Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تیرہواں گھنٹہ

فاطمہ عمران

تیرہواں گھنٹہ

فاطمہ عمران

MORE BYفاطمہ عمران

    پچھلے چار پانچ دن سے وہ اضطراب سا محسوس کر رہا تھا۔ ایک عجیب سی بے چینی اور احساس اسے گھیر لیتا۔ ایسے لگتا جیسے دو آنکھیں اسکا تعاقب کر رہی ہیں۔ وہ ادھر ادھر دیکھتا مگر ہجوم میں سمجھ نہ پاتا کہ کس کی آنکھیں اسکا طواف کر رہی ہیں۔ آج تو اس نے پی بی کم تھی۔ ہلکے ہلکے سرور میں اچانک اسکی نگاہ ایک آدمی پر پڑی جو بظاہر سب سے لاتعلق دور کھڑا نیچے زمین پر اپنے جوتوں کو گھور رہا تھا۔پھر اس نے نیچے بیٹھ کر جوتوں سے کچھ جھاڑنا شروع کر دیا۔ زآرعون اٹھا اور ایک انجانے سے جذبے کے زیر اثر اس کی طرف کھچتا چلا گیا۔ اس آدمی نے نظر اٹھا کر دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا ہیلو ینگ مین ! تو تم نے مجھے ڈھونڈ ہی لیا۔ کون ہو تم؟ زآرعون بولا

    مددگارہوں تمہارا اس آدمی نے متانت سے جواب دیا۔لیکن زآرعون سنی ان سنی کرتے ہوئے بولا۔

    تم مجھے گھور کیوں رہے تھے اتنے دنوں سے؟

    میرے پیچھے آؤ ۔سب بتاتا ہوں

    اور ہلکے ہلکے سرور میں ڈوبا زآرعون اسکے پیچھے چل پڑا۔ ہوٹل سے نکل کر دونوں سڑک پر آ گئے۔ کئی گلیاں اور موڑ مڑنے کے بعد وہ آدمی اسے ایک اندھی گلی میں لے آیا جہاں نسبتا اندھیرا تھا۔ زآرعون نشے میں تھا لیکن ابھی اتنا بھی بیگانہ نہ ہوا تھا کہ اسکا ماتھا نہ ٹھنک جاتا

    کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو؟ میرے پاس کوئی رقم نہیں جسے تم لوٹنا چاہتے ہو۔

    اس آدمی نے زآرعون کی بات پر کوئی ردعمل نہ ظاہر کیا اور دھیمے سے بولا۔

    میں 'ہیلر'(healer) ہوں۔ کائنات کے شگاف بھرتا ہوں۔

    اسکی بات زآرعون کو مضحکہ خیز لگی اور اب کی بار وہ نسبتاً لڑکھڑاتے ہوئے بولا۔ ۔ دوست میں دل کے شگاف نہیں بھر پا رہا اور تم کائنات کے شگاف بھر رہے ہو۔ واہ

    تم چاہو تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں اجنبی بولا۔

    کیسی مدد؟تم کیا جانو مجھے کیا چاہیے۔؟زآرعون نے تنک کر کہا۔

    تمہیں تاشی کا ساتھ واپس چاہیے

    زآرعون نشے ، حیرانی اور شک کی کیفیات کے بیچ ڈول گیا۔اور خالی خالی نظروں سے اس آدمی کو گھورنے لگا۔اس آدمی نے اپنی بات جاری رکھی اگر تمہیں میری مدد چاہیے تو ٹھیک دو دن بعد یہیں ملنا اور اسکے بعد لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اسکے بعد زآرعون کو کچھ ہوش نہ رہا۔ آنکھ کھلی تو خود کو بستر پر پایا۔ ذہن پر زور دینے کے باوجود اسے کچھ یاد نہ تھا کہ وہ گھر کیسے پہنچا؟ لیکن اس آدمی سے ملاقات کا حرف بحرف اسے یاد تھا۔

    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔

    کیا نہیں تھا اسکے پاس؟ سب کچھ تو تھا۔ بس ایک دل ہی نہ تھا پہلو میں. نہیں نہیں دل بھی تھا۔ مگر اس دل میں حرارت نہیں تھی ۔ ۔ ۔ جذبات کی۔ ۔ ایسے دل کو بنجر دل کہنا ٹھیک ہو گا۔لیکن یہ دل ہمیشہ سے بنجر نہیں تھا۔کبھی اس میں محبت کی ہریالی تھی۔ جذبات کی مہک تھی اور لاتعداد شگوفے تھے جو تاشی کو دیکھتے ہی ایک نہ سنائی دینے والی 'پٹک' کے ساتھ پھوٹ پڑتے۔ تاشی کے سنگ زندگی اتنی حسین تھی کہ مستقبل کے سنہرے سپنوں میں گم روشن حال کی رعنائیاں سمیٹتے ہوئے اسے معلوم ہی نہ پڑا کہ کب اسکی دنیا اچانک درہم برہم ہو گئی۔ تاشی نے طلاق مانگی تھی۔

    مجھے تم سے طلاق چاہیے۔ میں تمہارے ساتھ مزید گزارا نہیں کر سکتی۔ یہ الفاظ نہیں بم تھے اور اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا کیا؟؟ حالانکہ وہ کیوں؟ کہنا چاہتا تھا۔ مگر اس کیوں کی گتھی بھی تاشی نے خود ہی سلجھا دی۔ دیکھو زآرعون ۔ہم ایک دوسرے کے لیے نہیں بنے۔ جانتے ہو میں تم سے کہتی تھی کہ میاں بیوی پزل کے دو ٹکڑے ہوتے ہیں۔ ایک کی کمی کو دوسرا پورا کرتا ہے مگر تمہارے پاس ایسا کوئی ٹکڑا نہیں جو میرے خلا کو بھر سکے۔

    اور اسکے بعد تمام الفاظ نے اپنی تاثیر کھو دی۔ تاشی یک لخت اسکے سارے جذبات بےرونق کر گئی۔ وہ کیا کرتا؟ بےوفائی کا علاج نہیں بس مرہم ہوتا ہے۔ اور یہی مرہم ڈھونڈنے وہ روز اس ہوٹل سے ملحقہ بار میں آ جاتا تھا۔ اور تب تک جام تنہائی اپنے اندر انڈیلتا جاتا جب تک ہوش و خرد سے بیگانہ نہ ہو جاتا۔

    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔

    دن بھر وہ اجنبی سے ملاقات کے بارے میں سوچتا رہا اور رات ہوتے ہی تاشی کا غم پھر سے اس کے سنگ تھا۔ نشے میں اس نے چلانا شروع کر دیا ۔او تاشی تم مجھے کیوں چھوڑ کر چلی گئی۔ تم کہتی تھی نا کہ میاں بیوی دو ساز ہیں ۔ ۔ انکے تال میل سے ہی زندگی کا گیت سر بکھیرتا ہے تو پھر تم نے میرا گیت کیوں ادھورا چھوڑ دیا؟یہ دیکھو آج بھی میرے پاس وہ ٹشو پیپر محفوظ ہے جس پر تمہاری انگلی پر کٹ لگ جانے کیوجہ سے نکلنے والا خون محفوظ ہے۔ دیکھو دیکھو یہ دیکھو۔ جیب سے ٹشو پیپر نکال کر وہ ہسٹریائی انداز میں خود کلامی کرتا جا رہا تھا۔

    ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    تیسرے دن وہ جلدی جلدی تیار ہو کر ہوٹل جا پہنچا۔ اس دن نشے کی کیفیت میں اسے راستے صحیح سے یاد نہیں تھے اس لیے اسے پورا یقین تھا کہ وہ آدمی اسے ہوٹل میں مل جائے گا۔ اور اسکا یقین صحیح ثابت ہوا۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد اسے وہ آدمی دکھائی دے گیا۔ اس آدمی نے بھی اسے دیکھ کر اشارہ کیا۔ اور وہ اٹھ کر اس آدمی کے ساتھ چل پڑا۔ آج زآرعون نشے میں نہیں تھا سو اس آدمی سے اس دن جو بہت کچھ پوچھنا رہ گیا تھا وہ آج سارا کا سارا پوچھ لینا چاہتا تھا۔

    سڑک پر اکا دکا لوگ ہی نظر آ رہے تھے۔ چلتے چلتے وہ آدمی اسی گلی میں جا کر رک گیا۔ زآرعون پھر سے پوچھنے ہی والا تھا کہ وہ آدمی کون ہے اور اس سے کیا چاہتا ہے؟ کہ وہ آدمی ہلکے سے مسکرایا اور بولا

    تمہیں بتایا تو تھا۔کہ میں ہیلر ہوں۔ کائنات کے شگاف مندل کرتا ہوں۔ زآرعون کا ہاتھ جیب کی طرف بڑھا جہاں اس نے احتیاطا آج اپنی گن چھپائی تھی۔ کہ اس آدمی نے کہافکر نہ کرو تمہیں اس گن کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ آؤ میں تمہیں سب سمجھاتا ہوں اس دفعہ تو زآرعون واقعی گڑبڑا گیا۔اجنبی کیسے جانتا تھا بھلا کہ اس کے پاس گن ہے ؟ اس آدمی نے بات جاری رکھتے ہوئےکہا

    یہ کائنات پرت در پرت اک راز ہے اور اس کائنات کا سب سے بڑا راز جانتے ہو کیا ہے؟ پھر جواب کا انتظار کیے بغیر ہی بولا۔ سچ! اس کائنات کا سب سے بڑا راز سچ ہے۔ میرا سچ۔ تمہارا سچ۔ ۔ ہم سب کا سچ۔ ۔ ہر شے اور ہر چیز کا سچ۔ ۔ ۔ یہ کائنات انہیں سچائیوں سے مل کر بنی ہے۔ اور ہر سچ کی اپنی ہی اک سمت ہے اور اپنی ہی اک دنیا۔ ہزاروں سچ ایک جھرنے کی مانند ساتھ ساتھ بہتے ہیں۔لیکن تمہارا سچ وہی ہے جہاں تم موجود ہو ۔کسی کے ایک سچ میں جینے کا مطلب یہ ہے کہ اسکے لیے باقی سچ ساکت ہو جائیں گے۔ اس دنیا میں تاشی تمہیں چھوڑ کر جا چکی۔ مگر کسی اور دنیا میں وہ آج بھی تمہارے ساتھ رہتی ہے۔ اور اس سچ کو پانے کے لیے تمہیں یہ دنیا ساکت کرنی ہو گی۔ تبھی تم اس دنیا میں جا کر رہ پاؤ گے۔ جہاں تاشی اور تم آج بھی ایک ساتھ محبت بھری زندگی جی رہے ہو

    یہ کیسے ممکن ہے بھلا؟زآرعون حیرت اور تجسس میں ڈوبتا ہوا بولا تو اس آدمی نے جواب دیا۔

    ہر چیز کا ایک وقت ہے۔ ہر چیز اپنے مدار میں گھوم رہی ہے۔ وقت کا بھی اپنا ایک مدار ہے۔ لیکن کائنات میں جب بھی کوئی اتھل پتھل ہوتی ہے تو یہ وقت اپنے مدار سے ایک سکینڈ کے ہزارویں حصے سے پھسل جاتا یے۔ اور یہ حصے جمع ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ایک گھنٹہ جمع ہو جاتاہے۔ سچائی کی اس گھڑی میں تب ایک وقت کے لیے بارہ کے بعد تیرہ بجتے ہیں اور یہ تیرہ ہی دروازہ ہے سچائی میں سفر کرنے کا۔ اجنبی نے اپنی بات مکمل کی تو زآرعون جھٹ سے بولامگر میں ہی کیوں؟

    کیونکہ یہاں تمہاری زندگی سچ نہیں جھوٹ ہے۔ تمہارے ہاتھ سے وقت پھسلا تو کائنات میں اک شگاف پڑ گیا۔اب تمہارے پاس ایک موقع آیا ہے اس دروازے کو پار کرنے کا۔ کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ تاشی نے تمہیں تمہاری شراب نوشی کی کثرت سے تنگ آکر تمہیں چھوڑ دیا۔ نشے میں تم اس کے ساتھ کیا کرتے تھے تمہیں شاید یاد نہ ہو مگر وقت نے سب دیکھا۔ ۔ ۔ تمہارا ہوش جتنا محبت بھرا تھا تمہاری مدہوشی اتنی ہی اذیت ناک اور پر تشدد تھی اس کے لیے۔ اس لیے وہ تمہیں سمجھا سمجھا کر تھک گئی تو چھوڑ گئی۔لیکن تم اسے پھر سے دیکھ سکتے ہو۔،

    کیا تم خدا ہو؟ زاردعون نے پوچھا۔

    نہیں۔خدا تو وہ ہے جو ہر جگہ موجود ہے۔میں تو بس تمہاری ایک سچائی کا ساتھی ہوں۔ خدا اس کائنات کا مالک ہے اور میں اس کائنات کی سچائیوں کا دروازہ۔وہ سامنے دیکھو گلی کے آخر میں اندھیرا اس میں سے گزر جاؤ۔ بظاہر اندھی گلی اس وقت دروازہ ہے دوسری دنیا کا۔ جاؤ کہ یہ تمہارے وقت کا تیرواں گھنٹا چل رہا ہے۔بس یاد رکھنا کہ وقت اپنے مدار میں گھوم کر واپس ضرور آتا ہے

    زآرعون لپک کر اس اندھیری سمت کی جانب مڑا۔جب اچانک اس کے کانوں میں اجنبی کی آخری آواز گونجی وقت بہت بڑا مرہم ہے گلی کی اندھیری سمت میں جا کر زآرعون دوسری طرف سے نکل آیا۔

    ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    بظاہر سب کچھ ویسا ہی تھا۔ ۔ وہی جگہ وہی لوگ۔ ۔ وہی گلی۔ ۔ بس اُس دنیا کی وہ اندھی گلی واقعی دوسری طرف کھلتی تھی۔اور زآرعون اسی بات پر حیرت زدہ تھا۔ وہ سیدھا گھر واپس گیا ۔دروازہ بجایا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دروازہ تاشی نے ہی کھولا تھا۔ تاشی کچھ دیر تو اسے حیرت سے دیکھتی رہی پھر کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ زآرعون نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تاشی کچھ مت کہنا ۔میں تمہارا زآرعون۔ تمہاری خاطر میں ایک دنیا پار کر آیا ہوں۔تاکہ اس سچائی میں تمہارے ساتھ جی سکوں۔ اچانک پیچھے سے اسے آواز آئی۔ تاشی حیرت سے کیا دیکھ رہی ہو دروازے پر۔ کون ہے وہاں؟

    معلوم نہیں۔ دروازہ کھولا تو کوئی بھی نہیں ہے۔ بس اچانک ہوا کا ایک ٹھنڈا سا جھونکا چہرے سے ٹکرایا تو جھرجھری سی آ گئی۔ تاشی کی اس بات پر حیرت سے اس نے دیکھا۔ ۔ تاشی کے پیچھے بھی وہی تو کھڑا تھا۔ ارے یہ کیا ؟ یہاں اسے کوئی دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نےسامنے سے دیکھا کہ پیچھے سے اسی نے آ کر تاشی کو بانہوں میں بھر لیا اور پیار سے بولا۔ ۔ ارے میری تاشی! میں سمجھتا ہوں کہ میں تمہارا گنہگار ہوں۔مگر دیکھو میں نے خود کو بدل لیا ہے۔تمہارے ساتھ جو بھی زیادتیاں کی ہیں میں ان سب کا مداوا کروں گا۔ تمہارے سارے غم چن لوں گا۔ مگر مجھے موقع تو دو۔ میں جانتا ہوں کہ تم پوری طرح نہیں سنبھل پائیں ابھی مگر میں پوری کوشش کروں گا ۔مجھے تھوڑا وقت دو۔ وقت بہت بڑا مرہم یے۔ میں تمہارے سارے شگاف بھر دوں گاتاشی اس کے گلے سے لگ گئی۔

    وہ پیچھے ہٹ گیا اور تھکے تھکے قدموں سے واپس سڑک پر مڑ گیا۔اس بار اسے اپنی منزل معلوم تھی۔

    ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    وہاں دوسری دنیا میں گلی میں بہت سے لوگ جمع تھے۔ سڑک پر ایک آدمی اوندھے منہ پڑا تھا۔ پولیس بھی جمع تھی اور ثبوت اکھٹے کیے جا رہے تھے۔ایک پولیس مین کے ہاتھ میں پلاسٹک کے ایک تھیلے میں خون آلود رومال تھا جس سے غالبا خون کی قے صاف کی گئی تھی ۔وجہِ موت کثرت سے شراب نوشی بتائی جا رہی تھی۔ کچھ لوگوں نے اسے آخری دفعہ سڑک پر خود سے باتیں کرتے ہوئے جاتے دیکھا تھا۔ لوگ باتیں کر رہے تھے تبھی ایک آدمی جو اسکا پڑوسی تھا بولا ہم تو سمجھے تھے بچارہ سنبھل جائے گا۔ ٹائم از آ گریٹ ہیلر۔مگر بچارہ خود کو نہ سنبھال پایا اس غم سے اور مر گیا پولیس نے اس آدمی کو سیدھا کیا تاکہ شناخت کی کاروائی مکمل ہو سکے۔ ۔ وہاں وہ اجنبی بے سدھ پڑا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے