Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تازہ ہوا کے شور میں!

حسن امام

تازہ ہوا کے شور میں!

حسن امام

MORE BYحسن امام

    شام کا اندھیرا بیٹھتے ہوئے غبار کی طرح آہستہ آہستہ آنگن میں اتر آیا تھا۔ نیم کے پیڑ پر چڑیاں دیر ہوئی شور مچا کر خاموش ہو چکی تھیں۔ لیکن نیچے کنویں پر سہ پہر کے رکھے ہوئے برتن اب تک پڑے تھے جنہیں کوؤں نے کچھ دانے کی تلاش میں کھینچ کھینچ کر ادھر ادھر پھیلا دیا تھا۔ اب اندھیرے میں محض ان کے مدھم خاکے دکھائی دے رہے تھے۔ رضیہ دالان میں چٹائی پر اوندھی پڑی، خالی خالی نظروں سے انہیں گھور ے جا رہی تھی۔ پاس ہی سوئی، دھاگہ اور ایک آدھ سلی قمیض رکھی تھی۔ وہ سوچوں میں ایسی غرق تھی کہ اسے بتی جلانے کا خیال بھی نہ آیا۔ کمروں میں آنگن سے زیادہ اندھیرا تھا مگر اس سے بھی زیادہ اندھیرا اس کے دل میں تھا۔۔۔دل۔۔۔جہاں خیالوں اور آرزوؤں کی ایک دنیا آباد تھی ۔جہاں ہر طرف اداسی تھی، ویرانی تھی، تاریکی تھی۔ دور دور تک نہ کوئی تارہ جھلملاتا تھا، نہ کوئی جگنو اڑتا تھا نہ کوئی آواز آتی تھی۔

    اندر سے ماں کی کمزور مگر زہر بھری آواز آئی ’‘یا اللہ، اب مجھے اٹھالے یا اس منحوس کو موت دے دے۔ اندھیرا ہو گیا ہے مگر ابھی تک بتی نہیں جلائی۔ ہائے رے قسمت’‘

    رضیہ ایکدم تلملا کر اٹھی، سیدھے باورچی خانے میں جا کر اس نے لالٹین جلائی اور ماں کے کمرے میں لکڑی کے صندوق پر رکھ دی۔ ماں نے ناگواری سے اسے دیکھا اور ایسے ہی لہجے میں بولی ’‘اور وہ برتن کیا میرے انتظار میں رکھے ہیں؟’‘ اور پھر ایک آہ کے ساتھ منہ دوسری طرف پھیر کر بولی ’‘خوب جی بھر کے ستا لے، پھر یہ موقع نہیں ملےگا’‘۔

    وہ کمرے سے نکلتے نکلتے رک گئی، پلٹ کر ماں کی طرف دیکھا۔ ایک ہی لمحے میں نہ جانے کتنے شعلوں اور انگاروں بھرے جملے اس نے ضبط کی راکھ تلے دبا دیئے پھر بھی دو ایک چنگاریاں چٹخ کر اڑ ہی گئیں۔

    ‘’بس اماں بہت ہو چکی۔ ابا کی گالی اور مار میں تمہاری ہمدردی کے سہارے بردا شت کر لیتی تھی، لیکن اب تم بھی اس طرح طعنے دیا کروگی تو تمہارا گھر چھوڑ کر کہیں اور نکل جاؤں گی۔ بہت راستے ہیں۔۔۔’’

    ‘’ہاں کیوں نہیں’‘ ماں بیچ میں ہی بول پڑی ’‘شوہر کو چھوڑنے والی اور کر بھی کیا سکتی ہے’‘

    یہ زہر بھرا تیر ایک دم اس کے کلیجے کے پار ہو گیا۔ اس نے بڑی تیزی سے جواب دینے کے لیئے منہ کھولا، لیکن گلے میں جیسے پھندا پڑ گیا۔ آواز گھُٹ گئی اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کچھ دیر تک وہ ماں کی پشت پر نظریں جمائے رہی، پھر بڑی بے بسی سے نظریں جھکائے ہوئے کنویں کی طرف چلی گئی۔

    اب اندھیرا اتنا گہرا ہو گیا تھا کہ برتنوں کے خاکے بھی اس میں گھل مل گئے تھے۔ اس نے ٹٹول کر سارے برتن اکٹھے کیئے اور اندھیرے میں ہی اسے دھونے بیٹھ گئی۔ یکا یک اس کی آنکھوں میں وہ دن پھر گئے جب گاؤں کے تمام لڑکے اسے پیار اور حسرت بھری نظروں سے دیکھا کرتے۔ ان میں سے کئی لڑکوں کو وہ پسند بھری نظروں سے دیکھتی، پھر بھی اس نے اپنی قسمت ماں باپ کے ہاتھوں میں چھوڑ دی تھی۔ اسے بڑے یقین کے ساتھ انتظار تھا کہ ان میں سے کسی کا رشتہ ضرور آئےگا۔ وہ گاؤں کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی اور اسے اس بات کا احساس بھی تھا۔ لیکن جب کافی عرصہ گزر گیا اور کہیں سے پیغام نہیں آیا تو اسے الجھن ہونے لگی۔ کچھ اور وقت گزرا تو یہ الجھن شدید بے چینی میں بدل گئی۔۔۔پھر ایک طویل عرصہ گزر گیا۔ وہ اس انتظار سے اکتا چکی تھی۔ تنہائی میں بیٹھی گھنٹوں سوچا کرتی۔ وہ گاؤں کے ان لڑکوں کے بارے میں سوچتی جو اسے اچھے لگتے تھے۔ وہ تصور میں انہیں اپنے قریب لاتی، اتنے قریب کہ ان کے چہرے دھندلا جاتے اور جسم اجاگر ہو جاتے۔ کچھ اور عرصہ گزرا تو اسے یوں لگا جیسے اس کے اندر ایک کمان ہے جو کھنچتی رہتی ہے، اس کا جی چاہتا کوئی اس کمان کو اتنا جھکائے کہ یہ پٹ سے ٹوٹ کر رہ جائے۔

    آخرکار اس کے لیئے ایک رشتہ آ ہی گیا ، بات پکی ہو گئی اور چند مہینوں کے بعد شادی بھی ہوگئی۔ پہلی رات جب اس کے شوہر نے کمرے میں قدم رکھا اور اس نے گھونگھٹ کی اوٹ سے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو اس کا جی ایکدم سے کمرے سے نکل بھاگنے کو چاہا۔ اس کا دل شدت سے دھڑکنے لگا، انہی دھڑکنوں کے درمیان اس نے گاؤں کے ایک ایک لڑکے کو یاد کیا۔ گاؤں بھر میں کوئی بھی تو ایسا نہ تھا۔ کچے کوئلے کی طرح رنگ، سیاہ گالوں پر ابھری ہوئی ہڈیاں، چپٹی ناک، اوپر کا ہونٹ آگے بڑھا ہوا اور اس کے نیچے پیلے دانت۔ یہ سب تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی قبول صورت آدمی ہوگا لیکن یہ تو سرے سے آدمی نہیں لگتا تھا۔ اچانک اس کے دل میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس کے شوہر نے جب گھونگھٹ اٹھانا چاہا تو اس نے روک دیا، ہاتھ پکڑنا چاہا تو جھٹک دیا، بات کرنی چاہی تو کوئی جواب نہ دیا۔ وہ خاموش بیٹھی اپنی قسمت اور اپنے ماں باپ کو کوستی رہی۔ اس کا شوہر دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا پھر ایک طرف لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد اس کے خراٹے گونجنے لگے۔ اسے شک گزرا کہ کہیں یہ اسے آزمانے کی چال تو نہیں؟ لیکن جب اسے پوری طرح یقین ہو گیا کہ وہ گہری نیند سو چکا ہے تو وہ دبے پاؤں نکل گئی اور دو میل کا سفر طئے کر کے اپنے گھر آ گئی۔

    دوسرے دن سارا گاؤں اس کے ماں باپ پر تھو تھو کر رہا تھا۔ اس کا باپ جو ایک مدت سے تائب تھا گالیاں بکتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور اسے بری طرح پیٹ کر رکھ دیا۔ ’‘کمینی، صورت شکل سے کیا لینا، اس جیسا شریف بندہ پورے گاؤں میں نہیں’‘ وہ غصے سے چنگھاڑتا رہا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اب اس کا شوہر کبھی بھی اسے لینے نہیں آئے گا، لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ چند روز بعد ہی بڑے اطمینان سے اسے لینے آ پہنچا۔ اس کی پیشانی پر کوئی بل نہ تھا۔ اس نے سسرال والوں یا رضیہ کو ایک بھی سخت و سست بات نہ کہی۔ اس طرح خوش خوش لے گیا جیسے پہلے دن لے گیا تھا۔۔۔مگر اگلی رات وہ پھر بھاگ آئی۔ اس طرح اس کا شوہر کئی بار اسے لے گیا مگر وہ ہر بار بھاگ آئی۔ آخرکار وہ بھی تھک کر بیٹھ گیا اور اسے پھر کبھی لینے نہ آیا۔ اس بات کو کئی مہینے گزر گئے۔ رضیہ کی کوشش ہمیشہ یہی تھی کہ ماں باپ پر بوجھ نہ بنے۔ وہ سلائی میں ماہر تھی، اس سے وہ اتنا کما لیتی تھی کہ اس کے اخراجات پورے ہو جاتے۔ زندگی آسانی سے گزر رہی تھی، اگر کوئی تکلیف تھی تو یہ کہ اس کا باپ ہر روز شراب پینے لگا تھا۔ وہ نشے میں بری طرح گالیاں بکتا آتا اور اسے سارے گھر میں ڈھونڈتا پھرتا۔ پہلے پہل تو اس نے بہت مار کھائی لیکن پھر بچاؤ کی صورت نکال لی۔ وہ اس کی آہٹ پاتے ہی پڑوس میں اپنی واحد دوست نجمہ کے گھر چلی جاتی اور جب تک اس کا باپ جاگتا رہتا وہ گھر میں قدم نہ رکھتی۔ پہلے پہل اس کی ماں اس کے لیئے بہت کڑھتی تھی۔ باپ مارنے دوڑتا تو وہ بیچ میں آکر خود مار کھا لیتی۔ بیٹی کا دکھ اس سے دیکھا نہ جاتا تھا۔ مگر وہ بھی کہاں تک اس کا ساتھ دیتی۔ باپ کا اٹھنے والا ہاتھ تو وہ پکڑ لیتی تھی، لیکن لوگوں کی چلتی ہوئی زبان وہ کیسے پکڑتی۔ ادھر کچھ دنوں سے ماں کے تیور بھی بدلنے لگے تھے اور اب تو وہ موقع بےموقع باتیں بھی سنانے لگی تھی۔ ماں کی باتیں سن کر اس کا کسی کام میں دل نہ لگتا۔ وہ سوچتی رہی کہ وہ زمین کے سینے پر بوجھ بن گئی ہے۔ اب کیوں نہ اس بوجھ کو ہلکا کر دے۔ لیکن برتن دھوتے دھوتے اس کا خیال بدل گیا۔ اس نے طئے کر لیا تھا کہ اب وہ گھر چھوڑ کر چپ چاپ کہیں چلی جائیگی اور محنت مزدوری کر کے اپنی زندگی گزارے گی۔ ابھی وہ دھلے ہوئے برتن رکھ بھی نہ پائی تھی کہ اسے اپنے باپ کی گالیاں سنائی دیں۔ وہ ایک دم برتن پٹخ کر گھر سے نکلی اور لپک کر نجمہ کے گھر میں جا گھسی۔

    نجمہ کے گھر میں خلاف معمول بالکل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس کے بڑے بھائی دو ماہ سے بیمار تھے۔ عجیب بیماری تھی۔ سارا جسم سوج گیا تھا اور چہرہ ایسا بھیانک لگتا تھا جیسے کسی گنہگار کی لاش ہو۔ بھابھی پٹی سے لگی شوہر کا چہرہ تکے جا رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

    ‘’آج بھیا کی طبیعت بہت خراب ہے رضیہ۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اب دوا سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے’‘ نجمہ یہ کہہ کر رونے لگی۔ رضیہ نے اسے گلے سے لگا لیا اور اس کی ڈھارس بندھانے کی کوشش کرنے لگی۔ پھر دونوں قریب ہی بچھی ہوئی چٹائی پر بیٹھ گئیں۔ کمرے کی بوجھل خاموشی رضیہ کو اپنے گرد بڑی موٹی دیوار کی طرح کھڑی معلوم ہو رہی تھی اور ان دیواروں کے پار اسے اپنے باپ کی گالیاں دور کی آواز کی طرح سنائی دے رہی تھی۔ اب وہ کافی وقفے کے بعد ایک آدھ گالی یوں بک دیتا جیسے نیند میں بول رہا ہو۔ ماحول کی خاموشی بڑی پر اسرار ہو گئی تھی اور اس پر اسرار خاموشی میں ایک پھولی ہوئی زندہ لاش۔۔۔یا شاید بےجان۔۔۔اسے یوں لگا جیسے آس پاس کوئی غیر مرئی مخلوق چل پھر رہی ہے۔

    اس پر نیند طاری ہونے لگی۔ ابھی ہلکی سی آنکھ ہی لگی تھی کہ ایک دل دہلا دینے والی چیخ سنائی دی۔ اس نے چونک کر دیکھا نجمہ کی بھابھی اپنے شوہر کے پھولے ہوئے جسم سے لپٹ کر دھاڑیں مار رہی تھی۔ نجمہ بھی اُٹھ بیٹھی تھی۔ وہ پوری قوت سے چلائی’‘بھیا’’ اور بےہوش ہو گئی۔ تب تک کمرہ پاس پڑوس کی عورتوں سے بھر گیا۔ انہوں نے نجمہ کی بھابھی کو بڑی مشکل سے لاش سے الگ کیا لیکن وہ پھر بھی پچھاڑیں کھاتی ہوئی لاش سے چمٹ گئی۔ ’‘کہتے تھے تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔۔۔اب کیوں چلے گئے چھوڑ کر؟ بولو۔۔۔بولو’‘ وہ ہولے ہولے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ یکایک وہ اس کے سوجے ہوئے چہرے کو دیوانہ وار چومنے لگی۔ رضیہ کو لگا جیسے اس کا دل کسی بہت بھاری بوجھ تلے کچلا جا رہا ہو۔ ذہن میں آندھیاں چلنے لگیں۔ تازہ ہوا کے شور میں وہ نجمہ کی طرف متوجہ ہوئی اور روتی سسکتی نجمہ کو زور سے بھینچ لیا۔ اس کے ہونٹ خود بخود دانتوں تلے دب گئے اور آنکھوں سے آنسووں کا ریلا بہہ نکلا۔

    دوسرے دن گاؤں بھر میں مرحوم کے تذکرے ہوتے رہے، صبح سے شام تک کسی کو کوئی اور بات نہ سوجھی تھی، حتٰی کہ اس دن رضیہ کے باپ کو بھی لوگوں نے گالیاں بکتے نہ سنا، لیکن تیسرے دن مرحوم کے تذکرے ایکدم سے سرگوشیانہ بھنبھناہٹ میں گم ہو گئے جو گاؤں کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تیزی سے گشت کر رہے تھے۔ ہر گلی اور ہر گھر میں کچھ اس طرح کی باتیں سنائی دے رہی تھیں۔

    ‘’سنا تم نے! رضیہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی’‘

    ‘’اس کے باپ نے زہر کھا لیا۔۔۔’’

    ‘’وہ تو حکیم جی کا اللہ بھلا کرے۔۔۔’’

    ‘’آدمی برا سہی، پر بے غیرت نہ تھا۔۔۔’’

    ‘’خدا کرے بچ جائے۔۔۔’’

    ’’حکیم جی کیا کہتے ہیں؟’’

    ‘’کہا تو ہے کہ بچ جائےگا۔۔۔مگر بچ جائے تو سمجھو۔۔۔’’

    جھٹپٹا ہو چلا تھا، رضیہ کے باپ کا قریبی دوست سلامت اس کی مزاج پر سی کے بعد اس کے گھر سے نکل رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ جب اس نے پہچانا تو حیران رہ گیا، وہ رضیہ کا شوہر تھا۔ کیا وہ اپنی بیوی کو لینے آیا تھا؟ اب اسے کیا جواب دیا جائے؟ ابھی سلامت کچھ کہنے کے لیئے الفاظ ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ اس کی نظر اس کے پیچھے کھڑی ہوئی ایک لڑکی پر پڑی جو سر سے پاؤں تک چادر میں لپٹی کھڑی تھی صرف چہرہ آدھا کھلا ہوا تھا۔۔۔اس نے لڑکی کو ذرا غور سے دیکھا۔۔۔اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے