Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تجربہ گاہ

ترنم ریاض

تجربہ گاہ

ترنم ریاض

MORE BYترنم ریاض

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے خوبصورت اور امیر شخص کی کہانی، جو اپنی عیش پرستی کی وجہ سے خود کو ہلاک و برباد کر لیتا ہے۔ مرنے کے بعد اس کی ممی بنا دی جاتی ہے اور پھر صدیوں بعد ایک جینیٹک انجینیئر اس میں دوبارہ جان ڈال دیتا ہے۔ اتنے سال مردہ رہنے کے بعد بھی اس کی یادداشت برقرار رہتی ہے اور وہ بیتی زندگی کو پھر سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جب انجینیئر اسے حقیقت سے واقف کراتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے۔

    خاکی نے ہسپتال کی تجربہ گاہ میں لگے بڑے سے آئینے میں خود کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ وہ اپنے اسی قیمتی لباس میں تھا جو اُسے بہت پسند ہوا کرتا تھا۔ اس کا قد چھ فٹ کے قریب تھا۔ رنگ کھِلتا ہوا گندمی، بال گھنے اور بھورے تھے۔ آنکھوں کی پتلیاں سیاہ تھیں۔

    بہت پہلے وہ دنیا بھر کے چند مشہور دولت مند لوگوں میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ یہ دولت اُسے وراثت میں ملی تھی۔ جسے وہ دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا تھا۔ دن رات شراب سے مدہوش رہنے کی وجہ سے وہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو گیا۔

    اس کی بہت سی معشوقاؤں میں سے کسی نے اسے اس بلا نوشی سے باز رہنے کو نہیں کہا۔ بیوی کی وہ کوئی بھی بات نہیں مانتا تھا۔ اور چالیس برس کی عمر تک آتے آتے اس کا جگر تقریباً ناکارہ ہو گیا۔ اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ دنیا کے چند ماہر ڈاکٹروں کی نگہداشت میں اس کا علاج ہونے لگا۔

    ایک تندرست ملازم کا انتخاب ہوا جس کے پھیپھڑوں کا سرطان آخری درجے پر پہنچ چکا تھا۔ اس کے گھر والوں کو ایک ضخیم رقم دے کر خاکی کے جگر کو ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔

    آپریشن کامیاب رہا۔۔۔ کچھ دن آرام سے گزرے مگر اس کی لا پرواہیوں کی وجہ سے پیوند کیے ہوئے جگر نے زیادہ دن اس کا ساتھ نہ دیا اور اس میں Infection ہو گیا جینے کی آس جاتی رہی۔ ڈاکٹروں نے اس معاملے میں مشہور اداروں کے جنیٹیک انجینئروں سے مشورہ کیا۔

    وہ گھیرا باندھے اس کی مسہری کے گرد کھڑے تھے۔

    اس رنگ و شباب کی دنیا کو کیا اس کی دولت خرید نہیں سکتی۔کس کام کی یہ تحقیق۔۔۔ یہ سائنس۔۔۔ یہ تجربات۔۔۔

    مجھے زندہ رہنا ہے۔۔۔

    اس نے احتجاج کیا۔۔۔

    زہر نسوں کے اندر تک سرائیت کر چکا ہے۔۔۔ ڈاکٹر نا امید ہو گئے۔۔۔

    سارا خون بدل ڈالو۔۔۔ یہ۔۔۔ دولت۔۔۔

    اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔۔۔ مگر۔۔۔!

    مگر۔۔۔؟

    مگر ہمیں اپنی تحقیق پر دنیا کے قیام سا اعتماد ہے۔ ہم موت پر قابو پانے والے ہیں ہمیں Gene کا Code حاصل ہو گیا ہے۔۔۔ وہ پیچیدہ ضرور ہے۔ مگر جس دن ہم اسے Decode کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، سمجھ لیجئے کہ۔۔۔

    مشہور عالم سائنسدانوں کی ٹیم ’اپنے آقا ہم‘ کے سربراہ نے کہا تھا۔

    اپنی ساری دولت میں تمہارے نام کرتا ہوں۔

    مگر اتنی جلدی تو ایسا کوئی امکان نہیں۔۔۔

    او۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ مری سانس۔۔۔ مگر مجھے یقین ہے کہ میری ہڈیوں کا ڈھانچہ تندرست ہے تم اسے محفوظ کر لو اور باقی کا جسم Hydrogen Peroxideمیں Dissolve کر لو۔۔۔ اور جب۔۔۔ اور جب۔۔۔

    ہاں اور جب زندگی ہمارے قابو میں آ جائے گی تو صرف تمہارے DNA کو Develop کر کے ہم بالکل تمہاری طرح کا انسان کلون کر لیں۔۔۔

    سربراہ نے زوردار قہقہہ لگایا۔

    سائنسدان اس کی طرف مسکرا کر دیکھنے لگے۔

    مگر اس سب کی ضرورت پیش نہیں آئےگی۔ ایک خلیہ محفوظ رکھ لینا ہی کافی ہوگا۔۔۔ سارا جسم اسی سے بنتا جائےگا۔

    نہیں۔۔۔ خاکی پوری طاقت استعمال کر کے چیخا۔

    مجھے۔۔۔ مجھے بچپن سے جوان ہونے تک کا مرحلہ۔۔۔ طے نہیں کرنا۔۔۔ مجھے جوانی چاہیے۔۔۔ سیدھا جوان پیدا ہونا ہے مجھے۔۔۔ یہی قد۔۔۔ یہی صورت درکار ہے مجھے۔۔۔ مجھے۔۔۔ یہی صورت ڈاکٹر۔۔۔ اُف۔۔۔ میری سانس۔۔۔ پلیز ڈاکٹر۔۔۔ یہی زندگی۔۔۔ یہی دولت۔۔۔ ہاں دولت۔

    مگر تمھیں دولت دینا ہمارے بس میں۔۔۔ کیسے؟

    میں اسے۔۔۔میں۔۔۔وصیت کروں گا کہ۔۔۔ میری دولت۔۔۔ میرے کسی وارث کو اس وقت تک۔۔۔ نہ دی جائے۔۔۔ جب تک میں خود۔۔۔ لوٹ کر۔۔۔ میں خود۔۔۔ زندہ ہو کر۔۔۔ اپنی مرضی سے۔۔۔ اپنی۔۔۔ مرضی سے۔۔۔ ہاں۔۔۔ اس چیک سے۔۔۔ اس چیک سے تم اپنے اخراجات۔۔۔ پورے کرتے رہنا۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔

    ایک زور دار قہقہہ۔

    پھر ہچکیاں۔۔۔ ایک زور کی ہچکی۔

    دستخط شدہ چیک اس کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان دبا ہے۔

    DNA, RNA اور TRNA کے علاوہ اس کا ڈھانچہ بھی محفوظ ہے۔

    تجربہ گاہ کو مزید وسعت دی گئی۔

    تجربے ہوتے چلے گئے۔۔۔ برسہا بیت گئے۔

    سربراہ کا انتقال ہو گیا۔ دیگر ارکان بھی فوت ہو رہے ہیں ، نئے نئے سائنسداں آ رہے ہیں۔

    تجربہ گاہ کے بہت بڑے وسطی ہال کے عین درمیان دنیا کے ایک امیر ترین آدمی کا ڈھانچہ شیشوں میں محفوظ اپنے سرہانے اپنی شناخت لیے لیٹا ہے۔

    نام : خاکی

    پیدائش : ۱۹۶۰ء

    موت : ۲۰۰۰ء

    بہت پہلے لوگ دلچسپی سے اس ہال سے گزرا کرتے تھے۔ مگر اب یہ بات بھی پرانی ہو گئی۔

    دو صدّیاں گزر گئیں۔۔۔ شناخت کی فائل جانے کب کی بند ہو گئی تھی۔

    اچانک ایک نوجوان جینٹیک انجینئر کو ’اپنے آقا ہم‘ ٹیم کا خواب سچا ہوتا نظر آیا۔ لوگ کہتے تھے اس انجینئر کی شکل ہو بہو شیشے میں بند آدمی کی، ہال میں دیوار پر آویزاں قد آدم تصویر جیسی ہے۔ بال۔چہرہ۔آنکھوں کا رنگ۔قد سب بالکل ویساہی۔

    آخرکار انجینئر اپنے تجربے میں کامیاب ہو گیا۔

    جیتے جاگتے متحیرّ خاکی نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا۔

    دو صدیوں سے محفوظ پڑا اس کا پسندیدہ لباس کچھ زیادہ پرانا نہیں لگ رہا تھا۔

    بہت شکریہ۔۔۔ اب میں جاتا ہوں۔۔۔ اس نے انجینئر کی طرف دیکھا اور مزید حیرت زدہ رہ گیا۔

    تم۔۔۔ تم۔۔۔ تم۔۔۔

    انجینئر مسکراتا رہا۔۔۔

    تم۔۔۔ میری۔۔۔ اولاد ہو۔۔۔ تم۔۔۔ تم۔۔۔

    وہ خوشی سے چیخا۔

    میں نہیں۔۔۔ جانتا۔۔۔ صدیوں پہلے کی بات میں کیا جانوں۔ انجینئر لاپرواہی سے بولا۔

    صدیاں۔۔۔؟ خاکی بڑبڑایا۔

    ہاں۔۔۔ دو صدیاں گزر گئی ہیں تمہاری موت کو۔۔۔

    دو سو سال۔۔۔ اف۔۔۔

    وہ سر تھام کر دیوار سے ٹک گیا۔

    مگر تم۔۔۔ تو۔۔۔ تم۔۔۔ میری ہی نسل سے ہو۔۔۔ میری اولاد کی۔۔۔ اولاد کی۔۔۔ اولاد کی۔۔۔ وہ مسکرایا اور تمہارے Apron پر لگے اس نیم پلیٹ پر میرا دوسرا نام بھی ہے۔۔۔ تم۔۔۔

    وہ ایک قدم آگے بڑھا۔ انجینئر اسے بغیر کسی تاثر کے دیکھتا رہا۔۔۔

    آؤ۔۔۔ ذرا حساب لگائیں کہ تم میری کون سی پیڑھی سے ہو۔۔۔ می۔۔۔ تمھارا کون ہوں۔۔۔

    انجینئر کے چہرے پر ناگواری سی چھا گئی۔

    کچھ لمحے اسی طرح گزر گئے۔

    ٹھیک ہے۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔

    وہ انجینئر کی طرف پلٹا۔

    کہاں جاؤگے۔۔۔ انجینئر کی آواز ہو بہو اسی کی طرح تھی۔

    تمہاری آواز۔۔۔ تم۔۔۔ ہاں گھر جاؤں گا میں۔۔۔ میں۔

    کس جگہ۔۔۔؟

    اپنا پتہ جانتا ہوں میں۔۔۔میرا پتہ ہے۔۔۔ دس ہزار درخت والے جنگل کے پاس میٹھے پانی کے دریا کے کنارے دو منزلہ محل۔

    اس نام کا کوئی مقام پایا جانا ممکن ہی نہیں۔۔۔ تم بیٹھو۔۔۔ میڈیا تمھارا انٹرویو لینے کو بیقرار ہے۔۔۔ اور میرا بھی۔

    نہیں۔۔۔ میرے کپڑے پرانے لگ رہے ہیں۔۔۔ مجھے نئے ملبوسات خریدنے ہیں۔

    کیسے خریدوگے۔۔۔؟

    تم جانتے نہیں ہو۔۔۔ میں دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک۔۔۔

    تھے۔۔۔ تم دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے،انجینئر نے اس کی بات کاٹی۔

    مطلب۔۔۔؟خاکی کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

    کیا وہ دولت اتنی پیڑھیاں گزر جانے کے بعد تمہارے وارثوں نے ختم نہیں کر ڈالی ہو گی؟

    مگر میں نے تو وصیت۔۔۔

    ایسی وصیت جو مر کر دوبارہ جی اُٹھنے سے متعلق ہو۔۔۔ کون مان سکتا تھا۔ دو صدی پیشتر۔۔۔

    ٹھیک ہے۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ میری اسناد ہیں۔۔۔ میرا تجربہ۔۔۔ تو میرے پاس ہے۔۔۔ میں تیز رفتار ہوائی جہاز بنانے کا ماہر ہوں۔۔۔

    اس کی ضرورت برسوں ہوئے ختم ہو گئی۔۔۔ اب ہم Space Warp کے ذریعے ایک جگہ سے غائب ہو کر دوسرے مقام پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔

    ۔۔۔ ارے۔۔۔؟ اچھا۔۔۔ ؟۔۔۔ تو۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ میں محنت کر کے اپنی نئی زندگی کا آغاز کروں گا۔۔۔

    خاکی دروازے کے قریب جا کر دروازہ کھولنے والا دستہ گھمانے ہی لگا تھا کہ انجینئر نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    چلو۔۔۔ ادھر بیٹھو۔۔۔ بیٹھو۔۔۔ گارڈس انجینئر تیز آواز میں پہرے داروں کو آواز لگاتا ہے۔

    آرام سے اس کرسی پر بیٹھے رہو۔۔۔ تمہارے ساتھ لوگ باتیں کرنے آئیں گے۔۔۔ تم سے کئی طرح کے سوال کریں گے۔۔۔ تمہاری باتوں سے کوئی بے چینی ظاہر نہ ہو۔۔۔ سمجھے؟

    تم کون ہو مجھ پر حکم چلانے والے۔ وہ چیخا۔

    میں تمھارا خالق ہوں۔۔۔ تمھارا مالک ہوں ۔تم ماضی کی کتاب کا ایک پھٹا ہوا ورق ہو۔ اب اگر تمہاری کوئی شناخت ہے تو وہ مجھ سے ہے کہ میں نے تمھیں بنایا ہے۔ مکمل کیا ہے تمہارے وجود کو۔ عالم میں دھوم مچ گئی ہے میرے اس کارنامے کی۔۔۔ اور اب میں ایک ایسا تجربہ کروں گا جس سے رہتی دنیا تک، میرا نام لوگوں کی زبان پر رہےگا اور اس کے لیے مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ انجینئر خاموش ہو گیا۔

    مجھے کیا کرنا ہو گا۔۔۔؟وہ کانپتے ہوئے بولا۔

    میں تمہاری شہ رگ کاٹ کر اسے میڈیا کے سامنے اسی وقت جوڑ کر تمھیں مرنے کے فوراً بعد زندہ کروں گا۔

    بس ذرا تمہاری صحت اچھی ہو جائے تو۔۔۔

    نہیں تم۔۔۔ تم ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔ میں۔۔۔ میں تم پر مقدمہ دائر کر دوں گا۔۔۔ اور قانون تمھیں۔ تمھیں۔

    ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ تم ہو ہی کون، ہڈیوں کا ایک لا وارث ڈھانچہ۔۔۔ جو، اب۔۔۔ اب جو بھی ہے میری اپنی ملکیت ہے۔ ۔ ۔ میرے گھر کے پالتو جانوروں کی طرح۔۔۔ اور تم تو۔۔۔ تم تو اینیمل ایکٹ میں بھی نہیں آتے۔۔۔ گارڈس۔۔۔ اسے شیشے کے اس صندوق میں لٹا کر آکسیجن کی نلی لگا دو۔۔۔ حفاظت سے۔۔۔صندوق کی چابی میرے کیبن میں رکھ دینا۔۔۔ میں باہر ذرا میڈیا سے بات کر لوں۔۔۔

    محافظ خاکی کی طرف بڑھتے ہیں ۔تو اُسے ایک زوردار جھٹکا لگتا ہے۔ وہ اٹھ بیٹھتا ہے۔ اور اپنے شب خوابی کے لباس کی ریشمی آستین سے ماتھے کا پسینہ پونچھتا ہے۔ الٹے ہاتھوں سے دونوں آنکھوں کو ملتا ہوا وہ بری طرح ہانپ رہا ہے۔ اب وہ پوری طرح بیدار ہو چکا ہے۔ اسے احساس ہوا کہ فون لگاتار بج رہا ہے۔

    او شٹ اپ۔۔۔

    وہ فون اٹھا کر بغیر کچھ سنے واپس پٹخ دیتا ہے اور کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد پلٹ کی بائیں جانب دیکھتا ہے۔

    پلنگ کے برابر کی تپائی پر چاندی کی منقش کشتی میں اس کی صبح کے وقت پینے والی پسندیدہ شراب کی بھری ہوئی بوتل اور نیلے رنگ کے باریک کانچ کا نازک سا جام رکھا ہوا ہے۔دیوار کے ساتھ لگی، لکڑی کی نہایت خوبصورت گُل بوٹوں والی بڑی سی الماری میں کانچ لگے شفاف طاقچوں کے اندر مختلف اقسام کی شراب، چھوٹی بڑی جسامت کی الگ الگ شکل کی بوتلوں میں قطار در قطار سجی ہے۔ کھڑکی کے ذرا سے سرکے ہوئے پردے کی آڑ سے چلی آئی صبح کی دھوپ ٹھیک بار کی بوتلوں پرہی پڑ رہی ہے اور جھِل مِل جھِل مِل کر رہے شیشوں نے کمرے میں ساتوں رنگ بکھیر دیئے ہیں۔

    وہ کچھ سیکنڈ یہ منظر دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کشتی میں رکھی بوتل اٹھا کر پوری طاقت سے بار پر دے ماری تو سرخ رنگ کے دبیز کشمیری ریشمی قالین پر کانچ کے بے شمار ٹکڑے بکھر گئے اور کمرے میں ان گنت ننھے منے سورج جھلملانے لگے۔

    چھ باور ی ملازم بھاگے بھاگے اندر آئے۔

    سر۔۔۔؟وہ ہاتھ باندھے پریشان حال سے اس کی پائینتی کی جانب کھڑے ہو گئے۔

    جسٹ۔۔۔ گیٹ۔۔۔ آؤٹ۔وہ دانت پیس کر رک رک کر بولا تو سب باہر کی طرف لپکے۔ اور وہ مسہری سے اتر کر کھڑکی کے قریب آیا۔ پردہ سرکا کر اس نے باغیچے میں نظر دوڑائی۔ اس کی بیوی گود میں اخبار پھیلائے کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ سامنے سنگِ مرمر کی میز پر بیضوی کشتی میں نرم گرم ٹی کوزی کے اندر سے چائے دانی کا چمکدار روپہلا دستہ جھانک رہا تھا۔ برابر میں رکھی پیالی سے بھاپ اُٹھ رہی تھی۔ اُس کے شانوں پر پھیلے آدھے بھیگے بال صبح کی نرم دھوپ میں رچی ہوا سے ہولے ہولے لہرا رہے تھے۔ وہ بسکٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اپنے سامنے پھینک رہی تھی اور تین چار چڑیاں انھیں پھرتی سے چگتی ہوئی ظاہر اور غائب ہو رہی تھیں۔ وہ کھڑکی سے ہٹ کر دروازے کی طرف مڑا۔

    اس کا چہیتا ملازم جاتے ہوئے مڑ مڑ کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

    لان میں ایک اور کرسی لگا دو۔۔۔

    اور۔۔۔ ایک کپ بھی لے جانا۔۔۔

    اس نے مسکرا کر کہا۔

    یس سر۔۔۔ یس سر۔۔۔

    وفادار ملازم کا چہرہ پھول کی طرح کھِل اٹھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے