سرپرائز گفٹ
صبح ہی سے محمود کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں کھجلی ہو رہی تھی۔ محمود نے یہ بات اپنے دوستوں سے بتائی تو دوستوں نے کہا کہ ضرور آج تجھے کوئی اچھی خبر ملنے والی ہے۔ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں کھجلی ہونااچھی خبرملنے کی نشانی ہوتی ہے۔ دوستوں کی باتیں سن کر محمود خوش ہو گیا اور اچھی خبر سننے کے لیے بے چین ہو گیا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ اچھی خبر کیاہو سکتی ہے اور یہ مجھے سنائے گا کون؟اس نے اپنے تمام رشتے داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کو فون کر کے، ملاقات کر کے سب کی خیر و خیریت دریافت کی، لیکن کسی سے اسے ایسی کوئی خبر نہیں ملی، جس سے محمود کو کسی قسم کی مسرت حاصل ہوتی۔ صبح سے دوپہر ہو گئی، لیکن کہیں سے اسے ایسی کو ئی خبر نہیں ملی، جس کا اسے بے چینی سے انتظار تھا۔ بہر حال اس نے دوپہر کا کھانا کھایا اور قیلولہ کرنے کی غرض سے بستر پر پہنچ گیا۔ بستر پر لیٹتے ہی وہ خیالوں کی دنیا میں گم ہو گیا کہ کون سی ایسی خبر مجھے ملنے والی ہے، جومیرے لیے اچھی ہوگی۔
اچانک اس کے موبائل کی گھنٹی بجی اور وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آیا۔ اس نے موبائل کان سے لگایاتو دوسری طرف ایک انجان شخص کی آواز سنائی دی۔ آج سے پہلے محمودکی اس آدمی سے کبھی بات نہیں ہوئی تھی۔
”ہلّو سر، کیاآپ محمود خان بات کر رہے ہیں؟“
”جی ہاں، آپ کون؟“
”سر میں آن لائن شاپنگ کمپنی ’شاپ کلوز‘ سے بول رہا ہوں۔ کیا آپ کا ایڈرس 1-64/24سارہ منزل، گلشن کالونی ہے۔“
”جی ہاں۔“ محمود نے جواب دیا۔
”نام اور ایڈرس Confirmکرانے کے لیے دھنیہ وادسر۔“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
”Congratulation سر، ہماری کمپنی کی طرف سے آج صبح آ پ کی موبائل پر ایک میسج بھیجا گیا ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ کو ایک کار گفٹ کی جا رہی ہے۔“
”نہیں، مجھے تو ایساکوئی میسج نہیں ملا ہے۔“
”ملا ہوگا، آپ اپنا موبائل چیک کیجیے، میں لائن پر ہی ہوں۔“
”نہیں، مجھے اس طرح کا کوئی میسج نہیں ملا۔“ محمود نے اپنا میسج اِنباکس چیک کر کے بتایا۔
”کوئی بات نہیں سر، نیٹ ورک پرابلم کی وجہ سے آپ کو میسج ڈیلور ڈنہیں ہوا ہوگا۔ ہمارے یہاں سے تو بھیجا گیا ہے۔ یہاں پر ریکارڈ موجود ہے۔ ڈونٹ وری۔ فارگیٹ اِٹ۔“
”ہماری کمپنی نے بیسٹ کسٹمرایوارڈ کا اعلان کیا ہے، جس میں کمپنی آپ کو ایک Hyundi کار گفٹ کر رہی ہے۔ کار کی قیمت ساڑھے بارہ لاکھ روپے ہے۔“
اس نے سہولت کے لیے محمود سے یہ بھی کہاکہ”اگر آپ کار لینا چاہتے ہیں تو کار لے لیجیے۔ یا پھرآپ کارکی قیمت لینا چاہتے ہیں تو وہ بھی آپ کو دی جائے گی۔ آپ کیا لینا پسند کریں گے؟“
محمود کو اس شخص کی باتوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر کمپنی مجھے یہ گفٹ کیوں دے رہی ہے؟میں نے تو آج کل کچھ خاص شاپنگ بھی نہیں کی ہے۔ یہ خیال آتے ہی اس نے پوچھا۔ ”سر اس کے لیے کمپنی نے مجھے ہی کیوں چنا ہے؟“
”سرپہلی بات یہ کہ آپ ہماری کمپنی کے سات سال پرانے کسٹمر ہیں اور دوسری یہ کہ پچھلے ہفتے آپ نے سات ہزار روپے کی شاپنگ کی تھی، جو تین دن پہلے ہی ڈیلورڈ ہواہے۔ اسی لیے آپ کو لکی ڈرا میں شامل کیا گیا تھا اوراس میں آپ کا نام پہلے نمبر پرآیا ہے۔“ دوسری طرف سے جواب آیا۔
پھر اچانک محمودکو یاد آیاکہ وہ صحیح کہہ رہا ہے۔ میں نے تو براؤن کلر کا ایک آفس بیگ آڈر کیا تھا، جو مجھے تین دن پہلے ہی ملا ہے۔ جیسے ہی محمود کو بیگ کا خیال آیا۔ اسے اس کی بات پر یقین ہونے لگا۔ محمود کو اس کی بات پر یقین کرنے کی دوسری وجہ یہ بھی بنی کہ آ ج صبح ہی سے اس کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں کھجلی ہورہی تھی، جس کے بارے میں اسے دوستوں نے بتایا تھا کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں کھجلی ہونے پر کوئی نہ کوئی خوشخبری ضرور ملتی ہے۔
اس آدمی کی باتوں پر یقین ہوتے ہی محمود خیالوں کی دنیا میں ڈوب گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ میں کار لے کر کیا کروں گا، میرے پاس تو اتنی جگہ بھی نہیں ہے کہ میں اپنے گھر پر یا گھر کے باہر اسے کھڑی کر سکوں۔ میں کار کی قیمت ہی لے لیتا ہوں۔ ان روپیوں سے اپنے مکان کی ادھوری تعمیرمکمل کروں گااور اسی مکان میں کار کھڑی کرنے کے لیے ایک جگہ بھی بنا ؤں گا۔ پھر جب کبھی میرے پاس پیسے ہو جائیں گے، میں خود ہی کار خرید لوں گا۔ یہی سوچ کر اس نے کہا۔
”میں پیسے لیناہی پسند کروں گا۔ آپ مجھے پیسے ہی دے دیجیے۔“
”ٹھیک ہے سر، لیکن اس سے پہلے آپ کوکمپنی کے اکاونٹ میں پندرہ ہزار پانچ سو پچپن روپے جمع کرنے ہوں گے۔“
”وہ کس لیے؟“
”یہ ایک فارملٹی ہے، جسے ہمیں پورا کرنا ہوتاہے۔ آپ جب کمپنی کی اکاونٹ میں یہ رقم ڈپازٹ کریں گے، تبھی آپ کو یہ انعام دیا جائے گا۔“
محمودکو اس پر دوبارہ شک ہونے لگا۔ اس نے کہا، ”اس کی کیا گارنٹی ہے کہ روپے دینے کے بعد کمپنی مجھے انعام میں اتنے روپے دے گی۔“
”جی سر، آپ کا سوال صحیح ہے۔ آپ جس اکاونٹ میں پیسے جمع کریں گے۔ اس کی پوری ڈیٹیل آپ کو مل جائے گی اور آپ تو جانتے ہیں اکاونٹ میں آدھار کارڈ، پین کارڈ وغیرہ لگے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے پیسے آپ کو نہیں ملتے تو آپ پولیس کمپلین کر سکتے ہیں۔“ اس نے بھروسہ دلاتے ہوئے کہا۔
اس کے بعد بھی جب محمود کو اس پر بھروسہ نہیں ہواتو اس نے کہا، ”سرکمپنی جو روپے مجھے دینے والی ہے اس میں سے وہ اپنا پیسے کاٹ لے، باقی پیسے مجھے دیدے۔“
”سر ایسا نہیں ہوتا۔ انعام حاصل کرنے کے لیے یہ فارملٹی پوری کرنی ہوگی، تبھی کمپنی آپ کا نام ٹی وی پراعلان کرے گی۔ اس کے علاوہ کچھ پیپرز ورک بھی ہوگا، جس کے لیے آپ سے پیسے لیے جا رہے ہیں۔“
”سر آپ گھبرایئے نہیں۔ کمپنی کو پیسے ٹرانسفر کرنے کے پانچ منٹ بعد ہی آپ کے اکاونٹ میں پورے روپے جمع کرا دیے جائیں گے۔ آپ کسی بھی مادھیم سے اپنا بیلنس چیک کر سکتے ہیں۔“
اس آدمی کی باتوں پر محمود کو بھروسہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے کہا، ”ٹھیک ہے سر میں آپ کو تھوڑی دیر میں فون کر کے بتاتا ہوں۔“
”جیسا آپ چاہیں، لیکن ایک گھنٹے کے اندرآپ Confirm کریں، ورنہ کمپنی دوسرے کسٹمر سے Contactکرے گی۔ اگر آپ اس انعام کو لینا چاہتے ہیں تو ایک گھنٹے کے اندر اسی نمبر پر Contactکر سکتے ہیں۔“
محمود نے فون رکھ دیا اور اس آدمی کی باتوں پر غور وفکر کرنے لگا۔ اس کواس آدمی کی باتوں پر بھروسہ تو نہیں ہورہا تھا، لیکن اس کی ہتھیلی میں ہو رہی کھجلی اسے یقین کرنے پر مجبورکررہی تھی۔ وہ بے چین ہورہا تھا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ آخر کار محمودنے اپنی قسمت پر بھروسہ کر کے ایک گھنٹے کے اندر ہی اسے دوبارہ فون کیا۔
”ہیلو، میں محمود بات کر ہاہوں۔“
”جی سر، بولیے۔“
”میں اپنا انعام لینا چاہتاہوں، لیکن مجھے کار نہیں کار کی قیمت لینی ہے۔“
”ٹھیک ہے سر، آپ اس اکاونٹ میں پیسے جمع کردیجیے۔“ اس نے اپنا اکاونٹ ڈیٹیل محمود کے موبائل پر بھیج دیا۔
محمود نے فوراً اس اکاونٹ میں پیسے ڈپازٹ کیے اور اس آدمی کو دوبارہ فون کیا۔
”ہیلو، میں نے پیسے بھیج دیے ہیں۔“
”جی سر، پیسے کمپنی کے اکاونٹ میں آگئے ہیں۔ اب آپ اپنا اکاونٹ ڈیٹیل دیجیے، جس میں آپ روپے منگوانا چاہتے ہیں۔“
محمود نے اپنا اکاونٹ ڈیٹیل اس آدمی کو فوراً نوٹ کرواد یا۔
”سر آپ لائن پر ہی رہیں۔ آپ کے اکاونٹ میں روپے ٹرانسفر کیے جا رہے ہیں۔“
محمود دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ اس کے جواب کا انتظار کرنے لگااور تھوڑی تھوڑی دیر پر کہتا۔
”ہیلو۔۔۔“
’’ہیلو۔۔۔ ہیلو، کیا آپ مجھے سن پا رہے ہیں؟ ہیلو۔۔۔“
”ہاں سر، آپ لائن پر رہیے۔ آپ کا اکاونٹ ڈیٹیل چیک کیا جا رہاہے۔“
”ٹھیک ہے۔“
جب کافی وقت گزرجانے کے بعدبھی ادھر سے کوئی جواب نہیں آیا تو محمود گبھرانے لگا اور بولا۔ ”ابھی اور کتنی دیر انتظار کرنا پڑے گا۔“
”جسٹ ویٹ۔“
تھوڑی دیر کے بعد اس نے کہا، ”سر کسی وجہ سے بیلنس ٹرانسفر نہیں ہو پا رہا ہے۔ آپ قیمت نہ لے کر کے کا رہی لے لیجیے۔“
”پرمجھے کار کی ضرروت نہیں۔“ گھبراہٹ میں محمود کی زبان لڑکھڑانے لگی۔
”سرسوری، لیکن اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ کچھ ٹیکنکل پرابلم کی وجہ سے روپے ٹرانسفر نہیں ہو پائیں گے۔ آپ کو کار ہی لینی پڑے گی۔“
محمود کیا کرتا۔ وہ اتنے روپے دے چکاتھا۔ اس کی بات ماننے کے علاوہ اس کے پاس دوسرا اور کوئی راستہ تھا بھی نہیں۔ اس نے کار لینے کے لیے ہاں کر دی۔
”ٹھیک ہے۔ مجھے کار ہی دے دیجیے۔“
”جی بالکل۔ اس کے لیے آپ کو کمپنی کے اکاونٹ میں پانچ ہزار روپے اور جمع کرنے ہوں گے۔“
یہ بات سنتے ہی محمود سکتے میں آگیا۔ وہ کچھ بولنا چاہ رہا تھا، لیکن اس کے گلے سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولا، ”لیکن میں نے تو کمپنی کے اکاونٹ میں روپے جمع کر دیے ہیں۔“
”جی ہاں۔ وہ تو کمپنی کے رول کے مطابق آ پ کو دینے ہی تھے۔ یہ رقم کار کے پیپر زبنانے اور کارکو آپ کے ایڈریس تک پہنچانے کے لیے لی جا رہی ہے۔“
”آپ ہمیں اپنا ایڈریس بتایئے، ہم خود کار لینے آجائیں گے۔ آپ کو پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ محمود نے جواب میں کہا۔
”سر ایسا نہیں ہوتا، کار ہماری کمپنی تھوڑی نہ بناتی ہے۔ ہم ہنڈئی کمپنی سے کارخرید کر آپ کو دیں گے۔“
”اب میں یہ کیسے مان لوں کہ پانچ ہزار روپے دینے کے بعد آپ ہمارے ایڈریس پر کار بھیجوائیں گے۔“
”سر آپ کومجھ پر بھروسہ نہیں ہے تو آپ ابھی مجھے روپے مت دیجیے۔ پہلے یہ بتائیں کہ آپ کس نام سے کار کے پیپرزبنوانا چاہیں گے۔ ہم کل گاڑی خرید کردوپہر بارہ بجے تک آپ کو گاڑی کے پیپرز بھیجیں گے۔ پیپرز ملنے کے بعد ہی آپ کمپنی کے اکاونٹ میں روپے ٹرانسفر کیجیے گا۔ اب تو آپ کو مجھ پر یقین ہے۔“ اس نے محمود پر اپنا بھروسہ بنا لیا۔
محمودکواس کی باتوں پر تھوڑا یقین ہوا۔ صبح سے ہتھیلی میں کھجلی جو ہو رہی تھی۔ اس نے کہا، ”آپ محمود خان نام سے ہی کار کے پیپرز بنوا دیجیے۔
”اوکے سر۔“
اگلے دن صبح ہی اس کے موبائل پر ایک انوائس آیا، جس میں محمود کانام، اس کا ایڈریس، کار کا نام، کارکا ماڈل نمبر اور کار کی قیمت درج تھا۔ ساتھ ہی انوائس پرنیچے کسی کی دستخط بھی تھی۔ انوائس دیکھ کر محمود کو پوری طرح یقین ہو گیا کہ اب اسے کار مل جائے گی۔ وہ دن میں ہی خواب دیکھنے لگااور نہ جانے کیا کیا پلاننگ کرنے لگا۔
دوپہر بارہ بجے کے آس پاس محمود کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ ”سر آپ کو کار کے پیپرز مل گئے؟“
”جی ہاں۔“
”اب آپ پانچ ہزار روپے کمپنی کے اکاونٹ میں جمع کر دیجیے۔“
”جی ضرور۔“ محمود نے بلاتاخیرکمپنی کے اکاونٹ میں پانچ ہرزار روپے اور جمع کر دیے۔
”سر آپ کی طرف سے ہمیں پانچ ہزار روپے مل گئے ہیں۔ آپ کے ایڈریس پر کل دوپہر تک کار پہنچ جائے گی۔ اور ہاں جو آدمی گاڑی لے کر جائے گا۔ اسے آپ کو گاڑی کے پیپرز اور ایک فوٹو آئی ڈی دکھانا ہو گا، تبھی وہ آدمی کار آپ کے حوالے کرے گا۔“ اس نے فون رکھ دیا۔
محمود بہت خوش تھا۔ اس نے سوچا روپے نہیں مل رہیں تو کیا ہوا۔ کار تو مل ہی رہی ہے۔ میں کار کو بیچ کر اسی روپے سے اپنا مکان بنا لوں گا۔ اب اسے صرف کل کا انتظار تھا۔ وہ سوچ رہا تھا پلک جھپکتے ہی کل ہو جائے، لیکن اسے لگ رہا تھا وقت وہیں ٹھہر گیا ہے۔ کسی طرح وقت گزرا۔ شام ہوئی۔ اس نے جلدی ہی کھانا کھایا اور سونے کے لیے بستر پر چلا گیا۔ اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ بار بار اپنے نئے مکان کا نقشہ اس کے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا تھا، جو ابھی بنا نہیں تھا۔ وہی نقشہ دیکھتے دیکھتے اسے کب نیند آئی، پتا ہی نہیں چلا۔ دوسرے دن وہ صبح جلدی ہی اٹھ گیا۔
محمود جب صبح اٹھا تو اس کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں کھجلی ہورہی تھی، لیکن یہ بات اس نے کسی سے نہیں بتائی اور نہ ہی اس نے کھجلی ہونے کی وجہ ہی جاننی چاہی۔ پر اسے گبھراہٹ ہو رہی تھی۔ اس کاوقت گزر نہیں رہا تھا۔ وہ بار بار اپنے گھر کی طرف آنے والے ہر راستے کو دیکھ رہا تھا۔ کبھی ایک طرف جاتا تو کبھی دوسری طرف۔ اسے ہر آتی ہو ئی کار اپنی لگ رہی تھی۔ دھیرے دھیرے وقت گزررہا تھا۔ بارہ بج گئے۔ ایک بج گیا اور پھر چار بج گئے، لیکن کوئی کار اس کے گھر کے پاس آکر نہیں رکی۔ وہ انتظار کرتا رہا۔ شام ہونے لگی۔ سورج ڈوبنے لگا۔ سورج ڈوبنے کے ساتھ ہی اس کا انتظاربھی ختم ہوا۔ وہ اب ناامید ہو گیا۔
محموبے چینی سے اس نمبر پر فون کرنے لگا، جس نمبر سے اسے انعام کے لیے فون کیا گیا تھا۔ نمبر بند تھا۔ وہ گھبرا گیا۔ اس نے کئی بار وہ نمبر ڈائل کیا، لیکن نمبر بند ہی آرہا تھا۔ محمود بار بار کال کرنے کی کوشش کرتارہا۔ ہر باراسے ایک ہی آواز سنائی دیتی، ”The number you are calling is switched off۔ Please try again later۔۔ آپ کے دوارا ڈائل کیا گیا نمبر ابھی بند ہے۔ کرپیا تھوڑی دیر بعددوبارہ کوشش کیجیے۔“
بہت کوشش کے بعد بھی جب اس نمبر پر فون نہیں لگا تو محمود شاپ کلوز کسٹمر کیئر پر کال کرنے لگا۔ کئی بار اس نے کال کی، لیکن اس پر بھی کال نہیں لگ رہی تھی۔ ہر بار اسے ایک ہی آواز سنائی دیتی۔
We are all customer care executive is busy۔ Please stay on the line or try again later۔”ہمارے سبھی کسٹمر کئیر ادھیکاری ابھی ویست ہیں۔ کرپیا لائن پر بنے رہیں یا تھوڑی دیر بعد دوبارہ کوشش کریں۔“
لیکن محمود نے ہار نہیں مانی۔ اس کے لگاتار کوشش کرنے پر ایک بار فون لگ گیا۔
”to Shopclues۔com Welcome۔ شاپ کلوز ڈاٹ کام میں آپ کا سواگت ہے۔ For English press one۔۔ ہندی کے لیے دو دبائیں۔“
محمود نے اپنے موبائل پر دونمبر کی بٹن دبا دی۔
”شاپ کلوز کے نئے آفر کی جان کاری کے لیے ایک دبائیں۔ اپنے آڈر کی جانکاری کے لیے دو دبائیں۔ آڈر کینسل کرنے کی جان کاری کے لیے تین دبائیں ۔۔۔ ہمارے کسٹمر کیئر ادھیکاری سے بات کرنے کے لیے نو دبائیں۔“
اس بار محمود نے نو نمبر کی بٹن دبائی۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک لڑکی کے بولنے کی آواز آئی۔
”ہیلو، میں موہنی جیسوال، آپ کی کیا ہیلپ کر سکتی ہوں۔“
”میں محمود بول رہا ہوں۔ آپ کی کمپنی سے مجھے ایک کال آئی تھی، جس میں مجھے بتایا گیا کہ آپ کو لکی ڈرا میں ایک کار ملی ہے۔ اس کے لیے مجھ سے تقریباًبیس ہزار روپے آپ کی کمپنی نے لیے ہیں اور میرا انعام مجھے نہیں ملااور جس نمبر سے مجھے اس انعام کے لیے کال آئی تھی وہ نمبر بھی اب بند ہوگیا ہے۔“
وہ لڑکی پورا معاملہ سمجھ گئی اور بولی، ”سوری سر، ہماری کمپنی نے ایسے کسی ایوارڈ کاا علان نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس طرح کا کوئی انعام ہماری کمپنی کسٹمر کو دیتی ہے۔ آ پ کے ساتھ فراڈ ہوا ہے۔ ہمارے پاس اس کی کوئی جان کاری نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں آپ کی کوئی ہیلپ نہیں کر سکتے۔ آپ اس کی کمپلین پولیس میں کیجیے۔ شاپ کلوز میں کال کرنے کے لیے دھنیہ واد۔ آپ کا دن شبھ ہو۔“
یہ سنتے ہی محمود کا مکان بنانے کا خواب چکنا چورر ہو گیا۔ اس کو اب بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر کھجلی ہونے کا مطلب بھی سمجھ میں آگیا تھا۔ وہ اسی وقت قریب کے پولیس تھانے جا پہنچا۔ اس نے وہ موبائل نمبر، اکاونٹ نمبر اور انوائس پولیس کودیتے ہوئے پورے معاملے کی جانکاری پولیس محکمے کو دی۔ پولیس نے محمود کی کمپلین در ج کی۔ کمپلین درج کرنے کے بعد پولیس نے محمود سے کہاکہ اس معاملے کی تفتیش کے لیے آپ کو کم از کم پانچ ہزار روپے خرچ کرنے پڑیں گے۔ تبھی کار وائی کی جائے گی۔
پولیس کی یہ بات سنتے ہی محمود دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ پہلے ہی میرے اتنے روپے برباد ہو چکے ہیں۔ اب اور روپے بربادکرنے کا کیا فائدہ۔ اس سے پہلے میں نے دو باردھوکہ کھایاہے۔ اب مجھے اور دھوکہ نہیں کھانا ہے۔ اس کا کیا بھروسہ کہ روپے دینے کے بعد مجھے انصاف ملے گا۔ اس نے اپنی کمپلین واپس لے لی اور زندگی میں کبھی آن لائن شاپنگ نہ کرنے کی قسم کھائی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.