Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تیسرا آدمی

شوکت صدیقی

تیسرا آدمی

شوکت صدیقی

MORE BYشوکت صدیقی

    دونوں ٹرک، سنسان سڑک پر تیزی سے گزرتے رہے!

    پتمبر روڈ، مشرق کی طرف مڑتے ہی ایک دم نشیب میں چلی گئی ہے اور جھکے ہوئے ٹیلوں کے درمیان کسی زخمی پرندے کی طرح ہانپتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ رات اب گہری ہو چکی ہے اور آغازِ سرما کی بچری ہوئی ہوائیں چل رہی ہیں۔ دونوں ٹرک ڈھلوان پر کھڑ کھڑاتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ ان کا بے ہنگم شور پتھریلی چٹانوں میں دھڑک رہا ہے۔ ایکا ایکی اندھیرے میں کسی نے چیخ کر کہا، ’’اے کون جا رہا ہے، ٹرک روک لو!‘‘

    رات کے سناٹے میں یہ آواز بڑی پراسرار معلوم ہوئی لیکن ٹرکوں کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ وہ اس طرح خاموش بیٹھے رہے اور دونوں ٹرک جھکی ہوئی چٹانوں کی گہرائی میں تیزی سے گزرتے رہے۔ اس دفعہ ذرا دور سے آواز سنائی دی، ’’روکو، روک لو ٹرکوں کو!‘‘ اور اس کے ساتھ ہی موٹر سائیکل اسٹارٹ ہونے کی گھرگھراہٹ ابھرنے لگی۔ اس کی تیز روشنی دھوپ چھاؤں کی طرح ٹرکوں کے پچھلے حصوں پر لہرا جاتی ہے لیکن ٹرک رک نہیں سکتے۔ اس لئے کہ یہ خطرے کا الارم ہے۔ ان کی رفتار اور تیز ہو گئی۔ سڑک بالکل ویران ہے اور دونوں ڈرائیور بڑے ایکسپرٹ ہیں!

    موٹرسائیکل کی روشنی قریب ہوتی جا رہی ہے اور قریب! اور قریب! اور اس کا شور ٹرکوں کے نزدیک ہی دھڑکنے لگا ہے۔ ان کی رفتار اب زیادہ نہیں بڑھ سکتی ہے۔ اس لئے کہ ڈھلوان پر ٹرکوں کے بے قابو ہو جانے کا پورا اندیشہ ہے۔ دونوں ڈرئیوروں کے سہمے ہوئے چہرے خوف زدہ ہوتے جا رہے ہیں لیکن نیلی آنکھوں والا وانچو خاموشی سے بیٹھا ہوا سگریٹ پیتا رہا اور برابر سوچتا رہا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ پھر ایک بارگی مستانی ٹیلوں کی گہرائی میں ریوالور چلنے کی آواز بڑے بھیانک انداز سے گرجنے لگی اور گولی ٹرک کے پچھلے پہیوں کے پاس سے سنسناتی ہوئی گزر گئی۔ ایک بار پھرکسی نے اونچی آواز میں کہا، ’’روک لو ٹرکوں کو، نہیں تو میں ٹائر برسٹ کر دوں گا۔‘‘

    اور اس وارننگ کے ساتھ ہی دونوں ٹرک ٹھہر گئے۔ ٹرکوں کے اندر سے صرف وانچو اتر کر نیچے آیا۔ باہر پت جھڑ کی شوریدہ ہوائیں چل رہی تھیں اور ان کو تیز خنکی جسم میں چبھتی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ وانچو نے اپنے لمبے اوور کوٹ کے کالروں کو درست کیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا موٹر سائیکل کے قریب پہنچ گیا۔ پھر اس نے جلتی ہوئی سگریٹ کو جھنجھلاہٹ کے انداز میں سڑک پر پھینک کر جوتے سے مسل ڈالا اور بڑے تیکھے لہجے میں پوچھنے لگا۔

    ’’اس طرح ٹرکوں کو رکوا لینے کا مقصد، کیا چاہتے ہیں آپ؟‘‘

    لیکن موٹرسائیکل پر بیٹھا ہوا بھاری بھرکم جسم والا انسپکٹر وانچو کے اس انداز سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا بلکہ بڑی بے نیازی سے کہنے لگا، ’’میں اینٹی کرپشن کا انسپکٹر ہوں اور دونوں ٹرکوں کی تلاشی لینا چاہتا ہوں۔‘‘

    وانچونے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ دھندلی روشنی میں اس کا چہرہ بڑا کرخت معلوم ہو رہا تھا اور ریو الور اس کی انگلیوں میں دبا ہوا تھا۔ وانچو نے پہلی نظر میں اندازہ لگا لیا تھا کہ بھاری بھرکم جسم والا انسپکٹر پوری طرح دہشت زدہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔

    اس نے جھٹ سے کاروباری پینترا بدلا اور ذرا بے تکلفی سے کہنے لگا۔ اچھا تو آپ ہیں اور پھر وہ مسکرا دیا، اگر آپ آفیشلی پوچھتے ہیں تو دیکھئے دونوں ٹرکوں پر آلوؤں کے بورے لدے ہوئے ہیں۔ میں ثبوت میں ڈسٹرکٹ آکٹرائے آفس کی رسید پیش کر سکتا ہوں۔ چونگی کا یہ محصول ابھی پچھلے ناکے پر ہی ادا کیاگیا ہے اور جو کچھ اصلیت ہے وہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ اس لئے کہ آئرین ٹیٹس کو اس طرح لے جانے کا یہ کوئی پہلا اتفاق تو نہیں ہے۔ یہ سلسلہ تو ایک مدت سے چل رہا ہے۔

    انسپکٹر گردن ہلا کر بولا، ’’جی ہاں، سنا تو کچھ میں نے بھی یہی ہے اور اس لئے کئی گھنٹوں سے اس سڑک پر تپسیا کر رہا تھا۔‘‘ وانچو ہنسنے لگا یہ تپسیا تو آپ نے خواہ مخواہ اپنے سر مول لی۔ میں نے آپ کو دو مرتبہ فون کیا۔ اگر آپ دفتر میں مل جاتے تو اس طرح کیوں پریشانی اٹھانا پڑتی اور خود مجھے یہاں سردی میں نہ آنا پڑتا۔ مگر چلئے یہ بھی ٹھیک رہا۔ اس بہانے آپ کے درشن تو ہو گئے!‘‘ اور وہ تین سو روپے احمدپور کے اس ٹرپ میں بچا لینا چاہتا تھا۔ آخر اس نے کرنسی نوٹوں کو اندرونی جیب میں سے نکالا اور انسپکٹر کی طرف بڑھا کر کہنے لگا، ’’آپ سے پہلی ملاقات ہوئی ہے۔ اس لئے کچھ نہ کچھ نذرانہ تو دینا ہی پڑے گا۔ لیجئے ان کو رکھ لیجئے۔ فرمایئے اور کیا سیوا کی جائے۔‘‘

    اینٹی کرپشن انسپکٹر روکھے پن سے بولا،’’اس مہربانی کا شکریہ۔ اب اتنی اور مہربانی کیجئے کہ ان کو اپنے اپس ہی رہنے دیجئے۔‘‘

    وانچو ذرا سنجیدہ ہو کر خاموش ہو گیا۔ دونوں اندھیرے میں چپ چاپ کھڑے تھے اور کوہستانی چٹانوں میں پت جھڑ کی بپھری ہوئی ہوائیں چیختی رہیں۔ آگے کھڑے ہوئے ٹرکوں کے اندر سرگوشیوں کی دبی دبی آوازیں بھنبھنا رہی تھی۔ وانچو ذرا غور کرنے لگا کہ یہ آسانی سے ماننے والی آسامی نہیں ہے۔ اس سالے کو ابھی کچھ اور بھی دکشنا دینا پڑےگی۔ اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ ہر کامیاب جرم کی سازش پہلے پولیس اسٹیشن کے اندر ہوتی ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ سودا بعد میں طے ہو سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب مایا کے کھیل ہیں اور مایا کے روپ نیارے ہیں اسی لئے جرائم کی نوعیتیں جداگانہ ہیں۔ جیب کاٹنے والا زیادہ سے زیادہ ہسٹری شیٹر بن سکتا ہے اور کا رہائے نمایاں انجام دینے والا سرمایہ دار ہو جاتا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہسٹری شیٹر بننے کے لئے پولیس کی سرپرستی درکار ہوتی ہے اور سرمایہ داری کے لئے گورنمنٹ سے ساز باز کئے بغیر کام نہیں چلتا۔ وانچو نے جیب کے اندر سے کچھ اور کرنسی نوٹ نکالے اور آہستہ آہستہ کہنے لگا۔

    انسپکٹر تیواری جب تک اس سرکل میں تعینات رہے ہماری انڈسٹری کی طرف سے ان کو اس حساب سے ان کا حق برابر پہنچتا رہا۔ ’’پھر خوشامد کرنے کے سے انداز میں وہ مسکرا کر بولا، ’’لیکن آپ کو اس طرح جاڑے پالے میں آ کر پریشان ہونا پڑا ہے۔ اب اس پریشانی کا بھی کچھ خیال کرنا پڑےگا۔‘‘ لیجئے یہ دوسو اور ہیں۔ دیکھئے اب کچھ اور نہ کہئے گا اور اپنا ریوالور تو آپ اب اندر رکھ لیجئے۔ خواہ مخواہ آپ سے خوف معلوم رہا ہے۔‘‘

    مگر بھاری بھرکم جسم والا انسپکٹر اسی طرح ناراضگی کے سے انداز میں بولا۔ دیکھئے آپ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں۔ میں ان دونوں ٹرکوں کو پولیس اسٹیشن لے جائے بغیر باز نہیں آؤں گا۔ آپ خواہ مخواہ میرا بھی وقت خراب کر رہے ہیں اور خود بھی پریشانی اٹھا رہے ہیں اور وہ موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کرنے لگا۔

    اس دفعہ وانچو کی مسکراہٹ نے دم توڑ دیا۔ اس نے بڑی تیکھی نظروں سے انسپکٹر کو گھور کر دیکھا۔ اس عرصے میں پہلی بار اس کو خطرے کی نوعیت کا احساس ہوا تھا۔ اس لئے کہ دونوں ٹرک کسی طرح بھی پولیس اسٹیشن نہیں جا سکتے تھے۔ کمپنی کا یہی حکم تھا، یہی ہدایت تھی اور اس ذمہ داری کے لئے کمپنی سے اس کو نو سو روپے ماہوار تنخواہ کے علاوہ مینجنگ ڈائریکٹر کی طرف سے چھ سو روپے ایکسٹر ا لاؤنس بھی ملتا تھا۔ وانچو کئی ماہ سے اپنی اس ڈیوٹی کو بڑی مستعدی سے انجام دے رہا تھا۔ کمپنی اس کی کار گزاریوں کو سراہتی رہی ہے اور بورڈ آف ڈائریکٹر کی کی میٹنگ میں بہت سی باتوں کے لئے اس کو جوابدہ بھی ہونا پڑتا ہے اور اکثر ایسے بےتکے سوالوں سے اس کو سابقہ پڑا کہ وہ بدحواس ہو جاتا۔ اس لئے وہ پانچ سو روپے سے زیادہ دو ٹرکوں کے لئے رشوت نہیں دے سکتا۔ ورنہ آئندہ میٹنگ میں اگر کوئی ڈائریکٹر الجھ گیا تو بہت ممکن ہے کہ زائد رقم اس کو اپنی تنخواہ سے ادا کرنا پڑے ا ور بات بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ دراصل ابھی تک فیکٹری کی تعمیر کے لئے کمپنی اپنے پاس سے صرف روپیہ لگا رہی ہے۔ شگر پلانٹ کا کانسسٹرکشن ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔ البتہ کمپنی کے وہ فارم ’’جن میں ایکھ کی کاشت ہوگی ان میں ٹریکٹر چلنے لگے ہیں اور آلو کی فصلیں تیار کی جا رہی ہیں اور یہ آلوؤں کے ساتھ سیمنٹ کی بوریاں اور آئرن شیٹس بھی ٹرکوں میں لاد کر پوشیدہ طور پر بلیک مارکیٹ میں جاتے ہیں۔ کمپنی کو اپنی انڈسٹری کی تعمیر کے لئے سیمنٹ او آئرن کا بہت بڑا سرپلس کوٹا مل گیا ہے جس کی سمگلنگ سنسان راتوں میں بڑے پراسرار طریقے پر ہوتی ہے اور اس سازش میں پولیس کے علاوہ دوسرے محکمے بھی کمپنی کے شریک ہیں۔

    وانچو غور کرنے کے سے انداز میں خاموش کھڑا رہا۔ اس کی گھنی بھوئیں آنکھوں پر جھکی ہوئی معلوم ہو رہی ہیں اور چہرے کے تیکھے نقوش مجسموں کی طرح ٹھوس نظر آ رہے ہیں۔ پھر ایک بارگی اس نے طے کر لیا کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔ انہیں وحشت ناک موقعوں کے لئے وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ جو کچھ کرنا ہے اس کے فیصلے کے لئے منٹ بھر کا عرصہ بہت ہے اور جو لوگ صرف انجام ہی پر غور کرتے ہیں وہ کبھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے اور پھر بوجھل قدموں سے چلتا ہوا وہ آگے والے ٹرک کے پاس پہنچ گیا اور سرگوشی کے سے انداز میں آہستہ آہستہ پکارنے لگا۔

    ’’نیل کنٹھ آئے نیل کنٹھ، مہاراج‘‘

    اور ٹرک کے اندر سے مضبوط پٹھوں والا نیل کنٹھ دھنسی ہوئی آواز میں بولا، ’’کیا ہے سیکرٹری صاب؟‘‘ پھر وہ اتر کر نیچے آ گیا۔ اس کا آبنوسی جسم رات کے گہرے اندھیرے میں پرچھائیوں کی طرح دھندلا نظر آ رہا تھا۔ وانچو کہنے لگا،

    ’’دیکھو نیل کنٹھ یہ سالا انسپکٹر تو کسی طرح مانتا نہیں اور تم جانتے ہو کہ دونوں ٹرک تھانے پر بھی نہیں جا سکتے۔‘‘

    ’’وہ سینہ تان کر بولا، تو حکم ہو!‘‘

    گہری نیلی آنکھوں والے وانچو نے اس کو بھرپور نظروں سے دیکھا اور پھر ا سازش کرنے کے سے انداز میں اس نے ایک آنکھ دبا کر آہستہ سے کہا، ’’مجھ کو تو صرف لائین کلیر، کی ضرورت ہے۔ زیادہ جھنجھٹ نہیں چاہئے۔‘‘ پھر مڑتے ہوئے اتنا اور کہا، ’’میں جا کر اس سے باتیں کرتا ہوں۔ تم ٹرکوں کی پشت پر سے گھوم کر آ جانا۔ سمجھ گئے نا!‘‘ اور نیل کنٹھ جیسے سب کچھ سمجھ گیا۔ اس کی آنکھیں جرائم پیشہ لوگوں کی طرح خونخوار نظر آنے لگیں۔ وانچو وہاں سے سیدھا اینٹی کرپشن کے انسپکٹر کے پاس چلا گیا۔ وہ اس کو آتے ہوئے دیکھ کر تیزی سے بولا،

    ’’آپ نے ٹرکوں کو اسٹارٹ نہیں کروایا، بلا وجہ دیر ہو رہی ہے۔‘‘

    وانچو بڑی سنجیدگی سے بولا، ’’آپ تلاشی لیں گے یا ٹرک اسی طرح چلیں گے۔‘‘ وہ کہنے لگا۔

    ’’بظاہر تو اب ایسی کوئی ضرورت نہیں، یوں جیسے آپ کی مرضی‘‘ وانچو ایک بار پھر کاروباری انداز سے مسکرایا، ’’انسپکٹر صاحب! مرضی ہماری کہاں؟ مرضی تو آپ کی ہے۔ ہم نے تو اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی مگر آپ کی ناراضگی ختم ہی نہیں ہوتی۔‘‘

    وہ بےنیازی سے بولا، ’’دیکھئے ان بے کار باتوں سے کوئی نتیجہ نہیں نکلےگا۔ آپ کو جو کچھ کہنا ہو، آپ تھانے پر چل کر کہہ لیجئےگا۔‘‘

    وانچو سنجیدہ ہو گیا، ’’بہت اچھی بات ہے لیکن اتنا میں آپ کو ضرور بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ آئرن شیٹس اور سیمنٹ کا سرپلس کوٹا لے سکتے ہیں اور جو اس کو سمگل بھی کرا سکتے ہیں۔ وہ اپنے بچاؤ کے طریقے بھی جانتے ہی ہوں گے۔ چور چوری کرنے جاتا ہے تو باہر نکلنے کا رستہ پہلے دیکھ لیتا ہے، ’’اور اس میں شک بھی نہیں کہ وانچو ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ اس لئے کہ ’’یونائیٹڈ انڈسٹریز لمیٹڈ ‘‘ کے بورڈ ڈائریکٹر ایم ایل اے ہیں۔ اور ان میں سے ایک تو ریونیو منسٹر کا داماد بھی ہے اور اسی لئے سرکاری محکموں میں کمپنی کا اثر بھی ہے اور زور بھی ہے لیکن بھاری بھر کم جسم والا انسپکٹر ان راز ہائے سربستہ کو نہیں جانتا۔ اس سرکل میں ابھی اس کا نیا نیا ٹرانسفر ہوا ہے اس لئے پورے علاقے میں وہ اپنی دھاک بٹھا دینا چاہتا ہے اور اس لئے ایک آدھ بڑا کیس بنائے بغیر بات نہیں بنتی اور پولیس کی مکینک کے مطابق ایک بار جہاں ہوا بندھ گئی پھرتو لکشمی آ کر خود قدم چومتی ہے اور اسی لئے وہ کسی طرح باز نہیں آ سکتا۔ وانچو کی باتوں پر جھنبھلا کر اس نے جواب دیا۔

    ’’ممکن ہے، آپ ٹھیک کہہ رہے ہوں۔ ابھی تو آپ ذرا چل کر حوالات میں ٹھہرئے، پھر دیکھیں گے کہ آپ لوگ اپنے بچاؤ کا کونسا طریقہ جانتے ہیں۔‘‘

    اس دفعہ وانچو بھی بپھر گیا۔ اس نے تیزی سے کہا، ’’انسپکٹر صاحب مجھے کیلاش ناتھ وانچو کہتے ہیں۔ میں تھانے جانے سے پہلے بات کو یہاں بھی طے کر سکتا ہوں۔ آپ کے ایسے انٹی کرپشن کے انسپکٹروں سے یہاں اکثر سابقہ پڑا کرتا ہے۔ اگر ان میں کوئی مل گیا ہوتا تو اس طرح مونچھ اونچی کر کے آپ کو بات کرنے کی جرات نہ ہوتی۔‘‘

    انسپکٹر کے چہرے پر اور ابھی خشونت آ گئی۔ وہ اس کو بڑی تیکھی نظروں سے گھورنے لگا اور اسی وقت آ بنوسی جسم والے نیل کنٹھ نے اندھیرے میں سے نکل کر اس کے سر پر ’’آہنی راڈ‘‘ اٹھا کر زور سے دے مارا۔ انسپکٹر نے دبی ہوئی کراہ کے ساتھ ہائے کر کے پھٹی ہوئی بھیانک آواز نکالی اور لڑکھڑا کر سڑک پر گرپڑا۔ اس کی انگلیوں میں دبا ہوا ریوالور ابھی تک کانپ رہا تھا۔ وانچو نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ کو اپنے بوجھل جوتے سے رگڑ دیا اور ریوالور کو چھین کر ٹیلوں کی طرف پھینک دیا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی پر ایک بھرپور لات مار کر بڑبڑانے لگا۔

    ’’دھت تیرے کی، سالا کسی طرح مانتا ہی نہ تھا‘‘ اور پھر وہ نیل کنٹھ سے کہنے لگا، ’’مہاراج ڈال دو سالے کو ادھر کنارے کی طرف!‘‘ اور پھر اطمینان سے ایک سگریٹ سلگا کر پوچھنے لگا،

    ’’ہاں یہ دیکھ لو کہ زخم گہرا تو نہیں پڑا ہے، ورنہ بلاوجہ بات اور بڑھ جائےگی۔‘‘

    نیل کنٹھ کہنے لگا، ’’ہاتھ بھرپور نہیں پڑا ہے، کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے۔‘‘

    پھر نیل کنٹھ نے سڑک پر بے سدھ پڑے ہوئے بھاری بھرکم جسم والے انسپکٹر کا بازو پکڑا اور اس کو گھسیٹتا ہوا دور تک چلا گیا۔ اس کا کرخت چہرہ خون میں ڈوب کر بڑا بھیانک نظر آ رہا تھا اور سانس سہمی ہوئی چل رہی تھی۔ وہ اسی طرح جھکے ہوئے کوہستانی ٹیلوں کے دامن میں کسی لاش کی طرح بے جان پڑا رہا اور آغازِ سرما کی تیکھی ہوائیں پتھریلی چٹانوں میں ہانپتی رہیں اور ایک بارگی کہیں نزدیک ہی گیڈریوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔

    دونوں ٹرکوں کے اسٹارٹ ہونے کی گھڑگھڑاہٹ سنسان رات میں ابھرنے لگی اور وہ موٹر سائیکل کو بری طرح روندتے ہوئے سڑک پر پھر چلنے لگے لیکن احمد پور جانے کے بجائے، اب وہ جنوبی ٹیلوں کی طرف مڑ رہے تھے اور کوئی سترہ میل کا چکر کاٹنے کے بعد دونوں ٹرک پھر اسی چوراہے پر پہنچ گئے جہاں لوہے کے کھمبے پر لگے ہوئے بورڈوں پر لکھا تھا،

    بلیر گھاٹ، اکیاون میل۔

    سجنواں کلاں، اٹھارہ میل۔

    شیام باڑہ، چوراسی میل۔

    احمد پور، ایک سو باون میل۔

    قریب ہی ڈسٹرکٹ آکٹرائے ٹیکس آفس تھا جس کے جھکے ہوئے سائبان کے نیچے ایک دھندلا سا لیمپ جل رہا تھا۔ او ر بوڑھا محرر رجسٹروں کو کھولے ہوئے کھانس رہا تھا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل یہاں پر دونوں ٹرکوں کی چنگی کا محصول ادا کیا گیا تھا۔

    وانچو ٹرک پر سے اترا اور سیدھا سائبان کے نیچے چلا گیا اور سرگوشی کے لہجہ میں آہستہ سے بولا،

    منشی جی میرے خیال میں، آپ کے رجسٹروں میں ٹائم تو درج نہیں ہوتا ہوگا، ’’پھر بغیر جواب کا انتظار کئے ہوئے اس نے چوکنے نظروں سے چاروں طرف دیکھا اور تیس روپے کے کرنسی نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دئے۔ لیجئے ان کو رکھ لیجئے، اگر کوئی دریافت کرنے آئے تو کہہ دیجئے گا کہ دونوں ٹرک کوئی ساڑھے آٹھ بجے کے قریب یہاں آئے تھے، سمجھ گئے نا آپ!‘‘

    اور بوڑھے محرر نے گردن ہلا دی، ’’ایسا ہی ہو جائےگا۔ پر کوئی گھبرانے کی بات تو نہیں!‘‘

    وانچو ڈرامائی انداز میں قہقہہ لگا کر کہنے لگا،’’جب تک ہم موجود ہیں اس وقت تک بھلا آپ پر کوئی آنچ آ سکتی ہے۔‘‘

    وہ بھی ہنسنے لگا، ’’سو بات تو یہ ہے، پر بات اتنی ہے سرکار اب زمانہ بڑا خراب لگ گیا ہے۔ ذرا ذرا سی بات میں سسرے بال کی کھال نکالتے ہیں۔‘‘

    اور پھر چونگی کے محرر کو مطمئن کر کے وہ مسکراتا ہوا ٹرک کے اندر جا کر بیٹھ گیا۔ دونوں ٹرک پھر روانہ ہو گئے۔ سامنے پتمبر پور روڈ اندھیرے میں بل کھاتی ہوئی چلی گئی ہے۔ مگر دونوں ٹرک پھر اس طرف جانے کی بجائے راحیل روڈ کی طرف مڑ گئے۔ وانچو نے گھڑی میں وقت دیکھا، اب ڈیڑھ بج رہا تھا اور پھر دو بجنے سے پہلے ہی دونوں ٹرک ابیر گڑہ پولیس اسٹیشن کے قریب جا کر ٹھہر گئے۔ وانچو تھانہ کے اندر چلا گیا اور ڈیوٹی انسپکٹر کو ڈیڑھ سو روپے دے کر اس نے ایک ٹرک کا چالان کرا دیا۔ روزنامچہ میں درج کر دیا گیا۔

    ’’ٹرک نمبر 3136، نو بجے شب کو راحیل روڈ پر سے گزرتے ہوئے بغیر ہیڈ لائٹس کے پایا گیا۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کی بیٹری خراب تھی۔ ٹرکِ مذکور یونائیٹڈ انڈسٹریز لمیٹڈ کی ملکیت ہے اور اس میں آلو کے بورے لدے تھے۔‘‘

    اور اسی طرح حکیم پور کے تھانہ پر مزید ڈیڑھ سو روپیہ رشوت دے ک ر دوسرے ٹرک کا بھی چالان کرا دیا گیا اور ہیڈ کانسٹیبل سرکاری روزنامچہ میں اندراج کرنے لگا،

    ’’پونے دس بجے شب کو ٹرک نمبر 6228 راحیل روڈ، پر اتنی تیز رفتار سے گزر رہا تھا کہ کسی حادثہ کے ہو جانے کا خطرہ تھا۔ ڈیوٹی انسپکٹر ہرنام سنگھ نے اس کو رکوا کر تحقیقات کی تو یہ بھی دریافت ہوا کہ ڈرائیور مسمی نظر کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی موجود نہ تھا!‘‘

    اس کے بعد دونوں ٹرک پھر راحیل روڈ پر تیزی سے گزرنے لگے اور صبحِ کاذب کی گہری دھند میں دونوں ٹرک بلیر گھاٹ پر پہنچ گئے۔ پھر چھ بجے سے پیشتر ہی وانچو بھارت انجینئرنگ ورکس کی نئی اسٹوڈی بیکر پر واپس لوٹ پڑا اور ابھی دھوپ بھی اچھی طرح پھیلنے بھی نہ پائی تھی کہ اس کی کار فیکٹری کے پھاٹک کے اندر داخل ہو گئی۔

    وانچو اپنے دفتر میں جا کر حسبِ معمول کمپنی کے کاموں میں الجھ گیا اور رات کے حادثے کی اہمیت سینچر کے روز ہونے والے اس ڈریلمنٹ سے زیادہ نہ رہی جس میں ریلوے کی ایک گیرج فیکٹری کے یارڈ کے اندر ڈمیج ہو گئی تھی اور اس نقصان کے لئے ریلوے نے کوئی چار ہزار روپے کا کلیم کیا تھا اور عدالتی کارروائیوں کے لئے ہرندر پرشاد، ایڈووکیٹ کمپنی کے مشیرِ قانونی ہی موجود تھے۔

    پولیس تحقیقات کرتی رہی، تفتیش برابر ہوتی رہی اور اینٹی کرپشن کا بھاری بھرکم جسم والا انسپکٹر، ہسپتال میں پڑا کراہتا رہا اور مضبوط پٹھوں والا نیل کنٹھ بھنگ چڑھا کر ٹھاٹھ سے گالیاں بکتا ہا اور اور اپنے کوارٹر کے اندر لیٹا ہوا رات گئے تک اونچی آواز میں آلہا گایا کرتا۔

    ’’اور اگر تمہاری بات نہ مانی جائے تو؟‘‘

    ’’پھر تو کنور صاحب اس کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکلےگا۔‘‘

    ’’لیکن دیپ چند تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں کمپنی کا مینجنگ ڈائریکٹر ہوں۔‘‘

    کمرے کے اندر اسی طرح تیز لہجے میں باتیں ہوتی رہیں۔ آتشدان میں کوئلے چٹخ رہے تھے۔ دھکتے ہوئے سرخ انگاروں کی روشنی میں وانچو کا گنجا سر چمکنے لگا تھا۔ مگر وہ خاموش بیٹھا ہوا اپنا بھدا سا پائپ پیتا رہا۔ دریچے سے ہوا کے یخ بستہ جھونکے اندر آ رہے تھے اور فیکٹڑی کے ورکشاپ میں دھڑکتی ہوئی لوہے کی جھنکاروں کا شور سنائی دے رہا تھا۔ باہر ہلکی نیلگوں کہر کے لچھے منڈرا رہے تھے اور اس دھند میں لپٹی ہوئی مینجنگ ڈائریکٹر کی خوبصورت کوٹھی اور نکھری ہوئی معلوم ہو رہی تھی، جس کے باہری ورانڈے میں نیل کنٹھ دیوار سے پیٹھ کو ٹکائے ہوئے چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا۔ ورانڈے میں بالکل اندھیرا تھا اور اس گہری تاریکی میں نیل کنٹھ کا سیاہ آبنوسی جسم آسیب زدہ سایہ کی طرح ڈراؤ نامعلوم ہو رہا تھا۔

    نیل کنٹھ اس طرح اندھیرے میں خاموش بیٹھا رہا اور جب کبھی دیپ چند تیزی سے بولتا تو وہ چونک کر کمرے کے دروازے کی طرف گھبرا کر دیکھتا جیسے اب کچھ نہ کچھ ہونے ہی والا ہے لیکن دیپ چند اندر بیٹھا ہوا اطمینان سے باتیں کرتا رہا۔ اس کے چہرے پر ٹیبل لیمپ کے ’’شیڈ‘‘ کی پرچھائیں پڑ رہی ہے اور اس دھندلی روشنی میں اس کا منحنی جسم ناٹک کے کسی مسخرے کی طرح حقیر نظر آ رہا ہے۔ مگر دیپ چند کمپنی کا چیف اکاؤٹنٹ ہے اور کمپنی کی غیر قانونی سازشوں میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ بات نیلی آنکھوں والا وانچو بھی جانتا ہے اور اس کی اہمیت مینجنگ ڈائریکٹر کو بھی معلوم ہے، جس کو فیکٹری کے اندر سب لوگ کنور صاحب کہتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ رانی بازار کے علاقے کا جاگیردار ہے۔ وہ کاروباری مکینک سے زیادہ گھوڑوں کی نسلیں اور عورتوں کی مختلف قسموں کے متعلق بہت کچھ جانتا ہے۔ اس لئے کہ اس نے زندگی بھر ریس میں گھوڑے دوڑائے ہیں اور عورت کے جسم پر کسی کیمیا گر کی طرح کوک شاستری تجربے کئے ہیں اور جب سے جاگیرداری پر زوال آنے کی افواہیں سرکاری حلقوں میں گشت کرنے لگی ہیں، اس نے بھی اپنے سرمایے کو محفوظ کرنے کے لئے کسی انڈسٹری میں داخل ہو جانا ہی اپنے حق میں بہتر سمجھا اور اس دور اندیشی نے اس کو کنور شیوراج سنگھ سے ایک بارگی یونائیٹڈ انڈسٹریز کا مینجنگ ڈائریکٹر بنا دیا ہے لیکن کمپنی کا چیف اکاؤٹنٹ اس کی باتوں سے ذرا بھی مرعوب نہیں ہوا بلکہ اس نے بڑی بے نیازی سے کہہ دیا،

    اور آپ کو یہ معلوم ہے کہ میں کمپنی کا چیف اکاؤٹنٹ ہوں۔ سارے رجسٹر میرے ہی پاس رہتے ہیں۔ مینجنگ ڈائریکٹر ایک بارگی برافروختہ ہو کر بولا، ’’ٹھیک ہے کہ تمام رجسٹر تمہاری نگرانی میں رہتے ہیں مگر اس بات سے تمہارا مطلب؟‘‘

    وہ کہنے لگا، ’’چوٹ کھایا ہوا انسان بڑا خطرناک ہوتا ہے، کنور صاحب!آپ میرے ساتھ حق تلفی کریں گے تو میں بھی سارے رجسٹروں کو کل ڈائریکٹروں کی میٹنگ میں پیش کر سکتا ہوں۔‘‘

    مینجنگ ڈائریکٹر کے سانس کی رفتار ایک دم سے تیز ہو گئی اور وہ منحنی جسم والے دیپ چند کو عقابی نظروں سے گھورنے لگا لیکن دیپ چند بیٹھا ہوا مزے سے اپنی کنپٹی کھجاتا رہا۔ اس لئے کہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مینجنگ ڈائریکٹراس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ پوری طرح اس کے قابو میں ہے۔ دیپ چند اس کی سازش کے اتنے بڑے راز کا محافظ ہے کہ وہ جس وقت بھی چاہے اس کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ سیمنٹ اور آئرن جن داموں پر چور بازار میں فروخت ہوتا ہے، کمپنی کے رجسٹروں میں ان کی قیمت بہت کم درج کی جاتی ہے اور اس طرح اب تک مینجنگ ڈائریکٹر نے پوشیدہ طور پر کوئی دو لاکھ روپیہ غبن کر لیا ہے لیکن دیپ چند کو اپنے اعتماد میں رکھنے کے لئے اس نے دس فیصدی کا شریک دار بنا لیا تھا اور اس بیس ہزار روپے کی ادائیگی کے لئے اس کی نیت بدل گئی اور دیپ چند کے اکثر توجہ دلانے پر بھی وہ برابر ٹالتا رہا لیکن اس کے لئے کائس تھوں کے رواج کے مطابق ابھی اس کو دس ہزار روپیہ تلک میں دینا ہے۔ ورنہ یہ سگائی نہیں ہو سکتی لیکن مینجنگ ڈائریکٹر چاہتا ہے کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز سے سفارش کر کے اس کی تنخواہ کو ڈھائی سو روپے ماہانہ سے ساڑھے تین سو کروا دے۔ مگر دیپ چند کو یہ رشوت منظور نہیں ہے۔ اسے بیس ہزار روپیہ چاہئے ہے اس لئے کہ وہ اپنی لڑکی کا بیاہ جلد ہی کر دینا چاہتا ہے۔

    مینجنگ ڈائریکٹر کا چہرہ جھنجھلاہٹ کے اثر سے برا بر غضبناک ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی کاروباری زندگی پر جاگیرداری کا روپ برابر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔

    پھر یکبارگی وہ کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر سے صرف رانی بازار کے علاقہ کا کنور شیور راج سنگھ رہ گیا۔ اس نے میز پر زور سے گھونسا مار کر کہا،

    ’’تم میرے کمرے سے باہر نکل جاؤ ‘‘ اور پھر وہ چیخ کر زور سے بولا، ’’جاؤ جو تمہارے جی میں آئے کرو۔‘‘

    او رمنحنی جسم والا ناٹک کا مسخرہ مسکین سی شکل بنائے ہوئے خاموشی سے اٹھ کر دروازے کے باہر چلا گیا۔ کمرے کے اندر گہری خاموشی چھا گئی۔ آتشدان میں دھکتے ہوئے کوئلے کبھی کبھی چٹخنے لگتے ہیں اور باہر لان میں دیپ چند کے قدموں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ پھر وانچو نے اپنا بھدا پائپ میز پر رکھ دیا اور مینجنگ ڈائریکٹر سے کہنے لگا،

    ’’کنور صاحب یہ آپ نے کیا کر دیا؟‘‘

    ’’کچھ نہیں سب ٹھیک ہے۔ کل سویرے ہی اس کو نوٹس دے کر نوکری سے علیحدہ کر دو۔‘‘

    وانچو گھبرا کر بولا، ’’لیکن اس طرح سے کام تو نہیں چلےگا۔ بلکہ اب تو وہ اور بھی آسانی سے ہم کو بلیک میل کر سکتا ہے، اس لئے کہ اس کے پاس ہمارے خلاف بہت سے ڈاکومینٹری ثبوت موجود ہیں۔‘‘

    کنور شیو راج سنگھ گہری خاموشی میں کھو گیا اور خود کو بڑا بے بس محسوس کرنے لگا۔ پھر اس نے بڑی بے چارگی سے کہا، ’’اچھا تو اب کچھ تم ہی کرو۔‘‘

    وانچو کہنے لگا، ’’آپ ذرا اندر کوٹھی میں تشریف لے جائیں، سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا۔ میرے ہوتے ہوئے بھلا آپ پر کوئی حرف آ سکتا ہے۔‘‘

    کنور شیو راج سنگھ نے خاموشی سے اس کی طرف دیکھا اور پھر کرسی پر سے اٹھ کر وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد وانچو نے نیل کنٹھ کو اندر کمرے میں بلایا اور اس سے کہنے لگا،

    ’’نیل کنٹھ مہاراج، دیکھو دیپ چندا بھی زیادہ دور نہ گیا ہوگا۔ تم جا کر اس کو بلا لاؤ، کہنا کہ سیکرٹری صاحب نے بلایا ہے۔‘‘ اور نیل کنٹھ تیز تیز قدموں سے کوٹھی کے باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ لوٹا تو اس کے ہمراہ دیپ چند بھی تھا۔ نیل کنٹھ پھرجا کر ورانڈے میں ٹھہر گیا اور وانچو دیپ چند سے کہنے لگا،

    ’’اکاؤٹنٹ صاحب آپ بھی خوب آدمی ہیں۔ بوڑھے ہونے کو آ گئے مگر مزاج پہچاننا آپ کو ابھی تک نہیں آیا۔ بھلا اس طرح بھی کوئی بات طے ہوتی ہے۔‘‘

    لیکن دیپ چند بھی کم سیانا نہ تھا۔ وہ پہلے ہی بھانپ گیا تھا کہ اس کا ’’ترپ‘‘ ٹھیک پڑا ہے اور اب وہ اس کے قابو سے نکل کر جا نہیں سکتے۔ اس دفعہ وہ بھی ذرا نرمی سے بولا، ’’مگر سیکرٹری صاحب یہ تو دیکھئے کہ کنور صاحب تو میرا گلا کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آ ہی بتائیے کہ میں کرتا بھی تو کیا۔‘‘

    وانچو اپنے خاص انداز میں کہنے لگا، ’’کمال کر دیا آپ نے۔ اتنا تو آپ جانتے ہی ہیں کہ زندگی میں پہلی بار وہ اس کاروباری بکھیڑے میں آ کر پھنسے ہیں۔ انہوں نے تو ہمیشہ حکم چلائے ہیں اور اپنی جاگیر میں من مانی حکومت کی ہے۔ دیکھئے رئیسوں سے بات کرنے کا اور ہی گر ہوتا ہے۔ ان کے سامنے تو ہر بات پر بس ہاں کرتے جائیے، پھر جو کام جی چاہے ان سے کرا لیجئے۔‘‘

    اور دیپ چند نے جیسے اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا۔ ذرا پشیمانی کے سے انداز میں کہنے لگا، ’’اب کیا عرض کروں سیکرٹری صاحب۔ مجھے بھی اس وقت نامعلوم کیا سوجھی کہ ان کے سامنے ذرا تیزی سے بات کرنے لگا۔ دراصل میں اپنی لڑکی کی سگائی کے سلسلے میں ادھر بڑا پریشان ہوں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ میں بواسیر کا پرانا مریض ہوں۔ روز بروز تندرستی گرتی جا رہی ہے۔ اپنی زندگی میں ہی اس کے ہاتھ پیلے کر دوں، بس اب تو یہی لگن ہے۔‘‘

    وانچو ہمدردی کرنے لگا، ’’جی ہاں، لڑکی کا ہونا بھی اس سوسائٹی میں اچھی خاصی مصیبت ہی ہے لیکن بات کے اسی پہلو پر آپ نے زور دیا ہوتا تو بھلا کنور صاحب انکار کر سکتے تھے۔ انہوں نے لاکھوں روپیہ ریس بازی پر تباہ کیا ہے۔ کیا اس کنیا دان کے لئے وہ کچھ نہ کرتے۔‘‘

    ’’اچھا تو اب آپ ہی بتائیے کہ میں کیا کروں؟‘‘

    وانچو کہنے لگا،’’کرےگا کیا۔ کنور صاحب نے جب آپ سے وعدہ کیا ہے تو آپ کو اپنا روپیہ ملےگا۔‘‘

    منحنی جسم والے دیپ چند کے روکھے چہرے پر ایک بارگی زندگی کی رمق پیدا ہو گئی۔ وہ مسکرا کر بولا، ’’تو پھر اس کام کو اب کراہی دیجئے سیکرٹری صاحب! آپ کا بہت بڑا احسان ہو گا۔‘‘

    وانچو جلدی سے بولا، ’’آپ خواہ مخواہ مجھ کو شرمندہ کر رہے ہیں۔‘‘ پھر اس نے میز کی دراز میں سے کنجی نکالی اور دیپ چند کے سامنے اس کو ڈال کر کہنے لگا، ’’لیجئے ذرا سیف میں سے چیک بک نکال لیجئے۔ میں آپ کے لئے ابھی چیک تیار کئے دیتا ہوں۔ اس وقت تو کنور صاحب کا موڈ بگڑا ہوا ہے۔ سویرے آفس پہنچنے سے پہلے ہی میں ان سے دستخط کروا کے آپ کو چیک دے دوں گا۔ آپ بالکل اطمینان رکھیں۔‘‘

    اور دیپ چند جیسے واقعی مطمئن ہو گیا۔ اس نے کچھ بھی نہ کہا اور چپ چاپ گھبرائے ہوئے انداز میں کنجی اٹھائی اور دیوار کے پاس کھڑے ہوئے آہنی سیف کے پاس پہنچ گیا۔ پھر دیپ چند نے اس کے اوپر لگے ہوئے گہرے سبزی مائل چھوٹے بلب کو دیکھا۔ جو اپنی ایک آنکھ سے اس کی طرف گھور رہا تھا۔ گویا خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس نے تالے کو کھول کر دروازے کو باہر کی طرف کھینچ لیا۔ آہنی سیف کا اندرونی حصہ منہ پھاڑے ہوئے نظر آنے لگا اور وانچو گردن موڑے ہوئے مجرمانہ نظروں سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا اور جیسے ہی دیپ چند نے آہنی سیف کے نچلے خانے کا ہینڈل مضبوطی سے پکڑ کر اس کو کھولنا چاہا اسی وقت وانچو نے دیوار میں لگے ہوئے سوئچ کو دبایا۔ دیپ چند ایکا ایکی بڑی بھیانک آواز سے چیخا۔ پھر اس کے کراہنے کی دبی، دبی آوازیں گہری خاموشی میں ہانپنے لگیں اور وانچو نے جھٹ سے کمرے کے اندر اندھیرا کر دیا۔ آتشدان کی گہری سرخ روشنی میں اس کا بے ہنگم سایہ سامنے والی دیوار پربڑا مہیب نظر آنے لگا۔ دیپ چند کے حلق کے اندر سے بلیوں کے غرانے کی سی خوفناک آوازیں نکل رہی تھیں اور باہر فیکٹری کے ورکشاپ میں لوہے کے ٹکرانے کی آسیب زدہ تاریکی میں کھڑا ہوا وانچو بڑا پراسرار معلوم ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں دہشت تھی اور اس کے گنجے سرپر پسینہ کی نمی آ گئی تھی۔ پھر وہ خواب میں بھٹکنے والے سایوں کی طرح آہستہ آہستہ قدم رکھتا ہوا آہنی سیف کے قریب جا کر ٹھہر گیا اور ذرا دیر تک بالکل ساکت کھڑے رہنے کے بعد اس نے دیپ چند کی طرف دیکھا جس کا ہاتھ ابھی تک ہینڈل سے الجھا ہوا تھا اور وہ فرش پر خاموش پڑا ہوا تھا۔ دھندلی روشنی میں اس کی پھٹی ہوئی آنکھیں بڑی ڈراؤنی معلوم ہو رہی تھیں لیکن وانچو خون خوار نگاہوں سے کھڑا ہوا اس کو چپ چاپ دیکھتا رہا۔ پھر اس نے نیل کنٹھ کو آواز دی اور نیل کنٹھ سہمی ہوئی آواز میں بولا،

    ’’کیا حکم ہے سیکرٹری ساب؟‘‘

    وانچو کہنے لگا، ’’جاؤ ورانڈے میں لگے ہوئے مین سوچ کو ’’آف‘‘ کر دو اور اس کے بعد کمرے کے اندر چلے آنا۔‘‘

    باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ پھر آہنی سیف پر جلتا ہوا سرخ رنگ کا چھوٹا بلب بھی بجھ گیا۔ اب خطرے کی کوئی بات نہیں تھی اور اس کے ساتھ ہی دیپ چند کا ہاتھ ہینڈل پر سے چھوٹ گیا اور اس کا بےجان جسم فرش پر ایک طرف کو لڑھک گیا۔ پھر ذرا دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور نیل کنٹھ اندر آگیا۔ وانچو اس سے کہنے لگا،

    ’’اس کو اٹھا کر باہر لان میں لے جاؤ۔ میں ابھی ذرا دیر میں آتا ہوں۔ اس کی آواز میں دبی ہوئی تھرتھراہٹ تھی۔‘‘

    نیل کنٹھ نے ایک بار بھرپور نظروں سے وانچو کو دیکھا جیسے وہ پوچھ رہا ہو کہ کیا یہ گیا؟ پھر اس نے دیپ چند کی لاش کو اٹھا کر اپنی چوڑی چکلی پیٹھ پر لاد لیا اور کسی کپڑے کی طرح کمر کو جھکائے سنبھل سنبھل کر قدم رکھتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔ پھر وانچو نے دیوار پر لگے ہوئے آہنی سیف کے سوئچ کو احتیاطاً دبا کر ’’آف‘‘ کر دیا اور اپنی کوٹ کی جیب میں سے ٹارچ نکال کر اس کو روشن کیا۔ پھر اس تیز روشنی میں وہ سیف کے پاس پہنچا اور اس کی پشت پر لگے ہوئے فلکس ایبل وائر کو علیٰحدہ کر دیا اور دیوار پر لگے ہوئے برہنہ الیکٹرک وائر پرلڈ شیٹ چڑھا کر دونوں اسکرو، اچھی طرح کس دیئے لیکن ابھی تک آہنی سیف کا اندرونی حصہ منہ پھاڑے ہوئے نظر آ رہا تھا اور جب وہ اس کے دروازے کو بند کرنے لگا تو ایکبارگی اس کو دیپ چند کی پھٹی ہوئی آنکھیں یاد آ گئیں۔ اس کا سارا جسم لرز اٹھا اور آتشدان کے اندر دہکتے ہوئے انگارے کسی جلتی ہوئی چتا کی طرح چٹخنے لگے۔ وانچو کی سانس اب تیزی سے چلنے لگی اور وہ بدحواس سا کمرے سے باہر چلا گیا۔ کوٹھی کے اندر بالکل تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے جلدی سے مین سوئچ ’’آن‘‘ کر دیا اور ایک دم سے دریچوں پر روشنی کی ہلکی ہلکی لہریں جھلملانے لگیں۔ اس وقت کوٹھی کے اندر سے کنور صاحب کے کھانسنے کی آواز سنائی دی۔ مگر اس نے ادھر کوئی توجہ نہ دی اور تیزی سے ورانڈے کی سیڑھیوں پر سے اترتا ہوا باہر لان میں چلا گیا، جہاں نیل کنٹھ کھڑا ہوا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وانچو نے سرگوشی کے سے انداز میں اس کو دھیرے سے آواز دی اور دونوں گہری دھند میں کھوئے ہوئے آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ ان کے قدموں کی دبی، دبی آہٹ سنسان راستے پر دور تک سنائی دیتی رہی!

    رات گئے جب نیل کنٹھ اپنے کوارٹر پر واپس آیا تو دھندلی روشنی میں اس نے ایک دبلے پتلے بچے کو دیکھا جو سردی سے سکڑا ہوا کھڑا تھا۔ اس نے پہلی ہی نظر میں پہچان لیا کہ وہ دیپ چند اکاؤنٹنٹ کا لڑکا منا تھا اور تھرتھرائی ہوئی آواز میں بوڑھے چوکیدار کو پکار رہا تھا، ’’پر بھو بابا‘‘ اور پھر پربھو بابا اندر سے کھانستا ہوا اس کو دیکھتے ہی حیرت سے بولا،

    ’’ارے تم اس سمے کہاں سے نکل پڑے، ہائے رام، کتنے زوروں کا جاڑا پڑ رہا ہے۔‘‘

    سردی سے سکڑا ہوا منا کہنے لگا۔ بابو جی ابھی تک گھر نہیں گئے۔ ماں جی گھبراتی ہیں۔ سو انہوں نے مجھ کو پوچھنے کے لئے بھیجا ہے اور کرشنا دیوی تو رات کو نکلتی نہیں۔

    بوڑھا چوکیدار کہنے لگا کہ وہ کنور صاحب کی کوٹھی پر گئے ہوں گے۔ میں ابھی جا کر ان سے کہہ دوں گا۔ چلو پہلے میں تم کو کوارٹر تک چھوڑ آؤں اور وہ لڑکے کو اپنے ہمراہ لے کر چل دیا۔ نیل کنٹھ اندھیرے میں کھڑا ہوا سب کچھ دیکھتا رہا۔ پھر ایک بارگی اس نے سنا کہ منا ٹھہر کر کہنے لگا تھا،

    ’’پربھو دادا تم جا کر بابو جی کو لے آؤ، میں کوارٹر چلا جاؤں گا۔ تم جلدی سے آجانا۔ وہ ننھی بلو ہے نا! بابو جی کے بنا اس کو نیند نہیں آتی۔ خوب زور زور سے روتی ہے۔‘‘

    اور جیسے نیل کنٹھ کے کان کے پاس کوئی سرگوشی کے سے انداز میں کہنے لگا۔ جاؤ منا اب تمہارے بابو جی کبھی نہیں آئیں گے اور ننھی بلو روتے، روتے ان کے بغیر ہی سو جائےگی۔ وہ فیکٹری کے پاور ہاؤس کے اندر چپ چاپ پڑے ہیں۔ نہ کچھ بولتے ہیں، نہ کسی کی کچھ سن سکتے ہیں۔ تمہاری آواز اب اس تک نہیں پہنچ سکتی۔

    اور نیل کنٹھ محسوس کرنے لگا کہ جیسے وہ بہت تھک گیا ہے۔ اس کا مضبوط پٹھوں والا جسم موم بتی کی طرح پگھلنے لگا ہے اور اس کے چاروں طرف جیسے دبی، دبی سسکیاں دھڑک رہی ہیں۔ پھر وہ خواب کے سے عالم میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے کوارٹر کے دروازے پر پہنچا اور اس کو کھٹکھٹانے لگا لیکن اس شور سے وہ اچانک چونک پڑا اور اس کو یاد آ گیا کہ دروازہ تو اندر سے بند ہے۔ پھر کوارٹر کی پشت پر جا کر صحن کی پچھلی دیوار کو پھاند کر وہ اندر آ گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ ڈسٹرکٹ جیل کی پتھروں والی اونچی دیوار کو پھاند کر رات کے سناٹے میں فرار ہوا تھا۔ اس کے پیچھے گشت کرنے والے پہریداروں کی بھیانک سیٹیاں دیر تک چیختی رہیں اور پھر اپنے کمرے کے اندر لیٹا ہوا وہ بڑی رات تک نہ جانے کیا اوٹ پٹانگ قسم کی باتیں سوچتا رہا۔

    دوسرے دن فیکٹری کے تمام ڈیپارٹمنٹ بند رہے۔ اس لئے کہ چیف اکاؤنٹنٹ دیپ چند کی اچانک موت ہو گئی تھی۔ اس کی لاش پاور ہاؤس کے اندر پائی گئی۔ اس نے الیکٹرک بھینرئیر کے سوئچ ’’بس بار‘‘ کو غلطی سے چھو لیا تھا اور اس حادثہ سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اس اطلاع کے ساتھ ہی فیکٹری کے یارڈ میں یہ بھی سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ دیپ چند نے خود کشی کر لی ہے اور اس کی وجہ جاننے کے لئے کتنی ہی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں لیکن سہ پہر کوپروگرام کے مطابق ڈائریکٹرز کی میٹنگ ہوئی اور کنور شیو راج سنگھ کی سفارش پردیپ چند کے بے سہارا خاندان کے لئے پانچ ہزار کی رقم گزارے کے لئے منظور کر دی گئی۔

    فیکٹری کی تعمیر ایکا ایکی مت پڑتی جا رہی ہے۔۔۔!

    پھاگن کی مہکی ہوئی ہوائیں چلنے لگی ہیں اور ان تیز ہواؤں میں سرسوں کے گہرے زرد پھولوں کی ڈالیاں جھومنے لگتی ہیں اور وہ کھیتوں میں جیسے بسنتی آنچل لہرا جاتے ہیں۔ کھیتوں میں رات گئے تک ڈھولک اور جھانجنیں بجا کرتی ہیں اور ہولی کے راگ اور نیچے سروں میں گائے جاتے ہیں۔ پھر گاؤں کے اندر بڑے بڑے الاؤ دھمکنے لگیں گے اور گلال اڑنے لگےگا۔ پھاگن کی ہوائیں چیختی پھر رہی ہیں کہ ہولی آ رہی ہے، ہولی آ رہی ہے۔ پھر گیہوں کی لہلہاتی ہوئی کھیتیاں کٹنا شروع ہو جائیں گی اور دور کے شہروں میں کام کرنے والے گاؤں کے لوگ موسم سرما میں جھیلوں پر اکٹھے ہونے والے آبی پرندوں کی طرح اپنی بستیوں میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یونائیٹڈ انڈسٹریز لمیٹڈ کی فیکٹری کے یارڈ میں مزدوروں کا شور روز بروز مدھم پڑتا جا رہا ہے۔ فصل کی کٹائی کرنے کے لئے کمپنی کے سارے قلی دھیرے دھیرے فیکٹری کا کام چھوڑ کر بھاگنے لگے ہیں۔ کمپنی نے گھبرا کر ان کی کئی ہفتوں کی مزدوری روک لی ہے۔ اس بات سے قلیوں کے روکھے چہروں پر ہر وقت جھنجھلاہٹ چھائی رہتی ہے۔ وہ ٹائم کیپر آفس میں اکٹھا ہو کر زور ز ور سے چلاتے ہیں۔

    ’’یہ مزدوری کیوں نہیں ملتی، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟‘‘

    ’’یہ سب کیا ہے؟ ہولی کا تہوار آ رہا ہے، ہم کو پیسہ چاہئے ہے۔‘‘

    ’’ہاں، ہم کو اپنی مزدوری چاہئے ہے، ہم کو اپنی مزدوری چاہئے ہے۔‘‘

    لیکن مزدوری ابھی نہیں مل سکتی، اس لئے کہ کمپنی چاہتی ہے کہ شگر پلانٹ جلد ہی تعمیر ہو جائے۔ نہیں تو کمپنی کا بہت نقصان ہو جائےگا۔ مگر مزدور لوگ اس کے باوجود بھی نہیں ٹھہرتے۔ وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں۔ سب کو گالیاں دیتے ہیں۔ پھر کسی روز تاروں کی چھاؤ ں میں اٹھ کر اپنی بستی کو چل دیتے ہیں۔ ان باتوں کو دیکھ کر بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایمرجنسی میٹنگ بلائی گئی اور یہ طے ہوا کہ قلی لوگوں کا ریٹ بڑھا دیا جائے۔ اس لئے کہ فیکٹری کی تعمیر میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ پھر اس کے بعد مزدوری کے ریٹ بڑھنا شروع ہو گئے۔

    ایک روپیہ چھ آنے یومیہ!

    ایک روپیہ دس آنے یومیہ!

    ایک روپیہ چودہ آنے یومیہ!

    مگر ان تین ہفتوں میں ریٹ بڑھانے کا تجربہ بھی کچھ کارگر ثابت نہ ہوا۔ بلکہ ہولی کا الاؤ دھمکتے ہی مزدوروں نے اور بھی تیزی سے کام پر سے فرار ہونا شروع کر دیا۔ ہر روز ٹائم کیپر، رجسٹر لے کر مینجنگ ڈائریکٹر کے آفس میں جاتا اور سہمی ہوئی سی آواز میں رپورٹ سناتا۔ مینجنگ ڈائریکٹر جھنجھلا کر مزدوروں کے ساتھ سہمے ہوئے ٹائم کیپر کو بھی گالیاں دینے لگتا۔ پھر ایک روز اس نے وانچو کو اپنے دفتر میں بلایا اور پریشانی کے عالم میں کہنے لگا،

    ’’مسٹر وانچو آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ یہ ریٹ اس طرح کب تک بڑھایا جائےگا۔‘‘

    مگر وانچو بھی کچھ گھبرایا ہوا نظر آ رہا ہے، وہ آہستہ آہستہ کہنے لگا، ’’کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کنور صاحب، بات یہ ہے کہ یہ ترائی کا علاقہ ہے، ’’یہاں کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ اس دفعہ یہی سن رہا ہوں کہ فصلیں بہت اچھی رہی ہیں۔ راشن کا زمانہ ہے، کسانوں کے ٹھاٹھ ہو گئے ہیں۔ اب انہیں یہ فیکٹری کی نوکری کیا اچھی لگےگی اور یہ زمینداری ابالیشن کی خبروں نے تو ان کا اور بھی دماغ خراب کر دیا ہے۔‘‘

    وہ اور بھی پریشان ہو کر بولا، ’’تم نے پوری کتھا سنانا شروع کر دی۔ اس طرح کیسے کام چلے گا۔ یہ بتاؤ کہ لیبر کا کیسے بندوبست ہو۔‘‘

    وانچو ذرا دیر تک مینجنگ ڈائریکٹر کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر وہ بڑے اعتماد سے بولا، ’’میری سمجھ میں تو ایک ہی بات آتی ہے، لیکن اس میں خطرہ بھی ہے اور روپیہ بھی اچھا خاصہ خرچ ہوگا۔‘‘

    مینجنگ ڈائریکٹر جلدی جلدی کہنے لگا، ’’ذرا اپنے آپ کو بچا کر کام کرنا اور روپیہ کی تم فکر نہ کرو، میں ڈائریکٹروں سے نبٹ لوں گا اور یوں بھی کچھ کم خرچ ہو رہا ہے۔ اگر آئندہ سیزن تک فیکٹری اسٹارٹ نہ ہوئی تو یہ سمجھ لو کہ کمپنی دیوالیہ ہو جائےگی۔‘‘

    وانچو پوچھنے لگا، ’’آپ کے خیال میں یہ بنگالی کیمسٹ سانیال کیسا آدمی ہے، اس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟‘‘

    وہ گردن ہلا کر بولا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ آدمی تو وہ کام کا ہے۔ انارکسٹ پارٹی میں کئی سال تک رہ چکا ہے۔ انہی دنوں پولیس نے ایک بار گرفتار کر لیا تھا۔ بہت بری طرح اس کو ٹارچر کیا مگر اس نے ذرا سا بھی سراغ نہ دیا۔ تم اس پر اعتبار کر سکتے ہو۔‘‘

    پھر وانچو نے چپراسی کو آواز دی اور اس کو سانیال کے بلانے کے لئے بھیج دیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد بھدے چہرے والا کیمسٹ دفتر کے اندر آ گیا۔ وانچو نے خاموشی کے ساتھ اس کا گہری نظروں سے جائزہ لیا اور پھر پوچھنے لگا، ’’مسٹر سانیال، نومبر کے مہینہ میں آپ کمپنی کے کام سے بمبئی گئے تھے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، وہاں آپ نے گورنمنٹ لیبارٹری سے بھی کچھ مشورہ کیا تھا وہاں کوئی آپ کا جاننے والا تو نہیں ہے؟‘‘

    بھدے چہرے والا سانیال ذرا دیر تک غور کرنے کے بعد بولا، ’’جی ہاں! میری وائف کے ایک رشتہ دار اس میں کام کر رہے ہیں، جن کے فلیٹ میں دو روز تک ٹھہرا بھی تھا۔‘‘

    اور وانچو کا گھبرایا ہوا چہرہ ایک بارگی جیسے دمک اٹھا۔ وہ چنگی بجا کر بولا، ’’پھر تو سب کچھ ٹھیک ہے۔ دیکھئے آج رات کی گاڑی سے آپ دھلی چلے جائیں اور وہاں سے ہوائی جہاز کے ذریعے بمبئی پہنچ جائیے، آپ کو گورنمنٹ لیبارٹری کے ذریعے ایک بڑا اہم کام کرنا ہے۔‘‘ اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس نے ٹیلیفون اٹھا کر دھلی کے واسطے سیٹ کی ریزرویشن کے لئے اسٹیشن ماسٹر سے گفتگو کی اور سہ پہر تک دس ہزار روپے کا ڈرافٹ بنوا کر اس کو دے دیا۔ پھر شام کے وقت مینجنگ ڈائریکٹر کی کوٹھی پر سانیال، وانچو کے ساتھ بند کمرے کے اندر دیر تک راز دارانہ باتیں کرتا رہا اور پروگرام کے مطابق شب کی ٹرین سے دھلی روانہ ہو گیا۔

    پانچویں دن فیکٹری میں سانیال کا بمبئی سے ٹیلیگرام آیا، لکھا تھا، ’’ہارڈویئر کا بازار بہت خراب ہے۔ کرشنگ سلنڈر ابھی تک نہیں ملا‘‘ وانچو نے تار کو کئی بار پڑھا اور اپنے دفتر میں خاموش بیٹھا ہوا اس ’’کوڈنیوز‘‘ پر غور کرتا رہا۔ پھر کئی روز اور گزر گئے لیکن کوئی اطلاع نہ ملی اور وانچو کی بےچینی بڑھنے لگی۔ اس پریشانی میں اس کے رخساروں کی ابھری ہوئی ہڈیاں اور بدنما معلوم ہونے لگی تھیں۔ پھر ایک روز فیکٹری کا کیمسٹ سراسیمگی کے عالم میں اس کے دفتر میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے کے بھدے نقوش گھبراہٹ سے دھندلے معلوم ہو رہے تھے۔ وانچو کرسی پر خاموش بیٹھا ہوا اس کو غور سے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے آہستہ سے پوچھا۔

    ’’کیا خبر لائے ہو؟‘‘

    ’’کام تو بن گیا‘‘

    وانچو مسکرانے لگا، ’’تو پھر تم اتنے پریشان کیوں ہو؟‘‘

    سانیال دروازہ کی طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگا۔ پھر اس کے قریب جھک کر کہنے لگا۔ مجھے ایک شخص پر شبہ ہوا ہے کہ وہ بمبئی سے میرا پیچھا کر رہا ہے، وانچو لحظہ بھر کے لئے گہری خاموشی میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا،

    ’’اچھا آپ جا کر ذرا سا نہا دھوکر آرام کیجئے۔ اس قدر گھبرانے کی کوئی بات نہیں سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘

    سانیال ذرا دیر تک خاموش کھڑا رہا پھر دفتر سے باہر چلا گیا اور وانچو آہستہ آہستہ چلتا ہوا کھڑکی کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ بھدے چہرے والا کیمسٹ فیکٹری کے پھاٹک سے نکل کر اپنے کوارٹر کی طرف جا رہا تھا۔ وانچو چپ چاپ کھڑا ہوا اس کو دیکھتا رہا اور جب ایک موڑ پروہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو وہ پھر اپنی میز پر آ گیا اور ٹیلیفون اٹھا کر مینجنگ ڈائریکٹر کو رنگ کیا۔ وہ کوٹھی پر موجود تھا۔ وانچو نے بنگالی کیمسٹ کے آنے کی اس کو اطلاع دی اور خود بھی دفتر سے نکل کر کنور صاحب کی کوٹھی کی طرف چل دیا۔

    اور جب رات ذرا ڈھل گئی اور گہرے سناٹے میں دونوں کا شور تیز ہو گیا، تو وانچو نے فیکٹری کی جیپ اسٹارٹ کی جس کی پچھلی سیٹ پر آبنوسی جسم والا نیل کنٹھ خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ فیکٹری کے احاطے سے نکل کر جیپ روشن نگر روڈ کی طرف مڑ گئی۔ تیرہ میل تک پختہ سڑک ہے، اس لئے جیپ سنسناتی ہوئی تیز ی کے ساتھ گزرتی رہی۔ مگر جب ناہموار پتھریلی سڑک آ گئی تو جیپ کو جھٹکے لگتے اور وہ کھڑ کھڑانے لگتی لیکن وانچو خاموشی سے بیٹھا ہوا اس کو ڈرائیو کرتا رہا۔ ا س کے چہرے پر بڑا پراسرار سکوت چھایا ہوا ہے اور نیل کنٹھ پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا سوچتا رہا ہے کہ جھٹکوں سے اس کا سر بوجھل ہوتا جا رہا ہے۔ باہر پھاگن کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ پھاگن کی ہوائیں جو ہولی کا سندیسہ لاتی ہیں اور ہولی جو اب ختم ہو چکی ہے۔۔ اب تو گیہوں کی فصلیں کٹ رہی ہیں اور ہنسیا کی تیز باڑھ سے لہلہاتی ہوئی گیہوں کی بالیاں کھیتوں میں ڈھیر ہو جاتی ہیں۔ جانے اشیر گڑھ کے خوبصورت گاؤں میں اب نیل کنٹھ مہاراج کو کوئی یاد کرتا ہے جس کی کٹائی کا چوپال پر بڑا چرچا رہا کرتا تھا ور ایکا ایکی بانبی کی لے پر جھومنے والے ناگ کی طرح وہ بےہوشی کے عالم میں بڑبڑانے لگا۔

    ’’میں ایک کسان ہوں، ہاں میں کسان ہوں!‘‘

    پھر کسی نے فوراً ہی اس کا گلا دبوچ لیا، نہیں تو مجرم ہے، تو مجرم ہے۔ پولیس تیرا وارنٹ لئے ابھی تک تلاش کر رہی ہے۔

    نیل کنٹھ نے چونک کر دیکھا، سامنے وانچو اطمینان سے اسٹرینگ پر بیٹھا ہوا تھا اور پتھریلی سڑک پر جیپ ہچکولے کھا رہی تھی اور ستاروں کی مدھم روشنی میں کوہستانی چٹانیں سایوں کی طرح کوسوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ پھر ایک بارگی وانچو نے جیپ کو نیچے ڈھلوان پر گھما دیا۔ نیل کنٹھ گھبرا کر اپنی سیٹ سے چمٹ گیا لیکن جیپ ڈگمگاتی ہوئی آہستہ آہستہ گنجان درختوں کے نیچے کچھ دور تک چلتی رہی اور پھر گہرے اندھیرے میں جا کر ٹہر گئی اور دونوں اتر کر نیچے آ گئے۔ وانچو نے آگے والی سیٹ کے نیچے سے ڈائنا مائٹ کے بھاری کیس کو باہر نکالا۔ یہ ڈائنا مائٹ جس کو فیکٹری کا کیمسٹ بمبئی سے اپنے ہمراہ لایا تھا جس کو گورنمنٹ لیبارٹری سے سمگل کیا گیا تھا او ر جس پر کمپنی کا نو ہزار سے زائد روپیہ خرچ ہوا تھا۔ پھر نیل کنٹھ نے اس کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں سنبھال لیا اور دونوں اندھیرے میں چلنے لگے۔ ان کے قدموں کے نیچے خشک پتے کھڑکھڑا رہے تھے اور درختوں سے الجھتی ہوئی کوہستانی ہوائیں ہانپتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ اندھیرا بہت گہرا تھا اور پتھریلی چٹانوں میں بہنے والی کوکیلا ندی کا شور سنائی دینے لگا تھا۔ دونوں اسی طرح کئی فرلانگ تک چلتے رہے۔ پھر ایک جھکے ہوئے ٹیلے پر سے گذر کر جب وہ نشیب میں پہنچے تو پتھروں سے ٹکراتا ہوا دریا کا شور بڑا ہیبت ناک معلوم ہونے لگا تھا۔ اس وادی میں کیلا ندی کا بہاؤ بہت تیز ہے۔ دونوں طرف سر بلند کوہسار ہیں اور جہاں پر دریا کا دھارا بہت تیز ہو گیا ہے، اس مقام پر سرکاری ڈیم بنا ہوا ہے۔ گورنمنٹ نے ہائیڈرو الیکٹرسٹی پیدا کرنے کے لئے اس کو تعمیر کروایا ہے۔ اس بندھ کے پاس پانی گرجتا ہوا اونچائی پر سے گرتا ہے اور قریب ہی میں پتھروں کی بنی ہوئی چھوٹی سے عمارت ہے جس کے سامنے دو پہریدار سنگینوں کو سنبھالے ہوئے مستعدی سے کھڑے رہتے ہیں۔

    پھر وانچو کی ہدایات کے مطابق نیل کنٹھ، ڈائنامائٹ کو سنبھالے ہوئے، آہستہ آہستہ بکھرے ہوئے پتھروں پر چلنے لگا اور پھر وانچو، اس کے وائر کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے، پتھریلی چٹانوں کے اندھیرے میں بیٹھا رہا۔ اس کی تیکھی نظریں سامنے پتھروں پر جاتے ہوئے نیل کنٹھ کا پیچھا کرتی ہیں۔ ڈیم کے پاس پہنچ کر، اچانک وہ اندھیرے میں غائب ہو گیا اور دریائے ککیلا کا تیز دھارا ڈیم کے نیچے گرجتا رہا۔ اس مہیب شور میں پھاگن کی ہوائیں جیسے سوگئی تھیں اور سربلند کوہسار خوابوں میں ڈھکے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔ پھر ایکا ایکی ڈیم کے اوپر ایک دھندلی روشنی میں ایک انسانی سایہ لہرایا اور اسی وقت پتھریلی عمارت کے نزدیک کھڑے ہوئے پہریدار نے چیخ کر کہا۔

    ’’ھالٹ۔‘‘ ’’ہے کون ہے، ٹھہر جاؤ‘‘

    اور اس کے ساتھ ہی بندوق کی تیز آواز وادی کے اندر دھڑکنے لگی لیکن نیل کنٹھ آہنی گارڈ سے چمٹا ہوا ڈائنامائٹ کو ’’فٹ‘‘ کرتا رہا۔ گولی اس کی کنپٹی کے پاس سے ایک بار زن سے گزر گئی۔ وانچو اندھیرے میں بیٹھا ہوا سہمی نظروں سے ڈیم کی طرف دیکھتا رہا۔ ایک دفعہ پھر بندوق کی آواز کوہستانی چٹانوں میں چیخنے لگی اور اس کی دھڑکن کوہساروں کی گہرائی میں دیر تک ہانپتی رہی۔ وانچو کا جسم تھرتھرا کر رہ گیا پھر ایک دم سے ڈائنامائٹ کا وائر زور زور سے ہلنے لگا۔ گویا اب اپنا کام شروع کر دینا چاہئے مگر نیل کنٹھ ابھی تک کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔

    کوئی ایک منٹ اس کے انتظار میں گزر گیا۔

    پھر کئی منٹ بڑی بے چینی کے عالم میں گزر گئے!

    وانچو نے ایک بارگی جھنجھلا کر سوچا کہ وہ ڈیم کو اڑا دے۔ اس لئے کہ اب زیادہ تاخیر کرنا بہت خطرناک تھا لیکن خطرے کے شدید احساس کے باوجود بھی وہ کچھ طے نہ کر سکا اس لئے کہ اگر نیل کنٹھ ڈیم کی تباہی کے ساتھ وہیں مرگیا اور بعد میں اس کی لاش شناخت کر لی گئی تب تو بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جاتا اور یہی سوچ کر وہ برے اذیت ناک لمحوں میں سے گزرتا رہا اور سامنے ڈیم کی طرف دیکھتا رہا۔ آخر رات کی مدھم روشنی میں نیل کنٹھ کا کبڑا جسم نظر آیا۔ وہ پتھروں پر جھکا ہوا آہستہ آہستہ آ رہا تھا جب وہ بالکل قریب آ گیا تو وانچو نے آہستہ سے صرف اس قدر پوچھا ’’سب ٹھیک ہے! ’’ اور نیل کنٹھ نے اثبات میں اپنی گردن ہلا دی۔ وانچو نے مزید تاخیر کئے بغیر ایک بارگی ڈائنامائٹ کو ’’آن’’ کر دیا اور پھر کوہستانی وادی میں بڑی ہیبت ناک گھڑگھڑاہٹ پیدا ہوئی اور خوابوں میں ڈھکی ہوئی سربلند پہاڑیاں لرزنے لگیں۔ سرکاری ڈیم چیتھڑوں کی طرح بکھر کر رہ گیا اور دریائے کوکیلا کا دھارا بڑی تیزی سے نشیب میں بہنے لگا۔

    نیلی آنکھوں والا وانچو نیل کنٹھ کو اپنے ہمراہ لے کر درختوں کے گہرے اندھیرے میں تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔ مگر نیل کنٹھ ہر قدم پر لڑکھڑا جاتا۔ اس کے کندھے پر سے برابر خون بہہ رہا تھا، جو گولی سے بری طرح زخمی ہو گیا تھا اور جب وہ جیپ کے پاس پہنچا تو اس کے پیر بالکل بے قابو ہو چکے تھے۔ وہ ڈگمگاتا ہوا بے جان ہو کر پچھلی سیٹ پر گر پڑا۔ جیپ اسٹارٹ ہو گئی۔ راستہ بھر وہ کراہتا رہا اور اس کے زخم سے خون بہتا رہا۔ جیپ ہچکولے کھاتی تیزی سے گزرتی رہی اور جب وہ فیکٹری کے اندر پہنچے تو نیل کنٹھ پر بے ہوشی کی سی کیفیت طاری تھی۔ اس کا آبنوسی جسم، چھپکلی کی طرح زردی مائل ہو گیا تھا اور اسی لئے کوارٹر میں بھیجنے کی بجائے اس کو مینجنگ ڈائریکٹر کی کوٹھی پر ٹھہرا دیا گیا۔ دریائے کوکیلا پر بنے ہوئے ڈیم کے اس طرح تباہ ہو جانے پر ترائی کے علاقہ میں بڑی سنسنی پھیل گئی ہے اور سرکاری حلقوں میں بڑا تہلکہ مچ گیا ہے۔ اس لئے کہ اس ’’بندھ‘‘ کی تعمیر پر گورنمنٹ کا کروڑ روپیہ خرچ ہوا تھا۔ تحقیقات کرنے کے لئے تمام سرکاری افسروں نے بڑی دوڑ دھوپ شروع کر دی ہے۔ ڈاک بنگلہ کی مرمت ہو رہی تھی اس لئے فیکٹری کے ’’گیسٹ ہاؤس‘‘ میں سب لوگ ٹھہرے ہوئے ہیں اور بڑی سرگرمی کے ساتھ تفتیش ہو رہی ہے۔ ہر مشبتہ آدمی کو حراست میں لے کر پولیس بری طرح ’’ٹارچر‘‘ کر رہی ہے اور انہیں دنوں اچانک ریونیو منسٹر کا داماد نرائن ولبھ فیکٹری میں آ گیا۔ وہ کمپنی کا سب سے اہم ڈائریکٹر ہے۔ رات کو مینجنگ ڈائریکٹر کے پرائیویٹ کمرے میں جب وہ اس کے پاس پہنچا تو ایک دم سے اس پر برس پڑا۔ ’’کنورصاحب یہ آپ نے سب کیا کر کے رکھ دیا ہے۔ مجھے ایسا جان پڑتا ہے کہ یہ فیکٹری اب برباد ہونے والی ہے۔‘‘

    مینجنگ ڈائریکٹر پہلے ہی سرکاری افسروں کی آمد سے بوکھلایا ہوا تھا۔ نرائن ولبھ کی باتوں پر وہ اور بھی بدحواس ہو گیا۔ آہستہ سے بولا، ’’بھئی میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا ہے۔ میں تو یہاں سے بڑا عاجز آ گیا ہوں۔‘‘

    مگر وہ کہتا ہی رہا، ’’اب تو آپ ایسا کہیں گے ہی۔ مگر آپ کو کم سے کم یہ تو سوچنا چاہئے تھا کہ گورنمنٹ کا انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ اتنا احمق تو نہیں کہ اتنی بڑی بات کو بھی نہ سمجھ سکتا۔ ہوم سیکرٹری کے پاس جو رپورٹ پہنچی ہے اس میں اس فیکٹری پر بھی شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ ادھر جو لیبر کی بالکل کمی نہیں، شبہ کر سکتا ہے۔ دراصل ہوا بھی ایسا ہی ہے اس لئے کہ اب کمپنی کو قلیوں کی تلاش میں اپنے ایجنٹ گرد و نواح کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ کمپنی کا لیبر آفیسر ہر روز سویرے صرف پچاس آدمیوں کو اندر بلاتا ہے اور وہ اس کے سامنے قطار بنا کر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ ہر ایک کا جسم ٹٹول کر گوشت کے مضبوط پٹھوں کا اندازہ لگاتا ہے اور جس آدمی کو وہ فٹ سمجھتا ہے اس کی چوڑی چکلی چھاتی پر کھریا سے سفید نشان بنا دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس کو فیکٹری میں کام مل گیا ہے اور چودہ آنے روز مزدوری ملےگی۔ اس کا نام اور پتہ ٹائم کیپر کے رجسٹر میں درج کر دیا جاتا ہے۔ پھاٹک کے باہر کھڑے ہوئے لوگ جانوروں کی طرح گردن اٹھا، اٹھا کر یہ سب کچھ دیکھتے ہیں اور سہمے ہوئے لہجے میں آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہیں!

    مینجنگ ڈائریکٹر اور بھی گھبرا گیا۔ وہ بڑے شکست خوردہ لہجہ میں کہنے لگا، ’’مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ سب کچھ بھی ہو جائےگا۔ وانچو تو مجھ سے برابر یہی کہتا رہا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائےگا‘‘ اس طرح وانچو پر سارا الزام رکھ کر وہ جیسے کس قدر مطمئن ہو گیا اور اس بات کا اثر بھی ٹھیک ہی ہوا۔ یوں بھی کمپنی کا مینجنگ ڈائریکٹر ہونے کے علاوہ وہ رانی بازار کے علاقے کا جاگیردار بھی تھا۔ اس لئے نرائن ولبھ ایک دم سے وانچو پر بگڑنے لگا۔

    ’’وہ تو میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ وانچو مجھ کو بڑا خطرناک آدمی معلوم پڑتا ہے۔ آپ اس کی سازشوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ دیکھئے اب یہی سب سے بہتر طریقہ ہے کہ وانچو کو اسی اشوع؟ پر فیکٹری سے فوراً علیحدہ کر دیا جائے ورنہ جب تک وہ یہاں موجود ہے، ہر وقت خطرہ سامنے ہے آپ پریشان نہ ہوں، میں سب کچھ سنبھال لوں گا۔‘‘

    مینجنگ ڈائریکٹر گہری خاموشی میں کھو گیا اس لئے کہ وہ کسی طرح یہ نہیں چاہتا کہ وانچو اس کے خلاف ہو جائے۔ وہ اس کے ہر خطرناک راز کو جانتا ہے۔ اس طرح نوکری سے برطرف ہو جانے پر اس کا برگشتہ ہو جانے کا پورا خوف تھا۔ تھوڑی دیر تک اسی طرح چپ رہنے کے بعد وہ کہنے لگا، ’’میں تو سوچ رہا تھا کہ اس بات پر اگر وہ کمپنی کا مخالف ہو گیا تو سرکاری گواہ بن کر بہت بڑی مصیبت بن سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی اور طریقے سے اس کو یہاں سے ابھی ہٹا دیا جائے، بعد میں دیکھا جائےگا، ’’اور یہ بات نرائن ولبھ ایم، ایل، اے کی سمجھ میں بھی آ گئی اور پھر دونوں کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے دیر تک کمرے کے اندر بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے اور جب نرائن ولبھ کمرے سے باہر چلا گیا تو کنور صاحب نے وانچو کو بلوا لیا اور ساری باتیں اس کو بتا دیں اور پھر یہ طے ہوا کہ وہ نیپال کی راجدھانی کھٹمنڈو چلا جائے۔ سرحد کو پار کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو گی اس لئے کہ رانا دلیر جنگ جو ریاست کے ایک اہم رکن تھے، وہ کنور صاحب کی شکار گاہوں میں اکثر شکار کھیل چکے تھے او ر دونوں کے آپس میں بڑے اچھے مراسم تھے اور جب تک کھٹمنڈو میں رہےگا اس کو برابر ایک ہزار روپیہ مہینہ مینجنگ ڈائریکٹر کی طرف سے ملتا رہےگا۔ پھر ایک روز فیکٹری کی کار میں بیٹھ کر وہ اسٹیشن کی طرف چل دیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ دفتر میں کام کرنے والے صرف اسی قدر جانتے ہیں کہ وہ کمپنی کے کسی ضروری کام کے سلسلے میں کلکتہ جا رہا ہے اور وانچو کار میں خاموش بیٹھا ہوا دور ہوتی ہوئی فیکٹری کی عمارت کو دیکھتا رہا، جس کی تعمیر کے لئے اس نے خطرناک سازشیں کی تھیں اور وہ فیکٹری اس کی آنکھوں سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ اس کی گہری نیلی آنکھیں بڑی پراسرار معلوم ہوتی تھیں۔

    سرکاری ڈیم تباہ ہو جانے کی وجہ سے کوکیلا ندی میں بڑا بھیانک طوفان آ گیا ہے۔ بپھری ہوئی لہریں ترائی کے میدانی علاقوں میں، شب خون مارنے والے غنیم کی طرح پھیلتی جا رہی ہیں۔ گیہوں کی لہلہاتی فصلیں پانی کے بہاؤ میں بہہ گئی ہیں۔ ساری بستیاں ویران ہوتی جا رہی ہیں اور تباہ حال کسان اپنے گھروں کو چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اور راحیل روڈ پر مریل انسانوں کے قافلے گزرتے ہیں۔ اس لئے کہ سیلاب زدگان کے لئے امیر گڈہ میں سرکار نے رلیف کیمپ قائم کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں گورنمنٹ کا جو پریس نوٹ شائع ہوا ہے، اس میں اعلان کیا گیا ہے کہ اس تباہی میں کمیونسٹوں کی دہشت پسندی کو دخل ہے جو اپنے سیاسی مفاد کے لئے ملک میں بے اطمینانی اور ہیجان پیدا کرانا چاہتے ہیں اور اس لئے پولیس نے کسان سبھا کے دفتر پر چھاپہ مار کر کتنے ہی کسان ورکروں کو حراست میں لے لیا ہے۔

    نیل کنٹھ کنور صاحب کی کوٹھی کے ایک مختصر سے کمرے میں لیٹا ہوا آہستہ آہستہ کراہ رہا ہے۔ اس کے کندھے پر سفید پٹیاں بندھی ہوئی ہیں اور اس کا مضبوط پٹھوں والا آبنوسی جسم چھپکلی کی مانند زردی مائل ہو گیا ہے۔ خون کے زیادہ بہہ جانے سے اس پر بار بار غشی کے دورے پڑتے ہیں اور کنور صاحب نے کمپنی کی طرف سے کمشنر کے اعزاز میں اپنی خوبصورت کوٹھی پر ایک شاندار ڈنر کا انتظام کیا ہے جس کا ہنگامہ رات گئے تک فیکٹری کے اندر گونجتا رہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے