Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سنہرا پرندہ

عطاء الرحمان خاکی

سنہرا پرندہ

عطاء الرحمان خاکی

MORE BYعطاء الرحمان خاکی

    وہ اگر چاہتا تو بہت آسان موت مر سکتا تھا۔۔۔ ہاتھ کی رگ کاٹ کر دھیرے دھیرے موت کو محسوس کر سکتا تھا یا پھر پسٹل کی ایک گولی یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے سرانجام دیتی۔۔۔ لیکن خود کشی کے یہ طریقے اسے بالکل پسند نہیں آئے، نشہ آور ادویات میں امکانات کم تھے، عین ممکن تھا کہ جب وہ کمرے میں موت کی پوری تیاری سے بیٹھا ہو، ایک عدد نوٹ بھی تحریر کرچکا ہو جو اس کی جان سوزی کے حوالے سے ہو اور کچھ اس طرح سے ہو کہ میں اس لئے خود کشی کررہا ہوں کیونکہ اس بھیڑ بھاڑ والی دنیا میں بھی تنہائی محسوس کرتا ہوں اور اس تنہائی بھری اداسی میں مجھے اپنا پالتو کتا شیری یاد آتا ہے جو پچھلے ہفتے پڑنے والی سخت سرد ی سے بیمار ہوکر مر گیا اور یہ نوٹ لکھتے وقت وہ ہنسی سے دوہرا ہو جائے کہ اس جیسا انسان جو تدفین میں محض اس لئے نہیں جاتا کہ اس سے مسکین سا منہ نہیں بنایا جاتا اور نا ہی آنکھ میں آنسو آتے ہیں، ایک عام سے بات ہوتی تھی اس کے لئے کہ فلاں راہی عدم گیا، جیسے روز صبح کی واک کرنے یا شیو کرنے، ناشتے کے بعد دن کی پہلی سگریٹ جلاتے ہوئے اخبار کی شہ سرخیوں پر تبصرہ کرنے جتنی عام سی بات۔۔۔بھلا ایسے انسان کو ایک کتے کی موت سے کیا فرق پڑ سکتا تھا۔ اسٹریو پر جگجیت سنگھ کی پرسوز اور ٹھری ہوئی آواز میں غالب کی کوئی غزل ہوتی جو مرنا آسان کر دیتی۔ بیڈ کے سرہانے پڑی میز پر مختلف خواب آور گولیاں سجانے کے بعد ایک کے بعد ایک نگل کر اب موت کے انتظار میں ہو تا۔ دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوتی اور موت بس آنا ہی چاہتی ہوتی اور ٹھیک اسی وقت آکر کوئی اسے بچا لیتا تو اس کو یہ طریقہ کار بھی پسند نہیں آیا تھا۔

    ہاتھ کی رگ کاٹ کر یا خود کو شوٹ کرنے میں بھی ایک مسئلہ تھا، وہ بہت نفاست پسند انسان تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ جب کوئی پولیس کو اطلاع دے کہ پوش علاقے میں بنے ایک فلیٹ سے شدید نا گوار بو اٹھ رہی ہے۔۔۔ جو بے شک ایک ٹھنڈے اور سڑتے ہوئے جسم سے ہی اٹھ سکتی ہے، جو کبھی حیات تھا اور سانس لیتا اور دنیا کی رنگینیاں دیکھتا تھا لیکن اب اس کا جوان اور سرخ خون جو کئی دن گزر جانے کے بعد سیاہ مائل ہوکر جم چکا ہو، جس پر مکھیاں بھنبھناتی ہوں۔۔۔ اور وہ مرنے کے بعد بھی مکھیوں کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ اورپولیس والے کمرے کا دروازہ توڑ کر جب فلیٹ میں داخل ہوتے، وہ منہ پر رومال رکھ لیتے کہ وہاں جو بو ہونی تھی وہ ناقابل برداشت ہونی تھی تو یہ سب طریقے اس کی نفیس طبیعت پر گراں گزرتے تھے۔

    اس کا نام ارمان تھا، اسے اونچائی سے ڈر نہیں لگتا تھا اور شائد ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب وہ کسی اونچے درخت، کھمبے یا دیوار سے چھلانگ نہ لگاسکا ہو۔وہ ہمیشہ بس پھلانگتا رہتا۔۔۔ وہ قوانین فطرت سے واقف تھا۔۔۔ اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ جتنی بھی اونچی چھلانگ لگائے لیکن کشش ثقل اسے زمین پر پٹخ ہی دےگی۔۔۔کشش ثقل ہمیشہ اسے پرندے کی طرح اڑنے سے روک کر زمین کی جانب کھینچ لیتی تھی۔

    اسے ہر کوئی سنہرا پرندہ کہتا تھا۔ ایک ایسا پرندہ نما انسان جو بس اڑنے کی خواہش رکھتا ہے۔۔۔ شاید وہ اڑنا نہیں چاہتا بلکہ وہ بس کسی اونچے درخت یا دیوار سے چھلانگ لگاکر اپنی حد جاننا چاہتا ہے۔۔۔ وہ ایک اونچے درخت پر چڑھ کر ایک پرندے کی طرح زمین کی جانب دیکھتا ہے اور اونچائی سے دنیا زیادہ بہتر اور وسیع معلوم ہوتی ہے۔ اس کے جسم میں کچھ تو ہڈیاں، پٹھے، خون اور رگیں تھیںاور اس کے ساتھ کچھ تھا تو دھاتوں کے ٹکرے تھے جو ہر چھلانگ کے بعد اس کے جسم کا حصہ بن جاتے تھے۔۔۔ اگر اس کا ایکسرے لیا جاتا تو اس کا پنجر ایک ایسا خالی پنجرہ محسوس ہوتا جس میں کوئی قید ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک بے چارہ سنہرا پرندہ ہے‘‘۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اسے حادثات اور چوٹ کے نشانات پسند ہیں۔۔۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ٹھیک کر رہا تھا اور نیوٹن بھی صحیح تھا اور وہ ننھا بچہ کسی شاخ سے ٹوٹے سیب کی طرح ہمیشہ گرتا رہےگا۔

    بائبل میں فرشتوں کی کہانیاںاُسے بچپن سے مسحور کرتی تھیں۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ وہ خود بھی کوئی دھتکارا ہوا فرشتہ ہے جسے کسی جرم کی پاداش میں آسمان سے زمین کی جانب پھینک دیا گیا ہے۔۔۔یہ سوچ کر اسےاردگرد کی چیزیں ہلکی اور سطحی محسوس ہونے لگتیں۔۔۔ پھر ایک وقت آیا کہ اسے انسانوں سے زیادہ پرندے دلچسپ اور حیرت انگیز محسوس ہونے لگے۔ وہ انہیں گھنٹوں فضاء میں پرواز کرتے۔۔۔ گاتے۔۔۔ دانا چگتے۔۔۔ بیٹ کرتے اورملن کرتے دیکھتا رہتا۔۔۔

    یہ انہی دنوں کی بات ہے جب وہ سمجھتا تھا کہ اپنی نوعیت کا واحد انسان ہے۔ پھر اس نے غور سے آس پاس رہنے والے لوگوں کا مشاہدہ کیا اور یہ جانا کہ ان کے بھی نادیدہ پنکھ ہیں۔۔۔ لیکن وہ اس حقیقت سے واقفیت نہیں رکھتے۔۔۔ شائد ان کے اندر اڑنے کی خواہش جنم نہیں لیتی اور وہ اسی بدقسمتی کے ساتھ دفن ہو جاتے ہیں۔۔۔ وہ اکثر بڑبڑاتا ’’پروں کے ہوتے ہوئے اڑنے کی خواہش نہ ہونے سے بڑی بدنصیبی کوئی اور نہیں ہے‘‘۔

    ہر چیز جس کو اوپر کی جانب اچھالا جائے، وہ واپس پلٹتی ہے، جیسے ایک سکہ، غبارہ، انسان، جانور یا پرندہ۔۔۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس حجم، ماہیت یا وزن کی شے ہے۔ لیکن وہ واپس دھرتی کی جانب لوٹ آتی ہے۔۔۔ کششِ ثقل اسے مجبور کر دیتی ہے۔ وہ اکارس ہو، انسان ہو یا شیطان، اپنے اصل کی جانب لوٹتے ہیں۔۔۔ آسمان سے دھرتی پر او ر پھر دھرتی سے اور نیچے اور وہ یہ بات بخوبی سمجھ گیا تھا کہ عظیم واقعات چھوٹی اور معمولی چیزوں سے جنم لیتے ہیں۔ اس ادراک کے بعد بھی وہ چھلانگ لگاتا رہا۔ یہ دیکھے بغیر کہ روشندانوں، ٹہنیوں اور تاروں پر بیٹھے پرندے اسے تعجب سے دیکھتے ہیں۔ اس عجیب عادت سے مجبور ہوکر ایک دن اس کے والدین نے اسے کمرے میں بند کر دیا۔ جہاں سے وہ نکل نہیں سکتا تھا۔ اس نے کمپیوٹر ٹیبل کو کتابوں کی الماری کے ساتھ جوڑکر چھلانگ لگانے کی جگہ پیدا کرلی اور تب اس نے چھلانگ لگائی اور اپنا سر فرش سے ٹکرا کر زخمی کر لیا۔ پورے کمرے میں پاگلوں کی طرح دوڑتا رہا۔ جب آزادی کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو غصے میں آکر لکڑی کے فریموں سے سر کو ٹکرا کو زخمی کر لیا۔ اصل میں وہ آزادی چاہتا تھا۔ آخر کار ماں باپ کو مجبوراً اس جبری قید سے آزاد کرنا پڑا۔۔۔ شائد وہ بھی یہ جان گئے تھے کہ وہ ایک ایسا آزاد پرندہ ہے جس کو قید نہیں کیا جا سکتا اور جو یہ کر رہا ہے اسے کرنے دیا جائے۔

    جب وہ تیرہ سال کا ہو چکا تو اس نے بہت اونچے درخت سے چھلانگ لگائی جس سے اس کی ریڑھ کی ہڈی کو کافی نقصان پہنچا۔ اب وہ ایک ٹوٹا ہو ا سنہرا پرندہ تھا۔ ایک ایسا پرندہ جس نے اپنی محدود پرواز اور حوصلے سے زیادہ اڑان بھری اور زخمی ہو گیا۔ انھوں نے اسے اٹھایا اور اس کے اکھڑے ہوئے پروں کو ٹھیک کرنے کی پوری کوشش کی۔۔۔ نازک پرندوں کی مانند ہڈیوں کو جوڑنے کے بڑے جتن کیے اور پھر تھک ہار کر اسے ایک وہیل چئیر دے دی۔اب وہ دھات اور پہیوں کا مجموعہ بن چکا تھا، کبھی نہ اڑنے کے قابل لیکن لامحدود۔

    انہوں نے اس کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور آرزوئوں کوایسے ہی بےیارو مددگار چھوڑ دیا تھا۔۔۔ اب وہ کمرے کی کھڑکی سے اڑتے ہوئے آزاد پرند وں کو ایک حسرت سے دیکھتا رہتا۔ اسے لگتا کہ درخت پر بیٹھے پرندے اس کی جانب دیکھتے ہوئے ہنس رہے ہیں اور ایسے میں وہ اپنا چہرہ نیچے کر لیتا۔۔۔ ان کو اپنے اوپر ہنسنے دیتا۔۔۔ شائد اسے بھی یقین ہو گیا تھا کہ وہ کبھی بھی اڑ نہیں سکےگا۔

    اب وہ ۲۴ فیصد دھات۔۔۔۴۷ فیصد ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کا مجموعہ اور اور ۷ فیصد پیرالائز تھا۔۔۔ وہ ۱۰۰ فیصد عزم اور اور ایک نابھولنے والاخواب بن چکا تھا۔۔۔ درحقیقت وہ کبھی دوڑنا یا اڑنا نہیں چاہتا تھا اس نے یہ کبھی چاہا ہی نہیں تھا۔۔۔ حقیقت میں۔۔۔ حقیقت میں وہ ہوائی موت سے ڈرتا تھا۔۔۔ اونچا نیلا آسمان اور کوئی بھی چیز اس کو مار نہیں سکتی تھی۔۔۔ اگر وہ دور آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گیا تو وہ نیچے کیسے اترےگا۔ یہی ڈر تھا جو اسے اندر ہی اندر مارے ڈال رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انسانوں کو پرندوں کی طرح پرواز کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہے۔۔۔ مگر شائد وہ قانونِ فطرت کو للکارنے اور اونچائی سے نیچے گرتے رہنے کے لئے پیدا ہوا تھا۔

    وہ اپنے ستائیسویں جنم دن پر شہر کی سب سے بلند عمارت کی چھت تک پہنچا۔۔۔ ہزاروں عمارتوں میں سے ایک شہر کی بلند ترین عمارت ا ور وہ وہاں محض ایک منظر دیکھنے کے لئے پہنچا تھا، دنیا پر زیادہ اونچائی سے اور بہتر طریقے سے نظر ڈالنے کے لئے۔۔۔ وہ کہتے تھے ’’یہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکےگا۔۔۔ کبھی چل نہیں سکےگا‘‘۔ اسے صرف ایک قدم اٹھا نا تھا ان کی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے اور تب اس نے قدم بڑھایا اور اپنے نادیدہ پروں کو تولتے ہوئے چھلانگ لگا دی اورنیچے گرتے وقت اس نے اپنی آنکھیں بند نہیں کریں اور اپنے ہاتھوں کو ایک آزاد پرندے کی طرح پھیلاکر خود کو ہوائوں کے حوالے کر دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے