Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تصویریں

MORE BYنیلم احمد بشیر

    گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں بھڑکتا سورج سروں پر سے ہوتا ہوا آگے کی منازل طے کر رہا تھا۔ سکول سے اپنے بچوں کو پک کرنے کے بعد میں مین بلیوارڈ گلبرگ کے ٹریفک جام میں پھنسی بیزاری سے ادھر ادھر نظریں دوڑا رہی تھی۔ ٹیلی فون کی نئی تاریں بچھانے کی غرض سے سڑک جگہ جگہ سے کھدی پڑی تھی۔ شدید گرمی میں ہارن بجاتے موٹر سائیکل اور گاڑیاں سست روی سے آگے کو سرک رہی تھیں، جن میں سوار بھوک کے مارے منہ بسورتے نڈھال بچے بے چارگی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ شدید ٹریفک جام میں رکی ہوئی گاڑیوں کے انجن گرم ہو جانے کے باعث ڈرائیور حضرات بار بار بند کرکے ان کے شیشے نیچے گرا دیتے ۔مگر پھر بھی گرم لو کے تھپیڑوں نے اندر بیٹھے لوگوں کے چہرے کملادیئے تھے۔ دوسروں کی طرح ٹریفک میں پھنسی میں بھی اندر سے بھنی بیٹھی تھی اور اپنے بچوں کی بھوک سے مردہ شکلیں دیکھ دیکھ کر پیچ وتاب کھائے جا رہی تھی۔ گرمی کی شدت سے بےکیف زندگی کی بدمزگی چہروں سے چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ ’’لائف از ٹف‘‘ میں نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے لمحہ بھر کے لئے سوچا اور منہ بناتے ہوئے باہر کی طرف دیکھنے لگی۔ حد نگاہ تک مہنگی ترین چمچماتی کاروں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔

    اچانک فضاؤں میں مجھے بلھے شاہ کی سریلی کافی گونجتی ہوئی سنائی دی۔ ’’بلھا کی جانڑاں میں کون ...؟‘‘ بےاختیار میری نظریں اس آواز کے تعاقب میں بائیں طرف کو جا پڑیں، جہاں ایک ہرے ہرے گوبر سے بھرا گڈا رستہ بناتا اتنی آسانی سے گزرنے لگا جیسے تمام رکاوٹوں کے باوجود پانی اپنا راستہ کھوج لیتا ہے۔ گڈے کو کھینچنے والے دو مٹکتے بیلوں کی گردنوں سے بجتی گھنٹیوں کی آوازیں مجھے گاؤں کے کسی پنگھٹ پہ پانی بھرتی گوریوں کی چھن چھن کرتی پائلوں کی یاد دلانے لگیں۔ گڈے پہ بیٹھا دیہاتی نوجوان بڑا سا پگڑ باندھے ارد گرد کے ماحول سے بالکل انجان اپنی ہی دنیا میں مست کافی گائے جا رہا تھا۔ پگڑ سے باہر جھانکتے اس کے لمبے لمبے بال شانوں پر جھول رہے تھے۔اس کی بےنیازی اور بےفکری سوا نیزے پر آئے سورج، آگ برساتی گرمی اور لو کے تھپیڑوں کو شکست دے رہی تھی اور وہ مستی میں جھومتا ہوا خوبصورت کافی ’’بلھا کی جانڑاں میں کون ...؟‘‘ کی تانیں لگاتا میرے قریب سے گزر تا چلا گیا اورمیں اسے حیرت سے تکتی رہ گئی، جس کے مطمئن چہرے پرصاف لکھا ہوا تھا ’’زندگی کتنے مزے کی چیز ہے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے