تیسری قَسم: عرف مارے گئے گلفام
کہانی کی کہانی
گاؤں کے لوگوں کی سادہ لوحی اور ان کے جذبات کی ترجمانی کرنے والی عمدہ کہانی ہے۔ ہیرا من بیل گاڑی چلاتا ہے، ایک دن وہ نوٹنکی کمپنی کی اداکارہ ہیرا بائی کو بیٹھا کر میلے تک لے جاتا ہے اور پھر اس کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ میلہ ختم ہوتے ہی جب ہیرا بائی ٹرین سے واپس چلی جاتی ہے تو ہیرا من بھی اپنے گاؤں چلا جاتا ہے اور وہ قسم کھاتا ہے کہ اب کبھی نوٹنکی کی سواری کو نہیں بٹھائے گا۔ اس کہانی میں جزئیات نگاری کے ذریعے کہانی کار نے گاؤں کے لوگوں کی سادگی، چھوٹی چھوٹی آرزوؤں، تمناؤں، خواہشوں اور ان کی سوچ کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
ہیرامن گاڑی بان کی پیٹھ میں گدگدی ہوتی ہے۔۔۔
ہیرامن پچھلے بیس سال سے گاڑی ہانک رہاہے، بیل گاڑی۔ وہ سرحد کے اس پار مورنگ راج نیپال سے دھان اور لکڑی ڈھوچکا ہے۔ کنٹرول کے زمانے میں اس نے چور بازاری کامال اِس پار سے اُس پار پہنچایا ہے۔ لیکن اس سے پہلے اس کی پیٹھ میں ایسی گدگدی کبھی نہیں ہوئی۔
کنٹرول کا زمانہ۔۔۔ ہیرامن اس زمانے کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ ایک بار چار کھیپ سیمنٹ اور کپڑے کی گانٹھوں سے بھری گاڑی جوگ بنی سے وراٹ نگر پہنچانے کے بعد ہیرامن کا دل مضبوط ہوگیا تھا۔ فاربس گنج کا ہر چور بیوپاری اس کو پکا گاڑی بان مانتا تھا۔ اس کے بیلوں کی تعریف بڑی گدّی کے بڑے سیٹھ خود اپنی زبان سے کرتے تھے۔
پانچویں بار، سرحد کے اس پار ترائی میں اس کی گاڑی پکڑی گئی۔
مہاجن کا منیم اسی گاڑی پر گانٹھوں کے درمیان اکڑوں بیٹھا، چھپا ہوا تھا۔ ہیرامن جانتا تھا کہ داروغہ صاحب کی ڈیڑھ ہاتھ لمبی چور بتی کی روشنی کتنی تیز ہوتی ہے۔۔۔ اگر اس کی ایک کرن بھی آنکھوں میں پڑجائے تو کم از کم ایک گھنٹے کے لیے آدمی اندھا ہوجاتا ہے۔ روشنی کے ساتھ کڑکتی ہوئی آواز، ’’اے۔۔۔ ے! گاڑی روکو! سالے، گولی ماردیں گے۔۔۔!‘‘
بیس کی بیس گاڑیاں ایک ساتھ رک گئیں۔ ہیرامن نے پہلے ہی کہا تھا، یہ زہرگھولے گا۔ داروغہ صاحب اس کی گاڑی میں دبکے ہوئے منیم جی پر روشنی ڈال کر وحشیانہ انداز میں ہنسے، ’’ہاہا ہا۔ مڑیم جی ی! ہی ہی! اے ے، سالا گاڑی بان منھ دیکھتا رہے رے ے! کمبل ہٹاؤ اس بورے کے منھ پر سے!‘‘ انہوں نے ہاتھ کی چھوٹی لاٹھی کو منیم جی کے پیٹ میں چبھاتے ہوئے کہا تھا، ’’اس بورے کو۔۔۔ س سالا!‘‘
داروغہ صاحب اور منیم جی میں کوئی بہت پرانی اور بڑی شدید عداوت ہوگی، وگر نہ اتنے روپوں کی پیشکش پر داروغہ کا من نہ ڈول جاتا؟ منیم جی چار ہزار تو گاڑی پر بیٹھے بیٹھے ہی دے رہے تھے۔ داروغہ صاحب نے دوسری بار ان کے پیٹ میں لاٹھی چبھوئی، ’’پانچ ہزار۔‘‘ لاٹھی پھر چلی، ’’اترو پہلے!‘‘
منیم کو گاڑی سے نیچے اتار کر داروغہ نے اس کی آنکھوں میں روشنی ڈال دی۔ پھرا سے دوسپاہیوں کے ہمراہ سڑک سے بیس پچیس گز دور جھاڑی کے پاس لے گیا۔ گاڑی بانوں اور گاڑیوں پر بندوقوں سے لیس سپاہیوں کا پہرہ بٹھادیا گیا۔ ہیرامن سمجھ گیا، اس بار چھٹکارا نہیں۔۔۔ جیل!ہیرا من کو جیل کا ڈر نہیں تھا۔ لیکن اس کے بیل؟ نہ جانے کتنے دنوں تک چارے پانی کے بغیر پھاٹک کے اندر پڑے رہیں گے، بھوکے پیاسے۔ پھر نیلام کردیے جائیں گے۔ بھیا اور بھابی کو وہ کبھی منھ نہیں دکھاسکے گا۔۔۔ نیلام کی بولی اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔! داروغہ اور منیم جی میں بات شاید طے نہیں ہوپارہی تھی۔
ہیرامن کی گاڑی کے قریب کھڑے سپاہی نے اپنی زبان میں دوسرے سپاہی سے دھیمی آواز میں پوچھا، ’’کاہو؟ ماملہ گول ہوکھی کا؟‘‘ پھر ایک چٹکی تمباکو دینے کے بہانے اس سپاہی کے پاس چلا گیا۔۔۔
ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین!تین چار گاڑیوں کی آڑ اور۔۔۔ اُڑن چھو! ہیرامن نے فیصلہ کرلیا۔ اور پھر اس نے دھیرے سے اپنے بیلوں کے گلے کی رسیاں کھول دیں۔ گاڑی پر بیٹھے ہی بیٹھے دونوں بیلوں کو جڑواں باندھ دیا۔ بیل سمجھ گئے کہ انہیں کیاکرنا ہے۔ ہیرامن گاڑی پر سے اترا، جتی ہوئی گاڑی میں بانس کی ٹکٹی لگا کر اس نے بیلوں کے کندھوں کو بے لاگ کیا اور دونوں کے کانوں کے پاس گدگدی مچادی۔ اور دل ہی دل میں کہا کہ چلو بھین، جان بچ جائے گی تو ایسی ایسی کتنی ہی بڑھیا گاڑیاں مل جائیں گی۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ نودوگیارہ!
گاڑیوں کی اوٹ میں سڑک کے کنارے دور تک گھنی جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔ اور ان تینوں نے سانس روک کر، کوئی آہٹ کیے بغیر بڑی جی داری سے ان جھاڑیوں کو پار کیا۔ پھر دونوں بیل سینہ تان کر دلکی چال چلے اور ترائی کے گھنے جنگلوں میں گھس گئے۔ پھر راہ سونگھتے، ہندی نالے پار کرتے ہوئے، دم اٹھاکر بھاگے۔ ہیرامن ان کے پیچھے پیچھے تھا۔۔۔ اور اس طرح وہ تینوں رات بھر بھاگتے رہے تھے۔۔۔
گھر پہنچ کر ہیرامن دودن تک بے سدھ پڑا رہا اور ہوش میں آتے ہی اس نے کان پکڑ کر قسم کھائی، اب کبھی چوربازاری کا مال نہیں ڈھوئے گا۔۔۔ توبہ توبہ! پتا نہیں منیم جی پر کیا بیتی۔ رام جانے ہیرامن کی گاڑی کا کیا ہواجس کی دھری اصلی اسپات کی تھی۔ جس کے دونوں پہیے تو نہیں، البتہ ایک پہیہ بالکل نیا تھا۔ گاڑی میں رنگین ڈبوں کے پھندنے بڑے جتن سے گوندھے گئے تھے۔
ہیرامن اب تک دوقسمیں کھاچکا تھا۔ پہلی، چور بازاری کا مال نہیں لادیں گے۔ دوسری، بانس نہیں ڈھوئیں گے۔ اور اب ہیرامن اپنے ہر بھاڑے دار سے پہلے ہی پوچھ لیتا، چوری چکاری والی چیز تو نہیں؟اور بانس لادنے کے لیے اگر کوئی پچاس روپے بھی دے تو بھی اسے ہیرامن کی گاڑی نہیں ملے گی۔ کسی دوسرے کی گاڑی دیکھے۔۔۔
بانس لدی ہوئی گاڑی۔۔۔ گاڑی سے چار ہاتھ آگے بانس کااگوا نکلا رہتا ہے اور پیچھے کی طرف چار ہاتھ پچھوا۔ گاڑی ہمیشہ قابو سے باہر رہتی ہے۔ ہاں، تو بے قابو والی لدنی اور کھریا شہر والی بات۔ بھاڑے دار کا بے حد باتونی نوکر بانس کااگوا پکڑ کر چل رہا تھا کہ لڑکیوں کے اسکول کی طرف دیکھنے لگا۔ بس، موڑ پر گھوڑا گاڑی سے ٹکر ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ ہیرامن بیلوں کی رسی کھینچتا، گھوڑا گاڑی کی چھتری بانس کے اگوا میں پھنس گئی۔ گھوڑا گاڑی کے کوچوان نے اسے بے تحاشا چابک مارتے ہوئے گالی دی تھی۔۔۔ بانس کا لادنا تو دور رہا، ہیرامن نے کھریا شہر کاراستہ ہی چھوڑدیا۔ اور جب مال فاربس گنج سے مورنگ کے لیے ڈھونا شروع کیا تو گاڑی ہی دھرلی گئی۔۔۔
ہیرامن نے کئی سالوں تک بیلوں کو ساجھے پر جوتا۔ آدھا بھاڑاگاڑی والے کا اور آدھا بیل والے کا۔۔۔ اور گاڑی بانی مفت!ساجھے کی کمائی سے تو بیلوں کے ہی پیٹ نہیں بھرتے تھے۔
ہیرامن نے پچھلے سال ہی اپنی گاڑی بنوائی ہے۔
دیوی میا اس سرکس کمپنی کے شیر کابھلا کریں۔ پچھلے سال اسی میلے میں شیر کی گاڑی کو کھینچنے والے دونوں گھوڑے مرگئے تھے۔ چمپانگر سے فاربس گنج کے میلے جانے کے لیے سرکس کمپنی کے منیجر نے گاڑی بانوں کے حلقے میں اعلان کیا، ’’سوروپیہ بھاڑاملے گا۔‘‘ دوایک گاڑی بان راضی بھی ہوئے، لیکن ان کے بیل شیر کی گاڑی سے دس ہاتھ دور ہی ڈر کر بدکنے لگے، اور رسی تڑواکر بھاگ بھی گئے۔ ہیرامن نے اپنے بیلوں کی پیٹھ سہلاتے ہوئے کہا، ’’دیکھو بھیّن! ایسا موقع پھر ہاتھ نہیں آوے گا۔ یہی موقع ہے اپنی گاڑی بنوانے کا، نہیں تو پھر ساجھے داری ہی چلتی رہے گی۔۔۔ ارے، پنجرے میں بند باگھ کا کیا ڈر؟ مورنگ کی ترائی میں دہاڑتے ہوئے شیروں کو دیکھ چکے ہو۔ پھر پیٹھ پر میں جوہوں۔۔۔‘‘
گاڑی بانوں کے حلقے میں ایک ساتھ تالیاں بج اٹھیں۔ ہیرامن کے بیلوں نے سب کی آبرو رکھ لی۔ وہ ہمک کے آگے بڑھے اور ایک ایک کرکے باگھ گاڑی میں جُت گئے۔۔۔ صرف دائیں طرف کے بیل نے جتنے کے بعد ڈھیر سارا پیشاب کیا تھا۔ ہیرامن نے دودن تک اپنی ناک پر سے پٹی نہیں کھولی تھی۔ بڑی گدی کے بڑے سیٹھ جی کی طرح، ناک پر پٹی باندھے بغیر کوئی بھی شیر کی بو برداشت نہیں کرسکتا۔
ہیرامن نے باگھ گاڑی کی گاڑی بانی کی ہے لیکن اس کی پیٹھ میں ایسی گدگدی کبھی نہیں ہوئی۔ آج رہ رہ کر اس کی گاڑی میں چمپاکا پھول مہک اٹھتا ہے۔ پیٹھ میں گدگدی ہونے پر وہ انگوچھے سے اپنی پیٹھ جھاڑ لیتا ہے۔ ہیرامن کو لگتا ہے، دوسال سے چمپانگر میلے کی بھگوتی میا اس پر مہربان ہیں۔ پچھلے سال اسے جوتنے کے لیے باگھ گاڑی مل گئی تھی اور ایک سو روپے نقد۔ کرائے کے علاوہ بے حساب چائے بسکٹ اور سارے راستے ریچھ، بندر اور جوکر کاتماشا مفت میں دیکھنے کو ملا۔
اور اس بار زنانہ سواری۔۔۔ عورت ہے یا چمپا کاپھول! جب سے گاڑی میں بیٹھی ہے، گاڑی مہک مہک رہی ہے۔ کچی سڑک کے ایک چھوٹے سے گڑھے میں گاڑی کادایاں پہیہ بے موقع ہچکولا کھاگیا۔ ہیرامن کی گاڑی میں سے ہلکی سی ’’سی‘‘ کی آوازآئی۔ ہیرامن نے دائیں طرف کے بیل کو چابک سے پیٹتے ہوئے کہا، ’’سالا، کیا سمجھتا ہے، بورا لدا ہے کیا؟‘‘
’’اہا، مارو مت!‘‘ ان دیکھی عورت کی آواز نے حیرت میں ڈال دیا۔ اس عورت کی آواز بچوں کی جیسی مہین تھی۔
متھراموہن نوٹنکی میں لیلیٰ بننے والی ہیرابائی کانام بھلاکس نے نہیں سنا ہوگا۔ لیکن ہیرا من کی بات نرالی تھی۔ اس نے سات سال تک لگاتار میلوں کامال ڈھویا ہے لیکن کبھی نوٹنکی، تھیڑ، بائیسکوپ یا سینما نہیں دیکھا۔ لیلیٰ یا ہیرا بائی کو دیکھنا تو درکنار، ہیرامن نے اس کا کبھی نام بھی نہیں سنا۔ لہٰذا میلہ ٹوٹنے سے پندرہ دن پہلے آدھی رات کے وقت کالی اوڑھنی میں لپٹی عورت کو دیکھ کر اس کے دل کو ایک خدشہ ضرور محسوس ہوا تھا۔ بکس اٹھانے والے ملازم نے کرائے میں مول تول کرنے کی کوشش کی تو اوڑھنی والی نے سرہلاکر اسے ایسا کرنے سے منع کردیا۔ ہیرا من نے گاڑی جوتتے ہوئے، ملازم سے پوچھا، ’’کیوں بھیا، کوئی چوری چکاری کامال وال تو نہیں؟‘‘ ہیرامن کو پھر حیرت ہوئی کیوں کہ وہ ملازم اُسے ہاتھ کے اشارے سے گاڑی ہانکنے کے لیے کہہ کر خود اندھیرے میں غائب ہوگیا تھا۔
ہیرامن کومیلے میں تمباکو بیچنے والی بڑھیا کی کالی اوڑھنی یادآگئی۔۔۔
ایسے میں کوئی کیاگاڑی ہانکے۔
ایک تو پیٹھ میں گدگدی ہو رہی ہے۔ دوسرا اس کی گاڑی میں چمپا کاپھول رہ رہ کر کھل اٹھتاہے۔ بیلوں کوڈ انٹو تو بھی اس کی سواری ٹوکتی ہے۔۔۔ اس کی سواری، تنہا اکیلی عورت۔۔۔ کہیں تمباکو بیچنے والی بڑھیا کی طرح تو نہیں؟ اس کی آواز سننے کے بعد وہ بار بار مڑ کر ’’ٹپر‘‘ پر ایک نظر ڈالتا ہے، انگوچھے سے اپنی پیٹھ جھاڑتا ہے۔۔۔ رام جانے اس بار اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے۔ گاڑی جب مشرق کی جانب مڑی تو چاندنی کا ایک ٹکڑا اس کی گاڑی میں سماگیا۔ سواری کی ناک پر ایک جگنو جگمگا اٹھا۔ ہیرامن کو یہ سب کچھ بڑا پراسرار اور عجیب و غریب لگا۔ سامنے چمپانگر سے سندھیا گاؤں تک پھیلا ہواسنسان میدان۔۔۔ کہیں یہ عورت کوئی ڈائن یا چڑیل تو نہیں؟ہیرامن کی سواری نے کروٹ بدلی۔ چاندنی اس کے چاند مکھڑے پر پڑی تو ہیرامن چیختے چیختے رہ گیا، ’’ارے باپ! اِی تے پری ہے!‘‘
پری کی آنکھیں کھل گئیں۔ ہیرامن نے اپنا منھ سڑک کی طرف گھمالیا اور بیلوں کو ٹٹکاری دی۔ ہیرامن نے زبان کو تالو سے لگاکر ٹی ٹی ٹی ٹی کی آواز نکالی۔ اس کی زبان جانے کب سے سوکھ کر لکڑی کی مانند ہوگئی تھی۔
’’بھیا، تمہارانام کیا ہے؟‘‘
ہوبہو پھینو گلاس۔۔۔ ہیرامن کارواں رواں گنگنا اٹھا۔ اس کے گلے سے آواز تک نہ نکلی۔ اس کے دونوں بیلوں نے بھی کان کھڑے کرکے اس سواری کی آواز کو پرکھا۔
’’میرا نام۔۔۔؟ میرا نام ہے ہیرامن۔‘‘
اس کی سواری مسکرادی۔۔۔ مسکراہٹ میں خوشبو تھی۔
’’تب تو میتا کہوں گی بھیا نہیں۔۔۔ میرا نام بھی ہیرا ہے۔۔۔‘‘
سس!ہیرامن کو معلوم نہیں کہ مرد اور عورت کے نام میں فرق ہوتا ہے۔
’’ہاں جی، میرانام بھی ہیرابائی ہے۔‘‘
کہاں ہیرامن اور کہاں ہیرابائی۔۔۔ بہت فرق ہے!
ہیرامن نے اپنے بیلوں کو جھڑک کر کہا، ’’کان چُنیا کر گپ سننے سے ہی تیس کوس منزل کٹے گی کیا؟ اس بائیں ناٹے کے پیٹ میں شیطانی بھری ہے۔‘‘ ہیرامن نے بائیں بیل کو چابک سے ہلکی ضرب لگائی۔
’’مارومت! دھیرے دھیرے چلنے دو، جلدی کیا ہے؟‘‘
ہیرامن کے دل میں سوال اٹھا کہ اب اگر وہ ہیرابائی سے گپ کرے تو اسے کن الفاظ میں مخاطب کرے؟ ’’توہیں‘‘ کہے یا ’’آن ہاں‘‘ اس کی زبان میں بڑوں کو ’’آن ہاں‘‘ یعنی ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ مہذب بولی میں تو محض دوچار سوال جواب ہوسکتے ہیں، ورنہ دل کھول کر گپ تو گاؤں کی بولی ہی میں کی جاسکتی ہے۔
آشون کارتک کی صبح میں چھاجانے والے کہرے سے ہیرامن کو پرانی چڑ ہے۔ وہ کئی بار سڑک بھول کر بھٹک چکا ہے۔ لیکن آج کی صبح کے اس گہرے کہرے میں بھی وہ مسرور ہے۔ ندی کے کنارے کھیتوں میں سے دھان سے لدے ہوئے پودوں کی خوشبو ہوا میں تیرتی ہوئی آتی ہے۔ متبرک تہوار کے روز گاؤں میں ایسی ہی خوشبو پھیلی رہتی ہے۔ اس کی گاڑی میں چمپاکا پھول کھلا۔ اس پھول میں ایک پری بیٹھی ہے۔۔۔ جے بھگوتی!ہیرامن نے کنکھیوں سے دیکھا کہ اس کی سواری۔۔۔ میتا۔۔۔ ہیرابائی، اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے۔ ہیرامن کے دل میں کوئی انجانی سی راگنی بج اٹھی اور اس کا سارا جسم جھنجھنا اٹھا۔ وہ بولا، ’’بیل کو مارتے ہیں تو آپ کو برالگتا ہے؟‘‘
ہیرابائی نے پرکھ لیا کہ ہیرامن سچ مچ ہیرا ہے۔
چالیس سال کا ہٹا کٹا، کالاکلوٹا، دیہاتی نوجوان اپنی گاڑی اور اپنے بیلوں کے سوادنیا کی کسی بات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ گھر میں بڑا بھائی ہے جو کھیتی کرتا ہے۔ وہ بال بچے دار ہے۔ ہیرامن اپنے بھائی سے زیادہ اپنی بھابی کی عزت کرتاہے۔ وہ اپنی بھابی سے ڈرتا بھی ہے۔ ہیرامن کی بھی شادی ہوئی تھی۔۔۔ بچپن میں۔ لیکن گونے سے پہلے ہی دلہن مرگئی۔ ہیرامن کو اپنی دلہن کی صورت یاد نہیں۔۔۔ دوسری شادی؟ دوسری شادی نہ کرنے کی کئی وجہیں ہیں۔ بھابی کی یہ ضد ہے کہ وہ ہیرامن کی شادی کسی کنواری لڑکی سے ہی کروائے گی۔ کنواری کا مطلب یہ ہے کہ پانچ سات سال کی لڑکی۔ کون مانتا ہے شارداقانون؟ اور کوئی لڑکی والا دوہا جو کو اپنی لڑکی کسی خاص وجہ سے ہی دے سکتا ہے۔ اس کی بھابی تین ست کرکے بیٹھی ہے، سو بیٹھی ہے۔ بھابی کے آگے بھیا کی بھی نہیں چلتی۔ اب ہیرامن نے طے کرلیا ہے کہ وہ شادی نہیں کرے گا۔ کون بلا مول لینے جائے؟ بیاہ کرکے گاڑی بانی کیا کرے گا کوئی! ہیرامن اور سب کچھ چھوڑ سکتا ہے لیکن گاڑی بانی نہیں چھوڑ سکتا۔
ہیرابائی نے ہیرامن جیسا معصوم آدمی کہاں دیکھا تھا۔ ہیرامن نے پوچھا، ’’آپ کا گھر کون ضلعے میں پڑتا ہے؟‘‘ اور کانپور کانام سنتے ہی جو اس کی ہنسی چھوٹی ہے تو بیل بھڑک اٹھے۔ ہیرامن ہنستے وقت اپنے سر کو جھکالیتا ہے۔ ہنسی رکنے پر اس نے کہا، ’’واہ رے کان پور! تب تو ناک پور بھی ہوگا؟‘‘ اور جب ہیرابائی نے کہا کہ ناک پور بھی ہے، تو وہ ہنستے ہنستے دوہرا ہوگیا۔
’’واہ رے دنیا! کیا کیا نام ہوتے ہیں! کان پور، ناک پور!‘‘ ہیرامن نے ہیرابائی کے کان کے پھول کو غور سے دیکھا۔۔۔ لہو کی بوند۔
ہیرامن نے ہیرا بائی کا نام کبھی نہیں سنا تھا۔ نوٹنکی کمپنی کی عورت کو وہ بائی جی نہیں سمجھتا ہے۔ کمپنی میں کام کرنے والی عورتوں کووہ دیکھ چکا ہے۔ سرکس کمپنی کی مالکن اپنی دونوں جوان بیٹیوں کے ساتھ شیر کی گاڑی کے پاس آتی تھی، شیر کو چارہ پانی دیتی تھی، خوب پیار کرتی تھی۔ اس کی بڑی بیٹی نے ہیرامن کے بیلوں کو بھی ڈبل روٹی اور بسکٹ کھلائے تھے۔
ہیرامن ہوشیار ہے۔ کہرا چھٹنے پر اس نے اپنی چادر سے ٹپر میں پردہ کردیا اور بولا، ’’بس دوگھنٹے۔ اس کے بعد راستہ چلنا مشکل ہے۔ کار تک کی صبح کی دھوپ آپ برداشت نہ کرسکیں گی۔ کجری ندی کے کنارے تیگ چھیا کے پاس گاڑی لگادیں گے اور دوپہریا کاٹ کر۔۔۔‘‘
سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کو دور سے ہی دیکھ کر ہیرامن چوکنا ہوگیا اور اس نے اپنی توجہ لیک اور بیلوں پر مرکوز کردی۔ راستہ کاٹتے ہوئے گاڑی بان نے پوچھا، ’’میلہ ٹوٹ رہا ہے کیا بھائی؟‘‘ ہیرامن نے جواب دیا کہ وہ میلے کی بات نہیں جانتا۔ اس کی گاڑی میں ’’بداگری‘‘ (مائیکے یا سسرال جاتی ہوئی لڑکی) ہے، اور پھر ہیرامن نے اس گاڑی بان کو نہ جانے کس گاؤں کا نام بتادیا۔
’’چھتاپور پچیرا کہاں ہے؟‘‘
’’کہیں ہو، یہ جان کر آپ کیا کیجیے گا؟‘‘ پھر ہیرامن اپنی چالاکی پرہنسا۔ پردہ ڈال دینے پر بھی پیٹھ میں گدگدی ہوتی ہے۔ ہیرامن پردے کے چھید میں سے دیکھتا ہے۔ ہیرابائی دیا سلائی کی ایک ڈبیا کے برابر آئینے میں اپنے دانت دیکھ رہی ہے۔۔۔ ہیرامن نے ایک بار مدن پور میلے میں اپنے بیلوں کے لیے ننھی چتی کوڑیوں کی مالا خریدی تھی۔۔۔ چھوٹی چھوٹی ننھی ننھی کوڑیوں کی قطار۔
تیگ چھیا کے تینوں درخت دور سے ہی دکھائی پڑتے ہیں۔ ہیرامن نے پردے کو ذرا سا سرکاتے ہوئے کہا، ’’دیکھیے، یہی ہے تیگ چھیا۔۔۔ دو پیڑ جٹاماسی بڑھ رہے ہیں اور ایک۔۔۔ اس پھول کا کیا نام ہے؟ آپ کے کرتے پر جیسا پھول چھپا ہوا ہے، ویسا ہی، خوب مہکتا ہے۔۔۔ دوکوس دور تک سگندھ جاتی ہے۔ اس پھول کو خمیرہ تمباکو میں ڈال کر پیتے بھی ہیں لوگ۔‘‘
ہیرابائی بولی، ’’اوراس امرائی کی آڑ سے کئی مکان دکھائی پڑتے ہیں۔۔۔ وہاں گاؤں ہے یا مندر؟‘‘ ہیرامن نے بیڑی سلگانے سے پہلے پوچھا، ’’بیڑی پییں؟ آپ کو گندھ تو نہیں لگے گی۔۔۔؟ وہی ہے نام لگرڈیوڑھی۔ جس راجہ کے میلے سے ہم لوگ آرہے ہیں اسی کا داماد گویتا ہے۔۔۔ واہ رے زمانے!‘‘ ہیرامن نے ’واہ رے زمانے ‘ کہہ کر بات کوچاشنی میں ڈال دیا۔ ہیرابائی نے ٹپر کے پردے کو ترچھاکھونس دیا۔۔۔ ہیرابائی کے دانتوں کی قطار۔
’’کون زمانے؟‘‘ ٹھڈی پر ہاتھ رکھ کر ہیرابائی نے پراشتیاق لہجے میں پوچھا۔
’’نام لگر ڈیوڑھی کا زمانہ۔۔۔ کیا تھا، اور کیا سے کیا ہوگیا!‘‘
ہیرامن قصہ گوئی کا فن جانتا تھا۔
ہیرابائی بولی، ’’تم نے دیکھا تھا وہ زمانہ؟‘‘
’’دیکھا نہیں سنا ہے۔۔۔ راج کیسے گیا، بڑی دردناک کہانی ہے۔ کہتے ہیں گھر میں دیوتا نے جنم لیا۔ کہیے بھلا، دیوتا آخر دیوتا ہے۔۔۔ ہے یا نہیں؟ اندر آسن چھوڑ کر مرتیو بھون میں جنم لے لے تو اس کا تیج کیسے سنبھال سکتا ہے کوئی؟ سورج مکھی پھول کی طرح ماتھے کے پاس تیج کھلا رہتا، لیکن نظر کا پھیر کسی نے نہیں پہچانا۔ ایک بارآپ لین میں لاٹ صاحب مع لاٹنی کے ہوا گاڑی سے آئے تھے۔ لاٹ نے بھی نہیں پہچانا۔۔۔ پہچانا آخر لاٹنی نے۔ سورج مکھی تیج دیکھتے ہی بول اٹھی، اے مین، راجہ صاحب! سنو، یہ آدمی کابچہ نہیں ہے، دیوتا ہے۔‘‘
ہیرامن نے لاٹنی کی بولی کی نقل اتارتے وقت، خوب ڈیم، فیٹ، لیٹ کیا۔ ہیرابائی بہت کھل کر ہنسی۔۔۔ ہنستے وقت اس کا سارا جسم ہلتا تھا۔ ہیرابائی نے اپنی اوڑھنی ٹھیک کی۔ تب ہیرامن کو لگا کہ۔۔۔ کہ۔۔۔
’’پھر؟ اس کے بعد کیا ہوا میتا؟‘‘
’’اسس!کتھا سننے کا بڑا شوق ہے آپ کو۔۔۔؟ لیکن کالا آدمی راجہ کیا، مہاراجہ بھی ہوجائے، رہے گا کالا آدمی ہی۔ صاحب کی جیسی عقل کہاں سے پائے گا؟ ہنس کر بات اڑادی سبھی نے۔۔۔ تب رانی کے سپنے میں دیوتا بار بار آنے لگے۔ سیوا نہیں کرسکتے تو جانے دو، نہیں رہیں گے تمہارے یہاں۔ اس کے بعد دیوتا کا کھیل شروع ہوا۔ سب سے پہلے دونوں ہاتھی مرے، پھر گھوڑے، پھر پٹ پٹانگ۔۔۔‘‘
’’پٹ پٹانگ کیا؟‘‘
ہیرامن کے دل میں پل پل خوشی بڑھتی جارہی تھی۔ دل میں ست رنگا چھاتا دھیرے دھیرے کھل رہا تھا۔ اسے لگا کہ جیسے اس کی گاڑی پر دیو کل کی عورت سوار ہے۔ دیوتا آخر دیوتا ہے۔
’’پٹ پٹانگ۔۔۔ دھن دولت، مال مویشی سب صاف۔ دیوتا اندر آسن چلا گیا۔‘‘ ہیرا بائی نے اوجھل ہوتے ہوے مندر کے کنگورے کی طرف دیکھ کر لمبی سانس لی۔
’’لیکن دیوتا نے جاتے جاتے کہا، اس راج میں کبھی کسی گھر میں ایک چھوڑ کو دو بیٹے نہیں ہوں گے۔ دھن ہم اپنے ساتھ لیے جارہے ہیں، گُن چھوڑے جاتے ہیں۔ دیوتا کے ساتھ سبھی دیوی دیوتا چلے گئے۔ صرف سرسوتی میارہ گئیں۔ اسی کا وہ مندر ہے۔‘‘
دیسی گھوڑوں پر پٹوں کا بوجھ لادے ہوئے بنیوں کو آتا دیکھ کر ہیرامن نے ٹپرکے پردے کو گرادیا۔ بیلوں کو للکارا اور بدیسیا ناچ کا وندنا گیت گانے لگا، ’’۔۔۔ جے میا سرسوتی ارجی کرت بانی، ہمرا پر ہوکھو سہائی ہے میا، ہمراپر ہوکھو سہائی۔‘‘
گھوڑوں پر لدے بنیوں سے ہیرامن نے ہنس کر پوچھا، ’’کیا بھاؤ پٹوا خریدتے ہیں مہاجن؟‘‘ لنگڑے گھوڑے والے بنیے نے تاجرانہ جواب دیا، ’’نیچے ستائیس اٹھائیس، اوپر تیس۔ جیسا مال ویسا بھاؤ۔‘‘ جوان بنیے نے پوچھا، ’’میلے کا کیا حال چال ہے بھائی؟ کون نوٹنکی کمپنی کاکھیل ہو رہا ہے، اروتہ کمپنی یا متھرا موہن؟‘‘
’’میلے کا حال میلے والا جانے۔‘‘ ہیرامن نے پھر چھتا پور پچیرا کا نام سنادیا۔
سورج دوبانس اوپر آگیا تھا۔ ہیرامن اپنے بیلوں سے بات کرنے لگا، ’’ایک کوسن زمین۔ ذرا دم باندھ کر چلو۔ پیاس کی بیلا ہوگئی نا؟ یاد ہے، اس بار تیگ چھیا کے پاس سرکس کمپنی کے جوکر اور بندر نچانے والے صاحب میں جھگڑا ہوگیا تھا۔ جوکر ٹھیک بندر کی طرح دانت کٹکٹاکر گھگھیانے لگا تھا۔۔۔ نہ جانے کس کس دیش اور ملک کے آدمی آتے ہیں۔‘‘
ہیرامن نے پھر پردے کے چھید میں سے دیکھا، ہیرابائی کی نظریں کاغذ کے ایک ٹکڑے پر مرکوز تھیں۔ ہیرامن کا دل آج ہلکے سر میں گارہا تھا۔ اسے طرح طرح کے گیتوں کی یادآرہی تھی۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے، بدیشیا، بلواہی، چھوکراناچ والے ایک سے بڑھ کر ایک گیت اور غزل گاتے تھے۔ اب تو بھونپو میں بھوں پو، بھوں پو نہ جانے کون سے گیت گاتے ہیں۔۔۔ واہ رے زمانے! اور ہیرامن کو چھوکر اناچ کاگیت یاد آگیا۔۔۔
سجنوا بیری ہوگئے ہمارو! سجنوا۔۔۔
ارے، چٹھیا ہو تو سب کوئی بانچے، چٹھیا ہو تو۔۔۔
ہائے کرموا! ہوئے کرموا۔۔۔
ہیرامن نے گاڑی کی بلی پر انگلیوں سے تال دے کر گیت ادھوراچھوڑ دیا۔ چھوکراناچ کے مُنوا نٹوا کا چہرہ ہیرابائی جیسا ہی تھا۔۔۔ کہاں چلا گیا وہ زمانہ! ہر مہینے گاؤں میں ناچ دکھانے والے آتے تھے۔ ہیرامن نے اسی چھوکراناچ کی وجہ سے اپنی بھابی کی نہ جانے کتنی سخت سست سنی تھیں۔ بڑے بھائی نے تو اسے گھر سے نکل جانے کے لیے بھی کہہ دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے آج ہیرامن پر ماں سرسوتی مہربان ہیں۔ ہیرابائی بولی، ’’واہ!کتنا بڑھیا گاتے ہو تم!‘‘
ہیرامن کاچہرہ سرخ ہوگیا۔ وہ سرجھکاکر ہنسنے لگا۔
آج تیگ چھیا پر رہنے والے مہابیر سوامی بھی ہیرامن پر مہربان ہیں۔ تیگ چھیا کے نیچے ایک بھی گاڑی نہیں ہے، جب کہ یہاں ہمیشہ گاڑیوں اور گاڑی بانوں کی ایک بھیڑ لگی رہتی ہے۔ لیکن آج یہاں صرف ایک سائیکل والا بیٹھ کر سستا رہا ہے۔ ہیرامن نے مہابیر سوامی کا نام لے کر گاڑی روک دی۔ ہیرابائی پردہ ہٹانے لگی تو ہیرامن نے پہلی بار آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے بات کی۔۔۔ سائیکل والاادھر ہی ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ ہیرامن نے بیلوں کو کھولنے سے پہلے بانس کی روک لگاکر گاڑی کو ٹکادیا، پھر سائیکل والے کی طرف بار بار گھورتے ہوئے پوچھا، ’’کہاں جانا ہے؟ میلہ؟ کہاں سے آنا ہو رہاہے؟ بسن پور سے؟ بس اتنے ہی دور چل کر تھک گئے۔۔۔؟ واہ رے جوانی!‘‘
سائیکل والا، دبلا پتلانوجوان، منمناکر کچھ بولا اور بیڑی سلگاکر اٹھ کھڑا ہوا۔
ہیرامن، ہیرابائی کو زمانے بھر کی نگاہوں سے چھپاکر رکھنا چاہتا ہے۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھا۔۔۔ آس پاس کہیں بھی کوئی گاڑی یا گھوڑا نہیں تھا۔ کجری ندی کی دبلی پتلی دھار تیگ چھیا کے قریب آکر مشرق کی جانب مڑگئی تھی۔ پانی میں بیٹھی ہوئی بھینسوں اور ان کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے بگلوں کو ہیرابائی دیکھتی رہی۔ ہیرامن بولا، ’’جائیے، گھاٹ پر منھ دھوآئیے۔‘‘
ہیرابائی گاڑی سے نیچے اتری۔ ہیرامن کادل دھڑک اٹھا۔۔۔ نہیں، نہیں! پاؤں سیدھے ہیں ٹیڑھے نہیں۔ لیکن تلوا اتنا لال کیوں ہے؟ ہیرابائی گاؤں کی بہو بیٹی کی طرح سرجھکائے دھیرے دھیرے گھاٹ کی طرف چلی گئی۔ کون کہے گا کہ کمپنی کی عورت ہے۔۔۔ عورت نہیں، لڑکی۔ شاید کنواری ہی ہے۔
ہیرامن روک پر ٹکی گاڑی پر بیٹھ گیا۔ اس نے ٹپر میں جھانک کر دیکھا۔ پھر ایک بار ادھر اُدھر دیکھ کر ہیرابائی کے تکیے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور تکیے پر کہنی ٹیک کر جھک گیا، جھکتا گیا! خوشبو اس کے تمام وجود میں سماگئی۔ تکیے کے غلاف پر کڑھے پھولوں کو انگلیوں سے چھوکر اسے سونگھا، ’’ہائے رے ہائے! اتنی سگندھ!‘‘ ہیرامن کو ایسا معلوم ہوا کہ وہ ایک ساتھ پانچ چلم گانجا پھونک کر اٹھاہے۔ ہیرابائی کے چھوٹے سے آئینے میں اس نے اپنا چہرہ دیکھا۔ اس کی آنکھیں اتنی سرخ کیوں ہیں؟
ہیرابائی لوٹ کر آئی تو ہیرامن نے ہنس کر کہا، ’’اب آپ گاڑی کاپہرا دیجیے۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ ہیرامن نے اپنے سفری جھولے میں سے لپٹی ہوئی گٹھری نکالی، انگوچھا جھاڑ کر کندھے پر رکھا اور ہاتھ میں بالٹی لٹکاکر جیسے ہی چلا، اس کے بیلوں نے باری باری سے ہنک کر کچھ کہا تو ہیرامن پلٹ کر بولا، ’’ہاں ہاں، پیاس سب کو لگی ہے۔ لوٹ کر آتا ہوں تو گھاس دوں گا۔ بدمعاشی مت کرو!‘‘
بیلوں نے کان ہلادیے۔
ہیرامن نہادھوکر کب لوٹا، ہیرا بائی کو کچھ پتا نہ چلا۔ کجری کی دھارا کو دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھوں میں رات کی اچٹی ہوئی نیند لوٹ آئی تھی۔ ہیرامن قریبی گاؤں سے ناشتے کے لیے دہی، چوڑا چینی لے آیا تھا۔
’’اٹھیے جاگیے! جل پان کرلیجیے!‘‘ ہیرابائی نے آنھیں کھولیں تو اسے بڑا تعجب ہوا۔ ہیرامن کے ایک ہاتھ میں مٹی کے نئے برتن میں دہی، کیلے کے پتے، دوسرے ہاتھ میں پانی کی بالٹی تھی اور اس کی آنکھوں میں بڑا محبت بھرا اصرار تھا۔
’’اتنی چیزیں کہاں سے لے آئے؟‘‘
ہیرامن بولا، ’’اس گاؤں کا دہی نامی ہے۔۔۔ چائے تو فاربس گنج پہنچ کر ہی مل سکے گی۔‘‘
ہیرامن کے جسم میں گدگدی جاگ اٹھی۔ ہیرابائی نے کہا، ’’تم بھی پتل بچھاؤ۔۔۔ کیوں؟ تم نہیں کھاؤگے؟ تو سمیٹ کر رکھ لو اپنی جھولی میں۔ میں بھی نہیں کھاؤں گی۔‘‘
’’ارے!‘‘ ہیرامن لجاکر بولا، ’’اچھی بات، آپ کھالیجیے پہلے۔‘‘
’’پہلے پیچھے کیا؟ تم بھی بیٹھو۔‘‘ ہیرامن کادل باغ باغ ہوگیا۔ ہیرابائی نے اپنے ہاتھ سے اس کے لیے پتل بچھایا، پانی کا چھینٹا دیا اور چوڑا نکال کر رکھ دیا۔
اِسس!دھنیہ ہے، دھنیہ ہے! ہیرامن نے دیکھا، بھگوتی میا بھوگ لگارہی ہے۔ سرخ ہونٹوں پر دہی کا موتی۔۔۔ پہاڑی طوطے کو دودھ بھات کھاتے دیکھا ہے؟
دن ڈھل گیا۔
ٹپر میں سوئی ہیرابائی اور زمین پر دری بچھاکر سوئے ہیرامن کی نیند ایک ساتھ ہی کھلی۔۔۔ میلے کی طرف جانے والی گاڑیاں تیگ چھیا کے پاس آکر ٹھہری ہوئی تھیں۔ بچے کھسر پھسر کر رہے تھے۔ ہیرامن ہڑبڑاکر اٹھا۔ اس نے ٹپر کے اندر جھانک کر اشارے سے کہا۔۔۔ دن ڈھل گیا۔ پھر گاڑی میں بیلوں کو جوتتے وقت، ہیرامن نے دوسرے گاڑی بانوں کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا البتہ گاڑی ہانکتے ہوئے بولا، ’’سرپور بازار کے اسپتال کی ڈاگ ڈرنی ہیں۔ پاس ہی کڑماں گاؤں میں روگی دیکھنے جارہی ہیں۔‘‘
ہیرابائی چھتاپور پچیرہ کا نام بھول گئی۔ گاڑی جب کچھ دور نکل آئی تو اس نے ہنس کر پوچھا، ’’پتا پور چھپیرہ؟‘‘ ہنستے ہنستے ہیرامن کے پیٹ میں بل پڑگئے۔ ’’پتا پور چھپیرہ! ہاہا! وہ لوگ چھتاپور پچیرہ کے ہی گاڑی بان تھے، ان سے کیسے کہتا؟ ہی ہی!‘‘ ہیرابائی مسکراتی ہوئی گاؤں کی طرف دیکھنے لگی۔ سڑک تیگ چھیا گاؤں کے بیچ سے نکلتی تھی۔ گاؤں کے بچوں نے پردے والی گاڑی دیکھی تو تالیاں بجابجاکر رٹی ہوئی سطریں دہرانے لگے۔۔۔
لالی لالی ڈولیا میں
لالی رہی دلہنیا
پان کھائے۔۔۔!
ہیرامن ہنسا۔۔۔ دُلہنیا۔۔۔ لالی لالی ڈولیا!دلہنیا پان کھاتی ہے، دولہا کی پگڑی سے منھ پونچھتی ہے۔۔۔ اور دلہنیا، تیگ چھیا گاؤں کے بچوں کو یاد رکھنا۔ لوٹتی بار گڑ کالڈو لیتی آنا۔ لاکھ برس تیرا دولہاجیے۔ ہیرامن کاکتنا پرانا سپنا پورا ہوا ہے۔ ایسے کتنے ہی سپنے اس نے دیکھے ہیں۔۔۔ وہ اپنی دلہن کو لے کر لوٹ رہا ہے۔ ہر گاؤں کے بچے تالیاں بجا بجاکر گارہے ہیں۔ ہر آنگن سے عورتیں جھانک رہی ہیں۔ مرد پوچھتے ہیں، کہاں کی گاڑی ہے؟ کہاں جائے گی؟ اس کی دلہن ذرا سا پردہ کھسکاکر دیکھتی ہے۔ اور ایسے کتنے ہی سپنے۔۔۔
گاؤں سے باہر نکل کر ہیرا من نے کنکھیوں سے ٹپر کے اندر دیکھا۔ ہیرابائی کچھ سوچ رہی تھی۔ ہیرامن بھی کسی سوچ میں کھوگیا اور تھوڑی دیر بعد وہ گنگنانے لگا۔۔۔
سجن رے جھوٹ مت بولو، خدا کے پاس جانا ہے
نہ ہاتھی ہے، نہ گھوڑا ہے، نہ گاڑی۔۔۔
بس پیدل ہی جانا ہے۔ سجن رے۔۔۔
ہیرابائی نے پوچھا، ’’کیوں میتا؟ تمہاری اپنی بولی میں کوئی گیت نہیں ہے کیا؟‘‘
ہیرامن اب بلاجھجک ہیرابائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتاہے۔
کیا کمپنی کی عورت بھی ایسی ہوتی ہے؟ سرکس کمپنی کی مالکن میم تھی لیکن ہیرابائی۔۔۔ گاؤں کی بولی میں گیت سننا چاہتی ہے۔ وہ کھل کر مسکرایا اور اس نے پوچھا، ’’گاؤں کی بولی آپ سمجھیے گا؟‘‘
’’ہوں۔۔۔ ں!‘‘ ہیرابائی نے گردن ہلائی۔ کان کے جھمکے ہل گئے۔ ہیرامن نے پھر پوچھا، ’’گیت ضرور ہی سنیے گا؟ نہیں مانیے گا۔۔۔؟ اتنا شوق گاؤں کا گیت سننے کا ہے آپ کو؟ تب لیک چھوڑنی ہوگی، چالو راستے میں کیسے گیت گاسکتا ہے کوئی!‘‘ ہیرامن نے بائیں بیل کی رسی کھینچ کر دائیں بیل کو لیک سے باہر کیااور بولا، ’’ہری پور ہوکر نہیں جائیں گے تب۔‘‘ چالو لیک کو کاٹتے دیکھ کر ہیرامن کی گاڑی کے پیچھے والے گاڑی بان نے چلاکر پوچھا، ’’کاہے ہو گاڑی وان، لیک چھوڑ کر بے لیک کہاں اُدھر؟‘‘
ہیرامن نے ہوا میں چابک گھماتے ہوے جواب دیا، ’’کہاں ہے بے لیک؟ وہ سڑک متن پور تو نہیں جائے گی؟ اور پھر وہ بڑبڑایا، ’’اس ملک کے لوگوں کی یہ عادت بہت بری ہے۔ راہ چلتے ایک سوجرح کریں گے۔ ارے بھائی، تم کو جانا ہے، جاؤ۔۔۔ دیہاتی اُجَڈ سب!‘‘ متن پور کی سڑک پر گاڑی لاکر ہیرامن نے بیلوں کی رسی ڈھیلی کردی۔ بیلوں نے دلکی چال چھوڑ کر قدم چال پکڑی۔ ہیرابائی نے دیکھا کہ متن پور کی سڑک واقعی بڑی سونی تھی۔ ہیرامن اس کی آنکھوں کی بولی سمجھتا تھا۔۔۔ بولا، ’’گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ سڑک بھی فاربس گنج جائے گی۔ راہ گھاٹ کے لوگ بہت اچھے ہیں۔۔۔ ایک گھڑی رات تک ہم لوگ پہنچ جائیں گے۔‘‘
ہیرابائی کو فاربس گنج پہنچنے کی جلدی نہیں تھی اور ہیرامن پر اس کو اتنا بھروسا ہوگیا تھا کہ اب ڈریا خوف کی کوئی بات اس کے دل میں سر اٹھا ہی نہیں سکتی تھی۔ ہیرامن مسکراتا رہااور سوچتارہا کہ وہ کون سا گیت گائے؟ ہیرابائی کو گیت اور کتھا دونوں کاشوق ہے۔۔۔ مہوا گھٹوارن؟ اور پھر وہ بولا، ’’اچھا، جب آپ کو اتنا شوق ہے تو سنیے مہوا گھٹوارن کا گیت۔ اس میں گیت بھی ہے، کتھا بھی ہے۔‘‘
کتنے دنوں کے بعد بھگوتی نے یہ سپنا بھی پورا کردیا۔ جے بھگوتی! آج ہیرامن اپنے دل کے سارے ارمان پورے کرلے گا۔ وہ ہیرابائی کی تھمی ہوئی مسکراہٹ کو دیکھتا رہا۔ پھر بولا، ’’سنیے! آج بھی پرمان ندی میں مہوا گھٹوارن کے کئی پرانے گھاٹ ہیں۔ اسی ملک کی تھی مہوا۔ تھی تو گھٹوارن، لیکن سَو ستونتی میں ایک تھی۔ اس کاباپ دارو تاڑی پی کر دن رات بے ہوش پڑا رہتا۔ مہوا کی سوتیلی ماں ساکشات راکشنی، بہت تیز نظر، چالاک۔ رات میں گانجا، دارو اور افیم چوری چوری بیچنے والوں سے لے کر طرح طرح کے لوگوں سے اس کی جان پہچان تھی۔ سب سے خوب میل جول، مہوا کنواری تھی لیکن اس کی ماں راکشنی نے کام کراتے کراتے مہوا کی ہڈیاں نکال دی تھیں۔ مہوا جوان ہوگئی، کہیں شادی بیاہ کی بات بھی نہیں چلائی۔ ایک رات کی بات سنیے۔‘‘
ہیرامن نے دھیرے دھیرے گنگناکر گلاصاف کیا۔۔۔
’’ہے۔ آ۔ آ۔ آ ساونابھادوا کے۔ ر۔ امڑل ندیا۔ گے۔ مے۔ یو۔ او۔ او،
میّو گے رینی بھیاونی۔ ہے۔ اے۔ اے۔ اے
تڑکا تڑکے دھڑکے کریجا۔ آ۔ آ۔ مورا
کہ ہم ہوں جے باری۔ نانہی رے۔ اے۔ اے۔۔۔‘‘
(اوہ ماں!ساون بھادوں کی امڈتی ہوئی ندی، بھیانک رات، بجلی کڑکتی ہے، میں بالی کنواری ننھی بچی، میرا کلیجہ دھڑکتاہے۔۔۔ اکیلی کیسے جاؤں گھاٹ پر؟ سو بھی ایک پردیسی راہی بٹوہی کے پیر میں تیل لگانے کے لیے۔ ست ماں نے اپنی بجر کواڑی بند کرلی۔ آسمان میں میگھ ہڑ بڑا اٹھے اور لگاتار بارش ہونے لگی۔ مہوارونے لگی اپنی مری ماں کو یاد کرکے۔ آج اس کی ماں ہوتی تو ایسے بُرے وقت میں کلیجے سے لگاکر رکھتی اپنی مہوا بیٹی کو۔ ہے میا، اسی دن کے لیے، یہی دن دکھانے کے لیے، تم نے کوکھ میں رکھاتھا؟ مہوا اپنی ماں پر جھنجھلائی۔ کیوں وہ اکیلی مرگئی۔۔۔ جی بھر کوستی ہوئی بولی۔۔۔)
ہیرامن نے محسوس کیا کہ ہیرابائی تکیے پر کہنی ٹیک کر گیت میں مگن ایک ٹک اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس انداز میں ہیرابائی اسے بہت بھلی لگی۔ ہیرامن نے اپنے گلے میں کپکپی پیدا کی۔۔۔
ہوں دانیاں رے دانیا، میا موری۔ ی۔ ی! نو نو اچٹائی کا ہے ناہیں
مارلی سوری گھر آ۔ آ۔۔۔ ایہی دنواخاطر چھنرو دھیا تنہو۔
پوسیل کہ نینو۔ دودھ۔ اٹگن۔۔۔
ہیرامن نے دم لیتے ہوئے پوچھا، ’’بھاشا بھی سمجھتی ہیں یا خالی گیت ہی سنتی ہیں؟‘‘
ہیرا بولی، ’’سب سمجھتی ہوں۔ اٹگن معنی ابٹن۔۔۔ جو دیہہ میں لگاتے ہیں۔‘‘
ہیرا من نے حیرانی سے کہا، ’’اوہ!‘‘ اور پھر قصہ سنانا شروع کیا۔ ’’سورونے دھونے سے کیا ہووے۔ سوداگر نے پورا دام چکادیا تھا مہوا کا۔ بال پکڑ کر گھسیٹتا ہوا ناؤ پر چڑھایا اور مانجھی کو حکم دیا، ناؤ کھولو۔ پال باندھو۔ پال والی ناؤ، پر والی چڑیا کی طرح اڑچلی۔ رات بھر مہوا روتی رہی، تڑپتی رہی۔ سوداگر کے نوکروں نے بہت ڈرایا دھمکایا۔۔۔ چپ رہو، نہیں تو اٹھاکر پانی میں پھینک دیں گے! بس، مہوا کو بات سوجھ گئی۔ بھور کا تارامیگھ کی آڑ سے ذراباہر آیا، پھر چھپ گیا۔ ادھر مہوا بھی چھپاک سے پانی میں کود پڑی۔۔۔ سوداگر کاایک نوکر مہوا کو دیکھتے ہی موہت ہوگیا تھا۔ مہوا کے پیچھے وہ بھی کودا۔ الٹی دھارامیں تیرنا کھیل نہیں، سو بھی بھری بھادوں کی ندی میں۔ مہوا اصل گھٹوارن کی بیٹی تھی۔ مچھلی بھلاتھکتی ہے پانی میں!سفری مچھلی جیسی پھر پھراتی ہوئی پانی چیرتی، بھاگی چلی جارہی تھی اور اس کے پیچھے سوداگر کا نوکر پکار پکار کر کہتا ہے۔۔۔ مہوا، ذرا تھمو! تم کو پکڑنے نہیں آرہا۔۔۔ تمہارا ساتھی ہوں۔ زندگی بھر ساتھ رہیں گے ہم لوگ۔ لیکن۔۔۔‘‘
یہ ہیرامن کا بڑا پسندیدہ گیت ہے۔ مہوا گھٹوارن گاتے وقت اس کی آنکھوں کے سامنے ساون بھادوں کی ندی بپھرنے لگتی ہے۔ اماوس کی رات، جب گھنے بادلوں میں رہ رہ کر بجلی چمک اٹھتی ہے۔ اسی چمک سے لہروں سے لڑتی ہوئی بالی کنواری مہوا کی جھلک اسے مل جاتی ہے۔ سفری مچھلی کی چال اور تیز ہوجاتی ہے۔ اس کو لگتا ہے، وہ خود سوداگر کانوکر ہے۔ لیکن مہوا اس کی کوئی بات نہیں سنتی، کچھ محسوس نہیں کرتی، پلٹ کر بھی نہیں دیکھتی۔۔۔ اور وہ تیرتے تیرتے تھک گیا ہے۔۔۔ لیکن اس بار لگتا ہے مہوا نے خود کو پکڑ وادیا ہے۔ اس نے مہوا کو چھولیا ہے، پالیا ہے۔ اس کی تھکن دور ہوگئی ہے۔ بپھری ہوئی ندی کے الٹے بہاؤ میں پندرہ بیس سال سے تیرتے ہوئے اس کے دل کو کنارہ مل گیا ہے۔ خوشی کے آنسو روکے سے نہیں رکتے۔
اس نے اپنی بھیگی آنکھیں ہیرابائی سے چرانے کی کوشش کی لیکن ہیرابائی تو اس کے دل میں بیٹھی نہ جانے کب سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ ہیرامن نے اپنی بھرائی ہوئی آواز پر قابو پاتے ہوئے، بیلوں کو جھڑکی دی۔ اس گیت میں نہ جانے کیا تھا کہ ہیرامن اور ہیرابائی دونوں ہی کھوگئے تھے۔ اچانک ہیرابائی نے ایک لمبی سانس لی اور بولی، ’’تم تو استاد ہو میتا!‘‘
ہیرامن کے انگ انگ میں ایک امنگ سماگئی۔
شی ی ی!
آشون کارتک کاسورج دوبانس دن رہتے ہی ڈھل جاتاہے۔ سورج ڈوبنے سے پہلے ہی متن پور پہنچنا ہے۔ ہیرامن اپنے بیلوں کو سمجھاتا ہے، ’’قدم کھول کر اور کلیجہ باندھ کر چلو۔۔۔ اے۔۔۔ چھی چھی! بڑھ کے بھیّن! لے۔۔۔ لے۔۔۔ لے۔۔۔ اے۔۔۔ ہے۔۔۔ ہے!‘‘
متن پور کے ہاٹ پر آج کل چائے بھی بکنے لگی ہے۔ ہیرامن اپنے لوٹے میں چائے بھر کر لے آیا۔۔۔ وہ کمپنی کی عورت کو جانتا ہے جو سارا دن، ہر گھڑی چائے پیتی رہتی ہے۔ چائے ہے یا جان!ہیرابائی ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو رہی ہے۔ ’’ارے تم سے کس نے کہہ دیا کہ کنوارے آدمی کو چائے نہیں پینا چاہیے؟‘‘ ہیرامن لجا گیا۔ اب وہ کیا کہتا۔۔۔ لاج کی بات تھی۔ لیکن ایک بار بھگت چکا ہے۔ اس نے سرکس کمپنی کی میم کے ہاتھ سے چائے پی تھی۔۔۔ تاثیر بڑی گرم تھی۔
’’پیجئے گروجی۔‘‘ ہیرا ہنسی
’’شی!‘‘
متن پور کے ہاٹ پر ہی دیا بتی جل چکی تھی۔ ہیرامن نے اپنی سفری لالٹین جلاکر پچھوا میں لٹکادی۔۔۔ آج کل شہر سے پانچ کوس دور گاؤں والے بھی خود کو شہری بابو سمجھنے لگے ہیں۔ روشنی کے بغیر جارہی گاڑی کو پکڑ کر چالان کردیتے ہیں۔ ایک جان، سوستم۔
’’آپ مجھے گروجی مت کہیے۔‘‘
’’تم میرے استاد ہو۔ ہمارے شاستر میں لکھا ہے، ایک اکھشر سکھانے والا بھی گرو اور ایک راگ سکھانے والا بھی استاد۔‘‘
’’شی! شاستر پران بھی جانتی ہیں۔۔۔؟ میں نے کیا سکھایا ہے؟ میں کیا۔۔۔‘‘
ہیرابائی ہنس کر گنگنانے لگی ہے، ’’۔۔۔ آ۔۔۔ آ۔۔۔ ساونا۔۔۔ بھادوا کے۔۔۔ رے۔۔۔!‘‘ ہیرامن حیرت کے مارے گونگا ہوگیا۔۔۔ اُف اتنا تیز ذہن! ہو بہو مہوا گھٹوارن!
بیل گاڑی سیتادھار کی ایک خشک ڈھلوان پر گڑ گڑاکر نیچے اتری۔ ہیرابائی نے ایک ہاتھ سے ہیرامن کا کندھا پکڑلیا اور بہت دیر تک اس کے کندھے پر ہیرابائی کی انگلیاں رکھی رہیں۔ ہیرامن نے اپنی آنکھیں کئی بار گھماکر اپنے کندھے پر مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ گاڑی چڑھائی پر پہنچی تو ہیرابائی کی ڈھیلی انگلیاں پھر تن گئیں۔
سامنے فاربس گنج کی روشنی جھلملا رہی تھی اور شہر سے تھوڑی دور میلے کی روشنیاں جگمگارہی تھیں۔۔۔ ٹپر میں لٹکی لالٹین کی روشنی میں پرچھائیں اِدھر اُدھر ناچتی رہی۔۔۔ ڈبڈبائی آنکھوں سے ہر روشنی سورج مکھی پھول کی طرح دکھائی دیتی ہے۔
فاربس گنج تو ہیرا من کے گھر کی دہلیز ہے۔ نہ جانے وہ کتنی بار فاربس گنج آیا ہے۔ میلے کا سامان لادا ہے۔ کسی عورت کے ساتھ؟ ہاں ایک بار۔۔۔ جس سال اس کی بھابی گونے میں آئی تھی، اسی طرح ترپال سے گاڑی کو چاروں طرف سے گھیر کر اس نے پردہ بنایا تھا۔ اور آج گاڑی بانوں کے حلقے میں ہیرامن اپنی گاڑی کو ترپال سے گھیر رہا ہے۔ صبح ہوتے ہی ہیرابائی منیجر سے بات کرکے اروتہ نوٹنکی کمپنی میں بھرتی ہوجائے گی۔ پرسوں میلہ کھل رہا ہے۔ اس بار میلے میں خوب رونق ہے۔
ہیرابائی، ایک رات۔۔۔ بس آج کی رات۔۔۔ ہیرامن کی گاڑی میں رہے گی۔۔۔ ہیرا من کی گاڑی میں۔۔۔ گھر میں نہیں۔
وہاں جمع گاڑی بانوں کی ایک ساتھ کئی آوازیں ابھریں، ’’کہاں کی گاڑی ہے؟‘‘
’’کون، ہیرامن؟‘‘
’’کس میلے سے؟‘‘
’’کیا سامان؟‘‘
گاؤں گاؤں کے گاڑی بان ایک دوسرے کو ڈھونڈ کر، آس پاس گاڑیاں لگاکر پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ اپنے گاؤں کے لال موہر، دھنی رام اور پٹیل داس جیسے گاڑی بانوں کے جمگھٹے کو دیکھ کر ہیرامن چکراگیا۔ ادھر پٹیل داس ٹپر میں جھانک کر یوں بدکاجیسے باگھ پر نظر پڑگئی ہو۔ ہیرامن نے اشارے سے سب کو چپ کرایا۔ پھر گاڑی کی طرف آنکھ مار کر پھسپھسایا، ’’چپ! کمپنی کی عورت ہے، نوٹنکی کمپنی کی۔‘‘
’’کمپنی کی۔۔۔ ی۔۔۔ ی۔۔۔ ی؟‘‘
؟۔۔۔؟۔۔۔؟۔۔۔!
اب وہاں ایک نہیں بلکہ چار ہیرامن تھے۔ چاروں نے ایک دوسرے کی طرف بڑی حیرت سے دیکھا۔۔۔ کمپنی کے نام میں کتنا اثر ہے۔ ہیرامن نے محسوس کیا کہ اس کے تینوں ساتھی ہکا بکا رہ گئے ہیں۔ لال موہر نے ذرا پرے ہٹ کر، اشارے سے ہی ہیرابائی کی آواز سننے کی خواہش ظاہر کی۔ ہیرامن نے ٹپر کی طرف منھ پھیر کر کہا، ’’ہوٹل تو نہیں کھلا ہوگا کوئی، حلوائی کے یہاں سے کچھ لے آویں؟‘‘
’’ہیرامن، ذرا ادھر سنو۔۔۔ میں کچھ نہیں کھاؤں گی ابھی۔ لو، تم کھا آؤ۔‘‘
’’کیا ہے؟ پیسہ؟ چچ۔۔۔‘‘ پیسہ دے کر ہیرامن نے فاربس گنج میں کچی پکی نہیں کھائی۔ اس کے گاؤں کے اتنے گاڑی بان ہیں، کس دن کے لیے؟ وہ چھو نہیں سکتاپیسہ۔ اس نے ہیرابائی سے کہا، ’’بیکار میلہ بازار میں حجت مت کیجیے۔ پیسہ رکھیے۔‘‘ موقع پاکر لال موہر بھی ٹپر کے قریب آگیا۔ اس نے ہیرابائی کو سلام کرتے ہوئے کہا، ’’چار آدمی کے بھات میں دو آدمی خوشی سے کھاسکتے ہیں۔ بھات پک رہا ہے۔ جی ی ی! ہم لوگ ایک ہی گاؤں کے ہیں۔ ہمارے رہتے ہوئے کیا ہوٹل اور حلوائی کے یہاں کھائے گاہیرامن؟‘‘
ہیرامن نے لال موہر کا ہاتھ دبادیا، ’’بے فجول مت بکو!‘‘ گاڑی سے چار رسی دور جاتے ہوئے دھنی رام نے اپنے کلبلاتے ہوئے دل کی بات کہہ دی، ’’تم بھی خوب ہو ہیرامن! اُس سال کمپنی کا باگھ، اِس بار کمپنی کا جنانہ!‘‘ ہیرامن نے دبی آواز میں کہا، ’’بھائی رے، یہ ہم لوگوں کے ملک کی جنانہ نہیں کہ لٹ پٹ بولی سن کر بھی چپ رہ جائے۔ ایک تو پچھم کی عورت، تس پر کمپنی کی۔‘‘ دھنی رام نے اپنا شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’لیکن کمپنی میں تو سنتے ہیں بیسوا ہوتی ہے۔‘‘
’’دھت!‘‘ سب نے ایک ساتھ اسے پھٹکارا، ’’کیسا آدمی ہے! بیسوارہے گی کمپنی میں بھلا؟ دیکھو اس کی بدّھی۔۔۔! سنا ہے، دیکھا تو نہیں ہے کبھی؟‘‘ دھنی رام نے اپنی غلطی مان لی۔ پلٹ داس کو بات سوجھی، ’’ہیرامن بھائی، جنانہ جات اکیلی رہے گی گاڑی پر؟ کچھ بھی ہو، جنانہ آخر جنانہ ہی ہے۔ کوئی جرورت ہی پڑجائے۔‘‘
یہ بات سب کو اچھی لگی۔ ہیرامن نے کہا، ’’بات ٹھیک ہے۔ پلٹ، تم جاؤ، گاڑی کے پاس ہی رہنا۔ اور دیکھو گپ شپ ذرا ہوشیاری سے کرنا، ہاں!‘‘
ہیرامن کے جسم سے گلاب کے عطر کی خوشبو آرہی ہے۔ اُس بار مہینوں اس کے جسم سے شیر کی بو نہیں گئی تھی اور اس بار لال موہر نے ہیرا من کا انگوچھا سونگھ لیا۔۔۔ اے۔۔۔!ہیرامن چلتے چلتے رک گیا، ’’کیا کریں لال موہر بھائی، ذرا کہو تو۔ بڑی ضد کرتی ہے، کہتی ہے نوٹنکی دیکھنی ہی ہوگی۔‘‘
’’پھو کٹ میں ہی؟‘‘
’’اور گاؤں نہیں پہنچے گی یہ بات؟‘‘
ہیرامن بولا، ’’نہیں جی، ایک رات نوٹنکی دیکھ کر زندگی بھر بولی ٹھولی کون سنے؟ دیسی مرغا، ولایتی چال!‘‘ دھنی رام نے پوچھا، ’’پھوکٹ میں دیکھنے پر بھی تمہاری بھوجائی بات بنائے گی؟‘‘
لال موہر کی گاڑی کے پہلو میں، لکڑی کی دکانیں لاد کر لائے ہوئے گاڑی بانوں کا پڑاؤ ہے۔ میرگاڑی بان بوڑھے میاں جان نے سفری گڑگڑی پیتے ہوئے پوچھا، ’’کیوں بھائی، مینابازار کی لادنی لاد کر کون آیا ہے؟‘‘
’’مینابازار؟ مینابازار تو بیسواؤں کے اڈے کو کہتے ہیں۔۔۔ کیا بولتا ہے یہ بوڑھا؟‘‘ لال موہر نے ہیرامن کے کان میں پھسپھساکر کہا، ’’تمہاری دیہہ مہکتی ہے۔۔۔ سچ!‘‘
لال موہر کے نوکر کا نام لہسنواں ہے۔ عمر میں سب سے چھوٹا ہے۔ پہلی بار آیا ہے تو کیا؟ بابوؤں کے ہاں بچپن سے نوکری کرچکا ہے۔ وہ رہ رہ کر ناک سکیڑ کر ہوا میں کچھ سونگھتا ہے۔ ہیرامن نے دیکھا کہ لہسنواں کا چہرہ تمتما گیا ہے۔
کون آرہا ہے دھڑ دھڑاتا ہوا۔۔۔؟
’’کون، پلٹ داس؟ کیا ہے؟‘‘
پلٹ داس آکر چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ اس کا چہرہ بھی تمتمایا ہوا تھا۔ ہیرامن نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟ بولتے کیوں نہیں؟‘‘
اب پلٹ داس کیا جواب دیتا۔ ہیرامن نے اس سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ ذراعقل مندی سے گپ شپ کرے۔ لیکن پلٹ داس گاڑی کی آسنی پر ہیرامن کی جگہ پر جابیٹھا تھا۔ ہیرابائی نے پوچھا تھا، ’’تم بھی ہیرامن کے ساتھی ہو؟‘‘ پلٹ داس نے اپنی گردن ہلاکر ’’ہاں‘‘ کہی تھی۔ اس کے بعد ہیرابائی لیٹ گئی۔۔۔ اس کاچہرہ مہرہ دیکھ کر اور بات چیت سن کر پلٹ داس کا دل نہ جانے کیوں زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ ہاں، رام لیلا میں سیتا سو کماری اسی طرح تھکی لیٹی ہوئی تھی۔ جے! سیاور رام چندر کی جے۔۔۔ پلٹ داس کے دل میں جے جے کار ہونے لگاتھا۔ وہ ویشنو بھگت تھا۔ کیرتن بھی کیا کرتا تھا۔ اس نے تھکی سیتا مہارانی کے پاؤں دابنے کی خواہش کااظہار اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے اس طرح کیا تھا جیسے وہ انہیں ہارمونیم کے سروں پر نچا رہا ہو۔ ہیرابائی ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھی تھی، ’’ارے، پاگل ہے کیا؟ جاؤ، بھاگو!‘‘ پلٹ داس کو لگا کہ غصے سے بپھری ہوئی کمپنی کی عورت کی آنکھوں میں سے چنگاریاں نکل رہی ہیں۔۔۔ اور وہ وہاں سے بھاگ آیا تھا۔
اب پلٹ داس کیا جواب دیتا! وہ میلے سے بھی بھاگنے کا کوئی بہانہ ڈھونڈھ رہا تھا۔ بولا، ’’کچھ نہیں۔ ہم کو بیوپاری مل گیا۔ ابھی ٹیشن جاکر مال لادنا ہے۔ بھات میں تو ابھی دیر ہے۔ میں لوٹ آتا ہوں تب تک۔‘‘ بھات کھاتے ہوئے دھنی رام اور لہسنواں نے پلٹ داس کی بہت برائی کی، ’’چھوٹا آدمی ہے۔ کمینہ ہے۔ پیسے پیسے کا حساب جوڑتا ہے۔‘‘
کھانے پینے کے بعد لال موہر کے ساتھی الگ الگ ہوگئے۔ دھنی اور لہسنواں گاڑی جوت کر ہیرامن کے ساتھ چل دیے۔ ہیرامن نے چلتے چلتے رک کر لال موہر سے کہا، ’’ذرا میرے اس کندھے کو سونگھ تو۔ سونگھ کر دیکھونا!‘‘ لال موہر نے کندھا سونگھ کر آنکھیں موندھ لیں۔ اس کے منھ سے ایک مبہم سا لفظ نکلا، ’’اے۔۔۔ ہے۔۔۔!‘‘ ہیرامن نے کہا، ’’ذرا سا ہاتھ رکھنے پر اتنی خوشبو۔۔۔ سمجھے؟‘‘
لال موہر نے ہیرا من کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’کندھے پر ہاتھ رکھا تھا؟ سچ۔۔۔؟سنو ہیرامن، نوٹنکی دیکھنے کا ایسا موقع پھر کبھی ہاتھ نہیں لگے گا۔ ہاں!‘‘
’’تم بھی دیکھو گے؟‘‘
لال موہر کی باچھیں کھل اٹھیں۔
گاڑی کے پاس پہنچ کر ہیرامن نے دیکھا کہ ٹپر پاس کھڑا کوئی ہیرا بائی سے باتیں کر رہا ہے۔ دھنسی اور لہسنواں نے ایک ساتھ کہا، ’’کہاں رہ گئے تھے پیچھے؟ بہت دیر سے کھوج رہی ہے کمپنی!‘‘ ہیرامن نے ٹپر کے پاس جاکر دیکھا تو وہ چونک اٹھا۔۔۔ ارے، یہ تو وہی بکس ڈھونے والا نوکر ہے جو چمپانگر میلے میں ہیرابائی کو گاڑی میں بٹھاکر اندھیرے میں غائب ہوگیا تھا۔
’’آگئے ہیرامن؟ اچھی بات ہے۔ ادھر آؤ۔۔۔ یہ لو اپنا کرایہ اور یہ لو اپنا انعام۔‘‘
پچیس، پچیس، پچاس!
ہیرامن کو لگا کہ کسی نے دھکا دے کر اسے آسمان سے دھرتی پر پٹخ دیا ہے۔۔۔ کسی نے کیوں؟ اسی بکس ڈھونے والے ملازم نے۔ کہاں سے آن مرا؟ زبان پر آئی ہوئی بات زبان پر ہی رہ گئی۔۔۔ ہائے، انعام! اور ہیرامن چپ چاپ کھڑا رہا۔ ہیرابائی بولی، ’’لو، پکڑو!اور سنو، کل صبح ارو تہ کمپنی میں آکر مجھ سے بھینٹ کرنا۔ پاس بنوادوں گی۔۔۔ بولتے کیوں نہیں؟‘‘
لال موہر نے کہا، ’’الام ہکسیس دے رہی ہیں مالکن۔ لے لو ہیرامن۔‘‘ ہیرامن نے بگڑ کر لال موہر کی طرف دیکھا۔۔۔ بولنے کاذرا بھی ڈھنگ نہیں اس لال موہر کو! دھنی رام نے زیرلب کہا، ’’بیل گاڑی چھوڑ کر میلے میں نوٹنکی کیسے دیکھ سکتا ہے کوئی گاڑی بان!‘‘ لیکن دھنی کی یہ بات نہ صرف سب نے بلکہ ہیرابائی نے بھی سن لی تھی۔ ہیرامن نے روپے لیتے ہوئے کہا، ’’کیا بولیں گے!‘‘ اس نے ہنسنے کی کوشش کی۔۔۔ کمپنی کی عورت کمپنی میں جارہی ہے، ہیرامن کا کیا!
بکس ڈھونے والاراستہ دکھاتا ہوا آگے بڑھا، ’’ادھر سے۔‘‘ ہیرابائی جاتے جاتے رک گئی۔ ہیرامن کے بیلوں کو مخاطب کرتے ہوئے بولی، ’’اچھا میں چلی بھین!‘‘
بیلوں نے بھیّن لفظ پر کان بلادیے۔
؟۔۔۔؟۔۔۔؟۔۔۔!
’’بھائیو! آج رات! دی اروتہ سنگیت نوٹنکی کمپنی کے اسٹیج پر! گلبدن دیکھیے، گلبدن! آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ متھرا موہن کمپنی کی مشہور ایکٹریس مس ہیرادیوی، جن کی ایک ایک ادا پر ہزار جانیں فدا ہیں، اس بار ہماری کمپنی میں آگئی ہیں۔ یاد رکھیے۔ آج کی رات۔ مس ہیرادیوی گلبدن۔۔۔!‘‘ نوٹنکی والوں کے اس اعلان سے میلے میں ہر جگہ ہیرابائی کا چرچا ہو رہا ہے۔۔۔ ہیرابائی؟ مس ہیرا دیوی؟ لیلی، گلبدن۔۔۔؟ فلم ایکٹریس کو مات کرتی ہے۔۔۔!
تیری بانکی ادا پر میں خود ہوں فدا
تیری چاہت کادلبر بیاں کیا کروں
یہی خواہش ہے تو مجھ کو دیکھا کرے
اور دل و جان میں تجھ کو دیکھا کروں
کرررر۔۔۔ کڑڑڑڑڑڑ۔ ر۔ رگھن۔ گھن۔ گھن۔ دھڑام!
ہر آدمی کا دل نقارے کی طرح بج رہا ہے۔
لال موہر دوڑتا ہانپتا ٹھکانے پر آیا، ’’اے اے ہیرامن!یہاں کیا بیٹھے ہو؟ چل کر دیکھو کیسی جے جے کار ہو رہی ہے۔ باجے گاجے چھاپی فارم (پوسٹر) کے ساتھ ہیرابائی کے جے جے ہو رہی ہے۔‘‘ ہیرامن ہڑبڑاکر اٹھا۔ لہسنواں نے کہا، ’’دھنی کا کا، تم ٹھکانے پر رہو، میں بھی دیکھ آؤں۔‘‘
دھنی کی بات کون سنتا ہے!وہ تینوں نوٹنکی کمپنی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے پیچھے پیچھے ہولیے۔ ہرموڑ پر رک کر، باجابند کرکے اعلان کیا جاتا ہے۔ اعلان کے ہر لفظ پر ہیرامن کا دل خوشی سے کھل اٹھتا ہے۔ ہیرا بائی کانام، نام کے ساتھ ادا، فداوغیرہ سن کر اس نے لال موہر کی پیٹھ تھپتھپادی، ’’دھنیہ ہے!ہے یا نہیں؟‘‘
لال موہر نے کہا، ’’اب بولو! اب بھی نوٹنکی نہیں دیکھوگے؟‘‘
صبح سے ہی دھنی رام اور لال موہر سمجھا رہے تھے اور سمجھاتے سمجھاتے تھک ہار چکے تھے۔
’’کمپنی میں جاکر بھینٹ کرآؤ۔‘‘
’’جاتے جاتے پکی کرگئی ہے۔‘‘
لیکن ہیرامن کے پاس ہر بات کاایک ہی جواب تھا، ’’دھت، کون بھینٹ کرنے جائے! کمپنی کی عورت، کمپنی میں گئی۔ اب اسے کیا لینا، پہچانے گی بھی نہیں۔‘‘ ہیرامن دل ہی دل میں روٹھا ہوا تھا۔ اعلان سننے کے بعد اس نے لال موہر سے کہا، ’’ضرور دیکھنا چاہیے، کیوں لال موہر؟‘‘
دونوں آپس میں صلاح مشورہ کرکے اروتہ کمپنی کی طرف چل دیے۔ خیمے کے پاس پہنچ کر ہیرامن نے لال موہر کو اشارہ کیا کہ اب وہ پوچھ تاچھ کرے کیوں کہ یہ اسی کی ذمہ داری تھی۔ لال موہر مہذب بولی جانتا تھا۔ اس نے ایک کالے کوٹ والے سے کہا، ’’بابو صاحب، ذرا سنیے تو۔‘‘
کالے کوٹ والے نے ناک بھوں چڑھاکر کہا، ’’کیا ہے؟ ادھر کیوں؟‘‘ لال موہر کی مہذب بولی ہڑبڑاگئی۔ تیور دیکھ کربولا، ’’گل گل۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ بلبل۔۔۔ بلبل۔۔۔!‘‘ ہیرامن نے جھٹ بات سنبھال لی، ’’ہیرا دیوی کدھر رہتی ہیں، بتاسکتے ہیں؟‘‘ اس آدمی کی آنکھیں یکدم لال ہوگئیں۔ اس نے سامنے کھڑے نیپالی سپاہی کو پکار کر پوچھا، ’’ان لوگوں کو کیوں آنے دیا اِدھر؟‘‘
’’ہیرامن!‘‘ وہی رس بھری آواز آئی۔ خیمے کے پردے کو ہٹاکر ہیرابائی نے بلایا، ’’یہا آجاؤ اندر۔۔۔ دیکھو، بہادر! اس کو پہچان لو۔ یہ میرا ہیرامن ہے۔ سمجھے؟‘‘ نیپالی ہیرامن کی طرف دیکھ کر ذرا مسکرایا اور وہاں سے جاکر کالے کوٹ والے سے کہا، ’’ہیرا بائی کا آدمی ہے۔ نہیں روکنے کو بولا۔‘‘
لال موہر نیپالی کے لیے پان لے آیا۔ ’’کھائیے۔‘‘
ایک نہیں، پانچ پاس۔۔۔ چاروں اٹھنیا!بولی کہ جب تک میلے میں ہو، روز رات میں آکر دیکھنا۔ سب کاخیال رکھتی ہے۔ بولی کہ تمہارے اور ساتھی ہیں، سب کے لیے پاس لے جاؤ۔ کمپنی کی عورتوں کی بات ہی نرالی ہوتی ہے۔ ہے یا نہیں؟
لال موہر نے سرخ کاغذ کے ٹکڑے کو چھوکر دیکھا، ’’پاس! واہ رے ہیرامن بھائی۔۔۔! لیکن پانچ پاس لے کر کیا ہوگا؟ پلٹ داس پھر پلٹ کر آیا ہی نہیں ہے ابھی تک۔‘‘ ہیرامن نے کہا، ’’جانے دو اَبھاگے کو۔ تقدیر میں لکھا نہیں۔۔۔ ہاں پہلے گرو کی قسم کھانی ہوگی سبھی کو کہ گاؤں گھر میں یہ بات ایک پنچھی بھی نہ جان پائے گا!‘‘ لال موہر نے بھڑک کر کہا، ’’کون سالا بولے گا جاکر؟ پلٹانے اگر بدمعاشی کی تو دوسری بار سے پھر ساتھ نہیں لاؤں گا۔‘‘
ہیرامن نے اپنے روپوں کی تھیلی آج ہی ہیرابائی کی تحویل میں دے دی ہے۔ میلے میں کیا بھروسا۔ قسم قسم کے جیب کترے ہر سال میلے میں آتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں اور ہمراہیوں کا بھی کیا بھروسا۔ ہیرابائی نے ہیرامن کے روپوں کی تھیلی کو چمڑے کے اٹیچی کیس میں رکھ دیا۔ اٹیچی کیس کے اوپر بھی کپڑے کا غلاف اور اندر بھی جھلمل ریشمی استر۔ لال موہر اور دھنی رام نے مل کر ہیرامن کی عقل مندی کی تعریف کی۔ اس کے مقدر کو بار بارسراہا۔ دبی زبان میں اس کے بھائی اور بھاوج کی برائی کی کہ انہیں ہیرامن جیسا ہیرا بھائی ملا ہے، کوئی دوسرا ہوتا تو۔۔۔
لہسنواں جب لوٹا تو اس کا منھ لٹکا ہوا تھا۔ اعلان سنتے سنتے وہ نہ جانے کہاں چلا گیا تھا کہ اب شام ہونے کے بعد ہی لوٹا ہے۔ لال موہر نے اسے ایک گالی کے ساتھ مالکانہ جھڑکی دی، ’’شہدا کہیں کا!‘‘
دھنی رام نے چولھے پر کھچڑی چڑھاتے ہوئے کہا، ’’پہلے یہ فیصلہ کرلو کہ گاڑی کے پاس کون رہے گا؟‘‘
’’رہے گا کون؟ یہ لہسنواں کہاں جائے گا؟‘‘
لہسنواں روپڑا، ’’ہے ہے ے ے۔ مالک، ہاتھ جوڑتاہوں۔ اِکے جھلک! بس ایک جھلک!‘‘ ہیرامن نے فراخ دلی سے کہا، ’’اچھا اچھا، ایک جھلک کیوں، ایک گھنٹہ بھر دیکھنا۔۔۔ میں آجاؤں گا۔‘‘
نوٹنکی شروع ہونے سے دو گھنٹے پہلے ہی نقارہ بجناشروع ہوگیا اور نقارہ بجتے ہی لوگ پروانوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ ٹکٹ گھر کے پاس جمع بھیڑ کو دیکھ کر ہیرامن کو بڑی ہنسی آئی۔ ’’لال موہر، اُدھر دیکھ، کیسی دھکا مکی کر رہے ہیں لوگ!‘‘
’’ہیرامن بھائی۔‘‘
’’کون، پلٹ داس؟ کہاں کا سامان لاد لائے؟‘‘ لال موہر نے پرائے گاؤں کے آدمی کی طرح پوچھا۔
پلٹ داس نے ہاتھ ملتے ہوئے معافی مانگی، ’’قصوروار ہیں جو سزا دو تم لوگ، سب منظور ہے لیکن سچی بات کہیں کہ سیاسو کماری۔۔۔‘‘ ہیرا من کے دل کا کنول نقارے کے تال پر کھل گیا ہے۔ بولا، ’’دیکھ پلٹا۔ یہ مت سمجھنا کہ گاؤں گھر کی جنانہ ہے۔ دیکھو تمہارے لیے بھی پاس دیا۔ پاس لے لو اپنا تماشادیکھو۔‘‘
لال موہر نے کہا، ’’لیکن ایک شرط پر ملے گا۔ بیچ بیچ میں لہسنواں کو بھی۔۔۔‘‘ پلٹ داس کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ پہلے ہی لہسنواں سے بات کر آیا تھا۔ لال موہر نے دوسری شرط سامنے رکھی، ’’گاؤں میں یہ بات اگر کسی کو معلوم ہوئی کسی طرح۔۔۔‘‘
’’رام رام!‘‘ پلٹ داس نے اپنے دانتوں سے اپنی زبان کو کاٹتے ہوئے کہا۔
پلٹ داس نے بتایا، اٹھنیا پھاٹک ادھر ہے۔ پھاٹک پر کھڑے دربان نے ان سے پاس لے کر ان کے چہروں کو باری باری دیکھا اور بولا، ’’یہ تو پاس ہیں! کہاں سے ملے؟‘‘ اب لال موہر کی مہذب بولی کے جوہر کھلے۔ اس کے تیور دیکھ کر دربان گھبراگیا، ’’ملے گاکہاں سے؟ اپنی کمپنی سے پوچھ لیجیے جاکر! چار ہی نہیں، دیکھیے ایک اور ہے۔‘‘ جیب سے پانچواں پاس نکال کر لال موہر نے دکھایا۔
ایک روپے پھاٹک پر نیپالی دربان کھڑا تھا۔ ہیرامن نے پکار کر کہا، ’’اے سپاہی راجو! صبح کو ہی پہنچوادیا اور ابھی بھول گئے؟‘‘ نیپالی دربان وہیں سے بولا، ’’ہیرابائی کا آدمی ہے سب، جانے دو۔ پاس ہے تو پھر کاہے کو روکتا ہے؟‘‘
اٹھنیا درجہ!
تینوں نے ’’کپڑگھر‘‘ کو اندر سے پہلی بار دیکھا۔ سامنے بنچ کرسی والے درجے تھے۔ پردے پر رام بن باس کا منظر تھا۔ پلٹ داس پہچان گیا۔ اس نے پردے پر بنے رام، سیاسو کماری اور لکھن کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا، ’’جے ہو، جے ہو!‘‘ اور پلٹ داس کی آنکھیں بھر آئیں۔
ہیرامن نے کہا، ’’لال موہر، چھاپی سبھی کھڑے ہیں یا چل رہے ہیں؟‘‘ لال موہر اپنے دائیں بائیں بیٹھے تماشائیوں سے جان پہچان پیدا کرچکا تھا۔ اس نے ہیرامن کی بات کا جواب دیا، ’’کھیل ابھی پردے کے بھیتر ہے۔ لوگ جمانے کے لیے پردہ ہلارہے ہیں۔‘‘
پلٹ داس ڈھولک بجانا جانتا تھا، اس لیے نقارے کی تال پر وہ اپنی گردن ہلاتا تھااور دیا سلائی کی ڈبیا پر تال دیتا تھا۔ بیڑی کے ذریعے ہیرامن نے بھی ایک آدھ جان پہچان پیدا کرلی تھی۔ لال موہر کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے اپنے جسم کو چادر سے لپیٹتے ہوئے کہا، ’’ناچ شروع ہونے میں ابھی دیر ہے، تب تک ایک نیند ہی لے لیں۔۔۔ سب درجے سے اچھا اٹھنیا درجہ! یہ سب سے پیچھے سب سے اونچی جگہ پر ہے! زمین پر گرم پیال! ہے ہے! کرسی پر بیٹھ کر اس سردی کے موسم میں تماشا دیکھنے والے، دیکھو ابھی کیسے اٹھ اٹھ کر چائے پینے کے لیے جاتے ہیں!‘‘
پھر اس آدمی نے اپنے ساتھی سے کہا، ’’کھیل شروع ہونے پر جگادینا۔ نہیں نہیں، کھیل شروع ہونے پر نہیں بلکہ ہیریا جب اسٹیج پر آئے، ہم کو جگادینا۔‘‘ ہیرامن کا جی جل گیا۔ وہ بڑبڑایا، ’’ہیریا! بڑا لٹ پٹیا آدمی معلوم پڑتا ہے۔‘‘ اور پھر ہیرا من نے آنکھ کے اشارے سے لال موہر سے کہا، ’’اس آدمی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
دھن دھن دھن دھڑام۔۔۔ پردہ اٹھ گیا۔
ہے۔۔۔ ہے۔۔۔ ے! ہیرابائی شروع میں ہی آگئی اسٹیج پر۔ پنڈال کھچاکھچ بھر گیا تھا۔ ہیرامن کا منھ حیرت سے کھل گیا۔ لال موہر کو نہ جانے کیوں بے تحاشا ہنسی آرہی تھی۔ وہ ہیرابائی کے ہر بول پر بلاوجہ ہنس رہا تھا۔ گلبدن دربار لگائے بیٹھی ہے۔ اعلان کر رہی ہے، ’’جو آدمی تخت ہزارہ بناکر لادے گا، منھ مانگی چیز انعام پائے گا۔۔۔! اجی ہے کوئی ایسا فنکار، تو ہوجائے تیار، بناکر لائے تخت ہز۔۔۔ ا۔۔۔ رہ!‘‘
کڑکڑ۔۔۔ کررر۔۔۔ ’’گجب ناچتی ہے!‘‘
’’کیا گلا ہے!معلوم ہوتا ہے۔۔۔‘‘
’’یہ آدمی کہتا ہے کہ ہیرابائی پان بیڑی، سگریٹ زردہ، کچھ نہیں کھاتی۔‘‘
’’ٹھیک کہتا ہے۔ بڑی نِیَم (اصول) والی رنڈی ہے۔‘‘
ہیرا من بلبلا اٹھا، ’’کون کہتا ہے کہ رنڈی ہے؟ دانت میں مسی کہاں ہے؟‘‘
’’پوڈر سے دانت دھولیتی ہوگی۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘
’’کون آدمی ہے؟ بے بات کی بات کرتا ہے۔‘‘
’’کون ہے جو کمپنی کی عورت کو بیسوا کہتا ہے؟‘‘
’’تم کو بات کیوں لگی؟ کون ہے تو؟ رنڈی کابھڑوا؟‘‘
’’مارو سالے کو!‘‘
’’مارو!‘‘
’’تیری۔۔۔!‘‘
اس ہنگامے میں ہیرامن کی آواز پنڈال کو پھاڑ رہی تھی، ’’آؤ، ایک ایک کی گردن اتارلیں گے۔‘‘ لال موہراپنے چابک سے سامنے بیٹھے لوگوں کو بری طرح پیٹ رہا تھا۔ پلٹ داس ایک آدمی کی چھاتی پر سوار تھا، ’’سالا، سیاسو کماری کو گالی دیتا ہے، سو بھی مسلمان ہوکر؟‘‘ دھنی رام شروع سے ہی چپ تھا۔ مارپیٹ شروع ہوتے ہی وہ وہاں سے باہر بھاگ گیا تھا۔
کالے کوٹ والے نوٹنکی کے منیجر صاحب اپنے نیپالی سپاہی کے ساتھ وہاں آن پہنچے۔ ایک داروغہ صاحب نے بلواکرنے والو ں کو ہنٹر سے پیٹنا شروع کردیا۔ ہنٹر کی پہلی چوٹ پر لال موہر تلملا اٹھا۔ اس نے مہذب بولی میں تقریر شروع کردی، ’’داروغہ صاحب، آپ مارتے ہیں تو ماریے، کوئی حرج نہیں، لیکن یہ پاس دیکھ لیجیے، ایک پاس پاکٹ میں بھی ہے۔ دیکھ سکتے ہیں ہجور! ٹکٹ نہیں، پاس! تب ہم لوگوں کے سامنے کمپنی کی عورت کو کوئی بری بات کہے تو ہم کیسے چھوڑدیں گے؟‘‘
کمپنی کے منیجر صاحب کی سمجھ میں ساری بات آگئی۔ انہوں نے داروغہ صاحب کو سمجھایا، ’’حضور، میں سمجھ گیا۔ یہ ساری بدمعاشی متھرا موہن کمپنی والوں کی ہے۔ تماشے میں جھگڑا کرکے کمپنی کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ حضور آپ ان لوگوں کو چھوڑدیجیے۔ یہ ہیرابائی کے آدمی ہیں۔۔۔ بیچاری کی جان خطرے میں ہے۔ حضور سے کہا تھا نا؟‘‘ ہیرابائی کا نام سنتے ہی داروغہ صاحب نے تینوں کو چھوڑدیا لیکن تینوں کی چابکیں چھین لی گئیں۔ منیجر صاحب نے تینوں کو ایک روپے والے درجے میں کرسیوں پر بٹھایا۔ ’’آپ لوگ یہیں بیٹھیے۔ پان بھجوائے دیتا ہوں۔‘‘
ہنگامہ ختم ہوتے ہی ہیرابائی اسٹیج پر لوٹ آئی۔
نقارہ پھر بج اٹھا۔
تھوڑی دیر بعد تینوں کو یکبارگی دھنی رام کاخیال آیا، ’’ارے دھنی رام کہاں گیا؟‘‘
’’مالک، اومالک!‘‘ لہسنواں خیمے باہر چلا چلاکر پکار رہا تھا، ’’او لال موہر ما۔۔۔ ل۔۔۔ ک!‘‘ لال موہر نے اسی لہجے میں جواب دیا، ’’ادھر سے، اِدھر سے! ایک ٹکیا پھاٹک سے!‘‘ سب تماشائیوں نے اپنی گردنیں گھماکر لال موہر کی طرف دیکھا۔ اتنے میں لہسنواں کو وہی نیپالی سپاہی لال موہر کے پاس لے آیا۔ لال موہر نے جیب سے پاس نکال کر دکھادیا۔ لہسنواں نے آتے ہی پوچھا، ’’مالک، کون آدمی کیا بول رہا تھا؟ بولیے تو ذرا۔ چہرہ تو دکھلادیجیے۔ اس کی ایک جھلک!‘‘
لوگوں نے لہسنواں کاچوڑا چکلا سینہ دیکھا۔ سردی کے موسم میں بھی اس کا جسم نیم برہنہ تھا۔ لال موہر نے لہسنواں کو ٹھنڈا کیا۔
ان تینوں چاروں سے مت پوچھیے کہ نوٹنکی میں کیا دیکھا! قصہ کیسے یاد رہتا، کیوں کہ ہیرامن کو لگتا تھا کہ ہیرابائی شروع سے ہی اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے، گارہی ہے، ناچ رہی ہے۔ لال موہر کو محسوس ہو رہا تھا کہ ہیرابائی ہیرامن کو نہیں بلکہ اسے دیکھ رہی ہے اور سمجھ گئی ہے کہ لال موہر ہیرامن سے بھی زیادہ ’’پاور والا‘‘ آدمی ہے! پلٹ داس قصہ سمجھاتا ہے۔۔۔ ’’قصہ اور کیا ہوگا، رامائن کی بات! وہی رام، وہی سیتا، وہی لکھن اور وہی راون۔ سیتا سوکماری کورام جی سے چھیننے کے لیے راون طرح طرح کے روپ دھار کر آتا ہے۔ رام اور سیتا بھی روپ بدل لیتے ہیں۔ یہاں بھی تخت ہزارہ بنانے والا مالی کا بیٹا رام ہے، گلبدن سیاکماری ہے۔ مالی کے لڑکے کا دوست لکھن ہے اور سلطان ہے راون۔۔۔‘‘
لہسنواں کو سب سے اچھا پارٹ جوکر کا لگا ہے۔۔۔ چریا تو ہنکے لے کے نہ جئی دے نرہٹ کے بجریا! لہسنواں اس جوکر سے دوستی کرنا چاہتا تھا۔ وہ وہیں سے چلایا، ’’نہیں لگائیے گا دوستی جوکر صاحب؟‘‘ ہیرامن کے ہاتھ ایک گیت کی آدھی کڑی لگی تھی، ’’مارے گئے گلفام۔۔۔‘‘ کون تھا یہ گلفام؟ ہیرابائی روتی ہوئی گارہی تھی، ’’اجی ہاں مارے گئے گلفام۔۔۔‘‘ بیچارہ گلفام!
تینوں کوچابک واپس دیتے ہوئے پولیس کے سپاہی نے کہا، ’’لاٹھی چابک لے کر ناچ دیکھنے آتے ہو؟‘‘
دوسرے دن سارے میلے میں یہ بات پھیل گئی۔۔۔ ہیرابائی متھرا موہن کمپنی سے بھاگ کر آئی ہے۔ اسی لیے اس بارمیلے میں متھرا موہن کمپنی نہیں آئی ہے، اس کے غنڈے آئے ہیں۔ ہیرابائی بھی کم نہیں۔ بڑی کھلاڑی عورت ہے جو طرح طرح کے دیہاتی لٹھ باز پال رہی ہے۔۔۔ ’’واہ میری جان‘‘ بھی کہے تو کوئی۔۔۔ مجال ہے!
دس دن۔۔۔ دس رات۔۔۔
دن بھر ہیرامن مال و اسباب ڈھوتا۔ شام ہوتے ہی نوٹنکی کانقارہ بج اٹھتا۔ نقارے کی آواز سنتے ہی ہیرامن کو یو ں لگتاجیسے ہیرابائی اس کے کانوں میں رس گھول رہی ہو، ’’بھیا۔۔۔ میتا۔۔۔ ہیرامن۔۔۔ استاد۔۔۔ گروجی۔۔۔‘‘ دن بھر اس کے کانوں میں کوئی نہ کوئی باجا بجتارہتا۔۔۔ کبھی ہارمونیم، کبھی نقارہ، کبھی ڈھولک اور کبھی ہیرابائی کی پازیب۔ انہیں سازوں کی گت پر ہیرامن اٹھتا بیٹھتا، چلتا پھرتا تھا۔ نوٹنکی کمپنی کے منیجر سے لے کر پردہ کھینچنے والے تک اس کو پہچانتے تھے۔۔۔ ہیرابائی کا آدمی ہے۔
پلٹ داس ہر شب نوٹنکی شروع ہونے سے پہلے ہاتھ جوڑ کر بڑی عقیدت سے اسٹیج کو نمسکار کرتا تھا۔ لال موہر ایک دن اپنی مہذب بولی ہیرابائی کوسنانے گیا تھا۔ ہیرابائی نے اسے پہچانا تک نہیں۔ تب سے لال موہر کادل چھوٹا ہوگیا ہے۔ اس کانوکر لہسنواں اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور نوٹنکی کمپنی میں بھرتی ہوگیا ہے۔ جوکر سے اس کی دوستی ہوگئی ہے۔ دن بھر پانی بھرتا ہے، کپڑے دھوتا ہے۔ کہتا ہے، گاؤں میں کیا ہے جو جائیں گے۔ لال موہر اداس رہتا ہے۔ دھنی رام بیمار ہوکر گھر چلا گیا ہے۔
ہیرامن آج صبح سے تین بار مال لاد کر اسٹیشن پر آچکا ہے۔ آج نہ جانے کیوں اس کو اپنی بھاوج کی یاد آرہی ہے۔۔۔ کہیں دھنی رام نے بخار کی جھونک میں کچھ کہہ نہ دیا ہو۔ یہاں کتنا انٹ شنٹ بک رہا تھا۔۔۔ گلبدن، تخت ہزارہ۔ لہسنواں موج میں ہے۔ دن بھر ہیرابائی کو دیکھتا ہوگا۔ کل کہہ رہاتھا، ’’ہیرامن مالک، تمہارے اقبا ل سے خوب موج میں ہوں۔ ہیرابائی کی ساڑھی دھونے کے بعد کٹھوتے کا پانی عطر گلاب ہو جاتاہے۔ اس میں اپنی گمچھی ڈبوکر چھوڑ دیتا ہوں۔ لوسونگھوگے؟‘‘ ہر رات کسی نہ کسی کے منھ سے وہ سنتا ہے، ’’ہیرابائی رنڈی ہے۔‘‘ کتنے لوگوں سے وہ الجھے!بنا دیکھے ہی لوگ کیسے کوئی بات کہہ دیتے ہیں۔ راجاکو بھی لوگ پیٹھ پیچھے گالی دیتے ہیں۔۔۔ آج وہ ہیرابائی سے ملے گا اور کہے گا کہ نوٹنکی کمپنی میں رہنے پر لوگ بہت بدنام کرتے ہیں۔ سرکس کمپنی میں کیوں نہیں کام کرتی؟ سب کے سامنے جب ہیرابائی ناچتی ہے اس وقت بھی ہیرامن کا دل جلتا رہتا ہے۔ سرکس کمپنی میں جائے گی تو وہاں باگھ کو نچائے گی۔ اور وہاں باگھ کے پاس کوئی دم بھی نہیں مارسکے گا۔ وہاں ہیرابائی ایسے لوگوں سے بچی رہے گی۔
’’ہیرامن، اے ہیرامن بھیا!‘‘ لال موہر کی آواز سن کر ہیرامن نے گردن موڑ کر دیکھا اور پوچھا، ’’کیا لاد کر آیا ہے لال موہر؟‘‘
’’تم کو ڈھونڈھ رہی ہے ہیرابائی اسٹیشن پر۔ جارہی ہے۔ ’’لال موہر ایک ہی سانس میں کہہ گیا۔ اسی کی گاڑی پر ہیرابائی میلے سے اسٹیشن گئی تھی۔
’’جارہی ہے؟ کہاں؟ ریل گاڑی سے جارہی ہے؟‘‘ ہیرامن نے گاڑی کھول دی۔ مال گودام کے چوکیدار سے کہا، ’’بھیا، ذرا بیل گاڑی دیکھتے رہیے۔ آرہے ہیں۔‘‘
’’استاد!‘‘ زنانہ مسافر خانے کے پھاٹک کے قریب ہی ہیرابائی اپنی اوڑھنی سے منھ ہاتھ ڈھانپ کر کھڑی تھی۔ تھیلی آگے بڑھاتے ہوئے بولی، ’’لو۔ ہے بھگوان، بھینٹ ہوگئی، چلو۔ میں تو امید کھوچکی تھی۔ تم سے اب بھینٹ نہیں ہوسکے گی۔۔۔ میں جارہی ہوں گروجی۔‘‘ بکس ڈھونے والاملازم آج کوٹ پتلون پہن کر بابو صاحب بن گیا تھا۔ وہ مالکوں کی طرح قلیوں کو حکم دے رہاتھا، ’’جنانہ درجے میں چڑھانا، اچھا!‘‘
ہیرامن ہاتھ میں تھیلی لیے چپ چاپ کھڑا رہا۔ ہیرابائی نے اپنے کرتے کے اندر سے تھیلی نکال کر دی تھی۔۔۔ تھیلی چڑیا کے پوٹے کی طرح گرم تھی۔
’’گاڑی آرہی ہے۔‘‘ بکس ڈھونے والے نے عجیب سا منھ بناتے ہوئے ہیرابائی کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر صاف لکھا تھا، ’’اتنا زیادہ کیاہے؟‘‘
ہیرابائی جذباتی ہوگئی۔ بولی، ’’ہیرامن، ادھر آؤ اندر۔ میں پھر لوٹ کر متھرا موہن کمپنی میں جارہی ہوں۔ اپنے دیش کی کمپنی ہے۔۔۔ بنیلی کے میلے میں آؤگے نا؟‘‘ ہیرابائی نے ہیرامن کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔ اس بار دائیں کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ پھر اپنی تھیلی سے روپے نکالتے ہوئے بولی، ’’ایک گرم چادر خریدلینا۔۔۔‘‘ بڑی دیر کے بعد ہیرامن کی آواز نے اس کاساتھ دیا، ’’ارے، ہردم روپیہ پیسہ! رکھیے روپیہ۔۔۔ کیا کریں گے چادر؟‘‘ ہیرابائی کاہاتھ رک گیا۔ اس نے ہیرامن کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ پھر بولی، ’’تمہارا جی بہت چھوٹا ہوگیا ہے۔ کیوں میتا۔۔۔؟ مہوا کو سوداگر نے خرید جو لیا ہے گروجی۔۔۔‘‘
ہیرابائی کا گلا بھر آیا۔ بکس ڈھونے والے نے باہر سے آواز دی، ’’گاڑی آگئی۔‘‘ ہیرامن کمرے سے باہر نکل آیا۔ بکس ڈھونے والے نے نوٹنکی کے جوکر کی طرح منھ بناکر کہا، ’’پلاٹ فارم سے باہر بھاگو! بناٹکٹ کے پکڑے گئے تو تین مہینے کی ہوا۔۔۔‘‘
ہیرامن چپ چاپ پھاٹک سے باہر جاکر کھڑا ہوگیا۔ ہیرامن نے سوچا، ’’ٹیشن کی بات، ریلوے کا راج۔۔۔ نہیں تو میں اس بکس ڈھونے والے کامنھ سیدھا کردیتا۔‘‘
ہیرابائی اس کے ٹھیک سامنے والے ڈبے میں سوار ہوئی۔
’’ہائے، اتنا ٹان!گاڑی میں بیٹھ کر بھی میری اور دیکھ رہی ہے ٹکر ٹکر۔۔۔ لال موہر کو دیکھ کر جی جل اٹھتا ہے، ہمیشہ پیچھے پیچھے۔ ہر دم حصہ داری سوجھتی ہے اسے!‘‘
گاڑی نے سیٹی دی۔ ہیرامن کو لگا کہ اس کے اندر سے کوئی آواز نکل کر سیٹی کے ساتھ اوپر کی طرف چلی گئی ہے۔۔۔ کُو۔۔۔ وُ۔۔۔ وُ! اسس۔۔۔! چھی۔۔۔ ی۔۔۔ ی۔۔۔ چھک۔۔۔ ک! گاڑی حرکت میں آئی۔ ہیرامن نے اپنے دائیں پیر کے انگوٹھے کو بائیں پیر کی ایڑی سے کچل لیا۔ دل کی دھڑکن ہموار ہوگئی۔ ہیرابائی ہاتھ سے بینگنی رومال سے اپنی آنکھیں پونچھتی ہے۔ رومال ہلاکر اشارہ کرتی ہے، ’’اب جاؤ!‘‘
گاڑی کا آخری ڈبہ گزرا، پلیٹ فارم خالی۔۔۔ سب خالی۔۔۔ کھوکھلے۔۔۔ مال گاڑی کے ڈبے، جیسے دنیا ہی خالی ہوگئی ہو۔ ہیرامن اپنی گاڑی کے پاس لوٹ آیا۔ ہیرامن نے لال موہر سے پوچھا، ’’تم کب تک لوٹ رہے ہو گاؤں؟‘‘ لال موہر بولا، ’’ابھی گاؤں جاکر کیا کریں گے؟ یہی تو کمانے کاموقع ہے۔ ہیرابائی چلی گئی۔ میلہ اب ٹوٹے گا۔‘‘
’’اچھی بات۔ کوئی سندیسہ دینا ہے گھر؟‘‘
لال موہر نے ہیرامن کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ہیرامن نے اپنی گاڑی گاؤں جانے والی سڑک کی طرف موڑ دی، ’’اب میلے میں کیا دھرا ہے۔ کھوکھلا میلہ!‘‘
ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بیل گاڑی کے لیے کچی سڑک دور تک چلی گئی ہے۔ ہیرامن کبھی ریل گاڑی پر سوار نہیں ہوا ہے۔ اس کے دل میں ایک بہت پرانی حسرت جاگی۔۔۔ ریل گاڑی پر سوار ہوکر گیت گاتے ہوئے جگن ناتھ دھام جانے کی حسرت۔ مڑ کر اپنے خالی ٹپر کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔ پیٹھ میں آج بھی گدگدی ہوتی ہے۔ آج بھی رہ رہ کر چمپا کاپھول اس کی گاڑی میں کھل اٹھتا ہے۔ ایک گیت کی ٹوٹی کڑی پر نقارے کا تال بار بار کٹ جاتا ہے۔۔۔
اس نے مڑ کر دیکھا، بورے بھی نہیں، بانس بھی نہیں، باگھ بھی نہیں، پری۔۔۔ دیوی۔۔۔ میتا۔۔۔ مہوا گھٹوارن۔۔۔ کوئی نہیں۔ ہیرامن کے ہونٹ ہل رہے ہیں۔ شاید وہ تیسری قسم کھا رہا ہے۔ کمپنی کی عورت کی سواری اب نہیں لے جائے گا!
ہیرامن نے یکبارگی اپنے دونوں بیلوں کو جھڑکی دی، چابک سے مارتے ہوئے بولا، ’’ریلوے لائن کی طرف بار بار کیا دیکھتے ہو؟‘‘ دونوں بیلوں نے قدم کھول کر چال پکڑی۔ ہیرامن گنگنانے لگا۔۔۔
’’اجی ہاں مارے گئے گلفام۔۔۔!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.