Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تلاش گمشدہ

کارور نیل کنٹھ پلے

تلاش گمشدہ

کارور نیل کنٹھ پلے

MORE BYکارور نیل کنٹھ پلے

    ٹرین کا سفر کرتے وقت کھڑکی کے پاس بیٹھنے سے خوشی ہوتی ہے۔ خاص طور سے کوہاسے چنکوٹا تک۔ کھیتوں میں کام کرتے ہوئے آدمی اور پہاڑوں کو دیکھ کر مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ریلوے لائن کے قریب والے مکان، میدانوں میں چرتی ہوئی گائیں، ٹرین کی آواز پر ہنسنے والے لڑکے۔۔۔اس طرح کے کئی مناظر ٹرین کی رفتار کے ساتھ جلدی جلدی آتے ہیں اور آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتے ہیں۔ کیا یہ مناظر ہمیں خوش نہیں کرتے؟

    ہرے بھرے کھیتوں کے بیچ لیٹی ہوئی پگڈنڈی۔۔۔کبھی کبھی ریل کی پٹریوں کو ہتھوڑیوں سے ٹھیک کرنے والا آدمی۔۔۔کبھی دور کبھی اس پار جانے والے ریلوے مزدوروں کی قطار کا جاتی ہوئی ٹرین کو سیلوٹ کرنا مجھے بڑا اچھا لگتا ہے۔

    گھنے جنگل۔۔۔آسمان سے باتیں کرتی ہوئی پہاڑ جیسی چٹانیں۔

    سب کا بےفکری سے کھڑا رہنا ہمیں بھی مطمئن نہیں کرتا کیا؟

    سنسان علاقوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی ٹرین جب اندھیری سرنگ سے گزرتی ہے، تب مسافروں کے دل میں خوف سما جاتا ہے اور سرنگ کے ختم ہونے پر روشنی پاکر مسافروں کو ایسی خوشی ہوتی ہے جیسے انہوں نے نئی زندگی پالی ہو۔ ان کی خوشی کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔

    لیکن کھڑکی کے پاس بیٹھنے کوجگہ مل جائے تب ہی خوبصورتی کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ میں بیچ کی بنچ پر بیٹھا تھا۔ گاڑی میں بہت زیادہ بھیڑ تھی۔ دائیں بائیں، اوپر نیچے، آگے پیچھے ہر جگہ آدمی ہی آدمی۔ سارے مسافر زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔ میرے بالکل پاس ہی چند اجنبی لوگ بیٹھے تھے۔ مگر کون کس کی پروا کرتا ہے۔ ان مسافروں میں گھر کی باتیں بھی ہو رہی تھیں۔ میں اکیلا ہی تھا۔ نہ تو میں نے کسی سے بات چیت کی اور نہ کسی نے میرے خیالات میں کوئی رکاوٹ ڈالی۔

    اگر کھڑکی کے پاس جگہ نہ ملے توساتھ ایک کتاب کا ہونا ضروری ہے۔ مگر میرے پاس کوئی کتاب بھی نہیں تھی۔ اگلے اسٹیشن پر میں نے ایک اخبار خرید لیا۔ عموماً لوگ دس منٹ میں اخبار پڑھ ڈالتے ہیں۔ لیکن میں بڑے غور سے اخبار پڑھنے لگا۔ ہمیشہ کی طرح میں نے آج بھی ’’تلاش گمشدہ‘‘ والا کالم پڑھا۔ اس کے بعد راجدھانی سے لے کر کالی کاو تک کی باتیں۔ ’بدمعاشوں سے خطرہ، پل خطرے میں‘ وغیرہ سب کچھ پڑھا۔ ایڈیٹوریل نوٹ بھی پڑھا۔ ’’تلاش گمشدہ‘‘ والا اشتہار تین بارپڑھا۔ یہی اشتہار مجھے اچھا لگا۔ اس کالم میں ایک بیوی کے غائب ہو جانے کی اطلاع تھی۔ جواس کا پتہ دےگا، اسے انعام دیا جائےگا۔ اس کا عہد کیا گیا تھا۔

    ’’جو کوئی اس عورت کو ڈھونڈ لے، اس کو وہ ٹکٹ دلاکر انڈمان بھیج دے، اس آدمی کو ٹکٹ کے علاوہ انعام کے سو روپے بھی دیے جائیں گے۔‘‘

    ایسے بےوقوف شوہر سے چھٹکارا پانے والی بیوی کے بارے میں مجھے فخر ہوا۔ غائب بیوی اور انتظار کرنے والا شوہر۔۔۔ دونوں نے مجھے جوشیلا بنا دیا۔

    جب ٹرین اگلے اسٹیشن پر رکی اور آنے جانے والوں کی بات چیت نے زور پکڑا تو میں ان میاں بیوی کی ناکام ازدواجی زندگی کو اپنے تخیل کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا۔ اسی وقت سب نے باتیں کرنا بند کر دیں اورسب کی توجہ دروازے کی طرف ہونے والے ایک جھگڑے کی جانب چلی گئی۔ ٹرین میں چڑھنے والے دوآدمیوں کو ایک عورت روک رہی تھی۔ بیٹھنے کی جگہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ دروازے کے قریب کھڑی تھی۔ ان میں بڑی دیر تک بحث مباحثہ ہوا۔ آخر اس عورت نے کہا، ’’پچھلی بار تمہارے جیسا آدمی میرے تین سو روپے چھین کر لے گیا تھا۔‘‘

    چھپ کر بھاگی ہوئی لکشمی کوئٹی کے شوہر سے زیادہ غرور رکھنے والے مرد دوسرے ڈبے میں چلے گئے۔ گاڑی بھی چل دی۔ میرے پیچھے بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا، ’’اری کو ن ہے وہ۔۔۔! اس آدمی کی کہی ہوئی بات سنی ہے نا؟‘‘

    ’’اس طرح کے لوگوں سے ہار ماننا ہی پڑتی ہے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔

    ’’اگر تم ہوتے تو کیا کرتے۔۔۔؟‘‘

    ’’روپیہ چاہئے تومیں دوں گا۔ میرے ساتھ میرے گھر میں رہے۔‘‘ عینک والے نے کہا۔ اس کی بات اس عورت تک نہیں پہنچی، کیونکہ وہ دور کھڑی تھی۔ اس کے بعد عینک والے اور اس کے ساتھی میں دیرتک ادھر ادھر کی خبروں کے ساتھ باتیں ہوتی رہیں۔ وہ میرے پاس بیٹھے تھے۔ دھیان نہ دینے پر بھی ان کی باتیں میرے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے عینک والا ہی اس بھاگنے والی عورت کاشوہر ہے۔ بیوی کے بھاگنے تک وہ آدمی بےوقوف تھا۔ اس طرح کی روحانی تعریف میں نے ابھی تک نہیں سنی تھی۔ اخبار میں اشتہار چھپواکر وہ بیوی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ہے۔ ایسے فضول آدمی کے ساتھ رہنے والی عورت سے مجھے ہمدردی ہونے لگی۔ ٹرین کے دونوں طرف سے پیچھے کی طرف جانے والی قدرتی مناظر کونہ دیکھنے کامجھے کچھ افسوس نہیں تھا۔ پڑھنے کے لیے کتاب نہ ہونے سے کوئی اکتاہٹ نہیں ہو رہی تھی۔ بھاگنے وای بیوی اور اس کے بے وقوف شوہر سے بڑھ کر خوبصورت کہانی اور کیا ہو سکتی تھی؟

    وہ عینک والا ایک صحت مند نوجوان ہے۔ وہ کسی سے نہیں پو چھ رہا ہے کہ میری بیوی کو کسی نے دیکھا تو نہیں۔ اس کے چہرے سے کسی قسم کی پریشانی کا اظہار بھی نہیں ہو رہا ہے۔ لوگوں کو بہکانے کے لیے اس نے اس طرح کی خبر اخبار میں چھپوا دی ہے۔ یہ خبر ایسی ہی ہے جیسے ہاتھی نے اپنی ہتھنی کو مارا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مار سہتے سہتے اس بےچاری نے کسی اندھے کنوئیں میں گرکے اپنی جان دے دی ہوگی۔ پولیس سے جان بچانے کے لیے اس نے اخبار میں اشتہار چھپوایا ہے۔ اگر پوچھتا تو اس کے نام کا پتہ چل سکتا تھا۔

    ٹرین پہاڑوں سے اترکے ہموار میدان میں چل رہی تھی۔ اتنے سفر میں بہت سے آدمی اتر گئے اوربہت سے چڑھے بھی۔ جواب تک کھڑے تھے انہیں جگہ مل گئی اور جواب تک بیٹھے تھے وہ بھی اپنی پسندیدہ جگہ پر بیٹھ گئے۔ عینک والا جب باتیں کرتے کرتے تھک گیا تو وہ اوپر کی سیٹ پر جاکر لیٹ گیا۔ دروازے کے پاس کھڑی ہوئی وہ عورت میرے مقابل آکر بیٹھ گئی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ اس کی طاقت ہم تھوڑی دیر پہلے دیکھ چکے تھے۔

    وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ ذرا سا چھو لینے پر اس نے ان دونوں آدمیوں کو ددسرے ڈبے میں بھیج دیا تھا۔ اب وہی مردوں کے بیچ میں بیٹھی ہے۔ اس کے دونو ں طرف بیٹھنے والے بالکل اجنبی ہیں۔ وہ پنگوٹا اسٹیشن کے بعد چڑھے اور اس عورت نے کوٹارکرا اسیشن سے گاڑی پکڑی تھی۔

    جب عینک والا چپ ہو گیا تو میرا دھیان اس عورت کی جانب گیا۔ ’’تلاش گمشدہ‘‘ والی خبرمیں نے اخبار میں ایک بار پھر پڑھی۔ عمر اتنی ہی ہے۔ بیوی خوبصورت ہے۔ یہ خصوصیت بھی یہاں ٹھیک ہے۔ رنگ بھی ویسا ہی ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ انعام کا روپیہ اصل میں مجھے ملےگا۔ میں ہنسنے لگا۔ چھپ کر فرار ہونے والی عورت یہی ہے۔ وہ شوہر ہے۔ یہ بیوی ہے۔۔۔ اگر واقعی ایسا ہو جائے تو۔۔۔!

    اوہو۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا۔ سامنے نہ دیکھنے پربھی اس کی آواز تو ضرور سنی ہوگی۔ بیوی کی آواز کون شوہر نہیں پہچان سکتا۔ ان میں سے ہی ضرور کوئی اس خبر کو چھپوانے والا ہوگا۔ مگر وہ کون ہے۔۔۔؟ یہ بات اس عورت کو معلوم ہوگی۔ یہ اسی کے لائق ہے۔ اتنی جوشیلی عورت ایک شوہر کے طعنے سن کر اس کی خدمت کرنے کا جذبہ نہیں رکھ سکتی۔ اس طرح کا سلوک کرنے والا شوہر احمق ہے۔ اسی لیے وہ بھاگی ہوگی۔ بیوی کو دوبارہ قبول کرنے کے لیے اسے ڈھونڈ رہا ہے۔ پہلے اس نے کہا ہوگا، ‘‘ باہر جا۔۔۔ جو مرضی ہو، کر۔۔۔‘‘

    ’’اس نے دیکھا کہ چیخنے چلانے پر بھی وہ کمبخت نہیں جائےگا تو اپنے آپ ہی چلے جانا اچھا ہوگا۔‘‘ بیوی نے سوچا ہوگا۔ میرے سامنے والی عورت گفتگو میں کسی سے ہارنے والی نہیں ہے۔ وہ بھی مردوں کی طرح طاقت رکھتی ہے۔ اس طرح کی عورت اگر گھر چھوڑکر چلی جائے تو اس کے لیے اداس ہونے والے شوہر کی حالت قابل رحم ہے۔

    کسی نتیجہ پر پہنچنا اور کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ وہ بڑا طاقت وربھی ہو سکتا ہے۔ دو تین دن باہر گھومنے سے اب یہ ڈر گئی ہوگی۔ دیکھنے میں خوبصورت بیوی گھر چھوڑ گئی ہے۔ اسے واپس لانے والے کو انعام بھی ملےگا۔ اس بات پر کچھ لوگ ڈھونڈنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ وہ چنددن میں کسی نہ کسی کے پھندے میں ضرور پھنس جائےگی۔ ڈھونڈنے والی چیز اگر ڈھونڈنے والے کو مل جائے تو وہ بڑا خوش نصیب ہوگا۔ وہ پھر واپس نہیں جائےگی۔ اس کا فیصلہ اٹل ہوگا۔

    کیونکہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام پورا ہو گیا۔

    حقیقت میں شوہر بڑا عقل مندہے۔

    بھاگنے والی عورت بھی میرے سامنے بیٹھی ہے اس ڈبے میں اورکسی کو یہ بات معلوم نہیں ہے۔ میں بھی کسی کو یہ بات نہیں بتاؤں گی۔ بھاگنے والی بیوی کو گرفتار کرنے کا اعزاز مجھ ہی کو ملےگا۔ مدورا اسیشن پر ٹرین کے رکتے ہی میں اسے پولیس کے سپرد کر دوں گا۔ اس کے بعد اس کے شوہر کو تار دوں گا۔ انعام کے لالچ میں پھنس کر کہیں بیوی آنہ جائے۔ یہ سوچنے والے شوہر کے سر اسے تھوپ دینے کے لیے ہی، اس کی چالاکی کو ظاہر کرنا ضروری ہے۔ میں مسلسل اسے دیکھے جا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ میری بنچ پر آکر بیٹھ گئی۔ وہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔ اس کی باتیں میں غورسے سن رہا تھا۔ اس نے اوپر لیٹے ہوئے عینک والے کو دیکھ کر کہا تھا، ’’اس نے شادی نہیں کی ہے کیونکہ منگل سوتر بنانے والے کو اس نے اپنے دانتوں میں بندھوا لیا ہے۔‘‘

    میں چونک پڑا۔ اس کی بات سمجھ گیا۔

    تھوڑی دیر پہلے اس نے کہا تھا، ’’مجھے بتاؤ تو میں دکھادوں گا۔‘‘

    اور اب وہ ڈینگیں مارنے والا آدمی اوپر لیٹا ہے۔ اس عورت کو وہ منھ توڑ جواب دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کا جواب سن کر ہم سب شرمندہ ہو جائیں گے۔ اس کی باتیں ہم سب ہی شرمندگی سے سنیں گے۔ وہ ہماری طرف منہ کیے لیٹا ہے۔ اس کی آنکھیں ہم سب کو دیکھ رہی ہیں۔ اس وقت کئی نظریں اس عورت پر بھی لگی ہوں گی۔ یہ بات کہنے کا کیا مطلب ہے؟ سڑک پر جانے والی لڑکیوں سے دیکھے بغیر شادی کر لے؟ ایسا ہی ہے نا۔۔۔؟ وہ جواب دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

    اس نے کچھ نہیں کہا۔ وہ میری بغل میں بیٹھ گئی۔ یہ اچھا ہی ہوا۔ کم سے کم سامنے سے تو چھٹکارا مل گیا۔ میں اسے کچھ دیر تک بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا۔ اگر اس طرح کی کوئی بات وہ مجھ سے کہے گی تو بےحد شرمندہ ہو جاؤں گا۔ ایسانہیں ہوا نہ جانے کیوں۔ وہ خامو ش ہوگئی۔ اوہ۔۔۔ٹھیک ہے۔ یہ سب ڈھونگ ہے۔ وہ آدمی اسے لیے جا رہا ہے۔ یہ لوگ اجنبی ہونے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ سب کی آنکھیں بچانے کے لیے ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ میرا اندازہ ٹھیک ہے۔ دونوں کو ٹار کر اسے ٹرین میں بیٹھے تھے۔ کولم سے رات کے اندھیرے میں چھپ کر گئے ہیں۔ وہ اپنی بات چھپانے کے لیے برابر گپ شپ کر رہا تھا۔ وہ بھی اسی طرح کی ہے مگر بالکل نڈر ہے۔ بڑے جوش کے ساتھ باتیں کرتی ہے۔ یہ بہت اچھا ہے، چور کو مال سمیت پکڑ لیا۔ ذراٹرین کو مدورا پہنچنے دو۔ دونوں کو پولیس کے حوالے کر دوں گا۔

    میں نے ’’تلاش گمشدہ‘‘ کا اشتہار پھر پڑھا۔ بھاگنے والی عورت یہی ہے۔ اکیلی عورت ایک معزز آدمی سے کہتی ہے، ’’منگل سوتر بنانے کے لیے سونا نہ تھا۔ اس لیے اس نے شادی نہیں کی۔‘‘ یہ بات سن کر بھی اس نے کچھ نہیں کہا۔ وہ بےوقوف آدمی ٹس سے مس نہ ہوا۔ جانے کیسے زندہ ہے۔ تھوڑی دیر پہلے ہی وہ اپنی بہادری کی ڈینگیں مار رہا تھا۔

    دوسرے مسافروں نے بھی ان پر کوئی خاص دھیان نہیں دیا تھا۔ ان کا راز وہ کیسے جان سکتے ہیں۔ ویر ودھ نگر پہنچتے ہی وہ میرے قریب آن کربیٹھ گئی۔ اس کا نام پوچھنا چاہئے۔ کیا وہ لکشمی ہے؟ یہ تو معلوم ہو سکتا ہے۔ مگر کیسے پوچھوں! ا س نے بھی اگر پوچھ لیا تم کون ہو۔ کیا مردم شماری کے محکمے میں کام کرتے ہو؟ تب بات ختم ہو جائےگی۔ اس بےتکلف عورت سے بات کرنے میں جانے کیوں جھجک رہا ہوں۔

    ’’کوٹار کر اسے ٹرین میں سوار ہوئی ہو کیا۔۔۔؟‘‘ میں نے ایک بےمعنی سا سوال کیا۔

    ’’کیسے جانا۔۔۔؟‘‘

    ’’شاید میں نے دیکھا تھا۔۔۔‘‘

    ’’پھر کیوں پوچھا۔۔۔ جانچنے کے لیے۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ صرف یہ جاننے کے لیے کہ تم صحیح جواب دیتی ہو یا نہیں۔‘‘

    ’’میں نے کسی کا کچھ چرایا ہے کیا؟‘‘ اس نے ترش رو ہوکر پوچھا۔

    مجھ میں بات آگے بڑھانے کی طاقت نہیں تھی۔ چپ رہنا ہی ٹھیک تھا۔ اگر میں نے کچھ کہا تو ممکن ہے وہ اور بڑھ کر بولے۔ سب لوگ سنیں گے۔ اسے جواب دینے میں کہیں ہار گیا تو! اگرچہ وہ طاقتور ہے مگر عورت ہونے کی وجہ سے اسی کی طرف داری کریں گے۔ اس لیے میں چپ رہی رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پوچھا۔

    ’’کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘

    ’’کولم سے۔‘‘

    ’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘

    ’’کیوں جاننا چاہتی ہو؟‘‘

    ’’بولنے میں کیوں جھجک رہے ہیں آپ۔ کہیں چھپ کر تو نہیں جا رہے ہیں؟‘‘

    ’’آج کل چھپ کر بھاگنا تو عورتوں کا کام ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’مردوں کے جرم کی وجہ سے۔‘‘

    ’’جرم کسی کا بھی ہو۔ مگر چھپ کر بھاگنے والے ایک دن پکڑے ہی جاتے ہیں۔‘‘

    ’’کیوں تمہارا کوئی رشتہ دار چھپ کر بھاگ گیا ہے کیا؟‘‘

    ’’نہیں میرا تو کوئی نہیں بھاگا ہے مگر میں نے کسی کو چھپ کر بھاگتے پکڑ لیا ہے۔‘‘

    ’’اتنے کامیاب ہو تو۔۔۔‘‘ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے پوچھا، ’’کیوں یہ سچ ہے کہ آپ مدورا ہی جا رہے ہیں؟‘‘

    میں نے سوچا اس طرح یہ لوگ اپنے پکڑے جانے کے بارے میں جان جائیں گے۔ مدورا پہنچنے سے پہلے ہی ٹرین سے اتر جائیں گے۔ جہاں وہ اتریں گے وہاں میں نہیں اتر سکتا۔ اس لیے میں نے طے کیا کہ پٹومالا اسٹیشن کے بعد ہی اس سے بات چیت کروں۔ میں نے چاہا کہ کوئی ہمارے درمیان آکر بیٹھ جائے۔ مگر کوئی نہیں آیا اور اس طرح پٹومالا اسٹیشن نکل گیا۔

    اس نے پوچھا، ’’مدورا سے آپ کہاں جائیں گے؟‘‘

    ’’وہاں پہنچ کر طے کروں گا۔‘‘

    ’’یعنی آپ کو معلوم نہیں کہ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘

    اگریہ بات ہے تو کیا وہ میرے ساتھ جانے کو تیا رہے۔ میں نے اس سے پوچھنا چاہا۔ سونے کے دانتوں والا اوپر لیٹا ہے۔ اسے جو عزت ملی ہے اس کی وجہ میری سمجھ میں آ گئی۔ اب فاصلہ کم رہ گیا ہے۔ مدورا پہنچ کر ان لوگوں کی چال بازی کا پردہ فاش کر دینا ہے۔ دونوں کو پولیس کے حوالے کرنے کے لیے دوسروں کی بھی مدد درکار ہے۔ اس کام میں ہم سفر ضرور میرا ساتھ دیں گے۔

    ’’تمہارا نام لکشمی ہے نا؟‘‘

    ’’آپ نے کیسے جان لیا؟‘‘

    ’’یہ چھوڑو۔۔۔ سچ مچ بتاؤ۔‘‘

    ’’میں جھوٹ کیوں بولوں گی۔ میرا نام لکشمی ہی ہے۔‘‘

    ’’گھر کولم میں ہے کیا؟‘‘

    وہ ہنستے ہوئے بولی، ’’اس سے پہلے ہماری اور آپ کی ملاقات کہاں ہوئی ہے؟‘‘

    ’’وہ بھی بتاؤں گا۔ کل ہی گھر سے نکلی ہو؟‘‘

    ’’کیا تم پولیس والے ہو؟ بالکل پولیس والوں کی طرح سوال کر رہے ہو؟‘‘

    ’’کولم سے ایک عورت بھاگی ہے۔ یہ خبر میں نے ایک اخبار میں پڑھی ہے۔ عمر رنگ اور نام سب کچھ تمہارے جیسا ہے اور تمہیں لے کر بھاگنے والا بھی اسی ٹرین میں ہے۔ یہ سب کچھ میں جانتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا تو پاس بیٹھنے والے لوگوں نے یہ بھی بات سنی۔ یہ بھی اچھا ہی ہوا۔

    ’’تمہارے پاس اخبار ہے؟ ذرا دکھاؤگے۔۔۔؟‘‘

    اس کا ساتھی کون ہے۔۔۔سب مسافر یہ جاننا چاہ رہے تھے۔ سارے ڈبے میں ہلچل سی مچ گئی مگر اسے جیسے کسی بات کی پروا ہی نہیں تھی۔

    ’’اب آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔

    ’’پکڑ کے پولیس کے حوالے کر دو۔‘‘ ایک نے کہا۔

    ’’مدورا پہنچنے پر مجھے اس پولیس والے کے حوالے کرنا جس کا نام نارائن ہے۔ وہ وہاں ہوگا۔‘‘ وہ بڑی جرأت سے اور نڈر ہوکر بولی۔

    ’’ٹھیک ہے۔ یہ سب میں کر لوں گا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

    سونے کے دانت والے نے پوچھا، ’’نارائن تمہارا کون ہے؟‘‘

    ’’وہ میرا شوہر ہے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے