Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹھاکر کا کنواں

پریم چند

ٹھاکر کا کنواں

پریم چند

MORE BYپریم چند

    جو کھونے لوٹا منھ سے لگایا تو پانی میں سخت بدبو آئی۔ گنگی سے بولا، یہ کیسا پانی ہے؟ مارے باس کے پیا نہیں جاتا۔ گلاسوکھا جارہا ہے اور تو سڑا ہوا پانی پلائے دیتی ہے۔

    گنگی پرتی دن شام کو پانی بھرلیا کرتی تھی۔ کنواں دور تھا۔ بار بار جانا مشکل تھا۔ کل وہ پانی لائی تو اس میں بو بالکل نہ تھی، آج پانی میں بدبو کیسی؟ لوٹا ناک سے لگایا تو سچ مچ بدبو تھی، ضرور کوئی جانورکنوئیں میں گر کر مرگیا ہوگامگر دوسرا پانی آوے کہاں سے؟

    ٹھاکر کے کنوئیں پر کون چڑھنے دے گا۔ دور سے لوگ ڈانڈ بتائے گئے ساہو کا کنواں گاؤں کے اس سرے پر ہے، پر نتووہاں بھی کون پانی بھرنے دے گا؟ چوتھا کنواں گاؤں میں ہے نہیں۔

    جوکھو کئی دن سے بیمار ہے۔ کچھ دیر تک تو پیاس روکے چپ پڑا رہا، پھر بولا، اب تو مارے پیاس کے رہا نہیں جاتا۔ لا، تھوڑا پانی ناک بند کرکے پی لوں۔ گنگی نے پانی نہ دیا۔ خراب پانی پینے سے بیماری بڑھ جائے گی، اتنا جانتی تھی، پرنتو یہ نہ جانتی تھی کہ پانی کو ابال دینے سے اس کی خرابی جاتی رہتی ہے۔ بولی یہ پانی کیسے پیوگے؟ نہ جانے کون جانور مرا ہے۔ کنوے سے میں دوسرا پانی لائے دیتی ہوں۔

    جوکھو نے آشچریہ سے اس کی اور دیکھا۔ دوسرا پانی کہاں سے لائے گی؟

    ٹھاکر اور ساہو کے دوکنوئیں تو ہیں، کیا ایک لوٹا پانی نہ بھرنے دیں گے؟

    ہاتھ پاؤں توڑوائے گی اور کچھ نہ ہوگا۔ بیٹھ چپکے سے۔ برہمن دیوتا آشیرواد (دعا) دیں گے۔ ٹھاکر لاٹھی ماریں گے، ساہوجی ایک کے پانچ لیں گے۔ غریبوں کا درد کون سمجھتا ہے۔ ہم تومر بھی جاتے ہیں تو کوئی دوار پر جھانکنے نہیں آتا، کندھا دینا تو بڑی بات ہے، ایسے لوگ کنوئیں سے پانی بھرنے دیں گے۔

    ان شبدوں میں کڑواستیہ تھا۔ گنگی کیا جواب دیتی، کنتواس نے وہ بدبودار پانی پینے کو نہ دیا۔

    (۲)

    رات کے نو بجے تھے۔ تھکے ماندے مزدور تو سوچکے تھے۔ ٹھاکر کے دروازے پر دس پانچ بے فکرے جمع تھے۔ میدانی بہادری کا تو اب زمانہ رہا ہے نہ موقع۔ قانونی بہادری کی باتیں ہو رہی تھیں۔ کتنی ہوشیاری سے ٹھاکر نے تھانے دار کو ایک خاص مقدمے میں رشوت دے دی اور صاف نکل گئے۔ کتنی عقل مندی سے ایک معرکہ کے مقدمے کی نقل لے آئے۔ ناظر اور مہتمم سبھی کہتے تھے، نقل نہیں مل سکتی۔ کوئی پچاس مانگتا کوئی سو، یہاں بے پیسے کوڑی نقل اڑادی۔ کام کرنے کا ڈھنگ چاہیے۔

    کسی سمے گنگی کنوئیں سے پانی لینے پہنچی۔

    کوپپی کی دھندلی روشنی کنوئیں پر آرہی تھی۔ گنگی جگت کی آڑ میں بیٹھی موقع کا انتظار کرنے لگی۔ اسی کنوئیں کا پانی سارا گاؤں پیتا ہے۔ کسی کے لیے روک نہیں، صرف یہ بدنصیب نہیں بھرسکتے۔

    گنگی کا ودّروہی دل رواجی پابندیوں اور مجبوریوں پر چوٹیں کرنے لگا۔ ہم کیوں نیچ ہیں۔ یہ لوگ کیوں اونچے ہیں؟ اس لیے کہ یہ لوگ گلے میں تاگا ڈال لیتے ہیں۔ یہاں تو جتنے ہیں، ایک سے ایک چھنٹے ہیں۔ چوری یہ کریں، جال فریب یہ کریں، جھوٹے مقدمے یہ کریں، ابھی اس ٹھاکرنے تو اس دن بے چارے گڑریا کی ایک بھیڑ چرالی تھی اور بعد میں مارکر کھاگیا۔ انہی پنڈت جی کے گھر میں تو بارہوں ماس جوا ہوتا ہے۔ یہی ساہوجی تو گھی میں تیل ملاکر بیچتے ہیں۔ کام کرالیتے ہیں، مزدوری دیتے نانی مرتی ہے۔ کس بات میں ہیں ہم سے اونچے۔ ہاں، منہ میں ہم سے اونچے ہیں۔ ہم گلی گلی چلاتے نہیں کہ ہم اونچے ہیں، کبھی گاؤں میں آجاتی ہوں تو رس بھری آنکھوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ جیسے سب کی چھاتی پر سانپ لوٹنے لگتا ہے۔ پرنتو گھمنڈ یہ کہ ہم اونچے ہیں۔

    کنوئیں پر کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی۔ گنگی کی چھاتی دھک دھک کرنے لگی۔ کہیں دیکھ لیں، تو غضب ہوجائے۔

    ایک لات بھی تو نیچے نہ پڑے۔ اس نے گھڑا اور رسی اٹھالی اور جھک کر چلتی ہوئی ایک ورکش (درخت) کے اندھیرے سایے میں جاکھڑی ہوئی۔ کب ان لوگوں کو دیا آتی ہے کسی پر۔ بے چارے مہنگو کو اتنا مارا کہ مہینوں لہو تھوکتا رہا، اسی لیے تو کہ اس نے بے گار نہ دی تھی۔ اس پر یہ لوگ اونچے بنتے ہیں۔

    کنوئیں پر دواستریاں پانی بھرنے آئی تھیں۔ ان میں باتیں ہو رہی تھیں۔

    کھانا کھانے چلے اور حکم ہوا کہ تازہ پانی بھرلاؤ۔ گھڑے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

    ہم لوگوں کو آرام سے بیٹھے دیکھ کر جیسے مردوں کو جلن ہوتی ہے۔

    ہاں، یہ تو نہ ہوا ایک کلسا اٹھاکر بھرلاتے۔ بس حکم چلادیا کہ تازہ پانی لاؤ، جیسے ہم لونڈیاں ہی تو ہیں۔

    لونڈیاں نہیں تو اور کیا ہو تم؟ روٹی کپڑا نہیں پاتی؟ دس پانچ روپے چھین جھپٹ کر لے ہی لیتی ہو۔ اور لونڈیاں کیسی ہوتی ہیں۔

    مت لجاؤ دیدی۔ چھن بھر آرام کرنے کو جی ترس کر رہ جاتا ہے۔ اتنا کام کسی دوسرے کے گھر کر دیتی تو اس سے کہیں آرام سے رہتی۔ اوپر سے وہ احسان مانتا۔ یہاں کام کرتے کرتے مرجاؤ پر کسی کا منہ ہی سیدھا نہیں ہوتا۔ دونوں پانی بھر کر چلی گئیں تو گنگی ورکش کی چھایا سے نکلی اور کنوئیں کے جگت کے پاس آئی۔ بے فکرے چلے گئے تھے۔ ٹھاکر بھی دروازہ بند کر اندر آنگن میں سونے جارہے تھے۔ گنگی نے چھڑک (وقتی /عارضی) سکھ کی سانس لی۔ کسی طرح میدان تو صاف ہوا۔ امرت چرالانے کے لیے جوراج کمار کسی زمانے میں گیا تھا، وہ بھی شاید اتنی ساؤدھانی کے ساتھ اور سمجھ بوجھ کر نہ گیا ہوگا۔ گنگی دبے پاؤں کنوئیں کے جگت پر چڑھی۔ وجے کا ایسا انوبھو اسے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔

    اس نے رسی کا پھندا گھڑے میں ڈالا۔ دائیں بائیں چوکنی درشٹی سے دیکھا، جیسے کوئی سپاہی رات کو شترو کے قلعے میں سوراخ کر رہا ہو۔ اگر اس سمے وہ پکڑلی گئی تو پھر اس کے لیے معافی یا رعایت کی رتی بھرامید نہیں۔ انت میں دیوتاؤں کو یاد کرکے اس نے کلیجا مضبوط کیا اور گھڑا کنویں میں ڈال دیا۔ گھڑے نے پانی میں غوطہ لگایا، بہت ہی آہستہ، ذرا بھی آواز نہ ہوئی، گنگی نے دوچار ہاتھ جلدی جلدی مارے۔ گھڑا کنوئیں کے منہ تک آپہنچا۔ کوئی بڑا شہزور پہلوان بھی اتنی تیزی سے اسے نہ کھینچ سکتا تھا۔

    گنگی جھکی کہ گھڑے کو پکڑ کر جگت پر رکھے کہ یکایک ٹھاکر صاحب کا دروازہ کھل گیا۔ شیر کا منہ اس سے ادھیک بھیانک نہ ہوگا۔ گنگی کے ہاتھ سے رسی چھوٹ گئی۔ رسی کے ساتھ گھڑا دھڑام سے پانی میں گرا اور کئی چھڑتک پانی میں ہلکورے کی آوازیں سنائی دیتی رہی۔

    ٹھاکر کون ہے، کون ہے؟ پکارتے ہوئے کنوئیں کے پاس آرہے تھے اور گنگی جگت سے کود کر بھاگی جارہی تھی۔ گھر پہنچ کر دیکھا کہ جوکھو لوٹا منہ سے لگائے وہی میلا گندا پانی پی رہا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے