ٹیکسی ڈرائیور
’’لعنت ہو ان امیر لوگوں پر!‘‘ دتو نے حقارت سے کہا۔
جب اس نے اپنی ٹیکسی اپنی کھولی کے سامنے پارک کی، اس کی نظر پچھلی سیٹ پر پڑے پرس پر پڑی۔ پرس کرنسی نوٹوں سے پھٹا جا رہا تھا۔ بظاہر یہ کسی مسافر کا تھا۔ لیکن خوش ہونے کی بجائے دتو بری طرح سے بےچین ہو گیا۔ وہ اس کا کیا کرےگا؟ شام ڈھل چکی تھی۔ اس کا سارا دن شہر کے طول و عرض میں ٹیکسی چلاتے ہوئے گزرا تھا۔ آخری مسافر کو اس نے راستے سے لیا تھا اور ریلوے اسٹیشن پر چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ پرس کے مالک کو کہاں تلاش کرےگا؟
دتو کو یقین تھا کہ اس طرح حاصل کیا گیا پیسہ ایک لعنت ہے۔ وہ پہلے بھی ایک بار اس عذاب سے گزر چکا ہے۔ ایک بازاری عورت اس کی ٹیکسی میں اپنا اٹیچی کیس بھول گئی تھی۔ ان پیسے والوں کا دماغ کم ہی کام کرتا ہے۔ اٹیچی کیس کی ہر چیز ایک مصیبت تھی۔ انہیں دنوں اس کی بیوی کو جلد کی بیماری برص ہو گئی۔ اس بےوقوف نے غیر کا بلاؤز اور ساڑی پہنی اور لاعلاج مرض میں مبتلا ہو گئی۔
اس کے بعد ایک عرصہ تک جب بھی کوئی دتو کی ٹیکسی میں سوار ہوتا، دتو اس مسافر سے اس کا نام اور پتا پوچھتا۔ لوگ سوچتے کہ اس سکھ ڈرائیور کا دماغ پھر گیا ہے۔ دتو وضاحت کرتے ہوئے کہتا، ’’آپ امیر لوگ بہت بے پروا ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے آپ اپنی کوئی چیز پیچھے ٹیکسی میں چھوڑ جائیں۔ بے چارے ٹیکسی ڈرائیور کے لیے تو ایسی صورت میں ایک مسئلہ آن کھڑا ہوتا ہے۔ وہ نہ تو اس کو لوٹا سکتا ہے اور نہ اپنے پاس ہی رکھ سکتا ہے۔‘‘
دتو کو یہ عادت اس لیے ترک کرنی پڑی کہ ہربار جب وہ یہ سوال پوچھتا مسافر اس سے جرح کرنے لگتے۔ اب اگر اسے مسافر کا نام اور پتا معلوم ہوتا تو وہ اس کے پاس جاکر پرس لوٹا سکتا تھا، اس طرح نجات ممکن تھی۔ جب بھی وہ اپنی بیوی کے چہرے پر سفید داغ دیکھتا، وہ خود سے کہتا، ’’جو چیز میری نہیں، اس سے میرا کوئی سروکار نہیں۔‘‘
آج کسی دوسرے کا بٹوا ہاتھ میں لیے دتو کو پاکستان میں اس کے آبائی قصبے کے صدر بازار میں بہت سال پہلے گزرا ایک واقعہ یاد آیا۔ وہ اس وقت شرنارتھی دتو نہیں تھا۔ وہ کھاتے پیتے ماں باپ کا بیٹا ہردت سنگھ تھا۔ وہ میٹرک کے امتحان سے ابھی فارغ ہوا ہی تھا۔ ایک شام جب وہ سائیکل پر سوار بازار میں سے گزر رہاتھا، اس کی نظر سڑک کے بیچ میں پڑے ایک پارسل پر پڑی۔ وہ سائیکل سے اترا اور اسے اٹھا لیا۔ پارسل باقاعدہ مہربند تھا۔ قدرے بھاری بھی۔ اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ بازار میں زیادہ ٹریفک نہیں تھی۔ دوکاندار گاہکوں کے ساتھ مصروف تھے، گویا اسے کسی نے دیکھا نہیں تھا۔ بغیر اِدھر اُدھر دیکھے دتو نے پاؤں پیڈل پر دھرے اور مع پارسل کے بازار سے باہر نکل آیا۔
وقت ضائع کیے بغیر موقع دیکھ کر اس نے ایک سنسان جگہ پر سائیکل روکی اور پارسل کو کھولنا شروع کر دیا۔ پیکنگ کے کاغذ کی ایک پرت اتاری، پھر دوسری، تیسری اور پھر پرت درپرت سلسلہ چل نکلا۔ ایسا لگا کسی نے مذاق کیا تھا۔ پارسل اصل میں کاغذ کی پرتوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ دکان دار جو دن رات نشانۂ ملامت بنتے تھے، ظاہر تھا عام شہریوں کی ایمانداری کا امتحان لے رہے تھے۔ دتو کو لگا اس نے اپنے منہ پر سیاہی پوت لی تھی۔ اس کی حالت ایک پاگل مرغی جیسی تھی۔ اس کے جسم کے اعضا ایک ایک کرکے بکھر رہے تھے۔ کسی دکان دار نے اسے بےوقوف بنایا تھا۔
مناسب ہوتا اگر وہ پارسل کسی دکان دار کے حوالے کر دیتا۔ جس کسی کا بھی وہ تھا وہ اس کو ڈھونڈتا وہاں پہنچ جاتا اور دکان دار پارسل اس کے حوالے کر دیتا۔ اس کے برعکس ہوا یہ کہ دتو نے اسے اٹھا لیا اورسائیکل چلاتا ہوا تیزی سے بازار سے نکل گیا۔ بھلا ہو اوپر والے کا کچھ عرصہ بعد ملک تقسیم ہو گیا اور انہیں اپنا آبائی شہر چھوڑنا پڑا ورنہ ہوتا یہ کہ دتو پھر کبھی اس بازار میں سے گزرنے کے لائق نہ رہتا۔
وہی مسئلہ آج پھر اسے درپیش تھا۔ لمحہ بھر کو اسے خیال آیا کہ وہ بٹوے کو جوں کا توں پچھلی سیٹ پر پڑا رہنے دے لیکن یہ اس کی بےوقوفی ہوتی۔ اس کا چھوٹا لڑکا صبح پہلا کام یہ کرتا کہ کار دھوتا۔ وہ کیا سوچےگا؟ پھر اس کو خود بھی تو سارا دن ٹیکسی چلانی تھی۔ وہ کیسے کسی اجنبی کے بٹوے کو لاوارث پڑا رہنے دیتا؟ یہ تو دعوت دینے والی بات تھی کہ آ اور بٹوے کو ہڑپ لے۔
خیالوں میں کھویا ہوا دتو اپنی کھولی میں داخل ہوا۔ ہر شام کی طرح اس کی سگھڑ بیوی بنتی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ دتّو کے ہاتھ میں بٹوا دیکھ کر وہ آگے بڑھی اور پلک جھپکتے ہی بٹوا چھین لیا۔ اپنے شوہر کے چہرے پر تذبذب کی کیفیت بہت نمایاں دیکھ کر اس نے اندازہ لگایا کہ کوئی مسافر بٹوا ٹیکسی میں چھوڑ گیا تھا۔ اس کے شوہر کو بٹوے سے بھلا کیا کام۔ وہ جو کچھ بھی کماتا اسے اپنی جیب میں ٹھونس لیتا۔ گھر لوٹ کر وہ جیب خالی کردیتا۔ اس کی بیوی چھنٹائی کرتی، کرنسی نوٹ ایک طرف اور سکے دوسری طرف۔
’’میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ پیسے بٹوے میں رکھنا کوئی عقلمندی نہیں! اگر بٹوا گم ہو جائے تو سارے کا سارا پیسہ چلا جاتا ہے۔‘‘
’’لیکن کون ہوگا نیک بخت جو اسے ہماری ٹیکسی میں چھوڑ گیا ہے؟‘‘ اس کی بیوی نے خوش ہوکر پوچھا۔
اگر دتّو کو معلوم ہوتا تو وہ بہت پہلے واپس لوٹ گیا ہوتا اور بٹوے کو اس کے مالک کے حوالے کیا ہوتا۔
’’بنتی، غیر لوگوں کے پیسے سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں۔‘‘ دتّو نے اپنی بیوی سے کہا۔ اس کے چہرے پر کرب کی ایک لکیر کھنچ گئی تھی۔ اسے پتا تھا کہ اس کی بیوی اس کی بات پر کان نہیں دھرےگی۔ ایسے معاملوں میں وہ اس کی باتوں پر ذرا توجہ نہیں دیتی۔
’’کس نے کہا کہ مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں! میں اسے ساہوکاروں کو دے دوں گی جو میری جان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔‘‘ بنتی نے اطمینان سے کہہ دیا۔
’’کیا ڈھیٹ عورت ہے!‘‘ دتو بڑبڑایا۔
’’اس میں برا کیا ہے؟‘‘
بنتی نے اپنے شوہر کو اسے کوستے ہوئے سن لیا تھا۔
’’یہ چھوٹی سی کوٹھری رہنے لائق ہے کیا؟ اندھیری کوٹھری۔ ہم کب تک یہاں پڑے سڑتے رہیں گے؟ اور کچھ دنوں میں ہمارا لڑکا اسکول جانے لگےگا۔ لڑکی ابھی چھوٹی ہے، لڑکیوں کو بڑا ہونے میں کون سی دیر لگتی ہے۔ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی ہمارے پڑوسی کو جہیز کی فکر نے آن گھیرا ہے۔ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ میری نامراد بیماری کا واحد علاج اچھی بھرپور غذا ہے۔‘‘
’’میں مانتا ہوں۔ لیکن ابھی سے ان سب باتوں کے بارے میں کیوں سوچیں؟ اس پیسے سے ہمارا کیا تعلق جو ہمارا ہے ہی نہیں۔‘‘
’’یہ ہمارا کیسے نہیں؟ یہ ہمارا اپنا پیسا ہے۔ ہم نے کہیں جاکر کسی کو لوٹا تو نہیں۔ کوئی اپنا بٹوا ٹیکسی میں چھوڑ گیا، ہم اسے پھینک دیں کیا؟‘‘
’’یہ بکواس بند کرو، بند کرو یہ بکواس!‘‘ دتو کچھ نہیں سننا چاہتا تھا۔
’’اس میں بکواس والی کیا بات ہے؟‘‘ بنتی جواب میں چلائی، ’’کیا کبھی کوئی اپنی حق حلال کی کمائی بھی کھوتا ہے؟ اگر یہ ایمان داری کا پیسا ہوتا تو تمہارا کیا خیال ہے وہ ایسی لاپروائی برتتا؟‘‘
’’تم کہنا کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’میں کہنا یہ چاہتی ہوں کہ اس کے پاس جس طرح پیسا آیا اسی طرح چلا گیا۔ یہ تو ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں یہ پیسا ملا۔‘‘
’’بکواس! میں تمہیں اس پیسے کو چھونے تک نہیں دوں گا جو ہمارا ہے ہی نہیں۔‘‘
’’تو کیا میں جان سکتی ہوں کہ تم اس بٹوے کا کیا کروگے؟‘‘
’’میں اسے کسی دیوی دیوتا کی بھینٹ چڑھا دوں گا۔‘‘
’’دیوی دیوتاؤں کا دھیان بھی تو یہ پجاری ٹھگ ہی رکھتے ہیں۔‘‘
’’میں اسے کسی حاجت مند کو دے دوں گا۔‘‘
’’ہم سے بڑا حاجت مند کون ہوگا؟‘‘
’’بنتی، ایک بات دھیان سے سن لو۔ جو پیسا ہمارا نہیں ہے، ہمارا ایسے پیسے سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘
’’اگر میرا سروکار ہو تو۔۔۔‘‘
’’میں تمہارے جیتے جی تمہاری کھال ادھیڑدوں گا۔‘‘ دتّو چلایا۔
پہلے کبھی اس نے اپنی بیوی سے اتنے سخت لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ اس ڈر سے کہ کہیں وہ پھر سے غصہ سے بے قابو نہ ہو جائے، دتو بستر پر جاکر لیٹ گیا اور سو گیا۔
دتو کو سوئے ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ اسے برے خواب آنے لگے۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ صبح کے وقت ٹیکسی لے کر گھر سے نکلا ہی تھا کہ شاہ راہ پر تعینات سنتری نے خواہ مخواہ ہی اس کا چالان کر دیا۔ اس نے کئی بار گڑگڑاکر معافی مانگی لیکن سنتری نے ایک نہ مانی۔ جب دتّو نے اس کے پاؤں چھونے کی کوشش کی اس خبیث پولیس والے نے اس کے پیٹ میں لات ماردی۔ معمول کے مطابق وہ دوسروں سے بہت پہلے ٹیکسی اسٹینڈ پر پہنچ گیا لیکن وہاں کوئی بھی سواری نہیں تھی۔ سارا دن انتظار میں گزر گیا۔ آخرکار انتظار کی کوفت سے تنگ آکر اس نے اسٹینڈ سے اپنی ٹیکسی باہر نکالی اور سواری کی تلاش میں سڑک پر آ گیا۔ اس نے ایک میل کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ تیز رفتار فوجی ٹرک اس کی ٹیکسی سے آ ٹکرایا۔ اس نے کار کو کچل ڈالا اور ڈرائیور کی اسی گھڑی موت ہو گئی۔
دتو جاگ اٹھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھا۔ بنتی اپنے بستر پر گہری نیند سو رہی تھی۔ بٹوے کو اس نے بھینچ کر سینے سے لگا رکھا تھا۔ دتّو نے بٹوے کو چھیننے کی کوشش کی۔ وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھی اور اپنے شوہر سے ہاتھا پائی کرنے لگی۔ ہاتھاپائی کے دوران دتو جھلا گیا۔ اس نے بنتی کے منہ پر طمانچہ مار دیا۔ بنتی زور سے چلائی۔ دتو نے ایک اور طمانچہ مارا۔
جن کوارٹروں میں دتو رہتا تھا، وہاں اس طرح کی ہاتھا پائی کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور اس طرح کے معمول کے عادی تھے۔ کسی پڑوسی نے اس بات کی جانب توجہ نہ دی، لیکن اس کا لڑکا گلو اٹھ بیٹھا۔ اپنی آنکھیں ملتے ہوئے وہ اپنی ماں کی طرف دوڑا۔ وہ اس کے باپ کو گندی گالیاں دے رہی تھی۔ دتو کو خود پر شرم آئی۔ اس کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ اپنی ساری زندگی میں کبھی اس طرح آپے سے باہر نہیں ہوا تھا۔ ندامت کے احساس سے بوجھل اس نے اپنے بستر کی جانب رخ کیا اور کمبل سے منہ ڈھانپ لیا۔
’’ماں، باپو نے تمہیں کیوں مارا؟‘‘ گلو نے اپنی ماں سے پوچھا۔
بنتی خاموش رہی۔
’’بیٹا، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ شوہر کبھی کبھار اپنی بیویوں کی پٹائی کرتے ہیں۔‘‘ بنتی نے اپنے لڑکے کو سمجھانے کی کوشش کی اور پھر جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ بنتی نے بچے کو اپنی بانہوں میں لیا اور بستر پر لیٹ گئی۔ کچھ دیر بعد وہ پھر جاگی، لالٹین جلاکر وہ اس بٹوے میں رکھے نوٹوں کو گننے لگی۔ کافی دیر تک وہ نوٹ گنتی رہی۔ پھر اس نے اپنے بچے کو آوازدی جو ابھی سونے کی کوشش میں تھا۔
’’گلو، کیا تم نے کبھی سو روپے کا نوٹ دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں ماں۔۔۔‘‘
’’گلّو، کیا تم نے کبھی پچاس کانوٹ دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں، ماں۔۔۔‘‘
’’گلو، کیا تم نے کبھی بیس روپے کا نوٹ دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں، ماں۔۔۔‘‘
’’گلو، کیا تم نے۔۔۔‘‘
پھر اس نے دیکھا کہ گلو کو بھی نیند نے گھیر لیا تھا جیسے کہ اس کے ٹیکسی ڈرائیور خاوند کو جو کمرے کی دوسری طرف گہری نیند سو رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.