Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تین مائیں ایک بچہ

خواجہ احمد عباس

تین مائیں ایک بچہ

خواجہ احمد عباس

MORE BYخواجہ احمد عباس

    کہانی کی کہانی

    کہانی ایک ایسے بچے کی ہے جسے حال ہی میں بمبئی پولس نے برآمد کیا تھا۔ ٹی وی پر جب بچے کے بارے میں خبر چلی تو امیر گھرانوں کی عورتوں نے اس بچے پر اپنا حق جتایا۔ کورٹ میں جب وکیل نے ان سے بچے اور ان کی گزشتہ زندگی سے وابستہ سوال پوچھے تو کسی نے بھی صحیح جواب نہیں دیا۔ مقدمہ ختم ہونے ہی کو تھا کہ ایک بھکارن کورٹ میں حاضر ہوتی ہے اور بچے پر اپنا حق جتاتی ہے۔ وکیل اس سے بھی سوال کرتا ہے۔ جج عورتوں کے جواب سننے کے بعد یہ کہتے ہوئے فیصلہ بچے پر چھوڑ دیتا ہے کہ بچہ جس عورت کے پاس جائے گا وہی اس کی ماں ہوگی۔

    بچہ ایک تھا۔۔۔ چار پانچ برس کا ہوگا۔ خوبصورت تھا۔ بڑی بڑی آنکھیں۔ مگر ان آنکھوں میں دنیا بھر کا غم بھرا ہوا تھا۔ جیسے ایک بڑے گمبھیر فلاسفر کو پاکٹ سائز کا بنا دیا گیا ہو۔ جسم بھی لاغر تھا۔ جو تعجب کی بات نہیں تھی کیونکہ وہ بچپن ہی سے ایک بھکارن کے یہاں پلا تھا جو اسے نہ دودھ ہی دےسکتی تھی نہ انڈا۔ نہ کوئی وٹامن، نہ پروٹین۔ نہ مچھلی، نہ چکن۔

    بچہ کا مقدمہ سارے ملک میں مشہور تھا۔ ٹیلی ویژن پر جن بھکاری اور لاوارث بچوں کی تصویریں آتی تھیں، ان میں یہ بچہ بھی تھا۔ سارے ملک میں ایک ہمدردی اور شفقت کی لہر دوڑ گئی تھی۔ جب بچے نے اپنی توتلی زبان سے کہا تھا: ’’میری ماں بھگوان کے پاس چلی گئی ہے۔‘‘

    ان ٹیلی ویژن دیکھنے والوں میں دو خوشحال، بڑے خاندانوں کی عورتیں بھی تھیں۔ بچے کو دیکھتے ہی ان کی ما متا ابل پڑی۔ ایک بمبمئی میں تھی۔ ایک دہلی میں۔ لیکن دونوں نے فوراً کہا: ’’یہ تو میرا بچہ ہے۔‘‘ اگرچہ ایک نے کہا: ’’یہ تو میرا بچہ گوپال ہے۔‘‘ اور دوسری نے کہا: ’’یہ تو میرا بچہ حامد ہے۔‘‘

    جو بمبئی میں تھیں، وہ مسز لکشمی جے سوریہ تھیں۔ جو اصل میں وژیاگ پٹنم کی رہنے والی تھیں، مگر اب چند سال سے بمبئی میں مقیم تھیں کیونکہ ان کے شوہر مسٹر جے سوریہ ایک پانی کے جہاز بنانے والی کمپنی میں انجینئر تھے۔ پہلے وہ دوہزار ماہوار پر گورنمنٹ کے ملازم تھے اور وژیاگ پٹنم کے شپ یارڈ میں کام کرتے تھے۔ وہاں سے ایک پرائیویٹ فرم کو لاکھوں کا فائدہ پہنچانے کے الزام میں Suspend کے گئے اور اسی پرائیویٹ فرم نے ان کو بڑی تنخواہ پر ملازم رکھ لیا۔ ایک بڑی امپورٹیڈ کار اور سمندر کے کنارے سجا سجایا فلیٹ مفت۔ اب وہ پہلے سے زیادہ ٹھاٹ باٹ سے رہنے لگے تھے۔ گھر میں ہر قسم کا اعلا سامان تھا۔ جاپانی گڑیاں اپنے شیشے کے گھروں میں سے اپنی مردہ نیلی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں۔ پلاسٹک کے پھول گلدانوں میں سجے تھے جن میں سے نہ بو آتی تھی نہ باس۔ نہ ہی پانی دینے کی ضرورت تھی۔ لیکن دیکھنے میں بالکل اصل لگتے تھے۔ لیکن جب کبھی گھر میں پارٹی ہوتی تھی تو مسز لکشمی جے سوریہ ان کے پتوں پر پانی چھڑک دیتی تھیں اور پھولوں پر سینٹ کی پچکاری سے سینٹ چھڑک دیتی تھیں۔ گھر میں بس ایک ہی چیز کی کمی تھی۔ وہ ایک بچہ تھا۔

    سو لکشمی جے سوریہ نے جیسے ہی بڑی بڑی افسردہ آنکھوں والے بھکاری بچے کو دیکھا اور ان کو یقین ہوگیا کہ یہ ان کا ہی کھویا ہوا گوپال ہے، وہ بچے پر اپنا حق ثابت کرنے کے لیے اپنے شوہر کے تمام رسوخ استعمال کرنے کے لیے تیار ہو گئیں۔

    ادھر دہلی میں ان کی ہی عمر کی بیگم شہناز مغل مرزا نے جب بچے کو دیکھا، جن کے شوہر کی ساری جائیداد دلی اور نئی دہلی میں بکھری پڑی ہوئی تھی کیونکہ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ شاہی خاندان سے ہیں۔ اصل میں وہ شاہی خاندان سے تو نہیں تھے لیکن ان کے پکڑ دادا وکڑ داد بادشاہ سلامت کے حقہ بردار ضرور تھے جو اپنے حقے کی آواز کی مناسبت سے گڑگڑ بیگ کہلاتے تھے اور اس لیے محل کے ماحول سے اور محل کی زبان سے اچھی طرح واقف تھے۔ غدر کے بعد جب بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلاوطن کیا گیا تو ان کے حقہ بردار نے کھلم کھلا انگریزوں کا ساتھ دیا اور بادشاہ کے بہت سے راز اور بہت سے خزانے انگریزوں کے سامنے ظاہر کر دیے۔ جس کے انعام میں انگریزوں نے بہت سی شاہی جایداد ان کے نام کر دی اور اعلان کر دیا کہ شہزادہ (’’گڑ گڑ بیگ‘‘ سے حقے کی بو آتی تھی اس لیے انھیں ’’گل گل بیگ‘‘ بنا دیا گیا تھا) گل گل بیگ ان اصل شہزادوں میں سے ایک ہیں جو آخر وقت تک برٹش گورنمنٹ کے وفادار رہے۔ غرض اب کہ صاحب جایداد ہو گئے تھے، انھوں نے اور ان کے بیٹوں پوتوں نے اس جایداد کو سوا سو برس میں کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ (ہر ایک حویلی گلی قاسم جان میں، ایک حویلی بلیماران میں۔ ایک باغ سبزی منڈی میں، جو اب مغل باغ کہلاتا تھا۔)

    نئی دہلی بننے کا اعلان ہوتے ہی انگریز افسروں کے اشارے پر انھوں نے زمین کے بہت سے ٹکڑے خرید لیے۔ اب وہاں اونچی اونچی بلڈ نگیں بن گئیں تھیں۔ ’’مرزا ٹیرس‘‘، ’’مغل پیلیس ہوٹل‘‘ اور ’’حویلی اپارٹمنٹس‘‘، چند عمارتیں تھیں جو یا تو مرزا مغل بیگ کی اپنی تھیں یا جن میں ان کا بڑا حصہ تھا۔

    ان کا اپنا گھر ’’گل گل محل‘‘ (جو انھوں نے اپنے جدامجد کے نام پر رکھا تھا) ایک فرانسیسی آر کی ٹیکٹ نے مغل اسٹائل میں تعمیر کیا تھا۔ اس لیے اس میں مغل نفاست اور نزاکت کے ساتھ یوروپین Functionalism کا امتزاج تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دیکھنے میں مغل پیلس لگتا تھا لیکن اندر اسٹین لیس اسٹیل اور شیشے سے کام لے کر بیڈروم، ڈرائنگ روم، ڈائننگ روم، باتھ روم وغیرہ بنائے گئے تھے۔ اس گھر میں بھی بس ایک ہی کمی تھی۔ مرزا مغل بیگ کا کوئی جانشین نہیں تھا۔ ایک بچہ تھا جو گورنیس کی غفلت سے یا اس کے مجرمانہ تغافل سے چھ مہینے کی عمر میں ہی کھو گیا تھا۔ مغل بیگ نے تقریباً ایک لاکھ روپے تو بچے کو ڈھونڈنے میں ہی لگا دیے تھے لیکن وہ نہ ملا تھا۔ یہاں تک کہ پانچ سال بعد جب ایک دن وہ جم خانہ کلب میں رمی کھیل رہے تھے اور بیگم صاحبہ گھر میں ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھیں، ان کے گھر سے ٹیلی فون آیا۔

    ’’کون شہناز! بھئی کتنی بار کہا ہے کہ جب ہم گیم کھیل رہے ہوں تو ٹیلی فون نہ کیا کرو۔ یہاں ہزاروں کی بازی لگی ہوئی ہے۔‘‘

    مگر شہناز بیگم کا جواب پاکر وہ اچمبھے میں رہ گئے۔ ’’بھاڑ میں جائے تمہاری ہزاروں کی بازی۔ ہمارا شہزادہ مل گیا ہے۔‘‘

    ’’ہمارا شہزادہ مل گیا ہے؟ کہاں ملا؟‘‘

    ’’بمبئی میں ہے۔ وہاں ہمیں جانا پڑے گا اسے لانے کے لیے۔ پولس کمشنر کے نام ایک لیٹر آف انٹروڈکشن لے لینا۔‘‘

    اگلے دن سویرے ہی وہ ہوائی جہاز سے بمبئی پہنچ گئے۔

    یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ایک اور ماں نے دعوا کیا ہے کہ بچہ اس کا ہے۔ وہ لوگ بھی بڑے ذی اثر معلوم ہوتے ہیں۔ کسی شپنگ کمپنی میں انجینئر ہیں۔

    معاملہ کورٹ میں پہنچا۔

    مسز لکشمی جے سوریہ کو بلایا گیا۔

    ’’آپ کا نام؟‘‘ سرکاری وکیل نے پوچھا۔

    ’’مسز لکشمی جے سوریہ۔‘‘

    ’’آپ کا دھرم؟‘‘

    ’’ہندو۔ برہمن۔‘‘

    ’’معاف کیجےگا۔ آپ شادی شدہ ہیں؟‘‘

    ’’جی کیا مطلب! میرے شوہر مسٹر جے سوریہ ہیں۔ شیپنگ انجینئر۔‘‘

    ’’صرف جو بات پوچھی جائے، اس کا جواب دیجیے۔ کتنے سال ہوئے ہیں آپ کی شادی کو؟‘‘

    ’’جی چار برس۔ نہیں نہیں۔۔۔. پانچ برس۔‘‘

    ’’ٹھیک ٹھیک بتائیے۔‘‘

    ’’ٹھیک یاد نہیں۔ کوئی چار پانچ برس ہوئے ہوں گے۔‘‘

    ’’اپنی شادی کی تاریخ آپ کو یاد نہیں؟‘‘

    ’’جی تاریخ تو یاد ہے۔ اونم کے دن ہماری شادی ہوئی تھی، میناکشی مندر میں۔‘‘

    ’’میں صرف تاریخ اور سنہ پوچھ رہا ہوں۔ کہاں ہوئی تھی، یہ میں نے ابھی نہیں پوچھا ہے۔۔۔ کس سنہ میں آپ کی شادی ہوئی تھی، وہ آپ کو یاد نہیں؟‘‘

    ’’ہاں سنہ یاد نہیں ہے۔‘‘

    ’’اگر 76ء میں آپ کی شادی ہوئی تھی تو کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ شادی سے پہلے ہی آپ ماں بن چکی تھیں۔‘‘

    ’’ہاں اگر 75ء میں ہوئی ہے تو ٹھیک ہے۔ مگر آپ کو تو یاد نہیں۔ کیا میناکشی مندر میں کوئی رکارڈ رہتا ہے شادیوں کا؟‘‘

    ’’جی نہیں۔ میرے خیال میں تو رکارڈ نہیں رہتا۔‘‘

    ’’کیا اسی لیے آپ نے میناکشی مندر چنا تھا اپنی شادی کے لیے ۔ میناکشی مندر ہے کہاں؟‘‘

    ’’مدورا۔‘‘

    ’’اتنی دور آپ گئیں جب کہ اتنا بڑا مندر خود وژیاگ پٹنم میں موجود ہے؟ خیر یہ کیسے ہوا کہ چھ مہینے بعد ہی آپ کا بچہ کھو گیا۔‘‘

    ’’جی وہ گورنیس لے کر بھاگ گئی تھی۔ مجھے یاد ہے اچھی طرح سے۔ نیو ایر ڈانس ہو رہا تھا اس رات کو؟ جب ہم آئے تو وہ بچے سمیت غائب تھی۔‘‘

    ’’آپ نے پولیس میں رپورٹ کی تھی۔ وہ تو ریکارڈ میں ہونی چاہیے۔‘‘

    ’’جی نہیں۔ رپورٹ شاید نہیں کی تھی؟‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’اس لیے کہ اس میں بدنامی ہوتی۔‘‘

    ’’بدنامی کیوں ہوتی؟‘‘

    ’’کیونکہ بچہ ذرا جلدی ہو گیا تھا۔ Premature Birth کہتے تھے ڈاکٹر صاحب۔‘‘

    ’’کون سے ڈاکٹر صاحب؟‘‘

    ’’ڈاکٹر ۔۔۔ نام تو یاد نہیں۔‘‘

    ’’شادی کی تاریخ آپ کو یاد نہیں۔ ڈاکٹر کا نام آپ کو یاد نہیں۔۔۔ دودھ کتنے دن پلایا تھا آپ نے؟‘‘

    ’’دودھ تو آج کل کوئی نہیں پلاتا۔‘‘

    ’’یقین ہے آپ کو؟ اگر میں لاکھوں عورتوں کو یہاں بلاکر یہی سوال پوچھوں کہ انھوں نے اپنے بچے کو دودھ پلایا کہ نہیں؟‘‘

    ’’وہ معمولی عورتیں ہوں گی۔ میرا مطلب تھا کہ سوسائٹی لیڈیز میں کوئی دودھ نہیں پلاتی۔‘‘

    ’’سوسائٹی لیڈیز سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘

    ’’لیڈیز جو ہائی سوسائٹی کو Belong کرتی ہیں۔‘‘

    ’’ہائی سوسائٹی کا مطلب؟‘‘

    ’’جو لوگ امیر ہیں۔ خوش حال ہیں۔ جن کے شوہر بڑی پوزیشن رکھتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا تو آپ کے شوہر کو بلانا پڑےگا۔‘‘

    مسٹر جے سوریہ کو گواہوں کے کٹہرے میں پیش کیا گیا۔

    ’’آپ کا نام؟‘‘

    ’’رماکانت جے سوریہ۔‘‘

    ’’کتنے عرصے سے آپ گولڈن شپنگ کمپنی میں ہیں؟‘‘

    ’’کوئی تین برس سے۔‘‘

    ’’اس سے پہلے کہاں تھے؟‘‘

    ’’وژیاگ پٹنم شپنگ یارڈ میں انجینئر تھا۔‘‘

    ’’کیا تنخواہ ملتی تھی؟‘‘

    ’’وہاں دو ہزار ماہوار۔‘‘

    ’’یعنی اب زیادہ ملتی ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’کتنی ملتی ہے؟‘‘

    ’’چار ہزار روپے ماہوار۔ فلیٹ اور فری کار علاحدہ ہیں۔‘‘

    ’’یعنی چھ ہزار کے قریب ہوں گے۔‘‘۔۔۔ ’’جی ہاں۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مگر انکم ٹیکس میں چار ہزار پر ہی دیتاہوں۔‘‘

    ’’وژیاگ پٹنم آپ نے کیوں چھوڑا؟‘‘

    ’’بمبئی سے بہتر آفر آ گئی۔‘‘

    ’’کوئی اور وجہ نہیں تھی؟‘‘

    ’’جی۔ ایک انکوائری ہوئی تھی۔ اس میں کچھ غلط فہمیاں تھیں۔‘‘

    ’’ان کی بنا پر آپ کو Suspend کیا گیا؟‘‘

    ’’ہاں۔ آپ کہہ سکتے ہیں۔ دراصل میں خود بھی Resign کرنے کی سوچ رہا تھا۔‘‘

    ’’مگر پھر بھی آپ کو Suspend کیا گیا؟ سچ سچ بتائیے۔‘‘

    ’’جی۔۔۔ہاں۔‘‘

    ’’کس کمپنی کانام لیا گیا تھا اس انکوائری میں جس کی بناپر آپ کو معطل کیا گیا؟‘‘

    ’’یاد نہیں۔ میں نے کہا نہیں کہ وہ غلط فہمیوں کی بنا پر تھا۔‘‘

    ’’میں یاد دلاتا ہوں آپ کو۔ کیا گولڈن شپنگ کمپنی کا نام لیا گیا تھا اس انکوائری میں۔‘‘

    ’’جی شاید۔‘‘

    ’’شاید نہیں۔ ٹھیک ٹھیک بتائیے۔ ورنہ مجھے کورٹ سے کہہ کر گورنمنٹ کا ریکارڈ منگوانا پڑےگا۔ یا میناکشی ٹیمپل کی طرح وہاں بھی رکارڈ نہیں رکھے جاتے۔ کہیے گولڈن شپنگ کمپنی ہی تھی یا نہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں شاید گولڈن شپنگ کمپنی ہی تھی؟‘‘

    ’’شاید نہیں۔ یقیناً۔‘‘

    مجسٹریٹ نے وکیل سے پوچھا: ’’آپ اِن سوالوں سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟‘‘

    ’’جناب والا۔ میں مسٹر جے سوریہ کا کیریکٹر دکھانا چاہتا ہوں کہ یہ ماں باپ بننے کے قابل ہیں کہ نہیں۔ بس ایک سوال اور ہے۔ مسٹر جے سوریہ آپ نے اپنی گورنیس کے خلاف پولیس میں رپورٹ کیوں نہیں درج کرائی؟‘‘

    مسٹر جے سوریہ اس سوال کے لیے تیار نہیں تھے۔ بوکھلا گئے۔ ’’جی وہ بات یہ تھی کہ۔۔۔ ‘‘ پھر رک گئے۔

    ’’ہاں ہاں۔ بات کیا تھی؟‘‘

    ’’میں اس کو Provoke نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘‘

    ’’یعنی وہ ایسی باتیں جانتی تھی جو آپ کے کیریر کو تباہ کر سکتی تھیں۔‘‘

    ’’جی ہاں۔ یہی سمجھیے۔‘‘

    ’’کیا آپ کے اس گورنیس سے کچھ خاص قسم کے تعلقات تھے؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ٹھیک بتائیے۔ ورنہ آپ کو Contempt of Court میں بھی دھرا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’جی ہاں۔ یہی سمجھیے۔‘‘

    کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ آپ کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ اگر آپ پولیس میں رپورٹ کرتے تو وہ بات باہر جاتی۔‘‘

    مسٹر جے سوریہ کا رنگ اڑ گیا۔

    ’’جی ہاں۔ یہی سمجھیے۔‘‘

    ’’مطلب یہ کہ آپ نے اپنے بچے کو قربان کر دیا اپنے کیریر کی خاطر۔ اس وقت آپ کا خیال ہوگا کہ دوسرا بچہ ہو جائےگا، مگر آپ کے کوئی دوسری اولاد نہیں ہوئی۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’یہ آپ کو قدرت کی طرف سے سزا ملی۔ بس مجھے اور کچھ نہیں پوچھنا۔ آپ جا سکتے ہیں۔‘‘

    اب نواب مغل مرزا اور ان کی بیگم کی باری تھی۔

    پہلے بیگم صاحبہ عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔

    ’’آپ کا نام؟‘‘

    ’’مسز مہ ناز بیگم مغل مرزا۔‘‘

    ’’عمر کیا ہے؟‘‘

    ’’عورتوں کی عمر نہیں پوچھا کرتے۔ یہ بیڈ مینرز کہلاتا ہے۔‘‘

    ’’بیگم صاحبہ یہ عدالت ہے۔ یہاں آپ کی سوسائٹی کے مینرز نہیں چلتے۔ ٹھیک ٹھیک بتائیے۔ کیا عمر ہے؟‘‘

    ’’کوئی پینتیس چھتیس کی ہوگی۔‘‘

    ’’اگر میں کہوں کہ آپ کی عمر پینتالیس سال کی ہے تو آپ کیا کہیں گی؟‘‘

    ’’یہی کہوں گی کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں چالیس سے ایک برس بھی زیادہ نہیں ہوں۔‘‘

    ’’تھینک یو۔ میں بھی یہی جاننا چاہتا تھا۔۔۔ آپ کی شادی مرزا صاحب سے کس عمر میں ہوئی؟‘‘

    ’’جب میں تیس برس کی تھی۔‘‘

    ’’اور آپ کے شوہر۔ وہ کتنےسال کے تھے؟‘‘

    ’’وہ کوئی باون برس کے ہوں گے۔‘‘

    ’’یہ آپ کی پہلی شادی تھی؟‘‘

    ’’جی۔۔۔ نہیں‘‘۔ بیگم صاحبہ نے دھیمے سے کہا۔ ’’یہ میری دوسری شادی تھی۔‘‘

    ’’آپ کوئی بچہ بھی ساتھ لائی تھیں؟‘‘

    ’’جی ہاں ایک لڑکا۔‘‘

    ’’کیا عمر ہے اس کی اب؟‘‘

    ’’ماشاء اللہ اٹھارویں برس میں ہے۔‘‘

    ’’وہ کیا کرتا ہے؟‘‘

    ’’اپنے ابا کا ہاتھ بٹاتا ہے، ان کے بزنس میں۔‘‘

    ’’تنخواہ کیا ملتی ہے؟‘‘

    ’’تنخواہ کیوں ملتی؟ برابر کا پارٹنر ہے اپنے باپ کا۔‘‘

    ’’مگر مرزا صاحب اس کے باپ تو نہیں ہیں؟‘‘

    ’’اب تو وہی ہیں۔ اور کسی باپ کو وہ جانتا ہی نہیں۔‘‘

    ’’آپ کے پہلے شوہر کیا کرتے تھے؟‘‘

    ’’اس سے آپ کو کیا لینا ہے؟‘‘

    مجسٹریٹ نے بیگم صاحبہ کو تنبیہ کی کہ وکیل صاحب کے سوالوں کے صاف صاف جواب دیں۔

    ’’ان کی ہوٹل کی بزنس تھی۔‘‘

    ’’ہوٹل کی بزنس۔ کیا نام تھا ان کے ہوٹل کا؟‘‘

    ’’ان کے ہوٹل کا۔۔۔ ان کے ہوٹل کا نام۔۔۔ دراصل وہ ان کا ہوٹل نہیں تھا۔ وہ پارٹنر شپ میں چلاتے تھے۔‘‘

    ’’ان کا پارٹنر کون تھا؟‘‘

    ’’ان کے پارٹنر تھے۔۔۔ مرزا مغل بیگ۔‘‘

    ’’یعنی آپ کے موجودہ شوہر؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’تو شاید آپ کی ملاقات مرزا صاحب سے پہلے سے ہوگی؟‘‘

    ’’ہاں۔ ہوٹل میں تو آتے جاتے ملاقات ہوہی جاتی تھی۔‘‘

    ’’اگر میں کہوں کہ آپ کے پہلے شوہر آپ کے موجودہ شوہر کے پارٹنر نہیں تھے، بلکہ ملازم تھے تو کیا یہ غلط ہوگا؟‘‘

    بیگم صاحبہ کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بولیں: ’’جی ہاں۔ آپ ایسا بھی کہہ سکتے ہیں۔ دراصل وہ ایک قسم کے مینجر تھے۔‘‘

    ’’اچھی طرح سے یاد کیجیے۔۔۔ منیجر تھے یا نان بائی تھے؟‘‘

    ’’تو کیا ہوا؟ مسلمانوں میں ذات پات نہیں چلتی۔ ان کے ہاتھ میں ہنر تھا۔‘‘

    ’’وہ تو ظاہر ہے۔‘‘ ننھے میاں کی نان‘‘ کی شہرت تو بمبئی تک پہنچ چکی تھی۔ جب ان کے انتقال کی خبر پڑھی تو ہم کو بھی افسوس ہوا تھا۔ یہ حادثہ کیسے ہوا؟‘‘

    ’’اللہ کی مرضی۔ نان نکال رہے تھے ایک دن، تندور میں جاگرے۔‘‘

    ’’اس روز پہلی رپورٹ جو پولیس میں دی گئی تھی، اس میں تو لکھا ہے کہ کسی نے انھیں پیچھے سے دھکا دیا تھا۔‘‘

    بیگم صاحبہ اپنے سابق شوہر کی موت کے ذکر کو برداشت نہ کر سکیں۔ آبدیدہ ہو گئی اور عطر حنا سے معطر ایک فرانسیسی لیس کا رومال نکال کر آنسو پوچھنے پڑے۔

    ’’معاف کیجیے۔ بیگم صاحبہ کبھی کبھی عدالت میں بڑے تکلیف دہ سوال کرنے پڑتے ہیں۔۔۔ مگر دہلی کی عدالت میں یہ معاملہ کافی دنوں تک کھنچا تھا۔ مرزا صاحب کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔‘‘

    ’’جی ہاں۔ مالک کی حیثیت سے گواہی دینی پڑی تھی انھیں۔‘‘ وکیل نے ذرا سخت لہجہ اختیار کیا۔ ’’گواہ کی حیثیت سےنہیں ملزم کی حیثیت سے۔‘‘

    اس کی نگاہ اب نواب مرزا پر گئی جو گھبراکر اپنی کرسی سے اٹھ رہے تھے۔ ’’نواب صاحب تشریف رکھیے۔ ابھی آپ سےبھی چند سوال کرنے ہیں۔‘‘

    مرزا صاحب نے بھی اپنی جیب سے ایک سفید رومال نکالا اور اپنی پیشانی کا پسینہ پوچھنے لگے۔

    اب نواب مرزا مغل کو گواہوں کے کٹہرے میں پیش کیا گیا۔

    ’’آپ کا نام؟‘‘

    ’’آپ جیسے نہیں جانتے؟‘‘

    ’’پھر بھی آپ کی زبان سے آپ کا نام جاننا چاہتا ہوں؟‘‘

    ’’نواب مغل مرزا دہلوی۔‘‘

    ’’یہ مغل مرزا عجیب نام معلوم ہوتا ہے؟‘‘

    ’’ممکن ہے آپ کو عجیب نام معلوم ہوتا ہو۔ آپ کتنے اور مرزاؤں کو جانتے ہیں؟‘‘

    ’’میں تو ایک ہی مرزا کو جانتا ہوں۔ مرزا اسداللہ خاں غالب۔ ان کو تو آپ بھی جانتے ہوں گے؟‘‘

    ’’غالب کو کون نہیں جانتا؟‘‘

    ’’اس لیے کہ غالب شاعر تھے۔ کوئی حقہ بردار نہیں تھے۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’آپ کے جد امجد کا نام کیا تھا جو بادشاہ کے رنگون جلاوطن ہونے کے بعد دہلی میں ترقی کی منزلیں طے کر رہے تھے؟‘‘

    ’’مرزا گل گل بیگ۔‘‘

    ’’کہ ایک گل تو ہم سمجھے۔ گل کے معنی گلاب کے پھول کے بھی تو ہوتے ہیں اور وہ گل بھی ہوتا ہے جو حقہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

    ’’حقہ سے اس کیس کا کیا تعلق ہے؟‘‘

    ’’حقہ سے ایسا ہی تعلق ہے جیسا کہ تندور سے ہے۔ جہاں روٹیاں اور نان سینکی جاتی ہیں اور جس میں کسی وقت انسان کو پھینک دیا جائے تو منٹوں میں اس کا بھی کباب بن جاتا ہے۔‘‘

    نواب صاحب دہلی میں بڑی اونچی سوسائٹی میں گھومتے تھے۔ عہدیداروں کے ساتھ تاش کھیلتے تھے۔ اسی رُعب کو اس وقت استعمال کرکے انھوں نے مجسٹریٹ سے کہا: ’’یور آنر، اپنے وکیل کو سمجھائیے۔ سنبھل کے سوال جواب کرے ورنہ۔۔۔‘‘

    ’’ورنہ کیا ہوگا؟‘‘ وکیل نے جلدی سے کہا، ’’اس کا بھی کباب بنادیا جائےگا۔‘‘ اور پھر اس نے مجسٹریٹ سے کہا: ’’یور آنر۔ میں جو الفاظ استعمال کر رہا ہوں یہ دہیی کی پہلی عدالت کی رپورٹ میں موجود ہیں، اگرچہ سیشن کورٹ نے مرزا صاحب کو Benefit of Doubt دیتے ہوئے رہا کر دیا۔ صرف Benefit of Doubt۔ مگر Doubt تو رہا اور رہےگا۔‘‘ یہ سب سن کر نواب صاحب دھیمے پڑے۔

    وکیل نے اب ترپ کا اکہ نکالا۔ ’’آپ کے نان بائی کا حادثہ کس سال میں ہوا تھا؟‘‘

    ’’سنہ چھیتر میں۔‘‘

    ’’شاید اپریل کا مہینہ تھا؟‘‘

    ’’شاید‘‘ نواب صاحب نے اقرار کیا۔

    ’’اور پہلی مئی کو آپ کی شادی خانہ آبادی مرحوم نان بائی کی خوبصورت بیوہ سے ہو گئی اور صرف پانچ مہینے بعد ان کی گود میں ایک بچہ کھیلنے لگا۔‘‘

    ’’اس سے کیا ہوتا ہے۔ وہ پہلے بھی شادی شدہ تھی۔‘‘

    ’’مگر دہلی کی عدالت میں یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ قتل، سوری موت سے چھ مہینے پہلے سے شہناز بیگم کے تعلقات اپنے شوہر کے ساتھ منقطع ہو چکے تھے۔‘‘

    نواب صاحب کو پسینہ آ رہا تھا۔ وہ اپنی جیب سے رومال نکال کر پیشانی پوچھنے لگے۔

    ’’معاف کیجیے نواب صاحب کہ مجھے بعض ذاتی سوال بھی پوچھنے پڑے۔ اب آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔۔۔ اب میں بیگم صاحبہ کو پھر تکلیف دوں گا۔‘‘

    بیگم صاحبہ پھر گواہوں کے کٹہرے میں پیش ہوئیں۔

    ’’بیگم صاحبہ۔ آپ کا کہنا ہے کہ یہ بچہ آپ کا کھویا ہوا بیٹا ہے۔‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔ مگر۔۔۔ ‘‘

    ’’کچھ شک ہے آپ کو؟ آپ کا بچہ کیسے اور کب کھویا گیا تھا؟‘‘

    ’’کوئی آٹھ مہینے کا ہوگا اس وقت وہ۔ یہ نومبر 76ء کی بات ہے۔ اس کی گورنیس مس ولیم حسب معمول اس کو پرام میں بیٹھاکر پارک میں لے گئی تھی۔ وہاں پارک کی ایک بینچ پر وہ بیٹھ گئی اور پرام اپنے قریب کر لیا۔ وہاں ان کی آنکھ لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو پرام خالی تھا۔ بچہ اس میں نہیں تھا۔۔۔ جب مجھے پتا چلا تو میں نے پولیس کو فون کیا۔ نواب صاحب کو کلب میں فون کیا۔ وہ پولیس افسروں کو ساتھ لے کر آئے، انھوں نے مجھ سے اور نواب صاحب سے پوچھا کہ آپ کو کس پر شبہ ہے؟ ہم نے کہا کہ بچہ کڈنیپ تو کیا جا سکتا ہے مگر یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔ خدا نے کھیلنے کے لیے ایک کھلونا دیا تھا، شاید اب واپس لے لیا۔‘‘

    ’’کتنے عرصے کھیلی تھیں اس کھلونے سے آپ؟‘‘

    ’’کوئی وقت مقرر تھوڑا ہی تھا۔ جب وقت ملتا تھا میں نرسری میں ہو آتی تھی۔ تو بچے کا زیادہ تر وقت مس ولیم کے پاس ہی گزرتا تھا۔‘‘

    ’’اب مس ولیم کہاں ہیں؟‘‘

    ’’وہ انگلینڈ واپس چلی گئیں ہیں۔‘‘

    ’’بس اب مجھے کوئی سوال نہیں کرنا۔‘‘

    بیگم صاحبہ اپنی اونچی ایڑی کے جوتوں کو کھٹکھٹاتی ہوئی واپس چلی گئیں۔

    ’’اب حضور فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ کون سی ماں اس بچے کی جائز حق دار ہے۔ وکیل یہ کہہ ہی رہا تھا کہ باہر سے کچھ ہنگامے کی آوازیں آئیں اور اگلے لمحے ایک عورت جو شکل صورت سے بھکارن لگتی تھی اور شاید پاگل بھی، میلی پھٹی ہوئی ساری پہنے عدالت میں بھیڑ کو چیرتی ہوئی آئی، ’’ہجور ہماری ارج بھی سن لیں۔ یہ بچہ ہمارا ہے۔ پولیس نے جبردستی ہم سے چھین لیا اور کہا کہ تو چراکر لائی ہے۔‘‘

    ’’تم کچھ بیان دینا چاہتی ہو تو گواہوں کے کٹہرے میں آؤ اور کہو کیا کہنا چاہتی ہو۔‘‘ وکیل نے اس سے کہا اور پھر مجسٹریٹ سے، ’’جناب والا! اب تک تو دو مائیں تھیں، اب تین ہوگئیں ہیں۔ اب آپ کو فیصلہ کرنا ہے۔ میں اس سے بھی سوال کرتا ہوں۔‘‘

    ’’اپنا نام بتاؤ۔‘‘

    ’’بھکارن ہجور۔ بچپن سے یہی نام سنا ہے۔‘‘

    ’’تمہارا دھرم ذات کیا ہے؟‘‘

    ’’ہجور دھرم میرا روٹی کا ٹکڑا ہے اور جات سے بھکارن ہوں۔‘‘

    ’’بچہ تمہارے پاس کیسے آیا؟‘‘

    ’’بچہ جیسے آتا ہے، ہجور ویسے ہی آیا۔ میرے پیٹ سے نکلا۔‘‘

    ’’کیا تمہاری شادی ہوئی ہے؟‘‘

    ’’ہجور بھکارنوں کے شادی بیاہ کہاں ہوتے ہیں؟۔۔۔ مگر ایک بڑا خوبصورت سا صاحب ایک رات میرے پاس آیا نشے میں دھت تھا۔ کہنے لگا کہ بھکارن تجھے کیا چاہیے۔ میں نے کہا۔ ایک بچہ۔ کہنے لگا ایک بچہ۔ روپیا پیسا کچھ نہیں چاہیے۔ ساری بھی نہیں چایے؟۔۔۔ میں نے کہا صاحب۔ نہیں مجھے تو بس ایک بچہ چاہیے۔ کیونکہ بچے کے بنامجھے لگتا ہے کہ میں ادھوری ہوں۔‘‘

    ’’تم نے اس صاحب سے کتنا روپیا لیا؟‘‘

    ’’روپیا کیوں لیتی۔ نو مہینے بعد۔ میں ادھوری سے پوری ہو گئی۔ سرکار عورت بچہ جننے کے بعد ہی پوری ہوتی ہے۔۔۔ ورنہ تو اس کا جیون ہی ادھورا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’وہ صاحب تمہیں پھر ملا؟‘‘

    ’’نہیں صاحب۔ میں نے اس سے ملنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ وہ تو مجھے پہچانےگا بھی نہیں۔ مگر میں پھر بھی اس کی آبھاری ہوں کیونکہ اس کے کارن میں پوری ہو گئی۔ ماں بن گئی۔‘‘

    ’’کہاں ہے تمہارا بچہ؟‘‘ وکیل نے ڈرامائی انداز میں سوال کیا۔

    ’’وہ ہے۔‘‘ بھکارن چلائی ادھر اشارہ کرتے ہوئے جہاں نئے کپڑے پہنے، بچہ کورٹ میں بیٹھا ہوا سب باتیں سن رہا تھا۔

    جرح ختم ہو گئی تھی۔

    وکیل نے مقدمہ کا خلاصہ سناتے ہوئے کہا: ’’یور آنر یہ مقدمہ کنگ سولومن کے انصاف کی یاد دلاتا ہے۔ وہاں تو دو مائیں تھیں جو دونوں ایک بچے کی ماں بننےکا دعوا کر رہی تھیں۔ یہاں تین مائیں ہیں جن میں سے ہر ایک کا کہنا ہے کہ بچہ اس کا ہے۔ ایک بمبئی کے بڑے انجینئر کی بیوی ہے۔ ایک دہلی کے رئیس اعظم کی بیگم ہے۔ ایک بھکارن ہے۔ کنگ سولومن نے تو انصاف یہ کیا تھا کہ دونوں ماؤں سے کہا تھا کہ بچہ کو تلوار سے آدھا کرکے دونوں کو آدھا آدھا دے دیا جائے گا۔ جس نے اس ظالمانہ انصاف سے بچےکی جان کی خاطر انکار کر دیا وہی اس کی اصلی ماں قرار دی گئی۔ لیکن ہم اس بچے کے تین ٹکڑے کرنے کو بھی نہیں کہہ سکتے اس لیے کوئی اور فیصلہ کرنا پڑےگا جواَب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔‘‘

    مجسٹریٹ نے کہا: ’’ہم سب حیوان کی اولاد ہیں۔ جتنا چھوٹا بچہ ہوگا اتنا ہی وہ جانوروں کے قریب ہوگا۔ بچھڑا ہو یا ہرن کا بچہ وہ اپنی ماں کو سونگھ سکتا ہے۔ اس لیے اس مقدمہ کا فیصلہ بھی اس بچے کی ناک کرےگی۔‘‘ پھر بچے سے مخاطب ہوکر کہا: ’’بچے۔ یہ تین عورتیں کہہ رہی ہیں کہ وہ تمہاری ماں ہیں۔ تم ان کے پاس جاؤ۔ ان میں سے ہر اک کو سونگھو اور جو تمہاری ماں ہے اس کو پہچان لو۔‘‘

    بچہ پہلے مسز جے سوریہ کے پاس گیا۔ ’’مائی چائلڈ۔‘‘ انھوں نے کہا اور اسے اپنے گلے لگا لیا۔ ان کی چھاتی سے اور ان کی ساری سے بچے کو ایک تیز فرانسیسی سینٹ کی خوشبو آئی۔

    ’’نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔

    پھر وہ بیگم مغل مرزا کے پاس گیا۔

    انھوں نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ ان کی پوشاک سے اور ان کے سارے بدن سے عطر حنا کی خوشبو آئی۔ یہ خوشبو بھی بچے کے لیے غیرمانوس تھی۔ وہ ان سے بھی الگ ہو گیا۔

    ’’نہیں۔‘‘ اس نے پھر کہا۔

    پھر وہ بھکارن کی طرف گیا۔ بھکارن نے اس ڈر کے مارے اسے گلے نہیں لگایا کہ اس کے اندر سے میلے کپڑوں اور پسینے کے بھپکے آ رہے تھے، لیکن بچے کی ناک کے نتھنے پھڑ پھڑائے۔ اس لیے کہ بھکارن کے اندر سے پسینے کی بدبو کے علاوہ ماں کی مامتا کی سوندھی سوندھی خوشبو بھی آ رہی تھی۔

    ’’ماں۔‘‘ اس نے کہا اور دوڑ کر بھکارن کے گلے لگ گیا۔

    بھکارن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    سرکاری وکیل کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔

    مجسٹریٹ نے عینک کو رومال سے صاف کرنے کے بہانے اپنی آنکھوں کےآنسو پوچھ لیے کیونکہ انصاف کی دیوی تو اندھی ہوتی ہے۔ اس کی آنکھ میں نہ نظر ہوتی ہے، نہ آنسو۔

    مأخذ :
    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے