اس کو اسٹیشن پر اتار کر ریل نے سیٹی دی اور’’چھک چھک چھک چھک‘‘ کے ساتھ شمال کی سمت چل دی۔ ریل تو آنکھوں سے اوجھل ہو گئی مگر اس کا پھینکا ہوا دھواں ابھی سامنے بکھرا ہوا تھا۔ کالا دھواں اپنی صورت بدلتا ہوا ا ٓسمان پر چھا گیا۔ دھواں دیکھ کر وہ خودبھی حیران رہ گیا۔ دھویں کی لپٹیں نیرالی (آکٹوپس) کی مانند ہزاروں پیروں پر تیرتی ہیں۔
وہ بھیڑ بھاڑ والے پلیٹ فارم پر اکیلا کھڑا رہا۔ ہرجانب غیرمتعارف چہرے۔ وہ ان میں کسی کوبھی نہیں جانتا۔ ان کے الفاظ متعارف نہیں ہیں۔ ان کی بوسے بھی اس کا تعارف نہیں ہے۔ یہ کون ہیں؟ یہ یہاں کیا کرتے ہیں؟ خاکی پوشاک کے قلیوں کو دیکھنے پراس کی جستجو جاگ اٹھی۔ ہری جھنڈی لیے دفتر میں داخل ہوتا ہوا اسٹیشن ماسٹر بھی تجسس کی چیز تھا۔
آنکھوں میں بےچینی، ہاتھ میں صندوق پکڑے ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔
کچھ دیر کے بعد پلیٹ فارم سنسان ہو گیا۔ وہ تنہا رہ گیا۔ تب اس کوریل کی یاد آئی۔ دور دور تک کھنچی ہوئی ریل کی پٹری پراس کی آنکھیں دوڑنے لگیں۔ پٹری کے آخری سرے پر ریل غائب ہو گئی تھی۔ دور نقطہ پر پٹریاں بھی غائب ہو گئی تھیں۔ ریل سے نکلا ہوا دھواں اب تک آسمان میں جذب ہو چکا تھا۔ اسے تنہائی کا احساس ہونے لگا۔ اسے محسوس ہوا گویا وہ ناف کی رگ سے علاحدہ کیا ہوا بچہ ہے۔ اس پلیٹ فارم پر اس سنسان پلیٹ فارم پر میں تنہا ہوں۔ میں نے جو جو الفاظ سنے وہ سب تنہائی کے الفاظ تھے۔ جو رنگ دیکھے وہ تنہائی کے رنگ تھے۔ پلیٹ فارم کی چھت کو تھامے ہوئے، زنگ آلودہ یہ ستون، آم کے درخت کے نیچے پڑی یہ سیمنٹ کی بنچ، دھوپ کی جلتی مچلتی یہ ریلیں، سب تنہائی کے جذبات کو بیدار کرتے ہیں۔ یہ ریلوے اسٹیشن، یہ چھوٹا شہر، شہر کے اوپر لٹکتا روشن آسمان، آسمان میں چمکتا سورج سب تنہائی کو پکارتے ہیں، جگاتے ہیں۔
اس بڑی زمین کے اوپر پھیلے ہوئے اس بڑے آسمان کے نیچے میں تنہا ہوں۔
اس کواسٹیشن پر چھوڑکر بھاگی ہوئی ریل کی یاد میں غمگین ہوکر وہ پلیٹ فارم پر اپنے صندوق پر بیٹھ گیا۔ ریل لوٹ آ۔ مجھے گرم، گیلے اورملائم بدن کی طرف واپس بلا لے۔ ناف سے مجھے باندھ لے۔ ریل نے اس کے الفاظ نہیں سنے۔ ریل میلوں دورپیچھے کی طرف مڑکر دیکھے بغیر پیچھے چھوڑے راستے کی یاد کیے بغیر وقت کی طرح دوڑتی رہی۔
’’بیٹا!‘‘
سر اٹھاکر دیکھا ایک بوڑھا آدمی ایک دھوتی اور کرتا پہنے۔
’’میرا نام نانو نایر ہے۔‘‘
نانو نایر نے خود اپنا تعارف کرایا اور پان کے داغ لگے دانت پھاڑکر ہنسا۔
’’نانو نایر کو کون نہیں جانتا؟‘‘
وہ صندوق پر سے ایک دم کھڑا ہوا۔
نانو نایر؟ اسے کون نہیں جانتا؟ کتنے ہی سالوں سے اس کا نام سنتا آ رہا ہوں۔ کتنی بار کتنے ہی لوگوں نے نانو نایر کے بارے میں مجھ سے باتیں کی ہیں۔ اس سے ملنے اور تعارف پیدا کرنے کا اصرار بھی کئی بار کیا ہے۔ اب اس کا موقع مل گیا۔ نانو نایر رحم دل اور حساس ہے۔ اب کسی کا خوف نہیں۔ اس آسمان کے نیچے اس زمین کے اوپر کسی سے کوئی خوف نہیں۔ نانو نایر میرا ساتھ دےگا۔
’’ریل کب آئی؟‘‘ نانو نایر نے پوچھا۔
کچھ دیر ہو گئی۔
نانو نایر کی باتوں پر اس نے دھیان نہیں دیا۔ وہ نانو نایر کو تاکتا ہی رہا۔ اس کا گلا بہت موٹا، سر کے بال پورے پک گئے ہیں۔ پیروں میں پھٹا جوتا۔ اس بڑے آدمی کی شکل کتنی چھوٹی ہے۔ نانو نایر نے اپنے ہاتھ کے رومال سے گلا اور منھ پونچھا۔ وہ پسینہ سے شرابور ہو گیا تھا۔ کرتا بھیگ کر پیٹھ سے چپک گیا تھا۔
’’تو چلیں؟‘‘
اس نے سر ہلایا۔
’’صندوق مجھے دے دیجیے۔‘‘
’’میرے ہاتھ میں رہنے دیجیے۔‘‘
’’ادھردے دوبیٹے۔‘‘
نانونایر نے زبردستی صندوق لیا۔ ہاتھ میں صندوق لیتے ہی اس کے دبلے ہاتھ کی رگیں تن گئیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے گویا نانو نایر کے ہاتھ پر گوشت یا ہڈیاں نہیں صرف رگیں ہی ہیں۔
’’سفر آرام دہ تھا؟‘‘
’’ہاں!‘‘
وہ دن بھر سوتا رہاتھا۔
’’کھانا ملتا تھا؟‘‘
نانو نایر یہ سوال کرتا ہوا اسٹیشن کے باہر کی طرف چل پڑا۔ وہ اس کے پیچھے چل دیا۔ باہر بڑی بھیڑ تھی۔ موٹریں قطار میں کھڑی تھیں۔ چار پانچ گھوڑا گاڑیاں بھی کھڑی تھیں۔ آم کے درختوں کے سایہ میں پرندوں کی مدد سے حال بتانے والے اورچوہوں کو بھون کر کھانے والے کو کنیوں (جنوبی ہند کے کوکن علاقے کے باشندے) کا پڑاؤ دکھائی دے رہا تھا۔ راستے کے اس طرف ایک دوسرے سے ملی ہوئی دکانوں کی قطاریں تھیں۔
’’چل نہیں سکتا بیٹا، موٹرمیں جانے کی دوری تو نہیں۔‘‘
’’ہاں چلیں!‘‘
چلوں تو چاروں طرف کے منظر اچھی طرح دیکھ سکوں گا۔ نانو نایر نے صندوق کو نیچے رکھ کر جیب سے ایک بیڑی نکال کر جلائی اور دھواں اڑایا۔ وہ بیڑی اوراس کے سرے کے انگارے کوحیرت سے دیکھتا رہا۔ نانو نایر کی ناک اور منھ سے دھواں اڑا تووہ اور زیادہ گھبرا گیا۔ نانو نایر آہستہ آہستہ مسکراتا ہوا صندوق لے کرچل پڑا۔ بیڑی اس کے منھ میں دبی ہوئی تھی۔ اس نے دھوپ میں اپنا اور نانو نایر کا سایہ دیکھا۔ اپنے ساتھ چلنے والے سایوں کووہ حیرت کے ساتھ دیکھتا ہی رہا۔
’’بیٹے تیز چل۔ بہت تیز دھوپ ہے۔‘‘ نانو نایر نے صندوق دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس وقت ایک گھوڑا گاڑی سامنے سے آئی۔ گھوڑے کے منھ سے جھاگ نکل رہے تھے۔ گردن کی گھنٹیاں جھنک رہی تھیں۔ گھوڑا گاڑی قریب آئی تو گھوڑے کی طرف اشارہ کرکے اس نے پوچھا، ’’وہ کون سا جانور ہے؟‘‘
’’وہ گھوڑا ہے۔‘‘
نانو نایر نے بیڑی منھ سے ہٹائے بغیر جواب دیا۔ گھوڑا گاڑی کے چلے جانے کے بعد بھی اس نے گھوڑے پرسے آنکھیں نہ ہٹائیں۔ مڑکر گھوڑے کی طرف دیکھتا رہا۔ گھوڑا گاڑی کے سامنے تھا۔ اس لیے وہ اس کی ٹانگیں ہی دیکھ سکا۔ لڑھکتے پہیوں کے درمیان میں گھوڑے کے پیر تال سر سے آگے بڑھتے تھے۔
’’چل بیٹا!‘‘
نانو نایر نے راستہ دکھایا۔ اس نے چلتے چلتے گھوڑے سے متعلق باتیں کیں۔ پرانے زمانے میں گھوڑے جنگلی جانور تھے۔ پیاس لگنے پر پانی پیتے۔ بھوک لگنے پر گھاس کھاتے اور شہوانی خواہش ہونے پر اس کو پورا کرتے۔ جنگلوں میں رہتے تھے۔ جانوروں میں جاندار انسانی شکل والے بندر گھوڑوں کا شکار کرتے، بعد میں انسان نے گھوڑے کوجال میں پھنساکر زندہ پکڑکے کھیتوں میں کام لیا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے گھوڑے پر سوار ہونا سیکھ لیا۔ ان دنوں انسانوں کی اہم سواری گھوڑا تھی۔ پہیوں کی ایجاد ہوتے ہی گھوڑے گاڑی کھینچنے لگے۔ گھوڑے نے انسان کو کھینچ کر اسے جنگلوں، گاؤں اور شہروں کی سیر کرائی۔
’’انسان نے گھوڑے کا پورا استحصال کب شروع کیا، تجھے معلوم ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘ اس نے سر ہلایا۔
’’جنگ کے وقت۔ پرانے زمانے میں جنگ میں گھوڑوں کا پورا پورا تعاون تھا۔ جس ملک میں گھوڑے زیادہ تھے، اس ملک نے کم گھوڑوں کے ملک کو شکست دی۔‘‘ نانو نایر نے بتایا۔
’’آج گھوڑوں کا استعمال کم ہو رہا ہے۔ کھیتوں میں کام کرنے کے لیے ٹریکٹر ہیں۔ انسان کو سیر کرانے کے لیے موٹر، ہوائی جہاز اور پانی کے جہاز ہیں۔ گھوڑوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
’’لیکن سرکس والے اب بھی گھوڑوں کو کام میں لاتے ہیں۔‘‘ نانو نایر نے اپنی تقریر ختم کی۔ پیلے رنگ کے، نعل والے، سموں والے، لگام لگے اور جگالی کرتے گھوڑوں کا خواب دیکھتے ہوئے وہ آگے بڑھا۔ وہ تراہے پر پہنچ گئے، جہاں تین راستے ملتے ہیں۔
’’گھر کا راستہ کون ساہے؟ معلوم ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘ اس نے سر ہلایا۔ وہ کچھ نہیں جانتا۔ اپنے گھر کا راستہ بھی معلوم نہیں۔ نانو نایر گھر کی طرف جانے والے راستہ کی طرف مڑا۔ راستہ پختہ یا چوڑا نہیں تھا۔ پتھریلی اور گڈھوں بھری ایک دیہاتی سڑک۔ گاڑیوں کے پہیوں کے نشانات نہیں دکھائی دیتے تھے مگر انسانوں اور حیوانوں کے قدموں کے نشان ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ چڑیوں کے پنجوں کے نشانات بھی کہیں کہیں دکھائی دے رہے تھے۔
’’مرغی یا کوے کا ہوگا۔‘‘ نانو نایر نے کہا۔ اس نے صندوق کو نیچے رکھ کر ایک اور بیڑی جلائی۔
’’چھوٹا نقش قدم بچوں کا اور بڑا بڑوں کا ہے۔‘‘ نانو نایر نے کہا اور صندوق لے کر آگے بڑھ گیا۔
اپنے پیروں کے پیچھے، اپنے پار کیے راستہ میں پیروں کے نشانات پڑتے دیکھ کر اسے اشتیاق ہوا۔ نانو نایر کے پیروں سے بھی نقش پابن رہے تھے۔ دونوں کے نقش پا ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
’’میں نے جوتے پہنے ہیں۔ تیرے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں۔‘‘ نانونایر نے اظہار کیا۔
پاؤں کے نشانات کے جلوس کے آگے آگے ان کا سفر جار ی تھا۔
’’کون سادرخت ہے؟‘‘ راستے کے کنارے کٹہل کے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے پوچھا۔ بیڑی منھ سے نکالے بغیر نانو نایر نے جواب دیا، ’’وہ کٹہل ہے۔‘‘
’’کٹہل کے درخت پر کٹہل پھلتا ہے۔ ٹھیک۔ تب آم؟‘‘
’’آم، آم کے درخت پر پھلتا ہے۔‘‘
’’آم کا درخت کدھر ہے نانو نایر؟‘‘
’’دکھا دوں گا۔‘‘
چلتے چلتے نانو نایر نے انگوچھے سے اپنا گلا اور سینہ پونچھا۔ اس کاسارا بدن پسینے میں بھیگ گیا تھا۔ پیشانی، کنپٹی اور گلے سے ہوکر پسینہ نیچے کی طرف بہہ رہا تھا۔ وہ ہانپ بھی رہا تھا۔
’’صندوق میں پکڑ لوں نانو نایر؟‘‘
’’نہ بیٹا، نانونایر کی یہ عادت ہو گئی ہے۔‘‘ لال مٹی کے راستے پر وہ آگے بڑھتے رہے۔
’’نانو نایر!‘‘
’’ہاں بیٹا!‘‘
’’آم کا درخت ہوتا ہے یا بیل؟‘‘
’’درخت ہوتا ہے بیٹا!‘‘
’’پھر بیل کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’ککڑی اور کریلا سب بیلوں میں پھلتے ہیں۔ سیاہ مرچ بھی بیل میں ہوتی ہے۔‘‘
’’سیاہ مرچ کیا؟‘‘
’’ٹھہر بیٹا، تو سب آہستہ آستہ سیکھ جائےگا۔‘‘
وہ کچھ دیر تک چپ چاپ نانو نایر کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ دھوتی کا کنارہ زمین پر لٹک رہا تھا۔ بالوں سے بھرے پیرپسینے سے شرابور تھے۔ پھر بھی وہ تھکا نہیں تھا۔ وہ ہانپ نہیں رہا تھا۔ نانو نایر تو تھک گیا تھا اور ہانپ بھی رہا تھا۔
’’دیکھ، وہ آم کا درخت ہے۔‘‘
نانو نایر نے ایک درخت کی طرف اشارہ کیا۔ لہلہاتا چاروں طرف پھیلا ہوا ایک بڑا درخت ہری ٹہنی پر آم کے پھل، ٹہنیاں ایک دوسرے سے لپٹی پڑی تھیں۔ ایک نچلی ٹہنی پر بیٹھے اونگھتے ایک کوے پر اس کی نگاہ پڑی۔
’’نانو نایر!‘‘
’’وہ کوا ہے۔ کوے کی کئی قسمیں ہیں، بلی کاک، ماپل کاک اور بحری کاک۔‘‘
’’یہ بلی کاک ہے نا؟‘‘
’’نہ بیٹا یہ ماپل کوا ہے‘‘
’’ماپل کوے اور بلی کاک میں فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘‘
’’وہ آسان ہے بیٹا۔ بلی کاک پتلا ہوتا ہے۔ گلے پر دوسرے رنگ کے بال ہوتے ہیں۔ وہ چوری بھی کرتا ہے۔‘‘
آم کے درخت پر بیٹھنے والے کوے کے دبلے بدن، پیر اور گلے پر تانبے کے رنگ کے بال تھے۔
’’بالکل صحیح ہے۔ وہ ماپل کوا ہے۔‘‘
اس نے سر ہلایا۔ وہ اس راستے سے مڑکر کھیت میں اترے اور مینڈ سے ہوکر چلنے لگے۔
’’دیکھ، وہاں تیرا گھر ہے۔‘‘ نانو نایر نے اشارہ کیا۔ ایک بڑا سا گھر، سامنے ہے اس کا چوپال والا پھاٹک اور تاڑ کے پتوں کا چھپر۔ کھیت کو پار کرکے وہ گھر کے سامنے پہنچے۔ نانو نایر نے دھکا دے کر چوپال کا پھاٹک کھول دیا۔ سامنے کی ڈیوڑھی میں کچھ لوگ کھڑے تھے۔
’’آہا میرا بیٹا آیا ہے؟‘‘
کانوں میں سونے کے آویزے اور سفید لباس پہنے ایک عورت گھر کے صحن میں دوڑی آئی۔ انہوں نے اسے سینہ سے لگایا، وہ یکایک گھبرا گیا۔ اسے دیکھ کر نانو نایر نے ہلکی ہنسی سے کہا، ’’تیری ماں ہے بیٹا!‘‘
وہ ماں سے لپٹ گیا۔ ماں کے منھ میں سپاری کی خوشبو تھی۔ وہ ڈیوڑھی میں پہنچے۔ نانو نایر نے ایک ایک کرکے سب کا تعارف کرایا۔
’’یہ تیرے پتا ہیں۔‘‘
پتا کپڑے کی کرسی پر لیٹے تھے۔ موٹا تازہ گورا بدن، کانوں میں کنڈل۔ دروازے کے پیچھے آڑ میں کھڑی ایک لڑکی جودایل کی ساری زیب تن کیے ہوئی تھی، اشارہ کرکے نانو نایر نے کہا، ’’معلوم ہے وہ کون ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’تیری بیوی ہے، بیٹا چندریکا۔‘‘
اس نے دروازے کے قریب جاکر دیکھا۔ پیشانی پر سیاہ بندی، سنکھ جیسا خوبصورت گلا۔ دہلیز پر کھڑی ہوئی اس کی انگلیوں کو اس نے آہستہ آہستہ سہلایا۔ سر جھکائے اس لڑکی کے رخسار ایک دم سرخ ہو گئے۔
ماں نے کہا، ’’نہاکر آ، پانی رکھا ہے۔ صابن اور تولیہ غسل خانہ میں ہیں۔‘‘ وہ غسل خانہ میں گیا اور نہاکر لوٹا تب تک میز پر کھانا تیار رکھا تھا۔
’’نانو نایر، کھانا کھائیں۔‘‘
پتاجی اور نانو نایر نے جھاری (پانی رکھنے کے لیے ٹوٹی دار لوٹا) سے پانی لے کر ہاتھ دھوئے۔ اس نے بھی ایسا ہی کیا۔ گھاس کی چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ کھانے کے وقت نانو نایر نے اس سے پوچھا، ’’سب سے تعارف ہو گیا؟ سب کچھ سمجھ گیا نا؟‘‘ اس نے سر ہلاکر’’ہاں‘‘ کہا۔ کھانے کے بعد پتاجی اور نانو نایر نے پان سپاری کھائی، قرب وجوار کی اچھی خبریں پوچھیں۔ وہ ستون سے ٹیک لگائے آسمان اور درختوں کے حسن سے لطف اندوز ہونے لگا۔ درختو ں کا رنگ ہرا ہے۔ آسمان کا رنگ نیلا۔ اس درمیان میں وہ یہ سب سمجھ چکا تھا۔ اس نے علم وعرفان حاصل کیا تھا۔ وہ سب کچھ جانتا ہے۔
ماں نے پوچھا، ’’تین چاردن کا سفر کیا ہے بیٹا، تو تھک گیا ہوگا؟‘‘
’’ذرا سا سوجا۔‘‘ پتاجی نے کہا۔
وہ زینے پرچڑھ کر اوپر کے اپنے کمرے میں پہنچا۔ کمرے میں کھڑکی کے قریب چندریکا سر جھکائے کھڑی تھی۔ کھڑکی سے آنے والی ہوا میں اس کے بال اڑ رہے تھے۔ اس نے پاس جاکر اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں بھرکر اوپر اٹھایا۔ اس کی سرمگیں آنکھیں گیلی تھیں۔
’’چندریکا روتی ہے کیا؟‘‘
وہ مسکرائی۔
وہ دونوں چارپائی پر بیٹھے۔ اس نے اس کے ہاتھ لے کر اپنی گود میں رکھے اور پلاسٹک کی چوڑیاں گننے لگا۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات۔ اس نے اس کے بال اور رخساروں کو سہلایا۔ پیٹھ کے بل لیٹی اس دوشیزہ کے گلے سے اپنا رخسار ملاکر وہ لیٹ گیا۔ اس کا دایاں ہاتھ اس کی پستان پر پھسلنے لگا۔
بیدار ہوا تو شام ہو چکی تھی۔ وہ چارپائی سے اٹھ بیٹھا۔ اسے اچانک یاد آیا۔ اس نے سب کچھ نانو نایر سے پوچھ کر سمجھ لیا تھا۔ مگر سب سے اہم سوال کہ ’’میں کون ہوں؟‘‘ تو پوچھا ہی نہیں۔ میں ایک بےوقوف ہوں۔ سب سے تعارف ہوا، سب کے نا م بھی پوچھ لیے۔ مگر خود اپنا نام نہ پوچھا۔ میں بڑا بےوقوف ہوں۔ نانو نایر سے پوچھ لینا چاہئے۔ وہ زینے سے اترکر نیچے آیا۔
’’نانو نایر کہاں ہیں پتاجی؟‘‘
’’ابھی باہر گیا ہے۔‘‘
وہ صحن میں اتر کر بڑے پھاٹک کی طرف دوڑا۔ راستہ میں جاکر دیکھا، نانو نایر بہت دور پہنچ گیا تھا۔
’’نانو نایر!‘‘
اونچی آواز سے پکارا۔ نانو نایر نے نہیں سنا۔ اس نے پوری طاقت کے ساتھ پکار کر پوچھا، ’’میرا نام کیا ہے نانو نایر؟ میں کون ہوں نانو نایر؟‘‘
نانو نایر نے سنا نہیں۔ مڑکر بھی نہیں دیکھا۔ شام کی طرف تاریکی میں دھندلی روشنی میں نانو نایر غائب ہو گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.