تین چہرے۔۔۔ تین آوازیں
درد بے پناہ درد۔
دل میں اٹھتی ٹیسیں۔۔۔ دماغ میں چبھتی سوئیاں۔۔۔ جسم میں چبھتے کانٹے۔۔۔ قلب پر دہکتے داغ۔۔۔
یادیں۔۔۔ نصف صدی پر چھائی ہوئیں ان گنت یادیں۔۔۔ دلکش، شیریں، پرلطف۔۔۔ دل گداز، دل شکن، دل دوز یادیں۔۔۔ بیتی راتیں، بیتے دن، گزرے لمحات۔۔۔ ان گنت لمحات جن کی چھاپ دماغ پر اَن مٹ ہے۔ دوستوں عزیزوں، غم گساروں، غم دینے والوں کے ان گنت چہرے۔ ایک دوسرے میں مدغم۔ پیاروں کی پیاری صورتیں مسکراتی ہوئی۔ چہیتوں کا وجود غم کی امانت بن کر روح کی پنہائیوں میں سمایا ہوا۔۔۔
اس نے اپنے اردگرد نظرڈالی۔ سب کچھ وہی ہے۔ وہی کمرہ، وہی بستر، وہی گھر۔۔۔ اور گھر والے۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ ہر چیز خالی۔۔۔ ویران۔۔۔ جیسے اس کے اندر سے کچھ نکل گیا ہو۔ بے روح ڈھانچا رہ گیا ہو۔ ہر شے بے حقیقت، بے جان، بے معنی۔ حقیقت صرف ایک حقیقت ہے جس سے اس کا سمبندھ رہ گیا ہے۔ قطرہ قطرہ روح میں ٹپکتا ہوا یادوں کا سمندر۔۔۔ لامتناہی سمندر۔ اور ان یادوں کے زیر سایہ۔۔۔ تڑپتے دن۔۔۔ جاگتی راتیں۔۔۔ دکھتے اعضا۔۔۔ تپتا وجود۔۔۔ احساس کا کرب۔۔۔ زندگی کا درد۔
آہ میرے رب۔ ایک جانِ ناتواں اور اتنے دکھ۔۔۔ ایک نحیف جثہ اور اتنے بھاری بوجھ۔۔۔ ایک کمزور وجود اور یہ کوہ گراں۔۔۔ خدایا۔۔۔ خدایا۔
رات کے سناٹے میں بارہ کا گجراس کے دماغ پر موسل برسارہاتھا۔ تو یہ رات بھی اور راتوں کی طرح اسی عالم کرب میں گزرتی جائے گی۔۔۔ گزرتی جائے گی۔۔۔ اور زندگی۔۔۔ زندگی اس کے دامن سے چمٹی رہے گی۔
تنہائی کا یہ زہر وہ کب تک پیتی رہے گی؟
وہ جو کبھی تنہا نہ رہی۔۔۔ تنہائی میں بھی کیا کچھ ہوتا تھا اس کے پاس۔۔۔ وہ تو دنوں کو مصروف رکھنے، راتوں کو پرسکون بنانے کے لیے مشہور تھی۔ جس کو تکلیف میں راحت، دکھ میں سکھ بنانے کاگر آتا تھا۔ وہ اب سب کچھ بھول گئی تھی۔۔۔؟ وہ۔۔۔ جس نے زندہ رہنے کا گر جان دے دے کر سیکھا تھا۔ اپنایا تھا۔ دوسروں کو سکھایا تھا۔ وہ اب۔۔۔ اب۔۔۔ اس زندگی سے تھک چکی ہے۔ اس دنیا سے اوب چکی تھی۔ وہ زندہ کیوں ہے؟ اب زندہ رہنے کا جواز کیا ہے؟ ضرورت کیا ہے؟ فائدہ کیا ہے؟
جو کچھ کرنا تھا، جو ہونا تھا، جو سہنا تھا، جو کچھ دینا تھا، جو کچھ دنیا سے لینا تھا۔۔۔ وہ لیا جاچکا، دیا جاچکا، سہا جاچکا۔۔۔ اب کس لیے، کس کے لیے یہ جیون۔۔۔ جس کے لیے یہ روح اور جسم کا بندھن۔۔۔ کس کے لیے؟ دنیا کو اب اس کی ضرورت نہ تھی۔ طاقت۔۔۔ جواب دے چکی ہے۔ ہمت و حوصلہ ٹوٹ چکا ہے۔ دل۔۔۔ مگر اب دل کہاں ہے؟ اور یہ جسم کے اندر گوشت کا ناکارہ ٹکڑا۔ یہ بھی تو اب ساتھ نہیں دے رہا ہے۔
دماغ۔۔۔ آہ یہ وفا دار۔۔۔ مونس و غم خوار۔ یہ صدیوں کا پرانا دوست۔ یہ بھی تو تھک چکا ہے۔ یہ بھی تو اب ساتھ چھوڑ رہا ہے اس کا! ذہن پر پردے پڑتے جارہے ہیں۔
اور اس کا فن۔۔۔ زندگی کا سہارا۔۔۔ خودی کا پاسباں، دکھوں کا رفیق، خوشی کا شریک اس کے دل کی تڑپ، دماغ کی کسک، مسرت کی کھنک، حسرت کی للک کا امین و ترجمان۔۔۔ وہ بھی تو اس سے روٹھ گیا ہے۔ وہ جب اسے پکڑنا چاہتی ہے وہ اس کے ہاتھ سے پھسل کر دور جاکھڑا حسرت سے اس کی اور دیکھتا رہ جاتا ہے۔۔۔!
کیوں؟ کیوں؟ یہ سب کیوں؟
اس کا محب، محبوب، ساتھی، دوست کوئی نہیں۔ سب ساتھ چھوڑ چکے۔ وہ جن سے زندگی عبارت تھی۔ اب وہ ایک ناکارہ وجود تھا۔ بے مصرف، بے کار۔ اس کی ذات سے سب کو پریشانی ہے۔ تکلیف ہے۔ وہ دوسروں پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔ وہ جو زندگی بھر دوسروں کا بوجھ اٹھاتی رہی ہے۔ کہاں تک لوگ اس کی بیماریوں اور پریشانیوں میں سہارا دیں گے۔ کہاں تک کوئی کسی کا دکھ اور غم بٹاسکتا ہے؟
اس نے اردگرد نظرڈالی۔۔۔ پلنگ سے کچھ ہٹ کر زمین پر گدا ڈالے جمی اوندھی پڑی بے خبر سوگئی تھی۔ نوید۔۔۔ دوسرے کمرے کے دروازے کے برابر پلنگ پر سو رہا تھا۔ دونوں تھک گئے ہیں۔ ڈاکٹروں کے پاس دوڑتے، دوائیں لاتے، تیمارداری کرتے۔ ’’بے چارے۔‘‘ اس نے سرگھمایا۔ اسی طرف کوچ پر اس کی زندگی کے سورج کی آخری کرن، نیم دراز۔۔۔ خواب اور بیداری کے بیچ میں پڑی تھی۔ یہ سب تنکے کے سہارے ہیں۔ کون جانے کب یہ سہارے ٹوٹ جائیں۔ کب ساتھ چھوڑدیں۔
اللہ!یہ کیسے خیالات ہیں؟ وہ کیوں سب سے بدگمان ہوتی جارہی ہے۔ مگر یہ لنگر۔۔۔ یہ ڈوبتی کشتی کالنگر ہیں۔ اور لنگر ٹوٹ بھی تو جاتا ہے۔ کشتی کا ساتھ چھوڑ کر دوسری سمت بہہ جاتا ہے۔
اور پھر یہ انسانی لنگر۔۔۔ پاسنگ جیسے ہلکے!
ان کے اعصاب جواب دے سکتے ہیں۔ طاقت سلب ہوسکتی ہے۔ ہمت و حوصلہ ٹوٹ سکتا ہے۔ ذہن الٹ سکتا ہے۔ دماغ خراب ہوسکتا ہے۔ دل بیزار ہوجاتا ہے۔ جسم تھک جاتا ہے۔ محبت ختم ہوجاتی ہے۔
ہرشخص اپنی دنیا آپ بنانا چاہتا ہے۔ اسی کو انجوائے کرنا، اسی میں گم رہنا چاہتا ہے۔ اپنی شخصیت کو نکھارنا، اپنی صلاحیتوں کو ابھارنا چاہتا ہے۔ انسان خوش رہنے اور خوش رکھنے کے لیے بنا ہے۔ نہ کہ ناکارہ وجود کو سہارا دینے کے لیے۔ ان شکستہ تختوں، بوسیدہ پتواروں، پھٹے بادبانوں، طوفانوں کی زد میں آئی کشتی کو کون بچاسکتا ہے؟ کون بچائے گا؟ اور کیوں بچائے؟
ہاں مگر ایسی حالت میں۔۔۔ ایسی حالت میں سہارے ملتے تو ہیں۔ ہاں ملتے ہیں مگر کس کے؟
وہ جس نے جنم دیا۔۔۔ دکھ اٹھاکر پالا۔۔۔ یا وہ جس کو جنم دیا گیا اور کرب دکھ سہہ کر پروان چڑھایا۔۔۔ یا وہ جو زندگی کے ساتھی، محب اور محبوب جس پر دل و جان نچھاور کیا جاتا ہے۔ جو بڑھاپے، بیماری، مصیبت میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر طوفانوں کی زد میں سے نکل جاتے ہیں۔ وہ خوش نصیب انسان!
مگر۔۔۔ اس کو کون سہارا دے گا۔ وہ سب سہارے تو اس سے پہلے ہی چھینے جاچکے ہیں۔
مگر وہ۔۔۔ وہ اتنی نراش کیوں ہے۔ کیا وہ کسی کا سہارا نہیں بن سکتی؟ مگر رشتے ٹوٹ چکے، ہمت جواب دے چکی، صحت ساتھ چھوڑ چکی۔ سب کچھ گیا۔ اب صرف اسی کا آسرا ہے۔ اسی ابدی حقیقت کا جس کا سامنا ہر انسان کو کرنا پڑتا ہے۔ کتنی بڑی رحمت ہے یہ خدا کی۔۔۔ وہ نہ ہوتی۔ تو دنیا انسان کے لیے جہنم بن جاتی۔
دو بجنے کی آواز۔۔۔ یہ رات بھی بیت گئی اور نیند نہ آئی۔ اے کاش!اے کاش اسے نیند آجائے۔ ذرا دیر کو وہ سب دکھوں سے آزاد ہوجائے، سوجائے۔ کچھ اور سوچے۔ کچھ اور۔۔۔
موت کا ایک دن معین ہے۔۔۔ نیند کیوں۔۔۔ نیند کیوں رات بھر۔۔۔ زندگی نام ہے مر مرکے، مر مرکے جیے جانے کا۔ بے آسوں کی آس تو ہی ہے۔ تو ہی ہے۔ جاگتے سوتے پاس۔۔۔ انشا جی اٹھو اب کوچ کرو۔ اب کوچ کرو۔ حسبی اللہ نعم اللہ لا الہ اللہ۔ حسبی اللہ ونعم الوکیل۔۔۔ کس سے پیمان وفا۔۔۔ باندھ رہی ہے۔ بل۔ بل بل بل۔۔۔ اِلا بذکر اللہ تطمئنَّ القلوب۔ اطمینان قلب بذکراللہ۔ درد ایسا کہ ہر رگ میں ہے۔ رگ رگ میں ہے محشر برپا۔
سکون۔۔۔ مگر سکون۔۔۔ کہاں ہے سکون۔۔۔ دل ناداں۔۔۔ دل ناداں۔۔۔ آجاری نندیا۔۔۔ تو آکیوں نہ جا۔ وہ خدایا یہ زمین۔۔۔ تیری۔۔۔ نہیں۔۔۔ میری تو پھر کس کی ہے۔۔۔؟ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا۔۔۔ بندۂ مومن۔۔۔ آہ! کہاں ہے وہ بندۂ مومن۔۔۔ نیند اس کی ہے۔ اس کی ہے۔۔۔ کس کی ہے۔۔۔ کہاں ہے۔۔۔ بھیڑیں۔۔۔ گنتی۔ ایک دو، تین، چار، بیس، تیس۔۔۔ اِن اللہ مع الصابرین۔۔۔ اِن اللہ۔۔۔ سکون۔ ایسا کہ مرجانے کو۔۔۔ مرجانے کو۔۔۔ سوجانے کو۔۔۔ سناٹا سناٹا۔۔۔ بے کراں سناٹا۔۔۔
’’میری جان۔۔۔ لخت جگر، قرۃ العین۔۔۔ نورنظر۔۔۔ تجھے زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنا ہے۔۔۔‘‘ دھیمی، کمزور، نرم، بھولی بسری دور دور پچاس سال کے فاصلے سے آتی ہوئی۔۔۔ یہ کس کی آواز ہے۔۔۔ یہ کس کی آواز ہے۔۔۔ خدایا۔۔۔ یہ کس نے پکارا۔۔۔ یہ مجھے کس نے پکارا۔۔۔ خدایا۔۔۔ میرا دماغ۔۔۔ میرا دماغ۔۔۔
’’تجھے زندہ رہنا ہے۔‘‘
’’زندہ رہنا ہے؟ کیوں؟ کس کے لیے؟‘‘
’’دنیا کے لیے۔۔۔ تو دنیا سے کیوں توقعات کرتی ہے۔ خود دنیا کے لیے جی، دنیا کو کچھ دے۔۔۔ دنیا کو سنوار۔۔۔ دنیا۔۔۔ میں رہ کر۔۔۔ دنیا سے بیزار ہوکر۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ بیمار ذہنیت ہے۔ تجھے زندہ رہنا ہے۔ دنیا کے لیے۔۔۔ میرے لیے۔۔۔‘‘
’’تمہارے لیے۔۔۔ تمہارے لیے۔۔۔ مگر تم تو مجھ سے جدا ہوچکی ہو۔ بہت پہلے۔۔۔ ماں، ماں۔۔۔ مجھے اپنی آغوش میں چھپالو۔۔۔ تم کہاں ہو۔۔۔ کہاں ہو تم۔۔۔‘‘
’’میں تیرے پاس ہوں۔‘‘
’’مگر میں تمہیں دیکھ نہیں پارہی۔۔۔ تمہاری آواز۔۔۔ کتنی پرسکون۔۔۔ کتنی پیاری۔۔۔ کتنی دلکش ہے۔ سامنے آؤ۔۔۔ ماں۔۔۔ سامنے آؤ۔۔۔‘‘
’’میں تو تیرے پاس ہوں۔ پچاس سال سے تیرے ساتھ ہوں۔۔۔ ہر وقت ہرلمحہ میں نے تجھے طاقت دی ہے۔ مرمر کر جینا تو نے کس سے سیکھا ہے۔۔۔ تو نے میری قدروں کو، میرے جذبوں کو، میری آن کو، میرے ایمان کو کہاں سے اپنایا ہے۔ کہاں سے سیکھا ہے۔ میں تیری روح کی قوت، دل کا جذبہ۔۔۔ ایمان کی طاقت بن کر تیرے اندر بس رہی ہوں۔ میں تجھ سے جدا کب تھی۔۔۔ کب ہوں جدا؟
’’ماں۔۔۔ ماں۔۔۔ ماں۔‘‘
’’زندہ رہ۔۔۔ زندہ رہ۔۔۔ زندہ رکھ۔۔۔ زندہ رکھ۔‘‘
’’ماں۔۔۔ ماں۔۔۔ ماں۔‘‘
’’امی۔۔۔ امی۔۔۔ امی۔‘‘
یہ ننھی سی کوئل کی کوک۔۔۔ یہ کلی کے چٹکنے کا دھیما سا شور۔۔۔ یہ سبک روپتلی ندی کا مدھر انداز۔۔۔ یہ سریلی آواز کس کی ہے۔ کس کی ہے یہ آواز۔
’’امی امی امی۔‘‘
یہ کس نے آوازدی۔۔۔ یہ میری روح کے اندر چبھتا ہوا لفظ۔۔۔ یہ دل کے تار کو چھیڑتا ہوا دھیما ساز۔۔۔ یہ تو کبھی نہ سنا تھا۔۔۔ یہ کون ہے۔۔۔ تو کون ہے۔۔۔ ہے کون تو۔‘‘
’’امی۔۔۔ امی۔۔۔ امی یہ میں ہوں۔۔۔ میں۔‘‘
’’میں۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ میں۔۔۔ جس کا نام نہیں۔۔۔ جس کا کوئی وجود نہیں۔۔۔ جس کا تمہارے سوا کوئی نہیں۔۔۔ کوئی نہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں پہچان رہی ہوں تجھے۔۔۔ تو تو۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ امی!میں وہی ہوں جس کو تم نے اپنے سینے کی گہرائیوں میں پالا پوسا ہے۔ ہر وجود میں مجھے ڈھونڈا ہے۔۔۔ ہر چہرے میں مجھے پایا ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ میری جان۔۔۔ تو میرے پاس۔۔۔‘‘
’’امی۔۔۔ تجھے زندہ رہنا ہے۔ تو نے ہی تو مجھے شخصیت دی ہے۔ سیرت کا حسن بخشا ہے۔ مجھے نکھارا ہے۔۔۔ سنوارا ہے۔۔۔ تو چلی جائے گی تو۔۔۔ مجھے۔ مجھے۔ کون زندہ رکھے گا۔ کون یاد کرے گا امی! تیرے سوا مجھے کوئی نہیں جانتا۔ کوئی نہیں پہچانتا امی! کوئی نہیں چاہتا امی۔۔۔ میں تجھ میں زندہ ہوں۔۔۔ تجھ سے زندہ ہوں۔ میرے لیے۔۔۔ میرے لیے۔۔۔‘‘
’’تو کہاں ہے۔۔۔ کہاں ہے تو۔۔۔ کہاں چلی گئی۔۔۔ میری آنکھیں۔۔۔ میرا دل۔۔۔ آہ۔۔۔ تو پھر چلی گئی۔۔۔ پھول سے خوشبو، چاند سے روشنی چھن گئی۔۔۔ کہاں۔۔۔ کدھر۔۔۔ میری زندگی۔۔۔ میری دنیا۔۔۔ کدھر ہے تو۔۔۔‘‘
’’تم۔۔۔ تم اور بے آس۔۔۔ تم اور بیزار۔۔۔ تم اور مایوس۔۔۔ زندگی سے دنیا سے۔۔۔ لوگوں سے۔۔۔ کیوں آخر کیوں۔۔۔؟‘‘
’’آہ یہ کس کی آواز ہے؟ یہ پہاڑی چشمہ کی سی مضبوط، دل میں اترجانے والی۔۔۔ گہری پراعتماد آواز!‘‘
’’یہ تمہاری فطرت نہ تھی۔۔۔ تم میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہی ہو۔ تم نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے۔ مجھے حوصلہ دیا ہے۔ مگر آج یہ یاس یہ نامرادی۔۔۔ یہ قسمت سے گلہ شکوہ؟ کیوں۔ کیوں؟‘‘
’’آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ کہاں ہیں آپ۔۔۔ میرے پاس آئیے۔ میں یہ آواز اور قریب سے سن لوں۔۔۔ اور قریب۔۔۔ میں آپ کو چھولوں۔۔۔ آپ کہاں تھے۔ کہاں تھے آپ۔‘‘
’’وعدہ کرو۔۔۔ تمہیں زندہ رہنا ہے۔ کہو تم مجھے نراش نہ کرو گی۔۔۔ زندہ رہوگی۔۔۔‘‘
’’آپ سے دور رہ کر۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔‘‘
’’میں تم سے دور کب ہوں۔۔۔ تمہاری روح کی گہرائیوں میں ہوں۔ رگِ جاں سے قریب تر۔ تمہارے دل، دماغ، ذہن، یادوں میں سمویا ہوا!‘‘
’’کہو تم میرے بھروسے کو نہ توڑوگی۔ مجھے نراش نہ کروگی۔ زندہ رہو گی۔۔۔ دنیا کے لیے۔۔۔ میرے لیے۔۔۔ میرے پیاروں کے لیے۔۔۔ میرے کاموں کے لیے۔۔۔ میرے آدرشوں کے لیے۔۔۔ میں تم میں زندہ ہوں۔‘‘
’’میرے دوست۔۔۔ میرے محبوب۔۔۔ آپ۔۔۔ کہاں ہیں۔۔۔ کدھر ہیں۔ آپ کی آواز۔۔۔ آپ کی ذات۔۔۔ اسی کے لیے میری راتیں جاگتے۔۔۔ میرے دن ترستے بیت رہے ہیں۔ میرا دل زخمی، دماغ سن ہے۔ آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ سنیے۔۔۔ سنیے۔۔۔ تو۔۔۔ آپ کی آواز۔۔۔‘‘
تین چہرے۔۔۔ تین آوازیں۔۔۔ آوازیں۔۔۔ چہرے۔۔۔ چہرے۔۔۔ آوازیں۔۔۔
’’زندہ رہنا ہے۔ میرے لیے۔۔۔ میرے لیے۔۔۔ میرے لیے۔‘‘
یہ کمزور، زرد نحیف چہرہ۔۔۔!
یہ ننھی معصوم گلاب کی ادھ کھلی کلی۔۔۔!
یہ مردانہ مضبوط مسکراتا چہرہ۔۔۔!
یہ کمزور آواز۔۔۔ یہ ننھی چہکار۔۔۔ یہ حکم دیتی۔۔۔ التجا کرتی، محبت و اعتماد سے بھرپور للکار۔۔۔ تین چہرے۔۔۔ تین آوازیں۔۔۔ آوازیں۔۔۔ چہرے۔۔۔ آوازیں۔۔۔!
اخاہ۔۔۔ اللہ۔۔۔ اف خدایا۔
اس نے آنکھیں کھولیں۔۔۔!
ایک چہرہ اسی پر جھکا ہوا ہے۔ تین چہرے اس پر جھکے ہوئے ہیں۔ ایک آواز اسے پکار رہی ہے۔۔۔ تین آوازیں اس کے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ ہاں۔۔۔ کون۔۔۔ ہے۔۔۔ کون ہے۔۔۔ تو۔۔۔!
’’میں تیری ماں ہوں۔‘‘
’’میں تیرا بچہ ہوں۔‘‘
’’میں تیرا محبوب ہوں۔‘‘
ایک چہرہ اسی پر جھکا ہوا۔ مامتا کے نور سے دمکتا ہواچہرہ۔ دو آنکھیں۔ اس کی آنکھوں میں جھانک رہی ہیں۔ معصوم فرزندانہ محبت سے بھرپور نظریں۔
ایک چہرہ۔۔۔ پہاڑ کی سی مضبوطی کا حامل چہرہ۔ جس کے ہونٹوں پر ایک اداس مسکراہٹ۔۔۔ اس کے محبوب کی مخصوص مسکراہٹ۔
’’آپ کو زندہ رہنا ہے۔ میرے لیے۔۔۔‘‘ کوئی سرگوشی کر رہا ہے۔ اس کی بانہیں اٹھتی ہیں۔ اس چہرے کو۔۔۔ تینوں چہروں کو۔۔۔ جھکاکر اپنی چھاتی سے لپٹا لیتی ہیں۔ میں زندہ رہوں گی۔۔۔ تیرے لیے۔۔۔ تیرے لیے۔۔۔ تیرے لیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.