Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تماشائی

عشرت ظہیر

تماشائی

عشرت ظہیر

MORE BYعشرت ظہیر

    سامنے دھان کے کھیت میں کٹنی اب تک شروع نہیں ہوئی ہے اور اس کھیت کے چاروں طرف سرسوں کی زردی چمک رہی ہے۔ اس کھیت کے دھان کو بہت پہلے ہی کٹ جانا چاہئے تھا، اب تو بہت دیر ہو چکی ہے، بہت دیر ہو رہی ہے۔

    لیکن کون کاٹےگا اس کھیت کے دھان کو؟

    کون کاٹےگا، اس کھیت کے دھان کو؟ جب میں یہ سوچتا ہوں تو مجھے ایک شوخ اور چنچل سی، سانولی لیکن بہت خوبصورت سی لڑکی یاد آتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اب وہ لڑکی نہیں رہی، وہ تواَب بھی، اسی مکان میں ہے۔ لیکن۔

    لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اَب یہاں نہیں رہتی۔ اگر رہتی ہے تو یہ وہ لڑکی نہیں ہے۔ یہ تو کوئی اور ہی لڑکی ہے۔

    ا س کا سانولا سلونا چہرہ کہاں گیا؟ یہ سرسوں کے کھیت کی طرح زرد چہرے والی وہ لڑکی نہیں ہو سکتی۔

    اس کی آنکھوں میں، وہ شوخی اور چنچل پن کہاں ہے؟ زخم خوردہ مسکراہٹ اور سہمی ہوئی آنکھوں والی یہ کوئی دوسری ہی لڑکی ہے۔

    گریہ وہ لڑکی نہیں ہے تو، پھر یہ گاؤں بھی وہ نہیں ہے۔گاؤں والے بھی وہ نہیں ہیں۔ کچھ بھی تواب پہلے جیسا نہیں رہا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گاؤں کی سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبو کہیں اور چلی گئی ہے۔ یہاں کے لوگوں کے چہرے اچانک کسی دہشت سے کمہلا گئے ہیں اور سرسوں کے کھیت کی زردی ان کے چہروں پر نظر آنے لگی ہے۔ جھلستے لمحوں میں زندگی گزارنے والے، یہ محنت کش لوگ، جانے کون سی مہیب کھائی میں گر گئے ہیں، یاگرنے کے خوف سے سراسیمہ اور متوحش ہیں!

    یہاں اس گاؤں میں، جہاں جہاں دھان کاٹا گیا ہے، وہاں بھی خوشی کی کوئی رمق دکھائی نہیں دی۔ ابھی پچھلے ہی سال ،میں دھان کی کٹنی کے موقع پر انہیں خوشیاں مناتے دیکھ چکا ہوں۔ لیکن۔۔۔ امسال؟ کتنی اچھی فصل ہوئی ہے۔ پھر بھی۔۔۔

    دراصل اس گاؤں میں، میں ایک تماشائی کی حیثیت رکھتا ہوں۔ میں ایک سال سے کچھ زیادہ مدت سے یہاں ہوں، لیکن میں نے لوگوں کو اتنے ہی دنوں میں، کتنے روپ میں دیکھا ہے، اسے کیسے بھول جاؤں۔ لڑتے جھگڑتے دیکھاہے، میں نے۔ افلاس اور غربت میں زندگی گزارتے دیکھا ہے۔ بھوک سے سوکھے ہوئے چہرے میں نے دیکھے ہیں۔ مجبوری، بیچارگی، تنگدستی، محبت اور نفرت کو لمحہ بہ لمحہ میں نے ان کے قریب تر آتے دیکھا ہے اور یہ لوگ قطرہ قطرہ میرے رگ وپے میں شامل ہو گئے ہیں اور میرا وجود یادوں کا ایک پراسرار ذخیرہ ہو گیا ہے اور اب ا س پراسرار ذخیرہ کو، میں کہاں لے جاکر پھینک دوں؟

    میں ان یادوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ لیکن میں ان کے چہروں سے زردی کو دھو بھی تو نہیں سکتا، کہ ایسا کرنے کی سکت مجھ میں نہیں ہے۔ میں تو محض ایک تماشائی ہوں۔میں ان کے سروں پر دھوپ کی تمازت دیکھ رہا ہوں۔

    یہاں کوئی سایہ نہیں ہے۔ کہیں کوئی سایہ نہیں ہے۔۔۔!

    دھوپ اور سائے کی بات سوچتا ہوں تو مجھے اپنے بچپن میں پڑھی ہوئی انگریزی کی ایک کہانی یاد آتی ہے۔ بےحد سپاٹ اور بےمزہ کہانی۔ جیسی آج اس گاؤں کے لوگوں کی کہانی ہے۔ لیکن کہانی کہاں ہے؟ کہانی ہوتی تو کہیں تو لطافت ہوتی، نزاکت ہوتی، خیالوں کی نکہت ہوتی، تصورکی خوشبو ہوتی، تخیل کی نزہت ہوتی! لیکن یہ سب کہاں ہے؟ یہاں تو دور دور تک دھوپ پھیلی ہے یا سرسوں کے زرد کھیت!

    مجھے اپنے بچپن میں پڑھی ہوئی انگریزی کی جوکہانی، اس وقت یاد آ رہی ہے، اس سے ا س گاؤں کا کتنا تعلق ہے؟ یا اس گاؤں کے لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فیصلہ میں نہیں کر پا رہا ہوں۔ بالکل اسی طرح جس طرح اپنے بچپن میں، اس کہانی کو، بالکل نہیں سمجھ پایا تھا۔ وہ چھ جزیروں سے گھِرے ہوئے، جاپان کے ایک شہر، ہیروشیما کی کہانی تھی۔ اگست 1945ء کے دن کا واقعہ تھا۔ ایک خوبصورت سے مکان کے اندر مسٹرٹناکا اور ان کی بیوی اور ان کے بچے ناشتہ کر رہے تھے۔ ناشتے کے بعد مسزٹناکا کچن میں چلی گئیں۔ یوں ہی خواہ مخواہ وقت گزاری کی خاطر یا خوف کے سائے سے پیچھا چھڑا نے کے لیے! بچوں کو ان دنوں کے حالات کا کچھ بھی علم نہ تھا۔ وہ ایک بڑے کمرے میں جاکر لوڈو کا کھیل Snakes and Ladders کھیلنے لگے۔ مسٹرٹناکا بھی ایک کمرے میں کرسی پر بیٹھے تھے۔ کھڑکیاں کھلی تھیں۔ باہر آسمان صاف تھا۔ مسٹرٹناکا تمام صورت حال کو بھول جانا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے الماری سے ایک کتاب نکالی اور پڑھنے لگے۔ ٹھیک اسی وقت سائرن کی آواز سنائی دی۔ ہوائی جہاز ہیروشیما کے اوپر تھے،۔۔۔ ہیروشیما پربم گرایا گیا۔ آسمان پر روشنی کا جھماکا ہوا اور فضا میں چمکیلے سورج کی طرح کچھ دکھائی پڑا۔ بڑے زورکا شور ہوا اور گردوغبار کا بادل اُٹھا اور سورج چھپ گیا اور دن تاریکی میں ڈوب گیا ۔۔۔۔۔!

    اس کہانی کے بارے میں، میں نے اپنے ماسٹر صاحب سے بہیتر ے سوالات کئے تھے۔ وہ کیسے خوف کے سائے تھے؟ جس سے مسزٹناکا پیچھا چھڑانا چاہتی تھیں۔ وہ کیسے حالات تھے؟ جنہیں بھولنے کی خاطر مسٹرٹناکا خود کو کتاب میں گم کئے دے رہے تھے۔ مسٹر اور مسزٹناکا کے بچوں کے Snakes and Ladder کے کھیل میں کون جیتا؟ اچانک سورج کیسے چھپ گیا؟ اور دن تاریکی میں کیسے ڈوب گیا؟ یہ ایٹم بم کیا ہوتا ہے؟

    آج اچانک مجھے معلوم ہو گیا۔

    مسٹرٹناکا کتاب پڑھتے پڑھتے کس قدر کھو گئے۔

    مسزٹناکا کچن میں کتنی مشغول تھیں۔

    ان کے بچوں کا کھیل کتنا لطف اندوز اور پیارا تھا۔

    کون سیڑھی چڑھا؟

    کسے سانپ کی بےرحم اور مسموم اور لپلپاتی ہوئی زبان چاٹ گئی؟

    لیکن آج میں اس گاؤں کی کہانی سمجھنے سے قاصر ہوں، کون جانے کسی دن یہ بھی میری سمجھ میں آ جائے۔۔۔

    میرے ماسٹر صاحب آج نہیں ہیں لیکن ہیروشیما کی کہانی آج اچانک میری سمجھ میں آ گئی۔۔۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس گاؤں کی کہانی آپ کو سنا دوں تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔

    یہ کوئی زیادمدت کی بات نہیں ہے۔ اس گاؤں میں جب میں پہلی بار آیا تھا۔ یہی کوئی ڈیڑھ سال کی مدت گزری ہوگی۔ سخت اجاڑ اور عجیب ویران ماحول لگتا تھا، لیکن ایسا بھی اجاڑ اور ویران نہ تھا جیسا اب ہے۔ اس ویرانی اور سونے پن میں نئے ماحول میں آنے کی سراسیمگی تھی، اجنبیت کی غیرمرئی سی، ہلکی سی، جھجک تھی اور گھبراہٹ کے جھلملاتے ہوئے سائے تھے۔ گاؤں میں پہلی بار آنے کی خوشی اور شہر کے ماحول سے پہلی بار چھوٹنے کا غم تھا۔ لیکن یہ سب کچھ اتنا جان لیوا نہ تھا، جتنا اب ہے۔ یہ اجاڑپن، یہ ویرانی اور یہ سونا پن کیسا ہے، کیا ہے؟ میں اسے کوئی نام نہیں دے پا رہا ہوں۔۔۔ آج مجھے سہارا دینے والا کوئی نہیں۔۔۔ اس وقت۔۔۔ اس وقت تو میں، اس لڑکی کی خوبصورتی اور اس کے چنچل پن کے حصار میں جکڑ گیا تھا۔ بالکل انجانے میں اور غیرمحسوس طور پر۔۔۔ تب اس کے چہرے پر سرسوں کے پھول کی سی زردی نہ تھی بلکہ شوخی تھی، حیات افزا اور زندگی سے بھرپور شوخی تھی اور جینے کی امنگ تھی۔۔۔ اس دن۔۔۔!

    اس دن صبح صبح میری نیند ٹوٹی توایک غیر مانوس آواز کانوں میں مسلسل سنائی دے رہی تھی، کوئی گیت تھا، لیکن الفاظ اورمفہوم میری گرفت میں نہیں آرہے تھے۔۔۔ لیکن اس کی شیرینی اور موسیقیت میرے وجود میں دھیرے دھیرے تحلیل ہو رہی تھی۔۔۔

    ’’کیوں۔۔۔ آپ کہاں کھو گئے ہیں؟‘‘ اس نے اچانک میری آنکھوں کے سامنے اپنی انگلیوں کو دلفریب اندازمیں لہراتے ہوئے کہا۔

    ’’یہ۔۔۔ یہ آواز۔۔۔ یہ گیت کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔۔۔‘‘

    ’’یہ بھلا آپ کی سمجھ میں آنے لگے تو۔۔۔ تو آپ شہر کے بابو کیسے کہلائیں گے۔ کچھ معلوم بھی ہے؟ آج روپنی لگی ہے۔۔۔ اور روپنی یونہی چپ چپاتے، خاموشی سے بھی ہوتی ہے کہیں؟‘‘

    میں اس کی بات کچھ سمجھ پایا کچھ نہیں سمجھ سکا۔

    میں نے اپنے کندھے پر تولیہ اور لنگی رکھی اور اپنے ہاتھوں میں، پیسٹ، برش اور صابن دانی لے کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

    غسل کے بعد جب دوبارہ کمرے میں داخل ہواتو وہ نہایت اطمینان سے بیٹھی ایک رسالے میں گم تھی۔ میں کپڑوں کا انتخاب کرنے لگا۔ جب میں کپڑے پہن کر بالکل تیار ہو گیا تو اس نے میرے گہرے نیلے پینٹ اور ہلکے بادامی رنگ کی قمیص کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

    ’’آپ کو کون سا رنگ پسند ہے؟‘‘

    ’’رنگ۔۔۔؟‘‘ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارے بدن کا۔۔۔‘‘

    ایک دم اس کاچہرہ گلنار ہو گیا۔ مجھے لگا ایک لمحہ کو وہ کپکپا گئی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے پھر پوچھا۔۔۔ ’’نہیں، بتائیے نا آپ کو کون سا رنگ پسند ہے؟‘‘

    ’’آخر یہ آج تمہیں رنگوں کی کیا سوجھی؟‘‘

    ’’بڑی شہرت ہے، آپ کی ذہانت کی ۔میں اسے پرکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

    ’’یعنی میری ذہانت کو نانپنے کے لیے تمہارے پاس رنگوں کی کسوٹی ہے۔‘‘

    ’’یہی سمجھ لیجئے۔ یہ امتحان ہے آپ کا۔‘‘ اس نے شرارت سے کہا۔

    ’’سمجھ لو، تمہیں جو رنگ پسند ہے مجھے بھی پسند ہے۔‘‘

    ’’یہ کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔ اچھا مجھے کون سا رنگ پسند ہے۔ یہی بتائیے۔‘‘

    ’’گلابی رنگ‘‘، ‘‘گلاب کاسا۔‘‘

    اس نے میرا جواب سن کر اپنے ہونٹ بچکائے۔

    ’’اچھا چنبیلی کا رنگ۔۔۔‘‘ میں نے دوبارہ کہا۔

    ’’اوں ہوں ۔۔۔۔۔۔ ایک دم فیل، آپ اتنابھی نہیں سمجھتے، بھلا گاؤں میں گلاب اور چنبیلی کے رنگوں کے پیچھے کون بھاگتا ہے۔‘‘؟

    میں کچھ نہیں سمجھ پایا وہ کیا کہنا چاہتی تھی۔ پھرمجھے یاد آیا، میرا ایک شاعر دوست، ہمیشہ کہتا ہے، میری نظموں میں تم نے جابجا سرسوں کے پھول کا ذکر دیکھا ہوگا، ایسا کیوں ہے؟ دراصل میں دیہات کا رہنے والا ہوں اور مجھے سرسوں کے پھول بہت پسند ہیں۔ تم نے سرسوں کا کھیت دیکھا ہے؟‘‘

    میں نے سرسوں کا کھیت کہاں دیکھا ہے؟

    میں نے سوچا، اپنے دوست کی پسند کا سہارا لوں اور یہاں اس وقت کسی طور یہ امتحان پاس ہو جاؤں۔ میں نے اس سے کہا۔

    ’’اچھا سنو، سرسوں کے پھول کا رنگ پسند ہے ۔‘‘

    میرا یہ جملہ سنتے ہی وہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔

    اس کی ہنسی کسی طرح رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھی اورمیں عجیب مخمصے میں پڑ گیا۔ میں نے کیا کہہ دیا، مجھے کیا کہنا چاہئے تھا۔۔۔

    ’’اچھا سنئے۔‘‘ بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے اس نے کہا’’ اس فصل کے کٹنے تک کی مہلت دیتی ہوں، اس سوال کے جواب کے لیے۔ ورنہ۔۔۔ ورنہ میں سمجھ لوں گی آپ بالکل۔۔۔ بالکل۔۔۔‘‘ اور وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔

    میں یہاں اس کمرے میں بیٹھا، اس کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہا ہوں اور انتظار کر رہا ہوں کہ وہ لڑکی کمرے میں داخل ہو تو اس سے کہوں، مجھے کون سا رنگ پسند ہے۔ اس نے تو گزشتہ سال فصل کٹنے تک کی مہلت دی تھی۔ ایک سال گزر گیا۔ دھان کی فصل کٹ گئی گیہوں کی فصل بھی کٹ گئی اور میں اسے جواب دینا بھول گیا یا وہ اپنا سوال بھول گئی۔ جانے کیا ہوا لیکن آج۔۔۔!

    آج میں اس سے کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے سرسوں کے پھول بالکل پسند نہیں سرسوں کے کھیت بالکل پسند نہیں۔ وہ تومجھے میرے شاعر دوست نے گمراہ کر دیا تھا۔ ورنہ گاؤں میں رہنے والا کوئی سرسوں کے پھول کو کیسے پسند کرےگا۔۔۔ مجھے دھان کا سنہرا رنگ پسند ہے، گیہوں کی لہراتی ہوئی بالیوں کارنگ بھی پسندہے۔ مگر یہ سب میں اس سے کیسے کہوں؟

    وہ لڑکی کب سے اس کمرے میں نہیں آئی ہے اور میں اس کے پاس جاتے ہوئے ڈرتا ہوں، جانے کیوں؟ شاید مجھے اس کے سرسوں کے پھول سے پیلے چہرے سے خوف آتا ہے، کیونکہ میں سرسوں کی سی زردی اس کے چہرے پر نہیں دیکھ سکتا۔

    مجھے واقعی دھان کی بالیوں کی سنہری رنگت پسند ہے۔

    سامنے دھان کے کھیت میں کٹنی اب تک نہیں لگی ہے۔ حالانکہ اب سے بہت پہلے اسے کٹ جانا چاہئے تھا۔ لیکن کون کاٹےگا انہیں ؟

    اسے کاٹنے والے تو عید کی نماز کی بھیڑ میں گم ہو گئے ہیں۔۔۔!

    میرے لیے یہ شمار کرنا انتہائی تکلیف دہ ہے کہ کتنے لوگ اس گاؤں سے عید کی نماز پڑھنے شہر گئے اور کتنے لوٹے۔۔۔؟

    میں شمار کرکے کروں گا بھی کیا؟ میں تو محض ایک تماشائی ہوں اور دیکھ رہا ہوں، گاؤں میں چاروں طرف سرسوں کے پھول کی زردی چمک رہی ہے اور سامنے دھان کے کھیت میں کٹنی اب تک نہیں لگی ہے۔۔۔!

    لیکن کون کاٹےگا، اس کھیت کے دھان کو؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے