تیسرا سگریٹ
کہانی کی کہانی
ایک ایسے فرد کی کہانی ہے، جس کا دوست بلیک میں ربر بیچنے والے ایک تاجر کو پکڑنے کے لیے اس کا استعمال کرتا ہے۔ وہ تاجر کے لیے ایک دعوت کا انتظام کرتا ہے، جس میں ایک لڑکی بھی شامل ہوتی ہے۔ لڑکی کی تلاش میں کناٹ پلیس میں کھڑا ہوا وہ تیسرا سگریٹ پی ہی رہا ہوتا ہےکہ ایک آدمی اس کے پاس آتا ہے اور بات پکی کرکے چلا جاتا ہے۔ بعد میں وہ آدمی اس شخص کے دفتر میں نوکری مانگنے آتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ لڑکی جو اس نے اسے لاکر دی تھی، وہ کوئی اور نہیں اس کی بہن تھی۔
جب دیو راج نے دیکھا کہ سب ہمہ تن گوش بنے بیٹھے ہیں تو اس نے منہ قدرے اوپر کو اٹھا کر سگریٹ کا دھواں ایک فراٹے کے ساتھ چھوڑنا شروع کیا۔۔۔ اور ہم اس کے گول منہ میں سے دھواں تیزی سے نکلتے اور فضا میں تحلیل ہوتے دیکھتے رہے۔۔۔
یہ اس کی مخصوص عادت تھی کہ بات شروع کی اور جب دوست متوجہ ہوتے تو وہ اپنی داستان میں بڑے طویل وقفے پیدا کرنے لگتا۔ وہ ایسا کیوں کرتا تھا۔ اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ شاید سامعین کے شوق کو تیز سے تیز تر کرنا مقصود ہو یا شاید وہ پرانی فضا میں کھو جانا چاہتا تھا یا ان وقفوں میں تفصیلات فراہم کرتا تھا، مقصد خواہ کچھ بھی ہو لیکن ہمیں یہ وقفے برے نہیں لگتے تھے۔ اس سے ملاقات اکثر کافی ہاؤس میں ہوتی تھی۔ کافی ہاؤس میں بیٹھنے کا ایک ہی مقصد ہوتا تھا یعنی فرصت کے لمحات کو گزارنا۔
اس وقت کافی ہاؤس میں خاصا شور مچا ہوا تھا، دیوراج کے خوب صورت گول چہرے پر ذہنی اذیت کے آثار پیدا ہوئے اور اس نے ہم سب کی جانب متوجہ ہو کر کہا ’’یار! بہت شور ہو رہا ہے۔‘‘
’’ہم سب نے ہامی بھری لیکن ہماری صورتوں سے اس پر واضح ہو گیا کہ باوجود شور کے ہماری دلچسپی کم نہیں ہوئی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے اس کے دل کو تسکین سی حاصل ہوئی اور اس نے سلسلہ کلام جاری کیا۔ یہ دسمبر 1945 کا قصہ ہے۔ میں بےکار تھا۔ تم لوگ جانتے ہی ہو کہ پہلے میں خوب مزے میں تھا۔ لیکن اب کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ بھائی کبھی کبھی تو فیٹ (FATE) قسمت کا قائل ہونا ہی پڑتا ہے۔ حالانکہ کئی بار سوخ حضرات سے مراسم تھے۔ لیکن حرف مدعا زبان تک لاتے ہوئے ہچکچاہٹ سی محسوس ہوتی تھی۔ اور ایک آدھ دوست جن سے کوئی پردہ نہیں تھا کوشش میں مصروف تھے۔ ابھی روزگار کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی تھی کہ ایک دن کناٹ پلیس میں ایک پرانے ہم جماعت سے ملاقات ہو گئی۔۔۔ یہ بجائے خود ایک دلچسپ واقعہ ہے۔‘‘
یہاں تک پہنچ کر اس نے پھر تامل کیا پھر ایک طویل کش لے کر سیٹی بجانے کے انداز سے اس نے ہونٹوں کو گول کیا اور ان میں سے دھواں چھوڑنا شروع کر دیا۔
دھواں نکلتا رہا۔ وہ اپنے دھیان میں اور ہم اپنی کرسیوں میں مگن۔
بات شروع ہوئی۔۔۔ ’’میں ریستوران میں بیٹھا تھا۔۔۔ ریستوران کا نام جان کر کیا کریں گے آپ۔۔۔ اور نہ میں اپنے دوست کا نام بتاؤں گا۔۔۔ وہ سی آئی ڈی کے اینٹی کرپشن محکمے میں ملازم تھا۔ خیر! اب وہ واقعہ سنیے۔۔۔! ریستوران کے گوشے میں میں نے ایک نہایت حسین خاتون کو دیکھا۔ حسین صورت کو دیکھنا کوئی جرم تونہیں لیکن مسلسل دیکھتے رہنا یقیناً معیوب ہے۔۔۔ ہوا یہ کہ میں مالی الجھنوں میں گرفتار تھا۔۔۔ میرے ذہن نے اس حسینہ کے وجود کا احساس تو ضرور کیا لیکن میں اس وقت دوسرے ہی موڈ میں تھا۔ مجھے خوب صورت لڑکیوں سے اس وقت قطعاً کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہو سکتی تھی۔ البتہ میری نگاہ بظاہر اسی طرف جمی رہی اور ذہن نظارگی کے لطف سے خالی تھا۔۔۔ عورت کو یوں محسوس ہوا کہ میں بیہودہ پن سے مسلسل اس کی جانب گھور رہا ہوں۔ اس نے اس امر کی اطلاع پاس بیٹھے ہوئے اپنے خاوند کو دی۔ اس نے مجھے گھور کر کے دیکھا لیکن میں چونکہ خالی الذہن تھا اس لیے میری ٹکٹکی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس پر وہ اٹھا اور قریب آکر اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے گھوم کر دیکھا تو اپنے سامنے ایک خشمگیں چہرہ پایا۔ ناک کے مسّے کی وجہ سے وہ اور بھیانک دکھائی دے رہا تھا۔ میں کچھ سمجھ نہ پایا۔ بے اختیار کہا ’’تشریف رکھیے، میں نے اثبات میں جواب دیا اور ساتھ ہی اسے پہچان لیا۔ ہم کئی برس کے وقفے بعد ملے تھے۔ چنانچہ بڑا پرتپاک مصافحہ ہوا اور وہ مجھے اپنی بغل میں لیے بیوی کے پاس پہنچا اور قہقہہ لگا کر بولا ’’بھئی یہ اپنا دیو راج ہے۔ لو بیٹھو یار! یہ تمھاری بھاوج ہے، دیکھنا ہے تو قریب سے دیکھو۔ میں اس پر شرمایا۔ اس کی بیوی نہ صرف حسین اور پڑھی لکھی تھی بلکہ سچ مچ باذوق خاتون تھی۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا ’’اس میں تو شبہ نہیں کہ آپ قابل دید ہیں لیکن یقین کیجئے، میں اپنی الجھنوں میں گرفتار تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میرا چہرہ آپ کی جانب تھا 151 ’’بھئی میں یقین کرتا ہوں۔‘‘ میرے دوست نے حامی بھری۔ ارے ہم نے کالج میں بھی کئی رومانس لڑائے لیکن دیوراج بچارا تو خود ہی نصف لڑکی تھا۔ حسینوں سے آنکھیں چار ہوتے ہی شرمانے میں پہل انھیں کی طرف سے ہوتی تھی 151 اس پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے 151‘‘
اب پھر وقفہ151 لیکن اس وقفے میں ہم اس دلچسپ حادثے پر قہقہے لگاتے رہے اور دیو راج کو دھواں اڑانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔
’’کچھ دنوں کے بعد پھر میری اپنے اسی دوست سے ملاقات ہوئی۔ اب ہم دونوں تنہا تھے۔ ارادہ یہ ہواکہ دوپہر کا ٹائم بیئر پینے میں گزارا جائے۔‘‘ دیو راج نے پھر اپنا قصہ جاری کیا ’’بیئر کے دو دو مگ ختم ہو گئے تومیرے دوست نے میری بےکاری کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کی۔ میں ہچکچا رہا تھا لیکن اسے اصرار تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ سارے حالات سن کر اس نے ذرا تامل کیا اور پھر کہا یار! تمھیں ایک ترکیب بتاتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ خواہ مخوہ شرافت سے کام نہ لینا۔ میں نے یہ شرط منظور کر لی۔ اس نے کہا ’’دیکھو جہاں تم رہتے ہو، وہیں پر سیٹھ دھنی رام کی کوٹھی ہے۔ تم نے ان کی کالی بھجنگ صورت اکثر دیکھی ہوگی۔ بلکہ شاید تمھاری کبھی ان سے علیک سلیک بھی ہو جاتی ہو۔ ہمارے محکمے کو قابل اعتبار ذرائع سے علم ہوا ہے کہ وہ ربر گڈز میں بلیک مارکیٹنگ کرتا ہے اور اس دھندھے میں لاکھوں روپیہ پیدا کیا ہے اس نے۔ اب اگر تم ذرا اپنی روایتی شرافت کو چھوڑ کر کمر ہمت باندھو تو آم کے آم گٹھلیوں کے دام حاصل کرسکتے ہو 151 مجھے بڑا تعجب ہوا پوچھا کہ آخر میں کیا کرسکتا ہوں151؟‘‘
’’دوست تم بھی ایک بار بلیک مارکیٹنگ کر ڈالو۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’وہ میں بتاتا ہوں۔۔۔ سیٹھ جی اتنا تو جانتے ہی ہیں کہ تم انھیں کے محلے کے نہایت شریف بال بچے دار انسان ہو۔ تم ایک روز ان کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ تم ان کی مدد سے روزگار شروع کرنا چاہتے ہو۔ کہہ دینا کہ پندرہ بیس ہزار روپیہ تمھارے پاس ہے۔ اگر یقینی فائدے کی صورت نظر آئے تو اتنا ہی روپیہ تم اور اکٹھا کر سکتے ہو 151 اس کو تم پر شبہ بھی نہیں ہو سکتا اور وہ راضی ہو جائےگا۔۔۔ بس پھر چاندی ہی چاندی سمجھو۔۔۔‘‘
میرے ہونٹوں پر خشک ہنسی پیدا ہوئی۔ کہا ’’تم بھی گھن چکروں کی سی باتیں کرتے ہو۔ واہ پندرہ بیس ہزار کی بھی خوب رہی۔۔۔ یہاں میرے پاس پندرہ بیس کوڑیاں بھی نہیں ہیں۔۔۔‘‘
میرے دوست نے بے صبری سے مجھے ٹوکا ’’ارے تم کچھ نہیں سمجھے۔ مگر تم تو مجھے بات ختم ہی نہیں کرنے دیتے۔۔۔ روپے کی ضرورت نہیں پڑےگی۔ بس زبانی بات چیت ہوجائے۔۔۔ لیکن اب اصل بات سنو۔ ایک الگ تھلگ مکان کا انتظام کیا جائے۔ کچھ شراب ہو‘ نوجوان لڑکی ہو۔ کھانے پینے کا سامان ہو۔ وہاں سیٹھ صاحب کو بلا لاؤ۔ کہنا کہ میرے ایک دوست کا مکان ہے جو بال بچوں سمیت کسی کی شادی پر چند روز کے لیے باہر چلے گئے ہیں۔‘‘
’’یار! نہ جانے میں پاگل ہوں یا تم۔ آخر یہ شراب۔ کھانے کا سامان اور پھر ایک نوجوان لڑکی۔۔۔ میں یہ چیزیں کہاں سے لاؤں گا۔۔۔‘‘
’’اس کا انتظام ہم کریں گے۔‘‘
’’اچھا اب سمجھا۔۔۔ پھر کیا ہوگا؟‘‘
’’ہوگا یہ کہ تھوڑی سی شراب پی کر وہ تم سے کھل جائےگا۔ کاروباری بات چیت صاف صاف ہو جائےگی اور یہ ساری بات چیت ہم ساتھ والے کمرے میں ریکارڈ کر لیں گے۔ مجرم خود جال میں پھنس جائےگا۔۔۔‘‘
’’بھئی تم سچ مچ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔ مانا اس الف لیلہ کی کہانی کی سب چولیں ٹھیک بیٹھ جائیں تو پھر مجھے کیا حاصل ہوگا؟‘‘
وہ بھی سنو۔ سیٹھ جی پھنس جائیں تو تم ان سے کہنا کہ اگر دس ہزار روپیہ دلوائیے تو معاملہ رفع دفع کروا دوں گا۔‘‘
’’اچھا تو روپیہ لے کر اسے چھوڑ دیا جائے۔‘‘
’’ارے نہیں چھوڑیں گے نہیں۔۔۔ سی آئی ڈی ایسے بدمعاشوں کو چھوڑ نہیں سکتی۔ نہ میں اس روپے میں کچھ لوں گاوہ تو محض تمھاری جیب میں جائےگا۔‘‘
میں نے جھینپ کر جواب دیا ’’معاف کرو دوست مجھ سے یہ نہیں ہو سکےگا۔‘‘
اس پر میرے دوست کو غصہ آیا بولا ’’دیکھو اس قسم کے لوگ پبلک کے دشمن ہیں۔ انھوں نے ملک کو جو نقصان پہنچایا ہے تم اس کا اندازہ تک نہیں لگا سکتے۔ ان کو سزا دلوانا تو ایسا ہی ہے جیسے طاعون کے چوہوں کو ہلاک کرنا۔ میں نے کہا ’’یہ سب ٹھیک ہے میں تمھاری مدد کرنے کو تیار ہوں لیکن میں کسی سے ٹھگی کرنے کو تیار نہیں ہوں۔‘‘
بھئی یہ ٹھگی نہیں۔ یہ تمھارا حق ہے۔ محنت کا حق۔ ہم کو دیکھو ہم پبلک کے دشمنوں کو چکمہ دے کر گرفتار کرتے ہیں اور حکومت ہم کو تنخواہیں دیتی ہے۔ بھئی اگر تمھارا حق محنت مجرم ہی کی جیب سے نکل آئے تو اس میں برائی ہی کیا ہے، غرض میرے دوست نے عملی دنیاکے نشیب و فراز اس انداز سے سمجھائے کہ مجھے آخر کہنا پڑا۔ ’’لیکن دوست یہ تو سوچو کہ میں اس قسم کی تکڑم بازی میں بالکل ہی کورا ہوں بھلا مجھ میں اتنی چالاکی کہاں کہ اتنی لمبی چوڑی اسکیم کو کامیاب بنا سکوں۔‘‘
’’تم لمبی چوڑی اسکیم کی بات کو چھوڑو۔ پہلے تو تمھیں سیٹھ کے پاس جاکر اسے دعوت دینی ہے۔ سمجھے؟‘‘
میں اس کے دلائل کے سامنے ٹھہرنہ سکا۔ لیکن میں نے سوچا کہ اس کے کہنے سے میں سیٹھ کے پاس چلا جاتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ سیٹھ میرے جال میں نہیں پھنسےگا۔۔۔ کیوں کہ میں اس معاملے میں بالکل الو تھا۔ بس یہیں پر بات ختم ہو جائےگی۔‘‘
پھر دیو راج نے تامل کیا۔ ہمیں اس کی داستان میں دلچسپی محسوس ہوئی۔ مگر ہم ان وقفوں کے عادی ہو چکے تھے۔ ہم نے ایک ایک سگریٹ جلا لیا اور اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگے۔ آخر اس نے پھر کہنا شروع کیا 151 ’’میں دوسری شام سیٹھ جی کے وہاں پہنچا۔ دل دھک دھک کر رہا تھا، آواز تک کانپ رہی تھی۔ لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ سیٹھ جی نے بڑی آسانی سے میری دعوت قبول کر لی۔ ان کے دعوت قبول کرنے سے مجھے خوشی ہونے کی بجائے اور پریشانی ہوئی۔‘‘
’’جب میرے دوست نے میری کامیابی کے بارے میں سنا تو اچھل پڑا بولا ’’بس اب پو بارہ سمجھو۔‘‘
’’میں نے مری ہوئی آواز میں کہا ’’یار یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکےگا۔‘‘
’’ارے بھئی! اب کون کام باقی رہ گیا ہے۔ میں تمھیں چند سوال اور چند نکتے سمجھا دوں گا بس سیٹھ سے گفتگو کرنے میں انھیں باتوں کو دھیان میں رکھنا۔ بس مرغاخود ہی پھنس جائےگا۔‘‘
میں نے اس کے راستے میں روڑا اٹکانے کے خیال سے کہا ’’تو بھئی یہ لڑکی وڑکی کا انتظام کیسے کروں گا۔‘‘
’’وہ بھی سنو۔ آج ہی شام کناٹ پلیس جاؤ۔ جہاں ایک چھوٹا سا لال لیٹر بکس ہے وہاں چراغ جلے کھڑے ہوجانا۔ ایک ہی جگہ کھڑے کھڑے سگریٹ پھونکتے رہنا۔ جب زیادہ سے زیادہ تیسرے سگریٹ پر پہنچوگے توکوئی نہ کوئی خضرِ راہ دکھائی دےگا۔ بس معاملہ طے کر لینا۔‘‘
مجھے اس بات کا یقین نہ آیا لیکن چونکہ میرے لیے کوئی خاص جھنجھٹ نہیں تھا۔ اس لیے اندھیرا ہوتے ہی میں اس جگہ پرجا کھڑا ہوا اور پہلا سگریٹ جلایا۔ کش پر کش لگاتا رہا۔ سینکڑوں لوگ ادھر سے اُدھر گزر گئے۔ کسی نے مجھ سے کچھ نہ پوچھا۔ پہلا سگریٹ ختم ہونے کو آیا تو اسی سے دوسرا جلا لیا۔ مجھے یقین تھا کہ میرے دوست کا خیال غلط نکلےگا اور میں خوش تھا کہ اس طرح میں اس قضیہ کو ختم کر دوں گا۔ ابھی دوسرا سگریٹ پی رہا تھا کہ ایک صاحب اور میرے قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ میں ان کی موجودگی سے گھبرایا کہ ان کے روبرو اگر کوئی معاملہ طے کرنے والا آ گیا تو بہت مشکل پیش آئےگی۔‘‘
میں نے چپکے سے اس کی جانب دیکھا۔ وہ اکہرے بدن کا کمزور شخص تھا۔ عمر لگ بھگ اٹھائیس برس۔ بال خشک، گال اندر کو دھنسے ہوئے۔ ہاتھوں کی نسیں ابھری ہوئی۔ گھٹیا سی میلی ٹائی، پرانا کوٹ، پرانی پتلون۔ عجیب حلیہ تھا وہ یا توپرانا شرابی کبابی اور عیاش تھا یا مصائب دنیا کا ستایا ہوا۔ لیکن میں جلد ہی اس کے کردار کا تجزیہ کرنے سے اکتا گیا۔ دوسرا سگریٹ ختم ہو رہا تھا۔ تیسرا نکالا اور سوچا کہ بس چند کش اور اس کے بعد چل دوں گا گھر کو۔ دفعتاً آواز آئی، کچھ چاہئے بابو جی؟‘‘
میں نے چونک کر دیکھا۔ یہ آواز کہاں سے آئی تھی۔ نو وارد چپ چاپ کھڑا تھا۔ مجھے شبہ ہوا شاید میرے ہی کان بج رہے تھے۔
’’میں آپ ہی سے کہہ رہا ہوں۔‘‘
نو وارد ہی بول رہا تھا۔
’’آپ۔۔۔!‘‘ میں گھبرا گیا ‘‘کچھ ۔۔۔ کیا ۔۔۔ اوہ ہاں۔۔۔ جی ہاں۔‘‘
میں اس کی جانب دیکھ رہا تھا لیکن اس کی نظریں دوسری جانب تھیں۔ وہ جنگلے پر جھکا سڑک کی جانب پیٹھ کیے چپ چاپ سگریٹ پی رہا تھا۔ میں نے سوچا آخر میں اس کی جانب کیوں دیکھوں۔ چنانچہ میں نے سڑک کی جانب منہ پھیر لیا۔
قدرے تامل کے بعد آواز آئی کب؟
’’کل رات 151 کیسی ہے؟‘‘
اس پر نو وارد چپ رہا۔ پھر بولا ’’بالکل جوان ہے۔‘‘
بات یہ ہے کہ میں نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔ میں ان باتوں کا شوقین نہیں ہوں۔ سرکاری معاملہ ہے اس لیے ذرا ٹھیک ٹھاک ہونا چاہئے۔۔۔
یہ کہہ کر مجھے خیال آیا کہ آخر مجھے اس شخص کو یہ یقین دلانے کی کیا ضرورت تھی کہ لڑکی مجھے اپنے لیے درکار نہیں تھی۔۔۔ اسے میرا اناڑی پن کہنا چاہئے۔
پھر آواز آئی ’’کل کس ٹائم؟‘‘
’’دس بجے رات سے صبح تک۔۔۔ پانچ بجے تک۔‘‘
’’پچیس روپے۔۔۔‘‘
’’ٹھیک 151 کہاں پر‘‘
’’انڈیا گیٹ۔۔۔‘‘
’’اوکے انڈیا گیٹ دس بجے شارپ۔‘‘
میرے دوست نے جب یہ بات سنی تو میری پیٹھ پر دھول جما کر بولا ’’یار! تم تو چھپے رستم نکلے۔ واہ وا۔ اچھا اب کل شام کو پانچ بجے ملوتا کہ تمھیں مکان دکان دکھا دوں اور تمھیں باقی باتیں بھی سمجھا دوں۔
دوسرے روز شام کو وقت مقرر پر میں اپنے دوست سے ملا۔ اس نے ایک عمدہ بڑی سی ٹیکسی میں مجھے بٹھایا اور ہم منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گئے۔ ایڈورڈر روڈ کے آخر میں ایک سنسان سی کوٹھی تھی۔ لیکن جگہ پر فضا تھی۔ مجھے وہ مخصوص کمرہ دکھایا گیا جو ڈرائنگ روم کی صورت میں سجا ہوا تھا۔ دو کمرے اور بھی تھے جو نسبتاً چھوٹے تھے۔ کوٹھی کے باقی کمروں کے بارے میں مجھے ہدایت دی گئی کہ سیٹھ جی سے کہہ دوں کہ وہ میرے دوست بند کرکے چلے گئے ہیں۔ صرف یہ کمرے میں نے تفریح طبع کے لیے رکھے ہیں 151 ڈرائنگ روم کی دری اور غالیچوں کے نیچے ہی نیچے تاریں کوٹھی کے ایک دور افتادہ کمرے تک چلی گئی تھیں وہاں ساری گفتگو کو ریکاڈ کرنے کا انتظام کیا گیا تھا۔
جب میرے دوست سب ہدایات دے چکے تو کہا کہ آؤ اب مجھے کناٹ پلیس میں چھوڑ دو اور پھر یہ ٹیکسی تمھارے سپرد کر دی جائےگی۔ پہلے لڑکی کو لے آنا اور پھر ڈرائیور کو سیٹھ صاحب کو لانے کے لیے بھیج دینا۔ خاطر جمع رکھو۔ باقی کھانے پینے کا انتظام بالکل مکمل ہوگا۔ یہ ڈرائیور اور نوکر چاکر سب اپنے آدمی ہیں۔ اس لیے جو کچھ بھی کہنا سننا ہو انھیں سے کہنا۔
رات کے دس بجے تک میں نے وقت ادھر ادھر گھوم کر گزار دیا۔ عین دس بجے میں ٹیکسی سمیت انڈیا گیٹ پہنچا۔ لیکن وہاں کچھ لانے والے صاحب کو نہ پایا۔ انتظار ضروری تھا۔ ٹیکسی سے نکل کر میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ ایک ایک لمحہ پہاڑ ہو رہا تھا یہ بھی فکر تھی کہیں وہ حضرت نہ آئے تو بڑی بھد ہوگی۔
کوئی آٹھ منٹ بعد وہ صاحب سائیکل پر سوار آتے دکھائی دیے۔ تاریکی میں پہلے تو انھیں تنہا دیکھ کر پریشانی ہوئی لیکن ان کے پیچھے کیریئر پر بیٹھی لڑکی کو دیکھ کر جان میں جان آئی۔
لڑکی کے خدو خال دیکھ کر مایوسی ہوئی وہ بہت عام صورت کی لڑکی تھی۔ البتہ جسم گٹھا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ ہاتھوں کی بناوٹ اچھی تھی رنگت بھی بری نہیں تھی۔ ادھر ہمارے سیٹھ کون پری زاد تھے یہ کہہ کر میں نے اپنے دل کو تسکین دی۔
وہ آدمی تاخیر کے لیے معذرت کر رہا تھا لیکن میں نے اس کی کوئی بات نہیں سنی جلدی سے پچیس روپے اس کے ہاتھ میں تھمائے اور بولا۔ ’’اب اور دیر نہیں ہونی چاہئے151 چلیے بیٹھئے کار میں۔‘‘
آدمی نے لڑکی کو آگے کو دھکیلا تو لڑکی ایسے بڑھی جیسے گھر سے مار پیٹ کر زبردستی لائی گئی ہو۔
ٹیکسی چلی تو وہ آدمی ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ’’صبح پانچ بجے شارپ۔‘‘
پانچ بجے شارپ، میں نے جواب دیا اور پھر ڈرائیور سے کہا ’’بھئی تیزی سے چلو۔ آگے ہی کافی دیر ہو گئی ہے۔‘‘
راستے میں لڑکی سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر گہری اداسی چھائی ہوئی ہے۔ اس کا میک اپ بے پرواہی سے کیا گیا تھا اگرچہ زیادہ لیپ پوت نہیں کی گئی تھی۔ مجھے وہ بےحد الھڑ، شریف، ناتجربے کار اور گھریلو ٹائپ کی دکھائی دی اس نے ایک آدھ بار ماتھے پر گہرا بل ڈال کر مجھے اچٹتی ہوئی نظر سے دیکھا۔ جیسے میں بھیڑیا ہوں، جو بھیڑ کو اٹھائے لیے جا رہا ہوں۔
میں دل ہی دل میں بے حد شرمندہ ہو رہا تھا۔ بے اختیار جی چاہ رہا تھا کہ اس سے کہوں بھین جی! میں آپ کو اپنے لیے نہیں لے جا رہا ہوں۔
لیکن میرے دل کی دل میں ہی رہی۔ یہاں تک کہ ہم کوٹھی جا اترے۔
ڈرائیور وہیں سے سیٹھ کو لینے چلا گیا۔
میں لڑکی کو لے کر ڈرائنگ روم میں پہنچا تو دیکھا ایک ملازم کھڑا ہے کچھ ڈھکے ہوئے ڈونگے پرے میز پر رکھے ہیں۔ وہسکی کی دو بوتلیں بھی موجود ہیں۔ ریڈیو بج رہا ہے۔ غرض فضا خاصی دلچسپ ہو رہی تھی۔
لڑکی ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔ میں نے پانی وانی کے بارے میں پوچھا تو اس نے انکار کر دیا۔
نوکر کے اشارے پر میں باہر گیا تو اپنے دوست کو پولیس کے چند اور لوگوں کے ہمراہ گپیں ہانکتے پایا۔ اس نے کہا کہ لڑکی کا انتخاب اچھا نہیں ہے۔ میں نے معذوری ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کوئی مضائقہ نہیں۔ شراب کا دور خوب چلنا چاہئے پھر سب کچھ حسین نظر آنے لگے گا۔ سیٹھ سے کرید کرید کر باتیں پوچھنا تاکہ پکا ثبوت فراہم ہو سکے۔
اس کے بعد مجھے فوراً کمرے میں واپس بھیج دیا گیا اور وہ خود بھی اپنی کمین گاہ میں گھس گئے۔
سیٹھ صاحب کے پہنچنے کا وقت قریب آ رہا تھا میں نے ایک نظر کمرے میں دوڑائی اور محسوس کیا کہ سوا اس لڑکی کے باقی سب چیزیں درست تھیں ۔ لڑکی بالکل ٹھس تھی۔ شکل کی بات تو رہی الگ تیور ہی بے ڈھب ہو رہے تھے اور پھرمنہ کپّا۔ نہ بات چیت، نہ مسکراہٹیں نہ قہقہے۔
اسی اثنا میں لان پر کار کے رکنے کی آواز آئی۔ میں بازو پھیلائے باہر نکلا اور سیٹھ صاحب کا بڑا پرجوش خیر مقدم کیا۔ سیٹھ صاحب نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا ’’صاحب بڑی سنسان جگہ ہے لیکن ہے پر فضا۔‘‘
جی جی، میں نے جواب دیا۔
سیٹھ صاحب سیاہ فام ہونے کے علاوہ یوں بھی بڑے بے ڈول اور بدصورت انسان واقع ہوئے تھے۔ قد چھوٹا، گول مول، کالے کلوٹے، بھدے نقوش، کلے میں پان۔
میں نے سیٹھ صاحب کو بھی اسی لمبے صوفے پر بٹھا دیا جس پر کہ لڑکی بیٹھی تھی۔ سیٹھ صاحب نے ادھر ادھر کے چند سوالات کیے جن کے معقول جوابات پہلے ہی سے گھڑے گھڑائے موجود تھے۔
وہسکی کا دور شروع ہوا۔ چار چار پیگ حلق سے نیچے اتر گئے۔ لیکن سیٹھ بالکل سنجیدہ اور اٹل بیٹھے تھے۔ نہ آنکھیں چڑھیں نہ بہکے۔نہ ہنسے، صوفے کے ایک سرے پر لڑکی چپ چاپ بیٹھی تھی اور دوسرے سرے پر سیٹھ صاحب۔ دونوں ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ ان دونوں کے درمیان میری جان ضیق میں تھی۔ عجب لوگ تھے یہ۔
یوں سیٹھ صاحب نے وہسکی پینے سے انکار نہیں کیا لیکن کیا مجال جو لمحہ بھر کو بھی بہکیں۔
میں کچھ دیر انھیں لڑکی کے ساتھ تنہا چھوڑ کر باہر چلا گیا۔ اور تاریکی میں سے کھڑکی کی دراڑ میں سے اندر جھانکتا رہا مگر دونوں چپ چاپ تھے۔ سیٹھ صاحب پیگ لنڈھائے جا رہے تھے اور سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔ یوں کبھی کبھار ایک نگاہ لڑکی پر بھی ڈال لیتے۔
تنگ آکر میں پھر اندر پہنچا۔ لڑکی نے شراب پینے سے انکار کر دیا تھا لیکن اصرار کرنے پر کھانے میں شامل ہو گئی۔ اب میں نے بزنس کی بات کی۔ لیکن سیٹھ صاحب کچھ نہ بولے۔ میں نے نہایت بے ضرر اور معصوم سوالوں سے گفتگو کا آغاز کیا۔ لیکن سیٹھ صاحب کو کھلنا تھا نہ وہ کھلے۔ بڑی کوفت ہو رہی تھی۔ وہ ہر سوال کا جواب ہوں ہاں دے کے ٹال دیتے۔ میں کہتا۔
سیٹھ صاحب! میں معمولی آدمی ہوں کسی نہ کسی طرح سے پندرہ بیس ہزار روپیہ اکٹھا کیا ہے۔ اگر کامیابی نہ ہوئی تو بڑی مشکل کا سامنا ہوگا۔‘‘
سیٹھ صاحب بھولپن سے کہتے جی ہاں بزنس میں ایسا بھی ہو جاتا ہے۔
میں لمبی چوڑی گفتگو کے بعد پوچھتا۔ ’’تو سیٹھ صاحب آپ سے کیا امید رکھوں؟‘‘
جواب ملتا ’’امید تو بھگوان سے رکھنی چاہیے۔‘‘
غرض یہ کہ انہوں نے کسی طرح پٹھے پر ہاتھ نہ رکھنے دیا۔ نہ شراب نے کچھ کام کیا اور نہ لڑکی نے۔
ہر داؤ اور ہرگھات سے کام لے کر بھی جب کامیابی حاصل نہ ہوئی تو سیٹھ صاحب کو ٹیکسی پر واپس بھیج دیا گیا۔ ٹیکسی میں بیٹھتے وقت صرف اتنا کہا ’’بہت بہت شکریہ۔ جو کچھ میری قوت میں ہے سو وہ میں آپ کے لیے ضرور کروں گا۔‘‘
سیٹھ صاحب کے چلے جانے کے بعد لڑکی تو ڈرائنگ روم میں بیٹھی رہی اور میں اپنے دوست اور اس کے ساتھیوں میں جا ملا۔ ہم سیٹھ جی کے گھاگ پن کا ماتم کرتے رہے۔ لڑکی صوفے پر اونگھتی رہی۔
پانچ بجنے سے کچھ پہلے میں نے لڑکی کو جگایا اور اسے ٹیکسی میں بٹھا کر انڈیا گیٹ کی طرف چل دیے۔
لڑکی نے راستے میں بات توکجا میری جانب دیکھا بھی نہیں مجھے اس پر غصہ بھی آ رہا تھا اور رحم بھی اور سب سے بڑھ کر میں اپنے پر لعنت بھیجتا رہا۔
انڈیا گیٹ کے قریب اس کا ساتھی کھڑا تھا۔ انجن روکے بغیر ٹیکسی ٹھہر گئی میں نے دروازہ کھولا تو لڑکی شعلے کی طرح باہر نکلی اور ساتھی سے کہنے لگی ’’اب آئندہ تم نے ایسا کیا تو زہر کھا لوں گی۔‘‘
ٹیکسی چل دی۔
دیو راج چپ ہو گیا۔ حسب عادت ہمیں کہانی دلچسپ تو ضرور لگی لیکن بے تکی سی 151 ہماری طرف مطلقاً دھیان دیئے بغیر دیو راج نے نیا سگریٹ ہونٹوں میں دبایا اور مسکراکر بولا یہ میرا تیسرا سگریٹ ہے 151 کہانی ختم نہیں ہوئی اس کا اختتامیہ باقی ہے۔
’’اچھا؟‘‘ ہم نے بیک زبان حیرت کا اظہار کیا۔
دیو راج نے گہرے گہرے کش لیے اور کہنا شروع کیا ’’چند ماہ بعد مجھے نوکری مل گئی اچھی ملازمت تھی۔ گیزیٹیڈ۔ مجھے اپنے لیے ایک معاون رکھنے کی اجازت تھی۔ اس اسامی کے لیے اشتہار دیا گیا۔ ٹیکنیکل کام تھا زیادہ عرضیاں نہیں آئیں۔ جو آئیں ان میں صرف ایک ہی شخص کام کا معلوم ہوا تاہم میں نے نصف درجن امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلا لیا۔ انٹرویو مجھے خود ہی لینا تھا۔
انٹرویو والے دن میں وقت سے ذرا پہلے دفتر پہنچ گیا تاکہ کاغذات پر ایک نگاہ دوڑا لوں۔
دو سگریٹ پی کر میں نے چپڑاسی کو پہلا نام بتایا۔ تیسرا سگریٹ میرے ہونٹوں ہی میں تھا کہ سامنے وہی حضرت 151 یعنی لڑکی والے دکھائی دیے۔
نظریں ملتے ہی ہم دم بخود رہ گئے۔
بالآخر میں نے کہا۔ ’’تم قابل شخص معلوم ہوتے ہو بلکہ سب امیدواروں سے بھی قابل۔۔۔ لیکن وہ لڑکی۔۔۔‘‘
اس نے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’میری بہن تھی151 یقین کیجئے وہ اس کا پہلا موقع تھا اور آخری 151 میں اسے آپ کے سامنے لا سکتا ہوں۔۔۔ وہ خود اس امر کی گواہی دے گی151 یہ نہ پوچھئے کہ اس رات کن حالات سے مجبور ہو کر وہ حرکت کی۔۔۔‘‘
’’میں نہیں پوچھوں گا 151‘‘ میرے دل سے بوجھ سا اتر گیا پھر میں نے کہا ’’دیکھو! اس رات بھی کسی نے اسے چھوا تک نہیں۔‘‘
اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے کہا، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں تمھیں کو منتخب کروں گا۔ اب جاؤ ’’وہ سسکیاں بھرتا ہوا چلا گیا۔‘‘
پھر دیو راج نے مسکرا کر ہم سب کی طرف دیکھ کر کہا،
’’اس روز تیسرا سگریٹ پینے کا جو لطف آیا وہ پھر کبھی نہیں آیا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.