سورج زمین پر اترا تھا
سائمہ رحیم الدین کی ڈھیر ساری ریہرسلز تھیں۔ یوں تو سائمہ ہر فیشن شو کو سنجیدگی سے لیتی تھی لیکن اس فیشن شو کی ایک خاص بات بھی تھی۔ ایک تو یہی ایک شو تھا جو سیزن پر ہو رہا تھا۔ لیکن بڑی بات وہ مغلیہ درباری کا رنگ ڈھنگ تھا جو پی سی کی سٹیج پر کمرشل آرٹس والوں نے عہد شاہجہاں یا عہد جہانگیر کے دربار خاص کی طرح سجایا تھا۔ بیک گراؤنڈ میں راگ درباری کا الاپ ہو رہا تھا۔ استاد حامد علی خان بڑی مہارت سے سُر چھیڑ رہے تھے۔ سفید سلک کے کپڑوں میں سیم باقاعدہ انارکلی یا دل آرام بنی ہوئی تھی۔ پتا نہیں اس لباس کا کیا نام تھا۔ ڈریس سرکل میں بیٹھی مینا نے عدم دلچسپی سے سوچا۔ آج یہاں آنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن وہ اپنے ارادوں کے سلسلے میں اتنی خودمختار کبھی ثابت نہیں ہو سکی تھی۔ جانے کیوں وہ سائمہ کو کبھی ’’نہ‘‘ نہیں کر سکی۔ حالاں کہ سائمہ اسے اپنے ساتھ لاکر بھول بھی بیٹھی تھی۔ ساتویں دفعہ اس نے بیس گز کے سرسراتے دوپٹے کو چاروں طرف بکھیرا۔ میوزک شروع ہوا۔ سٹیج پر کیٹ واک کرتے وہ اس کی طرف آئی۔ لمحہ بھر کو رکی اور ’’چیز‘‘ جیسی پروفیشنل سی مسکراہٹ بکھیر کر واپس ہو گئی۔ کیسی مردہ سی مسکراہٹ ہوتی ہے یہ بھی کہ مسکرانے کے باوجود چہرہ روشن نہیں ہوتا۔ اس کے پیچھے اس کی ساتھی تھی، اسی انداز میں بال کس کس کر پیچھے باندھے۔ اتنی سختی سے کہ ماتھے کی رگیں ابھر آئی تھیں۔
صبح سے یہ وقت آ گیا تھا، نہ انہوں نے کھانا کھایا نہ بریک لی۔ سپانسر کمپنی مسلسل وعدہ کر رہی تھی بس یہ آخری ریہرسل ہے۔ بس اب ختم ہوتی ہے۔
سائمہ رحیم الدین کا خیرہ کر دینے والا حسن آہستہ آہستہ تھکتا جا رہا تھا۔ چہرے پر تکان کی سرخی اسے اور زیادہ حسین اور لوگوں کو مزید پاگل کر دیا کرتی تھی۔ لیکن جب بھی ایسے وقت میں وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے اس کے پیچھے اپنا وقت برباد کیا کرتی تو وہ اندر ہی اندر جھنجلانے لگتی تھی۔ پھر آخر ہر طرف سے فارغ ہو کر سائمہ کی نظر اس پر پڑہی گئی۔ اسی طرح ہنستی مسکراتی شفاف دانتوں کی ہموار قطار سے چاندی چھلکاتی وہ کبھی سوچتی اچھا ہی ہوا سیم نے یہ فیلڈ چن لی، پھر آخر وہ اس حسنِ بےپناہ کا کرتی بھی کیا۔
’’بہت تھک گئی۔‘‘ اس نے تھکان سے بھرپور سانس لیا، ’’تم نے کچھ کھایا مینا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ مینا نے اکتاہٹ سے کہا، ’’تم نے پھر مسلسل سات گھنٹے کام کیا ہے۔ حالاں کہ تم ممی سے وعدہ کرکے آئی تھیں۔‘‘
’’اف پلیز مینا، بور نہ کرو۔ چلو ڈائننگ ہال میں سب انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
اپنی پلیٹ میں کھانا نکالتے ہوئے مینا نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ وہ پلیٹ میں خالی سلاد ڈالے کھیرا کترتی اپنی ڈریس ڈیزائنر سے نہایت سنجیدہ گفتگو میں مصروف تھی۔ ماڈلز کو لنچ دینے کا سارا مالی فائدہ سپانسر کرنے والی کمپنی کو پہنچتا ہے۔ دوڑ میں اول آنے والی کی جدوجہد ٹاپ ماڈلز کو مارے ڈال رہی تھی جن میں سے ایک سائمہ رحیم الدین بھی تھی۔ حالاں کہ نمبرون سائمہ ہی تھی لیکن اگر وہ کسی فیشن میگزین میں پڑھ ڈالتی کہ فلاں کمرشل آرٹسٹ بھی سائمہ کے مقابلے میں ہے توسائمہ کو مقابلے کی آگ جھلسا کر راکھ کر دیتی۔
سائمہ کے گروپ میں سب کے سب سائمہ ہی کے قبیل کے لوگ تھے۔ مینا کے لیے اس کے گروپ سے اچھے تعلقات رکھنا ذرا دشوار ہو جاتا تھا۔ لیکن چوں کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ رہنے پر مجبور تھی لہٰذا وہ فاصلے سے بیٹھی خاموشی سے اس کے اٹھتے پلٹتے قدم گنتی رہتی۔ حالاں کہ اسے ہیروئن کی نانیوں کی طرح سائمہ پر اپنا مسلط کیا جانا بالکل بھی پسند نہیں تھا اور اس کے اپنے کام کو کس قدر حرج ہوتا تھا۔ لیکن اس کے پاس کوئی چوائس ہی نہیں تھی۔ سائمہ اور اس کے خاندان کے احسانات کے بوجھ تلے دبی وہ مجبور تھی کہ قدم قدم پر اس کا ساتھ دے۔
یوں بھی وہ ان کے گھر کے احسانات بھولنا چاہتی تو گھر والے بھولنے ہی کہاں دیتے ،ہر ایسے موقع پر جب انہیں مینا سے کوئی کام آ پڑتا تو گھر میں ایک رقت آمیز کہانی سنائی جاتی، خواہ سامع اس کہانی کو ہر روز سنے کہ جب اس کے امی ابا حادثے میں گزر گئے تھے اور بےچاری مینا تنہا رو رہی تھی تو مسز رحیم الدین اسے لے آئی تھیں۔ ان کی بیٹی نے اسے دوست بنا لیا، اس پر جان چھڑکتی تھی اور اس کے بنا ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتی تھی۔ انہوں نے خود بھی کبھی دونوں میں فرق نہیں کیا۔ جس قسم کی مہنگی سکولنگ سائمہ کی ہوئی بالکل ویسی مینا کی رہی اور اب بھی کیا ہے۔ ہم نے تو اب بھی کوئی فرق نہیں رکھا۔
وہ تو یہ ہمیشہ سے سنتی آئی تھی۔ اب توازبر ہو گیا تھا۔ اس کا مطلب کہ بار بار ان احسانات کی قیمت چکاؤ۔ خریدا ہوا آدمی بھی ایک مرتبہ خریدا اور بیچا جاتا ہے، یہاں تو روزانہ بازار لگتا تھا اور سود تھا کہ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ اسے بہرکیف چھٹی لے کر سائے کی طرح سائمہ کے ساتھ رہنا پڑا۔ وہ ڈائٹ سیون اَپ کا کین ہاتھ میں پکڑے اپنی بدترین رقیب روسیاہ سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔
’’یہ میری بہن ہے ثمینہ۔ ہم اسے مینا کہتے ہیں۔‘‘ اس نے رقیب سے تعارف کرایا۔
’’اچھا؟‘‘
رقیب نے حیرت سے کہنا چاہا لیکن برداشت کر لیا۔ شاید یہ کہ اتنی حسین و جمیل سائمہ کی ایسی معمولی سی بہن۔ لیکن یہ فقرہ زیادہ مشکل تھا کیوں کہ اسے بلاواسطہ اعتراف تو کرنا ہی پڑ رہا تھا کہ وہ معمولی سہی لیکن جس کو مقابلے میں رکھا گیا وہ تو حسین ہے۔
’’کیا بدتمیزی ہے؟‘‘ اس نے قریب آکر تمیز سکھانے کی کوشش کی،’’ جب لوگ بات کرتے ہیں تو مسکراتے ہیں یا دم بخود ہو جاتے ہیں؟ کوئی کیا کہےگا شاید۔۔۔ ویک بیک گراؤنڈ کی لڑکی ہے۔ اپ اسٹارٹ ہے۔‘‘
’’پلیز سیم!‘‘ اس نے اکتاہٹ سے کہا، ’’میں تنگ آ گئی ہوں۔ دیر ہو رہی ہے۔ ممی بھی خفا ہو رہی ہوں گی۔ انہوں نے مجھے منع کیا تھا کہ تمہیں اتنی دیر نہ لگے۔‘‘
اس نے مایوسی سے مینا کی طرف دیکھا۔ اس سے کسی قسم کی توقع فضول تھی۔ مشین سے بنے روبوٹ کی طرح اس میں طاقت ور کمپیوٹر فٹ تھے اور وہ صرف وہی کچھ کر سکتی تھی جو اس میں فیڈ کیا جاتا تھا۔ نرم ونازک جذبات، احساسات، حتیٰ کہ محبت۔ اف خدایا مینامحبت کرتی کیسی مسخری لگے گی۔ اسے بےساختہ ہنسی آ گئی۔
’’اگر تمہیں ٹھہرنا ہے تو مجھے جانے دو سیم! مجھے ابھی صبح کے لیے ایک اسائمنٹ بھی تیار کرنا ہے۔‘‘ مذاق بناتی اس کی تمسخرانہ ہنسی اسے شدید چبھی تھی۔
اس نے تیزی سے جاتی مینا کو بھاگ کر پکڑا۔ اگر وہ اس کے بغیر چلی جاتی تو سمجھو ممی دونوں کا حشر کر دیتیں۔
’’ٹھہرو تو سہی۔ کیسی جلدباز ہو۔ میں میک اَپ اتار کر آ رہی ہوں۔‘‘
بس جیسے یہی تو ساری بات تھی۔ اِس ابھی آنے میں بھی اس نے آدھا گھنٹہ لیا۔ وہ لاؤنج میں صوفے پر ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتی، خود کو وہاں ہمیشہ کی طرح اوپر اوپر محسوس کرتی رہی جیسے کسی نے جگساپزل کا کوئی غلط ٹکڑا کہیں اور ٹکا دیا تھا۔ ساری صورت ہی بدل کر رہ گئی تھی۔
وہ باہر آئی تو اس کا چاند چہرہ ہمیشہ کی طرح روشن تھا۔ وہ کتنی دیر سے اس کا انتظار کر رہی تھی اور وہ اپنے ساتھ ایاز کو لیے چلی آ رہی تھی۔ سائمہ کی کار کی چابی اس کے ہاتھ میں تھی اور جانے اس کے ارادے کیا تھے؟ وہ چابی سے سر تال کا کام لے رہا تھا۔ سیم کا حلقۂ احباب اسے یوں بھی سخت ناپسند تھا اور ایاز جیسے خود پرست لوگ، اس کے آگے پیچھے کئی گانے ہٹ ہو گئے تھے۔ حالاں کہ ایک دشمن ملک کا چربہ بھی تھا۔ لیکن اسے پروا ہی کیا تھی۔ وہ اب بھی پبلک میں اودھم مچاتا پھر رہا تھا۔ وہ جس قدر خوش خوش گاتا بجاتا باہر نکلا تھا، صوفے پر انتظار کرتی اس کی بہن نے جیسے اس کی ہنسی نوچ لی۔ وہ بڑی خاموشی سے بلکہ قدرے برہمی سے ان کی کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔
’’آؤ مینا۔‘‘ سیم نے برابر میں جگہ بناتے ہوئے اسے پکارا۔
ایاز نے بھاگتی گاڑی کے بیک ویومرر سے شیشے سے باہر جھانکتی مینا کی طرف دیکھا۔ ایک کوفت سی اس کے چہرے پر اتر آئی۔ معلوم نہیں یہ بندوق والا چوکیدار اس کے ساتھ دن بھر کیوں رہتا ہے۔ اس نے بوریت دُور کرنے کے لیے ایک نظر سیم کی طرف دیکھا۔
’’کافی پئیں؟‘‘
’’میں نے میک اَپ اتار دیا ہے۔‘‘
’’گاڑی میں بیٹھے بیٹھے پی لیں گے۔‘‘
’’نہیں۔ ہرگز نہیں۔‘‘ پچھلی سیٹ سے مینا نے اسے نرم پڑتا دیکھ کر جھڑکا۔
’’ہرگز نہیں۔‘‘ سیم چائنا کے کھلونے والے طوطے کی طرح پر پھڑپھڑا کر آخری لفظ کا ٹیپ دہرا دیتی تھی۔ جس قدر ایاز کو وقت ساتھ گزارنے کی بےچینی تھی، اتنی ہی مینا کو اس سے پیچھا چھڑانے کی جلدی ہو رہی تھی۔ حالاں کہ سیم کو مینا کا زندگی سے لاتعلقی کا یہ انداز ذرا بھی نہیں بھاتا تھا۔ کیا حرج تھا وہ بےچارہ اتنی محبت سے کہہ رہا تھا۔ پھر وہ سارا راستہ نہیں بولا۔
البتہ اپنے گھر اترتے اس نے اصرار کرکے ان دونوں کو بھی اتار لیا۔ اس نے دیکھا سیم، ایاز کے گھر میں کس قدر مقبول تھی۔ وہ شاید سب جگہ ہی مقبول تھی۔ اس کی امی صدقے واری جا رہی تھیں۔ ایاز اپنی گائی ہوئی دھن ہلکے سروں میں اٹھا رہا تھا اور محبت پاش نظروں سے سیم کو دیکھتا نہال ہوا جا رہا تھا۔ اس کے بھائی کو ہی پہلی دفعہ احساس ہوا کہ کوئی اور بھی تھا ساتھ ،جو پیچھے رہ گیا ہے۔
’’آپ آیئے ناں سامنے، اس طرف بیٹھئے۔‘‘
’’بس شکریہ، اب ہم چلیں گے۔‘‘
اس نے ایسے شاہانہ غرور سے کہا جیسے اس کا حکم حرف آخر کا درجہ ہی تو رکھتا ہو۔ ایاز نے جھنجلا کر اپنا سر روک لیا۔ اسے پتا تھا اب سیم اس کے ارادے کے خلاف ایک لفظ نہیں کرےگی۔ اس کو اس کی بہن کا یہ مغرورانہ انداز شدید ناپسند تھا۔ کچھ نہ ہوتے بھی وہ اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھتی تھی۔
سارا راستہ اس نے مینا کی ڈانٹ تابعداری سے سنی تھی۔
’’ممی نے تمہیں تھکنے سے منع کیا تھا۔ تم لوگوں سے وعدے ہی اس لیے کرتی ہو کہ انہیں توڑ ڈالو اور اب جب وہ اتنی دیر کی وجہ پوچھیں گی؟ تمہیں کسی بات سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔‘‘
’’ہاں مینا! لیکن دیکھو، مزہ کتنا آیا۔‘‘
’’کسے؟‘‘ رات گئے اس نے تاروں کی چھاؤں میں نیچے برآمدے میں کھلنے والی سیڑھیوں میں بیٹھ کر سوچا، ’’کسے مزہ آیا۔ یہ تو دھوکا ہے کھلا۔ صریحاً۔ کیا ہے اس کی حیثیت اس گھر میں۔ وہ ممی کی حسین بیٹی کی حفاظت کے لیے اس کے ساتھ نتھی کر دی گئی ہے۔ پالنے والا تو رب ہے، وہ احسان نہیں جتاتا لیکن جن لوگوں کو ذمے داری سونپ دیتا ہے، وہ پالنے کا احسان مرتے دم تک جتاتے رہتے ہیں۔ بدلے میں آپ کی پوری زندگی گروی رکھ کر بھی تشویش میں مبتلا ر ہتے ہیں کہ کہیں گھاٹے کا سودا تو نہیں ہو گیا۔‘‘
اس نے سر اٹھا کر رنگ برنگے ستاروں کی طرف دیکھتے سوچا۔ آج پھر اس پر بقول فرح کے قنوطیت کا دورہ پڑا تھا اور اب تو یہ دورے اکثر پڑنے لگے تھے، زندگی اس کی تھی لیکن گزارنے کا اختیار کسی اور کو تھا۔
’’مجھے ذرا بک شاپ تک جانا تھا۔‘‘
’’چھوڑو فضول بات۔ آؤ باریزے میں کوئی نیا پرنٹ تلاش کریں۔‘‘ اس کا آئیڈیا کھڑے کھڑے رد کر دیا جاتا۔
پھر وہ کتابوں کی دکان چھوڑ کر باریزے کے تھان عدم دلچسپی سے جھانکتی رہتی۔ حتیٰ کہ وقت گزر جاتا۔ پھر کبھی وہ یونہی فرمائش کرتی، ’’آؤ فرح کی طرف چلیں۔‘‘
’’اونہہ فرح، بور۔‘‘ وہ ایک دم ہتھے سے اکھڑ جاتی۔ مجھے تو ویسے بھی پیڈی کیور کے لیے ’’ڈاکٹر شولز‘‘ جانا ہے۔
پھر وہ گرم پانی کے محلول میں پاؤں ڈبوکر بیٹھی رہتی اور وہ اس کے سجنے سنورنے کی آس میں غیر پسندیدہ رسالے کھولے اس کا انتظار کرتی رہتی۔ پھر کبھی تنگ آ جاتی۔
’’تم اس قدرت تو خوب صورت ہو سیم۔ آخر کہاں ہوگی حد!‘‘
کتنی دیر تک لوگ اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے پلٹ پلٹ کر دیکھتے تھے اور وہ گردوپیش سے بےنیاز اپنے چاہے جانے کو اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتی جاتی۔ کبھی کبھی مینا کو لگتا وہ ہتک آمیز حد تک اس کے احکامات بجا لانے کی عادی ہو گئی ہے۔ عادت اور محبت میں فرق ہوتا ہے۔ شاید وہ یہ سب محبت میں کرتی تو اسے پتا بھی نہ چلتا۔
وہ خود ترسی میں مبتلا ہو رہی تھی۔
تیز دودھیا روشنی کے دو عدد دائرے کہیں سے اچانک پڑے اور اسے نور میں نہلا گئے۔ وہ کتنی دیر سے اندھیرے میں بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ روشنیاں بند ہو گئیں۔ کار کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے والا شخص قدم گن گن کر اس کی طرف آ رہا تھا۔
پاپا کا بزنس کونٹیکٹ، ممی کا ایڈمائرر، یا سیم کا فین۔
وہ عادی تو تھی ہی، منتظر بھی رہی۔
آنے والا پتلون کی جیبوں میں ہاتھ دیئے اس سے ذرا سا فاصلہ دےکر اس طرح کھڑا تھا کہ تاروں بھری روشنی میں اس کا دراز سایہ مینا کے وجود پر چھاتا، اس کے پیچھے برآمدے تک نکل گیا تھا۔
’’یہ عبدالرحیم صاحب کا گھر ہے؟‘‘ گمبھیر سنجیدہ لہجہ اور یہاں آنے والوں کے برعکس قطعی غیرخوشامدی انداز۔
’’جی ہاں۔‘‘
’’آپ ان کی بیٹی ہیں؟‘‘ اب کے اس نے اضطرابی انداز میں اپنے ایک پاؤں سے اپنا وزن دوسرے پاؤں پر ڈالتے ہوئے جھنجلا کر پوچھا تھا۔
’’جی!‘‘
’’مجھے فاروق کہتے ہیں۔‘‘ اس قدر یقین تھا اس کے لہجے میں گویا مجھے ماؤزے تنگ کہتے ہیں۔ نہ پہچاننے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ہو۔ افسوس، چاندنووارد کے پیچھے کہیں طلوع ہو رہا تھا اور اس تاریکی میں زمین پر پڑتے لمبے سائے کے سوا اور کچھ دکھائی بھی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے اس کا چہرہ کھوجنے کی کوشش کی۔ پتا نہیں کبھی دیکھا ہو تو یاد نہیں آ رہا تھا۔
’’آپ کے پاپا نے مجھے بلایا تھا۔‘‘ اس کی آواز میں ہلکا سا بے صبراپن تھا۔ وہ اپنے پہچان لیے جانے کے یقین سے گھر میں داخل ہوا تھا اور جس سے پالا پڑا تھا، وہ بےتوجہی سے اس کے راستے میں بیٹھی لاپروا بنی ہوئی تھی۔
’’آپ کے پاپا نے مجھے نو بجے کا وقت دیا تھا، آپ سے ملاقات کے لیے اور آپ نے کنفرم بھی کر دیا تھا اور میں تو ایک منٹ بھی لیٹ نہیں ہوا۔‘‘
اس نے کلائی اٹھا کر دور سے آتی روشنی میں وقت دیکھا۔اپنی بے وقعتی نے اسے اس گھرکی بیک گراؤنڈ میں مزید برہم کر ڈالا تھا۔ وہ حیرت زدہ سی بیٹھی سے کھڑی ہو گئی۔
’’میں نے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ‘‘چاند کی اجلی روشنی میں ڈوبا اس کا خفت آمیز چہرہ نووارد کے مقابل تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو قطعی جھوٹا سمجھ رہے تھے۔ تذبذب اور کشمکش میں مبتلا۔ پھر اس کشمکش سے پہلے نجات آنے والے نے ہی پائی۔
’’ٹھیک ہے سائمہ عبدالرحیم! آپ اپنے والد صاحب کو اطلاع دے دیجئےگا اور ان کو بتا دیجئےگا یہ اکلوتی لاڈلی بیٹیاں میرا دردِ سر نہیں ہوا کرتیں۔‘‘
اکلوتی۔ لاڈلی۔
وہ دور ہوتا جا رہا تھا اور اس کی آواز فاصلے کے تناسب سے کم ہوتی جا رہی تھی۔
’’اوہ!‘‘ وہ تیزی سے بے سوچے سمجھے اس کے پیچھے لپکی، ’’سائمہ۔ وہ دراصل میری، میں اس کی بہن ہوں۔ سائمہ نہیں۔‘‘
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا، میری ایک ہی بیٹی ہے۔‘‘
اس خفت کا سامنا اسے دن میں کئی مرتبہ کرنا پڑتا تھا۔ وہ سائمہ کے ماں باپ کو کیا کہتی تھی اور کس بات کی حق دار تھی۔ سائمہ عبدالرحیم اپنے والدین کی اکلوتی لخت جگر۔ یہ غلط نہیں تھا۔ وہ خیرات میں ساتھ پلی تھی اور ماں باپ کہنے کا حق بھی اسے اللہ کے نام پر دیا گیا تھا۔ یہ بھی درست تھا۔
اگر وہ ایک مرتبہ خفا ہوکر کار میں بیٹھ گیا تو ساری زندگی ممی، پاپا کو وضاحتیں دیتے گزر جائےگی۔ اس سے کہیں بہتر یہ نہیں کہ وہ اس شخص کے سامنے ہلکی پڑ جائے جسے وہ جانتی بھی نہیں اور جس کا سامنا ہونے کے آئندہ زندگی میں امکانات بھی نہیں۔ وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھنے کو ہی تھا۔ اس نے ساری خودداری تج کے دروازے پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے۔
گاڑی کے کھلے دروازے کے ایک طرف وہ خفا ہوا اجنبی تھا اور دوسری طرف خفت زدہ سی وہ اور وہ کتنی بے ہودہ کہانی اسے سنا رہی تھی جیسے اس کے سر پر کڑھی ہوئی کروشیا کی سفید ٹوپی ہے۔ ٹخنوں سے اوپر کو اٹھے ہوئے پائنچے اور کندھے پر لال چوخانی رومال۔
بےگھر، بےماں باپ ہونے کا قصہ۔ اٹھا کر ان کے گھر لائے جانے کی کہانی اور بطور امداد ممی پاپا کہہ دینے کا حق۔
انہوں نے لمحے بھر کے لیے اس کی طرف دیکھا۔ وہ ہکلا رہی تھی، شاید اداس بھی تھی یا شاید ہمیشہ اداس ہی رہتی ہو۔ وہ کون سا اسے جانتے تھے، گاڑی کے کھلے دروازے پر اس کے ہاتھوں کی اضطرابی کیفیت، پیشانی پر بکھرا پسینہ اور بلاو جہ سچ بولنے کی ہکلاہٹ۔
’’کیا ضرورت تھی بھلا، ایک اجنبی شخص کے سامنے اس قدر تلخ اور طویل ترین سچ بولنے کی؟‘‘
’’معاف کیجئے۔‘‘ انہوں نے ایک لمبا سانس کھینچا، ’’مجھے ہی غلط فہمی ہوئی، پہلے مجھے معلوم کر لینا چاہیے تھا۔ میں سمجھا آپ سائمہ عبدالرحیم ہیں۔‘‘
’’آپ مجھے سائمہ سمجھے تھے۔‘‘ وہ بےساختہ ہنس پڑی اور ہنس پڑنے سے سابقہ ساری تلخی دُھل کر صاف ہو گئی تھی، ’’آپ اسے پہچانتے نہیں کیا؟‘‘
’’کیا مطلب؟ سب لوگ انہیں پہچانتے ہیں؟‘‘
’’ارے۔۔۔ وہ تو اتنی مشہور ماڈل ہے۔‘‘ ساری زندگی اس کو ٹوکنے کے باوجود اس کے لہجے میں اس کے لیے کس قدر افتخار تھا۔
’’اوہ۔ اچھا۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیوں کیا؟ کیا دیکھنا ضروری ہے۔ اچھا اب دیکھ لیا کروں گا۔‘‘ اسے لگا ان کے لہجے کی تابعداری میں بلاو جہ کی شرارت تھی۔
’’آہ۔ مائی سن!‘‘ ممی دفعتاً دائیں طرف سے نمودار ہو کر ان کی طرف لپکیں۔
’’فاروق، میرے بچے۔‘‘ ممی کے اندازِ محبت بوڑھی انگریز عورتوں سے مشابہ ہوتے تھے۔ گال سے گال ٹکرا کر ہوا کو بوسہ دیتے ہوئے، ’’سوپنکچوئل، ڈارلنگ۔‘‘
دفعتاً انہوں نے گاڑی سے بےحد نزدیک کھڑی ثمینہ کو پلٹ کر دیکھا، ’’ارے مجھے مینا نے بتایا بھی نہیں۔ آؤ اندر چلیں۔‘‘
وہ دونوں اس کے سامنے روشن اور گرم کمروں میں غائب ہو گئے۔ ’’معلوم نہیں۔‘‘ ثمینہ نے ازسرنو حالت حاضرہ کا جائزہ لینا شروع کر دیا، ’’محبت کا یہ مصنوعی انداز اور شفقت کی یہ سرد گرمی صرف مجھے نظر آتی ہے۔ لوگوں کو کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ شاید لوگ اپنے ماحول میں اس لب ولہجے کے عادی ہوتے ہیں، صرف میں ہی عادی نہیں ہو پائی۔‘‘
اس ہر روز کے واقعے میں اس روز بھی کوئی خاص بات نہیں تھی۔ گھر والے گھر چلے گئے۔ ان کے پاس ایک منزل تھی۔ وہ واپس اپنی سیڑھیوں پر آ بیٹھی کہ ابھی تک راستے میں تھی۔ واقعہ غیر اہم ہی ہو کسی کسی بات پر آپ کو لگتا ہے آج کل نئی بات ہوئی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ایک تو یہی کہ جس طرح مہمان اور میزبان اسے سیڑھیوں پر تنہا چھوڑ گئے تھے، اسے اپنے غیر اہم ہونے کا شدت سے احساس ہونے لگا تھا۔ یہ احساس بالکل اجنبی تھا۔
جب ممی پاپا مہمان کو رخصت کرنے باہر آئے تو وہ اسی حالت میں گھٹنوں پر ٹھوڑی رکھے ابھی تک انہی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔ مہمانوں کو گزرنے کے لیے راستہ دینے کو اس نے خود کو اپنے اندر سمیٹا اور وہ گزر بھی گئے، بس۔ اس سیڑھیوں کے اس پار جانے والے اس کے ذاتی حلقۂ احباب سے قطعی مختلف ہوتے تھے۔ اس کی ان سے کوئی خاص بنتی بھی نہیں تھی، اس لیے اپنے رد کر دیئے جانے کا دکھ بے سبب ہی تھا۔
مہمان نے رخصت ہوتے سمے گاڑی کی روشنیاں نادانستہ اس کے چہرے پر پھینکیں اور مڑکر گیٹ سے باہر غائب ہو گیا۔
سائمہ نے سونے سے پہلے اسے بلایا۔ وہ ممی کا سارا غصہ ثمینہ کے سامنے ہی نکالتی تھی۔
’’وہ ہر جگہ بیٹھ کر میری بیماری کی باتیں کرتی رہتی ہیں۔ ان کو کہو تم، میری بیماری کا ڈراما نہ بنائیں۔ مجھے کوئی بیماری نہیں۔ بس میں تھک جاتی ہوں۔‘‘
اس کو عادت تھی عمر بھر کی، قاصد کبوتر کی طرح اِدھر کا پیغام ادھر اور ادھر کا ادھر لڑھکانے کی۔ وہ کہہ دےگی اسی طرح اور ممی کی جھاڑ جواباً اس تک پہنچا دےگی۔
اس رات کی صبح اسے پتا چلا کہ سیم کی طبیعت رات بھر خراب رہی ہے۔ رات بھر اس کا سینہ جلتا رہا اور الٹیاں آتی رہیں۔ اس کے باوجود وہ کام پر چلی گئی۔ اب جواب دہ مینا تھی۔
سیم خوف زدہ رہتی تھی ،اگر اس کی بیماری کا معمولی سا شہرہ بھی ہو جاتا تو ایڈ اس کے ہاتھ سے نکل جاتی اور اخبار میں خبر لگ جاتی کہ اس کی جگہ اب کوئی اور ہے۔ اپنی شہرت کے مقابلے میں اسے معدہ کا السر بھی قبول تھا۔ وہ منہ زور ہو گئی تھی۔ یہ گستاخی اور حکم عدولی کا انداز اس نے ممی کی شہ پر ہی سیکھا تھا اور اب یہ ممی کے لیے ہی قابلِ قبول نہیں تھا۔ لیکن ان کی زندگی میں مصروفیت بھی اس قدر تھی۔ ہر روز وہ گوٹے کے ہاروں اور پھولوں کے مہنگے مہنگے گلدستوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوتیں تو ان کو اپنا آپ ہوا میں اڑتا محسوس ہوتا تھا۔ کہاں سے لاتیں وہ اتنی فرصت کہ زمین پر اترکر اپنی اولاد کی اصلاح کر سکتیں۔
اور پھر سیم کی شہرت کی داد بھی تو سب سے زیادہ وہی سمیٹتی پھرتی تھیں۔ جب ممی کی سہیلیاں چیخیں مار مارکر سیم کے حسن کے چرچے کرتیں اور اپنے بدھو اور بےراہرو بیٹوں کا ذکر ممی کو للچانے کے لیے بڑھا چڑھا کر کرتیں تو ممی سیم کی ساری خطائیں بھول جاتیں۔ پھر ممی کو دعوتیں اٹینڈ کرنے اور منعقد کرنے کا بھی بہت شوق تھا۔
اس دن بھی جب گھر میں پارٹی تھی تو سیم کا رنگ ہمیشہ سے زیادہ زرد تھا۔ لیکن ممی کو یہ تمغہ عوام تک پہنچانا ہی تھا۔ وہ صرف پون گھنٹہ میک اَپ مین کے پاس گزار کر واپس آئی تو اس نے اسے پوری محفل پر چھا جانے کے قابل بنا ڈالا تھا۔
فرح چپ چاپ ثمینہ کے پاس آ بیٹھی۔ وہ طبقہ امراء کے ان چونچلوں سے ناواقف ہونے کی بنا پر خوب متاثر ہو جاتی تھی۔ سب مشہور مشہور لوگ تھے، وہ لوگوں کو آ کے لوگوں سے ملتے اور اپنی اپنی جگہیں سنبھال کر بیٹھتے، دم بخود دیکھتی رہتی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی شکلیں اخباروں میں نظر آتی ہیں یا خبرنامے میں۔ سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جس کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے۔ یہ دولت آتی کہاں سے ہے، اب کسی کو اس کی پروا نہیں رہی تھی۔ خود لوگ بھی نہیں شرماتے۔ یہ ٹھگوں کی منڈی ہے، یہاں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ بس دولت ہونی چاہیے۔
سیم، ایاز کے ساتھ تھی اور ممی اس کو بلا بلاکر لوگوں سے ملوا رہی تھیں۔ ایاز اپنے آپ میں نہیں تھا۔ فرح اس پر دور بیٹھی چٹکلے چھوڑ رہی تھی۔ ’’یہ ایاز کی اماں ہیں اور یہ ان کی گردن کی جھریوں میں کس چیز کا بھراؤ کیا گیا ہے۔ اف خدایا ،یہ ٹیلکم پاؤڈر ہے۔ دیکھو دیکھو تمہاری ممی کی سہیلی اپنے سے آدھی عمر کے لڑکے سے کس قدر گھناؤنے طریقے سے فلرٹ کر رہی ہیں اور یہ مسٹر کون ہیں۔جب بھی فلاں آنٹی سے بات کرتے ہیں تو لگتا ہے رال ٹپک رہی ہے۔ اف بدنیت اور دیکھو وہ والی آنٹی۔‘‘
’’تم دیکھو، میں تو روز دیکھتی ہوں۔‘‘ مینا نے اکتاہٹ سے کہا، ’’اور پلیز صرف آنکھوں سے دیکھو، انگلیاں مت اٹھاؤ۔‘‘
ممی نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ بھی صرف آنکھوں سے دیکھتی تھیں اور آنکھوں سے بولتی تھیں۔ مینا کو یہ زبان پڑھنے میں بھی مہارت ہو گئی تھی۔ اس کو اِس بات کا دھیان رکھنا تھا کہ سیم اپنے آپ کو بہت زیادہ تھکا نہ ڈالے اور وہ اپنی کرسی پر بیٹھی اپنے آپ میں گم کام چور افسروں کی طرح بیٹھے بیٹھے احکامات جاری کر رہی تھی۔
’’بس کرو سیم۔ یہ کرو سیم۔ وہ مت کرو سیم۔‘‘
فرح وہاں سے اٹھ کر کسی دلچسپ کونے کی تلاش میں چلی گئی۔ وہ کونے میں رکھی کرسی پر تنہا بیٹھی اس محفل میں ہونے کے باوجود محفل کا حصہ نہیں لگ رہی تھی۔ بہت زیادہ لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں تھے بلکہ روشنیوں کے اس سیلاب اور رنگ برنگی یلغار میں وہ سیدھے بالوں اور سادہ کپڑوں والی لڑکی دکھائی بھی نہیں دیتی تھی۔
وہ اس نیم تاریک کونے میں یوں آ بیٹھی تھی جیسے ذمے داریاں نبھانا اور روزگار حلال کرنا اسی کا فرض رہ گیا ہو۔ اس قسم کے لوگ کوئی خاص پسند نہیں کیے جاتے، جن میں نخرہ نہ ہو، جو اچھل اچھل کر آپ کے کندھوں پر نہ آتے ہوں اور جنہوں نے اترا اتراکر میدان نہ مار لیے ہوں۔ ابھی ابھی اس پر یہ سارے اعتراضات فرح نے کیے تھے۔
فرح نے بتایا تھا، ’’تم میں گلیمر نہیں ہے۔ اس لیے گلیمرس پسند لوگوں کو کلک نہیں کرتیں۔‘‘
ایاز، سیم کو سنبھالے سنبھالے پھر رہا تھا۔ جیسے وہ کانچ کی بنی نازک سی چیز ہو۔ وہ خود کو بھی Fragile سمجھتی تھی۔ جیسے اس پر لکھا ہو، ’’برائے کرم مجھے احتیاط سے ہاتھ لگایئے۔‘‘ اگر وہ بار بار ناک نہ چڑھاتی تو لوگوں کو کیسے پتا چلتا، وہ ہے سائمہ عبدالرحیم، نمبرون ٹاپ ماڈل۔ یہ آخری حروف اس کے ساتھ ڈگریوں کی طرح چسپاں ہو کر رہ گئے تھے۔ اسے خود بھی اپنا نام ان لفظوں کے بغیر ادھورا لگتا اور وہ خوف زدہ ہو جاتی تھی کہ کہیں یہ اعزازی تمغات اس سے چھین نہ لیے جائیں۔ ان ہی کی حفاظت کے لیے اس نے اٹھائیس کورس کے ڈنر سے کھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں اٹھایا تھا۔ روغنیات سے پرہیز کیے اس کو اس قدر طویل مدت گزر چکی تھی کہ وہ جب بھی نوالہ شوربے میں ڈبوکر کھا لیتی تو ساری رات درد سے تڑپتی رہتی۔
پھر بھی یہ ہوا کہ اتنے سخت پرہیز اور طویل فاقوں کے باوجود پارٹی کی رات اس کے پیٹ میں بے حال کرنے والا درد اٹھا اور اپنی تمام تر آزاد خیالی کے باوجود ممی کو یقین رہا کہ کسی بدخواہ کی نظر نے اسے بیمار کر ڈالا تھا۔ سائمہ ساری رات مینا کے کمرے میں گرم پانی کی بوتل سے ٹکور کراتی، کراہتی رہی۔ ان وعدوں اور قسموں کے ساتھ کہ وہ صبح ممی کو درد کی اتنی شدت کے بارے میں کچھ نہیں بتائےگی۔
اور یہ تو اس کو تین دن بعد پتا چلا کہ اس صبح وہ مری چلی گئی تھی۔ اس کے ٹیسٹ تھے اور وہ ان دنوں فرح کی طرف ٹھہری ہوئی تھی۔ وہ ٹیسٹ دے کر باہر نکلی تو سررضی نے اسے بتایا کہ کلرک نے انہیں بتایا تھا کہ اس کے گھر سے فون آیا ہے، وہ فوراً گھر پہنچے۔ وہ بھاگم بھاگ گھر پہنچی۔
گھبرائی بوکھلائی وہ اندر آئی تو ممی پہلے ہی کہیں جانے کے لیے تیار کھڑی تھیں۔ مع اپنی بوسیدہ تقریر کے، وقت کے ساتھ جس کا ایک لفظ بھی تبدیل نہیں ہوا تھا۔
’’فکر سے میرا برا حال ہے، مگر وہ کسی کی سنتی ہی کب ہے۔ تم سے اس لیے کہتی ہوں، تمہاری بات مان لیتی ہے۔ میں تو کبھی اسلام آباد نہ جاتی۔ ارے بھاڑ میں گئی این جی اوز کی میٹنگ، کہیں اولاد سے زیادہ پیاری کوئی چیز ہوتی ہے۔ پر اب کیا کروں، وعدہ کر بیٹھی ہوں۔ میری تو سیمینار کے لیے تقریر بھی لکھ کر آ چکی ہے اور یوں بھی اس کا کون سا میرے ساتھ دل لگتا ہے، وہ تو تمہارے ساتھ ہی خوش رہتی ہے اور تم تو خود گواہ ہو۔ ہم نے کبھی فرق نہیں کیا اس میں اور تم میں، اتنی سی تھیں تم جب تمہاری امی۔۔۔‘‘
اس کے بعد کا سارا واقعہ اسے ازبر تھا اور یہ بھی یاد تھا کہ جب وہ وہاں پہنچے گی تو وہ اسے بھول کر روشنیوں ،کیمروں اور بیوٹیشن کی دنیا میں مصروف رہےگی۔
جب وہ شدید کہرے اور بارش میں مری پہنچی تو شام ڈوب رہی تھی۔ سردی کی لہر نے اس کی ناک سرخ کر ڈالی تھی۔ کشمیر پوائنٹ تک ان کے ولا پر پہنچتے پہنچتے لمبی پیدل واک نے اسے اکتا ڈالا تھا اور وہ یہ سمجھنے سے عاجز ہی رہی تھی کہ وہ ساری دنیا بھول کر پھر کیوں اس کی خدمت پر کمربستہ ہو جاتی تھی۔ وہ کیوں آخر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے ساتھ نتھی کر دی گئی تھی۔ کتنی مرتبہ ہی ہر موڑ پر اس کا جی چاہا، وہ یہاں سے پلٹ جائے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کہیں گم ہو جائے یا بھاگ جائے، لیکن اب اس میں بھاگنے کا حوصلہ تو کیا مزید چلنے کی بھی ہمت نہیں رہی تھی۔ اس شدید سردی میں دکاندار اپنی دکانیں بند کرکے گھروں کی گرمی کی طرف روانہ ہو رہے تھے، کہیں کہیں چائے والے اپنے کھو کے کھولے آخری گاہکوں کے منتظر تھے۔
باہر کا بلب روشن تھا۔ اندر کمروں سے چھن چھن کر آتی نیلی دھندلی روشنی میں حرارت اور گرمی کا احساس ہو رہا تھا۔ اتنی دیر تک برفیلی ہواؤں سے لڑتے اور ناک میں لگنے والی ہوا کے خلاف جدوجہد کرتے جب اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ دھک سے رہ گئی۔ وہ کس قدر بیمار، زرد اور برسوں کی مریض لگ رہی تھی۔ اچھا ہی کیا وہ آ گئی، اسے ہمیشہ بگڑے بچوں کی طرح کسی کی انگلی پکڑ کر چلانے والے کا انتظار رہتا ہے۔
’’ممی نہیں آئیں؟‘‘ لحاف میں دبکے پتا نہیں اس نے کس بے ساختگی میں پوچھا تھا۔ وہ خاموش رہ گئی۔ آج تک ساری زندگی وہی اپنے ماں باپ کے نہ ہونے کا رونا روتی آئی تھی۔ یہ تو اس نے پہلی دفعہ دیکھا کہ ماں باپ تو اس کے بھی نہیں تھے، وہ بھی اسی کی طرح تنہا اور مظلوم سی تھی۔ ماں کی شکل میں اس کو اس کی کامیابیوں پر فخر کرنے والی ایک تحریر ہی ملی تھی۔ واقعی وہ سلولائیڈ پر اتنی کامیاب ثابت نہ ہوتی تو اس کی ماں اس کی کس چیز کو سراہتی۔ شاید اسی لیے وہ اپنے اس واحد اعزاز کو برقرار رکھنے کے لیے دن رات کوشاں تھی۔
اس وقت جب وہ سیم کا دروازہ کھول کر اس کے کمرے میں داخل ہو رہی تھی، عین اسی وقت اس کے ماں باپ کا جہاز ترکمانستان کی سرحدوں میں داخل ہو رہا ہوگا۔ ہر شخص اپنے ہونے کو ثابت کرنے کے لیے جیے جا رہا ہے اور یہ بھی عجیب وبا پھوٹی تھی ان دنوں لوگ روس کی مسلمان ریاستوں کے چکر لگاکر اپنا اور ان کا ایمان اسی طرح تازہ رکھے ہوئے تھے۔
وہ خلاف عادت اپنے بستر پر لیٹی تھی، اس قدر لمبے چوڑے بستر پر اس کا چھوٹا سا وجود کس قدر بےمعنی اور بےکار لگ رہا تھا۔ اس نے مینا کی آنکھوں میں اپنے لیے ترس اور رحم امنڈتے دیکھا۔ اپنا آپ اسے کس قدر حقیر لگا۔ وہ مہمان مہمان کھیلنے لگی۔
’’زینب سے کہو، تمہارے لیے کافی بنا لے۔ جو کچھ کھانا چاہو اسے بتا دو۔ وہ بہت جلدی بنا لیتی ہے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم آج پہنچو گی ورنہ میں کچھ پکوا ہی لیتی۔ آؤ میرے بستر میں آ جاؤ۔‘‘
وہ بہت سمجھ دار لڑکی تھی۔ اس نے ایسے بہت سے سوال نہیں کیے، جن کا جواب شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
وہ حسنِ جہاں سوز بجھا بجھا ضرور تھا لیکن گھائل کر دینے والی صلاحیتوں سے عاری نہیں ہوا تھا۔ آتش دان میں آگ کے شعلے دھڑ دھڑ بھڑک رہے تھے، جس میں اس کی بیمار رنگت اور بھی سفید لگ رہی تھی۔ وہ تنہا تھی اور اکیلی، تکیوں کے سہارے کندھوں تک لحاف ڈالے وہ کسی کی منتظر تھی۔ شعلوں کی طرف نظریں جمائے وہ ان تمام چیزوں سے نظریں چرا رہی تھی۔
یہ کہ تم اتنی دُور اکیلی میرے پیچھے کس رشتے کس ناتے کے تحت بھاگی آتی ہو، کون لایا ہے تمہیں یہاں؟ کیا تم اتنی ہی غیر ضروری ہو کہ کسی کو تمہاری ضرورت نہیں ہوتی؟ تمہیں کسی دوسرے کی تلاش نہیں؟ اور وہ لوگ خود کہاں ہیں جن کو تمہاری بجائے میرے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے، قاعدے کے مطابق؟
جواباً مینا نے بھی احمقانہ سوالات کرکے اسے تنگ نہیں کیا تھا۔ احسان نہیں لادا تھا۔ اکتاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس کی صحت کے بارے میں لایعنی سوال کرکے اسے کسی جھنجلاہٹ میں مبتلا نہیں کیا کہ یہ واحد موضوع تھا جس سے وہ بے حد نظریں چراتی تھی۔
اس ٹھنڈے یخ بستہ گھر میں زینب اور اس کے چاچا کی وجہ سے حرارت اور زندگی کا احساس ہوتا تھا، وہ سردی سے بے نیاز متحرک انداز میں ادھر ادھر پھرتے نظر آتے تھے۔
’’تم کافی لوگی؟‘‘مینا نے ٹرالی اپنے سامنے گھسیٹتے اس سے پوچھا۔
’’نہیں۔ ایک بسکٹ دے دو۔‘‘
’’کھاؤ سیم! اپنے معدے کو اس مشقت کی عادت ڈالوگی تو ٹھیک ہو جاؤگی۔‘‘
مینا کو پتا بھی نہ چلتا، وہ بکتے جھکتے کب ایمان داری سے اس کی گورنس کا کردار ادا کرنا شروع کر دیتی تھی۔
’’تمہیں پتا ہے۔ میرا وزن قابو میں نہیں آتا پھر۔ ‘‘
’’مجھے تو نہیں پتا، خیر میں نے تو کبھی تمہارا وزن بےقابو نہیں دیکھا۔‘‘
’’ارے واہ! ابھی پچھلے ماہ میری کمر کے گرد ٹائر آنا شروع ہو گیا تھا۔‘‘
مینا جانتی تھی، یہ بکواس ہے بالکل، اس کی کمر پر کبھی ایک تولہ چربی بھی فالتو نہیں آئی تھی۔ وہ صرف وہم کی مریض تھی۔
مری کے اس گھر میں صبح کا اپنا جوبن تھا۔ وہ رات کو سو کر صبح اٹھی تو ہشاش بشاش اور تازہ دم تھی۔ ابھی برف پڑنا شروع نہیں ہوئی تھی لیکن ساری وادی پر کہرے کا ایک گہرا بادل چھایا ہوا تھا اور کہیں کہیں دور کشمیر کی خوب صورت چوٹیوں پر جھلملاتی سنہری دھوپ۔ گھروں کی چمنیوں سے نکلتا ہوا گاڑھا کثیف دھواں کہ ایک نیا دن شروع ہو گیا ہے اور لوگ ابھی زندگی سے مایوس نہیں ہوئے۔ وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ وہ جو گرز چڑھا کر پروں والی گرم جیکٹ کے کالر سے ناک ڈھانکے پیڈڈدستانوں سے باہر نکلی تو اسے اندازہ ہوا زندگی برتنے کا یہ مصنوعی انداز ہے۔ آس پاس کے دیہاتوں سے کام کاج پر آنے والے لوگ، زردی سے کھنڈا چہرہ لیے، بغلوں میں ہاتھ دبائے ٹھٹھرے ہوئے آنا شروع ہو گئے تھے۔
ابھی اس نے منہ سے بھاپ اڑاتے سڑک کے گرد دو تین چکر ہی لگائے تھے کہ سارا مری محنت کرنے کے لیے آنے والوں سے بھر گیا۔ وہ رات والی ویرانی کا کہیں شائبہ بھی نہیں تھا، ہر طرف محنت کے بوجھ سے جھکی کمروں والے اور سردی کی شدت سے پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا لوگ، اپنے گھر والوں کے لیے روٹی کمانے نکل آئے تھے۔وہ زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ واپس آ گئی۔ سائمہ راتوں کو جاگتی تھی، اس لیے نیند کی گولی لے کر دھت ہوکر دن چڑھتے تک سوتی رہتی۔ وہ واپس آئی تو سڑک کی چڑھائی کی مشقت سے اس کا سانس پھول رہا تھا اور رنگت پر بھی سردی کی شدت سے سرخی غالب آ گئی تھی۔ البتہ سائمہ کے کمرے کا دروازہ ہنوز بند تھا۔
وہ کھانے کی میز پر تنہا بیٹھی اپنے ابلے انڈے کو دیر تک الٹتی پلٹتی رہی۔ زینب نے سورج کے رخ کھلنے والی کھڑکیوں کے پردے ہٹا دیئے تھے، دھوپ کی شعاعوں میں نظر آنے والے متحرک ذرات اور چائے میں سے اٹھتی بھاپ مل کر ساری فضا کو فعال بنائے ہوئے تھے۔ ہر ذرّہ حرکت میں تھا اور شاید وہ ذرّے سے بھی غیر اہم تھی کہ ساکن بیٹھی محض آنے والے وقت کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اپنی بیوٹی سلیپ لے کر دن چڑھے سوکر اٹھی۔ زینب اپنے کوارٹر میں دوپہر کی ہانڈی کی خوشبو ئیں اڑا رہی تھی۔ وہ مینا کو ڈھونڈتی لیونگ روم میں آئی تو وہ اپنی کرسی میں غرق کچھ پڑھ رہی تھی۔ سائمہ ابھی تک نیند کی مدہوشی میں تھی۔ وہ اسی کے پاس پڑے صوفے پر اس کے سامنے پھر سے ڈھیر ہو گئی۔
’’میں تمہیں سارے گھر میں ڈھونڈ رہی تھی۔ میں نے سوچا، پتا نہیں کہاں چلی گئی ہو۔‘‘
مینا نے کتاب بند کرکے اس کے فقرے کی ساخت پر غور کیا۔ خوف زدہ سہمے ہوئے اکیلے بچے کی طرح وہ گھٹنے پیٹ کی طرف موڑے اس کے قریب آکر پھر سو گئی تھی۔
’’بور ہو گئی ہو مینا! اف ڈیڑھ بج گیا۔‘‘ وہ نیند پوری کرکے اٹھی تو مینا اسی حالت میں اسی جگہ بیٹھی تھی۔
’’مجھے تو پہنچنا تھا ساڑھے تین بجے۔‘‘ وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی گئی اور غسل خانے کے دروازے پر رک گئی۔
’’ہاں مینا! ایاز آئےگا شاید۔ اس سے کہنا تم اکیلی ہو۔ میں یہاں نہیں آئی۔‘‘
’’ایاز کو بھی۔۔۔‘‘ اسے دھکا لگا۔ کس قدر برق رفتاری سے وہ اپنی دوستیاں تبدیل کر رہی تھی۔ یہ دھکا تو وہ پاپا کو بھی پہنچائےگی، جب سے انہیں پتا چلا تھا، وہ گلوکار ہونے کے علاوہ امیر باپ کا بھی بیٹا ہے تو انہوں نے اس کی گلوکاری سے بھی سمجھوتہ کر لیا تھا۔
’’پلیز مینا! میں اس کے لسوڑھے پن سے تنگ آ گئی ہوں۔ چاپلوس سا۔ تم میری خاطر اتنا جھوٹ بھی نہیں بول سکتیں؟ کہہ دینا میں لاہور سے نہیں آئی بلکہ اور بھی دور چلی گئی ہوں۔ سنگاپور، ملائیشیا، جاپان، جہاں مرضی بھیج دینا۔‘‘
وہ بہت فرصت سے نہا کر اور بھاپ میں بھیگے تولیے سے بال لپیٹے باہر آئی تو مینا ابھی بھی اسی حالت میں بیٹھی تھی۔
’’بغیر کھانا کھائے مت جانا۔‘‘
’’بائی گاڈ مینا بالکل دل نہیں چاہ رہا۔‘‘
’’اچھا چلو سیب چھیلوں؟‘‘ مینا نے رسان سے پوچھا۔
’’اور ہاں ممی کا فون آیا تھا۔ انہوں نے پیغام دیا ہے کہ کسی ڈاکٹر کو انہوں نے کہا ہے، وہ تمہیں دیکھنے آئےگا۔ اس کو دکھا دینا۔ وہ ان کا دوست ہے لہٰذا۔‘‘
’’تم دکھا دینا پلیز مینا۔ ممی کو کیا پتا چلےگا۔‘‘
اب اسے کوفت ہونے لگی تھی۔ حماقتیں سائمہ پر ختم تھیں اور کیسے اچھوتے خیالات اس کے ذہن میں آتے تھے۔
ایک کے بعد ایک، جھوٹ کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ سائمہ کوئی بھی بات بلاو جہ یونہی مذاق میں یا بے مقصد کہتی بھی نہیں تھی۔ اس نے سانس روک لیا۔ اس کے دونوں جھوٹ اسے نبھانے ہوں گے۔
وہ جتنی دیر تیار ہوتی رہی، اتنی دیر مینا سیم کے ٹائٹل سے سجا فیشن میگزین دیکھتی رہی۔ وہ عموماً مینا ہی کے اردگرد منڈلاتی تھی۔ تیار ہونے کے لیے بھی وہ اپنا بیوٹی بکس اس کے شیشے کے سامنے اٹھا لاتی تھی۔
’’تم کتنی خوش قسمت ہو مینا!‘‘ اس نے شیشے میں اس کا سراپا غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’واقعی؟‘‘ مینا نے میگزین بند کر دیا تھا، ’’کس طرح بھئی؟‘‘
’’کوئی تمہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ اپنی مرضی سے جیتی ہو۔ میرا تو کوئی لمحہ بھی میرا اپنا نہیں۔‘‘
اس نے حلق سے تھوک نگل لیا۔ اس طرح انسان خود کو بہت سی ان چاہی باتیں کہنے سے بچا لیتا ہے۔ اپنی بدقسمتی اور بے کسی کی داستان سنانا اسے اچھا بھی نہیں لگتا تھا۔ وہ اگر ان واقعات سے اب تک آگاہ نہیں ہوئی تھی تو اب بھی کیا جان پائےگی۔ بہرکیف وہ زندگی میں اس سے خوش قسمت تو تھی ہی۔
اس کو کسی سے مقابلے کی آگ جلاتی نہیں تھی۔ اول آنے یا پیچھے رہ جانے کا ملال اسے ڈستا نہیں تھا۔ علاوہ ازیں وہ معدے کے زخم کی تکلیف میں بھی مبتلا نہیں تھی۔
وہ چلی گئی اور مینا سرخ سورج کو پہاڑوں کے پیچھے غروب ہوتے اور ساری وادی کو آگ سے رنگے دیکھتی رہی۔ آسمان پر بادلوں کے اس قدر اداس کر دینے والے رنگ تھے۔ نارنجی، زرد، پیلا ،سرخ، سیاہی مائل تاریک پڑتے رنگ،جیسے کسی قنوطی نے کوئی پینٹنگ کی ہو۔ اتنی سی دیر میں وہ ایاز کو دو مرتبہ مایوس کر چکی تھی۔ فون پر بھی اور براہ راست آ جانے پر بھی۔ ابھی بھی اس کی مارگلہ باہر کھڑی تھی اور وہ یقین کرنے سے انکاری تھا کہ لال سوزوکی میں لاہور سے سیم کی بجائے وہ خود آئی تھی۔ اس نے لاہور فون کرکے کنفرم بھی کر لیا تھا کہ وہ یہیں ہے لیکن سریش کی طرح ہر وقت اس کے ساتھ چپکی رہنے والی بہن، اسے بھگا دینے کے درپے تھی۔
وہ مایوسی سے گردن جھکائے جب واپس جا رہا تھا تو مینا کو بہت دکھ ہوا۔ سیم بڑی سہولت سے دل توڑتی اور نئے خریدتی رہتی تھی۔ ابھی ایک شخص اس کے حواس پر سوار ہوتا، وہ دن بھر اس کے قصیدے پڑھتی اور تعریفیں کرتے کرتے اسے بھی بور کر ڈالتی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ اکتا جاتی اور پھینک کر ایسے بھولتی کہ بھولے سے بھی اس کا ذکر درمیان میں نہ آتا۔ اسے اپنے بے پناہ حسن کی آزمائش مقصود ہوتی تھی۔ ہر نیا شخص ایک طرح کا ریفریشر کورس ہوتا تھا۔ وہ عموماً پچھلے شخص کو کسی نئے شخص کی آمد پر ہی ڈسٹ بِن میں ڈالتی تھی۔
یہ نیا شخص کون تھا؟
وہ نیا شخص رات کا کھانا لگنے سے پہلے آ بھی گیا۔وہ پی سی بھوربن میں ٹھہرا ہوا تھا۔ بےچارہ تازہ تازہ یتیم ہوا تھا اور اس یتیمی میں اس کے ہاتھ لمبی چوڑی جاگیر، ٹیکس سے بچایا کالا پیسہ اور بہت کچھ آیا تھا۔ زندگی میں اس کے باپ نے بچوں کو ایک پیسہ خرچ نہیں کرنے دیا۔ اب اس کے بچے پیسہ اچھالتے کھیلتے پھر رہے تھے۔
پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا تھا۔ وہ سابقہ دو تین دن سے یہی سوچ رہی تھی کہ سیم لالچی لڑکی نہیں ہے،وہ خود غرض بھی نہیں، لیکن ہر دولت مند آدمی کی طرف وہ اس شدت سے کیوں لپکتی تھی۔ وہ کس قسم کا انتقام لے رہی تھی آخر؟
آج بھی کل کی طرح اس نے ایاز کو مایوس کیا تھا۔
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے نہایت دھیان سے تیار ہوتے، کانوں میں ایئررنگ پہنتے ہوئے، اس شخص کے بارے میں تازہ ترین اطلاعات سیم ہی اسے پہنچا رہی تھی کہ اس کی جاگیر کہاں سے کہاں تک پھیلی ہے۔ ان کے پاس کون کون سی جیپیں ہیں۔ وہ جب بھی مری آئیں تو کہاں ٹھہرتے ہیں۔ وہ لمحہ بھر کو بھی چپ ہوتی تو مینا پوچھتی کہ اسے کیا کرنا تھا ان سب کا؟
اس نے تیاری میں بےحساب وقت لگایا۔حالاں کہ ان دنوں وہ اتنی بیمار تھی کہ دعوے کے مطابق اسے سب کے سب دن بستر پر ہی گزارنے تھے لیکن وہ ڈریسنگ ٹیبل سے اٹھی تو بیماری کے رنگ کہیں دور دب گئے تھے، مناسب رنگوں کے حسن سے خیرہ کرتا چہرہ، جھلملاتے چمک دیتے دانت، بال بال سنوارا ہوا سیاہ سر۔
وہ اٹھی ،پلٹی اور روانہ ہوئی۔ یتیم اس کے پیچھے پیچھے تھا، دونوں ہاتھوں سے دل تھامے۔
وہ ابھی تک بیٹھی ڈر رہی تھی کہ کہیں پی سی میں اس کی ملاقات ایاز سے نہ ہو جائے۔ اس کی سازشوں کی مخالفت کرنے کے باوجود وہ خود بھی ان سازشوں کے گرداب میں پھنس جاتی تھی۔
’’کوئی ڈاکٹر صاحب کھڑے ہیں نیچے۔‘‘ زینب کے چاچا نے اطلاع دی تھی، ’’اپنی بی بی سائمہ سے ملنا ہے۔ آپ کی ممی نے بھیجا ہے۔‘‘
ممی کو بھی سائمہ کی میڈیکل رپورٹ سے بہت گہری دلچسپی نہیں تھی۔ چھوٹی موٹی بیماریاں تو رہتی ہیں۔ اسی سے لندن جایا جاتا ہے۔ پھر لوگوں کو بتانا بھی تو ہوتا ہے۔ وہ بہت مصروف رہتی تھیں۔ لیکن یہ سب بتانے کے لیے تو وقت نکالنا ہی ہوتا ہے۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے بیٹھے بیٹھے کسی مشین کی طرح کہا، ’’ہاں لے آؤ اوپر ڈاکٹر صاحب کو اور ہاں چاچا! یاد رکھنا سائمہ میں ہوں۔ میرا نام سائمہ ہے۔‘‘
چاچا کی سمجھ میں آسان بات بھی بہت مشکل سے آتی تھی اور یہ بات تو تھی بھی کچھ عجیب۔ وہ بچپن سے دونوں کو پال پوس رہے تھے، اب اتنے احمق بھی نہیں کہ ان کو بتایا جائے کہ سائمہ کون ہے اور ثمینہ کون؟ خیر ہمیں تو مالکوں کا حکم بجا لانے سے مطلب ہے۔
’’یہیں لے آؤں کیا؟‘‘ انہوں نے سستی سے پاؤں پسارے بیٹھی مینا کو حیرت سے دیکھا۔ عمر گزارنے کے باوجود وہ اس لڑکی کو سمجھ نہیں پائے تھے۔ وہ اپنی بہن سے اس قدر مختلف کیوں تھی آخر؟
’’ہاں چاچا! یہیں اسی جگہ۔‘‘
اس نے مزید پاؤں پھیلاتے ہوئے سوچااب اسے کیا کرنا ہے۔ بستر پر پڑ کر ہائے ہائے کرے، کراہے، روئے۔ لیکن پھر یہ ڈرامہ اسے بھونڈا لگا۔ ایکٹنگ اس کا شعبہ نہیں تھا۔ اس میں راز فاش ہونے کا خدشہ بھی زیادہ تھا۔
چاچا کے قدموں کی چاپ لکڑی کے فرش پر ٹھک ٹھک کرتی گونجی۔ ذاتی طور پر وہ مردوں کا داخلہ لڑکیوں کے کمرے میں پسند نہیں کرتے تھے لیکن وہ دو قدم رک کر کھڑے ہو گئے۔ چپ چاپ۔
مینا نے فرش پر پھیل کر بیٹھے بیٹھے صوفے سے ٹکے سر کو ذرا سی بےنیازی سے اٹھا کر دیکھا اور دنگ رہ گئی۔ کتنی دیر وہ بول ہی نہیں سکی۔ اسے لگا اس کے حلق میں کچھ اٹک گیا ہے۔ اسے پتا بھی نہیں چلا وہ کب بیماری بھول کر سیدھی ہو بیٹھی۔
’’میں سائمہ ہوں۔‘‘ اس نے دہشت زدہ انداز میں اس قدر آہستگی سے کہا جیسے اپنی آواز خود اس تک بھی نہیں پہنچی تھی۔
’’حیرت ہے۔ حالاں کہ اس رات آپ اپنے سائمہ نہ ہونے پر اصرار کر رہی تھیں۔‘‘
انہوں نے خفگی سے کہا تھا، ’’یہ کیا تماشا ہے؟‘‘
وہ دنگ رہ گئی۔ اس نیم تاریک رات کی اتنی مختصر اور غیر اہم سی ملاقات کے بارے میں تو اس کو یقین تھا کہ یاد رکھنا تو درکنار شاید وہ اس کو پہچان بھی نہ پائے۔ رہ گئی وہ۔ وہ تو بالکل بےکار ہی تھی۔ نہ ان کا حلقہ احباب اتنا وسیع تھا نہ دوستوں کی تعداد بےشمار تھی۔ خالی وقت میں گزری دوچار اہم غیر اہم باتوں کو یاد رکھنے کے سوا اس کا شغل ہی کیا تھا۔ وہ چپ ہو گئی تھی۔
’’میں نے پوچھا ہے، کیا قصہ ہے یہ؟‘‘
انہوں نے ہاتھ میں پکڑا بیگ وہیں چھوڑ دیا۔ سامنے پڑی کرسی پر ازخود بیٹھتے وہ ہنوز مینا کو شک سے دیکھ رہے تھے۔
’’ہوں؟‘‘ انہوں نے اصرار کیا، ’’آپ پاسبان عقل کی طرح ان کے ساتھ ساتھ ہیں۔ لیکن ان کی رہنمائی کرنے کی بجائے پردہ پوشی کر رہی ہیں۔ و جہ کیا ہے آخر؟‘‘
پھر وہی و جہ۔ وہ کس قدر الجھ رہی تھی، کتنی عجیب کشمکش میں ڈال کر سائمہ اس کے سارے مسئلوں سے بے نیا ززندگی میں مگن ہو گی۔ وہ تو اس کی پریشانی کو پریشانی بھی نہیں سمجھےگی۔
’’پہچان گیا تھا۔ بھاڑ میں جائے، ہمارا کیا لگتا ہے۔ نہ آئے آئندہ۔ ہمیں بڑی پروا پڑی ہے۔ تم کیوں چھوٹی چھوٹی باتوں کو جان کا روگ بناتی ہو؟‘‘ وہ آرام سے کہہ کر مطمئن ہو جائےگی۔
چھوٹی چھوٹی باتیں؟ ان چھوٹی باتوں کے سوا اور یہاں رکھا ہی کیا تھا۔
’’اس دن پارٹی میں بھی آپ سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ تھیں۔‘‘
’’پارٹی میں؟‘‘ اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی،’’میں نے تو آپ کو پارٹی میں نہیں دیکھا۔‘‘
’’شاید اس لیے کہ میں ٹی وی پر نہیں آتا اور اس قدر مشہور بھی نہیں۔ آپ کی بہن تو مشہور و معروف خاتون ہیں۔ آپ کے بقول۔ بائی داوے۔ ان کا مسئلہ کیا ہے؟ کیا واقعی وہ بیمار ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔ بیمار تو وہ بہت ہیں۔‘‘
’’کہاں ہیں وہ؟ آپ ان کو بلواتی کیوں نہیں۔ مجھے جانا ہے، دیر ہو رہی ہے۔‘‘
ان کے لہجے کے کاروباری سے انداز نے اس کو افسردہ کر دیا۔
’’دراصل با ت یہ ہے کہ وہ یہاں نہیں ہے۔ وہ بھوربن چلی گئی ہے۔‘‘
’’ناٹ اگین (Not Again)۔‘‘ ان کے لہجے میں ناگواری نمایاں تھی اور صاف ظاہر تھا کہ پکڑ میں سائمہ نہیں، وہ خود آ جائےگی۔ وہ تو صاف چھوٹ جائےگی۔ کسی نہ کسی جذباتی واسطوں کے حوالے سے۔ وہ کہاں سے لائےگی تعلق، رشتے، مطلب اس کے چہرے پر ہویدا پریشانی کسی اجنبی سے بھی چھپی نہیں تھی۔
’’اس دن آپ نے بتایا تھا لیکن میں سمجھ نہیں پایا۔‘‘ وہ سٹول پر ایسے بیٹھ گئے تھے جیسے نالائق شاگرد کو گھیر کر کوئی سخت گیر استاد۔
’’کیا ذمے داری عائد ہے آپ پر ان کی۔ آپ ان کی غلطیوں کی پردہ پوشی کے لیے رکھی گئی ہیں یا یہ محبت کا کوئی ایسا اظہار ہے جو ابھی تک میرے حوالوں میں موجود نہیں۔‘‘
اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ یہ تو بہتان تراشی شروع ہو گئی تھی۔
’’چلئے چھوڑیئے!‘‘ انہوں نے اپنا سامان ایک طرف کر دیا، ’’میں بہت دُور سے سفر کرتا آ رہا ہوں۔ آپ مجھے اچھی سی چائے پلوایئے۔ اگر آسانی سے ممکن ہو تو اور ہو سکتا ہے اس دوران خاتون بھی آ جائیں جنہوں نے آپ کو اس قدر ہراساں کر دیا ہے۔‘‘
وہ جیسے جان چھوٹ جانے کے تصور سے زینب کے پیچھے لپکی اور جتنی دیر چائے تیار ہوتی رہی، وہ ان سے چھپ کر ٹرالی کے ساتھ ہی لگی کھڑی رہی۔ لیکن فرار کے یہ لمحے بھی گزر گئے۔ وہ اندر آئی تو وہ نہایت انہماک سے صبح کا اخبار شام ڈھلے پڑھ رہے تھے، اس کو آتا دیکھ کر انہوں نے اخبار واپس ریک میں ڈال دیا۔
’’اتفاق دیکھئے۔ اس میں سائمہ عبدالرحیم کی تصویر ہے۔ سلائس پر ڈھیر سارا جیم تھوپ کر کھاتے ہوئے۔ آپ کو بھی شوبزنس سے دلچسپی ہے؟‘‘
’’نہیں، میں تو ابھی پڑھ رہی ہوں۔‘‘
’’اور پڑھائی ختم ہونے کے بعد آپ لیں گی دلچسپی ؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے ان کے چبھتے لہجے کو درگزر کرتے سنجیدگی سے کہا، ’’میرے شوق مختلف ہیں۔ مجھے اس کے مشاغل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن یہ میری زندگی ہے۔‘‘
’’اور آپ کی بہن۔ وہ نہیں پڑھتیں؟‘‘
’’پڑھتی تھی لیکن پھر اس نے چھوڑ دی۔ وہ اچانک ٹاپ ماڈل بن گئی تھی۔ پھر اس کے پاس وقت نہیں بچا۔‘‘
’’ماڈلنگ کی زندگی تو مختصر ترین زندگی ہے۔ برس دو برس۔ مس ورلڈ بھی سال بعد پرانی ہو جاتی ہے۔ پھر کیا کریں گی وہ؟‘‘
’’پھر شاید وہ زندگی کی منصوبہ بندی کسی اور طرح کر لے۔ وہ بہت سمجھ دار ہے۔ چینی؟‘‘
’’پتا نہیں کیوں وہ اس کی زندگی کے منصوبوں کے بارے میں اس قدر متجسس ہیں۔‘‘ اس نے چمچ ہاتھ میں پکڑے سوچا۔ اسے فکر سی لاحق ہو گئی تھی۔ وہ آخر کیوں اس موضوع سے چپک کر رہ گئے تھے۔ سائمہ کا حسن بےپناہ راہ چلتوں کا دامن یونہی الجھا دیا کرتا تھا اور وہ جھٹک کر چلے جانے کی عادی ہے۔ اگر اس نے اس شخص کو بھی دھتکار دیا تو اسے رنج ہوگا۔ وہ سیم کے پیچھے دم ہلاتے پھرنے والے گروہ سے مختلف لگتے تھے۔
’’ایک چمچ۔‘‘ انہوں نے اسی سابقہ اطمینان سے کرسی پر جمے اس سے نظریں نہیں ہٹائیں۔ پھر جب اسے لگا، وہ اس موضوع پر مزید سوالات نہیں کریں گے تو بھاپ اڑاتی پیالی اس کے ہاتھ سے لے کر شکریہ ادا کرتے ہی انہوں نے اس کے فرار کا ارادہ بھانپ لیا۔
’’کیا ہے بھوربن میں؟ کوئی شو ہو رہا ہے؟‘‘
’’وہاں اس کے دوست اکٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ ہر مرتبہ سچائی اس کے منہ سے پھسل رہی تھی۔ وہ اس کے سامنے بیٹھے تھے اور تابڑتوڑ سوالات سے بچنے کی راہ بھی نہیں چھوڑ رہے تھے۔ ’’کسی اجنبی سے بات نہیں کرتے‘‘والا موٹو ہر فقرے کے بعد اس کے ذہن سے ٹکرا بھی رہا تھا۔ لیکن پتا نہیں کیوں ہر سوال کے جواب کے بعد اٹھ جانے کی راہ میں ان کا اگلا سوال حائل ہو جاتا۔
’’ان کے دوست آپ کے دوست بھی ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’دوست بھی مختلف ہیں علاوہ مشاغل کے؟‘‘
’’عام طور پر۔ بلکہ ہم ایک دوسرے کے دوست پسند بھی نہیں کرتے۔‘‘
’’اور ایک دوسرے کو؟‘‘ وہ گنگ سی رہ گئی۔ یہ سوال تو اس سے زندگی بھر نہیں پوچھا گیا تھا۔ اس نے خود بھی کبھی اپنے آپ سے نہیں پوچھا تھا اور اسے یقین بھی نہ تھا، پتا نہیں وہ کیا کہہ پائےگی۔
لیکن ہوا یہ کہ اس کے چہرے سے اڑتے رنگ انہوں نے کچھ دیر کے لیے غور سے دیکھے اور جواب کا انتظار کیے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کا بریف کیس کچھ فاصلے پر دوسری کرسی کے پاس پڑا تھا، انہوں نے جھک کر اٹھاتے محسوس کیا مخاطب نے نجات کا ایک گہرا سانس آزاد کیا تھا۔
بریف کیس اٹھا کر وہ مسکراتے ہوئے اس کے مقابل آ گئے۔
’’خدا حافظ!‘‘
’’مجھے افسوس ہے آپ کا وقت ضائع ہوا۔‘‘ کس قدر شان دار دنیاداری مینا نے نبھائی تھی۔
’’مجھے افسوس نہیں ہے اور میرا وقت بھی ضائع نہیں ہوا۔‘‘
وہ فادر کنفیسر کی طرح سب کچھ اگلوا کر اپنا بستہ اٹھائے چل دیئے تھے، اپنے بارے میں ایک لفظ کہے اور سنائے بغیر۔ انہوں نے موقع ہی نہیں دیا اور خود وہ کیسے بےچھت کے مکان تلے بارش اور دھوپ کی زد میں آ بیٹھی تھی۔ وہ یوں بے سروپا پٹرپٹر زبان ہلانے کی عادی تو نہیں تھی لیکن یہ ہوا کیوں۔ وہ اس کی نیت سے آگاہ تھی نہ ارادوں سے اور اگر سائمہ کو خبر ہو گئی تو وہ اس کی جان کو آ جائےگی اور اگر ڈاکٹر صاحب بھی اس کی طرح بے سوچے سمجھے بولنے کے عادی ہوئے تو سمجھو شہر کو ایک دلچسپ سی کہانی مل گئی، پھیلانے کے لیے۔ وہ کس قدر پریشان بیٹھی رہی۔ سائمہ کو یوں اپنا ایکسپوز کیا جانا بالکل بھی پسند نہیں تھا اور وہ یوں شروع ہو گئی تھی جیسے اس نے مدت سے خود کو بولتے نہ سنا ہو۔
سائمہ غیرمعمولی دیر لگا کر آئی۔ ثمینہ الجھی بیٹھی تھی۔ اس نے جی بھر کر اسے ہی جھاڑ ڈالا اور ہمیشہ کی طرح اس نے انتہائی تابعداری سے اس کی ساری ڈانٹ ڈپٹ سن بھی لی۔
’’اچھا ایسے کہہ رہا تھا ڈاکٹر۔ وہ ممی پاپا کا دوست ہے۔ ان سے شکایت نہ لگائے کہیں، سمجھ میں نہیں آتا آخر اسے کیسے پتا چلا کہ تم میں نہیں ہو۔‘‘
’’تمہیں سب پہچانتے ہیں۔ تم کون سا برقع اوڑھ کر گھر بیٹھی ہو۔‘‘
’’ارے واہ۔ برقعہ اوڑھ کر باہر پھرا جاتا ہے، گھر میں کون پہن کر بیٹھتا ہے۔‘‘
’’ویری فنی! اپنی ذہانت کایہ مظاہرہ ذرا ممی کے سامنے کرنا۔‘‘
’’میرا مطلب یہ تھا۔ اس جنریشن کے لوگ عموماً اشتہار وشتہار دیکھتے ہی نہیں۔ بس خبریں سنتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ!‘‘
’’جنریشن، کون سی جنریشن۔ وہ بوڑھا نہیں تھا۔‘‘
’’اوہ بوڑھا نہیں تھا۔ تب تو تم خوب بور ہوئی ہوگی۔‘‘ وہ قل قل کرکے ہنس پڑی۔ وہ جب بہت خوش ہوتی تو مینا کو چھیڑتی تھی۔ ورنہ وہ اس سے بے تکلفی کی شاذ ہی جسارت کرتی تھی۔
’’ڈیڈی کو فون کر لو۔ تم نے پہلے کرلیا تو بات بگڑےگی نہیں۔ اس نے کر لیا تو بہت پچھتاؤگی۔‘‘
پھر سونے سے پہلے اس نے تفصیل سے بتایا کہ بھوربن میں کیا کیا ہوا تھا۔ بھاپ میں بھیگے تولیے سے بال لپیٹے وہ ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں ہونے والی مصروفیات کے بارے میں بتا رہی تھی۔
’’امجد بڑا ڈینڈی لڑکا ہے۔ (ثمینہ کو اس کا نام پسند نہیں آیا۔ پاکستانی فلموں میں اسلم پرویز جیسا نام) وہ ایک گروپ کی وڈیو تیار کر رہا ہے، میں اس میں ماڈلنگ کر رہی ہوں۔ گانا مجھ پر پکچرائز ہوگا۔ تم کسی طرح اس منحوس یونیورسٹی سے نجات حاصل کرو، میرے ساتھ چلو انہوں نے کہیں میانوالی کے پاس کوئی لوکیشن دیکھی ہے۔‘‘
وہ قطرہ قطرہ سکمڈ ملک پیتی کس قدر لاغر لگ رہی تھی۔ اس کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کی کمر 23 انچ سے آگے نہ نکلنے پائے۔ اس کو اپنے بارے میں کیسے کیسے گمان تھے اور مینا اس کو کس قدر مایوسی سے دیکھ رہی تھی۔
اس کو ذرا بھی یقین نہیں تھا کہ گزشتہ روز والے فلاپ ڈرامے کے بعد وہ کبھی اس طرف کا رخ کریں گے لیکن وہ تو صبح ہی صبح آوارد ہوئے۔ اس سے قبل کہ وہ اپنی مصروفیات ساتھ لیے باہر نکل جاتی۔ ضرور یہ اس کی چاند صورت کا کمال ہے۔ حالاں کہ انہوں نے آتے ہی اتنی صبح آمد کو اپنے پیشے کی دیانت کے کھاتے میں ڈال دیا تھا۔ سیم کے پاس جائے فرار ممکن نہیں تھی۔ وہ چکوتروں سے چمچ چمچ رس پی رہی تھی۔ مینا گھبرائی ہوئی تھی۔ کل وہ پتا نہیں کیا کچھ اگلوا گئے تھے اس سے۔ اگر انہوں نے راز فاش کر دیئے تو سیم کے سامنے وہ کس طرح شرمندہ ہوگی۔ سیم متوجہ نہیں تھی۔ وہ ناگواری سے اپنے پر مسلط کیے جانے والے ڈاکٹر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے مینا کا بدحواس ہونا بھی اچھا نہیں لگا۔
’’رات آپ کے ڈیڈی سے میری بات ہوئی تھی۔‘‘ انہوں نے میز کے کنارے سے دونوں حواس باختہ خواتین کی طرف چھچھلتی نظر ڈالی، ’’انہوں نے کہا ہے کہ میں ہر حال میں آپ کو چیک کر لوں۔ بلکہ جب تک یہاں ہوں روزانہ آپ کا معائنہ کروں۔‘‘
ثمینہ کو شک گزرا۔ فقرے کا آخری حصہ سائمہ کے حسن بے پناہ سے مرعوبیت کے بعد تشکیل پایا ہے۔
’’آپ چائے پئیں گے۔‘‘ سائمہ کی اکتاہٹ مینا نے چھپانے کی کوشش کی تھی۔
لیکن کس قدر بے پروائی سے انہوں نے مینا کی طرف دیکھا۔ ’’ہاں ضرور!‘‘
سنہری کنارے کی نازک سی پیالی میں چائے انڈیلتے وہ ان کے اور سائمہ کے مابین ہوتے مکالمے سے حتی المقدور کان لپیٹے بیٹھی رہی۔ آخری ٹیسٹ کب ہوئے تھے۔ ان کی رپورٹس کہاں ہیں۔ آپ کے ذاتی معالج کون ہیں۔ درد کس وقت ہوتا ہے۔ کھانے سے پہلے یا بعد۔ متلی کی کیفیت شام میں زیادہ ہوتی ہے یا صبح۔ ڈبل روٹی یا روٹی چھوڑے کتنا عرصہ ہو چکا ہے۔ ناشتہ میں کیا استعمال کرتی ہیں۔
اپنے پیشے سے دیانت داری والے بیان میں اب وزن بھی موجود تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے سٹینڈ سے سلائس نکالتے اس کی طرف دیکھا وہ کس قدر اجنبی اور ناواقف لگ رہے تھے جیسے اس کی ان سے کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ ان سے آگاہ ہونا تو درکنار صورت آشنا بھی نہیں۔ واقعی یہ چاند چہرے آنکھیں اس قدر خیرہ کر دیتے ہیں کہ معمولی شکل و صورت صرف ایک سیاہ دھبے کی شکل میں ہی نظر آتی ہے۔ جیسے اچانک آپ سورج کی روشنی سے کم روشن کمرے میں آ جائیں۔
اس نے دیکھا، ذرا سی دیرمیں سائمہ ہتھیار پھینکے ان کے سب سوالوں کے معقول قسم کے جواب دے رہی تھی۔ مینا اس کی طبیعت سے آگاہ تھی، یہ ڈاکٹر واکٹر اس کے لیے قطعی اہم نہیں۔ ہاں ان کی شخصیت کی دلکشی اور جامہ زیبی قابل قبول تھی۔ گو اس میں وہ گلیمر بھی نہیں جس کی اسے تلاش ہوتی ہے۔ وہ غالباً امجد کی برابری بھی نہیں کر سکیں گے۔
یہ ایک خالص پروفیشنل میٹنگ تھی، جیسا کہ اس نے بیٹھتے ہی کہہ دیا تھا اس میں ایک لفظ بھی غیر متعلق اور ضرورت سے زائد نہیں بولا گیا۔ رخصت ہوتے سمے وہ اپنے مریض اور مریض کے تیمار دار کو خدا حافظ کہنے کے لیے مؤدبانہ سر ہلاکر الٹے قدموں چلے بھی گئے۔
سیم ژی ٹی وی اور ڈاکٹر کے عشق میں بہ یک وقت گرفتار ہو گئی۔ دپتی بھٹناگر کا رقص، کرشمہ کی بے ہودگیاں اور ڈاکٹر عمر فاروق کی سحرکاریاں۔
’’کتنے اچھے کپڑے پہنتی ہے کرشمہ (پتا نہیں کہاں ہوتے ہیں وہ کپڑے جسم پر تو نظر نہیں آتے)۔ دپتی بھٹناگر میری فیورٹ ماڈل ہے، بہت کونفیڈینٹ ہے۔ ڈاکٹر فاروق کس قدر چھا جانے والے انداز میں بات کرتے ہیں، ان میں ہے کوئی بھی بات ایسی۔ ایسی جو۔۔۔‘‘
پتا نہیں لفظ ختم ہو گئے یا مثال۔ سیم کسی کے بارے میں کوئی حتمی اور انتہائی رائے دیتے ہوئے ہچکچاتی بھی نہیں تھی۔ اس کی بلا سے اگلا غلط فہمی کا شکار ہو کر مارا جائے۔
اسے کوئی حق تو نہیں تھا اور ہمہ وقت کی تنبیہ نے اسے خوب ہی نکھار دیا تھا۔ چھوٹی چھوٹی رنجشیں اسے رنجیدہ بھی نہیں کرتی تھیں۔ لیکن پتا نہیں کیوں اسے یہ سب اچھا نہیں لگا۔ آخر امجد، ایاز اور ڈاکٹر فاروق میں کوئی فرق تو رکھنا چاہیے نا۔ وہ انسانوں کو سمجھتے ہیں اور لوگوں سے ان کی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر ہی نمٹتے ہیں۔ غالباً وہ ایک بہتر انسان ہیں اس لیے اگر ان کے ساتھ سیم نے کوئی ایسا ویسا سلوک کیا تو اچھا نہیں کرےگی۔ لیکن اس نے اس کو ڈاکٹر فاروق کی شان میں قصیدہ پڑھنے سے روکا نہیں نہ اس کی رطب اللسانی پر اعتراض کیا۔ وہ اپنی حدود کا تعین خود کرتی تھی اور سب جانتے تھے کہ باس کون ہے۔
سنہری دھوپ بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمک رہی تھی۔ابھی صبح شروع ہوئی تھی۔ دور نیچے کشمیر کی طرف وادی میں آباد گاؤں کے گھروں سے نیلے نیلے دھوئیں کے مرغولے اٹھ کر آسمان کی طرف جا رہے تھے۔ اسے یہ منظر کشی بہت اچھی لگتی تھی۔ لیکن افسوس نہ وہ شاعر بن سکی نہ مصور۔ اسے اپنی اکلوتی بہن کی ناز برداریاں کرنے سے فرصت ہی نہیں ملی تھی۔
وہ خاموشی سے گھر کے سامنے نیچے وادی میں اترنے والی سیڑھیوں پر آ بیٹھی، وہ بلاوجہ ہی دل گرفتہ تھی۔ حالاں کہ وہ اپنی مایوسی کے اسباب سے آگاہ بھی نہیں تھی۔ کبھی کبھی یونہی محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کا سب کچھ چھن گیا ہے جب کہ آپ کے پاس تھا ہی کیا جو چھن جاتا۔
اس نے پشت سے آنکھیں پھیر لیں۔ سڑک سے نیچے بیلوں اور سرخ پڑتے خزاں رسیدہ درختوں سے بھرا گھر آہستہ آہستہ مہمانوں سے بھر رہا تھا۔ ان کے ہاں کوئی تقریب تھی شاید۔ ایک تقریب اس کے اپنے گھر میں بھی بپا تھی۔ وہ دونوں اس وقت ناشتا کر رہے ہیں اور انہیں محسوس بھی نہیں ہوا کہ ایک غیرضروری عنصر ان کے درمیان سے چپکے سے اٹھ گیا ہے۔ ہر طرف آبادی ہے اور رونق۔ تنہائی اصل میں آپ کے اطراف میں نہیں ہوتی، آپ کے اندر ہوتی ہے۔ اس نے ٹھنڈی برفیلی ہوا کو ناک میں گھسنے سے روکنے کے لیے اپنے گھٹنوں میں سر دے لیا۔ ہاں ہمیشہ ہونے والے واقعات میں آج کا یہ واحد واقعہ ضرور کسی وجہ سے انفرادیت کا حامل ہے۔
اسے اپنے پیچھے گھر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ ضرور زینب کی ماسی ہو گی۔ اس نے بغیر سوچے سمجھے پشت سے آنے والی آوازوں سے کان بند کر لیے۔ اسے قوم کی ماسی بننے کا شوق ہے۔ ابھی اس کے فضیحتے شروع کر دےگی، سردی میں کیوں بیٹھی ہو، سوئیٹر کیوں نہیں پہنتیں، لیگ انگ پہناہے کہ نہیں۔
قدموں کی نامانوس چاپ اس کے پاس آکر رکی تو وہ ٹھٹک گئی۔
’’سیڑھیاں آپ کی پسندیدہ جگہ ہے۔‘‘ وہ اس کے نزدیک ٹھہرے تو وہ لڑکھڑا گئی، اسے لگا وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہے تھے، اس کو اپنی اس درجہ گری خوش فہمی اچھی بھی نہیں لگی۔
وہ بلاوجہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ ’’آپ نے سیم کو چیک کرلیا۔ کیا ہوا ہے اسے؟‘‘
’’آپ کو کیا ہوا ہے؟‘‘ ان کی آنکھیں مسکراہٹ روکنے کی کوشش میں ناچ رہی تھیں۔
’’میں ٹھیک ہوں بالکل۔ آپ تو سیم کے لیے آئے ہیں۔‘‘
’’یہ میں نے کب کہا۔ خیر باوجود بیمار ہونے کے وہ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ ایک مستقل تیماردار ان کے ہاتھ آ گیا ہے اور میں نے انہیں نہیں بتایاکہ انہیں اس بیماری کی ابتدا ہے جو ہالی وڈ کی ہیروئنوں میں عام ہے، وہ تو شاید خوشی سے مر جاتیں۔ بہرکیف آپ دھیان رکھیں کہ وہ ایک گھنٹہ سے زیادہ بالکل بھوکی نہ رہیں۔ ہلکی خوراک سے بھاری کی طرف بتدریج۔‘‘
ان کے چہرے پر بکھری شرارت پیشہ ور سنجیدگی میں داخل ہوئی تو ان کا لہجہ اور انداز بھی بالکل بدل گیا۔ جیسے وہ مریض کی نرس سے مخاطب تھے۔ اسے تو ویسے بھی خوش فہمیاں پسند نہیں تھیں۔
’’پتا نہیں وہ کب سے اپنا یہ مرض پال رہی ہیں اور ان کے والدین بھی کس قدر لاپروا لوگ ہیں جنہیں اپنے بچوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی بھی نہیں۔ بہرکیف آپ ان کا دھیان رکھیں اور ہاں اپنا بھی خیال رکھیں۔‘‘
وہ بغیر پلٹ کر دیکھے لمبے لمبے ڈگ بھرتے سیڑھیاں اتر گئے۔
وہ اندر آئی تو اس کا خیال تھا، وہ بہت بولے گی اور یوں مارے باندھے علاج کروانے پر خفا ہوگی۔ لیکن کسی مسرور کن خیال نے اسے خوش کر رکھا تھا۔
’’چلا گیا ڈاکٹر!‘‘ جیسے اس کی برسوں کی بے تکلفی تھی ڈاکٹر سے۔
’’تم کہہ دیتیں زینب کے چاچا سے، وہ چھوڑ آتا اسے ،غریب اتنی سردی میں پیدل گیا ہوگا۔‘‘
’’وہ غریب آدمی اپنی ذاتی گاڑی میں آیا تھا۔‘‘
سائمہ کو جیسے جھٹکا لگا۔ وہ آرام دہ کرسی پر لیٹی ایک اضطرابی کیفیت میں اٹھ کے بیٹھ گئی۔
’’کون سی گاڑی تھی؟‘‘
’’مجھے کیا پتا۔ میں تو اوپر سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔ اب میں پیچھے بھاگ کرنام بھی پڑھتی۔‘‘
’’بھاگنے کی کیا ضرورت۔ میک تو دُور سے ہی پتا چل جاتا ہے۔‘‘
’’مجھے نزدیک سے بھی نہیں چلتا۔‘‘
’’کس رنگ کی تھی؟‘‘
’’ہری تھی یا شاید نیلی۔‘‘
’’کیا مطلب۔ تم نے دیکھی بھی نہیں۔‘‘ سائمہ ہکا بکا رہ گئی۔
’’دیکھی تو تھی لیکن اس قدر غور سے نہیں دیکھی۔ پھر مجھے رنگ یاد بھی نہیں رہتے۔‘‘
سائمہ جھنجلا گئی۔ باوجود ثمینہ سے شدید محبت کے اسے یہ فقیری کے پردے میں جہالت بہت بری لگتی تھی۔ اس نے صبر کا گھونٹ پی لیا۔ معلوم نہیں کس چیز نے اسے دنیا کی ساری خوشیوں سے منہ موڑکر اس درجہ درویش بنا دیا تھا۔ اس کے پاس اس کا علاج بھی تو نہیں تھا اور اب تو جیسے اس نے بات چیت کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔ ہر طرف سے بےنیاز وہ ایم ٹی وی کے بے ہودہ سے ہپی کو اچھلتے ایسے غور سے دیکھ رہی تھی جیسے اس گلوکاری سے اسے بہت ہی دلچسپی رہی ہو۔ سائمہ کو کریدسی لگی تھی، وہ چڑنے لگی، پھر ٹھونک ٹھونک کر کیے گئے سوالات کے جواب میں بھی وہ عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔
’’اتنے پیسے کہاں سے آئے ہیں ان کے پاس؟ خاندانی ہیں کہ ذاتی۔ ذریعہ آمدنی کیا ہے۔ نری تعلیم ہی ہے یا کوئی جاگیر وغیرہ بھی۔ کہاں ہوتی ہے ڈاکٹر کی فیملی؟‘‘
’’خدا کے واسطے سیم! مجھے کیا معلوم۔ تم تو ایسے پوچھ رہی ہو جیسے میں انہیں بچپن سے جانتی ہوں۔‘‘
سائمہ چپ رہ گئی۔ وہ تو مینا کو بچپن سے جانتی تھی۔ اس نے ہمیشہ اس کے پسندیدہ لوگوں اور دوستوں سے اسی طرح اکتاہٹ اور بیزاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔
باوجود اس کے کہ اس نے اپنے پہلے ہی فقرے میں ہر طرح کے علاج اور ٹیسٹ کو یک قلم رد کر دیا تھا۔ لیکن صبح صبح وہ اپنا بہترین سوٹ پہن کر اور نہایت فرصت سے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے والی میز پر وقت لگا کر باہر نکلی۔
’’میں اپنے کمرے میں انتظار کر رہی ہوں مینا! ڈاکٹر فاروق مجھے لے جانے آئیں گے۔ سٹی لیب میں پتھالوجسٹ ان کا دوست ہے۔ مجھے بلا لینا پلیز۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے آنے میں دیر لگائی اور امجد پہلے آ گیا اور حقیقت سے آگاہی صرف مینا کو تھی کہ دراصل دیر امجد کو ہو گئی تھی۔ اب اس کی ضرورت تھی نہ وقعت۔
’’مجھے بہت ضروری کام ہے امجد۔‘‘اس نے رکھائی سے کہہ کر توتے کی طرح آنکھیں پھیر لیں۔
’’آخریہ کسی ایک جگہ رک کیوں نہیں جاتی۔ اس کی منزل کہاں ہے آخر؟‘‘ مینا سوچتی رہ گئی۔
گاڑی کی آواز پر اس نے خود کو انتہائی مصروفیت سے اپنے کمرے میں بند کر لیا۔
’’زینب جاؤ بچے۔ باجی سیم سے کہو، ڈاکٹر صاحب آ گئے ہیں۔‘‘
باوجود اس کے کہ وہ جانتی تھی سیم کے کان گاڑی کی آواز پر اس سے زیادہ متوجہ ہوں گے۔ اس نے اپنا فرض ادا کرنا ضروری سمجھا۔
کچھ دیر اس کی ہیل کی ٹک ٹک خالی گیلری میں گونجتی پھر قالینوں والے کمروں میں گم ہو جاتی۔ اس کے کمرے کی کھڑکی دھوپ کے رخ کے علاوہ سڑک کے اس رخ بھی کھلتی تھی جہاں سے وہ باعث تنازع گاڑی جی پی او کے لیے سیدھی سڑک پر نکلتی تھی۔ اس نے پردے ہٹاکر باہر جھانکا۔ گاڑی کے میک اور رنگ سے دلچسپی نہ ہونے کے باوجود اس نے سبق یاد کرنا ضروری سمجھا حالاں کہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی۔ جس کو ضرورت تھی، وہ یقیناًاس کو پسندیدگی کا درجہ دے چکی تھی تبھی وہ ہنستی مسکراتی اپنے لیے کھولے گئے اگلے دروازے کی نشست پر اطمینان سے بیٹھ رہی تھی۔
اس سیٹ پر بیٹھنا اس کا ہمیشہ سے استحقاق رہا ہے، لیکن اب شاید وہ کوئی آخری فیصلہ کر چکی تھی، اس لیے کھلکھلا کرہنس رہی تھی۔ افسوس وہ اس قدر کم ظرف نکلی کہ لوگوں کو ہنستا دیکھ کر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ وہ پردے چھوڑ کر ہٹی اورچائے کے لیے ٹرالی کھینچ کر بیٹھ رہی۔
امجد شاید مایوس نہیں ہوا تھا۔ اس کی کار رکنے کی پھر آواز آئی۔ اس کو مکمل طور پر مایوس کرنا بن کہے اس کے فرائض میں شامل تھا۔ وہ پیالی ہاتھ میں پکڑے لاؤنج میں آئی اور بھونچکا سی رہ گئی۔
ڈاکٹر فاروق کمرے کے وسط میں جیسے کسی کے انتظار میں کھڑے تھے، اس کی آنکھوں کا گیلا پن ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ امجد کو جھڑکنے کا اس کا ارادہ اس کے چہرے پر لکھا تھا۔ انہوں نے اپنی آمد کا سبب بتانے سے پہلے اس کی بھیگی جڑی ہوئی پلکیں غور سے دیکھیں۔
’’ان کے پچھلے ٹیسٹ ان کے کمرے میں دراز میں رہ گئے ہیں۔‘‘
اس کا رویہ ہمیشہ بے پروا سجن والا رہا ہے۔ بھلا کیا کرنے نکلی تھی گھر سے۔ وہ ایک لفظ منہ سے نکالے بغیر پلٹی اور لمحوں میں واپس آ گئی۔
’’جو کچھ آپ کو چاہیے، دیکھیے اس فائل میں ہے کہ نہیں؟‘‘ انہوں نے تھوڑی دیر کے لیے نگاہیں اس پر مرکوز کیں۔
’’جو کچھ مجھے چاہیے، فائل میں نہیں ہے۔‘‘
فائل کھولے بغیر پتا نہیں انہوں نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا۔
’’اور غالباً ہر جگہ وہ آپ کے ساتھ جاتی ہیں۔ اس لیے اب بھی اکیلی نہیں جا سکتیں۔ آپ بھی چلئے۔‘‘
ایک اور نادر شاہی حکم۔ وہ بلاوجہ ایک کے بعد دوسری بات پر جھنجلا رہی تھی۔ وہ جس طرح بیٹھی تھی، اسی طرح انگلیوں سے بال سنوار کر کھڑی ہو گئی۔ چائے کی پیالی ایک طرف رکھ کر اس نے کہا، ’’چلئے!‘‘
’’آپ کو سوال کرنے یا اعتراض کرنے کی عادت نہیں ہے؟‘‘
انہوں نے اس کے برابر چلتے ذرا دیر کو اس کی طرف دیکھا۔
’’عادت کی بات نہیں ہے۔ مجھے ایسا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
لہجے کی یہ بے بس سی تلخی سننے والے کو بھی اچھی نہیں لگتی، پھر بھاگتی دوڑتی ہنستی کھلکھلاتی دنیا میں بھیگی پلکوں اور رندھی آواز سے تلخی بکھیرتی لڑکی کی آواز سنتا بھی کون ہے اور ہاں سنانا بھی کون چاہتا ہے۔ وہ دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
’’تم خود رپورٹ لےکر کیوں نہیں نکلیں اور مجھے ساتھ لےکر جانا تھا تو تم نے صبح سے کیوں نہیں بتایا؟‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ اس نے ایک لفظ سمجھے بغیر حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ ڈاکٹر فاروق گاڑی میں بیٹھتے اپنی مسکراہٹ پر قابو پا رہے تھے۔
’’میرا پرس رہ گیا تھا آپ کی میز پر۔ آپ کی بہن کہنے لگیں، وہ بھی آپ کے ساتھ جائیں گی۔ وہ آپ کو تنہا بھیجنے کے سلسلے میں کسی پر بھی بھروسا نہیں کرتیں شاید۔‘‘
سائمہ نے غائب دماغی سے کہا تھا،’’میں اپنی بہن پر بہت مغرور ہوں۔ وہ دنیا کی واحد ہستی ہے جو اگر کہے لیٹو، میں تمہاری لاش سے گزروں گی تو میں بہ خوشی لیٹ جاؤں۔‘‘
لمحے بھر کے لیے کار میں موت کی سی خاموشی چھا گئی۔ پتا نہیں کون کون کس کس کی لاش سے گزرتا رہا۔ اس اداس کر دینے والے لمحے کو ڈاکٹر فاروق نے کیسٹ آن کرکے توڑ دیا۔
تجھ کو دریا دلی کی قسم ساقیا۔ دور پر دور چلتا رہے۔ رونق میکدہ یونہی۔۔۔
سائمہ نے ناگواری سے انگوٹھے کے زور سے جگجیت کا گلا بند کر دیا۔
’’یہ کس قسم کے گانے سنتے ہیں آپ۔ اچھے والے گانے نہیں آپ کے پاس۔‘‘
ایسے خیالات اور ایسی پسند رکھنے والے آدمی سائمہ کو ذرا بھی پسند نہیں تھے۔ لیکن گاڑی میں بیٹھے بیٹھے موبائل انہوں نے کانوں سے لگایا تو سائمہ کے بہت سے نظریات بھربھری ریت کی طرح جھڑ گئے۔
انہوں نے کیسٹ ریجیکٹ کرکے ڈیش بورڈ پر پھینک دی۔
’’نہیں آواز تو اچھی تھی اس آدمی کی۔ کون ہے بھلا یہ؟‘‘ شوبز سے تعلق رکھنے والے ہر انسان کے تاریخ جغرافیہ سے مکمل آگہی کے باوجود وہ کس قدر نابلد بھی تھی۔
ثمینہ ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھی پرانے میگزین ٹٹولتی رہی اور تین دن کا باسی اخبار جو اتنی باخبر بہن کے ہوتے بھی اس کے لیے تازہ تھا۔ اندر سائمہ ٹیسٹ کے صبر آزما مراحل سے گزر رہی تھی اور وہ خود کو اس نئی کشمکش سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔
’’کیا ہوا؟‘‘وہ اس کے طویل صوفے پر بچی ہوئی جگہ پر خود کو سمیٹ کر بیٹھتے بولے تھے۔
کیا ہوا تھا۔ اس نے جھنجلاکر اخبار واپس میز پر رکھ دیا۔ جیسے اس شخص کے تو علم ہی میں نہیں اور کس قدر سکون سے وہ اس کا سکون درہم برہم کرنے کے درپے تھے۔
’’اس کے اندر ٹیسٹ ہو رہے ہیں اور آپ باہر آ گئے ہیں۔‘‘
غیرمتعلقہ سوالات کے غیر متعلقہ جوابات دینے کی تو اس کی برسوں کی مشق تھی۔
’’وہ جو ٹیسٹ لیتا ہے، وہ میں نہیں ہوں، وہ کسی دوسرے کو پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتا۔ لیکن آپ شاید لڑائی کے موڈ میں ہیں۔‘‘ انہوں نے جھک کر اس کی آنکھوں میں اندازے لگائے۔
’’لڑ لیجئے اور پھر صلح کر لیجئے، کیوں کہ اول تو یہ میرے پیشے کا تقاضا ہے۔ دو م، میں فطرتاً صلح پسند آدمی ہوں اور سوم یہ کہ میری خطا بھی اتنی بڑی نہیں۔ ایک ذرا سا جھوٹ ہی تو بولا تھا۔ میں نے سوچا آپ اکیلی گھر بیٹھ کر کیا کریں گی۔‘‘
کتنی دیر کے لیے اسے لگا، اس کے الفاظ اور سانس حلق میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان کا بھاری اور بھیگا لہجہ کچھ اور کہہ رہا تھا۔ لیکن الفاظ کا چناؤ اس قدر پروفیشنل تھا کہ مینا کو اپنے آپ سے گھن آنے لگی۔ کیوں آخر وہ بے سبب کسی شخص کی توجہ کی محتاج بنی چلی جا رہی ہے۔ اس سے قبل تو سائمہ کے قبیل کے کسی آدمی نے اس قدر متوجہ نہیں کیا تھا۔ متوجہ تو شاید اس نے بھی نہیں کیا تھا پھر اس دیوانگی کی وجہ؟
’’چلئے۔‘‘ ان کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی، ’’شروع کیجئے لڑائی۔ گنوایئے میری خطائیں۔ لیکن میرے خیال میں آپ خود جنگ کی اہل نہیں۔ آپ کے تو ماتھے پر آپ کی پھینکی ہوئی بندوق نظر آ رہی ہے۔ افسوس آپ نے اپنی بہن سے کچھ نہیں سیکھا۔‘‘
انہوں نے موڑ کر رکھا ہوا اپنا گھٹنا صوفے سے نیچے اتارا اور گیلری کے دونوں اطراف قطار میں نظر آنے والے کمروں میں سے کسی میں غائب ہو گئے۔
اس کی نظریں بلاارادہ ان کے تعاقب میں دور تک گئیں۔ وہ اپنی بہن سے کیا سیکھ سکتی ہے۔ وہ کسی صورت بھی اس کی برابری کی اہل نہیں۔ کوا مور کے پر لگواکر مور تو نہیں بن جاتا۔ اس کو اپنی شخصیت میں مانگے کے ہیرے نہیں ٹکوانے اور اب تو اس میں بھی کوئی شک نہیں رہا تھا کہ باقی ماندہ افراد کی مانند ڈاکٹر فاروق کے فقرے بھی سائمہ کے نام کے آس پاس ہی پھسل رہے تھے، گویا ان میں بھی کوئی انفرادیت نہیں اور اس کا انہوں نے دعویٰ بھی نہیں کیا۔ خود ہی اس نے انہیں یہ تمغے پہنائے تھے اور خود ہی نوچ بھی ڈالے۔
لہٰذا مجھے چاہیے، اس نے خود کو سمجھایا کہ ہجوم میں کھڑے کسی شخص کے پیچھے بھاگا نہ جائے، تعاقب میں گرنے والا اوندھے منہ گرتا ہے اور رنگ میں بیٹھے لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ ہارنے والے کی تضحیک اور جیتنے والے کے اعزاز میں اور اسے اپنے اوپر ٹکٹ نہیں لگوانا۔
وہ دونوں ایک ساتھ باہر آئے تھے کسی مشترکہ مذاق پر ہنستے ہوئے۔ سائمہ خود کو کس طرح ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہی تھی۔
یہاں سے نکل کر وہ بازاروں میں پھری تھی۔ اس نے پاگلوں کی طرح چیزیں خریدی تھیں اور اس کی زبان ایک تواتر سے ہر حوالے میں ڈاکٹر فاروق کا ذکر کر رہی تھی۔ اس وظیفے کا سبب صرف ان کی شخصیت کا سحر نہیں تھا۔ اگر ان کی بیک گراؤنڈ میں وہ سوشل سٹیٹس سمبل گاڑی نہ ہوتی اور وہ تمام سٹائل جن کو وہ زندگی میں ضروریات کا نام دیتی تھی۔ اسے تو اس طرح جھکنے کی عادت نہیں تھی، وہ تو صرف لوگوں کو جھکاتی تھی۔
اس رات اس نے دیکھا سائمہ کے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے تھے، وہ اس کو کب سے محبتیں کرتے اور ان کو پرزہ پرزہ کرکے بکھیرتے دیکھ رہی تھی، آج اس کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔ اگر وہ واقعی خوش ہے تو خدا اسے مکمل خوشی دے۔ مینانے اس کے جذب سے تمتماتے روشن چہرے کو دیکھ کر دعا دی۔
وہ اپنے بستر پر لیٹی کمبل سینے تک تانے جیسے خواب دیکھتے ایک تواتر سے باتیں کر رہی تھی۔ آج کتنے دن بعد اسے کسی قسم کے درد نے بے حال نہیں کیا تھا۔ ڈاکٹر فاروق نے اسے اپنے گھر بلایا تھا اور اس خواہش کا اظہار انہوں نے بار بار کیا تھا۔ پتا نہیں اب کسی دن وہ اسے باضابطہ طور پر انوائیٹ کر لیں اور اس کے پاس پہننے کے لیے ایک بھی کپڑا نہیں تھا۔ (اس کے پاس کبھی بھی ایک بھی کپڑا نہیں ہوتا تھا)۔
رپورٹس کا کیا بنا۔ علاج کا کیا ہوا۔ کون سی دوائیں تجویز کی گئیں، اس بات کا کوئی تذکرہ ساری گفتگو میں نہیں تھا۔ مینا نے دھیان سے اور حتی المقدور دلچسپی سے اس کی ساری باتیں سنیں۔ کبھی اسے لگتا، باتیں سنتے سنتے اس کا رنگ لال ہو رہا ہے، دل اچھل کر حلق میں دھڑکنے لگا ہے اور وہ خود کو سمجھاتی رہی، اسے یہ ذکر پسند نہیں۔ ہاں بس صرف سیم کی دلچسپی سے۔ پھر اس کا جی چاہتا۔ یہ موضوع کبھی نہ بدلے لیکن سائمہ کی افتاد طبع ایک جگہ ٹکتی بھی نہ تھی، وہ ڈاکٹر فاروق سے چل کر بھوربن کے سٹیج پر پہنچتی۔ پھر ان کی گاڑی کے ڈیک پر۔
اور ثمینہ رسان سے کرسی پر بیٹھی ہاتھ گود میں دھرے ڈاکٹر فاروق کے لفظوں اور ان کے معنوں کے جال میں الجھتی رہتی۔ کتنی دیرا ضطراب سے ہاتھوں کی انگلیاں مسلنے کے بعد وہ سر اٹھاتی تو سیم، ڈاکٹر فاروق کے لباس کے قصیدے پڑھتی ہوتی۔ ان کا زندگی گزارنے کا انداز، ان کی طبیعت کی بےنیازی، سیم کا کمال تھا، وہ بہت آسانی سے لوگوں میں خوبیاں بھی تلاش کر لیتی تھی اور خامیاں ڈھونڈنے میں بھی اسے کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ ہاں ڈاکٹر فاروق میں کوئی بات ضرور تھی کہ اس تفصیل سے اور اتنا طویل ذکر اس نے کبھی کسی کا نہیں کیا تھا۔
وہ رات کو دیر تک جاگی تھی۔ لیکن بلاوجہ صبح اٹھ جانے کی عادت نے اسے نیند بھی پوری نہیں کرنے دی۔ ان دنوں یوں بھی اس کا کام صبح اٹھ کر سورج کو نکلتے دیکھنا اور شام پڑے اس کے ڈوبنے کا انتظار کرنا ہی رہ گیا تھا۔ ایک دن ڈیڈی بھی آئے تھے، صبح سے شام تک ٹھہر کر واپس چلے گئے۔ اس مختصر وزٹ میں انہوں نے سیم سے متعلق ڈاکٹروں اور بالخصوص ڈاکٹر فاروق سے ملاقات کی تھی، کسی پارٹی کے ساتھ لنچ کیا تھا اور اپنی دونوں بیٹیوں سے ان کے اپنے بقول بہت ساری باتیں بھی کر لی تھیں۔ یوں بھی ان کی باتوں میں ان دونوں کے لیے چیک سائن کرنا اور ’’کوئی اور مسئلہ تو نہیں‘‘ ہی پوچھنا شامل تھا۔
پھر وہ مینا سے کہتے، ’’سیم کے آس پاس جو لوگ ہیں، مجھے پسند نہیں، کچھ خودغرض سے لوگ ہیں مطلب پرست۔ تم دھیان رکھنا ذرا۔‘‘
’’جی اچھا!‘‘وہ تابعداری سے کہہ دیتی۔ پتا نہیں خود غرض لوگ کون ہوتے ہیں، وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ وہ لوگ جو اپنی غرض ہم سے پوری کروائیں، وہی خودغرض لگتے ہیں اور جب ہم یہی ضرورت اپنے لیے کسی اور کے پاس لے جائیں تو خودغرض کے معنی بدل جاتے، مطلب پرست اور کمینے وہ بن جاتے ہیں۔ لفظوں کے معنی کتنی سہولت سے تبدیل ہو جاتے ہیں۔
ڈیڈی کے وزٹ سے اگلے دن ایک خودغرض آدمی پھر آیا تھا۔ ایاز کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا گزر گئی ہے، اسے یقین تھا سیم نے اسے نہیں چھوڑا۔ یہ ثمینہ ہی تھی جس نے اسے بھگا ڈالا ہے۔ وہ روہانسا ہو رہا تھا او رثمینہ کی خوشامدیں کر رہا تھا۔ اس کا دل پسیجتا رہا۔ پتا نہیں سائمہ کیسے خود کو اس قدر سنگ دل کر لیتی تھی۔
اس نے ترس کھا کر اسے اندر بلا لیا۔ باہر بارش برس رہی تھی اور اس ٹھٹھرتی سردی میں وہ اس کے عشق میں بہت دور سے آیا تھا۔ راکنگ چیئر پر سلگتی ہوئی لکڑیوں کے آتش دان کے سامنے بیٹھ کر اس کے اوسان کچھ بحال ہوئے۔
مینا تو ان دنوں دن بھر فارغ ہی رہتی تھی، وہ اس کے لیے کافی کا بھاپ اڑاتا مگ جس میں کریم کی سفید جھاگ لبالب بھری تھی بنا لائی اور کرسٹل کی ننھی سی ٹوکری جس میں کاجو اور نمکین پستے بھرے ہوئے تھے۔ اس کے سوا اس کے پاس اس کا ٹوٹا ہوا دل جوڑنے کے لیے کچھ بھی تو نہیں تھا۔ ہر گرم گھونٹ کے بعد وہ صرف ایک ہی سوال کر رہا تھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ سیم نے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔ سیم کے فیصلوں پر توثیق کی اتھارٹی اسے حاصل نہیں تھی اور جانے وہ نیم جان کیوں ہو رہا تھا۔
’’بھائی! یہ بات تم خود اسی سے کیوں معلوم نہیں کرتے۔‘‘
وہ کسی سے بھی معلوم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ان بہادر لوگوں میں سے نہیں تھا جو سچ سن لیتے ہیں، کاش کوئی آئے اور ان سے جھوٹ بول دے۔ مسئلہ محبت کا نہیں، اَنا اور خودداری کا ہے، ہار جیت کاہے۔ اس نے کہیں سے سنا تھا امجد کے بارے میں حالاں کہ اب تو یہ خبر بھی قدیم تاریخ کا حصہ بن چکی تھی۔ جب ایک شخص جیت جاتا ہے تو دوسرے کو ہارنا ہی پڑتا ہے۔ یہ خاموش سا فلسفہ شور مچاتے گانے گانے والے ایاز کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
اس نے کن اکھیوں سے سامنے کھلے فرح کے خط کی طرف دیکھا۔ یہ اسے ابھی ملا تھا اور اس نے اسے فرصت سے پڑھا بھی نہیں تھا۔
’’ٹیسٹ شروع ہونے والے ہیں اور ان چھے سات دنوں میں ہم نے ہیگل نہایت تفصیل سے پڑھ لیا ہے، تمہارا بہت حرج ہو رہا ہے سب تمہیںیاد کر رہے ہیں، خاص طور پر عمیر، وہ تمہارا پتا مانگ رہا تھا، میں نے نہیں دیا۔‘‘
خط ابھی ادھورا تھا۔ کسی وجہ کے بغیر اس کا دل بےتحاشا اداس ہو گیا۔ اس نے باقی ماندہ خط پڑھے بغیر اور لفافے میں ڈالے بغیر اسی طرح میز پر چھوڑ دیا یخ بستہ سنسناتی ہوائیں، خاموش ویران اور اداس اداس سڑکیں، جیسے چاروں طرف مردنی سی چھا گئی تھی۔ گلابی رنگ کی چائے بیچنے والوں کے سوا سبھی اپنے ٹانڈے بانڈے سمیٹ گھروں کو چل دیئے تھے۔
اس نے کھڑکی کے شیشے سے ناک لگاکر باہر کی فضا میں خنکی کا جائزہ لیا۔ درجۂ حرارت اس وقت ضرور مائینس آٹھ دس ہوگا۔ دور تک نظر آنے والی وادی میں گھروں کی زرد زرد روشنیاں جگنوؤں کی طرح چمک رہی تھیں۔ اتنی شدید سردی میں سڑک پر اکا دکا ٹریفک بھی نہیں تھی۔ رات بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ ایاز اس کا انتظار کرتے کرتے چلا گیا اور سیم ابھی تک واپس نہیں آئی تھی۔ جاتے ہوئے اس نے اسے ٹوکا بھی تھا۔
’’سیم! مت جاؤ اگر تمہاری طبیعت خراب ہو گئی تو؟‘‘
’’تو کیا ہوا؟‘‘ اس نے عادتاً ٹھنک کر کہا تھا، ’’ڈاکٹر تو میرے ساتھ ہے ہی۔‘‘
ڈاکٹر اب اکثر و بیشتر اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ کہیں جانے سے پہلے اسے رسماً مدعو کر لیتے تھے لیکن بہت زیادہ اصرار نہیں کرتے تھے۔
وہ دوبارہ چپ چاپ خط والی میز پر آ بیٹھی لیکن اس نے خط کو چھوا بھی نہیں تھا۔
یہ کتنی عجیب زندگی ہے؟ ہم کسی کے پیچھے بھاگے ہیں، کوئی ہمارے پیچھے بھاگتا ہے اور جس کے پیچھے ہم بھاگے تھے، وہ پلٹ کر دیکھے بغیر خود کسی کے تعاقب میں اندھا دھند دوڑے چلا جا رہا ہے۔ یہ اندھی دوڑ کہاں رکےگی۔ کسی کو تو پلٹنا یا رکنا پڑےگا۔
وہ ایک ایسی ہی یخ بستہ رات ان کے گھر لائی گئی تھی۔ سنا تھا ان کے مکان کی چھت گر گئی تھی اور ملبے سے برآمد ہونے والی واحد زندہ لڑکی کھیلنے کے لیے سیم کے حصہ میں آ گئی۔ اس کی ماں ان کے گھر کے کپڑے سیا کرتی تھیں۔ اسی طرح سے تو انہوں نے اس پر بے شمار احسانات کیے تھے۔ گری ہوئی چھت اٹھا کر پھر سر پر تان دی اور لافانی محبت کرنے والی ایک بہن بھی دی جو آنکھیں بند کیے اس کے پیچھے اس کی نقل میں چلتی رہتی تھی۔ جو گڑیا مینا کو چاہیے وہی سیم کو درکار ہے، اپنے انڈے کی بجائے مینا کا انڈا کھانا ہے۔ وہی سٹوری بک اچھی ہے جو اس کے ہاتھ میں ہے۔
کتنی عجیب بات ہے۔ یہ کوئی سٹوری بک نہیں تھی۔ اچھی بھلی گمبھیر سی زندگی تھی اور اسے گلہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس نے کبھی کسی کا دامن پیچھے سے نہیں تھاما تھا۔ لیکن پتا نہیں کیوں اسے یونہی کچھ دن کے لیے لگا تھا جیسے ان کی آنکھوں میں نم نم سے کچھ رنگ تھے پھر جب بھی وہ منہ اٹھا کر ان سے کوئی بات کہنا چاہتی تو وہ اپنی نظروں کے خلاف بڑی سخت جدوجہد کیا کرتے۔
پھر زیادہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ اسے جھپٹ لیا گیا۔ حالاں کہ وہ کسی کے منہ کا نوالہ نہیں تھا۔ لہٰذا اسے کسی دکھ میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ دونوں ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک جیسی مضبوط بیک گراؤنڈ کے مالک، لہٰذا ان کے خیالات و نظریات میں یکسانیت آ جانا فطری سی بات تھی۔
اس وقت وہ سیم کے ساتھ کسی شوبزنس سے متعلق فنکشن پر گئے تھے اور گزشتہ رات سیم نے مہدی حسن کا لوک ورثہ والا کیسٹ وی سی آر پر چلا کر خوب غور سے دیکھا تھا۔ حالاں کہ اسے اس پرانے میوزک سے سخت چڑ تھی او روہ اس قسم کی لڑکی بھی نہیں تھی جو لحاظ مروت میں کسی کا دل رکھنے کی خاطر تعریف کردیتی۔ اس دن ہاتھ مارکر اس نے بند کر دیا تھا اور اب وہ اس کی پسند میں ڈھلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کتنی رات تک لاؤنج سے سیمی کلاسیکل موسیقی کی آوا زآتی رہی۔ غالباً یہ کیسٹ ڈاکٹر صاحب کا تحفہ تھا۔ پھر اس نے اس کے کمرے میں آکر غالب کے ایک مصرعے کا مطلب بھی پوچھا تھا۔
’’بھلا وہ بندگی بوتراب، مشغول حق والے شعر کا مطلب کیا ہے؟‘‘
بھلا سیم کا شعروں سے کیا تعلق اور دیکھا جائے تو ڈاکٹر صاحب کا بھی شعروں سے کیا تعلق۔ لیکن شاید آپس کے تعلق سے شعر پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ دل بڑی عجیب چیز ہے۔ سیم جیسی لڑکی کو بھی چاند ستارے شعر غزل سب سوجھنے لگے تھے۔
پھر باہر برآمدوں میں قدموں کی چاپ ابھری اور وہ دونوں یک لخت اندر آ گئے۔ شاید اسے توقع نہیں تھی کہ وہ وہیں بیٹھی مل جائےگی۔ وہ لمحہ بھر کو ٹھٹکے پھر فٹ میٹ پر بوٹ جھٹکتے اندر آ گئے، مینانے ان پر اچٹتی سی نگاہ ہی ڈالی تھی۔ ان کے اوورکوٹ پر کہرے کی ہلکی سفید سی لہر جمی ہوئی تھی۔ سیاہ بالوں پر جمے برف کے گالے جیسے انہیں عمر رسیدہ بنا رہے تھے اور اس ایک اچٹتی نظر میں بھی اسے اندازہ ہو گیا، وہ غالباً کسی پارک میں کھلے آسمان کے نیچے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے گانے گاکر آ رہے ہوں گے۔
کتنی حماقت سے اس نے سوچا۔ کون سا گانا۔ بھلا انہوں نے کون سا گانا گایا ہوگا۔
’’مینا! مینا! کافی پلاؤ۔ اف اتنی سردی ہے بڈھی روح! تم باہر نہ نکلا کرو۔ کتنا کہا تھا تمہیں بھی۔ کس کا خط ہے یہ؟ کون آیا تھا؟ یہ ٹرالی کس لیے لگائی تھی؟‘‘
وہ اپنی عادت کے مطابق چاروں طرف ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ او رکسی جواب کی اسے حاجت نہیں تھی۔ یونہی پاس سے گزرتے اس نے میز پر دھرا کھلا خط اٹھا لیا۔
’’مما کا ہے؟ اف یہ تو فرح کا ہے۔‘‘ اس نے ناگواری سے وہیں واپس ڈال دیا، ’’کیا لکھا ہے؟‘‘
’’تم لوگ آگ کے پاس آ جاؤ۔‘‘
اس نے دونوں سے نظریں چراکر میزبان بننے کی کوشش کی۔ وہ جلدی سے کشن آگ کے پاس گرا کر آلتی پالتی مار کر سردی سے اکڑے ہوئے سرخ ہاتھوں کو آگ کی حدّت پر سینکنے لگی۔ وہ کمرے کے وسط میں اسی طرح کھڑے تھے، خاموش اور چپ چاپ۔ ان کے اور سیم کے مابین بےتکلفی اس حد تک ضرور استوار ہو چکی ہوگی کہ اس نے رسم دنیا داری نبھانے کی کوشش نہیں کی۔ گویا ان کا اپنا گھر ہے، بیٹھ جائیں گے۔
اس نے یونہی نگاہ ان کی طرف اٹھائی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے دستانے اتارتے مینا کے ہاتھوں کی نروس سی جنبش کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے۔
’’آپ بیٹھیں گے نہیں؟‘‘
اس کے تو بےتکلفانہ مراسم نہیں تھے۔ رسم دنیاداری میں اپنا حصہ اسے تو نمٹانا ہی تھا۔
’’آپ نے کہا ہی نہیں۔ میں نے سوچا ٹرخانا چاہتی ہیں۔‘‘
وہ معنی خیز مسکراہٹ لیے اسے تنگ کر رہے تھے۔
سیم کے حوالے سے اس طرح کی گفتگو شاید ان کا حق ہو، اسے اچھا لگنے کے باوجود اچھا نہیں لگا۔ سیم کے ساتھ تو دل کے کسی کونے میں بھی بے ایمانی کرنا اسے اچھا نہ لگتا۔ وہ انتظار کیے بغیر پلٹ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ مشغول حق ہوں۔۔۔
وہ ٹرالی گھسیٹتی واپس آئی تو لڑکھڑا سی گئی۔ سیم، فرح کا خط کھولے انہیں پڑھ کر سنا رہی تھی۔ وہ اوتاروں کی طرح کرسی پر جمے تھے اور سیم قالین پر ان کے قدموں میں جیسے مینا کا ہونا نہ ہونا بالکل ہی بے کار اور بےمقصد سی چیز ہے۔ وہ ان کے قدموں میں بیٹھی آسمانوں میں اڑ رہی تھی۔ جب تک اسے ڈانٹا نہ جائے اسے پتا نہیں چلتا۔ وہ اسی طرح لوگوں کو Bully کرتی ہے۔
’’ایسا لگتا ہے سورج روشن نہیں ہوا۔ ساری یونیورسٹی اندھیر ہو گئی ہے۔ آنے کو دل نہیں چاہتا۔ لیکن اس لیے آ جاتا ہوں کہ آج آ گئی اور میں نہ آیا تو۔۔۔‘‘
وہ خط کے اس حصے پر تھی جہاں فرح نے عمیر کی وکالت میں زمین آسمان کے قلابے ملائے تھے۔
’’شٹ اَپ سیم۔‘‘ اس نے اس کے ہاتھ سے خط چھیننا چاہا۔ غصے کے مارے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
آواز لڑکھڑا گئی تھی اور شدتِ غم سے جیسے آنکھوں میں پانی آ کرٹھہر گیا تھا۔ ڈاکٹر فاروق خط سننے میں ایسے مگن تھے، جیسے پرانی فلموں میں بوڑھی میمیں قدیم دستاویز سن رہی ہوتی ہیں۔ انہوں نے نظر اٹھا کر باری باری دونوں کی طرف دیکھا۔ سیم کا ہنستے ہنستے برا حال تھا۔ اس نے اپنی قابلیتوں اور ذہانتوں کے زعم میں پھر کسی کو نیچا دکھا دیا تھا۔ فتح اس کا مقدر رہی ہے۔ مینا رونے کے قریب تھی۔ دفعتاً انہوں نے اٹھ کر سیم کے ہاتھ سے خط جھپٹا اور مینا کو تھما دیا۔
’’یہ واقعی بہت بدتہذیبی ہے سائمہ! غلطی میری بھی تھی ،میں کیوں سننے بیٹھ گیا۔ آپ نہیں جائیں گی۔‘‘ انہوں نے تیزی سے بھاگتی مینا کا ہاتھ دفعتاً اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔
’’آئی ایم سوری، لیکن آپ جائیں گی تو مجھے دکھ ہوگا اور آپ دکھ نہیں پہنچا سکتیں۔ ہیں ناں؟‘‘
خوف سے یخ پڑتا کانپتا ہاتھ ابھی تک ان کے دونوں ہاتھوں میں حفاظت سے رکھا تھا۔ وہ بڑی سنجیدگی سے اس کے جواب کے منتظر تھے، اسے پتا بھی نہیں چلا ،کب کیسے اور کس بات پر کتنی دیر سے روکے ہوئے آنسو بہ بہ کر اس کے گالوں پر بکھرنے لگے۔ سیم گھبرا کر کھڑی ہو گئی۔
’’آئی ایم سوری مینا! آئی ایم ویری سوری۔ آئی ایم رئیلی ویری سوری۔‘‘
آناً فاناً کمرے کی فضا بدل گئی۔ ہنستے مسکراتے کمرے میں اس قسم کا رنجیدہ ڈراما رچانے کی ذمےداری مینا پر عائد ہوتی تھی۔ اس نے آہستگی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ سیم ابھی تک وحشت زدہ تھی۔ ہزاروں دوستوں اور دوستیوں پر فخر کے باوجود وہ مینا کو کھو دینے جیسا نقصان کبھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ عجیب سچویشن ہو گئی تھی۔
سائمہ نے تمام تر ذمےداری قبول بھی کر لی۔ مینانے اپنے حصے کی غلطی کا اعتراف کر لیا۔ آنسو بھی پونچھ لیے ،معذرت طلب کرتے خجالت سے وہ ایک طرف بیٹھ رہی۔ کافی بھی ڈاکٹر فاروق نے گھولی اور سب کے حصے کے مگ انہیں تھمائے۔
لیکن کتنی دیر تک جیسے وہ سب اس موضوع سے بچ بچ کر بھاگتے رہے۔ جیسے ابھی کوئی خوفناک تناؤ آیا ہی نہیں تھا۔ سیم کو ٹھنڈ لگ گئی تھی، وہ بےتحاشا چھینک رہی تھی۔ اسے آرام کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر فاروق معذرت کرتے اٹھ گئے۔
’’جاؤ مینا! ڈاکٹر صاحب کو چھوڑ آؤ۔ ‘‘سیم نے آگ سے مزید نزدیک ہوتے ہوئے کہا۔
مینا نے سوچا، واقعی حالات کو نارمل رکھنا اب اس کی ذمے داری تھی۔ ڈاکٹر فاروق شاید اس بات کے خواہش مند بھی نہیں تھے کہ وہ اسے چھوڑنے جائے۔ جسے جانا چاہیے وہ تو بےرخی سے منہ موڑے ٹھٹھر رہی تھی۔ وہ تو خود بھی بجھ گئی تھی۔ اس کا خیال تھا وہ اخلاقاً اسے اپنے ساتھ آنے سے منع کر دیں گے۔ لیکن وہ تو بہ خوشی اس کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ وہ شام سے ہی افسردہ تھی۔ پھر اس کے ساتھ کچھ اچھی بھی نہیں ہوئی۔ سیم نے فتح اور خوشی کے عروج پر پہنچ کر ہمیشہ کی طرح خود سے اختیار کھو دیا تھا۔
’’خدا حافظ۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔
وہ گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے رک گئے۔ انہوں نے بھیگ کر جڑی اس کی پلکوں کو غور سے دیکھا اور لمحہ بھر کے لیے ان کی آنکھوں میں شرارت بھی چمکی تھی۔
’’اب تو مجھے بھی یہی لگ رہاہے۔ سورج روشن نہیں ہوا۔ ساری مری اندھیر ہو گئی ہے۔‘‘
کوئی وقفہ دیئے بغیر انہوں نے گاڑی سٹارٹ کی اور غائب ہو گئے۔
’’مجھے یونیورسٹی پہنچنا ہے فوراً۔‘‘ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اچانک برس پڑنے والے ارادے کا اعلان کیا۔ ’’تمہارا کیا ارادہ ہے؟ یہیں ٹھہروگی یا میرے ساتھ چلوگی؟‘‘
سیم نے نظر اٹھاکر دیکھا۔ کمرے کی مختلف سمتوں میں بکھرے کافی کے خالی مگ سمیٹتی جھکتی اٹھتی وہ جھنجلائی سی لگ رہی تھی۔ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کا مساج کرتے کرتے وہ دفعتاً رک گئی۔
’’تم ناراض ہو گئی ہو مینا! میں نے تو تم سے معافی مانگ لی تھی اور تمہیں پتا ہے، مجھے اتنی عقل ہی نہیں، اسی لیے تو میں تمہارے ساتھ ساتھ رہتی ہوں تاکہ تم میری حماقتوں پر پردے ڈالتی رہو۔‘‘
’’ناراضگی کی بات نہیں ہے سیم۔‘‘ اس نے قطعی برہمی سے کہا تھا۔
اس وقت روٹھی روٹھی ضدی سی مینا نے اس کو سہما ڈالا تھا۔ حالاں کہ ان دونوں کے ہاتھ تو جیسے وہ اچھا لطیفہ آئی تھی۔ یوں بے جگہ ہنس پڑنے کے بعد اب بیٹھی ہاتھ مسوس رہی تھی۔ وہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی، آنکھیں بند کرکے منہ کھول دینے والی اور منہ کھول دینے کے بعدجی بھر کر شرمسار ہونے والی۔ وہ بچوں کی طرح تنہا رہ جانے کے خوف سے لرزتی رہتی اور پھر مینا کو لگنے لگتا تھا، وہ اسے چھوڑ کر کبھی بھی نہیں جا سکتی۔ کہیں بھی نہیں۔ وہ ڈھے سی گئی۔
’’کیوں جا رہی ہو؟ عمیر کے لیے۔‘‘ اب کے اس نے واقعی سادگی سے پوچھا تھا۔
’’یہ عمیر زمیر میری زندگی کا مقصد نہیں ہیں سیم۔ بلکہ شاید۔۔۔‘‘ وہ رکی، ’’میری زندگی کا کوئی مقصد ہے ہی نہیں۔ بس میری پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے۔‘‘
’’لیکن پلیز۔‘‘ اس نے آہستہ آواز میں منت سے روکا، ’’ڈاکٹر فاروق کا ڈنر تو اٹینڈ کر جاؤ۔‘‘
’’کیا؟ کس کا؟‘‘ اس کے ڈھیلے پڑتے ارادوں میں یک لخت تناؤ آ گیا، ’’میں کیوں جاؤں سیم! مجھے کس نے انوائٹ کیا ہے۔‘‘
’’وہ آئے تو تھے انوائٹ کرنے تمہیں۔ پھر اتنی بدمزگی ہو گئی۔ اب تم چلی جاؤ گی تو مزید برا لگےگا۔‘‘
’’دیکھو سیم۔‘‘ اس نے قطعیت سے کہا، ’’تمہیں کیا برا لگتا ہے کیا اچھا، ا س کا دھیان تو میں کر سکتی ہوں۔ لیکن تمہارے ساتھ میں تمہارے ملنے والوں کے موڈ کی بھی تابع ہو جاؤں، میری زندگی اتنی بے مصرف نہیں ہے۔‘‘
پھر اس نے جواب بھی نہیں سنا اور کچن میں چلی گئی اور جب وہ دن چڑھے سو کر اٹھی تو وہ واقعی جا چکی تھی۔ اس کی منتیں، خوشامدیں، جذباتی واسطے، پرانے تعلقات کے حوالے، کوئی بھی چیز اس کے آ ہنی عزم کو ڈگمگا نہ سکی۔
وہ لوگ ترکمانستان سے واپس آئے تو انہیں اس کایوں اسے اکیلے چھوڑ چھاڑ کر چلے آنا بالکل اچھا نہیں لگا اور جب وہ ان دونوں کے سامنے نہایت تفصیل سے اپنی مجبوری بیان کر رہی تھی تو اس نے دیکھا، پاپا جیسے سارا مسئلہ سمجھ رہے تھے اور اس قدر تفصیل میں جانے سے گریز کرنا چاہتے تھے۔ ٹیسٹ، امتحان، یونیورسٹی، داخلے۔ برسوں کی رفاقت سے پیدا ہونے والی انسیت صرف ان ہی کے دل میں بیدار ہوتی تھی۔
لیکن ماما کے ماتھے پر اور آنکھوں سے برس رہا تھا، ’’اپنی اوقات میں رہو۔‘‘ جیسے وہ کبھی کبھی غرور کی انتہا پر پہنچ کر دھوبیوں مالیوں سے کہتی ہیں، ’’منہ کو آنے لگتے ہیں یہ لوگ!‘‘
ماما سمجھ رہی تھیں وہ اپنی اوقات میں نہیں رہی اور منہ کو آ رہی تھی۔ ’’چار دن دودھ پلا کر پالتو بلی، کتا بھی دم ہلاتے ہیں۔ احسان فراموش کہیں کی۔‘‘
یہ سب کچھ انہوں نے اس سے کہا نہیں لیکن اسے پتا تھا اپنے سے نیچ لوگوں کے بارے میں ان کے نظریات کیاہیں۔ اپنے کمرے کی طرف اٹھتے اس کے قدموں کے تعاقب میں ان کی خشمگیں نظریں ساتھ ساتھ چلی تھیں۔
ان دنوں پڑھائی سے اس کا جی اچاٹ رہا حالاں کہ پڑھائی کے پردے میں کس قدر تو ہنگامہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر منظور اس کے بچوں کی طرح غائب ہو جانے اور واپس آ جانے والے واقعے کو اس کی غیر ذمےدارانہ روش قرار دے رہے تھے۔
اس کا گروپ خوش تھا۔ وہ واپس آ گئی تھی۔ سورج نکل آیا تھا، اندھیرا دور ہو گیا تھا۔ عمیر کا ٹین ایجرز والا اظہار محبت اسے بیزار کر رہا تھا۔ کسی بھی شخص کے تصور سے اس کا دل دھڑکتا تھا نہ آنکھیں جھکتی تھیں۔
کبھی وہ اس لگی بندھی زندگی سے اکتا کر خالہ کی طرف چلی جاتی۔ یہ اس کا واحد خون کا رشتہ تھا جس کی طرف وہ ہمک ہمک کر نہ سہی ،جاتی ضرور تھی۔ خالہ کی اپنی زندگی روزگار کی چکی میں پس رہی تھی۔ علاوہ ازیں سات بچوں میں گھِر کر انہیں اس کی محبت کوئی خاص تڑپاتی بھی نہیں تھی۔ کبھی پیٹ بھرے تو صدقے واری بھی جائیں۔ کلیم اس سے بڑا تھا اور اس کو وہ حادثہ یاد رکھنے کا شرف بھی حاصل تھا۔ اسی لیے وہ اسے اس کی اوقات یاد دلا کر طعنوں سے چھلنی کیے دیتا۔ لیکن اس کا مسئلہ یہ تھا، وہ کون تھی۔ کہاں کی تھی۔ اس کی جڑیں یہاں تھیں نہ وہاں۔ وہ دونوں جگہ اجنبی تھی۔ دونوں گھروں میں سے کسی دیوار، کسی اینٹ پر اس کا کوئی حق نہیں تھا۔
’’کیا پکا ہے ساگ؟‘‘ کلیم دھوئیں پر پکتی دیگچی کا ڈھکن اٹھا کر جھانکتا۔
وہ اس کی اماں کے پاس ہی بیٹھی ہوتی۔ چبوترے پر بنے اینٹوں کے چولہے پر لپٹوں اور شعلوں میں کھدر کھدر پکتے ساگ کو جھانکنے لگتی۔
’’کاکی آئی ہے۔ اسے تو ساگ بھات کھانے کی عادت نہیں۔‘‘
’’پھر کہاں سے لاؤں مرغی مچھلی۔ میرے باپ کے کارخانے چلتے ہیں۔‘‘
پیٹ خالی ہوں تو زبان اسی طرح زہر اگلتی ہے۔ اس کے بہن بھائی اسے دیکھ کے مذاق اڑا کر ہنستے تھے۔ کبھی اس کے بالوں پر، کبھی اس کے کپڑوں پر۔
وہ چپ چاپ وہی کھاتی جو وہ سب کھا رہے ہوتے تھے اور ان ہی کے درمیان گھٹنے سکیڑ کر بھیگی دری پر لیٹ رہتی۔ وہ دن بسر کرکے واپس آنے لگتی تو خالہ کے زپ لگے پھٹے پرانے بٹوے کو پیسوں سے بھر آتی۔ لیکن مشکل تھا ان پیسوں سے ان کی حسرتیں سنورتیں۔ وہ پھر اسی طرح تنگی ترشی، مفلسی کی شکایت ہی کرتی ملتیں۔
خالو کو اس سے رتی برابر دلچسپی نہ تھی۔ وہ اپنی دکان سے رات گئے تھکے ہارے پلٹتے۔ دکان ہی کیا تھی لکڑی کے کھوکھوں کا سائبان تھا۔ میونسپل کمیٹی کی دسترس سے بچتی تو گھر والوں کو روزگار بھی دیتی۔ وہ مارے مرعوبیت کے بات کرنا تو درکنار دیکھتے بھی نہیں تھے۔
مما کو اس کا خالہ کے ہاں جانا بالکل نہیں بھاتا تھا۔ خوامخواہ انہیں لوگوں سے کہنا پڑتا، ’’مینا کو سوشل ورک کا بہت شوق ہے۔‘‘ لیکن وہ اسے کچھ کہتی بھی نہیں تھیں۔ اگر وہ اسے یکسر منع کر دیتیں تو مینا وہاں جانا ترک بھی کر دیتی۔ لیکن اس طرح شاید اسے یاد بھی رہتا تھا کہ وہ دراصل کہاں سے لائی گئی تھی اور کہاں واپس بھی بھیجی جا سکتی تھی۔
پھر اسے جب رات رات بھر نیند نہ آتی تو وحشت سی ہوتی۔ آیت الکرسی پڑھ پڑھ کر پھونک دینے کے باوجود اس پر سودا سوار رہتا۔ کبھی اسے لگتا وہ پہاڑوں میں، درختوں کے گرد گھوم گھوم کر گانا گا رہے ہیں۔ تنوں پر چاقو سے اپنا نام کھرچ رہے ہیں یا شاید ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر پولورائیڈ سے تصویریں بنوا رہے ہوں۔
پھر اسے یونہی گمان ہوتا۔ وہ نظریں کچھ دیر کے لیے اس پر اٹھی ضرور تھیں لیکن ایسی ناپائیدار نظروں کا کیا اعتبار۔ کتنی دفعہ اسے لگتا اس کے ٹھنڈے یخ ہاتھ دو گرم ہاتھوں کی اوٹ میں آفتوں سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ لیکن دل میں رہنے والی اتھل پتھل نے اسے ڈسٹرب کر دیا۔ وہ خود بھی خود سے خوش نہیں تھی اور لوگ بھی اس سے تنگ آ رہے تھے۔
فرح کو تو اس کا پاگل پن بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا اس کی خوددار طبیعت یہ کیسے گوارا کر لیتی تھی اور تو اور معمولی معمولی باتوں پر اس کی انا مجروح ہو جاتی تھی۔ اتنے بڑے معاملے میں اسے کچھ نہیں ہوتا۔
پھر عمیر کو ہی سب سے پہلے شک گزرا۔ وہ جو ثمینہ نام کی ایک بہت اچھی لڑکی لوگوں سے ہنس کر ملتی تھی۔ خوش خلقی سے پیش آتی۔ لوگوں کے کام کرتی۔ اپنی ساری خوبیاں مری پھینک پھانک کر اپنے میں محصور خاموش سی لڑکی بن کر آ گئی تھی۔
عمیر ملک نے اسے درختوں کی چھاؤں میں بینچ پر کتاب میں گم پکڑ لیا اور یہ بھی غنیمت ہوا کہ سائے کی طرح ساتھ رہنے والی دوست بھی اس کے ساتھ نہیں تھی۔ پتا نہیں لڑکیوں کو یہ کیا بیماری ہوتی ہے، وہ ایک پکی سہیلی ضرور بناتی ہیں۔ سارا دن وہ اس کے ساتھ پھرتی ہیں۔ بس میں، لائبریری میں، کینٹین میں اور اب جب وہ اپنی سہیلی کے بغیر چپ چاپ اس کونے میں بیٹھی ہے تو کیسی آدھی آدھی سی لگ رہی تھی۔ اس نے بہت محبت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ وہ اس کے عین سامنے پھسکڑا مار کر بیٹھ رہا۔
اس کو پجارن کی طرح اس کے قدموں میں بیٹھ کر بڑا لطف آتا تھا۔ پھر وہ معنی خیز فقرے پرمغز اردو میں لپیٹ لپیٹ کر اچھالتا رہتا اور اس کے جھنجلانے پر بہت مزہ لیتا۔
’’مجھے پتا تھا۔ تم یہاں بھی آ پہنچوگے آخر۔‘‘
’’اور تمہارے خیال میں یہاں کس کو آنا چاہیے تھا آخر تمہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے۔‘‘ عمیر نے غور کیا۔ وہ دفعتاً محتاط ہو گئی تھی۔ جیسے کسی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو۔
’’تم اتر آئے ناں آخر اپنی مخصوص قسم کی بدذاتی پر۔‘‘
’’اچھا چلو نہیں اترتا۔‘‘ وہ کتنی دیر چپ بیٹھا اس کی شکل دیکھتا رہا۔ وہ جانتا تھا، وہ ایسے گھر میں رہتی ہے جہاں بار بار ہار جانا اس کا مقدر بن گیا ہے لیکن اب کی بار جو ہار اس کے چہرے پر لکھی تھی وہ ہمیشہ سے جدا تھی۔
’’اچھا ایک بات بتاؤ۔‘‘ اس نے رسان سے اس کی کرسی کے ہتھے پر ہاتھ ٹکایا، ’’کون تھا وہ؟‘‘
’’کون کون تھا؟‘‘ وہ سر سے پاؤں تک لرز گئی، ’’کیا بک رہے ہو آج؟‘‘
’’تمہیں پتا ہے اچھی طرح۔ میرا سوال بھی اور اس کا جواب بھی۔ وہ جو کوئی بھی تھا، تمہیں خوشی کی بجائے دکھ کیوں دے رہا ہے۔‘‘
کتنی دفعہ اس نے سوچا، وہ فرح سے کچھ کہے لیکن کہے کیا جس بات میں نہ وزن تھا، نہ استدلال، بےجان بے سروپا ڈھیلا پلاٹ، کمزور کردار، نہ کہانی کا کوئی شروع ہے نہ انجام۔ یونہی جیسے کسی نے پینسل سے دائرے شوشے بنائے تھے اور شہکار سمجھ لیا۔ حیرت زدہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے وہ اس کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کا زرہ بکتر اتر گیا تھا۔ تیز دھوپ کی ترچھی شعاعیں اس پر کھبی جا رہی تھیں۔ وہ سامنے بیٹھا تھا اور سوال کا جواب وہاں سے مانگ رہا تھا جہاں لکھا بھی نہیں تھا۔ کہاں ملا تھا؟ کون تھا؟ اب کدھر ہے؟ نام کیا ہے؟
لیکن عمیر تو کچھ اور پوچھنے کے درپے تھا۔ اس کے جغرافیے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس سے کیا فرق پڑتا ہے وہ کون تھا۔ وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے، اس سے واقعے کی شدت کم یا زیادہ نہیں ہوتی۔ اسے دلچسپی تھی تو صرف اس بات سے کہ وہ خوش کیوں نہیں تھی۔
’’ویسے تو محبت کسی کو بھی خوشی نہیں دیتی۔ یہ تو ایک مستقل آزار ہے۔ لیکن ہماری کوشش یہ تو ہوتی ہے ناں کہ جن سے ہم محبت کرتے ہیں، وہ تو خوش نظر آئیں۔‘‘
وہ اس قدر سنجیدہ تھا کہ وہ اس کو بولنے سے باز بھی نہیں رکھ سکی اور وہ اس قدر دکھ محسوس کر رہی تھی کہ رات تک اس کی سمجھ میں نہیں آیا، کیا محبت سب کو دکھ دیتی ہے، ان لوگوں کو بھی جو اسے پا لیتے ہیں۔
پھر ایک دن اچانک سائمہ واپس آ گئی۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ ایک دن چپ چپاتے چلی گئی تھی۔
یہ چند دن جو اس نے اس کی چوکیداری کے بغیر گزارے بہت خوشگوار تھے۔ اب وہ آئی تھی اور اسے ازخود اس کی ذمےداری بن کے رہنا تھا۔
وہ یونیورسٹی سے واپس آئی تو وہ لاؤنج میں بیٹھی ناخنوں کی پالش سکھا رہی تھی۔ اس کا خیال تھا وہ اس کو دیکھ کر چیخنے چلانے لگےگی۔ شور مچا دےگی۔ اس کی ساری خوشیاں آوازوں سے ہی متعلق تو رہتی تھیں۔ لیکن وہ چلتی چلتی قالین کے وسط تک بھی پہنچ گئی او روہ اپنے رنگ دار ناخنوں پر پھونکتی رہی۔ کسی قسم کی خوشگواری کا اظہار کیے بغیر اس نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا تھا۔
مینا کو لگا اس کی نظریں سرد تھیں۔ اس کا یوں اکیلا چھوڑ کر چلنے آنا اسے اچھا نہیں لگا شاید۔ حالاں کہ وہ اسے اکیلا چھوڑ کر تو نہیں آئی تھی۔ بہت رسمی سلام علیک کے بعد اس نے بتایا تھا، وہ میوزک کے کسی پروگرام کی کمپیئرنگ کے لیے بلائی گئی ہے، پائلٹ تیار تھا۔ کیا ہونا تھا اور کیا رہ گیا تھا۔
مینا کو پہلی مرتبہ لگا، وہ اپنے کارناموں پر اس قدر مغرور تھی حالاں کہ لہجے کی اس حقارت سے اس نے کبھی اسے تو مخاطب نہیں کیا تھا۔ وہ تو ہمیشہ سے آسمانوں پر تھی اور اب تو اور اونچا اڑ رہی تھی۔ اسی لیے شاید اسے برسوں پرانا ساتھی نیچے اور نیچے نظر آ رہا تھا۔ اپنے وجود سے ہتک کا شدید احساس اسے لرزا گیا۔ آپ خود کچھ نہیں ہوتے۔ بس آپ ایک ضرورت ہوتے ہیں جب آپ کی ضرورت نہیں رہتی، آپ کو ڈسٹ بن میں پھینک دیا جاتا ہے۔
اس کا جی چاہا پوچھے ڈاکٹر فاروق بھی کولڈ سٹوریج میں چلے گئے یا ابھی تازہ خبر ہیں۔ لیکن اسے ان کا ذکر کرید کر نکالنا اچھا نہیں لگا۔ وہ جب اس سے بولنا ہی نہیں چاہتی تھی تو موضوعات ڈھونڈ ڈھونڈ کر بہانے تلاش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
ان دنوں ممی این جی اوز کی میٹنگ میں مصروف رہتی تھیں یا فنڈ جمع کرنے کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی نیا ریکٹ تیار ہوتا۔ پپا مصروف تھے ہمیشہ کی طرح اور جانے کن بنیادوں پر سیم نے اس سے ترک تعلق کر ڈالا تھا اور تب مینا کو اندازہ ہوا کہ سیم کو مصیبت سمجھتے سمجھتے کس بری طرح اس کو اس کی عادت بھی پڑ گئی تھی۔ وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی لیکن اسے بار بار خیال تنگ کرنے لگتا۔
سیم نے اپنے آس پاس کے لوگوں سے ہٹ کر کسی انوکھی بات کا مظاہرہ تو نہیں کیا تھا لیکن اس کے دل سے آخر یہ دُکھ کیوں نہیں جاتا۔ ان دنوں اس کی طبیعت بھی بہت کم خراب ہوتی تھی یا ہوتی تھی تو وہ اسے بلانا ناپسند کرنے لگی تھی۔
پھر ایک خاموشی سے گزرتی رات میں وہ اس کے کمرے میں آ بیٹھی۔ مینا حسب عادت پلنگ پر بیٹھ کر پڑھ رہی تھی۔ اس نے لمحہ بھر کے لیے اس کا چہرا دیکھا۔ وہ پتا نہیں کس ارادے سے آئی تھی۔ کتاب بند کرکے تکیے کے سہارے ٹیک لگائے وہ منتظر ہی رہی۔
اس کے چہرے پر ماسک لگا ہوا تھا جس نے اس کے بے تاثر سے چہرے کو مزید غیرمتعلق کر ڈالا تھا۔
’’کیا تمہیں ڈاکٹر فاروق سے محبت ہو گئی تھی مینا؟‘‘
مینا کمزور اعصاب کی لڑکی ہوتی تو ضرور اچھل کر چھت سے ٹکرا جاتی۔ کتنے دن کی خاموشی کے بعد اس نے کچھ بولا بھی تھا تو کیا؟
اور بول کر خود کو ہاتھ میں پکڑے شیشے میں گم کر لیا تھا۔ کیا مطلب تھا اس بات سے بھلا؟ حالاں کہ وہ جانتی تھی، اس کی عادت ہے جب اور جہاں جی چاہے منہ کھول دینا۔ اس کے بعد معذرتیں۔ تلافیاں، پچھتاؤں کے اظہار کرنا۔ اب شاید صورت حال تبدیل ہو گئی تھی۔
’’ہیں بتاؤ؟‘‘ اس نے اپنے چہرے کے سامنے سے شیشہ ہٹا لیا۔ ’’دراصل میں تمہارے بھلے کے لیے کہہ رہی ہوں تاکہ تمہیں کوئی نیا دکھ نہ پہنچے۔‘‘
اس نے بھیگی ہوئی روئی سے چہرے کی اکڑاہٹ آہستہ آہستہ پونچھتے بڑی نرمی سے کہا تھا۔ وہ اس کے پرانے دُکھوں سے بھی کب آگاہ تھی۔ پتا نہیں کیوں اسے لگا، وہ اسے دکھ پہنچانے سے زیادہ دکھ دینے کے بارے میں معلومات حاصل کر رہی ہے۔جب لوگ کسی سے کہتے ہیں،میں تمہیں دکھ نہیں دینا چاہتی تو دراصل وہ دکھ ہی دینا چاہتے ہیں۔ صرف خود کو یقین دلاتے ہیں۔
’’میرے کسی دکھ سکھ کا اس بات سے کیا تعلق سیم؟‘‘
وہ اعلیٰ درجے کی شہری نہیں تھی۔ منہ بند کرکے خاموش بیٹھ رہنے کی مراعات سے محروم۔ یہ گھر سائمہ رحیم کا تھا اور بہرکیف اس کے ہر سوال کا اسے جواب دینا ہی تھا۔ اس نے کتاب ایک طرف رکھ دی۔ گویا اب اس کی ہر بےہودہ گوئی کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار تھی۔
’’یونہی میں نے سوچا۔‘‘ اس نے ناک چڑھا کر کہا، ’’وہاں مجھے مری میں ایسے محسوس ہوا تھا، میں نے سوچا تمہاری غلط فہمی دور کر دوں، کیا فائدہ۔ دراصل انہیں تم سے نہیں کسی اور سے عشق ہے۔‘‘
’’پتا نہیں سیم! تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ڈاکٹر فاروق اس قدر اہم ہیں کہ اس وقت رات کے دس بجے دنیا کی ہر بات چھوڑکر اس پر بحث کریں کہ وہ کس سے عشق کرتے ہیں۔ دنیا مسائل کے انبار میں دبی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر فاروق جیسا غیرضروری اور غیر اہم موضوع۔‘‘ پھر وہ دفعتاً خاموش ہو گئی۔
’’اچھا تم بتاؤ سیم! تم کیا سننا چاہتی ہو۔ میں وہی کہہ دوں گی۔‘‘
سیم نے لمحہ بھر کے لیے اس کی طرف دیکھا۔ شدتِ برداشت سے اس کا رنگ سرخ ہو رہا تھا۔ لفظوں کو احتیاط سے استعمال کرنے کی مشکل میں اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی اور آنکھیں جیسے برس پڑنے پر بالکل آمادہ ہی تھیں۔
’’مجھے اپنے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے سیم! اور میں اپنی حیثیت بھی اچھی طرح سمجھتی ہوں۔ میں اپنے ماضی سے شرمندہ ہوں نہ میں نے کبھی اس سلسلے میں غلط بیانی سے کام لیا۔ تم بے فکر ہو کر آرام کرو۔ میں کبھی بھی تمہارے برابر آنے کی حماقت نہیں کروں گی۔‘‘
سیم کے چہرے سے ماسک کی سفیدی اتر گئی لیکن وہ ابھی تک شیشے میں جھانک رہی تھی۔Mirror Mirror On The Wall۔ مصلحت کوش، دوراندیش، خوشامد پرست شے، وقت کی طنابیں پھر سے اس کے ہاتھ آ گئی تھیں۔
ان دنوں وہ خود کو کس قدر غیر اہم مسائل میں الجھائے رکھتی۔ سارا دن یونیورسٹی میں گزار کے وہ فرح کے ساتھ ہی اس کی طرف چلی جاتی۔ یا یونہی منہ اٹھا کر وہ خالہ اور خالہ کے بیٹے کے طعنے سن کر گھر آ جاتی۔ ممی کو شاید ہی کبھی پتا چلا ہو کہ وہ کب گھر آتی ہے اور آتی بھی ہے کہ نہیں۔ اگر انہیں اس سے اس قدر ضروری کام نہ آ پڑا ہوتا اور جب بھی انہیں اس سے کام آ پڑتا وہ اس کی ڈھنڈیا مچا دیتی تھیں۔ ان میں صبر نہیں تھا۔ ابھی اسی وقت۔ شاہانہ حکم کے تحت بہ مشکل مینا کو تلاش کرکے ان تک پہنچا دیا گیا۔
وہ گرم پانی کے گدے پر لیٹی تھیں جو این جی اوز کی تازہ ترین میٹنگ کے بعد وہ عوامی جمہوریہ چین سے ہمراہ لائی تھیں۔ بیچنے والے نے اس دعوے سے بیچا تھا کہ اس پر لیٹ کر عمر لمبی ہو جاتی ہے۔ زندگی اچھی ہو اور اس قدر آسودہ تو لمبی عمر بھلا کسے نہیں چاہیے۔ وہ ان کے برابر میں قالین پر چھوٹا سا کشن رکھ کر بیٹھ گئی۔
’’جی ممی؟‘‘
’’مجھے تم سے کچھ کام تھا مینا! ارے ہاں کیا تمہاری سیم سے کوئی لڑائی رہتی ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے مختصراً جواب دیا تھا۔ ممی کو سچ یا جھوٹ والے فلسفے سے کوئی خاص علاقہ بھی نہیں تھا۔
’’بات دراصل یہ ہے۔‘‘ ممی لیٹے سے بیٹھ گئیں، ’’ڈاکٹر فاروق کی والدہ ہمارے گھر آ رہی ہیں۔‘‘ وہ کتنی دیر خاموشی سے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھتی رہیں۔ معلوم نہیں وہ کیا دیکھنا چاہتی تھیں۔
’’میں نے سوچا تم سے کہہ دوں۔ سیم تمہاری بات مانتی بھی بہت ہے۔ ہر مرتبہ اس کو سمجھاتی ہوں۔ ہر دفعہ کوئی نئی بات کھڑی کر دیتی ہے۔ مجھے تو ایاز بھی بہت پسند تھا اور تمہارے پپا کو بھی پسند تھا۔ وہی گانے والا لڑکا۔ آخر اسے ایک دن تو گھرداری شروع کرنی ہے۔ اب کے ڈاکٹر فاروق نے اصرار کرکے بھیجا ہے اور اس طرح شوق سے بیاہ کر لے جانے والے آج کل کہاں ملتے ہیں۔‘‘
مینا کو لگا وہ اس بے ربط سی تقریر کے دوران اونچائی سے آہستہ آہستہ نیچے گری ہے۔ جیسے خواب میں گرتے رہنے کا مسلسل عمل دھڑسے گر پڑنے پر ختم ہو جاتاہے۔ خوف سے اس کا دل اب تک دھڑک رہا تھا۔
’’کیا کہا ہے سیم نے اب؟‘‘ اس نے بہادری سے پوچھا تھا۔
’’میں نے پوچھا ہی نہیں اب تک۔ تم پوچھو ناں۔‘‘
وہ اپنے فرائض منصبی کی تکمیل کے لیے اس کے کمرے میں گئی تو وہ حسب عادت شیشے کے سامنے تھی۔ وہ شیشے میں کس قدر خوب صورت لگ رہی تھی۔ اس کے پیچھے کھڑی مینا، سادہ سی، بےاثر، بےرنگ۔
وہ ایک دوسرے کے مقابل کیسے آ سکتی ہیں۔ ان کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔
’’آؤ مینا!‘‘ اس نے سابقہ چند دنوں والی سردمہری برقرار رکھتے ہوئے کہا۔
’’ممی کا پیغام ہے تمہارے لیے۔‘‘
اس نے گردن کو جھٹکا دیا۔ ’’کھانا ٹھیک سے کھاؤ، اپنی صحت کا خیال رکھو۔ اپنی مصروفیات کم کرو اور میری رائے پوچھو تو۔۔۔‘‘
’’انہوں نے تمہاری رائے ہی پوچھی ہے۔ ڈاکٹر فاروق نے تمہیں پروپوز کیا ہے۔‘‘
وہ سٹول سے ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’کون سے ڈاکٹر فاروق نے؟‘‘ پتا نہیں کیوں اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
’’کتنے ڈاکٹر فاروقوں کو جانتی ہو تم؟‘‘
’’مجھے۔‘‘ اس کی آواز میں خوشی کی کپکپاہٹ اس پر بالکل موزوں معلوم نہیں دے رہی تھی۔
’’ظاہر ہے تمہیں۔ اور تمہیں اس سے یہ بھی پتا چل گیا ہوگا، اس دن تم غلط کہہ رہی تھیں۔ وہ کسی اور سے محبت نہیں کرتے۔ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
’’غلط فہمی، مجھے، ناممکن۔‘‘ اس نے استعجاب سے کہا تھا۔
’’بہرکیف۔ انہوں نے تمہیں ہی پروپوز کیا ہے۔ پروپوز کرنا بہت سنجیدہ بات ہوتی ہے۔ ان کو کوئی مجبوری نہیں۔ وہ تمہارے بجائے اسی کو کرتے جس کو تم نے۔۔۔ بہرکیف میں ممی کو کیا جواب دوں؟‘‘
وہ کتنی دیر ایک تواتر سے بالوں میں برش پھیرتی رہی۔ سیاہ چمکیلے خوب صورت بال اور اس کے سفید ہاتھوں کی لرزش سے کانپتا برش۔ وہ کتنی دیر جواب کی منتظر اس کے سامنے جمی رہی۔
’’تم پھر ایک مرتبہ یقین کر لینا اور اگر ایسا ہی ہے تو ممی سے کہنا۔ اگر ان کو کوئی اعتراض نہیں تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں۔‘‘
گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ شادیانے بج گئے۔ ڈاکٹر فاروق کی والدہ غالباً تنگ نظر نہیں تھیں نہ ہی قدیم خیالات کی مالک۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی پسند پر ذرا اعتراض نہیں کیا تھا۔ کبھی وہ انگوٹھی، چوڑی کا ناپ لینے آتیں، کبھی جوڑے کی تیاری میں اس کی مرضی معلوم کرتیں۔ منگنی کی رسم ان کے گھر میں ہوتی تو نہیں تھی لیکن ممی نے اصرار کیا تھا، وہ دراصل اعلان کرنا چاہتی تھیں تاکہ سب کے علم میں آ جائے۔ ان کی والدہ نے کسی قسم کے مباحثے کے بغیر بات مان لی۔ شورشرابا دھوم دھڑکا ان کے بیٹے کو پسند نہیں۔ بہن بھائی آئیں گے اور انگوٹھی پہنا کر چلے جائیں گے۔
ان دنوں ڈاکٹر صاحب مری میں تھے اور وہ سابقہ قیام میں اپنی ہونے والی منگیتر کے جلووں سے اس قدر سیر ہو چکے تھے کہ انہوں نے نہ عام منگیتروں کی طرح بہانوں سے چکر لگائے نہ فون کرکے ٹین ایجرز والا عشق جتایا۔ حالاں کہ سیم کو ان کے رویے کی یہ سردمہری پسند نہیں آئی۔ وہ ان کے اَن رومینٹک ہونے پر بہت بڑبڑائی تھی۔ مگر غنیمت ہوا تو مینا کے لیے۔ اس دوران اس نے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتے دل کو زور سے جھڑک دیا۔ ضد کرنے پر ڈپٹا اوریوں اس وافر وقت میں وہ بہت مشکل گھڑی سے خود کو ڈانٹ ڈپٹ کر نکل ہی آئی۔
اب اپنے یخ ہاتھوں پر ان کے گرم ہاتھوں کا اپنائیت بھرا دباؤ اس کی نیندیں اڑانے کا سبب نہیں بنتا تھا۔ خوش فہمی میں مبتلا کرتی ان کی والہانہ نظریں، اب اسے کسی خواب میں گم نہیں کرتی تھیں۔ ہاں ایک ہلکی سی دکھ کی لہر ضرور تھی۔ اگر یہ سب نہیں تھا تو وہ سب کیا تھا؟
کیوں انہوں نے ایک سیدھی سادی لڑکی کو ہموار راہ پر چلتے ان پرپیچ، پرفریب راستوں میں گھسیٹا تھا۔ لیکن شاید یہی ہوتا ہے۔ ہر اچھی لڑکی کے ساتھ اور اس میں اگر کسی کا قصور ہوتا ہے تو دھوکا کھانے والے شخص کا شکوہ بے کار ہے اور دکھ کرنا اپنا ہی ماتم کرناہے۔ منگنی والے دن تک اس کے اعصاب بالکل مضبوط ہو گئے تھے۔
وہ ندیدی لڑکی نہیں تھی۔ اس نے کبھی اس چیز کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا جو اس کے لیے اس گھر میں نہیں آتی تھی۔ وہ لکڑیوں کے دھوئیں میں پکا ساگ کھا سکتی ہے، پانی سے بھیگی دری پر سو سکتی ہے۔ اپنی عزتِ نفس کو کوڑا مار کر سدھا سکتی ہے لیکن اپنی انا کی ہتک برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ چند روزہ عارضی عیش و آرام تو اسے سیم کے طفیل نصیب ہوا تھا۔ اب سیم کو اس کے سہارے کی ضرورت نہیں۔
مہمان کمرے میں جمع ہونا شروع ہوئے۔ سیم اپنا میک اَپ خود کر رہی تھی۔ ہلکے گلابی رنگ کا انگرکھا اس کی دمکتی گلابی رنگت سے کس قدر میل کھا رہا تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ وہ نروس بھی ہو رہی تھی۔ اپنے سابقہ گلے شکوے بھلا کر وہ پھر مینا پر جھول گئی تھی اور اس طرح شرمائی لجائی کتنی پیاری لگ رہی تھی۔
’’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ مجھے خوف آ رہا ہے۔ پتا نہیں کیا ہوگا مینا۔‘‘
’’ہائیں کیا ہوگا۔ منگنی ہو گی پھر بیاہ ہوگا۔ کوئی خون خرابہ تونہیں ہو رہا ناں۔‘‘
’’مجھ سے گھونگھٹ نہیں نکالا جائےگا۔ میں گر پڑوں گی۔‘‘
’’مت نکالو۔ انہیں پتا ہے، شاید وہ توقع بھی نہیں کر رہے ہوں گے۔‘‘
’’اور تم میرے ساتھ رہنا۔ ایک لمحے کے لیے بھی میرا ہاتھ نہیں چھوڑنا۔‘‘
وہ نیم دلہن بنی اس کے سہارے ڈرائنگ روم تک جاتی اسے ڈانٹتی بھی جا رہی تھی۔
’’اب بولنا بند کرو۔ وہ دیکھو، سامنے ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب دفعتاً ایک جھٹکے سے کھڑے ہو گئے۔ شاید وہ اپنی دلہن کے احترام میں کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن ان کے چہرے پر بکھری حیرت کم از کم مینا سے تو چھپی نہیں رہی۔ اس نے یونہی لمحہ بھر کے لیے نظریں ان سے ملائی تھیں۔ چوں کہ ڈاکٹر صاحب خود سلام دعا کے موڈ میں نہیں تھے، اس لیے بلاوجہ مسکرانے اور آداب بجا لانے کے بے ہودہ جھنجھٹ سے آزاد ہوکر اس نے سیم کو ساس کے حوالے کر دیا۔
’’یہاں بٹھائیں بھابی کو۔ فاروق بھائی کے ساتھ۔ یہاں بٹھاؤ بھئی ہماری بیٹی کو۔ چلو بھئی رسم کرو۔ شگون کرو۔ انگوٹھی نکالو۔‘‘
مار ایک ہنگامہ برپا تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اسی ہکا بکا سی کیفیت میں دونوں ہاتھ نیچے گرائے ایک ٹک اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پوری آنکھیں کھولے۔ جیسے اس سے زیادہ حیران کن بات انہوں نے کبھی دیکھی ہی نہ ہو۔
’’انگوٹھی؟‘‘ اچانک انہوں نے اپنی جیبیں تھپتھپائیں، ’’معاف کیجئے۔ انگوٹھی تو میں گھر ہی بھول آیا۔‘‘
ایک زبردستی سے اگلا ہوا قہقہہ پڑا، ان کی بذلہ سنجی پر۔ لیکن صرف ان کی والدہ نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تھا۔ کون سی انگوٹھی؟ اس نے انگوٹھی خریدنی تو درکنار دیکھی تک نہیں تھی۔ وہ تو ان کے پرس میں اس وقت بھی بڑی حفاظت سے رکھی تھی۔ وہ پرس کی زپ کھولتے کھولتے رک گئیں۔ ان کا بیٹا اس قدر غیر ذمے دار اور ناسمجھ نہیں۔ اگر اس نے یہ جھوٹ بولا ہے تو اس اعتماد کے ساتھ کہ اس کی ماں اس کا پول نہیں کھولےگی۔ وہ صرف الجھن میں مبتلا ہو گئی تھیں۔
’’گھر کی ہی بات ہے ،کیا ہوا؟‘‘ ممی نے بات کو بدمزگی سے بچا لیا۔ ابھی تو رشتہ استوار بھی نہیں ہوا تھا لیکن انہیں لڑکے کا یہ لاابالی پن اچھا نہیں لگا۔ ان کی یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا، وہ جتنی دیر ان کے گھر بیٹھا رہا، بار بار پہلو بدلتے اس قدر اکھڑا اکھڑا اور اکتایا ہوا کیوں رہا۔ اسے گھر جانے کی بھی ایسی جلدی تھی جیسے رسے تڑا کر بھاگ رہا ہو۔
پھر انگوٹھی تو نہیں آئی معذرت آ گئی۔ انہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی تھی۔ اگر موقع دیا جائے تو معذرت بھی کر لیں گے اور اس کا ازالہ بھی کر دیں گے لیکن انہیں موقع ہی نہیں دیا گیا۔ یہ کس وقت کا بدلہ لیا تھا ڈاکٹر فاروق نے سیم سے۔ سیم تو عادی تھی ٹھکراتے رہنے کی لوگوں کو۔
یہ پہلا موقع تھا کہ وہ رَد کی گئی تھی۔ ممی، پاپا جھنجلا گئے تھے۔ جھنجلائی تو ممی تھیں۔ پاپا تو ممی کا چہرہ دیکھتے رہتے تھے اور جیسا وہ چاہتی تھیں ویسے ہی اپنے چہرے سے ظاہر کرتے رہتے۔ ممی، سیم پر بھی بہت برسی تھیں۔ ان کا خیال تھا یہ سب شوبزنس کا نتیجہ ہے اور وہ ڈاکٹر فاروق جیسے گھٹیا کم ظرف لوگوں کو بھی کوستی رہیں جو اس زمانے میں رہ کر پچھلے زمانے کے خیالات رکھتے تھے لیکن صرف مینا کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔ انہوں نے یہ رشتہ شروع کیوں کیا اور اس مسئلے پر ختم کیوں ہو گیا۔یہ بات ان سے پوشیدہ تو نہیں تھی۔ وہ ان کے ساتھ کئی مرتبہ ریکارڈنگ کے لیے گئی تھی اور انہوں نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا تھا۔
ممی نے مینا سے بھی کرید کرید کر سوال کیے لیکن چوں کہ اس ہنگامے میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا، اس لیے اس نے ان کے ساتھ عدم تعاون کا رویہ جاری رکھا۔ یہ بھی غنیمت ہوا کہ ایسی چٹ پٹی خبر جرنلزم کی دسترس سے دور رہی اور کولاژ پر پٹاخے نہیں چھوٹے۔ ورنہ ہوتا یوں ہے کہ افیئرز کی افواہیں آپ کے دام بڑھا دیتی ہیں اور منگنی ٹوٹ جانے جیسا مڈل کلاس حادثہ، ہیروئن کو شہرت سے اٹھا کر پٹخ دیتا ہے۔ سیم ان دنوں اپنے سابقہ دوستوں سے بیزار ہو گئی تھی۔ لیکن ایاز کی بات اور تھی۔ وہ ایک مرتبہ پہلے بھی قبولیت کا درجہ پا چکا تھا۔ منگنی والے دن کیا حادثہ ہوا تھا، اس کے علم میں بھی نہیں آیا۔
اب کے جو منگنی ہوئی۔ منگیتر صاحب انگوٹھی بھول کر نہیں آئے۔ یہ بڑا سا سبز رنگ کانگ جگر جگر کرتا اس کی سفید انگلی پر رکھا گیا۔ صاحب انگلی کو بہ ظاہر کوئی فرق بھی نہیں پڑا۔ وہ بڑی سہولت سے ایک امیر آدمی سے دوسرے امیر آدمی کی طرف منتقل ہو گئی۔ اب کی مرتبہ اس کی سنی بھی نہیں گئی۔ ممی نے کان سے پکڑ کر اسے رخصت کر دیا۔اس طرح ایاز اس غلط فہمی پر نازاں بھی رہا کہ وہ اتنی مشہور لڑکی کی زندگی میں آنے والا واحد مرد تھا۔
سیم کے رخصت ہو جانے کے بعد وہ خالی خالی سی رہ گئی۔ اب اس پر کسی کی ذمے داری عائد نہیں تھی۔ پڑھائی کے لیے وافر وقت تھا اور ممی پاپا کو اس سے بات کرنے کی فرصت بھی مل گئی تھی لیکن اس حادثے نے اس کا جی جیسے ساری دنیا سے اچاٹ کرکے رکھ دیا۔
زندگی نے تازہ تازہ جو کچھ دکھایا تھا، اس سے لوگوں پر سے اس کا اعتبار اٹھ گیا۔ لوگ محبت کرتے ہیں اور مکر جاتے ہیں۔ پھر لوگ لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور سب کے سب خوش بھی رہتے۔
کس قدر خاموشی ہو گئی تھی گھر میں۔ ممی ہر وقت تنہائی کی شکایت کرتی تھیں حالاں کہ ان کی مصروفیات میں کمی آئی تھی نہ تبدیلی۔ تنہا تنہا تو وہ ہو گئی تھی۔ سیم کی شادی کے باوجود وہ نفرت اور غصے کی فضاجو اس منگنی کے رک جانے سے پیدا ہوئی تھی، ابھی تک باقی تھی۔ لوگ ابھی تک اس کے اسباب تلاش کر رہے تھے۔
باوجود اس کے کہ سیم اپنے گھر میں خوش باش تھی۔ وہ اس کی طرف خشمگیں نظروں سے دیکھنا بند نہیں کرتی تھی۔ حالاں کہ منگنی ہو جانا یا منگنی کا ٹوٹ جانا، پھر کسی اور سے بیاہ رچا لینا، یہ سارے قصے تو خالہ بسنتی کے گھر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جن لوگوں کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں، وہاں یہ کوئی ایسی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی نہ ہی اس سے مارکیٹ ویلیو پر کوئی اثر پڑتا ہے۔
وہ زندگی میں کبھی اتنی تنہا نہیں ہوئی تھی جتنی اب رہ گئی تھی۔ سیم کو انگلی پکڑکر چلانے کی بھی اسے کس قدر عادت ہو گئی تھی۔ وہ فرح کے پاس جاتی یا خالہ بسنتی کے گھر، اس کا دل کہیں بھی تو نہ لگتا۔
حتیٰ کہ یونیورسٹی نے بھی اسے اکتا ڈالا تھا۔ پتا نہیں اسے کیوں قصور وار سمجھا جا رہا تھا اور کتنا۔ اس دن بھی جب وہ عمیر ملک اور فرح سے چھپ کر کینٹین کے کونے میں بیٹھی اس ناسمجھ میں آنے والی گتھی کے سرے سلجھا رہی تھی تو اسے لگا خشک پتوں پر چرچراتے قدم اس کے نزدیک آکر رکے ہیں۔
’’یوں دنیا سے منہ موڑ کر بیٹھ جانے کی نہ آپ کی عمر آئی ہے نہ وقت۔‘‘
اس نے مخاطب کی طرف نگاہ اٹھائی اور ساکت رہ گئی۔ کبھی خیال اس طرح بھی عملی شکل میں آ جاتا ہے۔ وہ پچھلے کئی گھنٹے سے اس موضوع سے بچتی بچتی، اس کے سوا اور کچھ سوچ بھی نہیں رہی تھی۔
اور اب وہ کرے بھی تو کیا۔ پذیرائی کے لیے اٹھے اور ان کی غلطی کا ان کو احساس بھی نہ ہونے دے یا وجہ معلوم کیے بغیر اس طرح اپنے گھر کا نمائندہ بنی خفا خفا بیٹھی رہے۔
’’اوہ!‘‘ اس کے منہ سے نکلا بھی تو کیا۔ بھربھری ریت کی طرح بکھرتے وہ اپنی جگہ پر اسی طرح بیٹھی رہی۔
’’شاید آپ مجھے برابر بیٹھنے کی دعوت نہ دیں، اس لیے اپنے لیے کرسی میں خود اٹھا لایا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر فاروق نے قریب پڑی خالی کرسیوں میں سے ایک اٹھائی اور اطمینان سے اس کے نزدیک آکر بیٹھ گئے۔
’’اور شاید آپ مجھے وضاحت کرنے کا موقع بھی نہ دیں۔ اس لیے میں اپنی پوزیشن صاف کرنے خود آ گیا ہوں۔‘‘
انہوں نے ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا۔ جیسے سارے سوال از خود ان تک پہنچ رہے ہوں۔
’’ہاں واقعی دیر تو لگا دی میں نے۔ لیکن میں نے سوچا، آپ کو غصہ کرنے اور جھنجلانے کے لیے جو وقت درکار ہے، وہ آپ لے لیں۔ یقین کیجئے کوئی غلط فہمی نہیں تھی۔ پتا نہیں آپ کی بہن کو کیسے غلط فہمی ہوئی۔ میں نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا ان سے آپ کے بارے میں۔ہاں اگر کوئی غلطی ہوئی تو میرے گھر والوں سے ضرور ہوئی۔ آپ کی والدہ نے کہا تھا میری ایک ہی بیٹی ہے اکلوتی۔ میری امی نے پروپوز کرتے ہوئے ان سے کہہ دیا آپ کی بیٹی۔ بس سارا جھگڑا یہاں سے شروع ہوا۔‘‘
اس نے حیرت سے آنکھیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ پتا نہیں کون کیا کہہ رہا تھا۔ سامنے کے مناظر کس قدر تو دھندلا گئے تھے۔
’’اور ہاں ایک اور بات۔‘‘ وہ بیٹھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
’’بہادری، دلیری ہماری لغت میں بہت اچھے لفظ ہیں۔ مشکلات کا مقابلہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کرنا۔ پر معاف کرنا۔ ہے تو یہ کمینی سی بات۔ لیکن میں آپ کی آنکھوں میں اپنے لیے آنسو دیکھ کر ہی خوش ہوتا ہوں۔ آئندہ کے لیے البتہ وعدہ کرتا ہوں خوشی کے بارے میں نظریات بدل ڈالوں گا اور آپ سے جواب بھی مجھے نہیں چاہیے۔آپ کے جواب عموماً میرے آس پاس پھوہار کی طرح برس رہے ہوتے ہیں۔‘‘
وہ خوداعتمادی سے پلٹ کر چلے گئے تھے۔ اس کا ایک لفظ بھی سنے بغیر۔ واقعی دھند تو چھٹ گئی تھی۔ سورج روشن تھا اور کہیں کوئی اندھیرا نہیں تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.