اسٹل لائف
کہانی کی کہانی
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو گھر میں تنہا بیٹھا خود کو ٹوٹتا بکھرتا محسوس کرتا ہے۔ اس کے بیوی بچے سیر کے لیے چڑیا گھر گئے ہوئے ہیں۔ وہ لان میں تنہا بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے۔ اخبار پڑھتے ہوئے اسے طرح طرح کے خیالات آتے رہتے ہیں اور وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ٹکڑوں میں بکھرا ہوا ہے، بالکل اسٹل لائف کی طرح۔
’’آپ بھی ہمارے ساتھ چلتے۔ اکیلے گھر میں کیا کریں گے‘‘، جاتےجاتے صادق کی بیوی آمنہ نے کہا۔
اکیلا۔۔۔؟ اس نے چاروں طرف دیکھ کر سوچا۔
یہ اچھا ہی ہو اکہ میں آمنہ کے ساتھ نہ گیا۔ اس نے خوفزدہ ہوکر سوچا۔ اس کے باوجود صادق کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا کچھ حصہ آمنہ اپنے ساتھ سمیٹ کر لے گئی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ’زو‘ کے بندروں کو اچھلتے کودتے دیکھ رہا ہے۔ اور پھر اتنے بڑے گھر میں تنہا بیٹھا اخبار بھی پڑھ رہاہے۔ جانےکیوں یہ احساس اب اس کے ساتھ رہنے لگا تھا کہ وہ ٹکڑوں میں بکھر رہا ہے۔ جیسے پرانی دیواروں کا چونا غیر محسوس طور پر چپکے چپکے جھڑتا رہتا ہے۔ اس کے بھی ٹکڑے ٹوٹ رہے ہیں۔
صبح شیو کرتے وقت صادق کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ آفس پہنچ گیا ہے۔ سخت لوہے کی کرسی پر بیٹھا شرما صاحب کے طنز برداشت کر رہا ہے۔ مگر آمنہ کی آواز پر چونک پڑتا۔
’’ساڑھے دس ہوگئے۔ آج آپ پھر لیٹ ہو رہے ہیں۔۔۔‘‘
ارے۔۔۔؟ وہ فوراً ہنگر سے بشرٹ یوں اتارتا جیسے اس کا کچھ حصہ بشرٹ ہی میں لپٹا رہتاہے، اور پھر وہ آفس پہنچ گیا۔ اس کے باوجود بار بار یہ دھوکہ ہوتا جیسے وہ ابھی گھر ہی میں کھانے کی میز پر بیٹھا ہے۔
اپنے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا احساس اب صادق کے لیے اذیت ناک بنتا جارہا تھا۔ آمنہ اور بچوں کے جاتے ہی اسے خیال آیا کہ انہیں روک لیتا۔ آپا پکنک منانے جارہی ہیں تو انہیں جانے دو۔ بھائی جان نے کار کیا خریدی ہے کہ اترائے اترائے پھرتے ہیں۔ اور آمنہ تو جیسے قید میں رہتی ہے۔ مجال ہے کہ تفریح کا کوئی موقعہ چھوڑدے۔
لیکن جانے سے پہلے آمنہ نےاس سے کئی بار پوچھاتھا کہ آپا جان کے ساتھ ’’زو‘‘ دیکھنے جاؤں یا نہیں؟ اور ہر بار اس نے کہنا چاہا کہ ’’نہیں۔۔ مت جاؤ۔۔۔‘‘
’’چلی جاؤ بچوں کی تفریح ہوجائے گی‘‘، اپنی آواز پر وہ خود چونک پڑا تھا۔
یہ کون بول رہا ہے۔۔۔؟ یہ بات آمنہ سےکوئی اور آدمی کہہ رہا تھا جو اس کے وجود کی پرچھائیں بن کر اس سے دور ہٹ رہا تھا۔ اسے الگ الگ حصوں میں بانٹ رہاتھا۔ تب اسے خیال آیا کہ آمنہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ اب میں اکیلا ہوں۔ میرا کچھ حصہ آمنہ کے ساتھ چلا گیا تھا۔ اور بہت سا ڈھیر آفس میں شرما صاحب نے فائلوں میں سمیٹ لیا ہے۔
’’یہ ساری فائلیں کل تک پٹ اپ کرنا ہے۔ یاد رکھیے۔‘‘
ان فائلوں کو بھلا میں بھول سکتا ہوں! جو فائلیں آفس میں ڈوری سے بندھی رکھی ہیں ان کے ساتھ میں خود بندھا ہوا ہوں۔۔۔ آفس کی لائیٹ بند ہے۔ کمرے میں اندھیرا ہے دور دروازے پر قفل لگا ہواہے۔۔۔ اتنا ظلم۔۔۔؟ صادق کی سانس گھٹنے لگی اور بند دروازوں پر اپنا سر مارنے لگا۔
لو اب سر میں درد شروع ہوا۔۔۔
’’ڈیڈی مور کیسے بولتا ہے۔۔۔ میاؤں۔۔۔؟‘‘
پپو اپنے پاس کھڑےہوئے جانے کس آدمی کو اپنا ڈیڈی بناکر اس سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا ہوگا، ڈیڈی کیوں نہیں آئے یہاں، میری باتیں سننے کے لیے۔ میرے ساتھ بھالو دیکھنے کے لیے۔ بس اب ہم اسی آدمی کو ڈیڈی بنالیں گے اس وقت۔ (پپو کے لیے اس سےکوئی فرق نہیں پڑے گا)
ممکن ہے وہ سب اب آرہے ہوں۔
صادق نےکھڑکی کھولی۔۔۔ لو آگئے۔۔۔ وہی کار۔۔۔ بھائی جان کی سفید بش شرٹ،آمنہ کی سرخ ساری۔۔۔ مگر وہ ہوتے تو مجھ سے منہ موڑ کرآگے کیسے چلے جاتے۔
سڑک کی بھیڑ بھاڑ۔۔۔ لبوں کی قطار۔ سائیکلوں اور آٹو رکشاؤں کا شور۔۔۔ اور پٹرول کی بو میں بسی ہوئی وہ لڑکی، جس کے چہرے پر آنکھوں کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ ان کھوجتی ہوئی آنکھوں کو میں روز اپنی بس میں دیکھتا ہوں۔ کسی کے انتظار میں بے چین، بے قرار آنکھیں۔ بس میں آنے والے ہر آدمی کو اٹھ کر وہ بے قراری سے دیکھتی ہے اور مایوسی کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔ وہ کہاں ہے جس کا لڑکی کو انتظار ہے۔ کون ہے؟ وہ آفس پہنچ کر بھی یہی بات سوچے جاتا۔ کسی دن وہ اس لڑکی کے پاس آبیٹھے تو مجھے کتنا سکون ملے گا۔
ایک دن لڑکی کے برابر والی سیٹ پر وہ عورت آبیٹھی جو عموماً ہر بس میں کہیں نہ کہیں سے ضرور آدھمکتی ہے اور آتے ہی دوسروں کے شخصی معاملات میں دخل اندازی شروع کردیتی ہے۔
تمہارا مرد آنے والا ہے کیا۔۔۔؟ اس نے لڑکی کی شاروں طرف کھوجتی ہوئی نظروں کو بھانپ کر پوچھا۔
لڑکی پر جیسے گھڑوں پانی پڑگیا۔ وہ اپنی سیٹ پر جھک کر آہستہ سے بولی، ’’کوئی نہیں آئے گا۔ یہ تو میری عادت ہے۔‘‘
صادق چونک پڑا۔ اسے لڑکی پر رحم آنے لگا۔ بے چاری۔۔۔ اس کا بھی کچھ حصہ کسی سڑک پر رہ گیا ہے۔۔۔ میری طرح۔
اکیلے گھر میں سچ مچ اب صادق کا جی گھبرانے لگا۔
اماں خواہ مخواہ پرسوں بمبئی چلی گئیں۔ گھر کیساسونا ہوگیا ہے۔ جاتے وقت اماں کتنا گھبرا رہی تھیں جیسے وہ دو ہفتے کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے جارہی ہوں۔
’’میں کہیں بھی جاؤں مگر دل گھر ہیں میں رہتا ہے‘‘، اماں کی بات پر صادق چونک پڑا۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اماں بھی اب ٹوٹ رہی ہیں۔
ٹرین میں بیٹھنے کے بعد اماں نے کھڑکی کے باہر ہاتھ نکال کر صادق کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔
پھر اچانک انجن نے وسل دی تو اماں کے ہاتھ کی گرفت سخت ہوگئی۔ اور پھر آہستہ آہستہ اماں کا ہاتھ صادق کے ہاتھ سے پھسلتا گیا۔ جیسے برف کا ٹکڑا آپی آپ پانی بن کر غائب ہوجاتا ہے۔ اماں کا ہاتھ بھی صادق کے ہاتھ سے جانےکب الگ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد یوں لگ رہاتھا جیسے وہ بھی اماں کے پاس ٹرین میں بیٹھا ہے۔ اور ٹرین کھیتوں، جنگلوں، ندیوں، راستوں کو کاٹتی ہوئی دوڑ رہی ہے۔
جیب میں پلیٹ فارم کا ٹکٹ ٹٹولتے وقت صادق کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ٹرین میں ہے یا پلیٹ فارم پر۔۔۔ وہ آفس میں شرما صاحب کے طنز بھی سن رہا ہے اور بس میں اس لڑکی کے سامنے بھی بیٹھا ہے جو اپنے بچھڑے ہوئے وجود کی تلاش میں ہے۔
جب آدمی اتنے ٹکڑوں میں بٹا ہو، بیک وقت اتنی جگہ موجود ہو تو بھلا وہ کسی ایک کا کیسے ہوسکتا ہے! مگر آمنہ کا اصرار تھا کہ صادق بس اس کا ہو رہے۔ میری باتیں سنو۔۔۔ میری صورت دیکھو۔۔۔ مجھے پیار کرو۔ وہ اس کے سب حکم مانتا ہے۔ کیونکہ وہ اس بات کو تسلیم کرچکا ہے کہ اسے بہت سے حکم ماننا ہیں۔ انسانوں کے، خدا کے، سماج کے۔۔۔ (یہ فائلیں آپ کو کل تک پٹ اپ کرنا ہیں، یاد رکھیے۔)
یہ سب میرے آقا ہیں جنہوں نے اپنی اپنی زنجیروں میں میرے سارے ٹکڑے باندھ رکھے ہیں۔۔۔
اسی لیے آمنہ ایک دن بڑی پریشانی کے ساتھ اپنی ساس سے کہہ رہی تھی۔
اماں! یہ جانے کیوں ایسے کھوئے کھوئے سے رہنے لگے ہیں، کسی ڈاکٹر کو دکھلائیے نا!
ڈاکٹر! اس کے سامنے امید کی لو چمکنے لگی۔
ایک بار کسی چوراہے پر کار نے ایک بوڑھے کو کچل دیا تھا۔ اس کے بدن کے تین چار ٹکڑے الگ الگ بے حس و حرکت پڑے تھے، جیسے کینواس پر اسٹل لائف۔۔۔ لوگ اس بھیانک منظر کو دیکھ کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ مگر ایک چھوٹا سا بچہ وہاں کھڑا چلا رہا تھا۔
’’دادا کو جلدی سے کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلو۔۔۔ ڈاکٹر دادا کو پھر جوڑدے گا۔‘‘
کیا ڈاکٹر مجھے بھی جوڑدے گا! صادق نے سوچا، ممکن ہے وہ اماں سے پوچھے کہ ان کے باقی ٹکڑے کہاں کہاں ہیں؟
گھبراکے صادق نے اخبار اٹھالیا۔
چاند تک جانے والے خلاباز موت اور زندگی کی کشمش میں گرفتار تھے۔ ان کے راکٹ میں کوئی ٹکنیکل خرابی پیدا ہوگئی تھی۔
اخبار میز پر رکھا اور پل بھر میں صادق راکٹ کے اندر تھا۔ ہزاروں کل پرزوں والے اندھیرے خول میں پھنسا ہوا۔۔۔ اس کے باوجود اس کےسر سے آج سارے بوجھ اتر گئے تھے۔۔۔ کیونکہ آج اسے چاند کو اپنے پیروں تلے روندنا تھا۔۔۔ وہ چاند جو رام چندرجی کے بچپن میں ناقابلِ حصول تھا۔ جسے توڑ کر لانے کا جھوٹا وعدہ ہر شاعر نے اپنی محبوبہ سے کیا تھا۔ صادق کے چاروں طرف خلاء تھی۔ سرد اور بے مہر۔۔۔ نیچے، بہت نیچے زمین ایک حقیر تارے کی طرح ٹمٹما رہی تھی۔ بس اتنی سی دنیا! اس نے ناک سکوڑ کے دیکھا اور پھر صادق کو بےحد خوشی ہوئی دنیا کے اس اختصار پر۔۔۔ آج دنیا کے سارے بکھیروں سے نجات مل ہی گئی۔ وہ یہاں تک آگیا؟ یہ کیسی انوکھی خوشی تھی۔ اپنی ذات کا احساس ساری کائنات پر محیط تھا۔ عرب فلسفیوں نے عجم والوں سے کہا تھا کہ کائنات موہوم نہیں ہے موجود ہے، مگر یہ بات اب پھر غلط ثابت ہوگئی۔ کائنات موہوم ہے۔ ہو چکی ہے۔۔۔ صادق نے سوچا، میں جو کائنات کے حصار کو توڑ کر دور نکل آیا ہوں۔۔۔ میں نے خدا، محبت اور گناہ کو بہت نیچے چھوڑ دیا ہے۔ اپنے تمام حواسوں سمیت،آزادی کا ذائقہ چکھنے کے لیے۔
’’ہلو ہلو۔۔۔‘‘ مائیک کہہ رہاتھا۔۔۔ ’’زمین کی طرف لوٹ آؤ، آگے خطرہ ہے۔۔۔‘‘
صادق کو جیسے کسی نے شوٹ کردیا۔
نہیں نہیں۔۔۔ اب میں واپس جانا نہیں چاہتا۔۔۔
لیکن کٹی ہوئی پلنگ کی طرح بے سہارا ہوکر وہ نیچے کی طرف گرنے لگا۔
’’یروشلم فتح ہوگیا۔۔۔‘‘ صادق نے اخبار اٹھاکر دوسری خبر پڑھی اور اپنی بے بسی کا درد اس کی رگ رگ میں جاگ اٹھا۔۔۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یروشلم کو کسی نےڈھادیا۔۔۔؟ دیوارِگریہ گر پڑی۔۔۔ آنسوؤں کا سیلاب۔۔۔ اب ہم کہاں کہاں روتے پھریں گے! جانے آمنہ اور بچے اس وقت کہاں ہوں گے! جانے میں خود اس وقت کہاں ہوں؟ کبھی صادق کو ایسا لگتا جیسے وہ ایک یہودی ہے اور دیوارِ گریہ کے نیچے کھڑا قہقہہ لگا رہا ہے۔ گولان کی پہاڑیوں پر عربوں کے ساتھ بھٹک رہا ہے۔ شرما صاحب بن کر اپنے آپ کو ڈانٹ رہا ہے۔ ہائے میری آزادی۔
آگے خطرہ ہے۔۔۔ یروشلم فتح ہوگیا۔۔۔ اب اس کے چاروں طرف بندر اچھل کود میں مصروف ہیں۔ اماں جس ٹرین میں جارہی تھیں وہ رک گئی ہے، آگے خطرہ ہے۔ اماں کے ساتھ صادق کا ایک ہاتھ بھی چلا گیا ہے۔ اور بس میں بیٹھی ہوئی لڑکی اس کی طرف دیکھ کر منہ پھیرلیتی ہے۔ نہیں یہ بھی وہ نہیں ہے۔
لیکن وہ تو آفس کی فائلوں میں بندھا اندھیرے کمرے میں رکھ دیا گیا ہے۔ ان فائلوں کو مت بھولو۔۔۔ اس اندھیرے کمرے کو مت بھولو جہاں تم ایک ڈوری سے بندھے پڑے ہو۔
آپ بھی ساتھ چلتے اکیلے کیا کریں گے۔
اب میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اس نے ہار مان کے سگریٹ سلگالیا۔۔۔ آگے خطرہ ہے۔۔۔ یروشلم فتح ہوگیا ہے۔۔۔ میں بھی کہاں کہاں بھٹکتا پھرا! چاند کے اندھے غاروں میں۔۔۔ خلاء کے بے مہر دھندلکے میں، گولان کی پہاڑیوں پر۔۔۔ یروشلم کی عبادت گاہوں میں۔ بندروں کے پنجروں میں۔ کہاں کہاں سے لوٹ آیا ہوں۔
لو۔۔۔ وہ سب چیختے چلاتے آگئے۔
’’افوہ۔۔۔ بہت تھک گئے۔۔۔‘‘
’’ڈیڈی، مور کیسےبولتا ہے۔۔۔ میاؤں۔‘‘
’’ڈیڈی، شیر آدمی کے چھوٹے چھوٹے پیس کرکے کھالیتا ہے۔‘‘
’’ڈیڈی، میں آپ کے لیے ریڈ گلاب لایا ہوں، سچ۔۔۔‘‘ (آج پپو بے انتہا خوش ہے۔)
صادق نے لرزتے ہاتھوں سے پھول پکڑا تو وہ نیچے گرپڑا اور گرتے ہی سرخ سرخ پنکھڑیاں بن کے بکھر گیا۔ کٹے ہوئے انسانی اعضاء کی طرح۔۔۔ کینوس پر اسٹل لائف کی طرح۔
’’پپو، میرے بیٹے! یہ کیا ہوا۔۔۔؟ دیکھو۔۔۔ دیکھو۔۔۔‘‘
صادق نے بڑی امید بھری نظروں سے پپو کی طرف دیکھا، مگر پپو یہ کیوں نہیں کہتا کہ ڈیڈی کو کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلو۔ ڈاکٹر ڈیڈی کو پھر جوڑ سکتا ہے۔
(تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے ٹکڑے نہیں جوڑے جائیں گے؟)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.