جس وقت وہ کامیاب ہو کر لوٹا دونوں نے اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور حسب معمول اس کی خاطر مدارات میں کسی قسم کی کسر اٹھا نہ رکھی، اسے وہ مشروب بھی پیش کیا گیا جسے پی کر دنیا بدل ہی جایا کرتی تھی، وہ آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرتا، چھو ٹے چھوٹے سرمئی اور نارنجی بادلوں کے ٹکڑے اس کا استقبال کرتے، بدلیاں اس پر ٹھنڈے پانی کی پھوار برساتیں اور طائر ان خوش نوا اسے میٹھے میٹھے گیت سناتے اور اس کاانگ انگ رقص کرنے لگتا۔
اس نے سب سے پہلے غسل کیا اور سبز ریشمین لباس زیب تن کر لیا اور اس کے لئے وہ کمرہ کھول دیا گیا جہاں مشک و عنبر کی خوشبو رچ بس گئی تھی۔ اس کمرے کی ہر شے سبز ملبوسات سے مزین تھی، سبز ساٹن کے چمکدار پردے مغرب کی سمت سے آنے والی ہواؤں سے ہولے ہولے جھوم رہے تھے، اس کے بیڈ کی مخملی چادر بھی دھانی ہی رنگ کی جبکہ فانوس کی روشنی اور چھت آسمانی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ میز پر رکھے ہوئے مشروب کے گلاس اور سبز رنگ کی طشتریوں میں انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے۔ کمرے کی دیواروں پر بھی ہلکے سبز رنگ کا پینٹ کیا گیا تھا۔ اس کمرے میں رات گزارنے والا ہر شخص اپنے آپ کو نیلے آسمان تلے اور نیلے سرسبز و شاداب باغ میں آرام کرتا اور زندگی کے مزے لوٹتا ہوا محسوس کرتا۔ وہ جب بھی اس جادوئی کمرے کا مہمان بنتا سب سے پہلے صراحی نما گلاس کو اپنے تشنہ لبوں سے لگا دیتا، چند ساعتوں بعد ہی وہ ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرتا اور دن بھر کی سرگزشت یکسر فراموش کر دیتا، یا دماغ پر لکھی ہوئی کہانی خود ہی مٹ جایا کرتی، لیکن آج گلاس اور ہونٹوں میں کم از کم دو انچ کا فاصلہ تھا، آنکھوں میں سرخی اور نمی ایک ساتھ نمودار ہوئی تھی اور سوچوں کی آندھی اس کے دل و دماغ پر بارودی گولے برسا رہی تھی،
اس کے خدمتگار اس کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر کچھ پریشان ہو گئے تھے، اس طلسماتی کمرے میں جو بھی رات گزارتا، میزبان اپنے مہمان کا خصوصی طور پر خیال رکھتے تھے گویا یہ ان کی ڈیوٹی تھی۔
اچانک ہی دروازہ چرچرایا اور ایک پستہ قد، فربہ، جسم اور سیاہ رنگت اور موٹی ناک والا نوجوان اندر داخل ہوا۔
’’کیا ہوا۔۔۔ تو نے کچھ کھایا پیا نہیں، برتنوں میں تیری وہ پسندیدہ چیزیں موجود ہیں جو تجھے بہشت کی سیر کراتی ہیں۔ تیرے کام کو سب نے پسند کیا ہے، مبارکبادی کے فون بھی آ چکے ہیں۔ تیری اجرت بھی ادا کر دی گئی ہے‘‘۔
’’کیا کوئی بات دل پر لے گیا ہے؟’‘ پستہ قد والا معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ہنسا۔
’’نہیں نہیں‘‘۔ وہ کچھ بوکھلا سا گیا تھا۔ جیسے چوری کرتے ہوئے پکڑلیا گیا ہو۔
’’تو پھر‘‘
’’کچھ نہیں یار،’‘ لمبوترے چہرے والے نے لاپرواہی سے جواب دیا، پھر کچھ توقف کے بعد بولا۔ ’’آج کچھ بخار سا محسوس ہو رہا ہے، تم فکر نہ کرو پہلے شیر والی گولی اور پھر بڑے بڑے پہاڑوں کی چوٹی سر کرنے نکلوں گا۔ شاہی گھوڑے پر سوار ہوکر جنگلوں، صحراؤں، مرغزاروں اور گھاٹیوں میں دوڑتاہوا دور بہت دور چلا جاؤں گا‘‘۔
’’لیکن واپس آ جانا‘‘۔ پستہ قد والا جواب دے کر زور سے ہنسا۔ لمبوترے چہرے والے نے اس کا ساتھ دیا۔
’’تو میں جاؤں؟’‘
’’شوق سے‘‘ ۔ لمبوترے منہ والا پھر مسکرایا۔
ایک بار قید کے دوران اس کی ایک ایسے آدمی سے ملاقات ہوگئی جس نے اس کی دنیا ہی بدل دی، ٹھکانہ مل گیا اور پیسہ بھی اورنہ اب اپنے گھر جانا چاہتا ہے اور نہ اسے اجازت تھی۔
جس وقت سوزوکی کی آواز گھر کے قریب آتی محسوس ہوئی تو وہ چوکنا ہو گیا۔ اسے معلوم تھا آج اس نے خود اپنی موت کا اہتمام کیا ہے، لہٰذا ذرا سی بھی غفلت سارا بنا بنایا کھیل بگاڑ دےگی۔ خطرات سے کھیلنے کی اسے عادت سی ہو گئی تھی نہ مدرسے سے بھاگتا اور نہ سرخ جرسی پہنتا اور نہ سبز اور نیلے کمرے کا مہمان بنایا جاتا۔
اس نے ایک جست میں ماضی کی اتھاہ وا دیوں سے چھلانگ لگائی اور بیرونی دروازے کی طرف دوڑا، جونہی وہ اندر داخل ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑے ہتھیار ٹریگر دبایا، ان کی سفید جرسیاں سرخ ہو گئیں۔ پھر وہ دوڑ کر پنجرے کے پاس آیا، سب خاموش تھے، انہیں معلوم تھا مذبحہ خانہ کھلنے والا ہے، سروں کی فصل کٹنے والی ہے، اور پھر ایدھی کا سرد خانہ، اور آہ و بکا۔
ان کا کوئی جرم نہیں، پھر سزا کس کی۔۔۔؟ ایسے ہی سوالات ان کے ذہن میں گشت کیا کرتے۔ چند ثانیئے یونہی گزر گئے، آنکھیں پتھرا گئیں ہیں، جسم کا خون جمنے لگا ہے اور سانسوں کا سلسلہ بے ترتیب ہو گیا ہے۔
لمبوترے چہرے والے نے ہولے سے کہا۔ ’’میں دروازہ کھول رہا ہوں، تم لوگ فوراً باہر نکلو۔ سوزوکی میں جا کر بیٹھو، دب کر، گھس گھس کر جلدی کروجلدی، کچھ لڑکھڑاتے، گرتے پڑتے پہنچ گئے ہیں اور کچھ کو اس نے بازو سے پکڑ کر کھینچا اور سوزوکی میں لے کر ٹھونس دیا، کہاں۔۔۔؟’‘ ان میں سے ایک نے جس کی عمر بمشمل 17-16سال ہوگی، اپنے ہونٹوں کو جنبش دی۔
’’تمہاری ماؤں کی دعائیں قبول ہو گئیں ہیں، آزادی کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔ زندگی تمہیں خوش آمدید کہہ رہی ہے‘‘۔ پھر ان سب کو چڑیوں کے چہچہانے اور پھڑپھڑانے کی آوازیں انہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔
اس نے ہاتھ ملایا، ہولے سے بولا۔ ’’پریشان نہ ہوا کر تجھے توسب کچھ معلوم ہے نا! کہ جب گھوڑا کام کا نہیں رہتا ہے، اسے ویرانے میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے اور ایسا ہی حال گدھے کا کیا جاتا ہے اور دوست تو نہ گدھا ہے اور نہ گھوڑا، غداری کی سزا عبرتناک ہے‘‘۔
’’میں نے کبھی غداری نہیں کی، 30 کا ہندسہ میرے حصے میں آیا ہے‘‘۔
’’جانتا ہوں، سب سے زیادہ خیال بھی آپ کا ہی رکھا گیا ہے‘‘۔
پستہ قد کالے اور موٹے شخص نے ترش لہجے میں جواب دیا۔
وہ کبھی اپنے مہمانوں سے ’’تو‘‘ کر کے بات کرتا، کبھی ’’تم‘‘ یا ’’آپ‘‘ پر آ جاتا۔
’’تجھے بچا ہوا مال بھی ٹھکانے لگانا ہے‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
اس کے جاتے ہی وہ سرعت سے بستر سے اٹھا اور کچھ ضروری ا مور انجام دیئے اور پھر بستر پر پسر گیا۔ تخیل کی اڑان سے بہت اونچا لے گئی اور جب نیچے آیا تو سب سو چکے تھے۔ اب اسے کام کرنا تھا۔ بعض اوقات اوور ٹائم بھی اس کے حصے میں آتا تھا۔
خون رگوں میں منجمد ہو گیا تھا، وہ سب نیم مردہ حالت میں تھے ان میں سے کچھ کی آنکھیں خلاؤن میں اٹک گئیں تھیں اور جسم ساکت معلوم ہوتے تھے۔
اس کے دونوں مددگاروں نے ان میں سے تین کی رسیاں کھول دیں تھیں۔ وہ تینوں اکڑوں سر، زانو میں دیئے یٹھے تھے۔
اس نے سامان نکالا اور پتلے دبلے کانٹے جیسے شخص نے اپنے لمبے بالوں کو جھٹکا دیا اور چرس بھرا سگریٹ منہ میں دبا لیا۔ پھر ان تینوں میں سے ایک کے کان اس طرح کھینچ کر لایا جس طرح مذبحہ خانے میں جانور کو لایا جاتا ہے۔ اس لمبوترے چہرے والے نے چرمی بیگ سے مزید اوزاروں کو آزاد کیا، لیکن عین اسی وقت وہ چکر ا کر گر گیا۔ اس کے مددگاروں نے اسے گود میں اٹھایا اور اندرلے جاکر کمرے کے فرش پر پٹخ دیا۔ وقت کم اور مقابلہ سخت، صبح کا اجالا پھیلنے میں کئی گھنٹے باقی تھے، اسی عرصے میں انہیں اپنا کام سمیٹنا تھا۔
چند گھڑیوں بعد ہی دردناک آوازیں ابھرنے لگیں، پھر ٹک ٹک کھٹ کھٹ، گھٹی گھٹی چیخیں اور پھر گہرا سکوت، مکین اپنے مکانوں کو چھوڑ کر عالم بالا کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔
انہوں نے مال تیار کر کے سوزوکی میں ڈالا، دونوں ایک ہی حمام میں گھس گئے اپنے آپ کو سرخ جرسیوں سے آزادکر لیا، سبز لباس زیب تن کیا، مشروب کی بوتلیں انہیں پیش کر دی گئیں اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ ہواؤں میں قلابازیاں کھانے لگے۔
وہ فرش پر پڑا اونگتا رہا، کسی کی طرف توجہ نہیں دی چونکہ اکثر اس قسم کے واقعات ظہور پذیر ہو جایا کرتے تھے۔ تب متاثرہ شخص کو مکمل طور پر آرام کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا۔
رات گہری ہوتی چلی گئی اور مرگھٹ کی ویرانی، قبرستان کا سناٹا بڑھتا گیا۔ تب وہ اٹھا اور پنجرے والے کمرے میں آ گیا۔ ان کے چہروں کی زردی مزید بڑھ گئی تھی۔ لہو منجمد ہو گیا تھا اور اندر سخت گرمی کے باوجود ٹھنڈے ہونے لگے تھے اور قوت گویائی سلب کرلی گئی تھی۔ اس نے ان سب پر ایک نگاہ غلط ڈالی اور اندر آکر راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو دور کیا۔ آنے والے نے فون کئے۔ کوڈ ورڈ میں بات ہوئی، ہدایت دینے والے ہدایت دے چکے تھے۔
وہ ذہنی طور پر بالکل تیار تھا، اس نے حفظ ماتقدم کے تحت سرخ جرسی پہن لی تھی۔ وہ اس میدان کا پرانا کھلاڑی تھا۔ شکار کا تو شوقین تھا ہی اور پھر تڑپا تڑپا کر مارنے کا بھی ماہر ہو چکا تھا۔ وہ ایسا شروع سے نہیں تھا بلکہ غربت اور بدچلن دوستوں نے اسے یہاں تک پہنچا دیا تھا۔ وہ سب مل کرا سٹا ل لگاتے، چوریاں کرتے اور پھر پکڑے جاتے۔ اس دنیا کا بھی اپنا ہی مزہ تھا، سامنے آنا اور پھر چھپ جانا اندھیرے اجالے کاکھیل تھا۔
’’جانتے ہو میں نے تمہیں کیوں آزاد کیا ہے؟’‘
’’نہیں جانتے نا‘‘۔
’’تو سنو! لیکن پہلے ان بوریوں کو اپنے گرد لپیٹ لو تو میں کہہ رہا تھا کہ آج یعنی صبح 10 بجے میں نے جن تین مولویوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے، ان میں سے ایک میرا باپ اور دو بڑے بھائی تھے۔ نہ جانے ہاتھوں اور آنکھوں نے ایک ساتھ کیسے کام کیا؟ ادھر لبلبلی پر ہاتھ دبا اور اُدھر نگاہوں نے اپنے خون کا طواف کیا۔ وہ تینوں میرے اپنے چہرے تھے، میرے بازو تھے‘‘۔
وہ چند منٹوں کے لئے رکا، جیسے اپنے اندر سے اٹھنے والے شور اور اپنی چیخوں کا گلا دبا رہا ہو، پھر ہولے سے بولا۔
’’میرے گھر کے سب چراغ بجھ گئے ہیں، لیکن تمہارے گھروں کے چراغوں کو میں نے بجھنے سے بچالیا ہے‘‘۔
’’تم لوگ پولیس کو سب کچھ سچ سچ بتا دینا، ڈرنا نہیں، ورنہ میری طرح تاریک راہوں میں مارے جاؤگے‘‘۔ چند منٹوں کے سفر کے بعد وہ بولا۔
’’منزل آ گئی ہے، تمہاری بھی اور میری بھی‘‘۔
اس نے گاڑی روک دی، پولیس کی کئی موبائل سوزوکی کے اطراف میں آکر رک گئیں ہیں۔
’’کوئی گڑ بڑ نہیں کرنا، چاروں طرف پولیس ہے‘‘۔ ایس ایچ او کھڑکی کے پاس آکر بلند آواز سے چیخا۔
’’کیسی بات کرتے ہو تھانیدار جی! میں نے بلایا ہے اور میں ہی گڑبڑ کروں گا‘‘۔
’’سوزوکی میں 18 زندہ لاشیں ہیں۔ آپ کے حوالے اور پانچ لاشیں اندھیرے گھر سے ملیں گی اور ایک لاش۔۔۔؟’‘
پھر ایک فائر کی آواز آئی۔۔۔ ’’سوزوکی سے بچے برآمد کر لئے‘‘ اور ڈرائیونگ سیٹ پر اس کی گردن ڈھلک گئی، سفید جرسی سرخ ہوتی چلی گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.