنا جلنا ہے۔ کہیں مجھے نہ لگا دی ہو اس نے یہ بیماری۔‘‘

    لیکن ڈاکٹرنے صاف کہہ دیا کہ آپ کو کچھ نہیں ہے۔ بلڈ پریشر بالکل ٹھیک ہے اور اسے نیچے لانے کی کوئی دوا دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر نے یہ بھی کہا کہ یہ کوئی تپ دق یا خسرہ نہیں جو یوں کسی سے ملنے جلنے سے لگ جائے۔

    آنٹی ارشد نے سنی ان سنی کر دی۔ ’’ ڈاکٹر صاحب۔ کسی بہتر آلے سے چیک کریں۔ کنپٹیوں میں ساں ساں ہوتا ہے۔ ہائے۔ کوئی اور آلہ نہیں ہے آپ کے پاس؟ کوئی نئی قسم کا؟ کوئی جدید سا آلہ ہو۔‘‘

    مگر ڈاکٹر ٹس سے مس نہ ہوئی اور پرس میں سے آئینہ نکال کے اپنی لپ سٹک درست کرنے لگی۔

    آنٹی ارشد نے کہا کہ ڈاکٹر صرف ایسی بیماریاں تشخیص کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جن میں مریض کو بار بار ان کے کلینک کے چکر لگانا پڑیں اور وہ حیلے بہانوں سے فیس وصول کرتے رہیں۔ اس میں کیا کوئی بحث کی گنجائش تھی کہ آنٹی ارشد کی زندگی میں بے شمار پریشانیاں تھیں؟ اور اگر نہیں تھی، کنپٹیوں میں ساں ساں بھی ہوتا تھا اور سر میں درد بھی تھا، تو پھر ان کی بات پر ایک ذلیل چینی آلے کے اندر ناچتے پارے کو کیوں ترجیح دی جارہی تھی؟ اس بات پر کیوں شک کیا جا رہا تھا کہ انھیں ہائپر ٹینشن کی بیماری لگ چکی ہے؟

    ’’پتہ نہیں یہ سائیلنٹ کلر مجھے کب سے کل کر رہا ہے؟ چپکے چپکے، خفیہ خفیہ۔‘‘ آنٹی ارشد نے امی کے پاس بیٹھے بیٹھے کہا، ایسے، جیسے اپنی اس بے چارگی پہ بہت غمگین ہوں اور خود کلامی کر رہی ہوں اور یہ کہتے کہتے ان کی آنکھوں میں اپنی بےچارگی کے تصور سے آنسوبھی آ گئے۔

    ’’ندرت جان۔ ہائی بلڈ پریشر کو مذاق میں نہیں ٹالا جا سکتا،’’ انھوں نے کہا۔ ‘‘چاہے کسی آلے سے نکلے یا نہ نکلے، ہے تو سہی نا۔ آلے تو سب ناقص ہوتے ہیں۔ کیا میں علاج اس لیے نہ کرواؤں کہ آلے ناقص ہیں اور ڈاکٹر لالچی؟‘‘

    اگلے دن امی اور وہ ادھر ہمارے ماڈل ٹاؤن کی بڑی مارکیٹ میں نورین اور مہرین کے ہومیوپیتھک مطب گئیں جہاں ان دو سنجیدہ بہنوں نے آنٹی ارشد کے حالات بہت توجہ سے سنے اور ان سے ان کے معاملات اور عادات کے بارے میں کئی قسم کے سوالات پوچھے۔ کچھ سوالات بہت عجیب تھے اور آنٹی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ان کا کیا مقصد ہے۔ مثلاً یہ کہ ’’اگر آپ کا کوئی کام صحیح طرح سے نہ ہو رہا ہو تو کیا آپ بس ہار مان جاتی ہیں یا کوشش کرتی رہتی ہیں؟‘‘ اور یہ کہ ’’باغیچے میں زیادہ خوشی محسو س کرتی ہیں یا کمرے کے اندر؟‘‘ آنٹی پہلے تو ان سوالات پہ جز بز ہوئیں کیونکہ وہ کچھ ڈاکٹری نوعیت کے معلوم نہ ہوتے تھے مگر جب ڈاکٹر بہنوں نے کہا کہ یہ جو کام ہم کرتی ہیں، یعنی ہومیو پیتھی کا کام، اس میں مریض کے بارے میں ایسی تفصیلات بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں تاکہ عین مناسب دوا اس کے لیے تجویز کی جا سکے، تو وہ مطمئن ہو گئیں کہ دیکھو کیسے نئے طور کا علاج ہے اور تشخیص کے کیسے انوکھے طریقے اس میں رائج ہیں۔ پھر جب دونوں ڈاکٹرنیوں نے یہ کہا کہ جی ہاں آپ کو یقینا ہائپرٹینشن ہے اور ایسی عیاں ہے کہ کسی آلے والے سے ناپنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو آنٹی کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ بہنوں نے انھیں چھ چھ پڑیوں پہ مشتمل بہت سے لفافے دئیے۔ ہر لفافہ ایک دن کے لیے تھا اور پڑیاں نمبروں کے حساب سے کھائی جانی تھیں، ایک سے چھ تک، ہر چار چار گھنٹے بعد اور اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری تھا کہ غلط نمبر کی پڑیانہ کھائی جائے۔ پڑیوں میں بند سفید میٹھا سفوف بغیر ہاتھ لگائے سیدھا زبان پر انڈیلے جانا چاہیے تھا تاکہ وہ وہاں خود بخود تھوک میں حل ہو جائے اور پھر جسم میں داخل ہو کے وہ وہ کچھ کرے جو اس کا فرض تھا۔ سفوف منہ میں انڈیلنے سے نہ آدھ گھنٹے پہلے کچھ کھا پی سکتے تھے اور نہ اس کے آدھ گھنٹہ بعد تک۔

    ’’دیکھا آپ نے کہ یہ کیسا مشکل کام ہے؟‘‘ ایک ہومیوپیتھک بہن نے فخر سے کہا۔ ’’دیکھا آپ نے کہ کیسی اس میں باریکیاں ہیں۔ کیا ایلوپیتھی اس کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ ہائپرٹینشن، شوگر، کینسر، خناق اور دیگر کئی ایسی بیماریاں ہیں جن کا مکمل علاج صرف ہومیوپیتھی ہی کر سکتی ہے۔‘‘ دوسری نے بتایا۔

    ان قابل بہنوں نے یہ بھی کہا کہ علاج کے دوران آنٹی ارشد کا تیز خوشبوؤں سے دور رہنا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ ہومیوپیتھک دواکا اثر زائل کر سکتی ہیں۔ یہ بات آنٹی ارشد کو کچھ اچھی نہ لگی کیونکہ وہ پرفیوم لگانا بہت پسند کرتی تھیں اور ہر بیرون ملک آتے جاتے واقف سے اپنے لیے پرفیوم لانے کی فرمائش کرتی تھیں جو عام طور پر وہ نہیں لاتے تھے مگر پھر بھی آنٹی ارشد کے پاس ہمیشہ دو، تین پرفیوموں کی بوتلیں موجود رہتی تھیں جنھیں وہ بڑے شوق سے تھوڑا تھوڑا کرکے استعمال کرتی تھیں۔ سو یہ نئی پابندی انھیں پسند نہ آئی مگر پھر یہ سوچ کر کہ ہومیوپیتھک بہنیں ہر وقت دستیاب رہیں گی اور ان سے فون کرکے کبھی بھی بات کرکے انھیں اپنی تکلیف بتائی جا سکتی ہے، آنٹی ارشد نے اس پابندی کو گوارا کر لیا۔ آنٹی ارشد کو یقین تھا کہ اپنی خطرناک بیماری کے پیش نظر انھیں اکثر ان معالج بہنوں کو فون کرنے کی ضرورت پیش آئےگی۔ امی نے بھی کہا کہ ہاں ہاں کیوں نہیں؟ جب سہولت ہے تو کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے۔ آنٹی ارشد نے کہا کہ آدھی بیماری تو ڈاکٹر سے بات کرکے ہی چلی جاتی ہے اور یہاں تو دو ڈاکٹرنیاں موجود ہیں۔ جب ابا نے یہ سن کے کہا کہ پھر آپ دوا کھانے کی جگہ ان دونوں سے صرف بات ہی کرلیا کریں تاکہ پوری بیماری چلی جائے تو آنٹی ارشد نے برا سا منہ بنایا اور امی نے ان کی دلجوئی کے لیے کہا کہ ابا کی باتوں پہ توجہ نہیں دینی چاہیے کیونکہ ایسی باتیں کرنا ان کی عادت ہے۔

    پر یہ چار چار گھنٹے بعد پڑیا کھانا اور خوشبو نہ لگانا بڑی سخت پابندیاں تھیں اور یہ طے تھا کہ میٹھے پاؤڈر کی پڑیوں کے ساتھ آئی ان پابندیوں سے انھیں بہت جلد اکتا جانا تھا۔

    ۔۔۔۔۔۔

    ’’ندرت جان‘‘ آنٹی ارشد نے فون پر امی سے کہا،’’دوا شروع شروع میں تو بہت اچھی تھی۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ اثر کر رہی ہے۔ مگر اب نوکروں نے اس بات کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے کہ میں اپنے علاج میں اس قدر مصروف رہتی ہوں۔ بس اسی بات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں سب کہ میں ہر وقت اس فکر میں رہتی ہوں کہ کوئی نہ کوئی پڑیا کھانے کا وقت آ رہا ہے۔ صفائی والی نے آج ڈرائینگ روم صاف نہیں کیا اور انور نے جو دال پکائی ہے وہ بالکل پانی جیسی پتلی ہے۔ تم سوچو۔ وہ دال میں کھانے کی میز پر رکھ دیتی تو وہ آدمی میرا کیا حشر کرتا؟‘‘

    امی اس بات کے جواب میں کچھ خاص نہ بولیں۔ آنٹی ارشد کے میاں کی بدذاتی اور ظلم کوئی ایسی چیزیں نہیں تھیں جن پر کسی رائے زنی کی ضرورت ہوتی۔ محلے میں جن جن لوگوں کے ہاں آنٹی ارشد نے اپنا آنا جانا رکھا ہوا تھا ان سب کو اس آدمی کی شخصیت کے ان معاملات کا علم تھا، کیونکہ آنٹی ارشد اپنی ذاتی باتیں چھپانے میں زیادہ یقین نہیں رکھتی تھیں اور امی کو تو وہ صاف کہہ دیتی تھیں کہ بےشک اس آدمی کی اصلیت سب کو پتا چلے، مجھے کیا؟ میں تو سوچتی ہوں کسی دن اس کے افسر کے پاس جاؤں اور اسے بتاؤں کہ جس کو آپ کارکردگی کے تمغے دیتے ہیں وہ اندر سے کیسا خبیث اور حیوان نما ہے۔

    سو انکل سلطان اپنے آپ کو جتنا مرضی قابل جاسوس اور خفیہ امور کا ماہر سمجھتے، وہ اپنی اصلیت کے بارے میں لوگوں کے علم اور حقارت سے ناواقف تھے اور اس بات سے بھی کہ ان کی بیگم ان کے افسر کے پاس بھی جاپہنچ سکتی تھیں اور ان کی اصلیت اس پر عیاں کر سکتی تھیں۔

    ابا کہتے تھے کہ سلطان جیسا ہے ویسا ہی ہو سکتا ہے۔ کمینہ اور بدلحاظ، کیونکہ اس کی نوکری ہی ایسی ہے جو اچھے بھلے شخص میں یہ مکروہ خصائل پیدا کر سکتی ہے۔ چاہے یہ کتنا بھی اپنے کام کا ماہر ہو اور چاہے اسے نوکر رکھنے والے کتنے ہی اس سے خوش کیوں نہ ہوں، کام تو اس کا وہی ہے نہ؟ حکومت کے لیے جاسوسی! چھپ چھپ کے لوگوں کی سو لینا، ان پر نظر رکھنا، ان کی ذاتی باتوں کا پتہ لگانا تاکہ بوقت ضرورت انکو ان لوگوں کے خلاف استعمال کرکے انھیں بلیک میل کیا جا سکے اور کچھ اور اس سے بھی گھٹیا دیگر کام جو جاسوس کرتے ہیں اور جو اتنے خفیہ ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہیں۔ چاہے ان لوگوں پر بنی فلمیں آپ کو دلچسپ لگتی ہوں مگر کیا یہ جاسوسی وغیرہ کوئی قابل قدر کام ہے؟ چاہے آپ ان کے خوف کی وجہ سے منہ سے کچھ نہ کہیں لیکن امر واقع تو یہی ہے نا کہ جو کام یہ کرتے ہیں وہ تو تقریباً غیبت سے بھی بدتر ہے۔ غیبت میں تو صرف کسی کے بارے میں بری بات اس کی پیٹھ پیچھے کی جاتی ہے جبکہ اس میں تو چن چن کر لوگوں کے بارے میں ہر قسم کے طریقے سے تمام اچھی بری باتیں معلوم کی جاتی ہیں اور جہاں غیبت ایسے ہے کہ جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کر کھایا جائے، وہاںیہ کام جو سلطان کرتا ہے، یہ تو کچھ ایسے لگتا ہے کہ جیسے زندہ بھائی کا گوشت کھایا جائے۔ پتہ نہیں یہ کام حلال بھی ہے یا نہیں۔ کون سا یہ لوگ اس کام کو بحالت مجبوری یا اللہ کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں؟ سو پھر ان لوگوں کو، ان جاسوس لوگوں کو کون ستائش کی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے؟ پس سلطان کوئی بےقوف نہیں ہے۔ ایسا ایسا باریک جاسوسی کا کام سرکار کے لیے کر چکا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں وہ بھی جانتا ہے کہ وہ کتنا مکروہ کام کرتا ہے اور ہمہ وقت یہی سو چ سوچ کے، کڑھ کڑھ کے ایسا بد مزاج ہو گیا ہے۔

    امی کہتی تھیں کہ اتنے غور و فکر اور تجزئیے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اتنا وہ ایسی باتوں پہ کڑھنے والا ہوتا تو یہ مکروہ کام کرتا ہی کیوں؟

    ’’روزی کے لئے’’ ابا نے ایک دفعہ کہا تھا، جس پر امی نے فوراً تنک کر جواب دیا تھا کہ اتنا امیر تھا باپ، دیکھو کتنی جائیداد چھوڑ گیا ہے۔ کیا ضروری تھا کہ ایسا مکروہ کام ہی کرتا یہ؟ کون سے فاقے پڑ رہے تھے گھر میں؟ پھر طنز سے بولیں کہ آخر آپ نے بھی تو اپنے ابا جی کا ہوٹل چلانے کے عوض کچھ بھی نہ کرنا ہی بہتر سمجھانا۔ آپ کو ہوٹل چلانے میں ہتک محسوس ہوتی تھی، اسے جاسوس بنتے ہوئے ذرا بھی برا نہیں لگتا تھا؟

    ابا نے ایک بار پھر امی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انھوں نے دادا ابا کے ہوٹل کو چلانے میں ہتک محسوس نہیں کی تھی بلکہ وہ اس بات کے ہی خلاف ہیں کہ انسان کو روزی کمانے کے لیے کام کرنا پڑے۔ انسان وہ کام کرے جس کے کرنے کو اس کا دل چاہے اور ایسے ہی کام سے اس کی روزی کا بندوبست ہونا چاہیے۔ ابا بار بار کہتے کہ دیکھنا ایسا معاشرہ ضرور قائم ہوگا جس میں یہ ممکن ہوگا اور تب تک کیوں نہ میں ابا جی کے چھوڑے ہوئے ترکے پہ آرام سے گزار اکروں؟

    امی ان باتوں کا مذاق اڑاتی تھیں اور بس یہی ایک بات تھی، ابا کے کوئی بھی کام نہ کرنے والی بات، جس کی وجہ سے کبھی کبھی دونوں میں کافی تکرار ہو جاتی تھی۔ ’’خدا بخشے آپ کے ابا جی کو‘‘، امی نے کہاتھا، ’’وہ اتنا کچھ چھوڑ گئے ہیں تو آپ کے لیے یہ کہنا آسان ہے۔ خدا کا خوف کریں۔ لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں اور انسان صرف اپنے ہنر سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘

    اس سے پہلے کہ ابا بتاتے کہ ان کے پاس بھی ہنر ہے، امی نے فوراً کہا،

    ’’اور ہنر سے مطلب داڑھی والے جرمن یہودیوں اور ناٹے قد کے مردہ روسیوں کی لکھی کتابیں بلاوجہ پڑھتے رہنا، بیٹھ کر سوچ بچار کرنا اور کائنات کے راز سمجھنے کی کوشش کرنا نہیں ہے۔ ہنر سے مطلب ہے وہ کام جو کرکے روزی کمائی جا سکے۔ آپ کائنات کے سارے راز صبح تک معلوم بھی کر لیں تو کوئی فرق نہیں پڑےگا‘‘۔

    ابا نے اس کے بعد انکل سلطان کے بارے میں روزی کمانے والی دلیل کم کم ہی دی کیونکہ اس سے خواہ مخواہ تکرار اور تلخی کو دعوت ہوتی تھی جن دونوں چیزوں سے ابا بھاگتے تھے۔ پھر بھی وہ کبھی بھی یہ کہنے سے نہیں چوکتے تھے کہ انکل سلطان جیسے ہیں اس میں ان کی نوکری کا بہت ہاتھ ہے۔

    ’’میں کیا کروں؟ دنیا کی کون سی دواہے جو ان حالات میں اثر کرےگی؟ ہے کوئی ندرت جان؟ کوئی ہے ایسی دوا؟‘‘ آنٹی ارشد نے آہ وبکا کی۔

    ’’نہیں باجی۔ کیسے ہو سکتی ہے ایسی کوئی دوا؟ اور باجی ان حالات میں تو آپ کی ٹینشن اور بڑھ جائےگی۔ ہائپر ٹینشن اور بگڑ جائےگی۔‘‘ امی نے کہا۔

    ’’یہی تو میں کہہ رہی ہوں۔ پھر بتاؤ نہ، کیا کروں؟‘‘ آنٹی ارشد نے پوچھا۔

    امی نے آنٹی ارشد کو تجویز کیا کہ وہ فوراً ٹیلیفون کرکے ڈاکٹرنیوں سے پوچھیں کہ کیا علاج کا کوئی اور، آسان طریقہ ہے جو اختیار کیا جاسکے اور جو پہلے سے موجود ٹینشن میں اضافہ نہ کرے۔ ڈاکٹرنیوں نے کہا کہ گھبرانے کی بات نہیں، ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل موجود ہوتا ہے اور اس کا بھی ہے۔ یوں کیا جا سکتا ہے کہ پڑیوں کی طاقت بڑھا کے ان کی تعداد گھٹا دی جائے اور ایسا حربہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ پڑیوں پہ نمبر نہ لکھنے پڑیں اور آنٹی ارشد کو اس بات کی فکر نہ کرنی پڑے کہ کہیں غلط نمبر کی پڑی نہ کھا لیں۔ لیکن جب آنٹی ارشد نے پوچھا کہ کیا کوئی طریقہ ایسا بھی ہے کہ پرفیوم لگانے پہ پابندی نہ ہو تو ڈاکٹرنیاں بہت ناراض ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسا ہر گز، ہرگز نہیں ہو سکتا اور یہ بھی کہا کہ حد ہوتی ہے کسی کی نرمی کا فائدہ اٹھانے کی۔ انھوں نے کہا کہ جب آپ اصل ڈاکٹروں سے آپریشن کرواتی ہیں تو کیا بیہوشی میں انھیں بتاتی رہتی ہیں کہ پیٹ میں اتنا سوراخ کرو یا سوراخ ادھر کرو ادھر نہ کرو؟ اور یہ بھی کہ یہ جو آنٹی ارشد ایسی بدعتوں والی اجازتیں مانگ رہی ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہومیوپیتھی کو کوئی ایسا کاروبار سمجھتی ہیں کہ ہاں جی، میٹھی گولیاں ہی تو ہیں، یوں نہ کھائیں، یوں کھا لیں۔ ڈاکٹر بہنوں نے اس مقام پر آ کے تعاون سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم آپ کے لیے ہومیوپیتھی کے اٹل اصول اور قاعدے نہیں بدل سکتیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی آپ سے نرمی برتی تھی مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس کی مستحق ہی نہیں ہیں۔ سو اب تو ہم جو دوا آپ کو دیں گی اس میں نہ صرف پرفیوم کی ممانعت ہو گی بلکہ ٹوتھ پیسٹ کی بھی ہوگی۔

    آنٹی ارشد نے ڈاکٹرنیوں کا علاج بند کر دیا اور ابا اس بات سے بہت محظوظ ہوئے۔

    ’’یعنی آپ کو اپنی صحت سے زیادہ خوشبوئیں لگانے میں دلچسپی ہے۔ واہ۔‘‘

    آنٹی ارشد بھی کوئی بچی نہیں تھیں۔

    ’’میں نے اس وجہ سے علاج نہیں چھوڑا‘‘ وہ بولیں۔

    ’’اسی وجہ سے چھوڑا ہے اور کیا۔ آپ کو پرفیوم لگانے کا اتنا شوق ہے؟‘‘

    ’’ایک اور وجہ ہے۔ اگر سوچا جائے تو بڑی اہم وجہ ہے۔ میں نے علاج اس لیے چھوڑا ہے کہ اگر یہ ممکن تھا کہ وہ مجھے زیادہ طاقت کی تھوڑی پڑیاں دیتیں اور ان پہ نمبر لکھنے سے بھی بچا جا سکتا تھا، تو پھر انھوں نے پہلے ہی ایسا کیوں نہیں کیا؟ بس اس بات سے میں بددل ہوئی ہوں اور میرا اعتماد جاتا رہا ہے۔‘‘

    اب امی نے کہا کہ باجی چھوڑو۔ میں بتاتی ہوں کیا کرو۔ سو آنٹی ارشد نے امی کے کہنے پہ Valium 5کھانا شروع کر دی۔ ایک گولی صبح اور ایک رات۔ حالانکہ امی نے صرف رات کو ایک گولی کھانے کو کہا تھا۔ یہ گولی آنٹی ارشد کو دن بھر مسحور اور مسرور رکھتی اور رات کو خوب گہری نیند دلاتی۔

    ہمارے ہاں بلڈ پریشر ناپنے کا ایک آلہ مال روڈ کی ایک دوکان سے خرید کر لایا گیا تھا جس سے بلڈ پریشر دیکھنا نوید بھائی کو دوکاندار نے ہی سکھا دیا تھا۔ اس آلے کا نام Sphygmomanometer تھا جو صرف نوید بھائی بول سکتے تھے اور جب بھی انھوں نے امی کا بلڈ پریشر چیک کرنا ہوتا تو وہ بڑے فخر اور تحکمانہ لہجے میں مجھے کہتے:

    ’’Sphygmomanometer لے کر آؤ‘‘۔

    یا رعب سے پوچھتے کہ’’ Sphygmomanometer کہاں ہے؟‘‘

    گو مجھے Sphygmomanometer سے بلڈپریشر دیکھنا نہیں آتا تھا مگر یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ بہت آسان کام ہے۔ بس صرف کبھی کبھی یہ مسئلہ پیدا ہوتا تھا کہ نوید بھائی امی کی کہنی کے دوسری طرف ان کی دھک دھک کرتی نس محسوس نہیں کر پاتے تھے مگر یہ Sphygmomanometer کا قصور نہ تھا۔ وہ والی نس تو خود ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ جب کبھی انھیں نس نہ ملتی تو وہ ایسا کرتے کہ امی سے یہ بات پوشیدہ رکھتے اور قاعدے کی تمام کارروائی پوری کرتے۔ یعنی یہ کہ آلے کا بازوبند ان کے بازو پر باندھتے، ڈاکٹری ٹونٹی کان سے لگاتے اور اس کا دوسرا گول سرا امی کے بازو پر وہاں رکھتے جہاں نس ہونی چاہیے۔ پھر دستی بم کی شکل والے بیضوی ربرکے پمپ سے بازوبند میں ہوا بھرتے اور تب تک بھرتے جب تک امی نہ کہتیں کہ بس کرو بہت زور کا ٹائیٹ ہو گیا ہے۔

    ’’شش، سننے دیں’’وہ کہتے، جیسے واقعی نس کے اوپر ہی ٹونٹی رکھی ہو اور ابھی دھک دھک سننے والے ہوں۔ پھر آہستہ آہستہ دستی بم کا پیچ کھول کے بازوبند سے ہوا خارج کرتے۔ اس سب کے بعد وہ اندازے سے، اپنی طرف سے کوئی بلڈ پریشر بتا دیتے کہ اتنا ہے، یہ دیکھ کر کے امی کی طبیعت کیسی لگ رہی ہے اور وہ محسوس کیسا کر رہی ہیں۔ شوقیہ یا محض احتیاطً بلڈ پریشر چیک کروارہی ہیں یا واقعی کچھ طبیعت کی خرابی کی وجہ ہے۔

    اکثر آنٹی ارشد بھی اپنا بلڈ پریشر دکھانے آتی تھیں جو ہمیشہ درست نکلتا تھا۔

    ’’Valium 5‘‘ آنٹی ارشد فخر سے بتاتیں۔ ’’دیکھا ندرت جان؟ ڈاکٹر کے بغیر ہی میرا علاج ہو گیا۔‘‘

    امی کی کوشش ہوتی تھی کہ جب ان کا بلڈ پریشر دیکھا جائے تو ابا کا بھی دیکھا جائے۔ وہ ابا سے کہتی تھیں کہ ضروری نہیں کہ آپ کو کچھ محسوس ہی ہو تو بلڈ پریشر کی بیماری ہو۔ یہ خاموش بھی رہ سکتی ہے اور اچانک ایک دن دل کے دورے یا ایسی کسی بھیانک واردات کے طور پہ نمودار ہو سکتی ہے۔ تبھی تو اسے سائلنٹ کلر کہتے ہیں۔ لیکن ابا کو دوائیوں اور ڈاکٹری باتوں سے چڑ تھی اور وہ کبھی اپنا بلڈ پریشر چیک نہیں کرواتے تھے۔

    ایک بار میں نے نوید بھائی سے کہا کہ مجھے بھی کبھی کبھی سر میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہوتا ہے۔ وہ مسکرائے اور کہا کہ آؤ پھر تمہارا بھی بلڈ پریشر چیک کرلیں۔ جب انھوں نے اس کا، یعنی Sphygmomanometer کا بازوبند میرے بازو پہ باندھنا چاہا تو وہ ڈھیلا رہا اور گر گر جاتا تھا کیونکہ میرے بازو بالکل پتلے پتلے تھے اور اس کی گرفت میں نہ آتے تھے۔ نوید بھائی نے کہا کہ اگر یہ بازوبند تمہارے بازو پر باندھا نہیں جا سکتا تو ڈاکٹری کتابوں میں اس کا صاف صاف مطلب یہ لکھا ہے کہ جن لوگوں کے بازواتنے پتلے ہوں انکو کبھی بلڈ پریشر ہوہی نہیں سکتا۔

    اس دن کے بعد، میں اکثر Sphygmomanometerکا بازوبند ٹانگ پہ پنڈلی کے اردگرد باندھ کر اس میں ہوا بھرتا اور خارج کرتا تھا اور جب ہوا بھرنے پہ وہ پھول کے میری پنڈلی کو دباتا تھا تو مجھے بڑا مزہ آتا تھا اور میں خود کو ہوا میں اڑتا محسوس کرتا تھا۔

    ۔۔۔۔۔۔

    ہمارے پیارے ہیپی کی وفات کے بعد امی نے دو ٹوک کہہ دیا تھاکہ اب کوئی اور کتا اس گھر میں نہیں آئےگا۔ انھوں نے صاف کہا تھاکہ اس گھر میں یا وہ رہیں گی یا کتا۔ تھوڑی دیر نوید بھائی اور ابا نے ان سے بحث کی اور کتوں کے فوائد گنوائے مگر کچھ حاصل نہ ہوا اور امی نے کہا کہ وہ ان سے کہیں زیادہ کتوں کے نقصانات گنوا سکتی ہیں جن میں سرفہرست یہ ہے کہ رحمت کا فرشتہ گھر سے نہیں گزرتا۔

    ’’تو پھر اتنے دن کہاں سے گزرا وہ؟ اتنے سال جب ہیپی یہاں تھا۔ آپا صغراں کے گھر سے؟‘‘ میں نے حیران ہوکے پوچھا۔

    ’’اوہ تے آپ کتی جیہی اے‘‘ (1) امی نے کہا، مگر میرے سوال کا جواب نہ دیا اور کہا کہ وہ اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتیں کہ کتوں کے نقصانات ہیں یا فوائد سوائے اس کے کہ جو فائدہ ابا اور نوید بھائی بڑھ چڑھ کے گنوا رہے تھے کہ کتا حفاظت کرتا ہے، تو اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کو خطرہ ہے کس سے؟اور دوسرا یہ کہ آپ کا ہیپی تو سال میں ایک یا دو دفعہ بھونکتا تھا۔ یہ حفاظت کرتا تھا وہ؟ انھوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ لوگ فیصلہ کر لیں۔ اگر کتا آیا، تو میں کہیں بھی چلی جاؤں گی، مگر اس گھر میں نہیں رہوں گی۔ میں حیران ہوا اور میں نے پوچھا کہ بھلاکہاں چلی جائیں گی؟ آنٹی ارشد کے؟

    ’’آنٹی ارشد کے ہی سہی‘‘، امی نے کہا، ’’کہیں بھی، چاہے ساتھ والے گھر میں آپا صغراں کے ہی چلی جاؤں مگر یہاں نہیں رہوں گی‘‘۔ میں اور حیران ہوا کہ آپا صغراں کا بھلا کیا ذکر ہے؟ وہ آپ کو کیوں رکھیں گی؟ وہ تو اپنی سگی بیٹیوں پہ ایسا ایسا ظلم ڈھاتی ہیں اور سوٹیوں سے انھیں مار بھی چکی ہیں۔ اگر آپ کو بھی مارا؟ پھولوں کی کیاری سے سوٹی اکھاڑ کے جو سر میں اندر تک گھس بھی سکتی ہے اور اتنا خون نکال سکتی ہے کہ آپ بیہوش ہو جائیں؟

    ’’کھالوں گی سوٹیاں۔ گھس جائیں سر میں۔ نکل آئے خون۔‘‘ امی نے کہا۔ ‘‘یہاں نہیں رہوں گی۔ بس۔’’ پھر ایک ڈرامائی فقرہ بولا کہ’’سر سے خون نکل آئے تو بہتر ہے، کم از کم خون کے آنسو تو نہ روؤں گی۔‘‘

    میں نے خیال ظاہر کیا کہ آپا صغراں آپ کو رکھیں گی ہی نہیں۔

    ’’نہ رکھیں‘‘۔ امی نے غصے سے کہا، ’’لیکن میں چلی ضرور جاؤں گی کہیں۔‘‘

    میں کچھ اور سوال پوچھنا چاہتا تھا کیونکہ امی کے یہ عجیب و غریب نیم ہذیانی جوابات مجھے بہت حیران کئے دے رہے تھے، مگر ابا نے اشارہ کیا کہ بکواس بند کرو۔ سو میں چپ ہو گیا لیکن میرے دل میں حسرت رہ گئی کہ پتہ چلاؤں کہ کیسا ہوگا اگر امی ہمارے گھر سے چلی جائیں اور میں جاکے دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ جہاں رہیں گی وہاں کیسے رہیں گی اور ان کے جانے کے بعد ہمارا رہن سہن کیسا ہوگا؟ اس وقت میں خاموش تو ہو گیا مگر منہ بند کرتے کرتے میری زبان سے نکل ہی گیا کہ:

    ’’پھر بھی۔۔۔کہاں جائیں گی؟ کہاں؟‘‘

    اس پر امی اپنی کنپٹیوں پر ہاتھ رکھ کے انھیں دبانے لگیں اور نوید بھائی کو حکم دیا کہ Sphygmomanometer سے ان کا بلڈ پریشر چیک کریں مگر مجھے پتا تھا کہ یہ صرف مجھے بتانے کے لیے کہا گیا ہے کہ دیکھو تمہاری اس بکواس سے کیسی میری طبیعت خراب ہوئی ہے کہ بلڈ پریشر چیک کروانے کی نوبت آئی ہے۔

    ابا اور نوید بھائی ہار مان گئے اور ہم نے نیا کتا لانے کا ارادہ ترک کردیا۔ اس شام امی نے آنٹی ارشد کو بڑے فخر سے اپنی کامیابی کی خبر سنائی اور یہ بھی کہا کہ کچھ عجب نہ ہوگا اگر ان کا بلڈ پریشر اس وجہ سے بالکل درست ہو جائے اور انھیں دوا کھانے کی ضرورت نہ رہے۔ آنٹی ارشد نے حیران ہوکر امی سے پوچھا کہ اگر کتا ان کے لیے اتنے غم و الم کا باعث تھا تو انھوں نے اس ضمن میں پہلے کیوں احتجاج کی صدا بلند نہ کی؟ امی نے کہا کہ نقار خانے میں طوطی کی کوئی نہیں سنتا جس پر میں نے سوچا کہ جھوٹ؛ سنی تو گئی ہے ان کی۔ نئے کتے کے آنے پر تو لگا دی ہے انھوں نے پابندی۔ آنٹی ارشد نے امی سے پوچھا کہ ان کے گھر میں تو کتا نہیں ہے، پھر انھیں بلڈ پریشر کا عارضہ کیوں لاحق ہوا؟ امی نے بتایا کہ اس موذی مرض کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں اور چند ایک بالکل خفیہ جن کا ڈاکٹروں کی گرفت میں بھی آنا محال ہے۔

    ’’تبھی تو باجی یہ بس اتنا کہتے ہیں کہ ٹینشن نہ لو۔ٹینشن نہ لو۔ اس سے زیادہ انھیں کچھ پتا نہیں ہوتا‘‘۔

    ’’بدذاتـ لوگ۔‘‘ آنٹی ارشد نے کہا۔ ’’کیسے نہ لیں ٹینشن؟ اونہہ۔ میرے تو گھر میں جیتی جاگتی اتنی بڑی ٹینشن ہے۔ کتے سے بھی بڑی۔ دفع۔‘‘

    ’’باجی، کیسی باتیں کرتی ہو کبھی کبھی۔ اچھا نہیں لگتا۔ اس طرح نہ کہا کرو’’ امی نے کہا۔

    ’’ہوہائے۔ ایس طرح نہ کیا کراں ندرت جان؟ پر کیوں نہیں؟ مینوں اوس شخص نال نفرت ای۔ میں تھکدی آں اوہدے اتے۔‘‘ (2)

    یہ نئی بات تھی۔ یہ کہ انکل سلطان انھیں گالیاں دیتے ہیں، یہ کہ انکل سلطان کئی بار ان کو تھپڑ مار چکے ہیں، یہ کہ کئی بار ان کی گت کھینچ چکے ہیں، یہ کہ بہت بار کھانے کی پلیٹیں توڑ چکے ہیں، یہ تو ہم جانتے تھے۔ پر یہ ایسا نفرت بھرا اعلان آنٹی کے منہ سے آج پہلی بار سنا تھا۔ امی نے بعد میں بتایا کہ ایک لمحے کو تو انھوں نے سوچا تھا کہ شاید ’’اصل وچ نفرت دے قابل ارشد آپ اے جے ایہو جیہی گل کیتی اے اپنے خاوند دے بارے وچ۔‘‘ (3)

    نیا کتا نہ آنے کا مجھے زیادہ افسوس تھا۔ جب میں گھر میں ہوتا تھا تو ہیپی کے ساتھ کھیل کود میں مصروف رہتا تھا۔ نوید بھائی اب کالج جاتے تھے اور ان کی دنیا کافی بدل چکی تھی۔ ان کے نئے نئے دوست بن گئے تھے جن میں سے ایک کے پاس موٹر سائیکل بھی تھا۔ وہ رنگین کپڑے پہن کر کالج جاتے تھے اور بہت عرصہ تک میرے دل میں میٹرک پاس کرکے کالج میں داخلہ لینے کی خواہش کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ میں رنگین کپڑے پہن کر کالج جایا کروں گا۔ سکول میں تو ہم رنگین کپڑے صرف تب پہنتے تھے جب سالانہ پکنک کا دن آتا تھا۔ تب سکول والے ہمیں کبھی ہرن مینار لے جاتے تھے کبھی شاہی قلعہ اور کبھی منگلا ڈیم۔ ہم بسوں میں بیٹھ کر، رنگین کپڑے پہن کر، کھانے پینے کی چیزیں ڈبوں لفافوں میں ڈال کر ان جگہوں پہ جاتے اور وہاں گھنٹہ دو گھنٹہ بے مقصد ادھر ادھر پھرتے۔ قلعے میں مغلوں کی بنائی بوسیدہ عمارات، ہرن مینار میں گندے پانی کا تالاب اور بےمقصد مینار، یا منگلا کی جھیل میں بھرا بےشمار فالتو پانی دیکھتے اور پھر بسوں میں بیٹھ کر واپس آ جاتے۔ لیکن اس سال جب ہم پکنک پر ہرن مینار گئے تو راستے میں فیضان نے، جو بس میں میرے ساتھ بیٹھا اونگھ رہا تھا، ایک دم ہڑبڑاکر قے کر دی جو تقریباً سب کی سب میرے اوپر آ گری۔ مجھ سے بو آنے لگی اور سب لڑکے دور ہٹ گئے۔ ہرن مینار پہنچ کر شوکت صاحب نے مجھ سے کہا کہ جا کے پانی سے اپنے آپ کو صاف کروں۔ وہاں کہیں پانی کا نلکا نہیں تھا اور مجھے ہرن مینار کے تالاب کے گندے سبز پانی سے اپنے آپ کو دھونا پڑا۔ وہ پانی بدبودار تھا اور ویسا ہی سبز جیسا کہ وہ لعاب تھا جو ہمارے پیارے ہیپی کی روح پرواز کرتے وقت اس کے منہ سے برآمد ہوا تھا۔ مگر وہ لعاب گاڑھا تھا جبکہ یہ مغلیہ پانی پتلا تھا۔

    ۔۔۔۔۔۔

    ایک دن شام کے پانچ بج گئے اور نوید بھائی کالج سے نہ لوٹے۔ ویسے، عام حالات میں یہ کوئی ایسی خوفناک بات نہ تھی۔ یعنی گھر لوٹنے میں ذرا سی دیر سویر۔ مگر نوید بھائی کی کئی باتیں پچھلے دنوں سے ایسی رہی تھیں کہ ابا کچھ گھبرا گئے تھے کہ وہ کسی الٹے سیدھے کام میں نہ پڑ جائیں اور کارٹون کی شکل والے جنرل ضیاء کی حکومت کی زد میں نہ آ جائیں۔ ایک دن انھوں نے بیٹھے بیٹھے کھانے کی میز پر بہت غصے سے دانت بھینچ کر کہا تھا کہ ’’ہمیں اس یونین کے جاہل غنڈوں کو مزہ چکھانا چاہیے۔‘‘ ابا نے یہ سن کر انھیں گھورا تھا اور کہا تھاکہ تمہیں وہاں پڑھنے بھیجا ہے، ایسی فضول باتوں سے تعلق رکھنے نہیں۔ تمیز سے کالج جایا کرو اور تمیز سے واپس آیا کرو۔ خبردار جو یونین بازی میں پڑے اور ان خطرناک لوگوں کے منہ لگے۔ نوید بھائی یہ جھڑکی سن کر خاموش ہونے کی بجائے اور زور زور سے بولنے لگے تھے۔

    ’’یہ بدمعاش لوگ ہیں۔ جس طرح انھوں نے جنید کی ٹانگیں توڑیں، ان کی بھی ٹوٹنی چاہئیں۔ انکو جنرل ضیاء کی شہ ہے۔‘‘

    ایک بار پہلے بھی ابا کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی تھی، جب نوید بھائی نے کہا تھا کہ وہ طالب علموں کی ایک بڑی جدت پسند اور جمہوریت پسند خفیہ تنظیم میں شامل ہونے والے ہیں، لیکن تب ابا نے انھیں بس ہلکا سا جھڑک دیا تھا اور کہا تھا کہ جنہوں نے ڈاکٹر بننا ہوتا ہے وہ ایسی فضول باتیں نہیں کرتے۔ یونین بازی خلاف قانون ہے لہٰذا خوامخواہ مصیبت میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

    پتا نہیں جنید کون تھا، جس بیچارے کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ’’یونین’’ کیا چیز تھی۔ لیکن جب ابا اور نوید بھائی نے زور زور سے بحث کی تویہ پتہ چل گیا، کہ کچھ خطرناک لوگ تھے جو ایک سیاسی جماعت کی طالبعلموں کی تنظیم کے کارکن بن کے کالجوں، یونیورسٹیوں میں منڈلاتے رہتے تھے۔ جس جماعت کی وہ ذیلی تنظیم تھے وہ خود کو مذہب کی ماہر اور علمبردار سمجھتی تھی۔ ابا اور نوید بھائی کی باتوں سے یہ بھی پتا چلا کہ یہ کارکن لڑکے مار پیٹ کے اور ڈرا دھمکا کے طالب علموں سے عجیب عجیب باتیں منوایا کرتے تھے: لڑکے لڑکیاں سڑک پہ اکٹھے نہ چلیں؛ اگر اشد ضرورت کی بنا پر کسی لڑکے کو لڑکی سے بات کرنی پڑ جائے تو دونوں میں سے کوئی ہر گز ہنستا نظر نہ آئے؛ ایسی اشد ضرورت کبھی نہ پڑے؛اور اس قسم کی مزید لایعنی باتیں جو ان کے عجیب و غریب دماغوں سے اکثر نکلتی رہتی تھیں۔ فیضان کے منہ سے نکلی قے کی طرح۔ انھوں نے بس ہمیشہ اسی قسم کی باتیں کی تھیں، اس کارٹون کی شکل والے بدمعاش جرنیل کے ایما پر اور کبھی کوئی قابل تعریف بات نہ کی تھی، جیسے اس بےحیا جرنیل نے کبھی نہیں کی تھی۔

    جب نوید بھائی کی زبانی جنید بیچارے کی ٹوٹی ٹانگوں کا سن کر ابا اور زیادہ گھبرا گئے تو انگلی اٹھاکر، یعنی جیسے کسی بات پہ زور دینے یا تاکید کرنے کے لیے انگلی سے اشارہ کر دیا جائے، انھوں نے کہا کہ خبردار ان چکروں میں ہرگز مت پڑنا۔

    سو اس روز پانچ بجے تک نوید بھائی نہ لوٹے تو ابا نے پہلے تو مصنوعی بے پرواہی ظاہر کی اور کہا کہ کوئی بات نہیں، آ جائےگا، مگر جب آدھا گھنٹہ اور گزرا تو انھوں نے کہا کہ کالج جاکے دیکھتے ہیں۔ نوید بھائی عام طور پہ ایسی غیر ذمہ دارانہ حرکتیں نہیں کرتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ کبھی کالج سے کسی دوست کے ہاں چلے جاتے تھے، مگر تب بھی ہمیں ٹیلیفون کر دیتے تھے۔ 50924 ملاکر، جس کے ملانے سے ہمارے گھر میں فون کی گھنٹی بجتی تھی اور میں بہت خوش اور متجسس ہوتا تھا کہ نہ جانے چونگے کی دوسری جانب کون ہے جو یوں تاروں کے ذریعے اپنی آواز کو ہمارے فون کے چونگے تک بھیجنے کے لیے سرگرم ہے۔ ساڑھے پانچ بجے امی نے ٹیلیفون کی کاپی کھولی اور اس میں نوید بھائی کے جن جن دوستوں کے نمبر لکھے تھے، انھیں فون کرنے شروع کئے۔ یہ وہی کر سکتی تھیں کیونکہ فون کی ڈائری میں نمبر وہ اپنے ہی حساب سے لکھتی تھیں۔ حبیب بنک کے منیجر کا نمبرH’’‘‘ کی جگہ ’’M‘‘، یعنی ’’M’’سے منیجر، پہ تھا اور ان کے درزی رمضان کا نمبر R’’‘‘کی جگہ T’’‘‘پہ تھا۔ T’’‘‘سے ٹیلر۔ لیکن اس میں شکایت کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ وہ خود اس ڈائری میں سے بہت برق رفتاری سے نمبر ڈھونڈھ لیا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی ابا کو نمبر ڈھونڈنا ہوتا تو وہ ان سے جھنجھلا کے کہتے کہ یہ کیا مصیبت ہے، آپ صحیح جگہ کیوں نہیں لکھتیں نمبر؟ امی تنک کر کہتیں کہ صحیح جگہ وہی ہے جہاں میں نے لکھے ہوئے ہیں۔ جب ابا کچھ بحث کرتے تو وہ کہتیں کہ آپ اپنی ڈائری الگ بنا لیں اور اس میں سب صحیح صحیح لکھیں اور مجھے میری یہ غلط ڈائری دے دیں۔ میں مرتے دم تک ایسے ہی لکھوں گی اور اگر بعد از مرگ کوئی ایسی زندگی ہوئی جس میں فون کی سہولت میسر ہوئی اور فون کی ڈائری کا کوئی دخل ہوا، تو تب بھی یہی کروں گی۔

    امی نمبر ملاتی جاتی تھیں اور ساتھ ساتھ کہتی جاتی تھیں کہ خدا خیر کرے۔ خدا خیر کرے۔ ابا نے امی سے کہا کہ ڈرامائی نہ بنیں اور فی الحال صرف فون کریں۔ پھر مجھے کہا کہ میں ان کے ساتھ آؤں تا کہ ہم دونوں کالج سے کچھ پتہ لے کے آئیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا بندوق اور کارتوس بھی لے لیں جس پر ابا نے مجھے خفگی سے دیکھا اور کہا:

    ’’چلو گاڑی میں بیٹھو‘‘ اور بڑبڑا کے ’’idiot’’ بھی کہا۔

    ۔۔۔۔۔۔

    جب ہم کالج پہنچے تو اندھیرا چھا رہا تھا اور کالج کے بڑے گیٹ کے اندر ٹین کی چھتوں والے کار پارک میں ایک چوکیدار کرسی پہ فارغ بیٹھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا دماغ رفتہ رفتہ خراب ہو رہا تھا کیونکہ جب تک کوئی چور ڈاکو یا اور جرائم پیشہ افراد کالج پر حملہ آور نہ ہوتے اس کو کچھ نہیں کرنا تھا اور محض فارغ بیٹھنا تھا اور فارغ بیٹھنے والوں کے دماغوں میں عجیب عجیب خیالات آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے دماغ خراب ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا۔

    ابا نے گاڑی باہر کھڑی کی اور مجھ سے کہا کہ میں چھوٹے گیٹ سے اندر جاکر چوکیدار سے پوچھوں کہ کالج میں کوئی طالب علم ابھی تک موجود ہے کہ نہیں؟ چوکیدار نے بتایا کہ کافی دیر ہوئی سب جا چکے ہیں اور اگر کبھی کسی طالب علم کو کسی وجہ سے دیر تک کالج میں رہنا ہو تو چوکیدار کو اس کے بارے میں پہلے سے بتایا جاتا ہے۔ پھر اس نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی طالب علم چھپ کر اندر رہ گیا ہے تو اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ اگر ایسا ہوا تو وہ طالب علم ضرور پکڑا جائےگا اور جب وہ پکڑا جائےگا تو اس کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جائےگا۔ یعنی عبرتناک اور سبق آموز سزادی جائےگی۔ یہ بات اس نے دانت پیس کر کہی تھی، غصے میں، یوں کہ جیسے کوئی طالب علم ابھی ابھی پکڑا ہی گیا ہو جو سب سے چھپ کر، چوکیدار سے خوف کھائے بغیر اندر کالج کی عمارتوں میں جان بوجھ کے رہ گیا تھا۔ کالج کی عمارتیں زرد زرد سی تھیں جن پر بہت عرصے سے روغن نہیں ہوا تھا اور ان کی دیواروں کے بیرونی نچلے حصے، جو زمین کے نزدیک تھے اور اوپر کے حصے، جہاں بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے پر نالے لگے تھے، کائی زدہ تھے۔ ان عمارتوں میں لمبی لمبی اونچی چھتوں والی راہداریاں تھیں اور بڑے بڑے ہال کمرے جن میں آوازیں گونجتی تھیں اور تب تو بہت ہی گونجتی ہوں گی جب کالج انسانوں سے خالی ہو۔ ایسے ڈراؤنے کالج میں کیوں کوئی طالب علم جان بوجھ کر اکیلا رہ جائےگا؟ سب سے چھپ کے۔ بالکل لغو بات تھی جسے سوچ کر وہ چوکیدارخواہ مخواہ طیش میں آ رہا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ فارغ رہنے کی وجہ سے اس کا دماغ خراب ہو رہا تھا۔

    ہم گھر لوٹے تو امی نوید بھائی کے ہر ممکن دوست کو فون کر چکی تھیں اور کسی سے کچھ پتا نہ چلا تھا۔ آصف نے انھیں بتایا تھا کہ تین بجے، سب کلاسوں کے بعد، نوید بھائی کالج سے نکل کر بس سٹاپ کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ یہ سن کر امی نے بڑے ترش لہجے میں کہا تھا کہ آپ کیسے دوست ہو؟ آپ کو بھی اس کے ساتھ ہی بس پر بیٹھنا چاہیے تھا۔ آصف نے بتایا کہ وہ بس پر نہیں بیٹھ سکتا تھا کیونکہ اسے روزگھر سے گاڑی لینے آتی ہے۔ امی نے جواباً ناگواری سے ’’ہنھ‘‘ کہا تھا اور فون بند کردیاتھا۔

    کم از کم مجھے بالکل یاد نہیں تھا کہ پہلے کبھی یوں ہوا ہو کہ نوید بھائی اس طرح سارا دن گھر سے باہر رہے ہوں اور اندھیرا ہو جائے اور ہمیں معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں ہیں۔ امی فون کے نزدیک ہی بیٹھی تھیں مگر ان کو کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ اب کسے فون کریں۔ اسماعیل نے شام کی چائے رکھتے ہوئے کہا کہ وہ جاکے مارکیٹ میں دیکھ کر آتا ہے، کہیں نوید بھائی وہاں نہ ہوں۔ میں اس پر بہت حیران ہوا۔ مارکیٹ میں کیوں ہونا تھا انھوں نے؟ نوید بھائی شاید کبھی ہفتے میں ایک آدھ بار مارکیٹ چلے جاتے ہوں گے۔ کوئی ایسی شے خریدنے جس کے بارے میں اسماعیل کو سمجھانا مشکل ہو، مثلاً بجلی کی دوکان سے کوئی خاص قسم کا پلگ۔ ہاں، اسماعیل ایسا ضرور کرتا تھا کہ ایک چیز لینے بھیجو تو آدھا گھنٹہ لگا کے مارکیٹ سے واپس آتا تھا۔ بلا وجہ۔ پھر بھی امی نے کہا کہ ہاں، جاؤ، دیکھ کے آؤ۔ مگر جلدی آنا۔

    امی نے شور مچانا شروع کیا کہ کتنی بری بات ہے کہ ابا کسی بھی ایسے اثر و رسوخ والے شخص کو نہیں جانتے جس سے اس وقت بات کی جا سکے اور کہا جائے کہ کچھ مدد کرے۔ ابا نے کہا کہ ابھی ایسی نوبت نہیں آئی۔ امی نے کہا کہ خدانہ کرے کہ ایسی نوبت آئے۔ اللہ بہتر کرے اور نوید بھائی خود ہی گھر واپس پہنچ جائیں، مگر یہ کہ وہ جانتی ہیں کہ اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد خود کرتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے نوید بھائی گھر نہ پہنچے تو وہ جانتی ہیں کہ ہم کچھ نہ کر پائیں گے۔ ابا نے بس اتنا کہا کہ کھوئے ہوئے لوگوں کو ڈھونڈ نکالنا پولیس کا کام ہے۔ پولیس کو جاکے بتائیں گے تو وہ ڈھونڈ نکالے گی۔

    یہ سن کر امی نے مایوسی سے آہ بلند کی اور فون کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ آنٹی ارشد کو بتا سکیں کہ نوید بھائی کا کچھ پتا نہیں چل رہا اور ابا کیسی کتابی اور بیکار باتیں کررہے ہیں۔

    آنٹی ارشد بھاگی بھاگی آن موجود ہوئیں اور آتے ہی کہا کہ یہ سب اس چڑیل کا کیا دھرا ہے اور امی کی غلطی ہے کہ انھوں نے آنٹی ارشد کی بات پر اس وقت کان نہ دھرا جب نوید بھائی کو ایسے اعلیٰ درجے کے کالج میں داخلہ ملا تھا۔ نوید بھائی کے داخلے کے موقع پر آنٹی ارشد نے امی سے کہا تھا کہ وہ گھر میں عورتوں کی دعوت کر کے قرآن خوانی کروائیں تاکہ جو جو لوگ حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور نوید بھائی کی اس کامیابی کے خلاف ٹونے اور دیگر جادوئی عمل کرنے میں مشغول ہونے والے ہیں، ان کی ایک نہ چلے اور یہ بھی کہا تھا کہ گھر میں یوں طرح طرح کی عورتوں کو بلا کے ان سے قرآن شریف پڑھوا کے ایسی مکروہ کوششوں کو ناکام بنا دینا ضروری ہے۔ ابا نے کہا تھا کہ یہ بالکل غیرضروری ہے اور آنٹی ارشد صرف دعوت اڑانا چاہتی ہیں۔ اگر کلام پاک پڑھنا ہی مقصود ہے تو امی خود پڑھ سکتی ہیں۔ آنٹی ارشد نے بتایا تھا کہ نہیں، جو بات ان کی تجویز کردہ عورتوں کے پڑھنے میں ہے وہ ایک بیچاری امی کے پڑھنے میں نہیں ہو سکتی۔

    ابا اس بات پر بھی چڑے تھے کہ آئے روز لوگ کالجوں میں داخل ہوتے ہیں، اس میں ایسی کیا خاص بات ہو گئی ہے کہ آنٹی ارشد ایسی تجویز دے رہی ہیں۔ سو انھوں نے ویسی قرآن خوانی منعقد نہ ہونے دی جیسی آنٹی ارشد چاہتی تھیں۔ آنٹی ارشد تب بہت بڑبڑائی تھیں اور اب اس موقع پر انھوں نے ابا کی طرف دیکھ کر کہا:

    ’’ویکھیا؟ اوس چڑیل دا جادو کم کر گیا اے۔ ہائے توں میری گل نہیں منی نا۔ میں اینا کہیا سی۔ بھاویں توں صرف نان حلیم تے کشمیری چائے رکھ لیندی۔ پر لیڈیز نوں بلانا بڑا ضروری سی‘‘(4)

    ابا کو غصہ آنے لگا۔ انھوں نے آنٹی ارشد سے کہا کہ وہ فضول باتیں نہ کریں کیونکہ ابھی ایسا کچھ نہیں ہوا جس کی بنا پہ ایسی آہ و بکا کو یوں بلند کیا جا سکے۔ پھر انھوں نے مجھے اپنے ساتھ آنے کے لیے کہا۔ تھانے۔

    اندھیرا مکمل چھا چکا تھا جب ہم اپنے ماڈل ٹاؤن کے تھانے جانے کے لیے نکلے جو میں نے آج تک کبھی اندر جاکے نہیں دیکھا تھا مگر اس کی دیوار کے اوپر سے ایک بار کچھ عرصہ پہلے جھانک چکا تھا جب ادھر سے گزرتے ہوئے مجھے اور عاقب کو وہاں اندر سے کسی کی ہولناک چیخیں سنائی دی تھیں۔ تب، جب ہم دونوں نے اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر رکھ کے اوپر اچک کے اندر جھانکا تھا تو دیکھا تھا کہ پولیس والے ایک آدمی کو زور زور سے اپنی چھڑیوں سے مار رہے تھے اور وہ کہتا جاتا تھا:

    ’’آئے لا۔۔۔ آئے لا۔۔۔ آئے لا جی۔۔۔‘‘

    یعنی کہ ’’ہائے اللہ۔۔۔ہائے اللہ۔۔۔ہائے اللہ جی۔۔۔۔‘‘

    مجھے اس دن سے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ میرے دل میں ایسی کوئی تمناّ نہیں کہ میں اس عمارت کے اندر جاؤں، جو گھر نما تھی اور زرد رنگ کی، جس کا مطلب ہے کہ یہ عمارت بہت پرانی تھی کیونکہ پرانی زرد زرد عمارتیں عام طور پہ وہ تھیں جنھیں ہندو اپنے زمانے میں تعمیر کرکے گئے تھے۔ ہندوؤں کے زمانے سے مطلب ہے لگ بھگ وہ یا اس سے پہلے کا وقت جب ابھی یہ سب، لاہور، کراچی،سرگودھا وغیرہ پاکستان نہیں بلکہ ہندوستان ہی میں تھے۔یہ بات نہیں کہ اس زمانے میں یہاں مسلمان ہوتے نہیں تھے، کیونکہ مسلمان تو بہت عرصہ پہلے مناسب موقع دیکھ کے یہاں ہندوستان میں آن موجود ہوئے تھے، مگر یہ کہ تب ان علاقوں میں ہندو بھی بے شمار ہوتے تھے کیونکہ وہ یہاں بہت پہلے سے قیام پذیر تھے۔ ان میں سے کئی یہیں ہمارے ماڈل ٹاؤن میں بھی رہتے تھے۔ بٹوارے کے وقت تک۔ یعنی اس وقت تک جب ابھی ڈاکٹر صاحب کے ایک خواب دیکھنے کے نتیجے میں پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب، یعنی علامہ محمد اقبال، جن کے بارے میں بے شمار کتب اور رسائل میں یہ صاف صاف درج ہے کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے شخص تھے اور ان کی تحریر کردہ کتب پڑھ کے یہ فی الفور معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ دیگر علمی اور دینی باتوں کے علاوہ انتہائی اونچے درجے کی شاعری میں مہارت رکھتے تھے۔ گویہ اور بات ہے کہ اب میں کسی بات کا، کسی بھی بات کا یقین نہیں کرتا، چاہے وہ کسی کتاب میں لکھی ہو یا رسالے میں، جب تک خود اس بات کا تجربہ نہ کرلوں اور تب بھی اکثر سوچتا ہوں کہ کہیں یہ تجربہ کسی شعبدے کا نتیجہ نہ ہو۔

    بہر حال، جھوٹ ہو یا سچ ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر محمد اقبال یہ کہتے تھے کہ تمام مسلمان ایک قوم ہیں اور چونکہ وہ اس بارے میں کسی وجہ سے بہت زیادہ سوچ بچار کیا کرتے تھے اس لیے ایک روز ان کے خواب میں یہ آ گیا کہ یہ قوم ایک علیحدہ ملک بنا لے۔ مگر دیگر مسلمان ممالک نے ڈاکٹر صاحب کی اس تجویز پر قطعاً کان نہ دھرا کہ اس خاص الخاص قوم کا ایک علیحدہ ملک بنا دیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی تو خواہش تھی کہ افریقہ میں بہتے لمبے دریا نیل سے لے کر ملک چین کے صوبہ کا شغر تک مسلمانوں کا ایک ہی ملک بن جائے، یعنی پاکستان، جسے عرب لوگ بےشک باکستان کہتے رہیں جیسا کہ وہ تاحال کہتے ہیں۔ مگر چونکہ عرب خطے کے لوگ جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے، اپنے سوا کائنات کی باقی مخلوق کو کچھ نہ کچھ نچلے درجے کا تصور کرتے ہیں، اس لیے وہ ہر گز، ہرگز ڈاکٹر صاحب کی بات کو نہیں مان سکتے تھے۔ ممکن ہے ان تک پہنچی بھی نہ ہو کیونکہ اس زمانے میں ذرائع مواصلات محدود تھے اور کاغذات کو فیکس وغیرہ نہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اگران تک ڈاکٹر صاحب کے خواب کی خبر پہنچ بھی جاتی تو مجھے یہی لگتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی تجویز سن کر قہقہہ لگاتے اور حقارت سے کہتے: ’’اونہہ۔‘‘

    سو اس وقت سے قبل کی تھی یہ تھانے کی عمارت، جس وقت ہمارا ملک ایجاد ہو رہا تھا تاکہ کم از کم وہ مسلمان جو یہاں موجود ہوں یا ہجرت کرکے یہاں آ جائیں وہ غیر مذاہب کے اثرات سے محفوظ رہیں اور اپنے پیارے مذہب کی حفاظت کریں اور اس کی برکت کے طفیل حیرت انگیز تیز رفتاری سے ترقی کریں۔ اس سارے کاروبار کے دوران بہت سے مسلمان لوگ وہیں ہندوستان میں ہی رہے اور وہ وہاں بیٹھ کر ان پاکستان والے مسلمانوں کے خلاف ہوتے چلے گئے کیونکہ ایک تو وہ یہ کہتے تھے کہ لو جی، ہم یہاں ہیں، اتنے کروڑوں مسلمان اور یہ اپنا ملک علیحدہ بنانے چلے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہمارے سینوں پر یہ کہہ کر مونگ دلتے ہیں کہ ہم نے پاکستان اس لیے بنایا ہے کہ ہندوستان میں صحیح طور پر مسلمان بن کے رہنا ممکن نہیں ہے اور مسلمان کوئی ایک ایسی خاص قوم ہیں جنھیں بس علیحدہ ایک ملک کے طور پر رہنا چاہیے۔ یعنی ان کے نزدیک ہم ان سے کم تر درجے کے مسلمان ہیں کیونکہ ہم ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے تھے، بلکہ ہو سکتا ہے اب تک کہتے ہوں، کہ ہم تو زیادہ بڑے مسلمان ہیں کیونکہ دیکھو کیسے ہم ان ہندو لوگوں کے عین درمیان اپنے مذہب کا جھنڈا بلند کئے ہوئے ہیں، یہاں عین ہندوستان کے بیچ، انواع و اقسام کے خداؤں کو پوجنے والے ہندو لوگوں کے درمیان۔

    اسی ہندوستان کی جانب، ماڈل ٹاؤن اور دیگر جگہوں سے ہندو لوگ بٹوارے کے وقت چلے گئے تھے اور جو زندہ ادھر پہنچ گئے تھے وہ وہاں وہاں بس گئے تھے جہاں جہاں ان کا دل چاہا تھا کیونکہ دیگر ممالک کی طرح وہاں ہندوستان میں بھی بہت سے شہر اور گاؤں تھے، جہاں جایا جا سکتا تھا اور جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہائش پذیر ہو سکتے تھے اور طرح طرح کی باتوں میں یقین رکھ سکتے تھے۔ مثلاً یہ کہ کائنات میں خداؤں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے اور وہ سب خدا اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں، جیسا کہ بارش کرنا، محبت پھیلانا، یا گھٹانا، کسی کی موت لے آنا، یا پھر یہ کہ تمام عالم کا خدا ایک ہی ہے اور مزید کچھ اور بھی ہیں جن کے بارے میں ٹھیک سے پتہ نہیں چلتا کہ کیا مانتے ہیں جیسا کہ پارسی، جو کسی وجہ سے آگ سے خاص رغبت رکھتے ہیں اور اس بات پر بالکل آمادہ نہیں ہوتے کہ آپ ان کا مذہب اختیار کرکے ان کے دائرہ دین میں داخل ہو جائیں کیونکہ ان کے نزدیک یہی بہتر ہے کہ مزید لوگ ان کے مذہب میں داخل نہ ہوں۔

    بہرحال، وہ ہندو لوگ وہاں چلے گئے، ہندوستان؛ عجلت میں اور ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو راستے میں کوئی مسلمان ہلاک نہ کردے کیونکہ یہ بات دیکھنے میں عام آئی ہے کہ وہ لوگ جن کے مذاہب ایک دوسرے سے مختلف ہوں، اس بات پر بہت طیش میں آتے ہیں کہ کوئی دوسرا کیوں اپنے دل یا دماغ میں ہم سے کسی مختلف مذہب پر یقین رکھتا ہے اور کیوں نہیں مانتا کہ اصل میں ایمان لانے کے لائق مذہب وہی ہے جس کو ہم مانتے ہیں۔ پھر اس سے زیادہ طیش میں وہ اس بات پر آتے ہیں کہ جب ہم اسے کہہ بھی رہے ہیں کہ جس کو ہم کہتے ہیں تم فوراً اسی کو خدا مانو تو یہ کیوں ایسا نہیں کہہ رہا اور کیوں اس کے دل سے بھی وہی آواز نہیں نکل رہی جیسی کہ ہم اسے نکالنے کو کہہ رہے ہیں اور اگر اور کچھ نہیں تو یہ ہمارے خوف سے ہی یہ کیوں نہیں کہہ دیتا کہ’’اچھا چلو مان لیا، مان لیا، دل بدل گیا، دل بدل گیا۔۔۔ آج سے میں تمہارے والے خدا کو مانتا ہوں۔‘‘ ان معاملات میں کبھی یہ لوگ ایسے طیش میں آتے ہیں کہ ایک دوسرے کو ہلاک کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر فخر سے بتاتے ہیں کہ دیکھو ہم نے کس طرح دس، بیس، سو، پانچ سو ایسے لوگ ہلاک کئے جن کا دل ہماری تنبیہہ کے باوجود فوری طور پر بدل نہیں پا رہا تھا اور وہ، جھوٹ یا سچ، یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ وہ ہمارے مذہب پر ایمان لے آئے ہیں۔

    چونکہ ہندو لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ ایک دن ہندوستان کا بٹوارا ہوگا اور انھیں اپنے آبائی مقامات سے نکلنا پڑےگا اس لیے انھوں نے طرح طرح کی عمارات یہاں تعمیر کروائی ہوئی تھیں، جیسے یہ تھانے کی عمارت، یا گنگا رام ہسپتال اور گلاب دیوی ہسپتال۔ چونکہ عمارات زمین سے جڑی ہوتی ہیں، ان کو ساتھ ادھر ادھر لے جانا ممکن نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں کسی کام سے، یا بیشک تفریح کے لئے، چین جا رہا ہوں، یا جاپان، یا حبشہ اور اپنا گھر بھی ساتھ لے جا رہا ہوں۔ یہ ممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ کوئی صندوق یا بہت ہو گیا تو بستر بند لے جا سکتے ہیں تاکہ وہاں جاکر سونے میں دقت نہ ہو اور اس کے بابت بھی ہوائی کمپنی یا ریلوے کا عملہ آپ کو صاف صاف بتا دیتا ہے کہ بس اس وزن اور اس حجم کی چیزیں ہی لے جا سکتے ہو، اس سے زیادہ نہیں۔ ہندو یہاں سے عجلت میں بھاگے تھے اور اپنی عمارات کے ساتھ ساتھ بہت ساری دوسری چیزیں بھی یہیں چھوڑ گئے تھے جنھیں پھر مسلمانوں نے مزے لے لے کر استعمال کیا، قطع نظر اس کے کہ وہ چیزیں ہندوؤں کی تھیں اور مسلمان ہر گز یہ ماننے کو تیار نہیں ہو سکتے کہ کائنات میں اتنے لاتعداد خدا ہوتے ہیں، جتنے کہ سنا گیا ہے کہ ہندو سمجھتے ہیں کہ ہوتے ہیں، یا یہ کہ ان خداؤں میں سے کچھ کی ظاہری صورت جانوروں سے مشابہہ ہوتی ہے، مثلاً ہاتھی جیسا کوئی قد آور یا گائے جیسا مفید جانور۔

    اور نہ ہندو کوئی بات اس کے برعکس مان سکتے ہیں۔

    ہم گاڑی کھڑی کرکے تھانے کے اندر جانے لگے تو وردی والے باہر کھڑے ایک آدمی نے ہم سے آنے کی وجہ پوچھی۔ ابا نے بتایا کہ ہم ایس ایچ او سے ملیں گے۔ اس نے پوچھا کیوں؟ ابا نے کہا کہ رپورٹ درج کروانی ہے۔ اس نے کہا رپورٹ ایس ایچ او صاحب درج نہیں کرتے، آپ وہاں جائیں، اس کمرے میں۔ ابا کو لگا ہوگا کہ انھیں کچھ غیر اہم سمجھا گیا ہے جبکہ وہ شاید سمجھتے تھے کہ ان کو اس سے زیادہ اہمیت ملنی چاہیے تھی اور ایس ایچ او سے ملنے کے لیے لے جایا جانا چاہیے تھا جیسے کہ اس سے ملنا کوئی خاص اعزاز کی بات ہو۔ سو ابا نے کہا کہ نہیں، ایس ایچ او صاحب کو بتاؤ کہ میں آیا ہوں اور ساتھ ہی اپنا نام بھی بتایا۔ اس کمینے نے کہا کہ ایس ایچ او صاحب یا بے حد مصروف ہوں گے یا آرام کر رہے ہوں گے، اس لیے ان کا ملنا ممکن نہیں۔ آپ جا کے وہیں اسی کمرے میں رپورٹ درج کروائیں کیونکہ یہی طریقہ ہے۔ ابا کچھ دیر کھڑے اسے دیکھتے رہے۔ شاید سوچ رہے تھے کہ کیا کچھ اور ہے جو وہ اس موقع پر کہہ سکتے ہوں؟ پھر انھوں نے مجھ سے کہا کہ ہاں ویسے رپورٹ ہی تو درج کروانی ہے۔ آؤ اس کمرے میں چلیں۔

    اس کمرے کی طرف جاتے ہوئے، جہاں اس نے کہا تھا کہ جاؤ اور جہاں ایک پیلا بلب ایک گندی تار کے ساتھ چھت سے لٹک رہا تھا، ہم ایک اور کمرے کے سامنے سے گزرے، جس کا دروازہ بند تھا اور باہر لکھا تھا ’’عبیداللہ۔ اسٹیشن ہاؤس آفیسر’’یعنی SHO‘‘ رپورٹ درج کروانے والے کمرے میں ایک پولیس والا وردی پہنے بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ میز پر ایک ریڈیو کی طرح کا آلہ رکھا تھا جس میں سے وقفے وقفے سے آوازیں برآمد ہوتی تھیں اور جن سے یہ صاف معلوم ہو جاتا تھا کہ پولیس والے ایک دوسرے کو اس آلے کی مدد سے شہر میں جا بجا ہونے واے واقعات اور اپنی نقل و حرکت سے باخبر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بڑی اچھی بات تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ اگر کہیں کوئی خبر نوید بھائی کے بارے میں موجود تھی تو اس جدید ایجاد کی بدولت وہ آناً فاناً، آواز کی رفتار سے ادھر سے ادھر پہنچ سکتی تھی۔ چاہے آواز کی رفتار اور روشنی کی رفتار میں بہت فرق ہی کیوں نہ ہو، مگر آواز کی رفتار بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ہوائی جہاز آواز کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے اڑنے لگے تو ایک زور کا دھماکہ ہوتا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ سنو سنو، کیسی حیرت انگیز بات وقوع پذیر ہوئی ہے کہ ایک سواری نے کتنی تیزی سے حرکت کی ہے۔ روشنی کی رفتار سے چلنا یا اڑنا تو خیر ممکن ہی نہیں ہے اور اگر کوئی خاص قسم کے لوگ ایسا کر بھی لیتے ہیں تو پھر یقینی ہے کہ وہ فضا میں تحلیل ہوکے کہیں دور نکل جاتے ہیں یا شاید خاک ہوکر کائنات بھر میں برابر بکھر جاتے ہیں یا پھر کسی ایسے ارفع مقام پر پہنچ جاتے ہیں جس کا حال وہی جانتے ہیں۔ وہاں کا حال ہم اس لیے نہیں جان سکتے کہ اگر روشنی کی رفتار سے حرکت کرنے کا کوئی طریقہ ہے تو ہمیں اس کی مشق نہیں ہے اور نہ ہم ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جن کو اس کی مشق ہو اور عام طور پر اگر کوئی کہے کہ مجھے ایسی مشق ہے تو وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے کیونکہ ایسا کر سکنے والے اور ایسے مقامات تک جا پہنچنے والے شیخی نہیں بگھارتے پھرتے۔

    رپورٹیں درج کرنے پہ مامور پولیس والا ایک موٹا آدمی تھا۔ ابا نے اس کے سامنے جا کے کہا، ’’السلام علیکم۔ ‘‘

    اس نے وعلیکم اسلام کہا اور ابرو کو اوپر اٹھایا گویا اشارے میں پوچھتا ہو کہ ’’کیا ہو گیا؟ کیا مصیبت لے کے آئے ہو میرے لئے؟‘‘

    ابا نے بتایا کہ ہم فلاں گھر میں رہتے ہیں اور ایک رپورٹ درج کروانے آئے ہیں۔ اس نے پوچھا کیا رپورٹ؟ ابا نے بتایا:

    ’’میرا بڑا بیٹا صبح سے گھر نہیں آیا۔‘‘

    موٹے پولیس والے کے نزدیک یہ کوئی خاص بات نہیں تھی۔ مجھے تو وہ باتیں بھی اس کے نزدیک اہم نہیں لگ رہی تھیں جو اس جدید اور مفید آلے میں سے آواز کی رفتار سے برآمد ہو رہی تھیں کیونکہ وہ ان کو غور سے نہیں سن رہا تھا، جبکہ میں، حالانکہ میں پولیس مین نہیں تھا، بے حساب انہماک سے ان پر توجہ دے رہا تھا۔ کوئی چاہے تو موٹے پولیس والے کے حق میں یہ دلیل پیش کر سکتا ہے کہ اس میں ایسی کوئی برا ماننے کی بات نہیں ہے کہ وہ ان آوازوں پر توجہ نہیں دے رہا تھا کیونکہ ہو سکتا ہے ان میں اس کو مخاطب ہی نہ کیا جا رہا ہو۔ مگر میں اس دلیل کے خلاف یہ دلیل دے سکتا ہوں کہ مجھے کون سا ان آوازوں میں مخاطب کرکے بات کی جارہی تھی؟ میں تو پھر بھی انھیں غور سے سن رہا تھا۔ ان آوازوں کو نشر کرنے والے تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ میں وہاں دوسرے سرے پر، اس آلے کے نزدیک کھڑا ہوں۔ ابا کے ساتھ۔

    ’’کہاں گیا تھا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’کالج‘‘ ابا نے بتایا۔

    پولیس والے نے نوید بھائی کے بارے میں کچھ سوالات اور کئے۔ ان کا نام، ان کے کالج کا نام، کون سے سال میں پڑھتے ہیں اور حلیہ بھی۔ ان سوالات کے جوابات سننے کے بعد اس نے خیال ظاہر کیا کہ ہم خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں اور کالج جانے والے نوجوان لڑکوں کا کبھی کبھار بغیر بتائے غائب رہنا بالکل عجیب بات نہیں۔

    ’’کسے دوست دے نال چلا گیا ہووےگا‘‘ (5)، اس نے کہا۔ ’’تھوڑی دیر ہور ویکھ لوو‘‘۔(6) اسے یہ سمجھانے کی کوشش کرنا ایک بےمعنی فعل ہوتاکہ ہم اپنی تسلی کر چکے تھے کہ نوید بھائی کسی دوست ووست کے ساتھ نہیں گئے تھے۔ اس نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم گھر چلے جائیں اور اگر صبح تک نوید بھائی نہ آئیں تو پھر ہم رپورٹ لکھوانے آ جائیں۔

    ’’اور صبح تک کیا کریں؟‘‘یہ میں نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ انتظار‘‘ اس نے کہا اور پھر کچھ توقف سے بولا:

    ’’ یا پھر ہسپتالوں میں پتہ کر لیں ‘‘۔

    ’’کہاں؟‘‘ میں نے بے حد حیران ہوکے پوچھا۔ ’’ہسپتالوں میں؟ کیوں؟‘‘

    اس نے کہا کہ اگر تو انہیں، یعنی پولیس والوں کو کوئی خبر آئی تو وہ ضرور ہمیں بتا دیں گے لیکن اگر ہم چاہیں تو ہسپتالوں میں چیک کر لیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ نوید بھائی کسی حادثے کا شکار ہو گئے ہوں۔

    یہ ایک خوفناک بات تھی۔ مجھے دھچکا سا لگا۔ حادثے کا شکار؟ ‘‘شکار؟‘‘ ایسے کیسے کوئی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کسی کو ڈھونڈنے جائیں اور وہاں لوگ اچانک ایسی بات کہہ دیں کہ جنھیں آپ ڈھونڈھ رہے ہیں کہیں وہ حادثے کا ’’شکار’’ نہ ہو گئے ہوں؟ مگر تب یکلخت مجھے احساس ہوا کہ ہم جو پولیس اسٹیشن آئے تھے تو ظاہر ہے کہ نوید بھائی کے بارے میں کوئی خوشخبری کی امید رکھ کے تو نہیں آئے تھے۔ کیسے میں اطمینان سے گاڑی میں بیٹھ کر ابا کے ساتھ تھانے آیا تھا جیسے ہم کہیں سیر کرنے جا رہے ہوں۔ کیسے اس سے پہلے ہم کالج ہو آئے تھے اور گو کہ میں جانتا تھا کہ لوگ حادثوں بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں اور rabies کی بیماری کے ہاتھوں اپنے پیارے Happy کی روح کو پرواز کرتے ہوئے بھی دیکھ چکا تھا مگر آج، اس تمام اثناء میں، ابھی تک میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا تھا کہ نوید بھائی کو ڈھونڈنے ہسپتال بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ اس اندیشے کے تحت کہ وہ کسی حادثے کا ’’شکار’’ نہ ہو گئے ہوں۔

    ابا قائل ہو گئے کہ ہاں یونہی کر لیتے ہیں۔ ابھی جا کے ہسپتال وغیرہ دیکھ لیتے ہیں اور اگر کچھ پتا نہ چلا تو کل یہاں واپس آئیں گے۔ جب ہم پولیس والے کی بکواس اور غلیظ مشورہ سن کے باہر نکلے تو ہم نے دیکھا کہ ایک عورت SHO کے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آ رہی تھی۔ یہ ایک موٹی اور سانولے رنگ کی عورت تھی جس کا قد کافی لمبا تھا اور اس نے ایک پھولدار جوڑا پہنا ہوا تھا۔ کمرے سے باہر نکل کر وہ ہمارے آگے آگے چلتی ہوئی وہاں پہنچی جہاں وہ سادہ کپڑوں والا بیٹھا تھا، یعنی گیٹ تک، جس کے باہر ایک رکشہ موجود تھا۔ جب یہ صحت مند اور لمبی عورت اس رکشے میں گھسنے لگی تو ہم نے دیکھا کہ سادہ کپڑوں والے نے اس کے کولہے پر ہلکی سے چپت لگائی۔ صحت مند اور لمبی عورت غصے سے اس کی طرف مڑی اور بڑی درشتی سے کہا۔ ’’بکواس نہ کریا کر میرے نال‘‘۔(7) پھر وہ رکشے میں بیٹھ کے چلی گئی۔ ہم دونوں نے یہ واقعہ دیکھا مگر ایسے خاموشی سے چلتے ہوئے آکے گاڑی میں بیٹھ گئے کہ جیسے نہ دیکھا ہو۔

    ۔۔۔۔۔۔

    تھانے سے نکل کر ہم پہلے گھر گئے تاکہ دیکھ لیں کہ وہاں کیا حالات ہیں اور پھر ہسپتالوں کے چکر لگانا شروع کریں۔ گھر پہ آنٹی ارشد امی کو لوگوں کے بچوں کے گمنے کے خوفناک قصے سنا رہی تھیں جن میں کسی میں لاش بہت دنوں کے بعد نالے سے برآمد ہوتی تھی اور کسی میں بوری میں بند کرکے اغوا شدہ بچے کے گھر کے باہر پھینک دی جاتی تھی حالانکہ یہ غیرضروری تھا اور ایسی لاش کہیں بھی پھینکی جا سکتی تھی۔ ہم جب گاڑی سے اترے تو اسماعیل بھاگا بھاگا آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آنٹی ارشد اندر امی سے اس قسم کی گفتگو کر رہی ہیں اور یہ بھی کہ آنٹی ارشد تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہہ رہی ہیں کہ:

    ’’فون آئےگا۔ انتظار کرو‘‘۔

    ’’کس کا فون آئےگا؟‘‘ ابا نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا کیونکہ آنٹی ارشد اس وقت پھر یہی کہہ رہی تھیں۔

    ’’جو لے گئے ہیں‘‘۔ آنٹی ارشد نے کہا۔

    ’’کون لے گئے ہیں ــ؟‘‘ ابا کو غصہ آنے لگا۔’’ آپ جانتی ہیں انہیں؟ آپ کے کوئی واقف لے گئے ہیں؟‘‘

    ’’اغوا لگتا ہے۔ نہیں؟‘‘ آنٹی ارشد نے کہا۔

    اسماعیل نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ آنٹی ارشد یہ تجویز دے چکی ہیں کہ اغواء کرنے والوں کا فون آئے تو اسماعیل ان سے بات کرے اور اگر وہ پیسے مانگیں تو کہے کہ آپ نے غلط بچے کو اٹھا لیا ہے کیونکہ وہ تو یتیم ہے اور اس کے لیے تو آپ کو کوئی شخص پیسہ دینے کو تیار نہیں ہوگا۔ ابا آنٹی ارشد کو گھر بھیجنا چاہتے تھے مگر پھر امی اکیلی رہ جاتیں جبکہ ابھی ہمیں ہسپتالوں کو جانا تھا۔

    ابا نے آنٹی ارشد سے کہا کہ وہ ایسی بیہودہ باتیں نہ کریں جن سے امی کا حوصلہ بلند ہونے کی جگہ پست ہو۔ آنٹی ارشد کا استدلال اس پر یہ تھا کہ میں تو اچھی بات کر رہی ہوں۔ میں تو کہہ رہی ہوں کہ فون آئےگا اور وہ پیسے مانگیں گے۔ یعنی ہمیں نوید کو بچانے کا موقع ملےگا۔ یہ تھوڑا ہی کہہ رہی ہوں کہ خدا نخواستہ وہ اسے ہلاک کرکے بوری میں بند کر دیں گے۔

    ’’نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ نہ۔ خدا نخواستہ۔ توبہ۔‘‘ آنٹی ارشد نے کہا۔

    ابا آنٹی ارشد کے اس کلام سے اور بھی جز بزہوئے مگر ابھی کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ہم سب کو سانپ سونگھ گیا۔ آنٹی ارشد نے معنی خیز فاتح مسکراہٹ سے فون کو دیکھا اور زیر لب کہا۔

    ’’ آ گیا‘‘۔

    فون بج رہا تھا، سب اس کی جانب دیکھ بھی رہے تھے، مگر کوئی اسے اٹھانے کے لیے جنبش نہیں کر رہا تھا۔ جیسے کوئی بڑا عجیب واقعہ ہو رہا ہو اور سب مبہوت ہوں۔ یکلخت ابا نے کہا۔

    ’’کیا ہے؟ اٹھاتے کیوں نہیں ہو؟‘‘ اسماعیل کو مخاطب کرکے کہا یہ۔ یہ نہیں کیا کہ خود آگے بڑھ کر اٹھا لیں۔ اسماعیل نے فون اٹھایا اور دو دفعہ جی جی کر کے چونگا ابا کو پکڑا دیا۔ وہ آنٹی ارشد کے نزدیک ہی کھڑا تھا۔ آنٹی ارشد نے فوراً اسے کرتا پکڑ کے اپنی جانب کھینچا۔

    ’’کتنے مانگے ہیں؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔

    اسماعیل نے بتایا کہ اغوا کرنے والوں کا نہیں بلکہ نوید بھائی کے کالج کے پرنسپل صاحب کا فون ہے۔ آنٹی ارشد نے اس پر ناک بھوں چڑھائی کہ اتنے اہم وقت میں کیوں ایسے غیرضروری لوگوں کی وجہ سے فون کو مصروف رکھا ہوا ہے جبکہ اغوا کنندگان، جو ہو سکتا ہے کہ قاتل بھی ہوں، کبھی بھی فون کر سکتے ہیں اور ایسے خطرناک لوگ تو غصے کے بہت تیز ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فون کرنے والے کے سامنے نوید بھائی بےبس بیٹھے ہوں۔ یا کھڑے ہوں اور جب اس شخص کو پرنسپل صاحب کی کال کی وجہ سے ہمارے گھر کا فون مصروف ملے تو وہ اپنے دوسرے ہاتھ کے ایک ہی جھٹکے سے نوید بھائی کا سر تن سے جدا کر دے یا اگر اس کے پاس پستول ہو تو شاید وہ فوراً لبلبی دباکے نوید بھائی کو گولی مار دے اور وہ تڑپ تڑپ کے مر جائیں۔

    ’’ہتھیاراں دی کوئی کمی نہیں اے اج کل؟‘‘ (8)انھوں نے کہا۔

    ابا چونگا کان سے لگائے بس ہوں ہاں، جی اچھا، جیسے الفاظ بول رہے تھے۔ ایسے، کہ جیسے پرنسپل صاحب انھیں ڈانٹ پلا رہے ہوں۔ بیچ میں ایک بار حیرت زدہ آواز میں پوچھا ’’ماڈل ٹاؤن؟‘‘ پھر ایک دو بار ہوں ہاں کرکے تھینک یو کہہ کر فون بند کر دیا۔

    ’’کیا ہوا؟‘‘ امی نے پوچھا۔

    یکلخت آنٹی ارشد نے چیخ ماری اور کہا ’’مینوں سمجھ آگئی اے‘‘۔(9)

    ’’ہائے۔۔۔کیا ہوا؟‘‘ امی نے مڑ کے پوچھا، کیونکہ وہ اپنا منہ ابا کی جانب کئے کھڑی تھیں۔

    ’’ہائے۔پتا لگ گیا اے مینوں۔ ہائے۔ سمجھ آ گئی اے پرنسپل نے فون کیوں کیتا اے۔ ہائے ندرت جان‘‘۔(10)

    ابا نے حیرت سے آنٹی ارشد کو دیکھا اور امی نے ابا کو۔

    ’’کیا سمجھ آئی ہے آپ کو؟‘‘ ابا نے پوچھا۔

    ’’اینا پریشر کیوں پایا ندرت جان؟ کیوں؟؟ دسو مینوں! توں تے آپ ہائپرٹینشن دی مریض ایں۔ بچے وچارے تے اینا پریشر کیوں پایا؟ کیوں اوہنوں اینی ٹینشن دتی کے اے انجام ہووے؟ دسو مینوں۔‘‘ (11)

    امی نے ابا سے پوچھا کہ آنٹی ارشد یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ ابانے کہا آپ کی سہیلی ہیں، آپ بتائیں۔ میں یہ ڈرامہ بازی نہیں سمجھ سکتا۔

    امی نے آنٹی ارشد سے کہا کہ باجی، پہلے ہی پریشانی ہے، اب آپ یہ کیا ناٹک دکھانا شروع ہوئی ہیں؟ کیا اول فول بک رہی ہیں؟ تب آنٹی ارشد نے چند لمحے اور آہ و زاری کرنے کے بعد کہاکہ وہ بالکل بے قوف نہیں ہیں اور خبردار، کوئی ان کو ایسا نہ جانے۔ وہ سمجھ گئی ہیں کہ نوید کالج کی مشکل پڑھائی اور ماں باپ کے دباؤ سے دق ہوکے اپنے آپ کو پنکھے یا چھت پر لگی کسی اور چیز سے لٹکا کر خودکشی کربیٹھا ہے اور نہیں بھی کر بیٹھا تو یہ یقینی ہے کہ اس نے ایسی کوشش کی ہے۔ یا پھر کم ا ز کم اس ذہنی دباؤ اور ٹینشن کی وجہ سے اس کے دماغ کی نس پھٹ گئی ہے۔ پھر انھوں نے کہا:

    ’’میں پاگل نہیں ہوں ندرت جان۔ کالجوں کے پرنسپل بغیر وجہ راتوں کو بچوں کے ماؤں باپوں کو ٹیلیفون نہیں کرتے۔‘‘

    امی جتنی بھی آنٹی ارشد کی سہیلی اور ہمراز ہوں، ایسی بیہودہ قیاس آرائی کو یوں ہضم کرنے والی نہیں تھیں۔ انھوں نے ڈانٹ کر کہا کہ باجی بس۔ خاموش ہو جائیں فوراً اور جس نے فون سنا ہے اس کو بولنے دیں۔ پھر انھوں نے ابا کو ڈانٹا کہ منہ میں گھنگنیاں ڈالے کھڑے ہیں۔ بولیں گے کچھ یا نہیں؟

    ابا نے کہا کہ عنقریب وہ مقام آنے والا ہے کہ آنٹی ارشد کی باتیں ان کے برداشت سے باہر ہو جائیں گی۔

    ’’کہا کیا ہے پرنسپل نے؟ نوید کے بارے میں کچھ کہا ہے یا نہیں؟‘‘ امی چلائیں۔

    ’’ہاں کہا ہے‘‘ ابا نے کہا۔

    ’’تو بولیں نہ کیا کہا ہے۔ ‘‘ وہ نیم ہذیانی ہونے لگیں۔

    ’’وہ گرفتار ہو گیا ہے‘‘ ابا نے کہا۔

    ’’گرفتار؟؟؟‘‘

    ۔۔۔۔۔۔

    ایسا پہلے کبھی ہمارے گھر میں ہوا نہیں تھا۔ ایسا اندوہ ناک واقعہ۔ گرفتاری کا۔ ابا گنگ تھے اور کچھ سوچ نہ پا رہے تھے کہ کیا کیا جانا چاہیے؟ امی بار بار انھیں کہہ رہی تھیں کہ کچھ کریں، کچھ کریں، مگر انھیں کچھ ایسا سوجھ نہیں رہا تھا جو وہ کر سکتے۔ امی نے کہا کہ سوچیں، کوئی دوست، کوئی واقف، جو کچھ کام آ سکے۔ ابا ایک ایک کرکے اپنے دوستوں کے نام لیتے جاتے تھے اور سر ہلاتے جاتے تھے کہ وہ بھلا کیا کر سکتے ہیں۔ وہ ہماری طرح ہی عام سے شریف لو گ ہیں۔ پھر انھوں نے ٹیلیفون کی ڈائری کھولی اور صفحے پلٹنے لگے، مگر وہاں سے بھی کچھ برآمد نہ ہوا۔ ایسی باتیں تو آپ کو صاف پتہ ہوتی ہیں کہ کوئی ایسے حالات میں مدد کر سکتا ہے یا نہیں۔ یوں تھوڑا ہی ہوتا ہے کہ آپ عین مصیبت میں فون کی ڈائری دیکھنا شروع کریں کہ شاید کسی مسیحا کا نام اس میں درج ہو اور ایسی ڈائری جس میں سب کچھ امی کی زبان اور ہجوں میں درج ہو۔ ایسا نہیں ہوتا۔

    آنٹی ارشد اپنے گھر جا چکی تھیں۔ انھوں نے جاتے جاتے کہا تھا کہ اچھی صحت ان کے نصیب میں نہیں ہے کیونکہ نوید بھائی کی گرفتاری ایسا سانحہ ہے کہ اس کے نتیجے میں بلڈ پریشر کا عودکر آنا یقینی ہے۔ انھوں نے امی سے جاتے جاتے یہ بھی کہا کہ ندرت جان، دیکھنا، اب تمہارا بلڈ پریشر کیسے ہواسے باتیں کرے گا اور پھر آنکھوں میں آنسو بھر کے بولیں:

    ’’ہن تے وچارا نوید وی نہیں اے، جو ساڈا بلڈ پریشر چیک کر سکے‘‘،(12) کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ مجھے ’’sphygmomanometer’’ سے بازوبند میں ہوا بھر کے بلڈ پریشر دیکھنا نہیں آتا۔ ابا نے آنٹی ارشد کی یہ بات سنی تو بہت غضبناک ہوئے کہ وہ یوں بول رہی تھیں جیسے خدا نخواستہ نوید بھائی کو ایسا کچھ ہو گیا ہے کہ اب وہ واپس نہیں آ سکتے۔ جیسا کہ تھانے میں پولیس والے نے کہا تھا کہ آپ ہسپتال جاکے چیک کر سکتے ہیں کہ کہیں وہ حادثے کا شکار نہ ہو گئے ہوں۔

    ’’آپ جلدی گھر چلی جائیں۔یہاں رہیں تو ایسے ہی اول فول بولتی رہیں گی‘‘۔

    آنٹی ارشد کو ایسی بات سننے کی توقع نہ تھی۔ وہ گھبرا گئیں اور کہا ہاں، جانا چاہیے۔ بہت دیر ہو گئی ہے۔ میں جا کے نماز پڑھتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ نوید بچ جائے۔

    بچ جائے؟ یہ کیا بھلا؟ کوئی وبا تو نہیں پھیلی تھی جس سے کوئی بچ جائے اور کوئی اس کی زد میں آکر ہلاک ہو جائے۔جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا۔

    ابا صدمے سے دو چار تو تھے ہی، حیران بھی تھے کیونکہ پرنسپل صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ نوید گرفتار ہے اور ماڈل ٹاؤن تھانے میں ہے۔

    ’’ایسے بھی کوئی بدذات اور ذلیل لوگ ہو سکتے ہیں؟‘‘ ابا نے کہا تھا۔ ’’ ایسے بدذات؟‘‘ ہم وہاں سے ہو کر آئے ہیں اور وہ ذلیل آدمی کہہ رہا تھا کہ اسے کچھ خبر نہیں۔ بلکہ مشورہ دے رہا تھا کہ ہسپتالوں میں جاکر دیکھ لیں۔

    ’’ہسپتال؟‘‘ امی نے غضبناک ہوکر کہا؟ ’’ اللہ کرے اوہنوں آپ ہسپتال جانا پوے۔ تسیں اوہدے مونہہ تے چپیڑ لانی سی‘‘۔(13)

    اسماعیل نے آکر کہا کے میز پر کھانا لگا دیا ہے۔ امی نے کہا پڑا رہنے دو ہم بعد میں کھا لیں گے کیونکہ ابھی پریشانی ہے اور مجھے کہا کہ تم کھا لو۔ میں نے کہا کہ مجھے بھی تو ہے پریشانی۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بھوک نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ ہے۔

    ’’تو پھر؟ کھاؤ کھانا ‘‘، امی نے کہا۔

    ’’پریشانی ہے’’ میں نے پھرکہا۔ میرا خیال تھا کہ یہ کوئی ایسی بات ہے جو بڑے لوگ خاص ایسے مواقع پر کرتے ہیں:’’پریشانی ہے، اس لیے کھانا نہیں کھا سکتے‘‘۔ جیسے پریشانی کوئی ایسی چیز ہو جو دانتوں کو نوالہ چپانے سے روکتی ہو۔

    امی بڑبڑانے لگیں: ’’انسان کوئی کام کرتا ہو، صبح کہیں جاتا ہو، کسی دفتر میں، کسی ادارے میں، تو اس کی واقفیت بنتی ہے۔ انسان کچھ کرتا ہی نہ ہو تو بس سب سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔‘‘

    میں نے ابا کو امی کی ایسی باتوں پر کبھی جھینپتے یاغصے میں آتے نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ اس بات میں پکے تھے کہ روزی کمانے کے لیے ایسا کام کرنے کی پابندی، جو انسان کو پسند نہ ہو ایک ذلیل ترین بات ہے۔ امی ایسی جلی کٹی باتیں کرتی بھی کم کم ہی تھیں سوائے اس کے کہ جب کوئی اٹکا ہوا کام کروانا ہو اور سمجھ نہ آرہی ہو کہ کس سے سفارش کروائیں۔ جیسے ابھی۔ نوید بھائی کی رہائی کے لیے۔

    ’’اچھا یہ کہاں لکھا ہے کہ واقفیت صرف میری ہونی چاہیے؟‘‘ ابا نے کہا۔

    ’’آپ کیوں نہیں کوئی بندوبست کرتیں؟‘‘

    امی نے بہت حیرت سے ابا کو دیکھا اور کہا’’تسیں کس قسم دے آدمی او؟‘‘ (14)

    ابا نے کہاکہ جس قسم کے وہ ہیں اس کا اگر کوئی نام موجود ہے تو امی بیشک استعمال کریں مگر یوں طعنے بازی کی باتیں نہ کریں کیونکہ جب پتا ہے کہ میں اس قسم کا ہوں تو پھر کڑھنے کا کیا مقصد ہوا؟ پھر سوچ کے کہا۔‘‘ اچھا چلیں، کر لیں بے شک ایسی باتیں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ باتیں محض آواز کی لہریں ہی تو ہوتی ہیں‘‘۔

    امی نے کہا کہ اگر ابا پر کوئی اثر ہونا ممکن ہوتا تو وہ ضرور ایسی مزید باتیں کرتیں اور طعنے دیتیں۔ لیکن چونکہ ایسا نا ممکن ہے اس لیے فی الحال انھیں صرف اپنے بیٹے کی فکر ہے۔ ابا نے کہا کہ بیٹے کی فکر انھیں بھی ہے مگر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ وہ صبح سے پہلے واپس نہیں آ سکتا اور جس تھانے میں ایسے ایسے ڈھیٹ اور بدذات انسان بیٹھے ہیں جو میرے منہ پر جھوٹ بول دیں، وہاں دوبارہ جا کر ان کے جھوٹ ان کے منہ پہ مارنا بےسود ہے۔

    امی نے ابا کی بات سنی ان سنی کی اور فون اٹھا کر کہیں نمبر ملانے لگیں۔

    ۔۔۔۔۔۔

    اگلے روز امی فون پر اختر آنٹی اور ان کے بیٹے کیپٹن فراز کا شکریہ ادا کرتے نہ تھکتی تھیں۔

    ’’آپا یہ تو ہماری خوش قسمتی ہو گئی کہ فراز چھٹی پر گھر آیا ہوا ہے‘‘۔ امی نے کہا۔’’ ورنہ پتہ نہیں میرا بیٹا آج کیسے چھوٹتا‘‘۔ پھر امی نے اختر آنٹی سے کہا کہ وہ اور فراز مہربانی کرکے چائے پر ہمارے گھر آئیں۔

    نوید بھائی صوفے پر بیٹھے تھے مگر معلوم ہوتا تھا کہ ناخوش ہیں۔ ابابھی خاموش بیٹھے تھے اور کچھ حیران اور ناخوش ہی نظر آتے تھے۔

    ’’میں نے کب آپ سے کہا تھا کہ مجھے چھڑوائیں؟‘‘ نوید بھائی نے غصے سے پوچھا۔

    ’’آپ نے اس کپتان کی مدد کیوں لی؟ جن کے ہم خلاف ہیں۔ جنھوں نے ہمیں گرفتار کیا، ہم ان کی ہی مدد مانگیں؟‘‘ نوید بھائی نے ’’ ڈکٹیٹر شپ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا تھا۔ یعنی کہ ذلیل اور غدار ضیاء کی حکمرانی۔

    ’’بکواس بند کرو۔‘‘ امی نے کہا۔ ’’فراز نہ ہوتا تو تم جیل میں بیٹھے ہوتے۔ آج کل فوجی عدالتیں فوراً سزائیں دے دیتی ہیں اور کوڑے بھی پڑ سکتے تھے۔‘‘

    ابا حیران تھے کہ دیکھو، ایک ستائیں اٹھائیس سال کا کپتان جا کے اپنے کسی افسر سے بات کرکے کیسے آرام سے نوید کو چھڑا لایا اور ہم جو سال ہا سال سے یہاں رہتے ہیں، ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ کیا کریں۔ یہاں تک کہ ہمارے اپنے ماڈل ٹاؤن کے اندر موجود تھانے والے کمینوں نے بھی ہمارے ساتھ ایسا جھوٹ بولا۔

    اگلے روز اختر آنٹی اور کپتان فراز چائے کے لیے تشریف لائے۔ اختر آنٹی تو بیچاری سادہ سی، عورت تھیں مگر کپتان فراز کی گردن فخر سے بہت تنی ہوئی تھی اور اس نے خوب مزے لے لے کے وہ شامی کباب کھائے جو امی خاص بناتی تھیں اور جن میں وہ کمال مہارت سے کباب کے بیچوں بیچ، باریک ادرک، پیاز اور ہر ی مرچ بھرتی تھیں۔ ایسے وہ کباب مزیدار ہوتے تھے کہ کچھ بیان اس کا ممکن نہیں اور جب آپ بے خبری میں انھیں عام سے کباب سمجھ کے کھا رہے ہوتے اور تب یکدم اندر بھرا وہ آمیزہ آپ کے منہ میں آتا تو آپ ششدر رہ جاتے تھے۔ ان کبابوں میں خاص بات یہ بھی تھی کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ جب بھی انہیں کھائیں اتنے ہی حیرت زدہ اور مسرور نہ ہوں جتنا کہ پچھلی بار کھانے پہ ہوئے تھے۔ ایسے عالیشان گول گول شامی کباب تھے وہ جو امی چابک دستی سے بناتی تھیں۔ امی نے آٹھ کباب تیار کئے تھے۔ میں امید رکھتا تھا کہ کپتان اور اختر آنٹی ایک ایک یا دو دو کباب کھا لیں گے اور باقی چار میں سے کم از کم دو میں کھا سکوں گا مگر کپتان نے چار کباب کھا لیے اور اختر آنٹی نے دو۔ خیر، وہ مہمان تھے اور ہم نے خود بلایا تھا، کھا لیے تو کوئی ایسی برا ماننے کی بات نہیں تھی۔ مگر اس شخص کے منہ سے ایک حقیر کلمہ بھی تعریف کا ان شاندار کبابوں کے بارے میں نہ نکلا تھا اور یہ میرے دل میں اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نفرت بھر دینے کے لیے کافی تھا، اس بات کے علاوہ کہ اس کے قبیلے کا سردار جنرل ضیاء تھا۔ اختر آنٹی نے کہا بھی، کہ دیکھو فراز، یہ کیسے حیرت انگیز کباب ہیں اور یہ بھی کہا کہ یہ اس روئے زمین پر صرف ندرت بنا سکتی ہے مگر اس پرکچھ اثر نہ ہوا۔

    ابا اس شکرانے کی تقریب میں زیادہ تر خاموش رہے۔ امی پہلے سے تنبیہہ کر چکی تھیں کہ فراز نے ہماری مدد کی ہے، اس لیے جب وہ آئے تو آپ اس سے اچھی، مہذب گفتگو کریں۔ ابا نے صرف دو چار مختصر سی باتیں کیں حالانکہ وہ اچھی اور مہذب گفتگو کے ماہر تھے۔ زیادہ تر باتیں تو اس تقریب میں ایسی ہی ہوئیں کہ بیٹا آج کل کہاں تعینات ہو اور کتنی لمبی چھٹی پر گھر آئے ہو، مگر ابا سے رہا نہ گیا اور یہ بھی پوچھ بیٹھے کہ یہ جو نظام حکومت تم لوگوں نے جاری کر رکھا ہے، یہ کب تک چلےگا؟ خیر ویسے تو اس کپتان کو اس کا جواب کیا پتا ہونا تھا مگر وہ ایسی رعونت کا مارا تھاکہ اس نے یوں ظاہر کیا کہ جیسے کاروبار سلطنت کے تمام امور میں اس کا دخل ہے۔

    ’’انکل، اصل میں خرابیاں بہت پیدا ہو گئی ہیں اس ملک میں۔ بہت کچھ ٹھیک کرنے والا ہے‘‘۔ وہ بولا۔

    ’’کیا خرابیاں مثلاً؟‘‘ ابا نے پوچھا، جس پر امی نے انھیں گھورا کہ خبردار جو آپ نے بحث شروع کی۔

    ’’فحاشی، اسلام سے دوری اور ایسی اور بھی چیزیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’اچھا، اچھا۔ کون ٹھیک کرےگا انھیں بیٹا؟‘‘ ابا نے پوچھا۔

    ’’ہم لوگ۔ فوجی‘‘۔ اس بیوقوف لالچی کپتان نے ان بہشتی کبابوں پر منہ چلاتے ہوئے کہا۔

    اس کی یہ بیہودہ بات سننے کے بعد ابا نے کوئی اور بات نہ کی اور نہ اس نے کی کیونکہ وہ صرف ٹرالی پر سجی چیزیں کھانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اختر آنٹی نے نوید بھائی کا پوچھا کہ وہ کہاں ہیں اور کیوں نظر نہیں آ رہے۔ امی کو اسی بات کا ڈر تھا کیونکہ اختر آنٹی کے آنے سے پہلے ہمارے گھر میں کافی فساد بپا ہو چکا تھا۔ نوید بھائی نے امی کے اس حکم کو ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا کہ جب اختر آنٹی اور ان کا بیٹا آئیں تو وہ آکر سلام کریں اور شکریہ ادا کریں۔

    ’’نہ میں نے ان کی مدد مانگی نہ میں رہا ہونا چاہتا تھا۔ میں کس لیے شکریہ ادا کروں؟ میں تو اس فرازکی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں تھکا ہوا ہوں اور سونے جا رہا ہوں۔ ‘‘ نوید بھائی نے بڑے غصے سے یہ سب کہا تھا۔

    امی کا خیال تھا کہ وہ جو بھی بک رہے ہیں بکتے رہیں، یہ تو ممکن نہیں کہ ان کی حکم عدولی کر سکیں۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک خاص قسم کی سرکشی نوید بھائی کے اندر داخل ہو چکی تھی۔ اندازہ نہ تھا کہ کالج میں اور گھر کے باہر وہ جن جن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے انھوں نے ایسا اثر ان پر کیا تھا کہ وہ باغیانہ اور سرکش ہونے لگے تھے اور گو کہ ان خصائل کا زیادہ تر اظہار وہ سیاست کی گفتگو میں کرتے تھے، مگر یہ ان کی سرشت کا حصہ بنتے جا رہے تھے۔

    امی کچھ کھسیانی سی تھیں، کچھ افسردہ بھی، کہ بیٹے نے ان کے فرمان اور خواہش کو کیسے سنا ان سنا کردیا اوروہی کیا جو اس نے کہا تھا۔ وہ شاید ڈرتی تھیں کہ اگر نوید بھائی کو اس لمحے اپنے کمرے سے باہر آنے کا پیغام بھیجا اور وہ نہ آئے تو بہت سبکی ہوگی، اس لیے انھوں نے بیچارگی سے اختر آنٹی سے سفید جھوٹ بولا کہ نوید کو بخار ہے اور وہ سو رہا ہے۔ اس پر کپتان نے چھوٹا سے قہقہہ لگایا اور کہا:ـ

    ’’شاید گرفتاری کی وجہ سے ڈر گیا ہے۔ اسی لیے بخار چڑھ گیا ہوگا‘‘۔

    اختر آنٹی نے کہا کہ چلو ایسا کیا ہے، آؤ نوید کے کمرے میں جاکے اسے مل لیتی ہوں۔ بیمار ہے تو اس کی خبر لینی چاہیے۔ امی پھنس چکی تھیں اور اب اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ وہ اختر آنٹی کو نوید بھائی کے کمرے میں لے جائیں۔ میں نے سوچا کہ نوید بھائی کے سر پر آج کل جو بہادری اور سیاست کا بھوت سوار ہے، اگر وہ سن لیں کہ فراز نے یہ کہا ہے کہ انھیں ڈر کے مارے بخار ہو گیا ہوگا تو شاید اسے ہلاک ہی کر ڈالیں۔ ابا کی چینی بندوق سے یا شاید سر پر کوئی وزنی اور سخت چیز مار مار کے۔ کوئی پیپر ویٹ یا گلدان۔

    کپتان فراز وہیں بیٹھا رہا اور اب کبابوں کے بعد دہی بھلے کھانے لگا جبکہ اختر آنٹی، امی اور ان کے پیچھے پیچھے میں، نوید بھائی کی مزاج پرسی کو چلے۔ امی نے نوید بھائی کے کمرے کے دروازے پر دستک دی تو انھوں نے اندر سے پوچھا’’کون؟‘‘

    ’’اختر آنٹی آئی ہیں تمہیں دیکھنے۔ میں نے بتایا ہے کہ تمہیں بخار ہے، اس لیے وہ خبر لینے آئی ہیں۔‘‘ ایسے کہا امی نے، تاکہ نوید بھائی جان لیں کہ امی کیا جھوٹ بول چکی ہیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔

    نوید بھائی کو دروازہ کھولنے میں کچھ وقت لگا جس دوران امی نے دوبارہ دستک دی۔ جب انھوں نے دروازہ کھولا تو امی نے پوچھا کہ اتنی دیر کیوں لگادی۔ نوید بھائی نے اختر آنٹی کو سلام کیا۔ شکر ہے کہ کیا، ورنہ میں ڈر رہا تھا کہ شاید بدتمیزی کریں۔

    ’’میں کپڑے پہن رہا تھا۔‘‘ انھوں نے کہا۔

    ’’اوہ۔ نہا کے نکلے ہو؟‘‘ اختر آنٹی نے کہا۔’’ بخار میں نہانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

    ’’بخار؟ مجھے کوئی بخار نہیں ہے۔ میں سو رہا تھا‘‘وہ بولے۔

    ’’ہا ہا ہا‘‘ اختر آنٹی نے ہنس کے دکھایا۔ ’’لگتا ہے طبیعت زیادہ خراب ہے۔ کبھی کہتے ہو سو رہا تھا۔ کبھی کہتے ہو کپڑے پہن رہا تھا۔ ہا ہا ہا۔‘‘

    ’’جی۔ سو رہا تھا۔ کپڑے اتار کے۔میں بغیر کپڑوں کے سوتا ہوں۔ ننگا۔‘‘ انھوں نے اختر آنٹی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔

    ایک ہولناک سناٹا چھا گیا۔ بغیر کپڑوں کے سوتا ہوں؟ ننگا؟

    امی کو سانپ سونگھ گیا۔ ایک تو جھوٹ پکڑے جانے کی بےعزتی اور اوپر سے یہ عجیب سا بم جو ان کی محسنہ ہمسائی کے سامنے ان کے سر پر نوید بھائی نے گرایا۔ اختر آنٹی نے ہی ہمت کی اور بولیں؛’’نہیں بیٹے، ایسے نہیں کہتے۔‘‘

    ’’جی اچھا‘‘۔ نوید بھائی نے کہا۔‘‘ نہیں کہوں گا۔ مگر کرتا میں یہی ہوں۔ ننگا سوتا ہوں۔‘‘

    ’’ہی ہی ہی‘‘ اختر آنٹی کھسیانی پڑیں۔ ’’لگتا ہے انگریزی فلمیں بہت دیکھتا ہے نوید۔ ہی ہی ہی۔ ان میں لوگ بنا کپڑوں کے سوتے ہیں نا۔‘‘

    ’’جی آنٹی، دیکھتا تو ہوں۔ مگر ویسے بھی یہی طریقہ ٹھیک ہے۔ کپڑے تو تب پہننے ہوتے ہیں جب لوگوں کے سامنے جانا ہو یا سردی سے بچنا ہو۔ سونا تو ننگے ہی چاہیے۔‘‘

    ’’ہی ہی ہی‘‘ اختر آنٹی مزید کھسیانی ہوئیں اور تھوڑا گھبرائیں بھی۔

    ’’بڑی اچھی نیند آتی ہے۔‘‘ نوید بھائی میں تو جیسے کوئی شیطان سما گیا تھا۔ بولتے جارہے تھے اس بارے میں۔ ’’آپ بھی ٹرائی کریں۔‘‘ انہوں نے کہا۔

    یہ الفاظ ان کی زبان سے نکلے ہی تھے کہ ایک زناٹے کا تھپڑ ان کے منہ پر پڑا۔ پھر دوسرا۔ پھر امی نے انھیں زور سے کمرے میں دھکا دیا اور دروازہ بند کر دیا۔

    ہم چپ چاپ، خاموشی سے، واپس ڈرائنگ روم میں آئے جہاں کپتان فراز اور ابا خاموش بیٹھے تھے اور اسماعیل ٹرالی لے جا چکا تھا۔ فراز نے پوچھا ’’چلیں؟‘‘ تو آنٹی نے بس سر ہلایا۔ جب وہ لوگ دروازے سے باہر جا رہے تھے تو امی نے چپکے سے آنٹی سے کہا کہ ’’باجی، فراز سے ذکر نہ کرنا۔ میں کل آپ کے پاس آؤ ں گی۔‘‘ صاف ظاہر تھا کہ نوید بھائی کی گستاخی پر معافی مانگنا چاہتی تھیں۔

    ۔۔۔۔۔۔

    میرے لیے یہ بات حیرت کا باعث بنی کہ گو امی کو اپنی محسنہ، اختر آنٹی کی اپنے سرکش بیٹے کے ہاتھوں بےعزتی کا دکھ تھا، مگر در اصل وہ زیادہ اس انکشاف پر غضبناک تھیں کہ نوید بھائی ننگے سوتے ہیں۔ یہ خبر، ننگے سونے والی، میرے لیے بھی باعث حیرت تھی، گو کچھ دن بعد میں نے خود بھی ایک رات ننگے سو کر دیکھا مگر مجھے یہ کچھ ٹھیک نہ لگا اور ساتھ ہی ڈر بھی لگا کہ کہیں امی کو پتا نہ چل جائے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ ایسا کیونکر ہوا، یعنی کیسے ایک دن نوید بھائی نے فیصلہ کیا ہوگا کہ ننگے سونا چاہیے۔ یا ایسے ہوا ہوگا کہ ایک دن بغیر قمیض کے سوئے، کچھ دن یہ جاری رکھا، جب عادت ہوئی تو پھر پاجامے کے بغیر بھی سونا شروع کیا۔ مگر ایسی تحریک انھیں ہوئی ہی کیوں؟ کیا کوئی طبی وجہ تھی؟ یعنی یہ کہ کپڑے پہن کے سونے میں انھیں کسی سخت جسمانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا؟ کیا ماجرا تھا یہ سب؟ مگر جو بھی تھا اور گو کہ میں اس سب ماجرے پر حیران بھی ضرور تھا، مجھے یہ بات سمجھ میں نہ آ رہی تھی کہ اس میں امی کے ایسا غضبناک ہونے والی کیا بات تھی۔ آخرنہاتے ہوئے بھی تو کپڑے اتارنا پڑتے ہیں اور کبھی کبھی کسی خاص ڈاکٹری معائنے میں بھی ایسا ممکن ہے کہ اتارنے پڑ جائیں۔ مگر امی اس قدر غصے میں تھیں، اس قدر، کہ میں ایسا کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا تھا اور انھوں نے یہاں تک کہا کہ اس سے زیادہ غلیظ اور بےشرمی کی کیا بات ہو سکتی ہے اور اس سے زیادہ بدتمیزی اور گستاخی کیا ہو سکتی ہے کہ گھر آئے مہربان محسن کو ایسا مشورہ دیا جائے؟ ابا نے بھی امی کی حالت کے پیش نظر اس بارے میں خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا، حالانکہ مجھے یقین تھا کہ اگر وہ اس معاملے میں لب کشائی کرتے تو کچھ چھوٹی موٹی بات نوید بھائی کے حق میں کہتے، گو حیران تو وہ بھی ہوں گے کہ یہ کیا ہوا ہے اور یہ ننگا سونے والی بات اچانک اس سیدھے سادھے عام سے گھر میں کہاں سے گھس آئی ہے؟ پھر بھی، کیونکہ ابا ہر طرح کے معاملات پر بہت سوچ بچار کرتے تھے اس لیے اگر حالات اتنے خطرناک نہ ہوتے تو شاید وہ صاف کہہ دیتے کہ بھئی کیا ہے، ننگا سویا تو کیا ہوا، اپنے کمرے میں ہی سوتا ہے نا۔

    اختر آنٹی کے جانے کے بعد امی نے نوید بھائی کو بہت مارا۔ تھپڑ اور گھونسے اور میرے فٹ رول سے بھی اور ان کے بال بھی بار بار کھینچے۔ وہ مارتی جاتی تھیں اور گالیاں دیتی جاتی تھیں جن میں ’’حرام زادہ’’ بھی تھی۔

    بڑی سنجیدہ اور غصیلی نوعیت کی باتیں تھیں جو نوید بھائی کو مارتے ہوئے ان کے منہ سے نکل رہی تھیں۔ وہ ایسی غضبناک تھیں کہ ابا بھی خاموشی سے اپنے کمرے میں بیٹھے یہ ہنگامہ سنتے رہے۔ جس طرح کی سرکشی نوید بھائی میں کچھ عرصے سے نمودار ہو چکی تھی، اس کی بنا پر میرا خیال تھا کہ شایدوہ بھی جواباً امی پر کوئی حملہ کر دیں گے مگر انھوں نے ایسا نہ کیا۔ انھوں نے مار کھا لی، امی کی گالیاں سن لیں اور خاموش رہے۔ ’’نکل جا میرے گھر سے۔ نکل جا حرامزادے‘‘۔ امی چلائیں۔ گو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماں باپ غصے میں ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں اور دراصل ان کا مطلب یوں کہنا نہیں ہوتا مگر میرا خیال ہے کہ کم از کم اس لمحے میں امی شاید یہی چاہتی تھیں کہ نوید بھائی دفع ہو جائیں۔ شاید اس لیے بھی کہ پھر وہ اختر آنٹی کو یہ کہہ سکتیں کہ دیکھیں میں نے بیٹے کو گھر سے نکال کر آپ کی بےعزتی کا ازالہ کر دیا ہے۔

    یہ ہنگامہ رات گئے ختم ہوا۔ امی ابا سو گئے اور نوید بھائی نے بھی اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلیا۔ میں جب سونے کے لیے لیٹا تو سوچتا رہا کہ کیا آج اتنی مار پیٹ اور اتنے زدوکوب ہونے کے بعد بھی نوید بھائی ننگے سوئیں گے؟ کیا وہ اس قدر ثابت قدم، بلند حوصلہ اور بہادر شخص ہیں کہ ان کی زندگی کے اعلیٰ اصول تھوڑی سی مار پیٹ اور گالی گلوچ سے ختم نہیں ہو سکتے؟ میں دبے پاؤں اٹھ کر ان کے کمرے کے دروازے تک بھی گیا اور چابی کے سوراخ سے اندر دیکھنے کی کوشش بھی کی مگر اس میں اندر کی طرف چابی لگی ہوئی تھی اس لیے مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔میں تھوڑی دیر دروازے سے کان لگا کے سنتا رہا کہ شاید کچھ سراغ ملے مگر مجھے کچھ پتہ نہ چلا کیونکہ ننگا ہونا کوئی ایسا فعل نہیں کہ اس کی خبر آواز کی لہروں کی طرح آپ کے کانوں تک پہنچ سکے۔

    صبح نوید بھائی کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہ کمرے میں نہیں تھے۔ باتھ روم میں بھی نہیں اور گھر میں بھی کہیں نہیں۔ کھانے کی میز پر انھوں نے ایک رقعہ چھوڑا تھا کہ میں گھر چھوڑ کے جا رہا ہوں اور اس میں بہت فلمی سی یہ بات بھی لکھی تھی کہ ’’میرا اور آپ کا رستہ جدا ہے‘‘۔

    ابا نے کہا کہ ایسے ڈرامے زیادہ دیر نہیں چلتے اور یہ کہ وہ عنقریب واپس آ جائیں گے۔ آئیں گے یا نہیں، میں نہیں جانتا تھا، نہ میں یہ جانتا تھا کہ صرف ایک مار کھانے پر کیوں وہ اس طرح بھاگ گئے؟ کیا انھیں ننگا سونا اس قدر عزیز تھا؟ ہوگا شاید، مگر یہ کیا ضروری تھا کہ وہ بھاگتے بھاگتے ہمارا’’Sphygmomanometer’’بھی اپنے ساتھ لے جائیں؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے