کہانی کی کہانی
اس کہانی میں انسان کے خالی پن، ماضی کی یادوں اور رشتوں کی معنویت کو بیان کیا گیا ہے۔ نہال چند ایک ریٹائرڈ کرنل ہیں جن کا بیٹا بیرون ملک رہتا ہے۔ بیوی کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ ایک نوکر کے سہارے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ صبح کی سیر کے لیے نکلتے ہیں تو رات تک واپس آتے ہیں اور دن بھر جنگل میں یہاں وہاں گزارتے ہیں۔ ایک دن جنگل میں انہیں ایک پیڑ سے لٹکی ہوئی رسی نظر آتی ہے، ان کا تصور و تخیل انہیں اس رسی کے سہارے ماضی میں لے جاتا ہے اور پھر وہ اسی رسی سے جھولتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
وہ چھڑی اٹھاتے ہیں۔ داہنے پیر سے سیڑھیاں اترنا شروع کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ دن کو اگر داہنے پیر پر اٹھایا جائے تو وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہیں ہوں گے۔ صبح اٹھتے بھی وہ داہنی کروٹ سے ہیں اور جب ان کی بائیں آنکھ پھڑکتی ہے تو انہیں اپنے لڑکے کا خیال آتا ہے جو برسوں سے پردیس میں ہے۔
چھڑی گھماتے ہوئے وہ نالے کی طرف چلنے لگتے ہیں۔ اب وہاں نالا نہیں ہے۔ تین برس پہلے کمیٹی نے اسے پاٹ دیا تھا۔ لیکن پاس پڑوس کے لوگ اب بھی ان کے گھر کو نالے والا مکان ہی کہتے ہیں۔ پرانے دوستوں کے خطوط اب بھی اسی پتے پر آتے ہیں: کرنل نہال چند۔ نالے والا مکان۔۔۔ اور ڈاکیہ بھی ان خطوں کو سیدھا انہیں کے پاس لے آتا ہے۔
وہ چلتے چلے جاتے ہیں۔ نالے کے پار سفید چونے سے پتی ہوئی ایک چھوٹی سی پلیا ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ ٹھہر جاتے ہیں۔ یہ ان کی صبح کی سیر کا پہلا اسٹیشن ہے۔ وہ اپنی چھڑی کو پلیا کے سہارے ٹکا دیتے ہیں۔ تھیلے کو کندھے سے اتارکر موٹھ پر لٹکا دیتے ہیں پھر سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں تقریباً Attention کے عالم میں۔ ایک سانس اندر کی طرف کھینچتے ہیں پھر اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر دوسری سانس کھینچتے ہیں۔ وہی کساؤ اور وہی ڈھیلاپن۔ پھر تیسری سانس۔۔۔ اس سے انہیں کچھ آرام ملتا ہے۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں۔ یہ بات وہ خود سے بھی نہیں پوچھتے اور کوئی دوسرا بھی ان سے نہ پوچھتا کہ ایسا وہ کس لیے کرتے ہیں۔
انہیں اس کی بھی فکر نہیں کہ پلیا کے نیچے اسکول جاتے ہوئے لڑکے انہیں دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ سینک سلائی سا ایک آدمی ہوا میں سانس لیتا ہوا۔ بانس کی طرح ہلتا ہوا۔
’’کرنل صاحب۔۔۔ کرنل صاحب۔۔۔‘‘
’’آپ کی بندوق اور تلوار کہاں ہے؟‘‘ بچے انہیں دیکھ کر چیختے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں، پھر ڈر کر دور بھاگ جاتے ہیں۔ بارش کے پانی میں ان کے چھپ چھپ کرنے کی آواز آتی ہے اور گھاس ہوا میں سرسراتی رہتی ہے۔
اس دن نہال چند کے کانوں میں دیر تک بچوں کی آوازیں گونجتی رہیں۔ پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ انہوں نے آخری سانس کھینچی لیکن سانس کھینچتے ہی انہیں اچھو ہو گیا۔ انہوں نے پلیا پر سے اپنی چھڑی اٹھائی اور رومال سے اس کے اوپری سرے کو صاف کیا۔ اسی رومال سے انہوں نے ناک چھنک کر صاف کی اور اسی رومال سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ پھر تھیلا اٹھاکر کندھے پر ڈال لیا۔ حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔ ایک دھندلا سا خیال آیا کہ شاید اندر کہیں کوئی تکلیف ہے لیکن اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ اس تکلیف کو پیاس کا نام دے سکیں۔ وہ اذیتوں کی گرد میں رہتے تھے۔ ان تکلیفوں کو کوئی نام دینے کا مطلب تھا مصیبتوں کی پٹاری کا کھولنا، جس کے اندر سے معلوم نہیں کتنی دوسری تکلیفیں باہر نکل پڑیں گی۔ نابھائی۔۔۔ اس سے بہتر تو یہ دھند ہی ہے جہاں سب کچھ ایک سا ہے۔
نہال چند پلیا پار کرنے لگے۔
آگے پیچھے اور نشیب میں میدان ہی میدان ہے لیکن پوری طرح میدان بھی نہیں۔ آدھا حصہ دھوبی گھاٹ میں بدل گیا ہے اور آدھا حصہ پیڑوں سے ڈھک گیا ہے۔ وہ نالا جو شہر کے اندر پاٹ دیا گیا تھا یہاں پربڑی روانی سے بہتا ہے۔ کنارے پر چوڑے اور نکیلے پتھر بکھرے ہوئے ہیں جو آنکھوں میں نیزے کی طرح چبھتے ہیں۔ نہال چند نے اپنے تھیلے میں سے دھوپ کا چشمہ نکالا اور اسے پہن کر چاروں طرف نظر دوڑائی تو خنک سا اندھیرا محسوس ہوا۔ رات کے ساکت اندھیرے کی طرح نہیں بلکہ سیاہ روشنی کے ایک دریا کی طرح۔ کرنل دھیرے دھیرے اس میں اترتے ہیں اور پتھروں سے بچ بچ کر چلنے لگتے ہیں۔
’’کہاں جا رہے ہیں کرنل بابو؟‘‘
پتھروں پر کپڑوں کو پیٹتی ہوئی دھوبنوں کی آنکھیں اوپر اٹھتی ہیں اور ہاتھ ہوامیں اچانک رک جاتے ہیں۔ دھوبیوں کے کتے۔۔۔ گھر کے نہ گھاٹ کے۔۔۔ کرنل نہال چند کی خاموش خو دھیمی چال دیکھ کر کچھ زیادہ ہی غضب ناک ہو جاتے ہیں۔ دانت باہر نکالے غراتے ہوئے وہ ان کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں لیکن پاس آنے کی ہمت نہیں کرتے۔ ان کی گز بھر لمبی چھڑی کو دیکھ کر اپنے اور کرنل صاحب کے درمیان گز بھر کا فاصلہ رکھنا نہیں بھولتے اور نہال چند؟ ان کے لیے جیسے چیختے ہوئے بچے ویسے ہی غراتے ہوئے کتے۔ سب ایک رواں منظر کا حصہ ہیں۔ ایک دھوئیں کی سی آواز۔۔۔ جس میں سب کچھ سماجاتا ہے۔
یہ منظر اگر آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے تو صرف ایک جگہ۔۔۔ وہاں جہاں سے جنگل شروع ہوتا ہے۔ وہاں نہ کوئی آواز ہے نہ کوئی رنگ نہ روشنی۔ صرف پیڑوں کی لمبی قطار کے نیچے دھوپ کے نقطے ٹمٹماتے ہیں۔ یہاں سیاہ چشمے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہال ایک کندھے سے تھیلا اتارکر دوسرے کندھے پر لٹکا لیتے ہیں۔ کوٹ کے بٹن کھولتے ہیں تو نومبر کی ہوا سینے پر وار کرتی ہے۔ اوپر پیڑ نیچے جھاڑیاں۔ بیچ میں گل مہر کی سرخ لپٹیں۔ سر سر کی آوازیں جنہیں سن کر نہال چند کو گوالیار کے جنگل یاد آ جاتے ہیں جہاں وہ اپنے فوجی دوستوں کے ساتھ شکار پر جاتے تھے۔ اب انہیں ان جنگلوں کی یاد بھی نہیں آتی تھی۔ پردے پر سلائڈ کی طرح اچانک کوئی چیز چمک اٹھتی۔ گزری ہوئی زندگی کا ایک حصہ سطح پر نمودار ہوتا اور پھر اندھیرے میں ڈوب جاتا اور نہال چند تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے جنگل میں غائب ہو جاتے۔
کچھ دیر تک تو معلوم ہی نہ ہوتا کہ وہ کہاں ہیں۔ کس طرف گئے ہیں۔ جھاڑیوں میں صرف سرسراہٹ سی سنائی دیتی جیسے کوئی جانور بھاگا جا رہا ہو۔ پھر اچانک ان کا سر دکھائی دیتا۔ گھڑی میں یہاں گھڑی میں وہاں۔ اگر کوئی چھپ کر انہیں دیکھتا تو حیرت میں پڑ جاتا کہ اس عمرمیں بھی چھڑی اور تھیلے کے ساتھ وہ اس برق رفتاری سے چل سکتے ہیں لیکن نہال چند کے لیے تو یہ معمولی قسم کی ورزش ہوا کرتی۔ صرف ورزش نہیں بلکہ ایک طرح کا مراقبہ۔ ان کا چہرہ کسی اور دنیا کے خیال میں ڈوبا رہتا۔ انہیں اس عالم میں دیکھ کر وہم ہونے لگتا کہ وہ ایک جگہ پر جم سے گئے ہیں، صرف ان کی لمبی پتلی ٹانگیں حرکت کر رہی ہیں پھر ان کی ٹانگیں بھی بےحرکت ہوجاتیں۔ صرف ان کا بوڑھا دل ہڈیوں کے پنجر سے ٹکراتا رہتا۔۔۔ وہ رک جاتے، نیم وا پلکوں کو پوری طرح وا کرتے اور چاروں طرف دیکھنے لگتے۔
سامنے ہوا محل دکھائی دیتا۔ زرد پتھروں کی مغلیہ عمارت نومبر کی ہلکی دھوپ میں تپتی ہوئی۔۔۔
نہال چند کے سفید بالوں سے بہتا ہوا پسینہ ان کی کن پٹیوں پر ٹپکنے لگتا۔ وہ سر کو جھٹکا دے کر رومال سے پیشانی پونچھتے پھر چھڑی اور تھیلے کو ہوا محل کی سیڑھیوں پر رکھ دیتے، سانس کھینچتے اور سیر کی ساری تکان ان کے سینے سے نکل کر اس ٹوٹے ہوئے کھنڈر میں شامل ہو جاتی۔
یہ ان کی سیر کا دوسرا پڑاؤ ہوتا۔
اس ہوا گھر میں صدیوں پہلے واقعی کسی کا پڑاؤ ہوا ہوگا۔ مغل فوجوں کا پڑاؤ۔ دلی سے کوچ کرکے یہاں پل دو پل کے لیے وہ ڈیرا ڈالتی ہوں گی۔ خودباشاہ بھی شاید فرصت کے دنوں میں یہاں سیر و تماشا کی غرض سے آتے ہوں گے۔ ورنہ اس اجاڑ جنگل میں اتنی سبک اور خوبصورت میناکاری والی عمارت ہی کیوں بناتے؟ نہال چند کو یہ گمشدہ خزانہ اچانک ہی مل گیا تھا۔ ایک دن سیر کرتے کرتے اس مقام تک آ پہنچے۔ آنکھ اٹھائی تو یہ ہوا گھر نظر آیا۔ سفید سیڑھیاں، محرابی جھروکے، بڑے بڑے روشن دان۔۔۔ لیکن جو چیز نہال چند کو ہمیشہ حیرت میں ڈال دیتی تھی وہ تھا اس عمارت کا نیلا گنبد۔ بھورے زرد جنگل میں یہ نیلاپن ان کی آنکھوں کو عجیب سی راحت بخشتا تھا۔۔۔ ایک سرد شفاف ہیرے کی طرح جھلملاتا ہوا۔
اس روز بھی نہال چند گنبد کو دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے ایک لمبی سانس لی جو ’’آہ‘‘ اور ’’اے میرے پروردگار‘‘ کے سے فقروں کے سوز میں کہیں دب گئی۔ انہوں نے تھیلے سے ایک خاکی رنگ کی برساتی نکالی اور ہوا گھر کی سیڑھیوں کے نیچے قرینے سے بچھا دی۔ یہ ا ن کی محبوب جگہ تھی۔۔۔ جھروکوں سے آتی ہوئی ہوا میں ہلتا ہوا گنبد اور نومبر کی دھوپ۔۔۔ انہیں اب اور کیا چاہیے؟
نہ کوئی آواز نہ کوئی شور نہ کسی طرح کی ہلچل۔ کچھ بھی نہیں۔ ایک تنکا بھی ہلتا تو اس کی آواز سے نہال چند کی نسیں پھڑپھڑانے لگتیں۔ کبھی کبھی کسی جنگلی پرندے کی آواز فضا میں بلند ہوتی تو یوں معلوم ہوتا جیسے وہ اپنی بھوکی چیخ سے نہال چند کی بھوک کو ہوا دے رہا ہو۔ اس کی چیخ سن کر نہال چند کو دن کے کھانے کی یاد آ جاتی اور ان کا ہاتھ بےساختہ اپنی پوٹلی کی طرف بڑھ جاتا۔
اس کھانے میں ابلا ہوا انڈا، ٹماٹر، کھیرے کے سینڈوچ۔۔۔ اور کافی۔۔۔ سب کچھ ہوتا۔ (ان کا نوکر) دیوی سنگھ ہر چیز بڑے قرینے سے رکھتا تھا۔ اس پہاڑی چھوکرے کو سب کچھ یاد رہتا۔ یہاں تک کہ وہ نمک اور کالی مرچ کی پڑیا بھی رکھنا نہ بھولتا۔ تھیلے کے ایک کونے میں جرمنی کا وہ ٹرانسسٹر بھی پڑا رہتا جسے منو، کرنل صاحب کی اکتاہٹ اور خالی پن کو مٹانے کے لیے ولایت سے لایا تھا۔ کئی بار کرنل صاحب کا جی چاہا کہ یہ ٹرانسسٹر دیوی سنگھ کو دے دیں۔ وہ بھی تو دن بھر سائیں سائیں کرتے مکان میں اونگھا کرتا ہے۔ گھڑی دو گھڑی اس کھلونے سے ہی کھیل لیا کرےگا۔ لیکن پھر اپنا ارادہ بدل دیتے۔ بے آواز ٹرانسسٹر میں انہیں اپنے بیٹے کی آواز سنائی دیتی، ’’آپ دن بھر خالی بیٹھے رہتے ہیں۔ اسے ہی سنا کیجیےگا۔‘‘ اس وقت ان پر ایک عجیب سا سناٹا طاری ہو جاتا۔ ایک لمبی جمائی لیتے ہوئے وہ بڑبڑانے لگتے، ’’خالی کہاں میرے خدا۔ مجھے تو ایک منٹ کی فرصت نہیں۔‘‘
خدا معلوم یہ کہتے وقت وہ کس سے مخاطب ہوتے۔ اپنے بیٹے سے جو پردیس میں تھا یا اپنی بیوی سے جو اب اس دنیا میں نہیں تھی یا خدائے برتر سے جو کہیں نہیں تھا۔ انہیں شاید خود بھی اس کا علم نہ ہوتا کہ وہ اپنے آپ سے کیا کہتے ہیں۔ ہوامیں جہاں اتنی آوازیں گونجتی ہیں، وہاں انہیں اپنی باتیں بھی اڑتی ہوئی معلوم پڑتیں۔ اگر کوئی ان سے پوچھتا کہ آپ کو ایک منٹ کی فرصت نہیں۔ آخر آپ کرتے کیا ہیں، تو وہ جھٹ سے کہتے کہ دیکھتے نہیں کھانا کھا رہا ہوں اور واقعی وہ اس وقت کھانا کھا رہے ہوتے۔۔۔ کھانا، دیکھنا، چلنا، سونا۔۔۔ نہال چند کے یہ سارے کام ایک رَو میں ہوتے تھے۔ درمیان میں وہ خود سے باتیں بھی کرتے جاتے تھے اور ان باتوں کو خود ہی سنتے بھی جاتے۔
سننے کا عمل سوتے میں بھی جاری رہتا۔ کھانے کے بعد ان پر نیند طاری ہونے لگتی۔ نہال چند ڈبل روٹی کے کناروں اور انڈے کے چھلکوں کو اخبار میں لپیٹ کر الگ رکھ دیتے اور تھیلے کی گٹھری بناکر اسے برساتی کے سہارے ٹکا دیتے، پھر پاؤں پھیلاکر لیٹ جاتے۔ لیکن اس سے پہلے کہ انہیں نیند آتی، پرندوں کا غول ان کی چھوڑی ہوی چیزوں پر ٹوٹ پڑتا۔ پھر ٹھونگیں مارنے کی آواز آتی۔ کٹ کٹ۔۔۔ کٹ۔ نہال چند کو یو ں لگتا جیسے پرندوں کی چونچیں اخبار پر نہ چل رہی ہوں بلکہ ان کی نیند پر وار کر رہی ہوں۔ چڑیوں کے بعد چیلیں آتیں اور چڑیوں کو بھگاکر بچی کھچی چیزوں کو اپنی چونچوں میں دباکر غائب ہو جاتیں۔ چیزوں کو لے کر بھاگتے وقت ہوا میں ان کی پینترے بازی سے اس طرح کی آواز ہوتی گویا نیند میں کسی نے چھلانگ لگا دی ہو۔ سمٹتے ہوئے خواب بکھر جاتے۔ بادلوں کی سمٹتی ہوئی پرچھائیں میں نیلا گنبد کچھ ترچھا سا ہو جاتا اور نہال چند کو محسوس ہوتا کہ وہ سب کچھ ایک ہلتے ہوئے پردے کے پیچھے سے دیکھ رہے ہیں۔ لیٹا ہوا آدمی، سرہانے رکھا ہوا تھیلا، ہوا سے ہلتی ہوئی برساتی۔۔۔ نہال چند کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا۔ وہ سراپا انتظار بن جاتے۔
لڑکی ادھر یوں ہی نکل آتی تھی اور آکر کچھ فاصلے پر ٹھٹک جاتی تھی۔ گلے میں جھولتی رسی، بے چینی سے حرکت کرتے ہوئے ہاتھ، جھروکوں سے جھانکتی آنکھیں۔۔۔ جو اس شخص پر ٹکی ہوتیں جو سیڑھیوں کے نیچے خود ایک سیڑھی کی طرح پڑا رہتا۔
’’نہالی رے، او نہالی
تیری ساری جیبیں خالی
ہائے نہالی
کیا سچ مچ خالی؟‘‘
نہال چند اسی طرح چپ چاپ دم سادھے پڑے رہتے اور اس آواز کے قریب آنے کا انتظار کرتے۔ انہیں ڈر لگا رہتا کہ ذرا بھی حرکت کریں گے تو وہ آواز بھٹک کر جنگل میں گونجتی ہوئی دوسری آوازوں میں گم ہو جائےگی۔ اصل بات یقین کی ہے۔ جب لڑکی کو یقین ہو جاتا کہ آس پاس کوئی خطرہ نہیں ہے تو وہ آہستہ آہستہ جھجکتی ہوئی قریب آتی۔۔۔ چوکنی اور ہوشیار۔ اس لیے نہیں کہ نہال چند پر اسے بھروسہ نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ وہ زندہ ہیں۔ بےضرر بھی اور خطرناک بھی۔ اس لیے وہ بالکل قریب نہیں آتی تھی۔ ہاتھ بھر کا فاصلہ ضرور رکھتی تھی۔ دوسرا ہاتھ آگے بڑھاکر نہال چند کے فوجی اوورکوٹ کی لمبی تاریک جیبیں ٹٹولنے لگتی، ان جیبوں پر اس کی انگلیاں دھیرے دھیرے رینگتی رہتیں۔ نہالی او نہالی۔
کیا پوچھ رہی ہے۔ خالی جیبوں میں کون ساراز ڈھونڈ رہی ہے۔ اس کا لمس پاتے ہی خون ان کی رگوں میں دوڑنے لگتا اور ان کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی اور نہال چند اپنے جسم کا پنجرہ کھلا چھوڑ دیتے۔ جانے دو۔۔۔ اندر کوئی کہتا، بھاگنے دو، اسے کب تک بچاکر رکھوگے۔
اس وقت مکمل سکوت ہوتا۔ نومبر کی مری مری سی دھوپ ہوا گھر کے کنکالی کھنڈر پر دھیرے دھیرے پھیلنے لگتی۔ پیڑ، پتے، جھاڑیاں کسی میں کوئی ہلچل نہ ہوتی۔ نہال چند سانس روکے انتظار کرتے۔ ایک تنکا بھی ہلتا تو ان کا سینہ تن جاتا۔ پلکیں کس کر موندلیتے اور ان کے اندر آنکھوں کے ڈھیلے دھوپ میں رنگ برنگے دائروں کی طرح ناچنے لگتے اور اسی وقت ایک جھٹکے کے ساتھ وہ خود سے آزاد ہو جاتے۔ جسم الگ پڑا رہتا اور نہال چند۔۔۔؟ دوسری طرف چلے جاتے جہاں ان کا تیسرا اور آخری پڑاؤ ہوتا۔
وہاں انہیں کوئی دیکھنے والا نہ تھا۔ نہ ڈر نہ کھٹکا۔ نہ کوئی گواہ۔ کھنڈر کے سائے میں وہ اوندھے پڑے رہتے۔ وہ ان کے پاس سرک آتی اور اپنے دوپٹے کو سینے سے اوپر کھسکاکر کندھوں پر ڈال لیتی اور ان سے لگ کر اکڑوں بیٹھ جاتی۔ تب نہال چند کو گمان ہوتا کہ پلکوں کے پیچھے جو دھوپ کے دھبے تھے وہ شلوار قمیص کے سرخ نقطے ہیں۔۔۔ وہ چاہتے تو انہیں چھو سکتے تھے، لیکن وہ ایسا نہ کرتے اور ظاہر کرتے گویا وہ کچھ بھی نہیں دیکھ رہے ہیں۔ اس کی انگلیوں کو اپنے بدن سے کھیلنے دیتے۔۔۔ ’’اونہالی، کیا سب کچھ خالی؟‘‘
نہیں آج ان کی جیبیں خالی نہیں تھیں۔ آج میں سب کچھ ساتھ لایا ہوں۔ دیکھوگی؟ وہ اپنا سر تھوڑا سا اوپر اٹھاتے تو اس کی سیاہ پرنم آنکھیں انہیں لبھانے لگتیں۔ آنکھیں جو گزشتہ زندگی کے فریبوں کو ایک نظر میں تول لیتی ہیں۔
’’کیا دکھائے گا بھوندو!سڑا ہوا آلوچہ، مرا ہوا تیتر یا کسی جھینگر کا مردہ جسم۔‘‘ بہت پہلے وہ لڑکی کو یہی چیزیں دکھایا کرتے تھے۔ وہ انہیں نیکر کی جیب میں ٹھونس کر لاتے اور ایک ایک کرکے نکالتے تھے۔ کسی بلی کی مونچھ، کسی بڑھیا کا بال!
کچھ بھی نہیں۔۔۔ اس دن جیب میں سے ایک بھی چیز نہیں نکلی جسے وہ پہچان سکتی۔ صرف کاغذوں کے ڈھیر تھے۔ بینک کی پاس بک، تازہ خطوط، جائداد کے کاغذ اور ایک چھوٹی سی نیلی کتاب جس سے اس کی نگاہیں جم گئیں۔ یہ کرنل نہال چند کا پاسپورٹ تھا جسے وہ ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔ سڑک پر اگر کچھ ہوجائے تو پولس ان کی تصویر اور نام پتہ دیکھ کر ان کے ٹھکانے کا پتہ تو لگا ہی سکتی ہے۔ ہر تین سال بعد پاسپورٹ کے دفتر جاکر اس کی تجدید کراتے تھے۔ سوچتے تھے کہ کبھی لڑکے سے ملنے کی خواہش ہوئی تو کام آئےگا۔ تیری خواہش مری نہیں نہالی؟
خواہش! تتلی کی طرح اڑتا ہوایہ لفظ نہال چند کے اردگرد گھومنے لگا۔ کیا کوئی ایسی جگہ بچی ہے جہاں وہ ایک لمحہ بیٹھ سکیں جو سچ مچ خواہش ہو، جہاں وہ تنہائی میں آرام سے اپنے پر سمیٹ کر سمٹ سکیں۔ انہوں نے اپنے اندر جھانکا تو وہاں خواہش نہیں وہ لڑکی بیٹھی تھی۔ کون ہے یہ؟ گلے میں پھنسا دوپٹہ، زرد سا گول چہرہ، گرد سے اٹی ہوئی لٹیں۔ کودنے والی رسی جو پچھلے پچاس سالوں سے ان کے ساتھ (کھنچ) رہی تھی۔ اس کاسر جھکا ہوا تھا اور وہ ایک ٹک اس تصویر کو دیکھ رہی تھی جو اچانک کاغذوں کے ڈھیر سے باہر نکل آئی تھی۔ نہال اپنی بےچینی نہیں چھپا سکے۔ انہوں نے اسے دیکھنے کے لیے سر کو نیچے جھکایا تو لڑکی کی نگاہیں اوپر کی طرف اٹھ گئیں۔
’’کون ہے یہ عورت؟‘‘
عورت! انہیں جھٹکا سا لگا۔
’’میری بیوی!‘‘ انہوں نے کہا۔
’’سچ؟‘‘
ہاں۔ سچ نہیں تو کیا ایسے ہی۔ نہال چند کا لہجہ کچھ دھیما پڑ گیا۔ اندر ہی اندر وہ دہلنے لگے۔
’’اور یہ پہاڑ؟‘‘
’’پہاڑ؟‘‘ نہال چند کا دھیان بھٹکنے لگا۔ نہیں یہ خواب نہیں تھا۔ پیچھے واقعی پہاڑ تھے۔ ننگے اور دھوپ میں چمکتے ہوئے۔ ان دنوں ان کی تعیناتی لداخ میں ہوئی تھی۔ جہاں وہ رہتے تھے اس کے پیچھے مانٹیسری تھی اور وہاں دو بودھ بھکشو ان کی بیوی کو دیکھتے ہوئے سیڑھیاں اتر رہے تھے اور بیوی بازار کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔ کیمرے سے بالکل بے خبر۔
ان کی بیوی؟ ہاں یہ وہی تھی۔ تصویر پر پھیلا ہوا چہرہ جس پر آخری بیماری کا خوف ابھی ظاہر نہیں ہوا تھا۔ کیا وہ اسے دیکھ رہی تھی؟ نہیں۔ نہیں یہ تم دیکھتے ہو نہال چند وہ نہیں۔ کیمرے کا وہ لمحہ بھی اس کا چہرہ تھا۔ ہونٹ تھوڑے سے کھلے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ تم ہو۔ پہاڑ ہے۔ سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے بودھ بھکشو، دکانوں پر ٹنگے ہوئے پرانے کپڑے۔۔۔ ہوامیں لہراتے ہوئے۔ اس دن کتنی ہوا تھی۔ ساڑی کا پلو بار بار اڑتا ہوا اس کے چہرے کو ڈھک لیتا تھا۔ لیکن حیرت ہے کہ تصویر میں سب کچھ ساکت تھا۔ وہاں ہوا بالکل نہیں تھی۔ وہاں تو صرف لڑکی کی انگلی تھی۔ گرد میں اٹی ہوئی۔ اس چہرے پر ٹکی ہوئی جوان کی بیوی کا چہرہ تھا۔ ایک میلا کاغذ، ایک دائرہ، تصویر کا سایہ۔۔۔
’’نہالی!‘‘ لڑکی کا لہجہ بہت دھیما تھا، ’’کیا وہ کبھی آتے ہیں؟‘‘
’’کون؟‘‘ انہوں نے قدرے حیرت سے پوچھا، ’’کون آتے ہیں؟‘‘
’’تمہارا لڑکا؟‘‘
’’وہ باہر ہے۔‘‘
’’اور یہ؟‘‘ لڑکی نے تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’پاگل!‘‘ نہال چند اس کی حماقت پر ہنس دیے، ’’وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔‘‘
’’پھر تم؟‘‘
’’میں کیا کٹو؟‘‘
پہلی بار ڈرتے ڈرتے ان کے منہ سے لڑکی کا نام نکلا، ’’میں کیا؟ کیا مطلب ہے اس کا؟‘‘ لڑکی حیرت زدہ نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگی۔ اس کامنہ تھوڑا سا کھلا رہ گیا۔
’’نہالی!‘‘
’’کیا؟‘‘
’’مجھے دیکھتے ہو؟‘‘
نہال چند اسے خالی نگاہوں سے دیکھتے رہے۔ اچانک خیال آیا کہ اتنے برسوں بعد بھی کٹو کتنی ٹھنگنی اور چھوٹی سی دکھائی دیتی ہے۔ بونی۔ سالوں پہلے جب وہ واقعی چھوٹی تھی تو کتنی لمبی اور جوان دکھائی دیتی تھی۔ کیا وقت الٹا چلتا ہے۔ نہیں یہ ان کا وہم ہے۔ شاید بچپن میں ہر چیز بڑی دکھائی دیتی ہے۔ گھر، شجر، ماں، باپ اور۔۔۔ اچانک نہال چند چونک پڑے۔ جیسے لڑکی نے پیچھے مڑ کر ان کے کانوں میں بدبدایا ہو اور۔۔۔ محبت، نہیں تو کیا؟
محبت؟ کیا تم کسی سے محبت کر سکے نہالی؟ کرنل نہال چند!
ایک جھٹکے کے ساتھ وہ ہوش میں آئے۔ کس کی آواز تھی یہ۔ یا محض فریب اور دھوکا تھا۔ اندر کی بے ربط پکار، جو بڑھاپے کے جنگل میں گونجتی ہے، دروازہ کھٹکھٹاتی ہے اور دروازہ کھولو تو کوئی نہیں ہوتا۔ صفر کا لامحدود پھیلاؤ دکھائی دیتا ہے۔ دور دور تک کوئی نہیں۔ اندر کا لہو باہر کی تپتی گرم دھوپ پر چمکتا ہے۔ نہ انس، نہ لگاؤ، نہ محبت کا دکھ۔ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ بیوی کا چہرہ، نہ بیٹے کی یاد۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ صر ف میں۔ تم کو ن نہال چند۔ کون ہو تم؟
کھٹ، کھٹ۔ کھٹ۔۔۔ وہ رسی کود رہی تھی۔ اوپر نیچے، نیچے اوپر۔۔۔ ویران کھنڈر میں اس کے پیروں کی چاپ نہال چند کی بند پلکوں پر دستک دینے لگی۔
وہ سو رہے تھے۔ کھانے کے بعد وہ گھڑی دو گھڑی ضرور سولیتے تھے۔ جب وہ سو رہے ہوتے تو چیلوں اور دوسری چڑیوں کے غول ہوا گھر کے جھروکوں میں بیٹھ جاتے۔ نہال چند کی بچی کھچی چیزیں کھاکر ان کی نگاہیں نہال چند کے جسم پر ٹھہر جاتیں۔ جیسے یہ پرندے کچھ سوچ رہے ہوں۔ کیا یہ بدن بھی ان کی غذا میں شامل ہے؟ انہیں بڑی مایوسی ہوئی جب نہال چند نے آنکھیں کھول دیں۔ سب سے پہلے آسمان دکھائی دیا۔۔۔ نومبر کا نیلا ٹکڑا۔ وہ ان کی نیند سے نکل کر گنبد پر آ ٹکا تھا۔ نیلا اور سفید، سردیوں کے کہرے میں خواب کے پھاہے جیسا؟ نیند کی دھند میں ان کا آدھا جسم سویا رہتا اور آدھا جسم باہر کی دنیا کو دیکھتا۔۔۔ دیوی سنگھ! انہوں نے دھیرے سے آواز لگائی۔ پھر اچانک یاد آیا کہ وہ گھر میں نہیں ہیں باہر لیٹے ہیں۔ لیٹے ہی لیٹے ہاتھ بڑھاکر انہوں نے تھیلے کو ٹٹولا۔ وہ تھرمس نکال کر اس کے اندر بچی ہوئی کافی سے اپنا گلا تر کرنا چاہتے تھے لیکن ان کا ہاتھ تھیلے پر نہیں کاغذوں کے ڈھیر پر جا پڑا۔
کاغذ ہوا میں سرسرا رہے تھے۔ پنشن کے کاغذات، فوٹو، خط، کھلا ہوا پاسپورٹ۔ نہال چند نے جھٹکے سے سر ہلایا۔۔۔ یہ کیسے نکل آئے؟ انہیں ٹھیک سے یاد نہ آیا کہ کب انہوں نے ان کاغذوں کو اپنی جیب سے باہر نکالا تھا؟ کچھ چیزیں ان کی حس کے دائرے سے باہر نکل جاتی تھیں اور غیرمحسوس طریقے پر واقع ہو جاتی تھیں اور اچانک ان کے سامنے آموجود ہوتی تھیں۔ دیکھو، یہ ہم ہیں تمہارے سامنے اور تمہیں خبر تک نہیں اور نہال چند کھسیاکر انہیں قبول کر لیتے تھے۔ ان میں یہ پوچھنے کی ہمت کبھی نہیں ہوئی کہ میں نے تو تمھیں جیب میں رکھا تھا۔ تم باہر کیسے نکل آئیں؟ سچ پوچھے تو یہ چیزیں نہال چند کو آدمیوں سے کہیں زیادہ عزیز اور سمجھ دار معلوم ہوتی تھیں۔ پالتو جانوروں کی طرح وہ برسوں ان کے ساتھ ہی رہی تھیں اور کبھی انہیں دھوکہ نہیں دیا تھا۔ وہ دیکھ کر نہیں صرف چھوکر ہی ان پرانی اور بوسیدہ چیزوں کو پہچان لیتے تھے۔ یہ منو کا خط ہے۔ یہ بینک کا پاس بک ہے۔ یہ لداخ کی تصویر ہے اور یہ؟ اچانک چیزوں کو ٹٹولتی ہوئی ان کی انگلیاں ٹھٹک گئیں۔ آنکھیں کھولیں تو دیوی سنگھ کا پوسٹ کارڈ دکھائی دیا جو اس نے چھٹیوں میں گاؤں سے بھیجا تھا۔
دیوی سنگھ کا خیال آتے ہی وہ ہڑبڑا گئے۔ وہ برآمدے میں پالتی مارے بیٹھا ہوگا۔ پتہ نہیں کتنی بار کھانا گرم کیا ہوگا، دروازہ کھول کر باہر جھانکا ہوگا۔ انہیں اکثر دیر ہو جاتی تھی۔ دیوی سنگھ بڑی بڑی پہاڑی آنکھیں اٹھاکر دروازے کی طرف شدید حیرت کے عالم میں دیکھتا تھا۔ کہتا کچھ نہیں تھا لیکن ہر بار ایک ہی سوال اس کی خاموش نگاہوں میں نظر آتا تھا۔ آپ کہاں جاتے ہیں؟ صبح کی سیر اور شام تک غائب۔ اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو میں آپ کو کہاں ڈھونڈھتا پھروں گا؟ نہال چند ہر روز کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتے لیکن اندر اندر دل دھڑکتا رہتا کہ کہیں دیوی سنگھ ان کی شکایت منو کو نہ لکھ بھیجیے۔ ولایت جانے سے پہلے وہ بار بار ان سے کہہ کر گیا تھا کہ دیوی سنگھ کے سوا آپ کے پاس کوئی نہیں۔۔۔وہ چلا گیا تو آپ اپاہج ہو جائیں گے۔ اپاہج! ٹھیک ہے ہو جاؤں گا۔ تم تو دیکھنے نہیں آؤگے۔ برآمدے میں پلنگ ڈال کر پڑا رہوں گا۔۔۔مجھے اب کسی کی ضرورت نہیں۔ میرے لیے اب سب کچھ ایک جیسا ہے۔ جیسی رات ویسا دن۔۔۔انہیں غصہ آنے لگا۔ مایوسی اور بےبسی والا غصہ، اس پانی کی طرح جو ریگستان کی تپتی زمین پر برستا ہے اور سوکھ جاتا ہے۔ جس کے برسنے سے زمین پر ذرا بھی سبزہ نہیں اگتا۔
ریگستان! ان کے ہاتھ بکھرے ہوئے کاغذ پر ٹھٹک گئے۔ ان کی آخری تعیناتی وہیں ہوئی تھی۔ راجستھان اور پاکستان کی سرحد پر۔ چاروں طرف ریگستان پھیلا تھا۔ اب سوچتے ہیں تو ہنسی آتی ہے لیکن ان دنوں وہیں بس جانے کو جی چاہتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری پڑاؤ پر آ پہنچے ہیں۔ گھنٹوں ریگستان میں گھومتے رہتے۔ ریت کے ٹیلوں پر بیٹھے رہتے۔ نہ بیوی کی یاد آتی نہ لڑکے کی۔ سونے لمحوں میں یہ محسوس ہوتا جیسے وہ دھیرے دھیرے کسی سچائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس اندھیرے کنویں کی تہہ کو چھو رہے ہیں جو عمر کے آخری کنارے پر انہیں اس قدر اکیلا چھوڑ گیا تھا۔ کبھی کبھی حیرانی بھی ہوتی تھی کہ جو سچ انہیں لداخ کے بودھ بھکشوؤں سے نہیں مل سکا وہ سائیں سائیں کرتے ریگستان کی اڑتی ہوئی دھول میں دکھائی دے گیا۔۔۔؟
کیسا سچ نہالی؟
نہال چند نے سر گھمایا۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے۔ کوئی بات جو برسوں سے ان کے اندر گھٹ رہی تھی۔ جھاڑیوں پر نومبر کی دھوپ پھیل رہی تھی۔ ہوا محل کا گنبد بے حرکت نیلی مٹھی سا، ہوا میں اٹھا تھا۔ نہ کوئی پرندہ، نہ کوئی آواز۔ رسی کودنے کی آواز بھی نہیں۔ صرف ایک پتھرائی ہوئی سرد روشنی تھی جو مری ہوئی سفیدی کی طرح سارے جنگل پر پھیلی تھی۔ نہال چند کچھ دیر بےحس و حرکت بیٹھے رہے۔ پھر وہ کسی طرح سیدھے کھڑے ہوئے گویا اپنا نہیں کسی اور کا بدن گھسیٹ رہے ہوں۔ پوٹلی، چھڑی، تھرمس۔۔۔جیبوں میں ٹھنسے ہوئے کاغذ۔ جب نہال چند چلنے لگے تو سب کچھ ان کے پاس تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں بھولے تھے۔ ہوا گھر میں کچھ بھی نہیں چھوٹا تھا۔
لوٹنے کا راستہ وہی تھا جس پر وہ چل کر آئے تھے۔ پتھریلی پگڈنڈی، جھاڑ جھنکاڑ، دور دور تک پھیلے مٹی کے ڈھیر جن پر جگہ جگہ پرندوں کا فضلہ تھا۔۔۔نہ جانے کب پیچھے چھوٹ گئے۔ نہال چند کو پتہ بھی نہ چلا۔ وہ کسی خاص فکر میں مبتلا نہیں تھے۔ بس کوئی بھٹکا ہوا خیال ان کے ذہن میں آ جاتا اور ان کے دل کو چھوتا ہوا گزر جاتا۔ دیوی سنگھ کا چہرہ، گھر کا کمرہ، جیب میں بھرے کاغذوں کی کھڑکھڑاہٹ ان سب کی چھوٹی چھوٹی پرزیاں ان کے راستے پر اڑتی رہتیں۔ وہ ایک کو پکڑتے تو دوسری انہیں پکڑ لیتی۔ صبح کی وہ یکسوئی اب ختم ہو چکی تھی جب وہ آنکھیں موندے ہوا گھر کی طرف جا رہے تھے۔ بس اک بدحواسی کا عالم تھا جس میں آنکھیں کھلی رہتیں اور دکھائی کچھ نہیں دیتا۔
پھر جنگل کا ٹکڑا آیا اور نہال چند کو محسوس ہوا کہ جیسے وہ دھوپ کی سفیدی سے اتر کر طویل سائے میں چلے آئے ہوں۔ آنکھوں کو راحت ملی۔ پتوں پر پیر آسانی سے پڑ رہے تھے۔ کبھی کسی جھاڑی میں ان کا کوٹ اٹک جاتا تو رک کر کھڑے ہو جاتے۔ بہت سنبھال کر خود کو اس جھاڑی سے آزاد کرتے۔ ایک عجیب سا وہم گزرتا گویا کوئی دبے پاؤں ان کے پیچھے آ رہا ہے۔ وہ مڑکر پیچھے دیکھتے تو کوئی دکھائی نہ دیتا۔ سر اٹھائے پیڑ، جھکی ہوئی جھاڑیاں، درمیان میں رقص کرتے ہوئے دھوپ کے دائرے۔ انہیں یہ محسوس ہوتا گویا ایسا کبھی پہلے بھی ہوا ہے۔۔۔برسوں پہلے جب وہ ان کے پیچھے غائب ہو جاتی تھی اور وہ اپنے گھر کے باغ میں اکیلے چکر لگاتے تھے۔۔۔کٹو؟ وہ آواز دینے کی کوشش کرتے لیکن کوئی ان کا گلا پکڑ لیتا۔ جانے دو۔۔۔ ان کے اندر کا شیطان کہتا۔ تمہارے آگے ساری زندگی پڑی ہے۔ آگے اور آگے۔۔۔وہ انہیں گھسیٹتا ہوا یہاں تک لے آیا تھا۔
کیسی زندگی؟
اوپر ہلکی سی پھڑپھڑاہٹ ہوئی اور ان کے پاؤں اچانک ٹھٹک گئے۔ سر اٹھایا تو ایک لمحے کے لیے کچھ دکھائی نہیں دیا۔ دونوں طرف کے پیڑ ایک دوسرے پر جھکے ہوئے تھے۔ پتوں کے بیچ آسمان کی نیلی قاش چمک اٹھتی تھی۔ ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ آواز کدھر سے آئی ہے، پھر خیال ہوا کہ اوپر کی کوئی شاخ ہلی ہے۔ ڈال سے جب کوئی پرندہ اڑتا ہے تو وہ ہلتی ہے اور اسی کے ساتھ دوسری ڈال بھی تھوڑی سی ہلتی ہے لیکن اوپر کوئی پرندہ نظر نہیں آیا۔ اس عجیب سی سرسراہٹ کے بعد سب کچھ پرسکون ہو گیا تھا۔
نہال چند آگے بڑھے تو انہیں ایک بار پھر کسی نے روک لیا۔ اس بار کوئی آواز نہیں تھی۔ صرف ان کی آنکھوں کے سامنے کوئی چیز ڈول رہی تھی۔ انہوں نے اپنے چشمے کو سیدھا کیا جو اوپر دیکھتے رہنے کی وجہ سے نیچے کھسک آیا تھا۔ اس بار ان کی آنکھیں اٹھیں اور جم کر رہ گئیں۔ وہ برگد کا چھتنار درخت تھا۔ اس کی شاخ ایک بوڑھے بازو کی طرح مڑی ہوئی نیچے کی طرف جھکی تھی اور اس کے کنارے پر اک رسی لٹکی ہوئی دھیرے دھیرے ہوا میں جھول رہی تھی۔ جیسے کوئی سانپ بین سنتے وقت پھن ہلاتا ہے۔ انہیں کچھ تعجب ہوا کہ رسی کو پیڑ سے باندھا کیوں نہیں گیا۔ صرف ٹہنی پر کیوں پھینک دیا گیا کہ وہ وہاں اٹک گئی۔ بیچ میں لٹکی ہوئی دونوں سروں کو ہوا میں جھلاتی ہوئی، رسی کے دونوں سروں پر ننھے مہندی رنگے ہاتھوں کی طرح لکڑی کے دو بیلن بندھے تھے، جو دھول، پسینے اور ہتھیلیوں کی رگڑ سے گھس گئے تھے۔
پتہ نہیں کتنی دیر تک نہال چند اسے دیکھتے رہے جیسے وہ رسی نہ ہو کوئی طلسمی شے ہو، کوئی مایا جال۔ نومبر کی دھوپ میں نظر آنے والا سراب۔ ہوا ٹھہر گئی تھی۔ سارا جنگل اپنے اندر سانس لیتا ہوا ایک گھونسلے کی صورت سمٹ گیا تھا۔ وہ سر اٹھائے بےحس و حرکت کھڑے تھے۔ کوئی انہیں دیکھتا تو اسے گمان گزرتا کہ وہ آدمی نہیں بلکہ جنگل ہی کا کوئی بوڑھا، طویل القامت جانور ہے جو کوئی غیرمانوس آہٹ سن کر بیچ پگڈنڈی پر آ کھڑا ہوا ہے۔ ان کا قد اتنا لمبا تھا کہ ذرا سا ہاتھ اٹھاکر بھی وہ رسی کو چھو سکتے تھے۔ اسے پکڑ کر نیچے کھینچ سکتے تھے لیکن وہ جنبش کیے بغیر کھڑے رہے۔ کٹو۔ وہ دھیرے سے بدبدائے۔ پھر آواز کچھ بلند ہوئی۔ سینے میں پھنستی ہوئی گویا باہر نکلنے کو چھٹپٹا رہی ہو۔ کچھ دیر تک مسلسل سناٹا چھایا رہا۔۔۔پھر اچانک انہیں اپنی چیخ سنائی دی جو نہ جانے کیسے بلند ہو گئی تھی۔ اس بار کسی نے ان کو نہیں روکا، نہ گلا دباکر انہیں چپ کرایا اور وہ جنگل کے آر پار، جھاڑیوں اور پیڑوں کے بیچ، بچپن کے ایک سرے سے بڑھاپے کے دوسرے سرے تک گونجتی ہوئی اپنی آواز کو سنتے رہے۔۔۔
کوئی جواب نہیں ملا۔ آس پاس کہیں کوئی نہ تھا۔ ہوا چل رہی تھی اور پیڑ ہل رہے تھے۔۔۔رسی کے دونوں سرے جھول رہے تھے۔ کچھ دیر تک وہ اس امید میں کھڑے رہے کہ وہ جھاڑیوں کے بیچ اچانک نمودار ہوگی، اپنی رسی لینے دوبارہ لوٹ آئےگی۔۔۔لیکن بہت دیر تک کہیں کوئی دکھائی نہیں دیا۔ نہ اس کی ہنسی نہ جھاڑیوں کی سرسراہٹ۔ کچھ بھی ایسا نہ تھا جو انہیں یقین دلا سکتا کہ وہ اس دوپہر میں ان کے پاس آئی تھی، ان سے لگ کر بیٹھی تھی، جب وہ سو رہے تھے اور ان کے کاغذ باہر بکھرے تھے تو اس نے ان کی جیبوں کی تلاشی لی تھی۔
نہال چند کیا تم سچ مچ جاگے ہوئے تھے؟
اندھیرا ہوتے ہی ہوا رک گئی۔ کسی چیز میں بھی جنبش نہیں تھی۔ نہ جھاڑی، نہ پتے، نہ پیڑ، کبھی کبھی جنگل کے اندر سے ایک طویل گرم سانس سی نکلتی جو سیٹی سی بجاتی ہوئی اوپر اٹھ جاتی۔ دھوبی گھاٹ کے اوپر۔۔۔اور کتوں کو چونکاتی ہوئی آگے بڑھ جاتی، گندے نالے پر اتر جاتی اور دھیرے دھیرے سرکتی ہوئی نہال چند کے گھر کے پھاٹک پر آکر رک جاتی تھی۔
دیوی سنگھ اسے اونگھتے ہوئے سنتا رہتا اور رہ رہ کر ہڑک جاتا۔ وہ پہاڑی تھا اور بچپن سے اس طرح کی تاریک او ربے جان آوازوں کو سنتا آیا تھا۔ جو آوازیں نہیں تھیں بس جنگل کے سینے کی بے زبان ہوسناکیاں جو جانوروں اور درختوں کی کراہوں میں سسکتی رہتی تھیں۔ وہ بار بار دروازے کی طرف بھاگتا، باہر جھانکتا، پھر اسی طرح بھاگتا ہوا باورچی خانے میں لوٹ آتا۔
اس رات وہ باورچی خانے ہی میں لیٹا تھا۔ رات کا کھانا دوبار گرم ہوکر ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ کرنل صاحب صبح کی سیر کو نکلیں اور دوپہر تک گھر نہ لوٹیں۔ دیر ہو جاتی تب بھی اندھیرا ہونے سے پہلے ضرور لوٹ آتے تھے۔ سیڑھیوں پر چھڑی کی کھٹکھٹاہٹ سے ہی دیوی سنگھ سمجھ لیتا کہ وہ لوٹ آئے ہیں۔ کبھی کبھی غصے کے عالم میں وہ باورچی خانے ہی میں لیٹا رہتا گویا اس نے ان کی آہٹ سنی ہی نہ ہو۔ ایسے موقعوں پرنہال چند اسے بلاتے نہ تھے بلکہ اس کی آنکھیں بچاکر دبے پاؤں اپنے کمرے میں چلے جاتے اور بستر پر دراز ہو جاتے۔ اس وقت دیوی سنگھ کا دل الٹنے لگتا۔ وہ جلدی سے چائے بناکر ان کے کمرے میں لے جاتا اور وہ نیند کا بہانہ بناکر آنکھیں بند کیے پڑے رہتے۔ گویا اسے دیکھا ہی نہ ہو۔
لیکن اس رات ان کا کمرہ خالی تھا۔ پلنگ کے نیچے ان کی چپلیں پڑی تھیں۔ کونے میں سلفچی اور گرم پانی کا جگ رکھا تھا جس کا پانی اب بالکل ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ دیوی سنگھ نے کمرے کی انگیٹھی میں آگ دہکا دی تاکہ جب وہ آئیں تو اسے پریشان نہ کریں اور کھانا کھاکر فوراً سو جائیں۔ خود اس کی آنکھیں بوجھل ہو چلی تھیں۔ ایک بار اس کا جی چاہا کہ پڑوس کے مکان میں یہ بتا آئے کہ کرنل صاحب ابھی تک نہیں لوٹے ہیں لیکن پھر قدم رک گئے۔ شہر میں چھوٹی سے چھوٹی بات پر پولیس آ جاتی ہے۔ پولیس کاخیال آتے ہی دیوی سنگھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ چپ رہنا ہی بہتر تھا۔ ابھی نہیں تو کچھ دیر میں آتے ہی ہوں گے۔ اکیلے آدمی جائیں گے بھی کہاں اور وہ بھی اس عمر میں؟
اسے اس بات کی طرف سے پورا اطمینان تھا کہ نہال چند کہیں جا نہیں سکتے تھے۔ سال میں تین سو پینسٹھ بار، عمر کے آخری دن تک بلاناغہ ہر دوپہر میں وہ صرف گھر ہی لوٹ سکتے تھے۔
دھیرے سے کچھ کھڑکا تو وہ چونکا۔ کیا دروازہ پر دستک ہوئی ہے یا صرف ہوا ہے۔ دیوی سنگھ کچھ دیر اندھیرے میں بیٹھا رہا پھر دبے پاؤں نہال چند کے کمرے میں گیا۔ آگ میں جلتی ہوئی لکڑیاں کڑک اٹھی تھیں۔ جن کی آواز نے اسے جگا دیا تھا۔ انگیٹھی کے پاس رکھی لوہے کی سلاخ سے اس نے نیچے دبی لکڑیوں کو کرید کر اوپر کیا اور جب وہ بھبھک کر دوبارہ جلنے لگیں تو وہیں نہال چند کے پلنگ کے نیچے لیٹ گیا۔ آگ کی اٹھتی ہوئی لپٹوں نے جانے کب اس کو نیند کی آغوش میں لے لیا، اسے پتہ بھی نہ چلا کہ کب وہ دروازے کی سٹکنی کھول کر باہر چلا آیا اور اسی راستے پر چلنے لگا جس پر ہر روز نہال چند سیر کے لیے جاتے تھے۔ گندا نالا، دھوبی گھاٹ کا میدان، نہر کی چمکیلی تنگ لہر۔۔۔
پیڑوں کے اوپر چاند نکل آیا تھا اور سارا جنگل ایک انوکھی روشنی سے چمک رہا تھا۔ کچھ دور پر دونوں ہاتھوں کو ہوا میں ہلاتے ہوئے وہ دکھائی دیے۔ دیوی سنگھ کے پاؤں ٹھٹک گئے۔ اسے کچھ عجیب سا لگا۔ کرنل صاحب کا وہی چہرہ تھا، وہی جسم، وہی کپڑے لیکن اس وقت وہ چودہ برس کا ایک نوعمر لڑکا معلوم ہو رہے تھے۔ صاف، کنوارا، بےتاب چہرہ۔ وہ دونوں ہاتھ ہوا میں ہلاکر اسے بلا رہے تھے۔ وہ ڈرے بغیر ان کی طرف بڑھنے لگا۔ بالکل ان کے قریب چلا آیا اور وہیں کھڑا ہو گیا جہاں وہ پیڑ کے نیچے جھول رہے تھے۔
نہال چند کے گلے میں رسی پھنسی تھی اور رسی کا سرا پیڑ کی ٹہنی سے بندھا تھا۔ ٹہنی ہل رہی تھی اور نہال چند لٹک رہے تھے۔ نیچے گھاس پر ان کا تھرمس، تھیلا اور فوجی کوٹ پڑا تھا جس کی دونوں جیبیں اڑسی ہوئی تھیں۔ بالکل خالی۔ کھٹ۔۔۔کھٹ۔ کھٹ اسے عجیب سی آواز سنائی دی۔ سر اٹھایا تو بچوں کے کودنے والی رسی دکھائی دی، چاندنی میں ہلتے ہوئے دو ننھے زرد بیلن جو ٹہنی کے ہلنے سے بار بار نہال چند کے جھولتے ہوئے سر سے ٹکرا جاتے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.