’’چھت پر جانا منع ہے۔‘‘
’’اپنے کمرے کی مشرقی کھڑکی ہمیشہ بند رکھنا۔‘‘
چچا جان کی یہ دو باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ میرے لاشعور میں طرح طرح کے سوالات ابھرتے ہیں؛ ذہن میں کتنے ہی خیالات جنم لیتے ہیں۔ چچا جان اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں چاندنی کا دل دادہ ہوں، قدرتی مناظر کا شیدائی ہوں۔ لیکن پھر بھی وہ کھڑکی کھولنے سے منع کرتے ہیں، چھت پر جانے سے روکتے ہیں۔ وہ تو بہت سی تنبیہیں کرتے رہتے ہیں لیکن ان باتوں پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے میرے دل میں تجسّس جاگ اٹھتا ہے۔ ان کی عدم موجودگی میں میں چھت پر چلا جاتا ہوں اور اپنے کمرے کی مشرقی کھڑکی کے پٹ کھول دیتا ہوں۔
میں شام کو چھت پر ٹہلتا ہوں، اپنے خیالات میں کھوتا جاتا ہوں۔ چھت کے جھروکے پر بیٹھ کر کالونی کا حسین منظر دیکھنے میں منہمک ہو جاتا ہوں۔
’’بابو! صاحب نے چھت پر چڑھنے سے منع کیا ہے۔‘‘
اپنے باورچی کی آواز سے میں چونک اٹھتا ہوں۔
’’کیوں؟‘‘
’’چھت پر چڑھنے کے بعد پڑوس کے سارے آنگن صاف صاف نظر آتے ہیں۔ اس بغل والی جھونپڑی میں ایک استانی جی رہتی ہیں جو سب سے پردہ کرتی ہیں۔ انھوں نے صاحب کے ہاں کہلا دیا ہے کہ چھت پر کسی کو چڑھنے نہیں دیا جائے۔‘‘
’’چھت کی بات میری سمجھ میں آ جاتی ہے لیکن کھڑکی کی بات جب میں اپنے باورچی سے پوچھتا ہوں تو وہ کہتا ہے، مجھے نہیں معلوم۔‘‘
جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور شہر آکر کالج میں داخلہ لیا تو کھانے اور رہنے کا معاملہ ایک مسئلہ بن گیا۔ میرے چچا جان اسی شہر میں بزنس کرتے ہیں۔ لیکن ان کے یہاں کوئی فاضل کمرہ نہیں ہے جس میں مَیں رہتا۔ اس لیے میں نے ہاسٹل میں داخلہ لے لیا۔ دو سال تک ہاسٹل میں رہا اس درمیان چچا جان نے اپنا مکان بنوایا، اب ان کے یہاں کافی جگہ ہے اس لیے میں یہیں رہتا ہوں۔
مجھے اس مکان میں آئے ابھی دو ہی مہینے ہوئے ہیں۔ میرا کمرہ بہت ہی اچھا ہے، ہر لحاظ سے اچھا۔ اس میں دو کھڑکیاں ہیں ایک مشرق کی طرف کھلتی ہے اور دوسری جنوب کی سمت۔ جنوب کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے ریلوے کالونی اور باغیچے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ میں کبھی کبھی اس کھڑکی میں بیٹھ کر ریلوے کالونی کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہوں اور کبھی کوئی غزل، گیت گنگناتا ہوں۔ ریلوے کالونی کا منظر مجھے بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے ہر روز رات کا کھانا کھانے کے بعد ریلوے کالونی کی طرف ٹہلنے کے لیے نکل جاتا ہوں۔
میرے کمرے میں مختصر سا سامان ہے ایک میز اور دو کرسیاں ہیں۔ تین بک شیلف اور کتابوں، رسالوں کا انبار ہے، ایک آئینہ، شیشے کا گلاس اور صراحی ہے۔
چچا جان کی اس بلڈنگ کے سامنے ایک چھوٹا سا مکان ہے۔ میرے کمرے کی مشرقی کھڑکی کے بالکل سامنے۔ اس مکان کی بھی ایک کھڑکی ہے۔ چچا جان کے حکم کی تعمیل میں مَیں مشرقی کھڑکی کے نچلے پٹ بند رکھتا ہوں، مگر اوپر کے پٹ کھول دیتا ہوں، مَیں اب بھی چھت پر جاتا ہوں لیکن شام کے سایے گہرے ہونے کے بعد، چاندنی اور ستاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے، رفتہ رفتہ میرے ذہن سے چچا جان کی باتیں فرو ہو جاتی ہیں اور اب میں پوری کھڑکی کھول دیتا ہوں۔
ایک دن میں کالج سے شام کو اپنے کمرے میں واپس آیا تو میری نظریں اپنے کمرے کی مشرقی کھڑکی کے سامنے والی کھڑکی پر جم سی گئیں جس کی جالی سے دو خوب صورت آنکھیں میرے طرف نگراں تھیں۔ ان آنکھوں میں ایک بے چینی سی تھی، ایک اداسی تھی۔ وہ لڑکی بذات خود کوئی اپسرا، کوئی قلوپطرہ یا کوئی پری پیکر تو نہیں لیکن خوب صورت ضرور ہے۔ اس میں خاص دل کشی اور جاذبیت ہے۔ مجھے اس کی بڑی بڑی خوب صورت لیکن مغموم اور اداس آنکھیں بہت پسند ہیں۔اس دن کے بعد میں اکثر ان آنکھوں کو کھڑکی کی جالی کے ادھر اپنا منتظر پاتا ہوں بلکہ اب اس کا معمول بن گیا ہے۔ میں بھی ان آنکھوں میں دل چسپی لینے لگا ہوں۔ مَیں کالج سے آتا ہوں، میری نظریں خود بہ خود اس کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ اب تو دل میںیہ خواہش پیدا ہونے لگی ہے کہ میں اس سامنے والی کھڑکی کے قریب جاکر ان خوب صورت آنکھوں میں جھانکوں، سرخ ہونٹوں اور شب رنگ زلفوں کی مدہوش کن خوشبو سونگھوں، اس لڑکی کو قریب سے دیکھوں اور اس سے باتیں کروں۔ لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔ یہ میری کمزوری ہے کہ میں کسی اجنبی لڑکی یا عورت سے بات نہیں کر سکتا ہوں۔ اس کی قربت سے میرا دل دھڑکنے لگتا ہے اور مجھ پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں اپنی اس خواہش کو تھپک کر سلا دیتا ہوں۔ میری نظریں ہمیشہ سامنے کھڑکی پر جم جاتی ہیں۔ مگر میں اس لڑکی کے قریب نہیں جاتا۔ جب کبھی مَیں ان آنکھوں کو کھڑکی میں اپنا منتظر نہیں پاتا تو میری پیاسی آنکھیں متلاشی نگاہیں بے قرار ہو جاتی ہیں اور میں بے چین سا ہو جاتا ہوں۔ لیکن پھر بھی ان خاموش، ملتجی اور اداس آنکھوں کی التجا کو نظرانداز کر دیتا ہوں۔
میں کبھی کبھی تنہائی میں اس لڑکی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے عجیب سی الجھن ہوتی ہے اور جس دن میں اس لڑکی کے بارے میں سوچتا ہوں اس رات مجھے نیند نہیں آتی۔
ایک دن میں کالج سے شام کو آیا۔ میں ابھی کمرے میں داخل ہی ہوا تھا کہ ایک سات سالہ لڑکا میرے کمرے میں آیا۔ اس کا نام رشید ہے، اسی محلے میں رہتا ہے۔ مجھ سے اس نے کہا
’’زینت باجی کوئی رسالہ مانگ رہی ہیں۔‘‘
’’زینت؟ کون زینت؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس نے سامنے والے مکان کی طرف اشارہ کیا۔
میری آنکھیں اس کھڑکی پر جم سی گئیں۔ میں کچھ سوچنے لگا۔ زینت رسالے کے انتظار میں کھڑی ہے اور اس کی ملتجیانہ نگاہیں کہہ رہی ہیں کہ میں رسالہ بھیج دوں۔
میرا دل نہ جانے کیوں سینے میں رقص کرنے لگا۔ مجھے آج پہلی بار اس لڑکی کا نام معلوم ہوا۔
میں نے اسے ’’بیسویں صدی‘‘ کا تازہ شمارہ دے دیا۔
اس دن میں ساری رات کروٹیں بدلتے، زینت کے بارے میں سوچتے گزار دیتا ہوں۔ صبح کو تھکن کا احساس ہوتا ہے اور میں کالج نہیں جاتا۔
اب اکثر میرے رسالے اور پرچے زینت منگواتی ہے بلکہ کبھی کبھی محلے والوں کی نظریں بچاکر خود میرے کمرے میں چلی آتی ہے، کچھ دیر بیٹھتی ہے، باتیں کرتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ لیکن اب بھی میں اس کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ بھی میرے بارے میں صرف اتنا ہی جانتی ہے کہ میں بی۔ اے۔ کا متعلم ہوں۔
رفتہ رفتہ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا گیا اور ہمارے درمیان ایک نامعلوم سا رشتہ قایم ہو گیا۔ میں اسے چاہنے لگا اور وہ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی۔ یہ چاہت، یہ محبت کیسی ہے، میں خود نہیں جانتا۔ وہ ایک معصوم اور باشعور لڑکی ہے۔ مجھے اس کی حسین آنکھوں کے ساتھ ساتھ اس کی معصومیت بھی پسند ہے اور شاید اسی لیے میں اسے چاہتا ہوں۔
دیکھتے دیکھتے تین سال کا عرصہ گزر گیا اور ہمیں محسوس بھی نہ ہوا۔
رات کا وقت ہے
چاروں طرف مہیب سناٹا چھایا ہوا ہے۔ ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ دور تک کوئی آواز اور نہ کوئی آہٹ ہے۔ ہاں، جنکشن سے کبھی کبھی انجن کی وسل اور لو ہے کمے کارخانے کی آواز خاموش وساکت فضا کو مرتعش کر رہی ہے اور میں اپنے کمرے میں بیٹھا کورس کی کتابوں کے مطالعہ میں منہمک ہوں۔
دفعتاً میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ میں اٹھ کر دروازہ کھولتا ہوں۔ سامنے زینت کھڑی ہے۔ اس کی گھنی سیاہ زلفیں پیشانی پر پریشان ہیں۔ خوب صورت آنکھیں جیسے جل رہی ہیں، ہونٹوں پر اداسی کی لکیریں اور چہرے پر فکر و غم کی پرچھائیاں ہیں۔ میں اسے اسی حال میں رات کے تقریباً بارہ بجے دیکھ کر متحیر اور پریشان ہو جاتا ہوں۔
’’یہ کیا حال بنایا ہے زینت؟‘‘ میں پوچھتا ہوں۔
وہ تھکی تھکی سی کرسی پر بیٹھ جاتی ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن آواز حلق میں پھنس گئی ہے۔ میں نے اسے دلاسا اور تسلی دی۔ اس کی ڈھارس بندھی، اس نے ایک گہری سانس لی، اپنے آپ کو سنبھالا اور اداس لہجے میں بولی.
’’آپ نے کبھی میرے بارے میں نہیں پوچھا کہ میں کون ہوں؟‘‘
زبان سے نہیں پوچھا لیکن ؟
میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
’’لیکن آج میں اپنی داستان سنانے اور اپنے دل کے زخم دکھانے آئی ہوں۔‘‘
اس کی آنکھوں میں غم کے سایے گہرے ہو گئے۔
میں حیران سا رہ گیا۔
پھر وہ کہنے لگی
’’جب تک ماں باپ نہ ہوں کسی بچے کا جنم ممکن نہیں۔ اس لیے میرا بھی کوئی باپ رہا ہوگا، کوئی ماں رہی ہوگی۔ لیکن میں ان کے بارے کچھ نہیں جانتی۔ میں اپنے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتی، صرف اتنا جانتی ہوں کہ سامنے کے مکان کی چہار دیواری میں میری پرورش ہوئی ہے۔ اس آنگن میں میرا بچپن گزرا ہے اور وہیں مَیں جوان ہوئی ہوں۔ میں ماں کی مامتا، باپ کی شفقت اور بھائی بہن کے خلوص اور پیار سے محروم رہی۔ میں نے اپنے والدین کے بارے میں جاننا چاہا لیکن ناکام رہی۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ میں ایک نالی میں پڑی ہوئی پائی گئی تھی۔ جس نے مجھے تعلیم دلوائی، مجھے پالا وہ پچاس سال کا بوڑھا دمے کا مریض ہے۔ وہ میرے جوان جسم سے اپنی بوڑھی آغوش کو گرمانا چاہتا ہے۔ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ پرسوں میرا آنچل اس بوڑھے کے دامن سے باندھ دیا جائےگا۔ وہ تو شام کا سورج ہے، نہ جانے کس وقت اور کہاں ڈوب جائے اور میری مانگ کا سیندور دھل جائے۔ آپ ہی بتائیے میں کیسے اس کے ساتھ اپنی جوان امنگوں کو تھپک تھپک کر سلا سکتی ہوں۔ مَیں کوئی پتھر کی مورتی تو نہیں۔ ہر جوان لڑکی کی طرح میرے سینے میں بھی دل ہے، میرے بھی کچھ خواب ہیں، کچھ تمنائیں ہیں، کچھ آرزوئیں ہیں، کچھ امنگیں ہیں۔‘‘
اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں گھبراسا گیا۔ میرا دماغ مضمحل ہو گیا، میری ذہنی الجھنیں اور پریشانیاں لمحہ بہ لمحہ بڑھنے لگیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا میں کیا کروں۔ آخر وہ مجھ سے کیا چاہتی ہے 151151 نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ میرے دل نے کہا۔ میری آنکھوں میں شمیؔ کی تصویر رقص کرنے لگی۔ شمیؔ جو اس انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہے کہ میں حصول تعلیم کے بعد اسے عروسی جوڑا پہنا کر، دلہن بناکر اپنے گھر لاؤں گا، اس نے سکھ بھری زندگی کے کتنے سنہرے خواب دیکھے ہیں، اس نے اپنے ذہن میں ایک پیاری سی دنیا، ایک سکھوں بھرے گھر کے کتنے حسین نقوش ابھارے ہوں گے۔ میں نے بھی کتنے تانے بانے بنے ہیں۔ میں شمیؔ کے خوابوں کو پریشان نہیں کر سکتا۔ میں اس کے خوابوں کے نقوش بکھرتے نہیں دیکھ سکتا۔ میں ایسی غلطی، ایسا گناہ کبھی نہیں کر سکتا!!
زینت نے اپنی سسکیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی شکستہ آواز سے میرے خیالوں کو منتشر کر دیا۔
’’میں روشنی کی تلاش میں رہی لیکن روشنی پانے کی حسرت میں تڑپتی رہی۔ مایوسیوں اور نا امیدیوں کے مہیب اندھیرے میں محصور رہی۔ میں اپنی زندگی کی تیرگی میں روشنی تلاش کرتی رہی کہ آپ یہاں آ گئے ۔ آپ کے وجود اور آپ کے نقوش میں خلوص ومحبت کی جھلک نظر آئی۔ آپ سے بہت سی توقعات وابستہ ہو گئیں اور میں رفتہ رفتہ آپ کے قریب آ گئی۔‘‘
وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی۔
میرے ذہن کے سارے تار جھنجھنا اٹھے۔ میرا ذہن اور پریشان ہو گیا۔ میرا دل چاہا اس سے کہہ دوں تم نے مجھے غلط سمجھا ہے۔ زینتؔ !!
اس نے آنچل کے پلو میں اپنے آنسو جذب کرتے ہوئے کہا۔
’’اگر میرے والدین کا پتہ نہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ مَیں تو آپ ہی کو اپنا سب کچھ سمجھتی ہوں کچھ اور نہ سہی تو اپنی بہن بناکر ہی مجھے اس دام الم سے بچا لیجیے۔‘‘
وہ حسرت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتی ہے۔
میری آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ میرے ہونٹوں پر تبسم کی ضیائیں پھوٹ پڑتی ہیں۔
میں گھڑی دیکھتا ہوں ’’رات کے دو بج رہے ہیں۔ ڈھائی بجے میرے ہاں کے لیے ٹرین چھوٹتی ہے اور میں اسی وقت زینت کو ساتھ لیے اسٹیشن کی طرف چل پڑتا ہوں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.