Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تاریک راہوں میں

سلمیٰ جیلانی

تاریک راہوں میں

سلمیٰ جیلانی

MORE BYسلمیٰ جیلانی

    دھیمی موسیقی اور مدھم روشنی جھینگا ریستوران کی سحر انگیزی میں اضافہ کر رہی تھی۔ ڈین اپنے دو ستوں ماریا اور ہینس کے ساتھ سی فوڈ کی ڈیلیکسی سے لطف اندوز ہو رہا تھا یکا یک اس کی نظر جھینگوں کی پلیٹ کے ساتھ موجود ہاتھ دھونے کی سنہری بالٹی کے پانی پر مرکوز ہو گئی جس کا رنگ خون کی طرح سرخ ہو رہا تھا۔۔۔ ابھی ماریا نے اپنے ہاتھ اس میں دھوئے تھے وہ اس کے ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا، ماریا نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے استفسار کیا ‘’کیا بات ہے... تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے’’

    ‘’ہاں۔۔۔ تم نے دیکھا۔۔۔ بالٹی کا پانی سرخ ہو گیا تم نے ہاتھوں میں کیا لگایا ہوا ہے؟’’

    ماریا چونک گئی، اس کے چہرے پر عجیب سے رنگ بکھر گئے تھے۔

    ‘’میں نے کیا لگایا ہوگا ابھی تمہارے سامنے ہی جھینگے کھا کر اس میں ہاتھ دھوئے اور دیکھو تو پانی کہاں لال ہے؟’’

    واقعی پانی شفاف تھا اتنا کہ اس میں ان کے چہرے تک صاف دکھائی دے رہے تھے۔

    ’’ڈین نے بالٹی میں پھر سے جھانکا اس بار شفاف پانی میں ایک عبارت ابھر آئی تھی‘’ یہ جھینگے کھاتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا ہم نے اپنی جان۔۔۔ اس سے آگے بھی کچھ لکھا تھا مگر تحریر دھندلی ہو تی گئی یہاں تک کہ مٹ گئی۔ مگر۔۔۔ ڈین پلکیں جھپکائے بنا پانی کی تہ کو گھور رہا تھا۔

    ‘’ارے۔۔۔ایسا کیا دیکھ لیا ہے اس میں، کیا بل دینے کا ارادہ نہیں‘’ ماریا نے اس کی محویت پر اسے ٹوکتے ہوئے اپنے کھانے کے پیسے اس کی پلیٹ کی طرف سرکا دیئے۔

    ‘’یہ کیا۔۔۔میں اتنا بھی غریب نہیں۔۔۔ابھی جیب میں دم ہے اپنے دوستوں کے کھانے کا بل ادا کر سکتا ہوں۔

    ‘’اچھا۔۔۔مجھے لگا تم اس سے بچنے کو جھینگوں کے پانی میں غوطہ لگانے لگے ہو’’ ہینس نے ہنس کر کہا۔

    ڈین سوچ رہا تھا۔۔۔کیا سچ مچ میرے دماغ میں کچھ خلل واقع ہو گیا ہے۔

    پچھلے ہفتے سوشی بار میں سالمن کے قتلے اکھٹا کرتے ہوئے کچھ ایسا ہی تجربہ ہوا تھا۔

    اسے محسوس ہوا تھا جیسے پلیٹ کے نیچے ایک چٹ لگی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا۔۔۔یہ قیمتی مچھلیاں ہم نے بہت محنت سے تم تک پہنچائی ہیں انہیں کھاتے ہوئے ہمیں بھی یاد کر لینا۔۔۔اس کے بعد کچھ اور بھی لکھا تھا لیکن تحریر آہستہ آہستہ معدوم ہوتی گئی تھی اور وہ بقیہ حصہ نہ پڑھ سکا تھا اس نے پلیٹ کو اٹھا کر الٹ پلٹ کیا مگر اب وہ چٹ کہیں نہ تھی اس نے پھٹی آنکھوں سے کاؤنٹر پر کھڑی سیلز گرل کی طرف دیکھا۔۔۔اور اس سے پوچھنے لگا کیا تم نے ابھی کوئی چٹ دیکھی کیسی چٹ۔۔۔وہی جو اس پلیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔

    ‘’نہیں۔۔۔یہاں تو کچھ نہیں۔۔۔سیلز گرل اور ساتھ کھڑے ہوئے گاہک اس کی جانب عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے۔‘‘

    اس نے خجل ہو کر سوشی باکس کاؤنٹر پر واپس رکھ دیا تھا۔۔۔اس پراسرار واقعے نے اس کی بھوک ہی اڑا دی تھی۔

    مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور گرمی کی تمازت محسوس ہوئی تو اس نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔۔۔یکایک۔۔۔مچھلی کی بساند کے تیز بھبکے نے اس کا حلق تک کڑوا کر ڈالا۔۔۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔۔۔اور خود سے سوال کیا۔۔۔یہ کون سی جگہ ہے؟۔۔۔میں کہاں ہوں۔۔۔پھر جیسے کچھ یاد آ گیا۔۔۔اور بےتاب ہو کر کھڑے ہونے کی سعی کی لیکن کمرے کی چھت سے ٹکرا گیا۔۔۔یہ سب کچھ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔اسے اندازہ ہوا جسے وہ کمرہ سمجھ رہا تھا ایک انتہائی تنگ سی جگہ تھی جس کی نیم تاریک فضا میں اس کے ساتھ چار اور ہیولے بھی موجود تھے۔۔۔بابا۔۔۔نماد۔۔۔اس نے اپنے بابا اور چھوٹے بھائی کو آواز دی۔

    ملگجے اندھیرے میں کوئی زور سے ہنسا۔۔۔ اس نے ان چہروں کو آنکھیں پھاڑ کر پہچاننا چاہا مگر پھر ناکام ہو کر چیخنے لگا۔۔۔ مگر چیخ اس کے گلے میں ہی گھٹ گئی جب ان ہیولوں میں سے کسی نے زور سے اس کا بازو کھینچا اور ایک جھٹکے سے زمین پر گراتے ہوئے بولا چپ رہو۔۔۔مرنا ہے کیا؟

    یہاں کوئی کسی کا باپ بھائی نہیں۔۔۔وہ طنز میں ڈوبے لہجے میں ہنسا۔۔۔ایک لمحے کو سانس لینے کو رکا۔۔۔اور پھر بولا ‘’تمہارے باپ نے ہ تمہارے پیسے کھرے کر لئے ہوں گے۔۔۔میری طرح۔۔۔کمرے کی درزوں سے آتی مدھم روشنی میں اس کا مدقوق چہرہ واضح ہو گیا تھا۔۔۔وہ اپنے چیتھڑوں کی مانند جھولتے کپڑوں کے نیچے سے جھانکتی پسلیوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا-‘‘

    نہیں۔۔۔میرا بابا ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔اس نے بے یقینی سے ہنسنے والے کی طرف دیکھا اور گھٹنوں میں منہ چھپا لیا۔

    دبلا پتلا زرد رو نوجوان جس کی عمر کوئی سولہ سال ہوگی اپنے بقیہ ستائیس ساتھیوں کے ساتھ جس کیمپ میں رکھا گیا تھا وہاں سب ہی کچھ تھا، ریپ، تشدد یہاں تک کہ موت بھی۔۔۔نہیں تھا تو بس پیٹ بھر کر کھانا اور نیند بھر سونا۔

    احمد نام کا یہ لڑکا جسے اس کے اپنے ہم وطنوں نے ایک چپہ زمین دینے سے انکار کر دیا تھا یعنی وہ سب بغیر کسی وطن کے قرار پائے۔

    اور جن کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی جاتی ہے آسمان بھی انہیں پناہ دینے سے انکاری ہو جاتا ہے۔ زمین و آسمان کا یہ گٹھ جوڑ کوئی نیا نہیں اور اس گٹھ جوڑ کے کارن لاتعداد خانماں برباد اندھیری راتوں میں سمندر کی بےرحم موجوں سے لڑتے، چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں کبھی ڈوب جاتے اور کبھی اچھل کر کسی بھی اجنبی ساحل پر پٹک دئیے جانے والوں میں سے ایک وہ بھی تھا جسے اس پام اور ناریل کے درختوں سے گھرے جنگل میں لکڑی اور لوہے کے تختوں سے بنے کبوتروں کے کابک نما پنجروں میں پہنچا دیا گیا تھا۔

    اسے یاد آ رہا تھا۔۔۔ ایجنٹ سانور ابا کے ساتھ بہت خوش اخلاقی سے باتیں کرتا تھا ان پریشان کن حالات میں جب بھکشو شکاری کتوں کی طرح ان کی بو سونگھتے پھر رہے تھے اور انہیں گھر چھوڑ کر پرانے کھنڈروں میں چھپنا پڑا تھا۔۔۔سانور اکثر ان کی پناہ گاہوں میں آیا کرتا تھا۔۔۔اس نے وعدہ کیا تھا۔۔۔وہ جلد ہی انہیں اپنے ملک میں ناریل صاف کرنے کے کارخانے میں بھجوا دےگا، اس کے لئے ان سے کافی پیسے بھی لئے تھے۔

    مگر، لگتا تھا وہ سب جھوٹ تھا۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔وہ تو اپنے آپ کو اس چھوٹے سے پنجرے نما کمرے میں قید پا رہا تھا۔

    اس کی نیند اڑ چکی تھی اور مایوس کن حیرت نے جیسے چودہ طبق روشن کر دئیے تھے حالانکہ کمرے میں تاریکی تھی پھر بھی کہیں کہیں درزوں میں سے سورج کی روشنی دن کے ہونے کا پتا دے رہی تھی، اس کی آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو ادھر ادھر کا جائزہ لینے لگا۔

    یہ کوئی پلنگ کے برابر چوڑائی کا کھوکھوں سے بنا کمرہ تھا جس میں جا بجا لوہے کی زنگ آلود راڈیں پھیلی ہوئی تھیں انہی کے سہارے بیٹھے چار اور بھی ہیولے سے نظر آئے ان کی عمروں اور حلیوں کا اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا۔

    اس نے غور سے ان کے چہروں کو ٹٹولنے کی ایک بار پھر تگ ودو کی۔

    ابھی کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ دروازہ دھڑ سے کھلا اور لمبا پتلا خرانٹ شکل کا شخص اندر آیا۔

    اس کے ہاتھوں میں بڑا سا مٹی کا بدرنگ پیالہ تھا جس میں کوئی ملغوبے جیسی کھانے کی چیز لبالب بھری تھی۔۔۔ان کے سامنے پھینک کر واپس پلٹ گیا۔۔۔پیالہ سے کچھ ملغوبہ چھلک کر ادھر ادھر گر بھی گیا۔ وہ چاروں جلدی سے پیالے کی طرف لپکے اور اس ملغوبے کو اپنے گندے ہاتھوں سے حلق میں اتارنے لگے۔

    اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہی تھی۔۔۔سوچا شائد بھوک ہے۔۔۔مگر بھوک کا احساس کہیں نہیں تھا۔ بادل نخواستہ۔۔۔ناگواری سے پیالے کی طرف ہاتھ بڑھا یا، قبل اس کہ اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے میں کامیاب ہو پاتا، لحیم شحیم دیو نما آدمی گردن ٹیڑھی کئے اندر گھس آیا۔۔۔وہ اتنا جسیم تھا کہ کمرے میں تل دھرنے کو جگہ نہ بچی تھی۔

    اس نے آتے ہی اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہنٹر گھمایا جو کسی مچھلی کی دم جیسا تھا۔

    شائیں کی زور دار آواز آئی اور احمد کی پیٹھ جھنجنا گئی۔

    آنے والا زور سے چیخا ‘’آج کے بعد کسی نے بھی کوئی سوال کیا تو یہ ہنٹر اسے نہیں چھوڑے گا ‘’

    اس نئی افتاد نے اسے بالکل ہی حواس باختہ کر دیا۔

    دل میں ان گنت سوال ابھرے اور کوئی جواب کی امید نہ پا کر درد کی اندھی کھائی میں غڑاپ سے جا پڑے۔۔۔اندر ایک شور سا ہوا لیکن باہر مکمل خاموشی تھی۔۔جو چند لمحے ہی قائم رہ سکی۔۔۔دیو قامت پھر چلایا ‘’چلو جلدی باہر نکلو۔۔۔ابھی بہت کام کرنا ہے‘‘

    اس نے پانچوں کو دروازے کی طرف دھکیلتے ہوئے ہدایات جاری کیں۔۔۔ اس کا ہنٹر اور زبان دونوں زہر میں بجھے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔۔۔مسلسل تلملائے ہوئے سانپ کی طرح بل کھا رہے تھے۔۔۔وہ گھٹنوں کے بل سرکتے ہوئے باہر نکل آئے۔

    پام، ناریل کے درختوں اور جنگلی بیریوں کی کانٹوں بھری جھاڑیوں سے اٹے اس گھنے جنگل اس کے ساتھ اور بھی بہت سے مختلف عمر کے لوگ گھٹنوں کے بل جھکے زمیں کھود رہے تھے۔

    ان میں سے ایک نے سیدھا کھڑا ہونے کی کوشش کی تو شڑا پ کی آواز کے ساتھ ہلکی سی سسکی بھی سنائی دی۔۔۔سانپ کی پھنکاروں جیسے ہنٹر اس پر برس رہے تھے۔

    احمد نے اپنے ساتھ والے سے سرگوشی کی ‘’اس نے بلا وجہ اسے کیوں مارا ‘’

    دوسرے نے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے اسے جھکے رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔ہنٹر والا دور چلا گیا تو وہ بدبداتے ہوئے بولا ‘’ہمیں ان پنجروں میں جانے کتنے دنوں تک رہنا ہوگا یہ سب ہماری ٹریننگ کا حصہ ہے یوں ہی جھکے رہو اگر مار سے بچنا ہے‘’

    شام کا جھٹپٹا گہرا ہو رہا تھا لیکن وہ سب زمین کھودے جا رہے تھے۔۔۔ اب وہ کسی بڑی خندق کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔

    احمد سمجھ گیا تھا زمین کھودنے والے دبلے پتلے مدقوق لوگ اس کی طرح یا تو کہیں سے دھوکہ دے کر یہاں لائے گئے تھے یا ان کی مجبوری انہیں یہاں کھینچ لائی تھی۔

    اور تنو مند ہنٹر والے جو ان سے کام کروا رہے تھے ان کے نگران تھے جنہوں نے خود کچھ نہیں کرنا تھا۔۔نہیں اس نے غصے سے سوچا کام تو تھا۔۔۔گالیاں دینا اور جوتے گھونسے اور ہنٹر مارنا۔۔۔اس کے نوخیز بازو شل ہو گئے اور پیٹ میں مروڑ نے بےحال کر دیا تھا۔

    دفعتاً۔۔۔ایک کھلی جیپ وہاں آ کر رکی۔۔۔ایک موٹا بھجنگ سا آدمی باہر نکلا اور ان سے گاڑی میں رکھے کالے پلاسٹک کے بڑے بڑے تھیلے اتارنے کو کہا۔

    گاڑی میں اتنی شدید بدبو تھی کہ احمد کے ساتھی کو الٹی آنے لگی وہ وہیں پیٹ پکڑ کر دہرا ہو گیا، اس کے پیچھے کھڑے ہوئے احمد نے تھیلا اس کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی تب ہی اس کا ہاتھ کسی لجلجی چیز سے ٹکرایا۔۔۔وہ سن ہو کر رہ گیا۔۔۔اسکے قدم من من بھر کے ہو گئے تھے۔

    اس کے دوسرے ساتھی نے سہارا دیتے ہوئے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔

    یہ کالے تھیلے مردہ انسانوں کے ٹوٹے پھوٹے اعضاء سے بھرے ہوئے تھے گویا وہ خندق ان کی اجتماعی قبر کے طور پر کھودی گئی تھی۔

    ’’ابھی وہ اس صدمے سے سنبھلنے کی تگ و دو ہی کر رہا تھا کہ پیچھے سے موٹے نگران کا ہنٹر لہرایا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا، ایک زہریلی سنسنی اس کے رگ و پے میں اتر گئی۔ اندھیرے میں اس کا پاؤں کسی ٹوٹے ہوئے درخت کے تنے سے ٹکرایا۔۔۔وہ ٹھوکر کھا کر اس خندق نما قبر میں گرنے لگا اچانک کسی نے اسے مضبوطی سے تھام لیا۔۔۔اس نے سر اٹھا کر اپنے محسن کی طرف دیکھا یہ وہی اس پر ہنسنے والا ساتھی تھا۔ احمد کے دل میں خیال آیا۔۔۔مصیبت میں کیسے کیسے بدمزاج بھی کام آ جاتے ہیں۔ اس نے جیسے احمد کی سوچ پڑھ لی، سرگوشی میں بولا ‘’ یہاں تمہیں پتھر بن کر رہنا ہوگا ورنہ تمہاری قبر بھی نہیں بنےگی۔۔۔ایسے ہی کسی گڑھے میں پھینکنے کو میری ڈیوٹی لگےگی۔۔۔اور مجھے یہ کام بالکل پسند نہیں۔۔۔اس نے اپنے بد نما دانتوں کی نمائش کی اور اگلے ہی لمحے پھر سپاٹ بے تاثر چہرہ لئے اپنے کام جٹ گیا۔

    پندرہ تھیلوں میں گودڑ کی طرح بھرے ہوئے اعضاء جوکبھی جانے کتنے انسان ہوں گے، رزق خاک کرنے کے بعد وہ جھکے کندھوں اور بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے زندانوں میں واپس چلے آئے۔۔۔اس دوران، ان کے نگران انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا اور ہنٹر سے تواضح کرنا نہ بھولے تھے۔

    رات ان کے لئے دو گھنٹوں سے زیادہ کبھی طویل نہ تھی مگر آج یہ دو گھنٹے بھی صدیوں پر محیط ہو چلے تھے۔۔۔وقت کٹتا ہی نہ تھا۔ احمد کی آنکھوں میں نیند کی جگہ جنگل کی کالی مٹی گھس آئی، وہ تھیلے کالے ہیولے بن کر اسے ڈرانے لگے۔۔۔کروٹ بدلنا چاہتا تو برابر میں لیٹے دو اور ساتھیوں کو بھی پریشان کر دیتا سو چپکا پڑا رہا۔

    وہ سب قطار بنائے اپنی بولی کے انتظار میں دلالوں کی ٹولی کے سامنے پیش تھے۔۔۔یہاں وہ روز ہی بکتے تھے۔۔۔آج احمد اور اس کے چار ساتھیوں کی باری تھی۔۔احمد دل میں دعا مانگ رہا تھا۔۔۔وہ کشتی والوں کے ہاتھوں نہ بکے۔۔۔وہ ایسا کیوں سوچ رہا تھا یہ اسے معلوم نہ تھا فی الحال تو کیمپ کی زندگی ہی اس کے کے لئے موت سے بدتر تھی۔۔۔جہاں موٹے نگران نے اسے اپنا رکھیل بنا لیا تھا۔۔۔پھر سوچنے لگا اچھا ہی ہوگا کشتی پر چلا جاؤں۔۔۔ڈوبنے کو پانی تو ملے۔۔۔مگر۔ اس بدماغ عمر رسیدہ ساتھی جسے وہ لوونگ گلاں ھین یعنی انکل ہمت کہنے لگا تھا کی سرگوشی کانوں میں گونجنے لگی۔۔۔ ’’اگر کشتی پر گیا تو کئی سالوں تک زمین کی شکل نہ دیکھ پائےگا۔۔۔ہو سکتا ہے۔۔۔جھینگوں کے لئے کانٹے میں پرو دیا جائے۔۔۔اتنا ننھا سا تو وجود ہے تیرا‘’۔۔۔اس کا رواں رواں انجانے خوف سے کانپنے لگا۔۔۔

    گو اسے ہمیشہ سے مسترد کئے جانے سے چڑ تھی۔۔۔کھیلوں میں بھی جیتنا اور منتخب ہونا اس کی خواہش ہوتی تھی۔۔۔لیکن آج وہ ہار جانے کی پوری تیاری کر کے آیا تھا۔

    اس نے بہت سا نمک ملا پانی پی لیا تاکہ خوب الٹیاں کر کے انہیں بیمار دکھائی دے۔۔۔اور شائد وہ کچھ دن اور زندہ رہنے کو بچ جائے۔

    موٹے نگرانوں کے ساتھ وہ تین نئے لوگ درختوں کے کٹے ہوئے تنوں پر براجمان تھے۔۔۔احمد نے اندازہ لگایا یہ بروکر ہوں گے۔ وہ مقامی بولی میں ان کے بارے میں ہی بات کر رہے تھے۔۔۔انہیں معلوم نہیں تھا احمد ان کی زبان سے واقف۔۔۔بظاہر سر جھکائے مگر کان ان کی طرف لگائے وہ سب ہولناک گفتگو سن رہا تھا۔

    ان میں سے ایک جو جثے سے ان کا مینجر معلوم ہوتا تھا بولا۔۔۔میں نے اب تک ہزار رونگیا بیچے ہیں۔۔۔سالے اپنے ملک میں پٹتے ہیں تو بھاگ بھاگ کر ادھر ہی کا رخ کرتے ہیں۔۔۔اور اپنے وارے نیارے۔۔۔مچھلی کے بیو پاری اچھے پیسے دے رہے ہیں۔ یکا یک اس نے اپنی گدھ جیسی نظریں ان کی طرف گاڑ دیں۔۔۔احمد کو لگا اس کی چوری پکڑی گئی۔۔۔اس کا دل جیسے کانوں میں دھڑکنے لگا۔۔۔مگر وہ محض اس کا خیال تھا۔۔۔وہ آدمی انہیں گھورتے ہوئے بولا ‘’لیکن اگر ایسے چمرخی ہوں گے تو کام کیسے کریں گے۔۔۔اس نے گالی دی اور تھوک ایک طرف پھینکتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔۔۔‘’ میں ان پر دس ہزار بھات بھی کیوں خرچ کروں ‘’۔۔۔موٹا نگران اس کی خوشامد میں لگا تھا اسے ناریل کا دونا پیش کرتے ہوئے گھگھیا یا۔۔۔’’ اچھا تیس ہزار میں چاروں لے لو۔۔۔اس نے احمد اور اس کے ساتھیوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔احمد کو محسوس ہوا جیسے وہ بھیڑیں ہوں۔۔۔اس کے منہ سے ہلکی سی آواز نکلی۔۔۔ جو اسے بھیڑ کی سسکی سے مشابہ لگی۔۔۔ایک لمحے کو اسے لگا وہ بھیڑ کی صورت میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ اس کا دل چاہا وہاں سے بھاگ جائے۔۔۔مگر پاؤں تو خوف نے جکڑ لئے تھے۔۔۔اس نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔

    مگر پھر بھی ہر طرف سے۔۔۔بھیں بھیں۔۔۔اور زنجیروں کی جھنکاریں سنائی دے رہی تھیں۔

    زنجیر کی جھنکار اور بھیڑوں کی بھیں بھیں اور تیز ہو گئی بلکہ اب ان میں کچھ اور آوازوں کا اضافہ ہو گیا تھا۔

    پرانے زنگ آلودہ جہاز پر ڈھیروں کے حساب سے مچھلی پکڑنے کے جال بکھرے تھے موٹی موٹی بوسیدہ رسیوں اور گندے غلیظ فرش پر جس میں جا بجا سوراخ نظر آ رہے تھے وہ سب دائرے کی صورت بیٹھے اپنی دکھ بھری کہانیاں سنا رہے ہے۔۔۔ایک مدقوق لاش نما انسان کے اندر سے آواز آئی۔۔۔میرے گھر والوں کو پندرہ ہزار کیات مل گئے۔۔۔اب کم از گھر کی چھت تو ٹھیک ہو جائےگی۔۔۔ اپنا کیا ہے بچ گیا تو کبھی انہیں دوبارہ دیکھ لوں گا۔۔۔ احمد کو ان کی باتوں سے کوئی غرض نہ تھی وہ گھٹنوں میں سر نہیو ڑا ئے گم سم بیٹھا تھا۔۔۔اس کی امیدوں پر مایوسی کی گہری تاریکی چھا چکی تھی۔۔۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ وہ سب دکھ کے مارے۔۔۔بکے ہوئے انسان۔۔۔نہیں۔۔۔بھیڑیں تھے۔۔۔کوئی اپنی خود کی مجبوریوں کے ہاتھوں بکا تھا تو کسی کو اس کے رشتے داروں نے بیچا۔۔۔کوئی اغوا کر کے لایا گیا اور کوئی پوری پوری کشتیوں سمیت سودا کر دیا گیا جنھیں ان کے ہم وطنوں نے اپنا ماننے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔اب انہیں مہینوں شائد سالوں تک پانی میں ڈولتے رہنا تھا۔

    آوازوں میں آنسوؤں اور سسکیوں کی مقدار زیادہ ہونے پر احمد نے سر اٹھایا۔۔۔ برابر میں بیٹھا اسی کی عمر کا نوجوان اسی کی طرف ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔

    اسے اپنی طرف متوجہ پا کر اپنی بپتا سنانے کو منہ کھولا۔۔۔مگر احمد جھنجلا کر بولا۔۔۔ہاں مجھے معلوم ہے تمہیں بھی تمہارے اماں ابا کی یاد ستا رہی ہوگی۔۔۔ہاں تمہیں کیسے معلوم۔۔۔وہ تو سمجھ رہے ہوں گے میں سمندر میں ڈوب کر مر گیا۔۔۔یہ کہہ کر بلک بلک کر رونے لگا۔۔۔احمد کو اس پر ترس نہیں آیا بلکہ چڑ کر بولا۔۔۔نہیں مرے ہو مگر جلدی مر جاؤگے۔۔۔نوجوان کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔

    چچا ہمت نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔احمد نے جھینگوں کو اپنی گلی ہوئی انگلیوں سے جال سے نکال کر ٹوکریوں میں اکھٹا کرتے ہوئے دکھ سے سوچا۔۔۔کاش کسی طرح یہاں سے بھاگ سکتا۔۔۔اسے جہاز پر کام کرتے چھ مہینے سے زیادہ ہو چکے تھے اس نے عرشے کے فرش پر مچھلی صاف کرنے کی چھری کے نشانوں کو گنتے ہوئے اندازہ لگایا۔۔۔وہ ہر روز اک نشان ایک دن کے گزرنے کی یاد کے طور پر لگاتا جاتا۔۔۔اس کی پیٹھ پر اسٹنگرے مچھلی کے ہنٹر کے تو لاتعداد نشان ثبت تھے ہر نشان ایک ایسا کرنٹ چھوڑ جاتا جس کی چبھن دل تک لہروں کی صورت دیر تک محسوس ہوتی رہتی۔۔۔مگر وہ خریدا ہوا مہرہ تھا مہذب دنیا کو معلوم بھی نہ تھا آج کیسے اس کے ایک ساتھی کو ہاتھ پاؤں چار کشتیوں سے باندھ کر کھینچا گیا تھا اس کے بدن ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔۔۔موٹے نگران اور ان کے ساتھی سب کے سب ہنس رہے تھے۔۔۔اور مدقوق چہرے والے اپنی قسمتوں کو رو رہے تھے۔

    بس بہت ہو گئی۔۔۔احمد نے اپنے اندر غصے کی لہر کو محسوس کیا۔۔۔ایک عجیب سے احساس جو آج سے پہلے غلامی کی بھاری زنجیروں تلے دب کر مر چکا تھا۔۔۔اسے اندازہ ہوا۔۔۔ابھی وہ مرا نہیں زندہ ہے۔۔۔اس نے موٹے نگران کے موبائل فون کی طرف نگاہ دوڑائی جو شراب پی کر ایک طرف کو اونگھ رہا تھا۔۔۔باقی بھی ہنس ہنس کر اب شراب کے نشے میں دھت پڑے تھے۔۔۔اس نے چپکے سے موبائل فون اڑا لیا۔

    وہ مچھلی اور جھینگے کی صنعت میں موجود کرپشن، غریب ملکوں کے بے سہارا اور مجبور لوگوں کی مچھلی کے تاجروں کے ہاتھوں پائمالی اور سرمایہ داری نظام کی بدترین شکل منظر عام پر لانے کو بے تاب تھا۔ یہ اپنے کاروبار کو منافع بخش رکھنے کو کیا کچھ نہیں کرتے۔۔۔اس کا رواں رواں فریاد کناں تھا۔۔۔وہ سوچ رہا تھا۔۔۔جدید دنیا کی غلامی کی یہ صورت کس قدر بھیانک تھی۔ مگر ساتھ ہی یہ خدشہ کھائے جا رہا تھا۔۔۔ ایک پورے ملک کی ماہی گیری کی صنعت کا مستقبل اس تفتیشی رپورٹ کے ہاتھوں میں ہے۔۔۔ یہ انکشاف ہزاروں چھوٹے ماہی گیروں کو معاشی طور پر قتل کر دےگا۔۔۔کوئی ان کی مچھلیاں اور جھینگے نہیں خریدےگا۔۔۔اس کا دماغ پھٹنے لگا۔۔۔صبح تک اسے فیصلہ کرنا تھا۔

    کمرے میں اے سی کی ہلکی سی گھر گھر کے سوا مکمل خاموشی تھی۔۔۔ڈین کمپیوٹر پر اپنے پروجیکٹ کو فائنل ٹچ دینے میں اتنا محو تھا کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہو سکا۔۔۔دیوار گیر گھڑی نے دو بجائے۔۔۔اس نے اپنی جھکی ہوئی کمر سیدھی کی اور فون پر آئے ہوئے لاتعداد میسجز کی لسٹ لا پرواہی سے دیکھ کر اپنے سرہانے رکھنے کو ہاتھ بڑھا یا۔۔۔مگر ایک مسیج بار بار ابھر رہا تھے اسے محسوس ہوا جیسے کوئی ڈوب رہا ہو۔۔۔اس نے اگر ہاتھ چھوڑا تو وہ پانی کی تہ میں بیٹھ جائےگا۔۔۔فون اسکرین پر وہی پیغام نمایاں ہو گیا تھا جسے وہ کئی بار ادھورا پڑھ چکا تھا۔۔۔ہم جو تمہیں قیمتی مچھلیاں اور جھینگے کھلاتے ہوئے پانی کی قبر میں دفن ہو گئے۔۔۔اگر ذرا گردن جھکا کر سمندر کی تہ میں دیکھو۔۔۔تمہیں ڈھانچوں کے انبار نظر آئیں گے جو اگر ابھر آئیں تو تمہارے شہر ڈھانچوں سے بھر جائیں گے۔۔۔اس نے آنکھیں پھاڑ کر پیغام کی طرف دوبارہ دیکھا۔۔۔اب وہ تحریر غائب تھی صرف لکھا تھا۔۔۔ہماری مدد کرو اور ساتھ میں موبائل فون نمبر تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے