سرخ بالوں والی لڑکی
وہ ایسی ہی تھی۔ نیلی آنکھوں اور سرخ بالوں والی موہنی سی گڑیا۔ جو جانے کیسے رحیم داد جیسے آٹھ جماعت پاس فیکٹری کے عام سے سٹور کیپر اور ایک بہت عام سی ہی رضیہ کے آنگن میں اتر آئی۔ وہ دونوں قدرت کا کرشمہ دیکھتے تھے اور حیرانی سے اسے تکتے رہتے تھے۔
قدرت کے کام ایک مخصوص اور مربوط نظام کے تحت انجام پاتے ہیں، یہ دن و رات یہ، چاند اور سورج کی گردش، یہ موسموں کی تبدیلی۔ لیکن کبھی کبھی اس ترتیب میں اچانک ہی ایک عجیب سا انوکھا پن آ جاتا ہےاور انہونی سی ہو جاتی ہے، ویسے تو سیانے کہتے ہیں کہ کوئی کام بھی قدرت کی پہنچ سے باہر نہیں ہوتا اور کسی قسم کی بےترتیبی بھی قدرت کی جانب سے ایک اشارہ ہی سمجھی جاتی ہے۔ وہ بھی قدرت کا انوکھا شاہکار تھی۔
اور یہ انہونی یہ نرالاپن اس کی پیدائش تھی۔
بچے تو روز ہی جنم لیتے رہتے ہیں پر اس کا پیدا ہونا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔
سیدھا سادا سا رحیم داد اور واجبی سی شکل و صورت والی کمزور سی رضیہ جوکسی بلی کے بچے کو بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں تھی۔ ان کی ایسی بے تحاشہ خوبصورت اولاد کا ہونا معجزہ ہی تو تھا۔
اس کے باپ کے خاندان میں عموما ”اور ماں کی طرف خصوصا”عورتیں اس کام کے لئے نا موزو ں تھیں۔ یعنی ان کے خاندان کی عورتوں کی کوکھ مشکل سے ہی ہری ہوتی تھی۔
سارے خاندان اور پورے محلے میں اس جیسی ایک بھی لڑکی نہیں تھی۔
ماں کی گود میں دیتے ہوے دائی کے ہاتھ کانپ رہے تھے، نو مولود کو رضیہ کی گود میں دے کر بولی”لے رضیہ، الله نے تیری کوکھ سے چاند اتار دیا'' الله نصیب بھی روشن کرے۔
وہ نیلی آنکھوں، سرخ بال اور سفید روئی کے گالوں والی گڑیا۔۔۔ رضیہ کی گود میں تو جیسے روشنی ہو گئی تھی۔ وہ قدرت کے اس انعام کو پا کر نہال تھی اور رحیم داد کا سیروں خون بڑھ گیا تھا، اس کی تو کئی پشتوں میں بھی ایسی کسی حور پری نے جنم نہیں لیا تھا۔ رضیہ کے پہلو میں جیسے کسی نے چمکتا چاند ڈال دیا تھا۔ دونوں ہی خدا کا لاکھ لاکھ شکر بجا لاتے۔ گدڑی کے لعل کی قسمت بھی اتنی اچھی نہیں ہوتی، ہر دم چوری کا دھڑکا ہی لگا رہتا ہے۔۔۔ غربت کے ڈھیر پر پلنے والوں کی کیا زندگی اور کیا خواب؟
بچپن میں ماں اس کے بالوں کو ٹوپی میں چھپاکر رکھتی کہ کہیں نظر نہ لگ جائے, محلے کی عورتیں بھی تو بہانے بہانے سے اس کے بالوں کی لٹیں کاٹ لیا کرتیں اور پیروں فقیروں کی درگاوں پر جاکر تعویذ گنڈے کروانتیں۔ ایسے میں ماں کا بس نہیں چلتا تھا کہ اسے کہیں ایسی جگہ چھپا دے جہاں سے کوئی اس خدائی انعام کو چھو تک نہ سکے، کوئی اس کا بال بیکا نہ کر سکے۔۔۔ وہ تھی بھی تو ایسی ہی چھپا کے رکھنے والی۔
جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئی۔ ماں باپ کے حالات بھی بہتر ہوتے گئے۔ ابا کی تنخواہ میں اضافہ ہو گیا، گھر کی تنگی دور ہو گئی، وہ تو جیسے اس چھوٹے سے گھر میں خوشیاں لے کر اتری تھی۔ ماں اس کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتی تھی کہ کہیں اس کی نظر نہ لگ جائے۔ جب پانچ سال کی ہوئی تو ابا کو اسے اسکول داخل کرنے کا شوق جاگ اٹھا۔ ماں تو چٹی ان پڑھ تھی اور ابا خود بھی مشکل سے آٹھ جماعتیں ہی پڑھ پایا تھا۔ ماں اس کو منع کرتی کہ ”لڑکی کو اسکول میں مت ڈال، کیوں سب کی نظروں میں لاتا ہے'' اس کا تو بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اسے سات پردوں میں چھپا کر رکھتی، جانے اسے کیسا خوف تھا؟؟ کبھی کبھی وہ عجیب سی نظروں سے اس کی جانب دیکھتی اور وہ اس کی چوری پکڑ کر ہنس دیتی۔۔۔”ماں تم بھی نا۔” مگر ماں کی نظروں میں ایک انجانا خوف لرز رہا ہوتا، ایسا خوف جیسے کوئی بھیانک سپنا دیکھنے کے بعد اچانک آنکھ کھل جائے تو چہرے پر در آتا ہے۔
اسکول میں بھی وہ سب کی توجہ کا مرکز بنی رہی، کون سا کوئی بڑا اسکول تھا، گلی کے نکڑ پر جو سرکاری اسکول تھا و ہی اس کی پہلی درس گاہ تھی جہاں اس کے جیسے ہی غریب بچے پڑھتے تھے۔ بس فرق صرف شکل اور رنگ کا تھا خون تو سب کا ایک سا سرخ ہی تھا نا۔۔۔! اس کے ساتھی اسے اکثر ’’گاجر” یا سرخ لڑکی کے نام سے بلاتے تھے۔
وقت سرپٹ گھوڑے کی مانند بھاگا چلا جا رہا تھا اور وہ ماں، باپ کی محبت میں سر شار آگے ہی آگے بڑھتی رہی۔ پڑھائی میں بس واجبی سی تھی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ کوئی بارہ یا تیرہ سال کی تھی، جوانی میں نیا نیا قدم رکھا تھا، جسم میں کومل سی ادھ کھلی کلیاں پھوٹنے لگی تھیں۔ احساس نے ایک نئی کروٹ لی تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قوت لامسہ اور احساس کے در ایک دم سے ہی وا ہو گئے ہیں۔ جسم میں سحر آگہیں سی سرسراہٹیں سی ہونے لگیں تھیں، زندگی رنگین سی لگنے لگی تھی اور نیند تھی کہ ایسے ٹوٹ کر آتی کہ اماں اٹھاتی رہتی اور وہ بستر سے اٹھنے کو تیار ہی نہ ہوتی۔ پڑی اینٹھتی رہتی۔
سارا دن بدن ٹوٹتا رہتا۔ اس سے بڑی عمرکی سہیلیاں سرگوشیوں میں باتیں۔ کرتی تھیں اپنے جسم کے نئے زاویوں پر، دبی دبی ہنسی اور بات بے بات گالوں پر شفق رنگ اتر آتا۔
وہ ان کی ان باتوں سے خود میں ہونے والی تبدیلی پر پہروں غور کرتی۔ اس کی اٹھان بھی غصب کی تھی اور اپنی عمر سے بڑی نظر آتی تھی، اسکول آتے جاتے، کئی سلگتی، چھبتی اور معنی خیز نظریں اس کا پیچھا کیا کرتیں جن کی کاٹ سے اس کے اندر بھی ہیجانی کیفیت بیدار ہونے لگی تھی۔
اس کے حسن کے چرچے محلے سے نکل کر آس پاس کے علاقے میں بھی پھیل گئے۔ ماں پریشان تھی کیونکہ اس کے رشتے کی بات ابھی سے ہونے لگی تھی اور ماں لوگوں کو یہ کہہ کر ہی ٹال دیتی کہ ابھی بہت چھوٹی ہے، پڑھ رہی ہے۔
تب ایک عجیب بات ہوئی اس کے سینے کے عین درمیان ایک گلٹی سی تھی، جو بچپن میں وہ اکثر ٹٹولتی رہتی یا جب بچوں کے ساتھ بارش میں نہاتی تو وہ اسے دیکھ کر ہنسنے لگتے۔ ماں حکیموں سے دوا بھی لاتی رہتی تھی اور تعویذ گنڈا بھی کرتی رہی، لیکن اس پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ جیسے جیسے بڑی ہو رہی تھی ماں کی پریشانی میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا تھا۔ کہ اچانک ہی یہ گلٹی بڑی ہونا شروع ہو گئی۔
ماں اس کے مستقبل کی طرف سے کسی انجانے سے خوف میں مبتلا تھی۔ ایک اور نمایاں تبدیلی جو اس میں اس عمر میں ظاہر ہوئی وہ اس کے سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیت تھی۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ جوں جوں وہ بڑی ہو رہی تھی کند ذہن ہوتی جا رہی تھی، کوئی بات زیادہ دیر اس کے دماغ میں ٹھہرتی ہی نہیں تھی اور اس کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ پیر جیسے اس کے قابو میں ہی نہ رہے تھے، چیزیں اس کے ہاتھوں سے خود بخود گر کر ٹوٹ جاتیں۔ حتیٰ کہ قلم پکڑنا بھی مسئلہ بن گیا۔
پاؤں کہیں رکھتی تھی اور پڑتے کہیں اور تھے۔ چال بھی عجیب بے ڈھنگی سی ہو گئی تھی۔ ایسا لگنے لگا تھا جیسے ڈول رہی ہو، زیادہ بھاگ دوڑ کرنا تو بس میں ہی نہ رہا تھا۔ وہ اپنی اس اچانک تبدیلی پر حیران و پریشان تھی۔ اسکول میں کھانے کے وقفے میں جب ساتھی لڑکیاں خوب بھاگ دوڑ کرتیں،اسٹاپو کھلتیں، رسہ ٹاپتیں تو وہ ایک کونے میں بیٹھی انہیں حسرت سے دیکھا کرتی۔ عضلات کی کمزوری نے جیسے اسے معذور کر دیا تھا۔ اس کی حیرت اور الجھن میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
وہ جو سب کی آنکھوں کا تارا تھی آج دوسروں کے رحم و کرم کی متلاشی بن گئی۔
ماں کہتی تھی کہ وہ ایک دم سے لمبی ہو گئی ہے شاید اس لئے اس کے پٹھے کمزور ہو گئے ہیں۔ وہ حکیموں سے جانے کون کون سے بد بو دار تیل لاکر اس کی مالش کرتی رہتی، ساتھ ہی کڑوی کسیلی دوا کی پڑیاں بھی اسے زہر مار کرنا پڑتیں۔
اس عمر میں بھی ماں ہی اسے نہلاتی اور بالوں کی چٹیا بناتی۔
سن بلوغت تک پہنچتے پہنچتے اس پہ ایک اور بھیانک انکشاف ہوا۔ تب اسے یوں لگا جیسے اسے آسمان سے زمین پر دھڑام سے پٹخ دیا گیا ہو۔ تب اسے ماں کی خوفزدہ نظروں کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ درد کی ایک شدید لہر نے اس کے بدن کو چیر کر رکھ دیا۔ قدرت کے اس مذاق پر اسکی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ روئے یا ہنسے!
اس شام ماں کی گود میں منہ چھپا کر وہ دیر تک روتی رہی اور ماں اپنے کانپتے ہاتھوں سے اس کے بال سنوارتے بس یہی کہتی رہی '’فکر نہ کر۔ الله سب ٹھیک کر دے گا۔۔۔!!
بیچاری یہ نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ یہ اسی کا تو کرنا ہے۔
وہ جب بھی آئینے میں اپنا عکس دیکھتی تو جی چاہتا حلق پھاڑ کر چیخے تاکہ یہ پاش پاش ہو جائے۔ مگر آئینہ تو کیا ٹوٹتا، وہ خود ہی کسی کانچ کی گڑیا کی طرح ریزہ ریزہ بکھر گئی تھی۔ اس کی گھٹن کا اندازہ شاید کوئی بھی نہیں لگا سکتا تھا۔ اس کے جسم کو جیسے کسی دیمک نے چاٹنا شروع کر دیا تھا۔
آج اس بات کو پندرہ سال بیت گئے۔ وہ مشکل سے دسویں جماعت تک ہی پڑھ پائی۔ جسمانی کمزوری نے اسے گھر کی دہلیز سے باندھ دیا تھا۔ ابا نےبھاگ دوڑ کر کے چند ڈاکٹروں کو دکھایا بھی۔ لیکن وہ کہتے تھے کہ اب بہت دیر ہو چکی، اوئل عمری میں علاج کروایا جاتا تو ٹھیک ہونے کی زیادہ امید تھی، اب اس بیماری کی کمبخت کوئی ظاہری علامات بھی تو نہیں ہیں نا! وہ بظاھر دوسرے بچوں کی طرح نارمل تھی مگر اس کی رنگت اور حسن ہی اس کا بیری ہو گیا تھا۔ قدرت نے جہاں اس کے جسم کے اوپری حصے کو بھرپور نسوانیت سے نوازا تھا، بلکہ کچھ زیادہ ہی نواز دیا تھا کہ اس کےدو کے بجائے تین پستان تھے وہاں اس کے جسم کا نیچلا حصہ اس کے عورت ہونے کی نفی کرتا تھا۔
وہ سوچتی کاش! اس کے ماں، باپ تعلیم یافتہ ہوتے اور ان کے پاس اتنا سرمایہ ہوتا کہ وہ علاج کرواسکتے مگر اس کی جوانی کو جو گھن لگ گیا تھا وہ اب زندگی بھر کے لئے تھا۔ یہ بات اسے ڈاکٹر سے معلوم ہوئی کہ وہ عورت نہیں تھی، کیونکہ اس کے تولیدی اعضا کی سرے سے نشو و نما ہی نہیں ہوئی تھی اور وہ ایک نایاب اور پیچیدہ بیماری”ٹرپل ایکس کرو مو سوم ڈس آڈر'' کا شکار تھی۔
اس کی نسوانی بد صورتی کا علاج سرجری کی صورت میں تو موجود ہے، لیکن اس طبعی خامی کا کیا کرے جو قدرت نے اس کے نطفے کے بنیادی خلیوں میں ان کے وجود میں آنے اور ضم ہوتے وقت رکھ دی تھی۔
قدرت نے اس کی زمین پر وہ راستہ ہی نہیں بنایا تھا جس پر چل کر کوئی اس کے اندر سوئی ہو ئی ممتا کو بیدار کر سکتا۔۔اقبال انصاری صاحب کا” آئینوں بھرا کمرہ پڑھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.