Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ

نورین علی حق

تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ

نورین علی حق

MORE BYنورین علی حق

    وہ ہرن کو مسلسل غورسے دیکھے جارہا ہے۔

    اس کے لب ہل رہے ہیں، اس کا صوتی آہنگ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی موسیقی پیدا کررہا ہے، آنکھیں ہرن کے چہرے پر مرتکزہیں، وہ اس کا پورا چہرہ دیکھ نہیں پارہا ہے، صرف چہرے کا دایاں حصہ ہی اسے نظر آرہاہے، ہرن کار خ جنوب کی طرف ہے اور اس کے عقَب میں شمال دور تک پھیلا ہواہے اور وہ مشرق کی طرف چہرہ کرکے کھڑا ہے۔ کعبہ اس کے پیچھے ہورہا ہے، کلیسا اب تک اس کے آگے ہوسکا ہے یا نہیں۔ یہ پروثوق لہجے میں نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ ہرن اور وہ اپنے اپنے رخ کی سمت میں اگر لیٹ جاتے تو یقینا کراس کا نشان بن جاتا۔

    ہرن کی بے نیازی اسے مضطرب کررہی ہے یا شاید ہرن کا جنوب کے خلاؤں کو گھورنا اسے پسند نہیں آرہا ہے۔ یہ بھی پورے اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہرن بے نیازی اختیار کر رہا ہے یا تجاہل عارفانہ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تجاہل عارفانہ یا بے نیازی سے بھی ایک شناسائی ضرور مرتعش ہورہی ہے اور شناسائی جامۂ ناآشنائی کو تار تار کرتے کرتے اپناارادہ موقوف کیے دے رہی ہے۔

    وہ ہرن کو دیکھتا ہوا آگے بڑھ گیا ہے، اپنی کٹیا کی طرف۔ اس کٹیا کی طرف جو اس کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر بھٹکتی رہتی ہے، جس میں زندگی کی آسائش کا کوئی نظم نہیں۔ وقت بے وقت پڑ رہنا اور پھر اٹھ کر اپنے کاموں میں پوری دل جمعی اور لگن کے ساتھ لگ جانا، شاید اس نے زندگی میں یہی سیکھا ہے، اس کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں۔

    وہ گٹھری پر داہنے ہاتھ سے ٹیک لگائے بیٹھاہے، اس کی ٹانگیں پھیلی ہوئی ہیں یا شاید بائیں ٹانگ پھیلی ہوئی اور داہنی اوپر کی طر ف مڑی ہوئی، اس کا چہرہ آسمان کی طرف تھوڑا اٹھا ہوا ہے وہ کچھ گنگنا رہا ہے، خود سے شاید باتیں کررہا ہے۔ اس کی آنکھیں کہاں دیکھ رہی ہیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔ آنکھوں کی پتلیاں بھی معنی خیز انداز میں شاید ترچھی ہرکر آسمان کو تاک رہی ہیں۔ وہ کچھ سوچ رہا ہے یا افسردگی کی حالت میں اپنا مرثیہ پڑھ رہا ہے، کسی کو کیا معلوم۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسے پسینہ آنے لگا ہے، وہ اکتاہٹ اور عجلت میں اپنا پسینہ پوچھتا جارہا ہے۔ اس کی آنکھیں بھی ٹھنڈے پسینے سے شرابور ہوگئی ہیں۔ وہ پوری قوت کے ساتھ اٹھتا ہے اور سر کو جھٹک کر ایک مخصوص انداز میں دوزانو بیٹھ جاتا ہے۔ اس نے اپنی گردن ہلانا شروع کردی ہے، اس کی یہ رفتار بڑھتی جارہی ہے، وہ اپنے چہرے کو سینے کے بائیں حصہ سے دائیں طرف لے جاتا ہے اور پھر دائیں جانب سے بائیں طرف لے کر آتا ہے اور شاید سینے کے اندر پوشیدہ دل کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر تیز جھٹکے دیتا ہے۔ وہ یہ عمل بہت ماہر اور مشاق کی طرح انجام دے رہا ہے اور ساتھ ساتھ کچھ کہتا جارہا ہے۔ وہ کیا کہہ رہا ہے یا زبان سے کیاادا کررہا ہے، وہ قابل فہم نہیں۔ اس کی آواز کانپ رہی ہے۔ شاید اس عمل کے ساتھ ساتھ وہ روتا بھی جارہا ہے، سسکنے اور بلکنے کی آواز بھی اُس آواز کے ہمراہ ہونے کی وجہ سے ماحول میں صوتی آلودگی نہیں پھیل رہی ہے، ماحول سراسیمہ ضرور بنتا جارہا ہے۔

    فضا میں روحانیت کے ساتھ تپش کا احساس بھی ہورہا ہے۔ بہت غور کرنے پر بس’لا‘ کی صدا سمجھ میں آرہی ہے۔ ’لا‘ کی صوتی تفہیم کے بعد منظر نامہ بدلتا جارہا ہے۔ لیکن ’لا‘ کی تعبیرممکن نہیں۔ اس ’لا‘ کے مسلسل اقرار سے شاید دنیا کے انکار کا امکان روشن ہورہا ہے۔ اس کی ضربوں کی رفتار بڑھتی جارہی ہے۔ دل کی کیفیت بھی بدل رہی ہے۔ اس کی آواز تیز ہوتی جارہی ہے۔ زیر دامن کو ہ بس اس کی یک وتنہا آواز ہے اور ہر طرف خاموشی، سراسیمہ کردینے والی خاموشی، تھرا دینے والا سکوت اور اس سکوت کی چادر کو پاش پاش کرنے والا اس کا نعرۂ ’لا الہ‘۔

    ضربوں کی بڑھتی رفتار اور تعداد سے اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہورہا ہے۔ چہرے پر سرخی آتی جارہی ہے۔ سانولاپن دور ہوتا جارہا ہے۔ وقت وحالات کی دھوپ کی تپش کا احساس اس کے چہرے سے ہرن ہوتا جارہا ہے۔ لیکن دل کے کسی کونے کھدڑے میں اب بھی ہرن دھونی رمائے بیٹھا ہے، کبھی کبھی جب دل سے نکل کر ہرن ذہن پر سوار ہونے لگتا ہے تو اس کی ضربوں کی چوٹ اور دل پر جھٹکے لگانے کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے۔

    جیسے جیسے اس کی آواز تیز ہوتی جارہی ہے اور ضرب کی چوٹیں بڑھتی جارہی ہیں، آس پاس کا ماحول بدلتا جارہا ہے۔ پھول مرجھا رہے ہیں، درختوں اور پتوں کی ہریالی زردی میں تبدیل ہوتی محسوس ہورہی ہے، دیواروں، کھمبوں اوراز منۂ قدیم کی یادگاربوسیدہ حویلیوں سے لپٹے اودے اودے، نیلے نیلے پھول پتیوں کی بیلیں پیلے پیلے پیرہن میں بدلتی جارہی ہیں۔ انسانوں کی طرح ان کی گردنیں بھی کسی کے اعتراف میں اور اس کے ’لا‘کے اقرار میں زمین کی طرف جھکتی جارہی ہیں۔

    ہرن دوڑتے دوڑتے، قُلانچیں بھرتے بھرتے، بوسیدہ حویلیوں کی درزوں اور دیواروں سے اچھلتے کودتے اور پہاڑ پر چڑھتے اترتے شاید تھک چکا ہے۔ وہ بھی اس کی آواز کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔ ہر ن نے پہلے تو اس کی کٹیا کے گرد دوچار چکر لگائے، پھر کٹیا کے داخلے کے عین سامنے کچھ دور پر چار زانو بیٹھ گیا، جیسے انسان دوزانو بیٹھتے ہیں۔ وہ مسلسل اسی طرح بیٹھا ہوا اسے دیکھ رہا ہے، وہ ضربوں پر ضربیں لگائے جارہا ہے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ ہرن اپنی گردن موڑ کر ارد گرد کے ماحول کو بھی نہار رہا ہے۔ اردگرد میں اداسی چھائی ہوئی ہے۔ جنگلی کبوتروں کا کوئی غول اس کے سر کے بہت اوپر سے گزرجاتا ہے اور کوئی زمین کی طرف اترتا نظر آتا ہے تو ہرن اس غول کی طرف دیکھنے لگتا ہے، جنگلی کبوتروں کا غول زمین پر اترتا ہے اور دانے چگنے لگتا ہے، یہاں دانے ڈالنے والا بظاہر کوئی نظر تو نہیں آتا، کیا پتہ کبوتروں کا غول کیا چگ رہا ہے۔ اس بیابان میں کچھ تو ہوگا، جسے چگنے کے لیے کبوتروں کا غول وقتاً فوقتاً اترتارہتا ہے۔

    اس نے دوسری طرف اپنی گردن موڑی اور قدیم حویلی کی خستہ اونچی دیواروں کو دیکھنے لگا۔ ہرن کی بے چینی صاف جھلک رہی ہے۔ وہ دیواروں پر کسی کو تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے، اسے یاد آیا کہ کئی دنوں سے اس نے مور نہیں دیکھے، وہ بے چینی میں کبھی گردن اونچی کرکے اور کبھی نیچی کرکے دیواروں کو دیکھ رہا ہے، تبھی دور کی دیوار پر ایک مور ٹہلتا ہوا نظر آگیا، ہرن اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور مور کو دیکھ کر کبھی اگلی ٹانگیں اور کبھی پچھلی ٹانگیں اٹھانے لگا، وہ اپنی جگہ سے ہٹے بغیر وہیں پرزقندیں لگانے لگا، شایدمور کو دیکھ کر اسے دلی سکون اور قلبی اطمینان حاصل ہوا ہے۔ وہ مور کو بہت غور سے دیکھ رہا ہے۔

    ہرن کے چہرے سے خوشی ظاہر ہورہی ہے اور مور اپنی مستی میں ہرن سے بے نیاز ٹہلتا ہوا، ایک دیوار کی منڈیر سے دوسری اور دوسری سے تیسری منڈ یرپر ٹہلتا ہوا ہرن کی آنکھوں سے دور ہوگیا۔ مور کو اپنی نگاہوں سے دور ہوتا دیکھ کر ہرن سست پڑنے لگا ہے۔ وہ بوجھل نگاہوں کے ساتھ ادھر ادھر دیکھنے کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ہے اور اسے غور سے دیکھنے لگا، کیا پتہ ہرن کو اس سے کیا دلچسپی ہے کہ وہ مسلسل اس کی کٹیا کے اردگرد منڈلاتا رہتا ہے یا شاید اس کی آواز اور اس کی کیفیت ہرن کے دامن دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے، اس کا اظہار تو خود ہرن ہی کرسکتا ہے۔

    اس کی ضربوں کی آواز یں دھیمی ہوتے ہوتے رک گئی ہیں۔ اس کے چہرے سے سکینت جھلک رہی ہے۔ شاید اندر کہیں بے چینی وبے قراری اب بھی باقی ہے۔ ضربیں کام تو کر گئی ہیں۔ اسے اپنے سینے میں اک دھماچوکڑی کا احساس ہورہا ہے۔ وہ کٹیا سے نکلنے کے لیے جیسے ہی کھڑا ہوا، اس کی نگاہیں ہرن کی نگاہوں سے ٹکرا گئیں۔ وہ ٹھٹھک کر، سہم کر رک گیا ہے۔ دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے کی آنکھوں کو دیکھ رہی ہیں۔ اس سے پہلے اس نے اپنے ارتکاز، اپنی موج اور سنگ میل پر نظر رکھنے کی وجہ سے ہرن کی آنکھوں پر کبھی غور نہیں کیا تھا، یک بہ بیک آمنا سامنا ہوا تو ہرن کی آنکھیں اس کی آنکھوں کو کھپ گئیں۔ ہرن کی بڑی بڑی آنکھیں اور دور تک کھنچے ہوئے آنکھوں کے کنارے اسے کشش ثقل کے انداز میں اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ہرن کی آنکھوں پر غورکرتے ہوئے اس کا چہرہ متفکر نظر آنے لگا ہے۔ ماتھے پرپسینہ آگیاہے۔ تشبیہ میں تقلیب در آئی ہے اور تشبیہ مقلوب کے طلسم ہائے معانی کے دروا ہوگئے ہیں۔ برسوں پہلے ذہن ودل میں محفوظ کیے ہوئے نکھرے مگر بکھرے الفاظ، زبان سے ادا ہورہے ہیں۔ گردش چشم سیاہ تو خوشم می آید۔ موج دریائی نگاہ تو خوشم می آید۔ موج دریائی نگاہ تو خوشم می آید۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی زبان ان الفاظ کو بار بار دہرارہی ہے۔

    اس کے دماغ میں زلزلہ آگیا ہے۔ حضورئی قلب کی اصطلاح اپنے معانی کھونے لگی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے حاصل ہونے والی سکینت سے وہ ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ اس کے چہرے کا رنگ بار باربدل رہا ہے۔ ایک رنگ آتا ہے اور ایک جاتا ہے۔ ہواؤں کا ایک تھپیڑا بہت تیزی کے ساتھ آکر اس کے چہرے سے ٹکرایا ہے۔ چند لمحوں کے لیے بند ہونے والی آنکھیں کھلیں تو ہر چہار جانب غبار ہی غبار تھا، دھول بھری آندھی، کالا غبار، عجیب وغریب دل کو دہلادینے والا طوفان، گردوغبار سے اٹا ہوا ماحول اس کی نگاہوں کے سامنے ہے اور وہ بار بار اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں صاف کیے جارہا ہے، اسے شایدیقین نہیں ہورہا ہے کہ واقعی طوفان آیا ہے، وہ مذبذبین بین ذٰلک ہے۔

    وہ کشمکش کی حالت میں کبھی اپنے آپے سراپے کاجائزہ لے رہا ہے، کبھی آنکھیں کھول کر سامنے کے مناظر دیکھنے کی کوشش کررہا ہے، اسے محسوس ہورہا ہے کہ اس کے اندر کا طوفان حواس خمسہ کے ذریعہ باہر الٹ آیا ہے۔ وہ پریشان حال ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کررہا ہے، قدیم بوسیدہ حویلی کی ادھڑی دیواریں، آس پاس کے حسین مناظر، پھول پودے، پتے پتیاں، درخت سب کالی آندھی کی زد میں ہیں۔ موسم حبس زدہ ہے، اس کے جسم کو گرمی کا احساس شدت کے ساتھ ہورہا ہے، بدن پرکیڑے رینگنے لگے ہیں۔ عجیب سی اکتاہٹ کا وہ شکار ہے، زیاں کا احساس اپنے پنجے مضبوطی کے ساتھ گاڑتا جارہا ہے۔ ماحول کی ہریالی بد رنگ ہوگئی ہے، ہر طرف نحوست ٹپک رہی ہے۔ اس کا پیمانہ اندر اور باہر کے طوفان کی شدت ناپنے میں ناکام ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسے کرناکیا چاہئے۔

    سوچے سمجھے بغیروہ اپنی کٹیا کے باہر ایک جگہ ساکت وجامد کھڑا ہونقوں کی طرح ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں کھارہا ہے، اس کے وجود کے ہر عضو میں طوفان بھر گیا ہے، جو اسے کوئی کل چین نہیں لینے دیتا۔ وہ دیکھتے دیکھتے چونک گیا ہے، اس کی نگاہوں کے سامنے سومیٹر کے فاصلے پر طوفان کی سیاہی اکٹھا ہورہی ہے۔ سیا ہیوں کا ایک سلسلہ ٹھہر کر کینوس کا روپ اختیار کرتا جارہا ہے۔ وہ اپنے پورے احساس، حواس اور بصارت کے ساتھ کینوس پر مرکوز ہوگیا ہے۔ کینوس کا رنگ ایک آدھ بار بدلتا ہے، کوئی روشنی کا جھماکا اس پر آتا ہے اور غائب ہوجاتا ہے، جیسے سنیما تھیٹر میں پردے پر کبھی لیذر لائٹ جھماکاکرتی ہے اور غائب ہوجاتی ہے اور پھر روشنی کے ایک جھما کے ساتھ کینوس روشن ہوجاتا ہے۔ وہ دم بخود، حیران پریشان، آنکھیں پھاڑے کینوس کو تاک رہا ہے۔ وہ بار بار عجلت میں اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں صاف کررہا ہے۔

    کینوس پر کوئی اور نہیں وہ خود ہے، وہ دیکھ رہا ہے کہ وہ صنم کدۂ کائنات میں کھو نہیں رہاہے، انسانوں کے جنگل میں وہ بالکل ویسے ہی زیست کررہا ہے، جیسے مچھلی پانی میں ڈوبتی بھی نہیں اور پانی کے بغیر رہتی بھی نہیں۔ دینی ودنیوی فرائض وواجبات کی ادائیگی میں بھی فعال نظرآرہا ہے، ارتفاع وارتقائے منازل کاتناسب بھی مناسب ہے، وہ کینوس کو آنکھیں جھپکے بغیر دیکھے جارہا ہے، مناظر سامنے آرہے ہیں اور مناسب وقفے کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اس کے چہرے سے کبھی سکون کا اظہار ہورہا ہے اور کبھی اضطراری کیفیت کا۔ بہت سے سین اور مناظر دیکھنے کے بعد کیمرہ مناسب ٹھہراؤ کے ساتھ کینوس پر ایک بلند وبالا پہاڑ دکھا رہا ہے۔

    وہ پوری طرح کینوس پر متوجہ ہے، اس کی نگاہیں اور دل سرعت کے ساتھ وہ منظر دیکھنا چاہتے ہیں، جسے دکھانے کے لیے پہاڑ دکھایا جارہا ہے۔ کینوس پر پہاڑ کبھی دور جاتا ہوا نظرآرہا ہے اور کبھی قریب آتا ہوا، وہ محویت کے عالم میں ہے کہ یکایک پہاڑ زوم آؤٹ کے بعدزوم ان ہونے لگا، پہاڑ کو نیچے سے زوم ان کرتا ہوا کیمرہ اوپر کو بڑھتا جارہا ہے، اسے اکتاہٹ ہورہی ہے، وہ جلد از جلد منظر دیکھنا چاہتا ہے، کیمرہ اب قنۃ الجبل کو دکھارہا ہے، پہاڑ کی چوٹی پر اسے بیٹھا ہوا کوئی نظر آرہا ہے، وہ اسے پہچاننے کی کوشش کررہا ہے، کینوس میں پہاڑ کی چوٹی پر ایک سایہ سالہرا رہا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے سایے کانین نقش ظاہر ہوگیا ہے۔

    زوم ان کا سلسلہ آہستگی کے ساتھ مگر بتدریج جاری ہے، وہ یہ دیکھ کر افسردہ ہوگیا ہے کہ وہاں بھی وہی ہے، وہ سسکنے لگا ہے، شاید اب اسے پہاڑ کی چوٹی پر خود کودیکھنا اچھا نہیں لگ رہا ہے، مگر وہ دیکھ رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ کینوس میں پہاڑ پر موجوداس کے سامنے ایک تصویر آئی ہے اور اس کی زبان ہلنے لگی ہے، کینوس کے ساؤنڈ سسٹم سے اس کی آواز باہر نکل رہی ہے وہ کینوس سے نکلتی ہوئی اپنی آواز سن رہا ہے۔ ’جنھاں بنا اک پل نئیں سی لنگدا۔‘اس لنگدا کی الف کی ادھوری ادائیگی کے ساتھ وہ بلند وبالا پہاڑ کی چوٹی سے لڑھک گیا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ وہ عرش سے فرش کی طرف بہت تیزی کے ساتھ گررہا ہے وہ خود کو ہاتھ پیر مارتا ہوا، حواس باختہ نظرآرہا ہے، اس سین کے گزرتے ہوئے لمحات میں کینوس اور کٹیا کے پاس موجود وہ دونوں بے قرار ہوگئے ہیں۔

    اسے محسوس ہورہا ہے کہ اس کی داہنی ٹانگ پر کوئی پیار سے پنجے مارہا ہے، لیکن وہ اس کی طرف مخاطب نہیں ہوتا، وہ کینوس کی طرف متوجہ ہے، اسی کے ساتھ جیسے کسی نے ’کٹ‘کی صدا لگائی اور کینوس غبار میں بدل گیا، اس نے اپنی نگاہیں نیچی کی ہیں اور اپنی داہنی ٹانگ کی طرف دیکھ رہا ہے، وہاں بیٹھا ہوا ہرن اسے بڑی معصومیت کے ساتھ مسلسل دیکھے جارہا ہے، وہ بھی ہرن کو غور سے دیکھتے ہوئے پنجے کے بل بیٹھ گیا ہے وہ ہرن کے چہرے کو بغور دیکھ رہا ہے ہرن کے سرپرسینگیں نہیں ہیں وہ سوچ رہا ہے کہ اس بے منھ کے جانور کو الخلق عیال اللہ کے زمرے میں رکھنا ہے یا دوئی پسند باطل اور حضور ئی قلب کے درمیان حائلین کے طبقے میں۔

    اسے ہرن کے دہانے کے نیچے ایک کٹ نظر آگیا ہے۔ وہ اسے دیکھنے لگا، شاید اسے افسوس ہورہا ہے لیکن اس نے فوراً ہرن کی طرف سے اپنا رخ پھیر لیا، دوسری طرف دیکھنے لگا، اسے درودیوار، پھول، پتے اور ہرن ’لا‘ کے سانچے میں ڈھلتے نظر آرہے ہیں، وہ جدھر دیکھتا ہے، ہر طرف ہر چہار جانب بس ’لا‘ نظر آرہا ہے، جیسے زمین، آسمان، آفتاب، ماہتاب سب ’لا‘میں تبدیل ہوگئے ہیں وہ لڑکھڑا تا ہوا اٹھا اور تیز تیز بھاگنے لگا، جیسے کسی پاگل کو پاگل خانے سے بھاگنے کا موقع مل گیا، موسم سہانا ہوگیا ہے، موسلا دھار بارش ہورہی ہے اور وہ دوڑ تا جارہا ہے، بھاگتاجارہا ہے، اسے خود نہیں معلوم جانا کہاں ہے، مگر جارہا ہے، بلکہ وہ بھاگ رہا ہے، سب سے بھاگ رہا ہے، شاید خود سے بھی۔

    ایک آدھ کلو میٹر دوڑنے بھاگنے کے بعد بارش کا زور ٹوٹنے لگا ہے، پرندے اپنے گھونسلوں سے نکلنے لگے ہیں، کبوتروں کے غول در غول نیچی اڑانیں اڑتے ہوئے ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں، ہرن کا ریوڑ قلانچیں بھررہا ہے، جگہ جگہ مور نظر آرہے ہیں، ان میں کچھ دانے دنکے چگ رہے ہیں، کچھ اپنے پنکھ قوسِ قزح کی طرح پھیلائے محو رقص ہیں اور ایک مخصوص آواز نکال رہے ہیں، مور کا رقص اور ان کی آواز سن کر اس کا دل بَلیوں اچھلنے کی کوشش کررہا ہے مگر وہ بہت تیز تیز ’لا‘ ’لا‘ کرتا ہوا اور اپنی گردن انکار میں ہلاتا ہوا بھاگتا چلا جارہا ہے، بھاگتے ہوئے اسے ایک کنواں نظرآگیا ہے، وہاں ایک باریش بزرگ نیم دراز ہیں، کنویں کے منڈیر پر دوچار کوے بیٹھے انھیں سن رہے ہیں اور وہ اپنی شہادت اور اس سے متصل سب سے بڑی انگلی سے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔ ؎

    کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس

    دو نیناں مت کھائیو پیا ملن کی آس

    ان دوسطروں کو سنتے ہی اس کی کیفیت پوری طرح مضطرب ہوگئی ہے، وہ پاگلوں کی طرح حرکتیں کررہا ہے اور زبان سے بار بار العشق نار تحرق ماسوی المعشوق کا نعرۂ مستانہ لگا رہا ہے، کپڑے پھاڑ رہا ہے اور بار بار یہی نعرہ لگاتا جارہا ہے۔ العشق نارتحرق ماسویٰ المعشوق۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے