Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تین باتیں

بلونت سنگھ

تین باتیں

بلونت سنگھ

MORE BYبلونت سنگھ

    کہانی کی کہانی

    بے روزگاری سے پریشان ہو کر فوج میں بھرتی ہونے والے ایک جوان کی کہانی ہے۔ رویل سنگھ ایک مضبوط و کڑیل جوان ہے جو کبھی کبھار چوری کرنے میں بھی عار نہیں سمجھتا۔ اس کی ماں اور محبوبہ اس کو چوری سے باز رکھنے کے لئے اپنی محبتوں کا واسطہ دے کر لاہور ملازمت کرنے بھیج دیتی ہیں۔ لاہور میں وہ کئی دن تک مارا مارا پھرتا ہے لیکن اسے کوئی نوکری نہیں ملتی اور وہ ایک دن گاؤں لوٹ جانے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اتفاق سے وہ ایک باغ میں جا نکلتا ہے جہاں پر فوجیوں کی تصاویر اور جوانوں کو مہمیز کرنے والے پرکشش بورڈ آویزاں ہوتے ہیں۔ وہیں ایک بورڈ پر تین باتیں کے عنوان سے ایک بورڈ ہوتا ہے جس پر سپاہیوں کی تصاویر کے ساتھ اچھی خوراک، اچھی تنخواہ اور جلدی ترقی لکھا ہوتا ہے۔ رویل سنگھ پتہ پوچھتے ہوئے بھرتی دفتر کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔

    ردیل سنگھ گوردوارہ ڈیرہ صاحب کے صحن میں سویا ہوتا تو اسے منہ اندھیرے ہی جاگنا پڑتا۔ چونکہ گوردوارے میں صبح ہی صبح شبدکیرتن شروع ہو جاتا تھا اور صحن کی صفائی کے لیے مسافروں کو جگانا پڑتا تھا، اس لیے چھت پر دیر تک سویا رہا۔ یہاں تک کہ سورج نکل آیا اور تیز دھوپ میں شیر پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھ کا کلس جگمگا اٹھا۔

    کیرتن شروع ہو چکا تھا اور گرو پریم کے متوالے نر و ناری جمع ہو رہے تھے۔ رویل سنگھ کو اپنی غفلت پر بڑی شرم محسوس ہوئی۔ جب وہ گاؤں میں تھا تو کبھی اتنی دیر سے نہیں اٹھا تھا لیکن جب سے وہ لاہور میں آیا تھا، دن بھر آوارہ گردی کرنے کے بعد اس قدر تھک جاتا تھا کہ طلوع آفتاب تک غٹ رہتا تھا۔ لیٹے لیٹے اس نے اپنے پاؤں پر نگاہ ڈالی، اس کے پاؤں بڑے بڑے تھے اور ٹخنوں کی ہڈیاں کسی بیل کی ہڈیوں سے کم نہ تھیں۔ اس کی ٹانگیں بہت لمبی تھیں اور لمبی دوڑوں میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ مضبوط اور خوش وضع ہو گئی تھیں۔ کچھ دیر اسی طرح لیٹے رہنے کے بعد وہ دفعتاً اچھل کر اٹھ بیٹھا۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ جو لوگ رات کو اس کے ساتھ چھت پر سوئے تھے، ان میں سے بیشتر جا چکے تھے۔ اس نے صحن کی طرف جھانک کر دیکھا جہاں عورتیں چھوٹے چھوٹے گھونگھٹ نکالے ہاتھوں میں دونے اور کٹوریاں تھامے ادھر ادھر گھوم رہی تھیں۔

    اپنے گھر میں بھی وہ اسی طرح اچھل کر اٹھ بیٹھتا تھا۔ یہاں اسے کوئی کام نہ تھا۔ پہاڑ سا دن کاٹے نہیں کٹتا تھا۔ چار دنوں سے وہ گوردوارے کے لنگر سے روٹی کھا رہا تھا۔ تھوڑی سی نقدی جو اس کے پاس تھی وہ شربت اور لسی پینے کے لیے اس کے پاس صرف چند آنے باقی رہ گئے تھے اور وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے بعد اس کا گزارہ کیسے ہوگا۔ وہ شرافت کا کچھ ایسا قائل بھی نہ تھا۔ وہ سٹے ہوئے کلوں والے بنیوں کو بڑی خوف ناک نظروں سے گھورا کرتا تھا، لیکن یہ لاہور تھا۔ ایک گہما گہمی۔۔۔ متواتر آمد رفت۔۔۔ کوئی اکا دکا مل جائے تو وہ ایک ہی دھول جما کر اپنا شکار ہتیالے۔

    اسے یاد آیا کہ۔۔۔ پانچ چھ ماہ پہلے وہ اور اس کے ساتھی گاؤں کے ایک ساہوکار کے گھر میں آدھی رات کے وقت جا گھسے۔ جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو جلدی میں انہوں نے تیرہ بوریاں گیہوں کی اڑالیں۔ لیکن پکڑ لیے گئے۔ تین ساتھی تو سزا پا کر بڑے گھر پہنچ گئے۔ مگر وہ اور اس کے ایک ساتھی کا جرم ثابت نہ ہو سکا۔۔۔ آئندہ کے لیے اس نے توبہ تو نہ کی، البتہ محتاط ہو گیا۔۔۔ احتیاط کی چند اور وجہیں بھی تھیں۔۔۔ ایک تو گرفتاری کی صورت میں اسے بچانے والا کوئی نہ تھا، باپ مر چکا تھا اور ماں بیچاری بے دست و پا تھی۔ دوسرے امر کور جس کے ساتھ اسے بہت زیادہ محبت تھی اور جو نازک اندام اور دھارمک خیالات لڑکی تھی، اس سے کہنے لگی کہ اگر تم جیل چلے گئے تو میں کچھ کھا کر مر جاؤں گی۔ رویل سنگھ جانتا تھا کہ وہ ضدی لڑکی جو کچھ کہتی ہے اسے پورا کر دکھائےگی۔ چنانچہ اس کی محبوبہ اور اس کی ماں نے مل جل کر اسے اس بات پر رضامند کر ہی لیا کہ وہ شہر میں جا کر کوئی نوکری تلاش کرے۔ تا کہ وہ لوگ آرام سے زندگی بسر کر سکیں۔

    اس کی محبوبہ امر کور اپنی عمر کی نسبت کہیں زیادہ سیانی اور دور اندیش تھی۔ اس نے رویل سنگھ کے دل میں بجائے آوارگی کے گھر کا پیار پیدا کرنےکی کوشش کی۔ ان کا ایک گھر ہوگا۔ وہ دونوں خوب مزے میں بڑے پیار سے اکٹھے رہا کریں گے۔ ان کے ہاں ننھے منے پیدا ہوں گے۔ پھر انہیں کتنی خوشی حاصل ہوگی۔ رویل سنگھ کا کند ذہن ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس کا اکھڑدل گھر کی کشش سے بیگانہ ہی رہا لیکن جب شام کے دھندلکے میں کسی کی پٹڑی پر امر کور گیلی مٹی کا تسلہ سر پر جمائے ہنس ہنس کر اس قسم کی باتیں کرتی تو اس کی تیزی سے گھومنے والی چمکدار آنکھیں اور پتلے پتلے ہونٹ اسے بہت ہی بھلے معلوم ہوتے تھے، اس کی زبان باچھوں پر گھلنے لگتی، جیسے امر کور مٹھائی کا دونا ہو۔

    اگر وہ امرکور کا ایسا ہی شیدائی تھا تو گھر، گھر کا پیار اور بچے، تو معمولی باتیں تھیں۔ لیکن جب امر کور دیکھتی کہ وہ اس کی باتوں کی طرف دھیان دینے کے بجائے حریص نظروں سے اس کے گالوں اور ہونٹوں کی طرف دیکھ رہا ہے تو سٹ پٹا کر ٹوٹے ہوئے سپرنگ والی گھڑی کی طرح خاموش ہو جاتی۔ ’’اوہوہوہو۔‘‘ رویل سنگھ اسے دونوں بازوؤں میں اچک لیتا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی مونچھیں متحرک ہو جاتیں۔ ’’بھئی امرو دیکھو منہ مت پھلاؤ۔ دھرم سے جو تم کہوگی وہی کروں گا۔‘‘

    ’’تو میں کیا کہہ رہی تھی۔۔۔ تم سے؟‘‘ امر کور چمک کر پوچھتی۔

    ’’سنو امرو! میری موٹی عقل ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتی۔ تم مجھے سمجھانے کی کوشش مت کرو۔ بس مجھے اتا بتا دو کہ میں کیا کروں؟‘‘ پھر وہ اس کے تمتماتے ہوئے گالوں پر ہونٹ رکھ دیتا۔ امرو اسے پیار کرنے کی چھٹی بھی دے دیتی اور ساتھ ہی ملامت بھی جاری رکھتی، ’’دیکھو! کوئی آ رہا ہے۔۔۔؟ کوئی دیکھ لےگا۔۔۔! اب میں یہاں کبھی نہیں آؤں گی اس جگہ۔۔۔ بس دیکھ لینا، ہاں۔۔۔‘‘ ان کے گھر کے قریب ہی امرو کی گائے بندھی رہتی تھی۔ شام کے وقت امرو وہاں دودھ دوہنے کے لیے آتی تھی۔ جب وہ ادھر سے گزرتا تو اچک کر ایک نظر ادھر ضرور ڈالتا اگر امرو دکھائی دیتی تو پہلے ادھر ادھر دیکھ کر اطمینان کر لیتا اور پھر اسے مخاطب کر کے گنگنانے لگتا،

    نی۔۔۔ لچھیے بادام رنگئے

    تینوں لین کبوتر آیا

    ’’جو بولے سو نہال۔۔۔‘‘ ­­­­ گرو کے متوالوں نے نعرہ کیا تو رویل سنگھ چونک اٹھا۔ اب پرشاد بانٹا ہی جانے والا تھا۔ اس نے ادھر ا­­دھر دیکھ کر اپنا کنگھا سنبھالا اور منتشر بالوں کو سمیٹنے کے بعد جلدی سے پگڑی باندھی اور چادر کندھے پر ڈال کر تہمد کی سلوٹیں درست کرتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے اترا۔ منہ پر پانی کے چھینٹے دیے اور پگڑی کے شملے سے چہرہ پونچھا۔ گوردوارے کے دروازے پر نہنگ سکھوں کو کھڑے دیکھ کر بڑے عقیدت مندانہ انداز سے پاؤں بھی دھو ڈالے اور دروازے کی چوکھٹ پھلانگ کر اندر داخل ہوا۔ پہلے ایک مرتبہ اس نے غلطی سے چوکھٹ پر پاؤں رکھ دیا تھا، تو سیوادار نے اسے آنکھیں دکھا کر ٹوک دیا تھا۔

    پرشاد بانٹا جا رہا تھا۔ اس نے ­پہلے تو سامنے سے ہاتھ بڑھا کر پرشاد لیا۔ پھر پینترا بدل کر دوسری طرف ہاتھ بڑھا کر پرشاد لے لیا۔ پرشاد دینے والے کو ذرا شک گزرا۔ جب ذرا چکر کاٹ کر اس نے تیسری مرتبہ ہاتھ بڑھائے تو پرشاد بانٹنے والے کو غصہ آ گیا، ’’سردار جی! بڑے افسوس کی بات ہے۔‘‘ واقعی بات افسوس کی تھی لیکن وہ صبح کو اسی حلوے سے ناشتہ کیا کرتا تھا اور اوپر سے پاؤ بھر دہی کی لسی پی لیتا تھا۔ گاؤں میں تو ہرشخص کو پاؤ بھر حلوا دیا جاتا تھا لیکن یہاں۔۔۔؟ یہ شہری لوگ چھ ماشہ حلوہ دے کر رہ جاتے تھے۔ چنانچہ رویل سنگھ نے کہا، ’’گیانی جی! اتنا سا حلوہ تو ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔۔۔ یہ تو بس ہتھیلیوں سے چپک کر رہ جاتا ہے۔‘‘ پرشاد بانٹنے والے کے تیور بگڑ گئے، ’’سردار صاحب! پرشاد آخر پرشاد ہے۔۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پرشاد ہی سے پیٹ بھر لیا جائے۔‘‘

    رویل سنگھ اس قسم کی منطق سے واقف نہیں تھا۔ چپ چاپ ایک طرف سرک کر کھڑا ہو گیا۔ جب سبھی متوالے چلے گئے تو وہ ایک کونے میں سیمنٹ کے سرد فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں گیانی جی نمودار ہوئے اور ایک بڑے دونے میں پاؤ، ڈیڑھ پاؤ حلوا ڈال کر اسے دے گئے۔ رویل سنگھ حیران رہ گیا۔ جب حلوا کھاکر وہ باہر نکلا، تو پاؤ بھر دہی میں سیر بھر پانی ڈال کر لسی پینے لگا۔ لسی پینے کے بعد وہ سیدھا بڈھے دریا کی طرف چل دیا۔ دو دن پہلے وہ سردار بدھ سنگھ چوب فروش کے ہاں گیا تھا۔ وہ ان کے گاؤں ہی کے رہنے والے تھے۔ انہیں ایک ملازم کی ضرورت تھی اور وہ رویل سنگھ کو نوکری دینے پر رضامند ہوگئے تھے لیکن یہ الفاظ بدھ سنگھ کے بیٹے ہرنام سنگھ نے کہے تھے۔ اسی لیے وہ بدھ سنگھ سے ملنے کے لیے آج پھر وہاں آیا تھا۔ بدھ سنگھ کو مصروف دیکھ کر رویل سنگھ کونے میں پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ کر اونگھنے لگا۔

    رویل سنگھ کچھ پڑھا لکھا بھی تھا۔ دو جماعتیں پاس کر چکا تھا۔ تیسری جماعت میں ایک مرتبہ ماسٹر نے اسے زیادہ دیر تک مرغا بنائے رکھا تو اس نے پڑھنا لکھنا ترک کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے انگریزی پڑھنے کی کوشش بھی کی تھی۔ چنانچہ وہ ’’اے‘‘ سے ’’زیڈ‘‘ تک سارے حروف پڑھ لیتا تھا اور ان میں سے بعض لکھ بھی سکتا تھا۔ فراغت پاکر بدھ سنگھ اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کی نظر کمزور تھی اور کان بھی کچھ بہرے تھے۔ چنانچہ رویل سنگھ کو اس کے قریب پہنچ کر اور چلا چلاکر اپنا مدعا بیان کرنا پڑا۔ بمشکل بڈھے نے بتایا کہ ان کے پہلے ملازم کا خط کل ہی آیا ہے اور وہ دوچار روز تک واپس آنے والا ہے۔ اس لیے وہ اسے نہیں رکھ سکتے۔

    ادھر سے جواب پا کر رویل سنگھ نے سبیل سے پانی پیا اور شہر کی طرف چل دیا۔ اب وہ بالکل مایوس ہو چکا تھا۔ اس نے سوچا آج سیر کر کے کل گاؤں واپس چلا جائے۔ وہ بڑی بڑی امیدیں لے کر شہر میں آیا تھا لیکن اب کیا منہ لے کر واپس جائےگا۔ وہ ایک بےفکر اور آوارہ مزاج نوجوان تھا۔ اس قسم کی پابندیوں اور مجبوریوں سے کبھی دوچار نہیں ہوا تھا۔ گھومتے گھامتے وہ شاہی محلہ کے نزدیک ایک دھرمسالہ میں پہنچ گیا۔ وہ دن میں ایک آدھ مرتبہ اس دھرمسالہ میں چلا آیا کرتا تھا۔ یہاں کا گرنتھی البیلی طبیعت کا نوجوان شخص تھا۔ ان دونوں میں کچھ بے تکلفی پیدا ہو گئی تھی۔ مگر رویل سنگھ نے اسے کبھی اپنا رازدان نہیں بنایا تھا۔ گرنتھی اسے ابھی تک ایک کھاتا پیتا زمیندار سمجھتا تھا۔

    وقت کٹی کے لیے رویل سنگھ دوپہر کو وہاں پہنچ جاتا۔ وہ دونوں فرش پر ٹھنڈے پانی کا چھڑکاؤ کرتے۔۔۔ اور برقی پنکھے تلے اینٹوں کے بنے ہوئے فرش پر لیٹ جاتے، ادھر ادھر کی گپیں ہانکتے رہتے۔ نیند آتی تو سو بھی جاتے۔ آج وہ وقت سے کچھ پہلے ہی پہنچ گیا تھا۔ جب سیڑھیاں چڑھ کر ہال میں داخل ہونے لگا تو دیکھا کہ پہلو والے کمرے میں گرنتھی ریٹھوں کے پانی سے سر دھو رہا ہے۔ اسے دیکھ کر گرنتھی نے قہقہہ لگایا۔ دو چار باتوں کے بعد رو­یل سنگھ اندر چلا گیا۔ اس نے صراحی سے گلاس میں پانی انڈیلا اور آہستہ آہستہ پینے لگا۔ در اصل اسے سخت بھوک لگ رہی تھی۔ کئی دنوں سے وہ لنگر کی روٹیاں کھا رہا تھا۔ اب اسے شرم محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ اب وہ کم از کم ایک وقت کا کھانا وہاں سے نہیں کھائے گا۔

    پنکھا چھوڑ کر اس نے پگڑی اتاری اور فرش پر لیٹ گیا۔ گرنتھی نہانے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کیے جاتا تھا۔ اس کی بے تکی باتوں سے رویل سنگھ اپنی بھوک کو بہلانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد گرنتھی اپنے لمبے لمبے بال نچوڑتا ہوا اندر داخل ہوا اور ایک بڑے مزے کی بات شروع کر دی۔ اتنے میں ایک شخص انہیں کھانے پر بلانے آیا۔ شرادھوں کے دن تھے۔ رویل سنگھ دل ہی دل میں خوش ہوا کہ آج پیٹ بھر کر کھانا ملےگا۔ معمولی سے تکلف کے بعد کھانے میں شریک ہو گیا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد اس پر ایسی گہری نیند چھائی کہ شام تک اس کی آنکھ نہ کھلی۔ اٹھتے ہی اس نے نل کے ٹھنڈے پانی سے اشنان کیا تو طبیعت کھل گئی۔ گرنتھی نے شکر کے ٹھنڈے شربت میں ستو گھول رکھے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کر کے دو لوٹے پیے۔ وہ ستوؤں کا بڑا شوقین تھا۔ دوبارہ پگڑی باندھ کر اس نے گرنتھی سے مصافحہ کیا اور اس نے بتایا کہ اس کا کام ختم ہو چکا ہے اور وہ کل اپنے گاؤں لوٹ رہا ہے۔ اس پر گرنتھی نے بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا اور تاکید کی، ’’کہ وہ جب کبھی لاہور آئے تو اسے ضرور ملے۔‘‘

    یہاں سے وہ بازار کی سیر کرنے کے لیے چل کھڑا ہوا۔ انار کلی میں گھومتا ہوا وہ نیلا گنبد جا نکلا۔ وہاں سے اس نے لکڑی کے بڑے بڑے تختوں پر مختلف قسم کی تصویریں دیکھیں۔ ایک تصویر میں پہاڑ کا منظر دکھایا گیا تھا۔ پہاڑ میں جگہ جگہ بل بنے ہوئے تھے۔ ادھر ادھر پتھروں پر بڑے بڑے چوہے دوڑتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔ نیچے لکھا تھا، ’’جاپانی چوہے ہیں انہیں مار بھگاؤ۔‘‘ یہ تصویر دیکھ کر رویل سنگھ بہت خوش ہوا۔ خصوصاً چوہوں کی صورتیں بڑی مضحکہ خیز تھیں۔ یعنی جسم تو چوہے کے مانند اور سر انسانوں کے۔ بعض چوہوں نے عینکیں بھی لگا رکھی تھیں۔ وہ سوچنے لگا کہ جب وہ گاؤں میں جا کر امر کور سے ان چوہوں کا ذکر کرےگا، تو وہ کس قدر خوش ہوگی۔ کتنی حیران ہوگی۔۔۔ پھر اس نے دماغ پر زور دیا کہ آخر یہ جاپانی کون ہیں؟ یہ کس قسم کے چوہے ہوتے ہیں۔ اس نے آج تک ایسے چوہے نہیں دیکھے تھے۔ اس نے پگڑی سرکائی، سر کھجایا، غور کیا۔ لیکن کچھ نہ سمجھ سکا۔

    اتنے میں کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیے۔ اس نے گھوم کر دیکھا۔ یہ اس کا پرانا دوست ہرسا سنگھ تھا۔ دھوپ میں اس کا چہرہ کالے بوٹوں کی طرح چمک رہا تھا۔ آدھی پگڑی سر پر بندھی تھی اور آدھی ا­­­­دھر ادھر جھول رہی تھی۔ رویل سنگھ اچھل کر اس سے بغل گیر ہو گیا۔ ہرسا سنگھ بھاڑوں کے خاندان سے تھا۔ رویل سنگھ کو اس سے خاص انس تھا۔ ہرسا سنگھ مضبوط جسم کا شیردل شخص تھا۔ اسے ایسے ایسے ہتھکنڈے یاد تھے کہ بڑے بڑے استاد ان کے سامنے کان پکڑتے تھے۔ دونوں بچپن ہی سے بہت گہرے دوست تھے۔

    ہرسا سنگھ کبڈی کھیلنے میں طاق تھا۔ اس کا جسم مچھلی کی طرح چکنا اور خرگوش کی مانند پھرتیلا تھا اور وہ بھیڑیے کی طرح خونخوار اور مکار تھا۔ جوان ہوتے ہی اس نے بڑے پیمانے پر ڈاکے ڈالنے شروع کر دیے تھے۔ اس نےعلاقہ کے ایک نامی ڈاکو سندر سنگھ سے بھی ساز باز کی تھی اور ان دونوں نے مل کر بڑے بڑے میدان مارے تھے۔ بعد میں سندر سنگھ کو پھانسی ہو گئی اور ہرسا سنگھ روپوش ہو گیا۔ آج اسے اپنے سامنے دیکھ کر رویل سنگھ کو بڑی مسرت حاصل ہوئی۔ دونوں ایک حلوائی کی دکان میں داخل ہوئے۔ ہرسا سنگھ نے دو سیر مٹھائی خریدی اور مٹھائی کھانے کے بعد دونوں نے پیٹ بھر کر لسی پی۔

    ہرسا سنگھ نے اسے بتایا کہ اس نے ضلع امرتسر میں دو ایسے گھر تاڑ رکھے ہیں جہاں سے مال اڑانا چنداں مشکل نہیں ہے۔ یہ سن کر رویل سنگھ بہت خوش ہوا۔ اس قسم کی گفتگو سے اسے گہری دلچسپی تھی۔ اس نے مستقبل کا نہایت دلفریب تصور باندھا اور ان دونوں میں عہد و پیمان ہو گیا کہ وہ کل پھر اسی جگہ ملیں گے۔ یہ طے کر کے وہ دونوں ایک دوسرے سے رخصت ہو گئے۔

    ہرسا سنگھ کے چلے جانے کے بعد تھوڑی دیر تک رویل سنگھ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے دل پر سے بھاری پتھر ہٹ گیا ہو۔ لیکن جب اسے امرو کا خیال آیا تو وہ کچھ مایوس سا ہو گیا۔ اگر اسے معلوم ہو گیا کہ اس نے پھر ڈاکے ڈالنے شروع کیے ہیں، تو یقیناً بگڑ جائےگی۔ اسے چور کی بیوی بننا کبھی پسند نہ تھا۔ اس پر اس نے دل ہی دل میں امرو کو دو تین گالیاں بھی دیں۔۔۔ لیکن وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ اس لیے اسے نظرانداز نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے پھر سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا۔ اگر یہ ممکن ہوسکے کہ وہ صرف ایک بار ڈاکہ ڈال لے پھر چاہے زندگی بھر کے لیے اس پیشے کو خیرباد کہہ دے۔ لیکن اگر وہ گرفتار ہو گیا تو اس کی زندگی برباد ہو جائےگی۔ امرو سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ ماں کو علیحدہ دکھ ہوگا اور وہ خود جیل میں پڑا سڑےگا۔

    اس ادھیڑ بن میں وہ چلا جا رہا تھا۔ اگرچہ یہ کام بہت مشکل تھا لیکن وہ صحت ور اور مضبوط ہونے کے باوجود مکار (نہیں) تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ آخر وہ کیا کرے۔ سڑکوں پر بےشمار موٹریں، بیش قیمت کپڑے پہنے ہوئے امیر لوگ، اعلیٰ سے اعلیٰ دکانیں اور اونچے اونچے مکانات دیکھ کر وہ حیران ہو رہا تھا۔ آخر ان سب کے لیے اس قدر روپیہ کہاں سے آتا ہے؟ وہ کیوں اپنی محبوبہ کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرنے سے معذور ہے؟ اسی قسم کے خیالات میں ڈوبا ہوا وہ ایک باغ میں جا نکلا۔ ایک روش کے کنارے بڑے بڑے سے بورڈ پر موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا، ’’بہادری کے صلہ میں۔‘‘ وہ سوچنے لگا کہ ’’صلہ‘‘ کیا ہوتا ہے۔ پھر وہ غور سے اس تمغہ کی طرف دیکھنے لگا، جس کے نیچے لکھا ہوا تھا، ’’وکٹوریہ کراس۔۔۔ منگل سنگھ آٹھویں راجپوتانہ رائفلس کو بہادری کے صلہ میں وکٹوریہ کراس دیا گیا۔‘‘

    وہ نہیں جانتا تھا کہ وکٹوریہ کراس ہوتا کیا ہے اور کیسی بہادری پر دیا جاتا ہے اور پھر وکٹوریہ کراس ملنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔۔۔ اکتا کر وہ پرے ایک بنچ پر جا کر بیٹھ گیا۔ اسے اپنی کم عقلی پر بہت ہی افسوس ہوا۔ وہ پھر اپنے خیالات میں کھو گیا اور اپنی پیشانی کو انگلیوں سے بجا بجا کر سوچنے لگا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ وہ ہرسا سنگھ سے ملے یا نہ ملے۔

    وہ گھاس پر لیٹ گیا۔ ایک بازو سر کے نیچے رکھ لیا دوسرا پیشانی پر اور نیم وا آنکھوں سے دور دور تک نظر دوڑانے لگا۔ سامنے ٹھنڈی سڑک کے پرے سرے پر بہت لمبا چوڑا تختہ آویزاں کیا گیا۔ اس پر ایک خوبصورت عورت کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ اس عورت کا چہرہ اس کے پورے قد کے برابر تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں اور سرخ سرخ گالوں والی بہت حسین عورت تھی۔ وہ حیران ہوا کہ آخر یہ کس عورت کا فوٹو ہے۔ نیچے انگریزی کے موٹےموٹے حروف میں کچھ لکھا تھا۔ اس نے سوچا شاید کسی میم کی تصویر ہو۔ حالانکہ اس نے دیسی کپڑے پہن رکھے تھے مگر اس نے سنا تھا کہ اب میمیں بھی دیسی کپڑے پہننے لگی ہیں۔ لیکن اس تصویر کو سر بازار دکھانے کی کیا ضرورت تھی۔ غیر مردوں کے سامنے اپنے حسن کی نمائش کیوں کی گئی تھی۔ پھر وہ تصویر کی لمبائی چوڑائی کو دیکھ دیکھ کر حیران ہونے لگا۔ ’’بلے بلے۔۔۔‘‘ اس بورڈ کے ساتھ ایک چھوٹا سا تختہ تھا۔ اس پر موٹے موٹے حرو ف میں کچھ لکھا تھا۔ اس نے پیشانی سے ہاتھ ہٹاکر آنکھیں اور بھی زیادہ کھول لیں۔ دیر تک غور کرنے کے بعد وہ پڑھ سکا، ’’انڈین آرمڈ کور کو آپ جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔‘‘

    وہ اچھل پڑا۔ یہ انڈین آرمڈ کور نیا ہی نام ہے۔ ہربنس کور، پریم کور، جیت کور تو اس نے سن رکھے ہیں۔ لیکن انڈین آرمڈ کور بالکل نیا نام ہے۔ شاید کسی انگریز عورت کا نام ہو۔ ادھر ادھر کچھ لوگ گھوم رہے تھے۔ اس کے دل میں آئی کہ کسی سے اس عورت کی بابت دریافت کرے۔ لیکن کسی عورت کا معاملہ تھا۔ اس قسم کی بات بیباکی سے پوچھتے ہوئے اسے شرم سی محسوس ہوئی چنانچہ اس کے دل کی بات دل ہی میں رہ گئی۔ آخر اس نے اپنی چادر کو تہہ کر کے اسے سر کے نیچے رکھا اور لیٹ گیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ہوا میں ایک لطیف سی نمی تھی۔ اس پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔ لیٹے لیٹے وہ اینڈین آرمڈ کور کی بابت پھر سوچنے لگا۔ رفتہ رفتہ اسے کچھ سمجھ آنے لگی کہ اس عورت کی تصویر نصب کرنے کا کیا مقصد ہے؟

    اس نے سنا تھا کہ لاہور میں بری بڑی بدمعاشیاں ہوتی ہیں۔ لیکن کیا کوئی عورت اس قدر جرأت کر سکتی ہے کہ اپنی تصویر اس طرح سربازار کھڑی کر کے دوسرے تختے پر لکھوا دے کہ ’’انڈین آرمڈ کور‘‘ کو آپ جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔۔۔ اس نے پریوں کی کہانیوں میں ایک خوبصورت ملکہ کا قصہ سنا تھا۔ اس کی جوانی بس ایک قیامت تھی۔ جو بھی اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ لیتا، ہوش و حواس کھو بیٹھتا۔ وہ نت نئے نوجوانوں سے گٹھ جوڑ کرتی اور جب وہ بےکار ہو جاتے تو انہیں مگرمچھوں کے تالاب میں پھنکوا دیتی۔۔۔ مگر وہ تو کہانی تھی۔ لیکن یہ عورت۔۔۔؟ آخر اسے نوجوانوں کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اس کاچال چلن بھی خراب ہے۔ کیا یہ بھی نوجوانوں کو بےکار کر کے پرے پھینک دیتی ہوگی۔ کیا گورنمنٹ نے کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جو ایسی بدکار اور نوجوانوں کو برباد کر دینے والی عورت پر لاگو ہو سکے۔

    رفتہ رفتہ باغ میں آمدورفت بڑھنے لگی۔ کالی کالی مامائیں بچوں کی گاڑیاں دھکیلتی ہوئی آئیں۔ چند شوقین مزاج کالجیٹ چھوکرے انگریزی میں گٹ مٹ کرتے ہوئے ادھر ادھر مٹرگشت کرنے لگے۔ کئی بوڑھے کھوسٹ اپنی چکنی کھوپڑیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئےبنچوں پر آبیٹھے۔ قریب کے درخت سے­ ریڈیو کی آواز آنے لگی۔ اس نے پہلے بھی ریڈیو سنا تھا۔ لیکن باغ میں دفعتاً ریڈیو کی آواز سن کر وہ چونک پڑا۔ ادھر ا­­دھر کے لوگ بھی ریڈیو والے درخت کے قریب زمین پر بیٹھ گئے۔ اس نے اپنی ڈھیلی ڈھالی پگڑی کو درست کیا اور سنبھل بیٹھا۔ اتنے میں ریڈیو سے مرزا صاحباں کے بول سنائی دیے۔ اس کے دل پر سرور طاری ہو گیا۔۔۔ ایک چھابڑی والا ادھر آ نکلا۔ اس نے جیب ٹٹول کر دیکھی۔ ایک ٹکا بچ گیا تھا۔ اب یہی اس کی کائنات تھی۔ اس نے چھابڑی والے کو آواز دے کر دو پیسے کے کچالو لیے اور انہیں تنکے سے اڑس اڑس کر کھانے لگا۔

    کچالو کھانے کے بعد وہ اٹھا، نل سے پانی پیا اور مونچھیں پونچھتا ہوا ریڈیو والے درخت کی طرف بڑھا۔ وہاں ایک اور بڑا تختہ لگا ہوا تھا۔ جس پر نیچے اوپر تین آدمی بھاگے چلے جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے تین آدمی بندوقیں تھامے ان کا تعاقب کر رہے تھے۔ ہر جوڑے کے ساتھ حاشیے میں لکھا تھا،

    اٹلی میں دشمن کو بھگانے والا کون؟ پنجابی جوان!

    جرمنوں کو کون بھگا رہا ہے؟ پنجابی جوان!

    جاپانیوں کو کون بھگائے گا؟ پنجابی جوان!

    وہ غور سے ان تصویروں کو دیکھنے لگا۔ کیسی مضحکہ خیز صورتیں بنا رکھی ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بھاگنے اور بھگانے والے لکڑی کے بنے ہوئے ہوں۔ وہ دیر­ تک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بورڈ کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اس نے ایک لمبی جمائی لی اور زور سے کھانس کر بلغم اگلا اور آنکھیں جھپکتا ہوا ریڈیو کی طرف بڑھا۔ آواز درخت کی ٹہنیوں میں سے آ رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر رات کو درخت پر چڑھ کر ریڈیو اڑا لیا جائے تو کیسی رہے۔ وہ درخت کے تنے اور ٹہنیوں پر نظر دوڑا دوڑاکر اوپر چڑھنے کے امکانات پر غور کرنے لگا۔ جب اس نے ادھر ادھر گھوم کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ درخت پر سوائے بھونپو کے اور کچھ بھی نہیں۔ ایک بابو نے اسے بتایا کہ ریڈیو پرے سرکاری کمرے میں بند ہے۔ وہاں سے بجلی کا ایک تار درخت سے باندھ دیا گیا ہے اور تار کے آگے بھونپو لگایا گیا ہے۔

    رویل سنگھ مایوس ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ یہاں بھی چھوٹے چھوٹے بورڈ لگے ہوئے تھے۔ ایک پر لکھا تھا، ’’ہندوستان کو بچاؤ۔‘‘ اس نے اپنے کسے ہوئے جوڑے کو ڈھیلا کیا اور سوچنے لگا کہ ہندوستان کہاں ہے؟ وہ یوپی کے لوگوں کو ہندوستانی سمجھتا تھا اور بس اتنا جانتا تھا کہ پورب کی جانب کوئی دیس ہے جسے لوگ ہندوستان کہتے ہیں۔ وہاں کے لوگ دبلے پتلے ہوتے ہیں۔ ان کی زبان بھی خوب ’’چٹرپٹر‘‘ سی ہوتی ہے۔ پھر وہ دل ہی دل میں کہنے لگا، نامعلوم بچارے ہندوستان پر کیا آفت آن پڑی ہے؟ آہستہ آہستہ وہ پھر اپنی الجھنوں میں گم ہو گیا۔ اتنے میں کسی عورت نے ریڈیو پر پنجابی گیت گانا شروع کیا،

    دے پنجابی جواناں۔۔۔! دے ویرا تیتھوں

    جرمن جاپانی تھر تھر کمبدے

    وہ تنکے سے دانت کریدنے لگا۔ اب اسے سخت بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ آج وہ ذرا جلد ہی گوردوارے پہنچ جائےگا۔ ورنہ اگر کھانے کا وقت ختم ہو گیا تو اسے پھربھو کا رہنا پڑےگا۔ لاہور میں اس کا جی نہیں لگا۔ اسے اس بات کا دلی رنج تھا کہ اسے کوئی نوکری نہیں مل سکی۔۔۔ اس کے قریب بیٹھا ہوا لڑکا ایک دوسرا بورڈ پڑھنے لگا، ’’انڈیا کی جے۔‘‘

    ’’آ جاؤ نوجوان، دشمن بھاگ رہا ہے۔ یہی موقع ہے اس کا پیچھا کرنے کا۔‘‘

    ایک سپاہی لوہے کی ٹوپی پہنے اور دونوں ہاتھ اٹھائے للکار رہا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں بندوق تھی، دوسرا خالی تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے اور سپاہی بھی چلے آ رہے تھے۔ رویل سنگھ نے پھر ہاتھ پھیلائے اور منہ کھول کر ایک لمبی سی جمائی لی۔ اس کے منہ کے چوڑے دہانے میں موٹے سے موٹے دشمن کی کھوپڑی آ سکتی تھی اور اس کی فولادی انگلیاں تگڑے سے تگڑے دشمن کا ٹینٹوا دبا سکتی ہیں۔ لیکن دشمن تھا کدھر؟ اس کی بھوک تیز ہوتی جا رہی تھی۔ دماغ میں خیالات کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ لوگ شور مچا رہے تھے۔ ریڈیو گیت سنا رہا تھا۔ کتے بھونک رہے تھے۔۔۔ وہ چادر جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اب وہ زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ گورو کے لنگر میں وقت سے پہلے پہنچ جانا چاہتا تھا۔

    جب وہ باغ کے پھاٹک سے گزرنے لگا تو اس نےایک اور بڑا سا تختہ دیکھا۔ اس پر ایک فوجی سکھ کی تصویر بنی تھی۔ جس کے گالوں پر خوب چربی چڑھی ہوئی تھی۔ خوشنما داڑھی خوب کس کر بندھی ہوئی تھی اور سرپر گول سی دوہری پگڑی بندھی تھی۔۔۔ اس کے ایک ہاتھ کی تین انگلیاں اٹھی ہوئیں تھیں۔ دوسرے ہاتھ کی ایک انگلی سے وہ ان انگلیوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا،

    ۳ باتیں

    اچھی خوراک!

    اچھی تنخواہ!

    جلدی ترقی!

    اور نیچے لکھا ہوا تھا، ’’کھانا مفت ملتا ہے۔ وردی، بوٹ اور تنخواہ سب کچھ مفت ہی مفت۔ گھر جانے کے لیے چھٹیاں بھی پوری تنخواہ پر۔‘‘

    رویل سنگھ کچھ دیر تک اس تختے کی طرف گھومتا رہا۔ پھر اپنی لمبی زبان ہونٹوں اور باچھوں پر پھیری۔۔۔ اور پھر پتہ پوچھتا ہوا بھرتی کے دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے