تماشا
وہ ادھیڑ عمر آدمی بڑی دیر سے کسی سایہ دار پیڑ کی تلاش میں ہے۔ اس کاآٹھ سال کا لڑکا بڑے تھکے تھکے قدموں سے باپ کے پیچھے چل رہا ہے۔ اس کے گلے میں ایک چھوٹا سا ڈھول پڑا ہوا ہے جسے وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہتھیلیوں سے پیٹتا ہے۔ جب بھی کوئی پیڑ نظر آتا ہے، وہ بڑی ترستی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھتا ہے۔۔۔ شاید باپو اس کے نیچے ٹھہر جائے۔ لیکن نہیں، پیڑ بڑا ہے تو سایہ دار نہیں۔ اگر سایہ دار ہے تو چھوٹا ہے، مجمع لگانے لائق نہیں۔
باپ نے سرپر بڑی سی پگڑی باند ھ رکھی ہے۔ اس کے لٹکتے ہوئے سرے سے وہ بار بار منھ اور گردن پونچھتا ہے۔ ان کے پیچھے پیچھے لڑکوں کاایک جھنڈ چلاآرہا ہے۔ باپ بار بار پیچھا کرتے لڑکوں کو دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ کھیل تماشا دیکھنے والے یہ چھوٹے چھوٹے تماشائی ہی بھیڑ بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔
ابھی صبح کے دس ہی بجے ہیں، لیکن سورج، گرمیوں کا سورج، فوج کے کسی ہراول دستے کے سپہ سالار کی طرح اوپر چھلانگ لگاکر چڑھ آیا ہے۔ سورج چاروں طرف بڑی دیر سے تیکھی اور گرم کرنوں کی برچھیاں اور کرچیں برسا رہا ہے۔ چھوٹے لڑکے کے گلے میں پڑی ڈھول کی رسی پسینے سے بھیگ گئی ہے اور اس کی گردن میں اور سینے میں خارش پیدا کر رہی ہے۔ اس کے گال پچکے ہوئے ہیں اور سر کے باریک، مشین کے کٹے چھوٹے چھوٹے بال خاردار جھاڑیوں کی طرح کھڑے ہیں۔ سورج کی بے رحم گرمی نے اسے بھون ڈالا ہے، چھیل ڈالا ہے۔ پچھلے کئی منٹوں سے اس نے ڈھول پر تھاپ نہیں دی ہے۔ باپ کسی جنگلی سور کی طرح گردن کو تھوڑا ٹیڑھا کرتا ہے اور تیکھی آواز میں کہتا ہے، ’’ڈھول تیرا باپ بجائے گا کیا؟‘‘
بڑی مشینی حرکت سے لڑکا دونوں ہاتھوں سے ڈھول کو پیٹنا شروع کردیتا ہے۔ سپہ سالار سورج اس چھوٹے سے نقارے کی آواز سن کر تھوڑا اور اوپر اٹھ آتا ہے، حملہ آور کی طرح، لڑکے کے چہرے کے بالکل سامنے، تیز، چمک دار اور لپلپاتے ہوئے شعلوں کی طرح۔
سامنے نیم کاایک برا سا پیڑ ہے۔ اس کے آس پاس کچھ ریڑھی والے ہیں، کچھ کھوکھے اور چند پکی دکانیں۔ باپ کے قدموں کو اس طرف بڑھتا دیکھ کر لڑکے کی پتلی لکڑیوں جیسی ٹانگیں آخری ہلہ مارتی ہیں اور وہ چھوٹی سی دوڑ لگاکر باپ سے آگے نکل جاتا ہے۔ پیڑ کے نیچے پہنچتے پہنچتے وہ گلے میں پڑا ڈھول اتار دیتا ہے پیڑ کے تنے سے ٹیک لگاکر تیزی سے پھیپھڑوں میں ہوا بھرنے لگتا ہے۔ پیچھے آتا بچوں کا غول اب اس کے آس پاس گھیرا ڈال کر کھڑا ہے۔ لیکن وہ کسی طرف بھی آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتا۔ یہ تو ان کی زندگی میں روز ہی ہوتا ہے۔
آنے والے تماشے کے سارے منظر اور ان کے کٹے ہوئے ٹکڑے لڑکے کے دل و دماغ میں پہلے ہی سے موجود ہیں، اس لیے دوسرے لڑکوں کی طرح اسے اس تماشے کے لیے کوئی بے تابی ہے اور نہ اس میں کوئی لطف ہے۔ اب وہ اپنے ہونٹوں پر بار بار زبان پھیر رہا ہے اور کسی ڈرے ہوئے چوہے کی طرح گردن موڑ کر ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ کہیں کوئی نل یا پمپ دکھائی نہیں دیتا۔ باپ کی طرف دیکھتا ہے، وہ بڑی سی گٹھری کو کھول رہا ہے، تماشے کا سازو سامان باہر نکالتا ہے۔ باپ سے پانی کے لیے کہے یا نہ کہے؟ پھر وہ باپ سے کچھ نہ کہنے کافیصلہ کرلیتا ہے۔ چولہے میں جلتی لکڑی، باپ کا اسے کھینچ کر باہر نکالنا، اور ہوا میں اپنے بچاؤ کے لیے اٹھے ہوئے ماں کے دونوں ہاتھ۔۔۔ یہ سارے کے سارے تازہ منظر اس کے ذہن پر نقش ہیں اور اسے خوف زدہ کردیتے ہیں۔
باپ نے پیڑ کے نیچے سفید چادر بچھادی ہے۔ لڑکے کی طرف اس کی پیٹھ ہے لیکن اسے صاف محسوس ہوتا ہے کہ دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں اس کی پیٹھ میں سوراخ کیے ڈال رہی ہیں۔ کسی جانور کی طرح آس پاس کے ماحول کا عادی ہونے، کسی کی موجودگی کو محسوس کرنے کی صلاحیت اس کی گردن کو لڑکے کی طرف موڑ دیتی ہے۔
’’کیسے مردوں کی طرح بیٹھا ہے۔ باپ مر گیا ہے کیا؟ ہیں؟ اٹھ! سامان چادر پر رکھ!‘‘
اس کی تیز آواز کو سن کر آس پاس کھڑے لڑکے سہم کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
’’پانڑی پینڑا ہے۔‘‘ (پانی پینا ہے۔)
’’تو اٹھ۔ جاکر پی لے۔ کسی ریڑھی والے سے مانگ لے۔ تیرا باپ کنواں کھدوادے کیا؟ حرام دا بیج! ماں کی طرح نخرے کیا دکھاتا ہے؟‘‘
لڑکاکسی مریل کتے کی طرح کمر کا سارا زور ٹانگوں پر ڈالتا ہے۔ دھیرے دھیرے چلتی کسی فلم کی طرح اس کا جسم ٹکڑوں میں ہلتا ہے اور وہ پاس کھڑی کلچوں چھولوں کی ریڑھی کی طرف بڑھ جاتا ہے۔
اسے یاد آتا ہے کہ سال بھر پہلے پانچ روپے میں چیتے کا یہ سر بوڑھے مداری سے خریدا تھا۔ بار بار ہاتھ لگنے سے اس مردہ سر کے بال جھڑگئے ہیں، سوکھے ہوئے جبڑوں میں سے تیز نکیلے دانت باہر نکل آئے ہیں، آنکھوں کی جگہ نیلے بلور ہیں جو ایک مری مری بے رحمی سے اسے گھور رہے ہیں۔ چیتے کامرا ہوا منھ کھلا ہے۔ اس کی نگاہ اس اندھیری وادی کی طرف اٹھ جاتی ہے اور گھر والی کا بیمار لیکن غصے سے بھرا ہوا چہرہ غراتا ہے، دہاڑتا ہے اور اس کی طرف جھپٹ پڑنے کے لیے چھلانگ لگاتا ہے۔ وہ ڈر گیا ہے، جھٹکے کے ساتھ مرے ہوئے سر کو سفید چادر کے نیچے رکھ دیتا ہے۔ چولہے میں سے کھینچی ہوئی جلتی لمبی لکڑی اور اپنے بچاؤ کے لیے اٹھتے گھروالی کے دونوں ہاتھ چیتے کے منھ سے نکل کر اس پر حملہ کردیتے ہیں۔
اس شہر میں آئے ہوئے انہیں تین دن ہوگئے ہیں۔ شہر سے باہر بڑی سڑک کے کنارے اس نے اپنا تمبوتانا۔ چھوٹا لڑکا آس پاس گھوم کر سوکھی ٹہنیاں چن لایا تھا۔ گھروالی چار اینٹوں کا چولہا تمبو کے باہر بنالیتی ہے۔ وہ بیٹھا چلم پی کر تھکن اتارتا ہے۔ گھر کی کل کائنات۔۔۔ لوہے کا بڑا سا ٹرنک، تماشا دکھانے کا سامان اور جانوروں کے کٹے ہوئے سر۔۔۔ یہ سب کچھ اٹھاکر اسے پیدل چلناہوتا ہے۔ اس لیے تمبو تاننے کے بعد وہ دوسرا کوئی کام نہیں کرتا۔ گھر کے تینوں افراد کاکام بٹا ہوا ہے۔
اس کی، اس کے لڑکے اور گھروالی کی زندگی شہر شہر پھیری لگاتے ہوئے بیتی جارہی ہے۔
مختلف شہروں میں تین چار بار تماشا دکھانے کے بعد انہیں اگلے سفر پر روانہ ہونا ہے، کیوں کہ تماشائی بہت جلد ختم ہوجاتے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے، گھنٹوں گلاپھاڑنے کے باوجود، چھوٹے چھوٹے کرتب دکھانے کے بعد بھی، تینوں آدمیوں کاپیٹ بھرنا دشوار ہوتاجارہا ہے۔ لوگ شاید تماشا دیکھنے ہی کے لیے جیب میں نیا پیسہ ڈال کر لاتے ہیں۔ اور پھر بھیڑ کو بھی کڑے وقت نے چالاک اور زمانہ شناس بنا ڈالا ہے۔ سانپ اور نیولے کی لڑائی کے آخری منظر کے ساتھ تماشا ختم ہونا ہے، لوگ اس موقعے کے آتے ہی دھیرے دھیرے کھسکنا شروع کردیتے ہیں۔ بچے ہوئے چند لوگ بڑی بے دلی سے چند سکے پھینک کر اپنی راہ لیتے ہیں اور اگلے دن کی بھوک کا دیواس کی گردن کو جانگھوں کے بیچ دبوچ کر بیٹھ جاتا ہے۔ شہر شہر، بھوک اور خالی پیٹ کاسفر۔ بھوک کایہ عفریت کسی بھی شہر میں دم نہیں لینے دیتا، کسی گھڑسوار کی طرح لوہے کے نوک دار جوتے سے مسلسل ایڑلگاتا رہتاہے۔
پہلی شام گھروالی نے لوہے کا ٹرنک کھولا۔ چھوٹی سی پوٹلی باہر نکالی۔ اسے کھولا تو صرف پاؤ بھرآٹا نکالا۔ دودو روٹیاں ان کے حصے میں آئیں اور ایک لڑکے کے۔ اس نے چارنوالوں میں روٹی ختم کردی، ماں کو گھور کر دیکھا اور بولا، ’’روٹی اوردے!‘‘
’’بس ختم۔ اپنے حصے کی تونے کھالی۔‘‘
’’نہیں ابھی بھُکّا ہوں۔ اور کھاؤں گا۔‘‘
’’بک بک مت کر۔ سُندانئیں؟ روٹی ختم ہے۔‘‘
لڑکا ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ کوئی چیز اٹھا کر ماں کو مارنا چاہتا تھا، لیکن باپ کی گھورتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر اس نے ارادہ بدل دیا۔ وہ تمبو کے باہر آگیا۔ اناج کی خوشبو پاکر ایک مریل سا کتا منتظر آنکھیں لیے تمبو کے ساتھ آبیٹھا۔ لڑکادبے پاؤں کتے کے پاس سے گزرا۔ تھوڑی دور جاکر اس نے اینٹ کا ایک چوکور ٹکڑا تلاش کرلیا۔ ہاتھ ہوا میں لہرا کر دوبار نشانہ لگایا، پھر پوری طاقت سے اینٹ کا ٹکڑا کتے کی گردن پردے مارا۔ پیں پیں کی آواز کے ساتھ کتا اچھلتا ہوا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ دورجاکر بھی تمبو کی طرف منھ کرکے ماحول کو بوجھل کرتا رہا۔ لڑکے کا غصہ اور بھوک دونوں ختم ہوگئے ہیں۔ اس کے تصور میں اس وقت کتا نہیں، ماں ہے، جس کی گردن پر روٹی نہ دینے کے جرم میں عذاب جاتا ہے۔
صبح ہونے پر گھروالی نے ٹرنک کے کونے سے ایک میلا کچیلا نوٹ نکال کر اسے دیا۔ آٹا لانے کو کہا۔ وہ شہرکی طرف چل پڑا۔ کیسے دن آگئے ہیں! وہ چھوٹا تھا تو جمورا بن کر اپنے مداری باپ کے ساتھ جایا کرتا تھا تماشا دکھانے۔ لوگ تماشا دیکھتے تھے اور بڑی فراخ دلی کے ساتھ سکے پھینکتے تھے۔ اسے آج بھی یاد ہے، سفید چادر بکھرے ہوئے سکوں سے اٹ جایا کرتی تھی۔ واپسی پر باپ اسے گڑ کی بنی ریوڑیاں خرید کر دیاکرتا تھااور خود شراب پی کر مستی کے عالم میں ایک ہاتھ کان پر رکھ کر ہیر گایا کرتا تھا۔ اور اب؟ آٹے کے لیے پیسے پورے نہیں پڑتے، لڑکااور روٹی مانگتا ہے، گھر والی طعنے دیتی ہے، گالیاں دیتی ہے اور وہ اسے پیٹتا ہے۔
بازار میں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ ساری کی ساری دکانیں خالی پڑی ہیں۔ کہیں کوئی گاہک دکھائی نہیں دیتا۔ خریدنے کے لیے لوگوں کے پاس کچھ بچتا ہی نہیں۔ اپنے میلے کپڑوں، تیل چپڑے بالوں اور پھٹے حال ہونے کی وجہ سے اسے ہمیشہ دکانوں میں گھسنے سے ڈرلگتاہے۔ وہ اب تک بازار کے تین چکر کاٹ چکا ہے۔ کسی سے آٹے کی دکان کا پتا پوچھتے ہوئے ڈر رہا ہے۔ آخر ہمت کرکے ایک رکشا والے کے پاس ٹھہرتاہے۔
’’آٹا کہاں ملے گا؟‘‘
’’کیا کہا، آٹا؟ جابھائی، اپنا راستہ پکڑ! کیوں سویرے سویرے مخول کرتا ہے۔‘‘
اسے بڑی حیرانی ہو رہی تھی۔ آٹا خریدنے کی بات کو یہ آدمی مخول کیوں کہہ رہا ہے؟ لوگوں کو کیا ہوتا جارہا ہے؟ رکشا والابجھی ہوئی بیڑی کو پھر سے جلاتا ہے، اس کے چہرے پر چھائی پریشانی اور بدحواسی کو دیکھتا ہے اور دانتوں سے بیڑی کا ایک سراکاٹ کر کہتا ہے، ’’اس شہر میں آٹا نہیں ملتا۔‘‘ اب وہ منھ کھول کر رکشا والے کی طرف دیکھ رہا ہے۔ سوچ رہاہے، کیا زمانہ آگیا ہے۔ غریب بھی غریب کا مذاق اڑانے لگ گیا ہے! وہ ہار مان گیا۔ سرجھکائے کھڑا ہو رہا۔ رکشا والا جھٹکے سے بیڑی سڑک کے بیچ پھینک کر کہتا ہے، ’’بھائی، میں سچ کہہ رہا ہوں۔ اب تمہیں کسی بھی دکان پر آٹا نہیں مل سکتا۔ آٹا بیچنے اور گیہوں خریدنے کا کام اب سرکار کے ہاتھوں میں ہے۔ ہاں، اگلی گلی کے اندر مڑجاؤ۔ سرکاری راشن کی دکان ہے۔ قسمت ہوگی تو مل جائے گا۔‘‘
وہ اسے کوئی جواب دیے بغیر گلی کے اندر مڑجاتا ہے۔ دکان سامنے ہی ہے، لیکن بہت لمبی لائن ہے۔ وہ بھی اس میں لگ جاتا ہے۔ لوگوں کے چہروں پر اتنی گرمی میں انتظار کرنے پر بھی کہیں غصہ یا بے چینی نہیں۔ صبر اور اطمینان تو غریب لوگوں کا گن ہی ہے۔ لگ بھگ دو گھنٹے بعد وہ دکان کی دہلیز پر پاؤں رکھ پاتا ہے۔ دکان دار اس کی طرف ہاتھ بڑھاکرکہتا ہے، ’’کارڈ؟‘‘
وہ چونک پڑتا ہے۔ خوف زدہ ہوکر ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ پھر روپے کا نوٹ نکال کر آگے بڑھاتا ہے۔
’’اوئے پہلے کارڈ دے!‘‘
’’کارڈ؟ کارڈ؟ میرے پاس نہیں۔‘‘
دکان دار پہلے ہی سے جھنجھلایا بیٹھا ہے۔ تیکھی آواز میں کہتا ہے، ’’چل ہٹ، نکل باہر! سرکاری دکان ہے سرکاری! آجاتے ہیں منھ اٹھائے۔ پرے ہٹ، اوروں کو آنے دے۔ یہاں آٹا واٹا نہیں ہے۔‘‘
اس کے پیچھے لائن میں لگے لوگ بے چین ہو رہے ہیں۔ وہ نظر گھماکر چاروں طرف مدد کے لیے دیکھتا ہے، لیکن اس کی نظر پڑتے ہی لوگ دوسری طرف منھ پھیر لیتے ہیں، جیسے انہیں پتا ہو کہ وہ سب کوئی پاپ کررہے ہیں۔ اور تب اسے اپنی گھر والی اور لڑکے کے خالی پیٹ کادھیان آیا۔ امید ٹوٹ جائے تو خوف بھی جاتا رہتا ہے۔ وہ ویسے بھی غصیلی طبیعت کا آدمی ہے۔ اب وہ سورج کی تیز گرمی، دوگھنٹے کے انتظار، سرکاری راشن کی دکان، ان سب سے بدلہ لینے پر اترآیا ہے۔ تماشا کرنے میں لگاتار بولنے کی وجہ سے ویسے بھی اس کی آواز اونچی ہے۔ وہ ہاتھ جھٹکا کرکہتا ہے،
’’نہیں دے گا؟ کیسے نہیں دے گا؟ تیرے باپ کی دکان ہے کیا؟ سالے، سرکاری دکان ہے! سرکار کس کی ہے؟ تیرے پیودی؟ ایک روپے کا آٹا تول دے۔ نئیں تو تو اسپتال پہنچے گا اور میں جیل۔‘‘
دکان دار سکڑ کر پیچھے ہوگیا ہے۔ لوگ اب اس کی مدد کو بڑھ آئے ہیں۔ کسی ہمدردی کی وجہ سے نہیں، اس ڈر سے کہ کہیں جھگڑا بڑھ گیا، دکان بند ہوگئی تو انہیں آج راشن نہیں ملے گا۔ ملی جلی آوازیں آئیں، ’’ارے بھائی، تھوڑا سا آٹا دے دو۔ ان پڑھ گنوار ہے، اسے کارڈ کا کیا پتا۔ لگتا ہے کئی دنوں کا بھوکا ہے۔ غریب کو کھانے کو نہ ملے تو تنگ آکر دنگا کردے گا۔ جی ہاں، خون خرابہ کرے گا۔۔۔‘‘
دکان دار نے روپیہ لے کر اسے تھوڑا سا آٹا دے دیا۔ وہ دوپہر بعدگھر پہنچا۔ گھر والی نے روٹیاں بنائیں، تینوں نے چپ چاپ کھالیں۔ اگلے دن کی بھوک کا دیو پیچھے کی طرف سے چھلانگ لگا کر پھر اس کی گردن پرسوار ہوگیا۔ صبح اٹھ کراس نے مجمع لگانے کا سارا سامان اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ لڑکا چپ لیٹا باپ کو کام کرتے دیکھ رہا ہے۔ کبھی کبھی وہ ٹھنڈے چولھے کی طرف بھی دیکھ لیتا ہے۔ ماں اس کی نگاہوں کا مطلب سمجھ جاتی ہے۔ ٹرنک کے کونے سے دوکاغذ کی پڑیاں نکالتی ہے۔ ایک میں چینی ہے اور دوسری میں تھوڑی سی چائے کی پتی۔ وہ چولہا جلاکر بغیر چینی کی چائے بناتی ہے اور پیتل کے گلاسوں میں ڈال کر باپ بیٹے کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ باپ گلاس اٹھاکر گھونٹ بھرنا شروع کردیتا ہے۔ بیٹا گلاس کی طرف ہاتھ تک نہیں بڑھاتا۔
’’اب کیا منتر پڑھ رہا ہے؟ چائے پی۔ کام پر چلنا ہے۔‘‘
’’نئیں جانڑا ہے۔ میں روٹی کھانڑی ہے۔‘‘ (نہیں جانا ہے۔ مجھے روٹی کھانی ہے۔)
’’توسیدھی طرح اٹھتا ہے کہ کروں چھترول؟‘‘
’’نئیں جاتا! نئیں جاتا!‘‘ اور لڑکے نے ہاتھ مار کر چائے نیچے گرادی۔ اس نے ہاتھ بڑھاکر لڑکے کے گلے میں پھندا پھنسادیا اور دوسرے ہاتھ سے اسے بے تحاشا پیٹنا شروع کردیا۔ گھروالی نے جھپٹ کر اسے دھکا دیا اور لڑکے کو اپنی پیٹھ کے پیچھے کرلیا۔
’’کھانے کو روٹی نہیں لاسکتا اور اوپر سے قسائیوں کی طرح لڑکے کو پیٹ رہا ہے۔ اتنا ہی شیر ہے تو ڈال کہیں ڈاکا۔ کاٹ لے کسی کی گردن۔ دے دے ہم دونوں کو زہر۔‘‘
’’میں کہتا ہوں پرے ہٹ جا! میں اس حرام کے بیج کی ساری اکڑ نکال دوں گا۔ دیکھوں کیسے نئیں جاتا کام پر۔‘‘
’’نہیں، ہٹتی، نہیں ہٹتی۔ کرلے جوکرنا ہے۔‘‘
اور پھر ہولے ہولے چیتے کے سر سے جیسے صبح کامنظر ابھرآیا۔ جلتاچولہا، جلتی ہوئی لکڑی کو کھینچتا ہوا اس کا ہاتھ ہوا میں لہرایا۔ گھروالی نے دونوں ہاتھ بچاؤ کے لیے اوپر اٹھادیے۔ ہاتھوں کے گھیرے کو توڑ کر گھروالی کے بائیں گال پر لکڑی کا وار۔ لمبی چیخ۔ لڑکے کاچپ چاپ کام کے لیے ساتھ نکل پڑنا۔ نیم کا پیڑ، آس پاس جمع ہوتی بھیڑ اور غراتا ہوا مردہ بھیڑیے کا سر۔
اب تک پچاس ساٹھ آدمی گھیرا ڈال کر کھڑے ہوچکے ہیں۔ اس نے زمین میں ایک لمبی سی کیل گاڑ کر، ٹوکری میں سے نیولا نکال کر رسی سے کیل کے ساتھ باندھ دیا۔ نیولا چھوٹے سے دائرے میں گھومتا ہے، ٹھہر کر سب طرف ٹکر ٹکر دیکھتا ہے۔ آگے بیٹھے لڑکوں میں سے کوئی ’’شی‘‘ کی آواز کرتا ہے اور نیولا پھر چھوٹے سے دائرے میں بے تحاشا گھومنا شروع کردیتا ہے۔ لوگ اندازہ لگالیتے ہیں کہ دوسری چھوٹی ٹوکری میں سانپ بند ہے۔ ان کے چہروں پر خوں خوار خوشی کی جھلک دوڑجاتی ہے۔۔۔ تو سانپ نیولے کی لڑائی دیکھنے کو ملے گی۔
لیکن تماشا شروع ہونے سے پہلے ایک سپاہی بھیڑ کو چیرتا ہوا اس کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔
’’چل اٹھا یہاں سے اپنا ٹین ڈبا! سالے، باپ کی سڑک سمجھ رکھی ہے کیا؟ سارا ٹریفک روک رکھا ہے۔‘‘
بھیڑ سے طرح طرح کی آوازیں آتی ہیں، ’’اجی غریب آدمی ہے۔ چھوڑدو۔ بچارے کو روٹی کے لیے پیسہ کمالینے دو!‘‘
پولیس والے کا مجمع لگانے سے روکنا اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ وہ بھیڑ کے شور شرابے کے بیچ ایک روپے میں سپاہی سے سودا پٹالیتا ہے۔ سپاہی سب سے آگے وی آئی پی کی جگہ حاصل کرکے کھڑا ہوجاتا ہے۔
وہ اپنی جیب سے میلا تاش نکال کر پتا چھپانے اور بتانے کا کھیل شروع کرتا ہے، لیکن لوگ اس کھیل کو دیکھنے میں کسی دل چسپی اور شوق کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ایک موٹی آواز اچھلتی ہے، استاد، چھوڑ یہ چالا کیاں! تیرے سے اچھا تاش کا کھیل میں دکھاسکتا ہوں کوئی نیا جوش پیدا کر، نیا!‘‘
اس کا لڑکاکبھی ڈھول پیٹ کر، کبھی سر کے بل زمین پرکھڑا ہوکر، لمبی لمبی چھلانگیں لگاتے ہوئے، بھیڑ کے لیے زیادہ تفریح کا سامان پیدا کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بھیڑ کے لیے ان پرانے کھیلوں میں اب کوئی کشش نہیں ہے۔ سب لوگ تھوڑا سا خون بہتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک کیں کیں کرتی بانسری نما آواز گونجتی ہے،
’’استاد، لڑائی دکھادے۔ دیکھ، آگ برس رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے چونچلے چھوڑ!‘‘
وہ سانپ والی ٹوکری پر سے ڈھکن اٹھاتا ہے۔ سانپ پھر بھی ہلتا نہیں۔ وہ لمبی سی چھڑی کا ٹہوکامار کر سانپ کو ہلاتا ہے۔ سانپ دھیرے دھیرے رینگ کر ٹوکری سے باہر آگیا ہے۔ وہ آواز لگاتا ہے، ’’مائی باپ، اب میں آپ لوگوں کو سانپ نیولے کی لڑائی دکھاتا ہوں! مائی باپ، بھوک سب کچھ کرنا سکھا دیتی ہے۔ مائی باپ، دیکھنا دونوں کیسے ایک دوسرے کو نگلیں گے۔ مائی باپ، بولو ایک بار سب مل کر۔۔۔ جے شنکر کی!‘‘
بھیڑ نے ایک آواز میں جواب دیا، ’’جے شنکر کی!‘‘
سانپ نیولے کے پاس جانے سے گھبرا رہا ہے۔ نیولا اچھل اچھل کر رسی تڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ آواز ابھرتی ہے، ’’سالا ڈرتا ہے!‘‘
’’اجی جان کس کو پیاری نہیں ہوتی!‘‘
’’ارے بھائی، سانپ کو ذرا آگے کھسکاؤنا!‘‘
وہ چھڑی سے سانپ کو اور آگے کرتا ہے۔ اس وقت اسے بڑی پھرتی سے کام لینا ہے۔ نیولے کا منھ سانپ پر پڑتے ہی ان دونوں کو الگ کردینا ہے۔ ورنہ نیولا سانپ کو مارڈالے گا، اور نیا سانپ خریدنے کے پیسے اس کے پاس نہیں ہیں۔ نیولے نے چھوٹا سا منھ کھول کر سانپ کی دم میں دانت گڑو دیے ہیں۔ سانپ تڑپ رہا ہے۔ وہ نیولے کی پیٹھ پر چھڑی مار کر دونوں کو الگ کر دیتا ہے۔
بھیڑ غصے میں شور مچاتی ہے، ’’یہ چالاکی ہے! ابھی ان کی لڑائی شروع نہیں ہوئی۔ سانپ کو پھر سے نیولے کے پاس چھوڑو!‘‘
’’ہمارا پیسہ کوئی حرام کا نہیں!‘‘
’’استاد، پوری لڑائی ہونے دو۔ میں ایک روپیہ دوں گا۔‘‘
اس نے ہوا میں اونچا اٹھا ہاتھ اور ہاتھ میں پکڑا نوٹ دیکھ لیا ہے۔ وہ بھیڑ کے موڈ کو سمجھ رہا ہے۔ یہ لوگ پیسہ اتنی آسانی سے دینے والے نہیں۔ اس نے سانپ کو نیولے کے پاس پٹک دیا۔ اس بارنیولے نے پہلے ہی جھٹکے میں سانپ کا منھ پکڑ لیا ہے۔ خون کی چھوٹی چھوٹی بوندیں سانپ کے جسم پر چمک اٹھی ہیں۔ سانپ تڑپ رہا ہے۔
نیولا لگاتار ایک دائرے میں دوڑ رہاہے۔ وہ سانپ کو چھڑانے کے لیے نیولے کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ بھیڑ جوش میں آگئی ہے۔
’’مزہ آگیا!‘‘
’’نیولا سالا غضب کا ہے!‘‘
’’دیکھو کیسے سانپ کی گردن پکڑ رکھی ہے!‘‘
’’استاد چھڑادو، نہیں تو سانپ گیا تمہارا!‘‘
اس نے ہاتھ اوپر اٹھایا۔ نیولے کی گردن پر چھڑی ماری، لیکن انہیں لمحوں میں نیولا تھوڑا آگے نکل چکا ہے۔ چھڑی زور سے نیولے کی کمر پر پڑی ہے۔ چٹاخ کی آواز کے ساتھ اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ نیولا تین چار بار تڑپا اور پھر ہلنا بند ہوگیا۔ مرنے کے بعد اس کے دانت اور زور سے سانپ کی گردن پر کس گئے ہیں۔ اب سانپ نے بھی تڑپنا بند کردیا ہے۔ جو ہاتھ ایک روپے کے نوٹ کے ساتھ ہوا میں ہل رہا تھا، اب بھیڑسے غائب ہوچکاہے۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نیچے بیٹھ گیا ہے۔ بھیڑ نے تھوڑے سے سکے چادر پر پھینکے دیے ہیں۔ اس کی نگاہ سپاہی پر پڑتی ہے۔ سپاہی کی آنکھیں چادر پر پڑی ریزگاری کو گن کر ایک روپے کے نوٹ میں بدل رہی ہیں۔ وہ اندازہ لگالیتا ہے، اس کے حصے میں سپاہی کو پیسے دینے کے بعد رات کا آٹا شاید ہی پڑے۔
’’خبردار، کوئی ماں کا لال اپنی جگہ سے نہ ہلے! ماں کالی کی قسم ہے، ابھی اصلی کھیل باقی ہے!‘‘
وہ اپنی کمر میں کھونسا ہوا چاقو باہر نکال لیتا ہے۔ سورج کی روشنی میں چار انچ لمبا لوہا چمک اٹھتا ہے۔ وہ اپنی قمیص اتار دیتا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے پیٹ کو پیٹنا شروع کردیتا ہے۔ اس کا پیٹ کسی خالی گھڑے کی طرح گڑگڑ کی آواز کے ساتھ بج رہاہے۔
’’مائی باپ، پیٹ کا سوال ہے! اب میں اپنے لڑکے، اپنے جگر کے ٹکڑے کے پیٹ میں چاقو گھونپ دوں گا۔ مائی باپ، کوئی اپنی جگہ سے مت ہلنا! مائی باپ، میرے لڑکے کی زندگی کا سوال ہے۔ آپ ہلے تو وہ مرجائے گا۔ میں منتر سے ماں کالی کو ثابت کروں گا۔ آپ دیکھیں گے۔ لڑکے کے پیٹ سے خون کے فوارے نکلیں گے۔ لیکن کالی کی کرپا سے وہ مرے گا نہیں۔ کوئی نہ ہلے، نہیں تو میرے لڑکے کا خون اس کی گردن پہ ہوگا۔‘‘
اب بھیڑ ڈر گئی ہے۔ وہ ’’جے ماتا کی، جے ماتا کی‘‘ کرتا ہوا گول دائرے میں دوڑ رہاہے۔
’’لڑکا کہاں گیا؟ لڑکا کہاں گیا؟‘‘
اب بھیڑ دھیان دیتی ہے کہ اس کا لڑکا وہاں سے کھسک گیا ہے۔ لیکن وہ جانتا ہے کہ لڑکا اس وقت ایک چھوٹی سی نلکی میں لال پانی بھر رہا ہے۔ پھر وہ اس لال پانی سے بھرے ہوئے غبارے کو پیٹ کے ساتھ باندھ لے گا۔ وہ چاقو کا ترچھا وار کرے گا۔ چاقو لال پانی سے بھرے غبارے میں کھب جائے گا۔ لوگ لال پانی کو خون سمجھ لیں گے۔ لڑکا ہمیشہ اس موقعے پر غائب ہوجاتا ہے۔ بھیڑ کے تناؤ اور خوف کو ٹوٹنے کی حد تک بڑھادیتا ہے۔
لڑکا بھیڑ میں سے راستہ بناکر دائرے کے اندر آگیا ہے۔ وہ لال رنگ کی قلفی چوس رہا ہے۔ چادر سے کچھ پیسے چپکے سے اٹھاکر قلفی خریدلایا ہے۔
لڑکا باپ کے ہاتھ میں چمکتا چاقو دیکھ کربھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ باپ اس کی طرف جھپٹتا ہے۔ لڑکا چیختا ہے۔ باپ خوش ہو رہا ہے۔ آج لڑکا پورے دل کے ساتھ کھیل میں حصہ لے رہا ہے۔ خوب پیسے آئیں گے۔ اس کی آنکھوں میں خون اترآیا ہے۔ لڑکا اب بھی چیخ رہا ہے۔ بھاگ رہا ہے۔
’’جے کالی ماتا کی! مائی باپ، جان کس کو پیاری نہیں ہوتی۔ مائی باپ، پیٹ کا سوال ہے، پاپی پیٹ کا! ورنہ کون باپ اپنے بیٹے کو چاقو سے پھاڑے گا۔‘‘
اب وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے پیٹ کو پیٹتا ہوا لڑکے کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ چادر پر پیسے گرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ آوازیں آتی ہیں، ڈری ہوئی اور دہشت زدہ سی، ’’ارے چھوڑدو، مت مارو! دیکھو بچارا کیسے چیخ رہا ہے۔‘‘
لیکن پیسے گرتے دیکھ کر جوش اور بڑھ گیا ہے۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے لوگ پیسے پھینک رہے ہیں، ختم ہونے پر کم سے کم دس روپے تو ملیں گے۔
اب اس نے ایک لمبی چھلانگ لگاکر لڑکے کو گردن سے پکڑ لیا۔ دھکادے کر اسے زمین پر گرادیا ہے۔ وہ لڑکے کو گھٹنوں سے دباکراس پر سوار ہوگیا ہے۔ لڑکا کسی ذبح ہوتے ہوئے بکرے کی طرح بیں بیں کر رہا ہے، تڑپ رہا ہے۔ اس کے ہاتھوں سے قلفی چھوٹ کر دور جاگری ہے۔ وہ چیخ مارتا ہے، ’’باپو مت مار، باپو چھوڑدے!‘‘
اس کا ہاتھ ہوا میں اوپر اٹھتا ہے۔ چاقو سورج کی روشنی میں چمکتا ہے اور ترچھا ہوکر لڑکے کے پیٹ کی طرف بالکل پسلیوں کے نیچے جگر والی جگہ میں گھس جاتا ہے۔
پہلے لال رنگ کی کچھ بوندیں چاقو لگنے سے پھٹی ہوئی قمیص پر ابھرتی ہیں۔ پھریہ بوندیں ایک پتلی دھار میں بدل جاتی ہیں۔ لڑکا چھٹپٹا رہا ہے۔ سفید چادر پر سکے گر رہے ہیں۔
اب پتلی دھار ایک چھوٹے سے فوارے کی طرح باہر اچھلتی ہے۔ وہ چاقو باہر کھینچتا ہے۔ زور کیوں لگ رہا ہے؟ ربڑ کے غبارے سے تو چاقو بغیر زور لگائے باہر نکل آتا ہے۔ لڑکے کے جسم سے زور زور کی چیخیں ابھر رہی ہیں۔
’’باپو مرگیا!‘‘
وہ لڑکے کی قمیص اٹھاکر دیکھتا ہے۔ لیکن وہ ربڑ کا غبارہ بندھا ہوانہیں ہے۔ لڑکا قلفی کھانے بھیڑ سے باہر گیا تھا۔ وہ لال پانی سے بھرا غبارہ پیٹ پر باندھنا بھول گیا ہے۔ وہ اچھل کر لڑکے کی چھاتی پر سے اترآیا ہے۔ لڑکے کا جسم کسی گردن کٹے جانور کی طرح زمین پر اچھل رہا ہے۔
’’مائی باپ، پیٹ کا سوال ہے۔ پاپی پیٹ کا! میں نے لڑکے کا خون کردیا ہے!‘‘
بھیڑ نے لڑکے کے پیٹ کے گھاؤ سے نکلتے اصلی خون کو دیکھ لیا ہے۔ لوگ تیزی سے وہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ پولیس کا سپاہی سب سے پہلے وہاں سے غائب ہوا ہے۔
لڑکے کا جسم تڑپ کر اچھل رہا ہے۔ اب وہ چیتے کی مردہ کھوپڑی سے ٹکراگیا ہے۔ کھوپڑی اینٹ پر سے نیچے زمین پر گر گئی ہے۔ چیتے کے لمبے نکیلے دانت خون سے سن گئے ہیں۔ سورج خون دیکھ کر جلدی سے نیم کے پیچھے دبک گیا ہے۔
چیتے کا مرا ہوا سر منھ کھولے زمین پر پڑا ہے۔ اب لڑکے کاجسم رہ رہ کر تڑپ رہا ہے۔ پھر ایک لمبی چیخ کے ساتھ وہ ہلنابند کردیتا ہے۔ خون کا چھوٹا سا، سست سا دریا دھرتی پر دھیرے دھیرے پھیل رہا ہے۔
وہ مرے ہوئے چیتے کی کھوپڑی کے منھ میں جھانکتا ہے۔ اس کی گھر والی اپنے بچاؤ کے لیے دونوں ہاتھ اوپر کیے کھڑی ہے۔ اس کے ہاتھوں میں چولہے سے باہر کھینچی ہوئی جلتی لکڑی ہے۔ اور اسی کے ساتھ دوسرا منظر جڑ جاتاہے۔ چمک دار چاقو ہوا میں اٹھائے اس کا ہاتھ، لڑکے کے جگر میں گھستا چاقو، ایک لمبی چیخ، اور آس پاس دھیرے دھیرے پھیلتا جاتا خون کادریا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.