تلاش
مایوس غمدیدہ، بیزار۔۔۔ گوراں فٹ پاتھ پر ہولے ہولے ہولے جارہی ہے۔ جانے دو۔ اس کا اپنا جسم ہے۔ جس طرح میرا کوٹ میرا اپنا کوٹ ہے۔ میں اس کوٹ کو سنبھال کے رکھوں یا پھاڑ ڈالوں۔ خود پہنوں، یا بیچ ڈالوں یا کسی راہگیر کی جھولی میں ڈال دوں۔۔۔ مجھے کون روک سکتا ہے۔ میں اپنے کوٹ کا مالک ہوں۔
گوراں اپنے جسم کی مالک ہے۔ شاید اگلے موڑ پر کوئی گزرتا ہوتا راہرو اسے خرید لے گا۔ خریدنے دو۔ مجھے پشیمانی کا احساس بھی کیوں ہو؟ دنیا کا نظام کا روباری لین دین پر تو قائم ہے اور پھر گوراں کا جسم اس کا اپنا جسم ہے۔ اسے اختیار ہے کہ وہ جب چاہے اور جس قیمت پر چاہے اسے بیچ دے۔ اپنی چیز ہے۔ اپنی چیزپر سب قادر ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرا اس میں ٹانگ کیوں اڑائے خواہ مخواہ!
سڑک پر بجلی کے کھمبوں کے نیچے روشنی کے بڑے بڑے دھبے ہیں۔ کھمبوں کے درمیان سنسان اندھیرا ہے۔ گوراں کی زندگی میں بھی تاریک اور اُجلے سائے ہیں۔ وہ سڑک کے کالے اور سفید دھبوں کی طرح ساکن اور منجمد نہیں۔ زندگی کے سائے چلتے پھرتے نشان ہیں۔ تمتماتے ہوئے سورج کے سامنے آوارہ بدلیاں آجائیں تو زمین پر ایک مدور سایہ چھا جاتا ہے۔ تھکا ہوا مسافربے قراری سے اس کی طرف لپکتا ہے۔ بے وقوف آدمی! جوں جوں وہ سایہ اس کے قریب آتا جائے گا، چھاؤں بکھیرنے والے ابر پارے اس سے دور ہوتے جائیں گے۔ مجھے اس کا تجربہ ہے۔ میں نے کہا، ’’گوراں تم میری منزل ہو۔ مجھے اپنی منزل تک آنے دو۔‘‘
گوراں نے کہا، ’’آجاؤ!میں بھی اپنی منزل کے لیے بھٹک رہی ہوں۔‘‘ جوں جوں میں گوراں کی طرف بڑھتا گیا۔ میری منزل مجھ سے دور ہوتی گئی جیسے سراب کی طرف بھاگنے والا پیاسا مسافر بھاگتا جائے اور انجام کار پانی کی ٹھنڈی لہروں کی جگہ ریت کے گرم گرم تودوں میں اٹک کے رہ جائے۔ میں گوراں کی طرف بڑھتا گیا اور جب میں نے گوراں کو قریب قریب پالیا، وہ گوراں نہ تھی۔ وہ اس کا جسم تھا۔ خوب صورت مرمریں۔ ستار کے تاروں کی طرح کسا ہوا، جھنجھناتا ہوا جسم۔ عورت کی کائنات اس کا جسم ہی تو ہے۔ شاید گوراں کا مرمریں بدن سڑک کے اگلے موڑ پر بک گیا ہو۔ بکنے دو۔ مجھے ہمدردی کا احساس بھی کیوں ہو؟ وہ اپنے خوب صورت جسم کی مالک ہے، بالکل مختار جیسے مجھے اپنے کوٹ پر اختیار ہے۔
ظہیر میری باتوں پر ہنستا ہے۔ وہ میرا پرانا یار ہے۔ ہم برسوں ہم جماعت رہے تھے۔ اب قسمت کی ستم ظریفی نے ہم دونوں کو ایک ہی دفتر میں اکٹھا کردیا ہے۔ میں ساڑھے بارہ سو پاتا ہوں۔ ظہیر کی تنخواہ چالیس روپے ماہوار ہے۔ جب ہم کہیں اکیلے ہوتے ہیں تو وہ بے تکلفی سے میرے سر پر چانٹا مارکر گرجنے لگتا ہے،
’’ابے او صاب کے بچے! تم روز بروز سڑی ہوتے جارہے ہو۔ تلاش، فرار، فلسفہ۔۔۔ میں کہتا ہوں سب بکواس ہے۔ تم کیا جانو، عورت کس چیز کا نام ہے؟ میری طرف دیکھو، جب میری جیب میں ساڑھے پانچ آنے کے پیسے ہوتے ہیں تو میں صبح سویرے سیدھا علم دین سبزی والے کی دکان پر پہنچتا ہوں۔ آدھ سیر پالک لیتا ہوں، ڈیڑھ پاؤ آلو، دو پیسے کے ٹماٹر۔ اور کسی کو یہ شکایت نہیں ہوتی کہ مجھے سبزی خریدنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔
لیکن اگر کسی روز کوئی حرام زادہ ضرورت سے زیادہ مٹھی گرم کر دے، اور میری جیب میں دو ایک روپے کھنکتے ہوں تو میں سبزی منڈی میں جاکے لٹک جاتا ہوں اور دل ہی دل میں سوچتا ہوں علم دین کی دکان بھی کوئی دکان ہے بھلا؟باسی مال، سڑے ہوئے پتے، گندی ٹوکریاں۔ میں پربھو دیال کی دکان میں جھانکتا ہوں۔ کرتار سنگھ کے خوبصورت اسٹال کا جائزہ لیتا ہوں اور دل ہی دل میں گوبھی، مٹر، چقندر، سلاد اور اننا س کے وٹامنز اے، بی، سی کا تجزیہ کرتا ہوں۔ لیکن حساب ٹھیک نہیں جمتا۔ کبھی وٹامنز کے اجزا میرے دو روپوں سے آگے نکل جاتے ہیں، کبھی میرے دو روپے وٹامنز کی قیمت پر بھاری نظر آتے ہیں۔ اسی ادھیڑ بن میں ساڑھے دس بج جاتے ہیں میں جلدی جلدی کسی چھابڑی والے سے گلی سڑے سبزی تلوا کر بھاگم بھاگ واپس آ جاتا ہوں۔
بیوی ناک بھوں چڑھاتی ہے۔ میں خالی پیٹ دفتر جاتا ہوں۔ اور وہ حرام زادہ آفس سپرنٹنڈنٹ میرے لیٹ آنے پر آنکھیں نکالتا ہے۔۔۔ کیا سمجھے بیٹا؟میرے چالیس روپوں پر دو لڑکیوں کے باپ ریجھے۔ میں نے ایک کو پھانس لیا۔ تمہارے ساڑھے بارہ سو پر بہت سی لڑکیاں اور ان کی مائیں بھنبھنا رہی ہیں۔ ان کو پھانسو اور عیش کرو۔ ورنہ لٹکتے رہو گے بیٹا جس طرح میں کرتا ر سنگھ کے اسٹال پر لٹک جاتا ہوں۔‘‘
ظہیر کی زبان پر عورت کا نام ایک لذیذ چٹخارے کی صورت میں آتا ہے۔ کالج کے دنوں میں اسے چاٹ کا شوق تھا۔ جب کبھی وہ املی کے پانی سے بھرے ہوئے گول گپے منہ میں ڈالتا تھا، اس کے ہونٹوں سے چار چار انگل لمبی رال ٹپک پڑتی تھی اور وہ کسی خاموش لذت سے بلبلا ٹھتا تھا۔
’’ہائے ہائے!کیا خستہ گول گپا ہے جیسے مس کلیانی کے لال لال ہونٹ پگھل رہے ہوں!‘‘ چاٹ کے ہر تازہ لقمہ کے ساتھ وہ اپنے کالج کی لڑکیوں کاکوئی نہ کوئی حسین حصہ نگل جاتا تھا۔ مس کلیانی کے ہونٹ، خالدہ کے دہکتے ہوئے گال، زرینہ کی حنائی انگلیاں۔۔۔
ظہیر کہتا ہے، ’’عورت شہد کی مکھی ہے۔ وہ زندگی کے خشک اور بے کار چھتے میں رس بھرتی ہے۔ اس کے زہریلے ڈنک پر نہ جاؤ۔ اس کی رسیلی مٹھاس دیکھو۔ تم نے نیلما کو دیکھا ہے؟اندرسین ڈسپیچر کی بیوی۔ وہ پاجی اسی دفتر میں گمنام سا امیدوار تھا۔ لیکن نیلما کی رعنائیوں نے دفتر کی شاہراہ پر رنگین جال بچھا دیے۔ آفس کا ایک دل پھینک ناخدا زیر دام آ گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اندرسین چوبیس امیدواروں کو پھلانگتا ہواڈسپیچری کی کرسی سنبھال بیٹھا۔
ہائے عورت کی نگاہ!میرے بھائی، اس کی نگاہ سے زنجیریں کٹ جاتی ہیں۔ نگاہ مرد مومن کی تلاش کون کرے؟ذوقِ یقیں کا سودائی کون بنے؟دنیا ہے تو عورت کی گود میں۔ عقبی ہے تو اس کی مسکراہٹ میں۔ میں دیکھتا ہوں کہ اب اندرسین ہیڈ کلرکی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ نیلما کی بلوری گردن میں اب پھر لطیف خم پیدا ہو رہے ہیں۔ خدا کی قسم اس سنہری گرداب میں بے تکلف کود جاؤ۔ ایک بچاری ہیڈ کلرکی کیا چیز ہے۔ تم میری مانو تو اس مرمریں گردن کے ایک حلقے پر دفتر کی ساری کائنات اندرسین کو سونپ دو۔۔۔ ہائے کیا لوچ ہے ظالم کی گردن میں۔۔۔ جیسے عمر خیام کی رباعی تھرک تھرک کر ناچ رہی ہو۔۔۔‘‘
ظہیر میں یہی ایک بڑا عیب ہے۔ وہ عورت میں عورت کو نہیں دیکھتا۔ وہ عورت میں اس کا جسم ٹٹولتا ہے اور پھر جسم میں بلوری گردنوں، ناچتی ہوئی آنکھوں اور دھڑکتے ہوئے سینوں کا جائزہ لیتا ہے۔ اسی پر بس نہیں۔ وہ جسم کی ہر رعنائی، حسن کے ہر پیچ، سینے کے ہر نشیب و فراز کو بیوپاری کی نظر سے ناپ تول کے ان پر قیمتوں کے لیبل لگا دیتا ہے۔ نیلما کے گردن کے خم کی قیمت میرے دفتر کی ہیڈ کلرکی ہے۔ صادقہ اس کی بیوی ہے لیکن ظہیر کہتا ہے کہ صادقہ کی گھنی اور گنگھریالی زلفوں یی قیمت چالیس روپے ماہوار ہے۔ چنانچہ پہلی تاریخ کو وہ اپنی ساری تنخواہ صادقہ کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔ جب کبھی دفتر میں اس کی مٹھی معمول سے زیادہ گرم ہوجائے تو وہ اپنا غبار ہلکا کرنے کے لیے چھمی جان یا گلزار بیگم یا رتنا بائی کے کوٹھے میں پناہ لیتا ہے۔ چھمی جان تین روپے، گلزار بیگم پانچ روپے، رتنا بائی دس روپے۔۔۔ کیونکہ اس کے گال پر ایک ننھا سا تل ہے۔ اس کے عنابی ہونٹوں میں پکے ہوئے انگوروں کا رس چھلکتا ہے۔ ایک دن وہ گوراں کے چوبارے میں گیا۔ اس کی جیب آسودہ تھی۔ اس نے ایک ایک روپے کے بیس نوٹ گوراں کے سامنے بچھا دیے۔
گوراں نے کہا، ’’آپ یہ نوٹ اپنے ہی پاس رکھیں۔ آپ میری قیمت نہیں دے سکتے۔‘‘
ظہیر نے سوچا، وہ بن رہی ہے۔ اس نے گوراں کو اسی قیمت پر چکایا تھا، اس نے اپنا بٹوہ نکال کر ہوا میں اچھالا اور فخر سے بولا، ’’مانگو، کیا مانگتی ہو جانِ تمنا!‘‘ آج تمہارا ظہیر خوش حال ہے۔
گوراں نے ایک تھکی ہوئی انگڑائی لی، ’’ظہیر صاحب، میں روز روپیہ کماتی ہوں۔ آپ روز روپیہ لٹاتے ہیں۔ لیکن کیا ممکن ہے کہ آج ایک لمحہ کے لیے آپ مجھے گوراں نہ سمجھیں، ایک عورت سمجھیں۔۔۔ ایک لمحہ کے لیے آپ گاہک نہ بنیں، ایک مرد بن جائیں۔ بس ایک دو بے لوث لمحے میری حیات کو جاوید کردیں گے۔‘‘
ظہیر بہنے لگا۔ وہ اُلو کا پٹھا کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔ وہ گوراں کے کھوئے ہوئے اضطراب کو سراہتا رہا۔ اس نے زبردستی اسے بیس روپے دیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ازل سے گوراں کی تعمیر میرے لیے ہوئی تھی۔ کائنات میں اس کا وجود میرے وجود کا عکس تھا۔ لیکن جب ہم ملے تو ہمارے درمیان ایک وسیع اوربھیانک خلا، منہ پھاڑے کھڑا تھا۔
وہ اپنے چھبیسویں سال میں ہے، پچھلے تیرہ برس سے وہ ہر روز بکری کے گوشت کی طرح بکتی رہی ہے۔ سیکڑوں، ہزاروں انسان اپنی پشت ہا پشت کی کیچڑ اس پر اچھال چکے ہیں۔ بنی نوع انسان کی صدیوں کا سیہ کار زہر گوراں کی رگ رگ میں سمویا ہوا ہے۔ ایک قاتل بیماری کے انگارے اس کے خون میں چٹک رہے ہیں۔ اس کی گلاب کی پتیوں جیسی ملائم اور مشک بار جلد کے نیچے بڑے بڑے گھاؤ ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہے کہ محبت کے بے لوث لمحے، اس کی حیات کو جاوید کردیں گے۔
میں نے کہا، ’’گوراں!اگر کائنات کے آخری کنارے پر بھی ہوتی، تو میں ارض و سما کی وسعتیں پھاند کر تیرے پاس پہنچ جاتا۔‘‘
اس کا جسم بے داغ جسم نہیں، اس کا جسم پامال جسم ہے۔ پھول کی طرح پامال نہیں جو پاؤں کے ایک ہی دباؤ سے ٹوٹ کر مرجاتا ہے۔۔۔ بلکہ سڑک کی طرح جس کی چھاتی پر بھک بھک کر تا ہوا سٹیم رولر ادھر سے ادھر ریلتا جائے۔۔۔ پیدل چلنے والے جوتیاں چٹخاتے گزرتے جائیں۔ ٹم ٹم اور ٹانگے چخ چخ کرتے نکلتے جائیں۔ موٹریں گرد اڑاتی بھاگتی جائیں، سڑک گھسٹتی جائے۔ پتھر ٹوٹتے جائیں۔ لیکن گزرنے والے گزرتے رہیں۔ چلنے والے چلتے رہیں اور پھر میونسپلٹی کا اسٹیم رولر بھک بھک کرتا ہوا آئے۔
گوراں میں یہ بات تھی کہ وہ اپنے خوب صورت جسم کو میونسپل کمیٹی کی پختہ سڑک کی طرح بچھا کر آپ ایک طرف کھڑی ہوجاتی تھی۔ پیدل چلنے والوں کی طرح تھکے ہوئے کلرک، موٹر کی طرح سبک رفتار چھوکرے، اسٹیم رولر کی طرح بھبھکتے ہوئے موٹے موٹے سیٹھ۔۔۔ یہ آئے وہ گئے! یہ گرے وہ پھسلے! یہ بیٹھے وہ بھاگے۔۔۔ اور گوراں کنارے کھڑی مسکراتی رہتی تھی۔ گوراں اور گوراں کے جسم کے درمیان ایک زبردست دیوار چین حائل تھی۔ اس دیوار کی بنیاد ایک ننھی سی آرزو پر قائم تھی۔ وہ آرزو دنیا کے خزانوں سے موتی یا ہیرے یا ریشم کے انبار نہیں مانگتی۔ وہ زندگی کے نام پر دو بے لوث لمحوں کی خیرات چاہتی تھی۔ دو چھوٹے چھوٹے دھڑکتے ہوئے لمحوں کی خیرات چاہتی تھی۔ دو چھوٹے چھوٹے دھڑکتے ہوئے لمحے جو اس کی کھرڑ کھرڑ چلتی ہوئی پن چکی کو جاودانی سکون دے سکتے تھے۔
ظہیر کہتا ہے، ’’عورت شہد کی مکھی ہے۔ وہ زندگی کے خشک اور بے کار چھتے میں رس ٹپکاتی ہے۔‘‘ ظہیر بکتا ہے۔ وہ رتنا بائی کے ہونٹوں کی مٹھاس پر اپنا فلسفہ جماتا ہے۔ صادقہ کی موسیقار آنکھوں سے اپنے مقولے چراتا ہے۔ سور کہیں کا۔ ان دو سوتیلی بہنوں کے سستے اشتہار نے اس کو اندھا کردیا ہے۔ اور وہ ایسی مکھیوں کے چھتے نہیں دیکھ سکتا جو رس دیتی نہیں، رس لیتی ہیں۔ رس چوستی ہیں۔ رس چراتی ہیں۔۔۔ بیگم ستار کی طرح، جو بھری محفل میں اپنی جوان چھوکری کو ننگا کر کے بٹھا دیتی ہے۔ ’’آہا بیٹا۔ میری ثروت سے ملو۔ ثروت بڑی شرمیلی لڑکی ہے۔‘‘ اور پھر وہ قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبان، اشاروں ہی اشاروں میں شرمیلی ثروت کی ریشمی ساڑی اورپتلا بلاؤز اتار کر رکھ دیتی ہے۔
یہ ثروت کی صراحی دار گردن ہے۔ یہ رہے ثروت کے مرمریں کہستان۔ یہ ہے ثروت کی لچکیلی کمر۔۔۔ کوئی دل ہی دل میں بول دیتا ہے۔ شرمیلی ثروت ایک، شرمیلی ثروت دو شرمیلی ثروت تین۔۔۔ قیمت ساڑھے بارہ سو روپے ماہوار۔۔۔ گوراں بھی یوں ہی بکتی آئی ہے۔ لیکن گوراں کا نام سنتے ہی بیگم ستار کو غش آجائے۔ حاجی عثمان کی بھنویں تن جائیں گی۔ ڈاکٹر رحیم کے ہونٹ بھینچ جائیں گے اور غالباً انھیں وہ امید افزا لمحے بھی یاد نہ رہیں گے جب وہ انشورنس پالیسی بیچنے والوں کی طرح شادی کا بیمہ کر کے اپنی لاڈلی بیٹیوں کو مکلف شبستانوں کے اندرڈھکیل دیتے ہیں۔ ثروت، مجیدہ، زہرہ، خورشید، نجمیٰ، عفت۔۔۔
سب خوش گوار لڑکیا ں ہیں، حسین، بے حد حسین ستاروں کے جھرمٹ کی طرح، جو نیلے آسمان کے درمیان جگمگا رہے ہوں۔ ان کے مہکتے ہوئے لچکیلے جسم۔۔۔ او میرے خدایا! ان کے مہکتے ہوئے لچکیلے جسموں میں چاند اور سورج اور کہکشاں نے اپنا سرمایہ لٹا کے رکھ دیا ہے۔ ان کی نشیلی اور بلیغ آنکھوں میں بڑے بڑے خوش آئند پیام جھلکتے ہیں۔ لیکن ان کی تمناؤں کی معراج مستقبل کے سہانے سپنوں میں ہے۔ وہ آنے والے کل کا انتظار کر رہی ہیں۔ کیونکہ انھیں اپنے ہوش ربا حسن کا خرچ وصول کرنا ہے۔ آراستہ بنگلے، چمکیلی گاڑیاں، بھڑکیلے لباس۔ میں ڈرتا ہوں کہ شاید وہ اپنے مصروف لمحوں میں سے ایک بے لوث لمحے کی زکوٰۃ دے سکیں گی۔
میں نے ظہیر کی خوشامد کی، کہ دوست! تم گوراں کی زندگی کو جاوید نہیں کرسکتے۔ خدا کے لیے اسے میرے پاس لے آؤ۔ دنیا کی ساری آبادی میں ایک وہ میری مقدس امانت ہے۔ مقدس؟ ارے توبہ توبہ! ظہیر کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے، تم نہیں جانتے گوراں کو، اس کے جسم میں اتّے اتّے لمبے جراثیم ہیں۔ گلتے ہوئے، زہریلے مہلک کیڑے۔۔۔ تم مقدس کہتے ہو، اس سڑی ہوئی لاش کو۔۔۔
میں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ظہیر کے منہ پر زور کا تھپڑ مارا۔ اس کے نچلے جبڑے کا ایک دانت کٹاک سے ٹوٹ کر قالین پر جاگرا۔ ظہیر نے گرم گرم سرخ سرخ خون کی ایک کلی غٹ سے نگل لی۔۔۔ اور اگلے روز گوراں کو لے کر آیا۔ وہ آئی جھجکتی ہوئی، لجائی لجائی سی۔ جیسے زندگی کے طوفان میں کہیں دور افقی لکیر پر ایک روشنی کا منار آہستہ آہستہ ابھر رہا ہو۔
ایک دن میں نے کہا، ’’گوراں، تمہارا چوبارہ تمھیں زیب نہیں دیتا۔ تم اپنے بالا خانے کے پٹ مقفل کردو۔‘‘
گوراں حیران سی ہوگئی۔ اس کے خوش نما ہونٹ تعجب سے کھل گئے، ’’کیوں؟‘‘ وہ بولی۔
میں نے کہا، ’’گوراں تمہارا وجود معمولی سطحوں سے بہت بلند ہے۔ تم بالا خانے کی کھڑکی میں بیٹھنے والی گوراں نہیں ہو۔ تم کسی کے خوابوں میں بسنے والی عروسانہ تکمیل ہو۔ اگلے مہینے ہم دونوں نیل گری کی شاداب پہاڑیوں پر جانے والے ہیں۔‘‘
میں تم کو کوہ نور کے سینے ٹوریم میں داخل کرادوں گا۔ سینے ٹوریم کا بڈھا سپرنٹنڈنٹ میرا دوست ہے۔ وہ تمہارے خون کے قطرے قطرے کو زہریلی چنگاریوں سے پاک کردے گا۔ تمہاری نس نس میں جو دہکتے ہوئے گھاؤں ہیں، وہ بھر جائیں گے۔ تمہارے من کو جو گھن کھارہا ہے، وہ مٹ جائے گا۔‘‘
’’تم سچ کہتے ہو۔‘‘ گوراں نے کہا، ’’لیکن میں تمہارے ساتھ نہیں جاسکتی۔ میرے بالا خانے کے پٹ میری روزی کا راستہ ہیں۔ میں انھیں کیسے بند کرسکتی ہوں بھلا؟‘‘
مجھے گوراں کی جہالت پر غصہ آگیا۔ میں نے اس کی گھنی زلفوں کا گچھا بناکر اس کے منہ پر بہت سے کوڑے مارے، ’’تم اپنے بالا خانے سے اپنی روزی کا سہارا نہ لو، گوراں، کیا سچ مچ تم سمجھتی ہو کہ میں ساڑھے بارہ سو مہینہ صرف اپنے لیے کمار رہا ہوں۔‘‘
گوراں کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اس کی آنکھوں میں تیز تیز شعاعیں پھیلیں اوربکھر گئیں۔ اس کا اوپر والا دانت کھچ سے نچلے ہونٹ میں دھنس گیا اور پھر یکایک دو چار وحشی جھٹکوں کے ساتھ اس نے اپنی احمری ساڑی کو تار تار کر کے رکھ دیا۔ پلک جھپکتے میرے سامنے گوراں نہ تھی، اس کا جسم تھا۔ خوبصورت، مرمریں ستار کے تاروں کی طرح کسا ہوا۔ جھنجھناتا ہوا جسم۔
’’تم میرے سب سے بڑے گاہک ہو۔‘‘ وہ میرے ساتھ لپٹ کر مجھے ہاتھوں سے نوچنے لگی۔ گوراں کی قیمت بیس ٹکے رات۔ تم اسے ساڑھے بارہ سو مہینے پر چکا رہے ہو۔ تم میرے سب سے بڑے گاہک ہو۔ مجھے اپنا شکریہ ادا کرنے دو۔ اس کے لانبے لانبے سرخ ناخن کئی جگہ میرے جسم میں کھپ گئے۔ ایک خون آشام نظر اس نے چاروں طرف دوڑائی۔ میز کے اُگالدان کو اٹھاکر زور سے جھٹکا دیا۔ اپنی ساڑی کے الجھے ہوئے ٹکڑوں کو سمیٹا اورآہستہ آہستہ چلی گئی۔ جیسے دور سے جھلکنے والا روشنی کا مینار سمندر کی لہروں میں غرق ہوجائے۔ گوراں کی سسکیوں میں لپٹی ہوئی ایک آواز رو رہی تھی، ’’تم میرے سب سے بڑے خریدار ہو۔ تم بھی مجھے زندگی کا ایک بے لوث لمحہ نہ دے سکے۔‘‘
مایوس، غمدیدہ، بیزار گوراں فٹ پاتھ پر ہولے ہولے جارہی ہے۔ جانے و۔ وہ اپنے جسم کی مالک ہے۔ شاید اگلے موڑ پر کوئی گزرتا ہوا راہ رو اسے خرید لے گا۔۔۔ خریدنے دو مجھے اس پر کوئی اختیار تو نہیں۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.