Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹیڈی بیئر

ترنم ریاض

ٹیڈی بیئر

ترنم ریاض

MORE BYترنم ریاض

    سیاہ چشمے کی بائیں جانب کے کھلے حصے میں سے وہ اسے چپکے چپکے دیکھ رہی تھی، جو خود میں گم گا رہا تھا اور گٹار بھی بجا رہا تھا۔ گاڑی کے ہلکوروں کے ساتھ اس کے ماتھے پر آگے کو لا کر پیچھے کی طرف سجائے گئے بال بھی جھول جاتے۔ اس نے قلمیں بڑھا رکھی تھیں جو کم عمری کے سبب گو زیادہ گھنی نہ تھیں مگر کسی نہ کسی طرح اس کے پسندیدہ اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے مغربی گلو کار کے بالوں کے اسٹائل سے ملتی تھیں کہ اسٹیج پر ایک کردار کی ادائیگی کے لیے اسے بال اُس کی طرح رکھنا تھے۔شہر کے اسکولوں میں وہ سب سے خوش گلو فنکار چنا گیا تھا۔

    مقابلے کی تیاریوں کے دوران اس نے ایک دن ماں کو اس گانے کی وجہ تسمیہ بتائی تھی کہ ایک ہوٹل میں کسی نامعلوم نوجوان نے ایک پرزے پر ایک سطر لکھ چھوڑی تھی ’میں ایک تنہا راستے کا مسافر ہوں۔‘ کسی نے اس حادثے سے متاثر ہو کر یہ گانا لکھا تھا۔

    دیکھئے نا مام۔۔۔ کس طرح ایک نامعلوم نوجوان اتنے بڑے Master Piece کی بنیاد بن گیا۔ کیا ہوا ہو گا اسے۔۔۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں۔۔۔ کیوں کی ہو گی اس نے خودکشی۔۔۔ وہ کیوں تھا اکیلا۔۔۔ کیا اسے۔۔۔ کوئی سمجھتا نہیں ہوگا۔۔۔ یا پھر۔۔۔

    راحیل کی لمبی لمبی انگلیاں گٹار کے تاروں پر ٹھہر گئی تھی۔۔۔

    نہیں بیٹا۔۔۔ کبھی کبھی انسان کسی شدید جذباتی دباؤ کے زیر اثر سوچ نہیں پاتا اچھی طرح۔۔۔ اور اس کمزور پل میں اس طرح کی حرکت۔۔۔ کر گزرتا ہے۔۔۔

    نائلہ کا ممتا بھرا دل پل بھر کو کانپ سا گیا تھا۔

    تو وہ لمحہ۔۔۔ انسان با ہمت ہو تو۔۔۔ ٹال سکتا ہے۔۔۔ اور اگر ٹل جائے۔۔۔ تو ایسا حادثہ کبھی نہ ہو۔۔۔

    تمھیں تومیں سمجھتی ہوں میرے بچے۔۔۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے۔۔۔ میں تو تمھارے ساتھ ہوں۔۔۔

    گاڑی میں بیٹھی نائلہ سوچتی رہی اور آہستہ سے گردن بائیں جانب موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ راحیل نے بے رنگ چشمہ پہن رکھا تھا۔ اس میں سے اس کی بند آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ چہرے کے تاثرات میں گرد و پیش سے بےخبری کا عالم تھا۔۔۔ مگر دونوں ہاتھوں کی محتاط انگلیاں نہایت ماہرانہ انداز میں گٹار کے سخت تاروں کو کچھ ایسی نرمی سے چھُو رہی تھیں کہ سر بادلوں کی طرح فضا میں تیر رہے تھے۔ اس نے بیحد سریلا نغمہ چھیڑ رکھا تھا۔ اسے پریکٹس کے لیے اپنے گروپ کے باقی ساتھیوں سے ملنے ایک دوست کے وہاں جانا تھا۔ نائلہ کو بھی راستے میں ایک جگہ اترنا تھا۔ وہ اس کے ساتھ پچھلی نشست پر بیٹھی اس کے گیتوں سے محظوظ ہو رہی تھی۔ لمحے بھر بعد اس نے ایک تیز دھن والا گانا شروع کیا۔

    وہ بالکل مغربی انداز میں ، کبھی بےحد اونچے سر میں تان کھینچتا اور کبھی ٹھڈی حلق سے لگا کر بھاری سی غراہٹ نما آواز میں گا کر منھ بڑا سا کھول دیتا اور کبھی ایک دم دہانہ چوڑا کر کے تمام دانتوں کو نمایاں کرتا ہوا زور دار آواز میں نعرہ سا لگا کر کچھ پل خاموش ہو کر دائیں بائیں دیکھتا اور پھر یکلخت دوبارہ دھیمے سُر سے شروع کر کے اونچے سُر تک جا پہنچتا۔

    اس عمل کا مشاہدہ نائلہ کے لیے نہایت دلچسپ عمل تھا۔ جب وہ چہرے کے سارے پٹھے تان کر دانتوں کی نمائش کر کے ماتھے پر بہت سے آڑے بل ڈال کر کوئی سُر ادا کرتا تو اسے بےتحاشا ہنسی آ جاتی جسے وہ کمال ضبط سے چھپا لیتی۔

    Put a chain around my neck

    And lead me everywhere

    So let me be your teddy bear

    کیا گا رہا ہے۔۔۔ میرا ٹیڈی بیئر۔۔۔

    نائلہ کا دل کرتا اس سے کہے۔۔۔ ابھی کل تک گول مٹول سا ٹیڈی بیئر جیسا تھا، وہ سوچتی۔۔۔ دبلا پتلا، لمبا ہو گیا۔۔۔ ساری جان گانے کی ادائیگی میں لگانے سے اس کی گردن پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگتیں۔ حالانکہ گاڑی کے اندر ٹھنڈک تھی۔ نائلہ کا جی چاہتا کہ پرس میں سے رومال نکال کر اس کے چہرے اور گلے پر سے پسینہ پونچھ لے۔ اس سے پہلے کے نائلہ کی منزل آ جائے، سرخ ٹی شرٹ میں چھپے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اس کا لمس اپنی ہتھیلی میں محفوظ کر لے۔مگر اس کے پاس ایسا کوئی بہانہ نہ تھا کہ اسے چھو لیتی۔

    کہ وہ ناراض تھا اس سے۔۔۔ شاید۔۔۔ مگر اتنے دنوں۔۔۔ کیوں۔۔۔ آخر۔

    کیا وہ خود بھی اس جیسی تھی۔۔۔

    نائلہ سوچنے لگتی۔ راحیل کی ثابت قدمی پر اسے خوشی ہوتی۔

    نائلہ کو تصویریں بنانے کا شوق تھا۔

    اف ،اف۔۔۔ گناہ۔۔۔ گناہِ کبیرہ۔۔۔ اماں سرپر آنچل درست کرتی جانے کب آکر اس کے عقب میں کھڑی ہو جاتیں۔

    ایک تو پڑھائی نہیں کرتی۔۔۔ دوسرا۔۔۔ یہ۔۔۔ شکلیں۔۔۔ اللہ۔۔۔ یہ اولاد۔۔۔ جہنم رسید کروائےگی۔۔۔ چوری پکڑے جانے سے وہ شرمندہ سی ہو کر رہ جاتی۔

    اپنی باجی کو دیکھو۔۔۔ اول آتی ہے اکثر ہی۔۔۔ ورنہ دوئم تو ضرور ہی۔۔۔ اور تم۔۔۔ پڑھوگی نہیں تو فیل ہو جاؤگی۔۔۔ میں نے ہی بگاڑا ہے شاید تمھیں۔۔۔

    اماں۔۔۔ یہ تو۔۔۔ ڈرائنگ ہے۔۔۔ اسکول میں۔۔۔

    جھوٹ تو نہیں بولتیں۔۔۔؟ تمہارے ابا سچ کہتے ہیں۔۔۔ کہ میرا ہی قصور ہے۔۔۔ تمہاری ہر بات مان لیتی ہوں۔۔۔

    جھوٹ ہی تو بولا جا رہا ہے۔۔۔ یقیناً۔۔۔ اباکی آواز پتھر کی طرح کان کے پردے پر پڑتی۔۔۔ نائلہ پتھر سی دیکھا کرتی۔

    کہاں لے جائیں گی یہ لکیریں۔۔۔ یہ تصویریں تم کو۔۔۔؟

    ابا جانے کیسے اسی وقت گھر میں داخل ہوتے۔

    یہ شریف لڑکیوں کا چلن نہیں ہے۔۔۔وہ چہرہ اس کی طرف اور نظریں دوسری جانب کر کے کہتے اور چلے جاتے اور اماں پاؤں پٹختی ہوئی ان کے پیچھے۔ ایسے میں کتنا غصہ آتا تھا۔۔۔ اسے۔۔۔ دونوں پر۔

    دجیومیٹری کی کاپی کے سادہ ورق پر بنے رنگ برنگے چہرے پر اس کے دو آنسو ٹپ سے گرتے۔ پانی کا رنگ (Water Colour) پانی میں گھل کر بے رنگ ہونے لگتا۔ رونے کی خواہش گلے کے اندر پھندا سا ڈال دیتی۔

    اتنی محنت سے۔۔۔ میں نے۔۔۔ خراب ہو گئی تصویر۔۔۔ یہ ابا۔۔۔ یہ ابا۔۔۔ آخر ہیں ہی کیوں۔۔۔ سب کچھ تو ہوتا ہے اماں کے پاس۔۔۔ کھانا۔۔۔ جیب خرچ۔۔۔ کتابوں کے پیسے۔۔۔ کاپیوں کے۔۔۔ کاپیوں کے پیسے۔۔۔ اتنے سارے۔۔۔ پھر ابا بھلا کیوں۔۔۔ رعب جمانے کے لیے۔۔۔ اللہ کرے۔۔۔ اللہ کرے۔۔۔ اللہ کرے۔۔۔ کہ۔۔۔

    اللہ نہ کرے۔۔۔ایسا سوچتا ہے کوئی اپنے ابا کے لیے۔۔۔

    جانے یہ کس کی آواز تھی۔۔۔ آواز تھی بھی یا۔۔۔

    تصویریں بنانا جاری رہا۔۔۔ آرٹ فائل مہینے میں دو بار با قاعدگی کے ساتھ گم ہو جایا کرتی۔۔۔ رنگ سکول کے ساتھی استعمال کر لیتے تو بےچاری نائلہ کیا کرتی۔۔۔ جواز معقول ہوا کرتا۔۔۔ اور امی کی تھوڑی سی ڈانٹ اور تنبیہ کے عوض ایک نئی آرٹ فائل۔۔۔ سودا مہنگا نہیں تھا۔بلکہ کبھی کبھی تو کس قدر فائدہ مند۔۔۔

    پیلے رنگ کے پتلے ٹین کے مستطیل ڈبے میں بارہ خانے مختلف رنگوں کے۔۔۔ اور ساتھ میں نرم و نازک سنہری بالوں والا موقلم۔۔۔ تصور میں بسی ہزار شبیہات۔۔۔ کمرے کی تنہائی۔۔۔ اب جنت میں بھی کیا ہوتا ہوگا۔

    زندگی جنت سے بھی حسین تھی۔ مگر دنیا کی ہر جنت کی طرح عارضی۔۔۔ کہ اس کے سارے رنگ، راز اور تصور طشت از بام ہو گئے۔ اسے آج بھی کتنا دکھ ہوتا ہے یاد کر کے۔۔۔

    گاڑی رک گئی تھی۔ نائلہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور ونڈو کے باہر دیکھنے لگی۔ سرخ روشنی پر لکھے Relax کے دائرے میں باجی کا چہرہ نظر آیا۔۔۔ اس کا دل جیسے کہ خود کلامی کرنے لگا۔

    ہفتے کا دن تھا۔ اسکول میں آدھے دن کے بعد چھٹی ہوا کرتی تھی۔

    باجی دو دن سے کہہ رہی تھیں کہ ان کی ہفتے اور اتوار کی دو دن کی چھٹی ہے اور وہ امّاں کے ساتھ مل کر میرا کمرا صاف کروائیں گی۔

    میرا کمرہ صاف ہے بالکل۔ میں نے باجی کی آنکھوں میں جانے کون سی چمک سے نظریں چرا کر کہا تھا۔

    تم کیا جانو۔۔۔ اپنے پاؤں کے تلوے دیکھو کتنے میلے ہیں۔۔۔ میں جانتی ہوں کیا صحیح ہے۔۔۔ انھوں نے ’میں‘ پر زور دیا تھا۔ آخر کو مجھ سے پانچ، چھ برس بڑی تھیں۔

    رہنے دیجئے نا باجی۔۔۔ اگلے ہفتے کر لیں گے۔۔۔ یا اتوار کو میری بھی چھٹی ہوگی نا۔۔۔ تو۔۔۔

    مجھے اپنے کام نہیں ہیں کیا اتوار کو۔۔۔؟ باجی گردن مٹکاتیں۔

    ٹھیک کہتی ہیں باجی۔۔۔ تم زیادہ دخل مت دو۔ اماں کو جب باجی پر زیادہ پیار آتا، تو اسے باجی بلایا کرتی تھیں۔۔۔ اماں کی یہ بات مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔

    اچھا چلو۔۔۔ اتوار کو ہی کر لیں گے۔۔۔ انھوں نے نہایت حاکمانہ انداز میں جیسے کہ رحم کھا کر کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔۔۔

    مگر ایسا نہیں ہوا۔۔۔ باجی۔۔۔ دھوکے باز باجی۔۔۔

    میں کسی ٹکٹ یافتہ مجرم کی طرح بیٹھک کے دروازے سے لگی تھی۔ تھانے کی دیواروں پر چسپاں جرائم پیشہ افراد کی تصویروں کی طرح میز پر میری چار آرٹ فائلوں کے موٹے موٹے ورق بکھرے تھے۔ بےشمار چہرے لیے ہوئے۔۔۔ کہیں بڑے۔۔۔ کہیں چھوٹے۔۔۔ کوئی بزرگ۔۔۔ کوئی ّبچہ۔نرم تاثرات لیے ہوئے، دودھ پہنچانے والے حاجی صاحب گوالے کا چہرہ۔۔۔ میری حساب کی سنگدل ٹیچر کا ناراض چہرہ۔۔۔ بڑے دانتوں والے چوکیدار بابا کا چہرہ۔۔۔ روتی ہوئی چھوٹی سی لڑکی کا بسورتا ہوا۔۔۔ کوئی مسکراتا۔۔۔ کوئی غصہ ور۔۔۔ کوئی گنجا۔۔۔ کہیں لمبے لمبے بالوں والی عورت کا۔۔۔ گورا۔۔۔ کالا۔۔۔ ہر چہرہ مجھے اپنے چہرے کی طرح عزیز تھا۔

    یہ سب کیا ہے۔۔۔؟ ابّاکی آنکھیں ابلی پڑ رہی تھیں ۔انھوں نے میز پر اپنا بڑا بازو ایک جھٹکے سے جھاڑو کی طرح پھیر دیا۔لمبے سے فراک کے اندر میرے گھٹنے کانپ کانپ کر ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے رہے۔

    چہرے لہراتے لڑھکتے فرش پر بکھر گئے اور بعد میں باجی کے قبضے میں چلے گئے۔

    اماں نے مجھ سے بات کرنا ترک کر دیا۔

    حساب کے پرچوں میں بمشکل تمام پاس ہونے کی بجائے۔۔۔ میں فیل ہو گئی۔۔۔ اور تعجب کی بات یہ کہ باجی کو پہلے ہی پتہ تھا کہ جو سوال وہ مجھے کروا رہی تھیں امتحان میں ویسے سوالات غلط کر کے میں فیل ہو جاؤں گی۔

    مجھے دو بارہ باجی کی تحویل میں دینے سے پہلے ابا نے ایک نہایت تجربہ کار اور سینئر قسم کے حساب داں استاد کا انتظام کیا کہ باجی کے خود امتحان سرپر تھے۔

    حساب کے استاد گھر آنے لگے۔

    ماسٹر جی کے پیلے دانتوں پر ہر وقت رالیں جمع رہتیں۔ منھ سے ریشم کے لچھوں ایسے نئے نویلے چوزوں کے درمیان جوں کے تو ں پڑے رہ جانے والے انڈے کی سی بدبو آتی۔ جنھیں باجی مجھے سنگھانے کے بعد پیٹ پکڑ کر دوہری ہوکے ہنسا کرتی تھیں اور جیسے چوزوں کے استقبال کے لیے ٹوکری کے گرد کوٹھری میں کھڑی میں اماں کے چہرے پر لاتعلق سی مسکراہٹ دیکھ کر بجھ جایا کرتی۔ اس سے کہیں زیادہ تکلیف مجھے ماسٹر جی کے پاس قیامت جیسا ایک گھنٹہ گزارنے میں ہوتی۔

    اکثر سر پر سے شملے والا صافہ اتار کر ماسٹرجی دونوں ہاتھوں کے میلے ناخنوں سے اپنا گنجا سر کھجاتے ہوئے منھ کھول کھول کر جمائیاں لیتے اور الجبرا کے زبانی یاد فارمولے دوہراتے ہوئے آنکھیں بند کر کے سمجھایا کرتے۔

    جیسے تیسے مڈل اسکول ہوا۔

    باجی نے گھر میں مشورہ دیا کہ اگر آرٹس پڑھوں گی تو ڈرائنگ تو کرنا ہی ہوگی۔۔۔ اور سارا وقت میں ڈرائنگ کرتی رہوں گی تو پڑھوں گی کہاں۔۔۔ ا س لیے نویں درجے میں میڈیکل پڑھایا جائے اور یہ کہ وہ مجھے خود گائیڈ کریں گی۔۔۔ کہ آخر ان کی میڈیکل کی پڑھائی کس دن کام آئےگی۔۔۔ کہ۔۔۔ کہ روز Good یا Excellent ملتا تھا انھیں پریکٹیکل کاپی پر۔

    گھر میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ جس دن باجی نے میری رَف کاپی پر ماسٹرجی کا جمائی لیتا سر کھجاتے ہاتھ والا چہرہ دیکھا تھا، اسی دن یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اگر میں ان کی سائنس کی ڈایگرامز بنایا کروں تو وہ کسی سے نہیں کہیں گی کہ میں نے چہرے بنانے میں دو بارہ وقت ضائع کرنا شروع کر دیا ہے۔

    یہ تو۔۔۔ بالکل۔۔۔ لگتا ہے ابھی ہاتھ نیچے کر کے آنکھیں کھولیں گے اور سوال چیک کریں گے۔۔۔ تمہاری کاپی پر۔۔۔

    باجی کئی لمحوں تک تصویر کو دیکھتی رہی تھیں۔۔۔

    اب تو تم بالکل اصلی صورت جیسا۔۔۔ خیر۔۔۔ یہ کوئی اچھی بات تو ہے نہیں۔۔۔ امّاں تو تمھیں کوئی کام تک نہیں بتاتیں کہ وقت نہ ضائع ہو۔۔۔ ویسے۔۔۔ میری ڈایگرامز میں ایسا کوئی وقت نہیں لگےگا۔۔۔ اور پھر میں ان سے کچھ۔۔۔ کہوں گی بھی نہیں۔

    بہرحال۔۔۔

    میری ہمدرد باجی۔۔۔ میں Maths میں Nil، Physics کے Problems کیسے Solve کروں گی۔

    مجھے سائنس سے ذرا دلچسپی نہیں۔۔۔ میں کیا پڑھوں گی۔

    مگر باجی جو تھیں پڑھانے والی۔

    وہ میری استاد مقرر ہوئیں تو ان کا مجھے بلاوجہ پیٹنا بھی جائز ہو گیا۔۔۔

    چہرے جانے کہاں چلے گئے۔۔۔ اماں کا چہرہ ناراض۔۔۔ ابا کا چہرہ مجھے دیکھتے ہی رنگ بدلتا۔۔۔ باجی کا چہرہ۔۔۔ فاتح سے تاثرات لیے۔۔۔ اور میرا چہرہ۔۔۔ آئینے میں نظر ہی نہ آتا۔۔۔

    تمھیں تمہاری شخصیت مبارک ہو۔۔۔

    نائلہ نے پہلو میں بیٹھے راحیل کو کنکھیوں سے دیکھا۔

    موسیقی میں گم گرد و پیش سے بے خبر یہ چہرہ مبارک ہ۔۔۔

    اس نے ڈرائیونگ سیٖٹ کے سامنے اوپر کی جانب لگے چھوٹے سے آئینے میں راحیل کی بند آنکھیں دیکھ کر دل ہی دل میں کہا۔

    نواں درجہ کسی طرح ہوہی گیا تھا۔

    نائلہ سوچنے لگی۔۔۔ Physiology کے Diagrams نے کہانی کی طرح سمجھے انسانی نظام کی Description میں بہت مدد دی۔ ریاضی اور فزکس میں فیل۔۔۔ باقی تمام میں اول۔۔۔

    یہ تھا دسویں جماعت کے ششماہی امتحان کا نتیجہ اور بورڈ کے امتحانات میں شامل ہونے کے لیے ان سب میں پاس ہونا ضروری تھا۔ بڑی مشکل سے ان پرچوں میں دو بارہ امتحان دینے کی اجازت ملی اور پاس کر لیے مگر بورڈز میں اگر ایک بھی مضمون میں فیل ہوں تو پورے امتحان میں فیل ہونا لازمی تھا اور پھر سال ضائع ہو جانا طے تھا۔

    اور میں تین سال لگاتار پرائیویٹ امتحان دیتی اور فیل ہوتی گئی۔

    نئی نئی لیکچرر ہوئی باجی کو جب لڑکے کی اماں اور خالہ دیکھنے آئیں تو چھوٹے صاحبزادے کے لیے، جو پڑھائی چھوڑ کر بھائی کی دکان میں خاصا کام سنبھال لیتے تھے، مجھ پر غور ہوا۔

    باجی کے سسرال جانے کے بعد کی آزادی کے تصور میں مگن اور مسرور میں اماں کا پیازی رنگ کا کامدانی دوپٹہ اوڑھے خشک میوے کی طشتری لیے اندر داخل ہوئی تو دونوں بزرگ خواتین نے مجھے باری باری چونک کر دیکھا تھا۔

    فیصلہ یہ ہوا کہ ایک کند ذہن لڑکی کو پڑھانے کی کوشش میں مزید وقت ضائع کرنا حماقت ہو گا۔رشتے کو قدرت کی طرف سے اشارہ سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔

    سارے چہرے روٹھ گئے مجھ سے....

    زندگی کے افق پر ایک نیا چہرہ ابھرا۔ اس کا گھر سنبھالنے میں سارا آرٹ خوب کام آیا۔ اور پھر سگھڑ نکلی میں۔۔۔ کہ جیٹھ جی کی پروفیسر بیوی کی غیرموجودگی میں مجھے گھر کا ہر کام خوش اسلوبی سے نبھانے کی ہدایت تھی اور وہ کبھی کبھی بہ آواز بلند خدا کا شکر کرتیں کہ کم از کم یہ ذرا سا سلیقہ تو پیدا ہوا مجھ میں۔۔۔ جو میں نے ان ہی کی صحبت میں سیکھا تھا۔۔۔ کیونکہ پڑھنے میں مصروف و مشغول ہونے کے باعث انھیں مجھے ہی کام کاج سمجھانا پڑا تھا مائیکے میں۔۔۔

    اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ کیونکہ جب میری ہی دلچسپی تعلیم میں نہیں تھی تو پھر انھوں نے مجھے گھر سنبھالنے لائق بنانے میں محنت کی۔

    رات کے کھانے کی میز پر پھولی ہوئی گرم گرم چتکبری روٹیاں میرے ہاتھ سے لیتے وقت، ان سب باتوں کا انھوں نے کئی دفعہ کھُلے دل سے اعتراف کیا تھا۔

    کھلے دل والی باجی۔۔۔

    راحیل نے دوبارہ وہی سریلا نغمہ چھیڑا تو نائلہ پھولی ہوئی روٹی چھوڑ کر گاڑی کی پچھلی نشست پر لوٹ آئی۔

    Since my baby left me

    I found out a place to dwell

    Its, down at the end of a lonely street

    Of heart break hotel

    وہ بالکل ایلوس پریسلی کی طرح سر ہلا رہا تھا۔ دھن بھی دل میں اترے جاتی تھی۔۔۔ آج راحیل کی آواز میں نائلہ نے درد محسوس کیا تھا۔ گانے کا اس کے بعد کا حصہ نائلہ کو اور اُداس کرےگا۔۔۔ وہ جانتی تھی اور شاید راحیل بھی جانتا تھا۔ اس نے آواز ذرا دھیمی کر لی۔ یہ گانا اسے بہت پسند تھا۔اور اسے اسٹیج پر بھی گانا تھا۔اسے گاتے وقت اداس ہو جانا بھی اچھا لگتا تھا۔

    You make me so lonely baby

    I get so lonely

    You make me so lonely

    I could die

    نائلہ رنجیدہ نظر آ رہی تھی۔۔۔

    خدا نہ کرے۔۔۔ میرے فنکار۔۔۔ آخری لائن سن کر اس نے دل میں کہا۔

    آج بہت اداس ہے راحیل۔۔۔ وہ سوچنے لگی۔

    اس کا باپ اس سے بہت خفا ہے۔۔۔ اور باپ کی ہاں میں ہاں اگر نہ ملائی جائے تو بچےّ خراب ہو جاتے ہیں۔ باجی نے کہا ہے۔

    میں نے اسے ِگٹار کیوں لے کر دی۔

    میں نے اسے میوزک اسکول کیوں بھیجا۔

    ہر شام بورن ویٹا والا دودھ ہاتھ میں لیے اس کے کمرے کے دروازے کے قریب کھڑے ہوکے اس کا گٹار سن سن کر اس کی حوصلہ افزائی کیوں کی۔

    میں ماں ہوں۔۔۔ کہ دشمن۔۔۔ شرم نہیں آئی مجھے۔

    اپنا انجام بھول گئی۔۔۔ میں۔۔۔

    باجی، راحیل کے نویں جماعت کے ششماہی امتحان میں ریاضی کے ۱۰۰ میں سے ۳۴ نمبر دیکھ کر اونچی آواز میں سمجھا رہی تھیں۔ آوازیں سن کر گھر کے دوسرے لوگ بھی آ گئے تو مارے ہمدردی کے باجی کی آواز گلو گیر ہو گئی تھی۔

    O shut up. وہ چیخا تھا۔ یہ مام کا زمانہ نہیں ہے۔۔۔ شاید اس کی نظروں میں میرا اس کی کاپی کے کور پر پنسل سے کھنچا ہوا اس کا گٹار بجاتا اسکیچ گھوم گیا تھا۔ جو دو سال سے اس نے اپنی میز کی دراز میں سنبھال رکھا تھا۔

    Just don't interfere in my life وہ اسکول سے ملا رپورٹ کارڈ لے کر کمرے سے جانے لگا تو اس کے باپ نے اس کے چہرے پر ایک زور کا تھپڑ مارا۔

    بڑوں سے زبان لڑاتے ہو؟ میں نے فوراً کہا۔

    اس نے میری طرف زخمی نظروں سے دیکھا۔۔۔ شفاف رخسار پر پانچ سرخ لکیریں چھالوں کی طرح ابھر آئی تھیں۔

    کئی دن مجھ سے نظر ملا کر بات نہیں کی تھی۔ میں نے سمجھانا چاہا تو کمرے میں گھس کر دروازہ پٹخ کر بند کر دیا۔

    اس کے بعد میں نے کچھ نہ کہا۔

    نائلہ نے تصور میں اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

    اسکول کی طرف سے جب والدین کے اجازت نامے پر دستخط کی باری آئی تو۔۔۔ میں نے چپکے سے دستخط کر دیئے اور کسی کو پتہ نہ چلا۔

    اب میرے ٹیڈی بیئر کو مجھ سے ناراض نہیں رہنا چاہئے۔

    نائلہ سوچنے لگی۔

    آج وہ اسی ریہرسل کے لیے جا رہا تھا۔ اپنے پسندیدہ گلوکار کے گائے سب سے پسندیدہ گانے کی ریہرسل۔۔۔ وہ اس کے گانے گاتے ہوئے اکثر سوچوں میں گم ہو جاتا۔

    قابل لوگ زیادہ دیر جیتے ہی نہیں۔۔۔ کیوں مام؟

    ایک دن جب اس نے نائلہ کو ایلوس پریسلی کے کئی گانے گا کر اور بجا کر سنائے تھے، وہ ایسے ہی اداس تھا۔

    ایلوس پریسلی نوجوانی میں ہی انتقال کر گیا تھا۔ بےحد خوش شکل نوجوان تھا وہ۔۔۔ بیضوی چہرہ۔۔۔ اونچا قد۔۔۔ تندرست، چست بدن، سرخ و سفید رنگت، بالوں کا رنگ سیاہ کرتا تھا وہ اور پوشاک اپنے وضع کردہ انداز کی جاپانی شہزادوں کی بڑے کالروں والی جیسی کچھ۔ جس سے شانے اور وجیہہ معلوم ہوتے۔چمکیلے رنگوں والی۔ بہت سے رنگ برنگے بٹنوں والی۔ مختلف ڈیزائن کے ہیرے جڑی کمربند والی۔ گاتے ہوئے جب اسٹیج پر تھرکتا تو دلوں کی دھڑکن اس کی تال پر تھرکتی۔ یہ باتیں نائلہ کو راحیل نے بتائیں تھیں۔

    نائلہ یاد کر رہی تھی کہ ایک بار اس نے کسی شو کے دوران اپنا پسینہ خشک کر کے رومال تماشائیوں کی طرف اچھالا تھا تو لوگوں نے اس رومال کو حاصل کرنے کے لیے کسی نایاب نعمت کی طرح انگنت ہاتھ بڑھائے تھے۔

    ٹیلی ویژن پر دیکھا تھا نائلہ نے۔

    موت تو اللہ کے اختیار میں ہے بیٹا۔۔۔ ایسا تو نہیں ہے۔۔۔ بہت سے قابل لوگ برسوں جیتے ہیں۔۔۔ بہت سے عام لوگ کم جیتے ہیں، یا اس کا الٹ بھی ہوتا ہے۔۔۔

    مگر مما۔۔۔ میں کیوں اس شدّت سے محسوس کرتا ہوں۔۔۔ اس کے بارے میں اتنا زیادہ۔۔۔ میں دیکھئے۔۔۔ اس کی موت کے تیس سال بعد پیدا ہوا۔۔۔ پھر بھی۔۔۔ King تھا وہ Music ک۔۔۔ Rock-n-Rollکا۔۔۔ I just adore him mom

    کیوں کہ آپ کی نظر میں وہ سب سے اہم آدمی ہے۔۔۔ آپ موسیقی کو جاننے سمجھنے والے ہیں۔۔۔ اور وہ ایک پیدائشی موسیقار تھا۔

    ہاں۔۔۔ ایک مکمل فنکار تھا وہ۔۔۔ اس گمنام شخص کا درد کیسے محسوس کیا اس نے۔۔۔کہ درد کو گانے میں تبدیل کر کے امر کر دیا۔۔۔ کتنا مشہور ہو گیا Heart Break Hotelکے نام سے وہ مغربی ہوٹل۔۔۔ جب اس نے گانے کے ساتھ ڈانس کر کے لوگوں کا دل جیت لیا تھا جب تک گاتے ہوئے کوئی ناچا نہیں کرتا تھا اسٹیج پر۔۔۔ وہ ایک دردمند۔۔۔ ایک درد مند دل تھا اس کے پاس۔۔۔ امریکن ہو کر بھی وہ افریقیوں کے دکھ بانٹتا تھا۔

    گورا ہو کر بھی اس کے اندر سے افریقیوں کی آواز آتی تھی۔۔۔ انسان کو ایسا ہی سچا اور ایماندار ہونا چاہیے۔۔۔ ہے نا۔۔۔ ہے نا مام۔۔۔

    نائلہ کو اچھا سامع پا کر وہ دل کی باتیں کہتا۔۔۔

    ہاں۔۔۔ میری جان۔۔۔ میرا بچہ کتنا عقلمند ہے۔۔۔

    وہ اس کاشانہ تھپتھپا دیتی۔۔۔

    بال سہلا دیتی۔۔۔

    ما تھا چوم لیتی۔۔۔

    مما۔۔۔ دیکھئےگا۔۔۔ سارے سکولز میں سے ہمارا گروپ ہی فرسٹ آئےگا۔۔۔ اس بار بھی۔ فائنل میں پرفارم کرنے کے لیے۔۔۔ ہم سب بہت Dedicated ہیں۔۔۔

    انشاء اللہ۔۔۔ نائلہ دعا دیتی۔

    انشاء اللہ۔۔۔ گاڑی میں بیٹھی نائلہ نے دھیرے سے گردن اس کی طرف موڑی۔

    آج وہ ضرور مجھ سے بات کرےگا۔ میرا شکریہ ادا کرے گا۔میری گود میں سر رکھ کر مجھے منائےگا۔۔۔ معافی مانگےگا مجھ سے۔

    نائلہ سوچتی رہی۔۔۔ وہ اپنی دھن میں گاتا بجاتا رہا۔

    نائلہ کی منزل قریب آ رہی تھی۔ وہ اس کے سرپر ہاتھ پھیر کر اسے کامیابی کی دعائیں دینا چاہتی تھی۔ بہت دنوں سے اس نے اس کا سر نہیں چھوا تھا۔مگر وہ بالکل بےخبر گا رہا تھا۔

    یہ مجھ سے ایسے نہیں روٹھ سکتا۔ اس چہرے میں تو میں نے آرٹ فائلز کے سبھی چہرے جوڑ رکھے تھے۔ اس کے معصوم ہاتھوں کی ماہرانہ جنبش سے چھیڑے جانے والے نغموں کو سنتے ہوئے میں پیلے رنگ کے ٹین کے نازک سے مستطیل ڈبے کے سب رنگ اور ان رنگوں سے مزید بننے والے ان گنت رنگ دیکھ لیتی تھی۔

    نائلہ نے نہایت اداسی سے سوچا۔

    میں نے کچھ غلط کہہ دیا ہوگا۔۔۔ مگر اس میں بسے فنکار کے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دیا۔

    اس کے اس Concert کی منظوری دینے کے لیے جانے کیسے کیسے جواب دہ ہونا ہو گا مجھے۔۔۔

    وہ ایک آہ بھرکر رہ گئی۔ اس کی آنکھیں آخرکار بھیگ ہی گئیں ۔کون سمجھے گا مجھے۔۔۔ آخر۔۔۔ اس کے بوجھل دل میں خیال ابھرا۔۔۔

    گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رکی۔ اس نے تھکے ہارے سے قدم گاڑی سے باہر رکھے ہی تھے کہ راحیل نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    یہ سب۔۔۔ آپ ہی کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے مام۔۔۔ مجھے کامیابی کی دعا دیجئے۔۔۔ My sweet mom۔۔۔ آپ کو جانے کیا جھیلنا پڑےگا نا۔۔۔؟ مگر میں آپ کے ساتھ ہوں مما۔۔۔ آپ گھبرائیےگا نہیں۔ اس کی آواز بھرا گئی۔

    صرف آپ۔۔۔ آپ مجھ سے ناراض مت رہیےگا کبھی۔۔۔ میں غلط نہیں ہوں نا مما۔۔۔؟

    تم کبھی غلط نہیں تھے، میرے فنکار۔۔۔ نائلہ اسے دیکھتی رہی۔۔۔ پھر سر ہلکے سے نفی میں ہلا کر اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور مسکراتی ہوئی باہر آ گئی۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے