ٹھنڈی آگ
مختار صاحب نے اخبار کی سرخیوں پر تو نظر ڈال لی تھی اور اب وہ اطمینان سے خبریں پڑھنے کی نیت باندھ رہے تھے کہ منی اندر سے بھاگی بھاگی آئی اور بڑی گرم جوشی سے اطلاع دی کہ ’’آپ کو امی اندر بلارہی ہیں۔‘‘
منی کی گرم جوشی بس اس کی ننھی سی ذات ہی تک محدود تھی۔ پوسٹ ماسٹر صاحب اسی طرح گم سم بیٹھے رہے۔ مختار صاحب نے آہستگی سے اخبار ان کی طرف بڑھادیا اور انہوں نے اسی آہستگی سے اخبار اپنے سامنے چارپائی پر بچھایا۔ اتاری ہوئی عینک پھر چڑھائی اور اخبار پر جھک گئے۔ مختار صاحب اک ذرا بے دلی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
مختار صاحب کے اندر جانے اور بلائے جانے کا یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ لیکن یہ واقعہ اس لحاظ سے ضرور اہم تھا کہ اس کے بعد ان کے اندر جانے اور بلائے جانے کا سلسلہ تیز سےتیزترہوتا چلا گیا۔ رہی یہ بات کہ یہ سلسلہ کب اور کیسے شروع ہوا تو ایک یہی کیا مختار صاحب کی زندگی کے کسی بھی سلسلے کی ابتدا نہیں ملتی تھی۔ دراصل ان کی زندگی میں تیز قسم کا موڑ کبھی نہیں آیا تھا۔ رستے ضرور بدلے تھے مگر غیر محسوس طور پر۔ ان کی زندگی میں جو بھی تبدیلی آئی۔ اس کا پتہ اس وقت چلا جب وہ جینے کا ڈھرا بن چکی تھی۔ خود پوسٹ ماسٹر صاحب سے ان کے تعلقات کی نوعیت کچھ اسی طرح کی تھی۔ پوسٹ ماسٹر صاحب برادری کے ایک فرد ضرور تھے لیکن مختار صاحب برادری کے کسی شخص سے ملتے تھے جو ان سے ہی ملتے۔۔۔ پوسٹ ماسٹر صاحب کی ملنساری کو تو شاید ڈاک خانے نے چوس لیا تھا۔ جب تک ان کی پنشن نہیں ہوئی تھی۔ ان کا طور یہ رہا کہ صبح نوبجے گھر سے نکلنا، سارے دن منی آرڈروں، رجسٹری کے لفافوں اور پارسلوں میں غرق رہنا اور شام کو خاموش سرنیوڑھائے گھر واپس آنا۔ شروع میں زمانے نے اتنی مہلت نہ دی کہ شادی کرلیتے۔ جب ذرا فراغت ہوئی تو دل مرچکا تھا۔ ان کی زندگی میں اتنی تبدیلی بھی نہ آئی کہ ملازمت کے سلسلے میں کہیں تبادلہ ہی ہوجاتا۔ اپنے قصبے کے چھوٹے سے ڈاک خانے میں تعینات ہوئے اور اسی ڈاک خانے سے پنشن لے کر نکلے۔ تڑکے اٹھنا، نماز پڑھنا اور باہر بیٹھک کے چبوترے پہ مونڈھے پر آبیٹھنا۔ اخبار والا اردو کااخبار ڈال جاتا، ڈبے سے عینک نکالتے اور بڑی سرخی سے لے کر پرنٹ لائن تک پورا اخبار پڑھتے اور حقہ پیتے رہتے۔
برابر میں ننوا حلوائی کی دکان تھی۔ دراصل ننوا حلوائی کی دکان ہی کی معرفت مختار صاحب کی ان تک رسائی ہوئی تھی۔ ورنہ پہلے تو محض دور کی علیک سلیک تھی۔ مختار صاحب نے ناشتہ ہمیشہ جلیبیوں کا کیا۔ تاروں کی چھاؤں میں اٹھتے اور سیدھے اپنے کھیتوں کارخ کرتے۔ واپسی میں ننوا حلوائی کی دکان پر پڑاؤ کرتے۔ دونا بھر جلیبیاں خرید کھڑے کھڑے کھاتے اور پھر اکیلے گھر میں آپڑتے۔
ننوا کی دکان پر صبح کو جلیبیاں خریدنے والوں کا اچھا خاصا جھمگٹا ہوجاتا تھا، اس لیے اکثر انہیں خاصی دیر کھڑا بھی رہنا پڑتا تھا۔ صبح ہی صبح اخبار دیکھ کر کس کا جی نہیں للچاتا۔ ایک آدھ دفعہ ایسا بھی ہوا کہ مختار صاحب دکان سے ہٹ کر چبوترے کے پاس کھڑے ہوگئے اور دور سے خبروں کی سرخیوں پر اڑتی سی نظریں ڈال لیں۔ پھر پوسٹ ماسٹر صاحب کو اس کا احساس ہوا تو ایک دومرتبہ انہوں نے بیچ کا صفحہ نکال کر انہیں دے دیا۔ رفتہ رفتہ مختار صاحب نے یہ شیوہ اختیار کیا کہ جلیبیاں بننے میں دیر ہوتی تو وہ آہستہ سے چبوترے پر پوسٹ ماسٹر صاحب کے مونڈھے کے برابر آکھڑے ہوتے اور حقہ پینے لگتے۔ پوسٹ ماسٹر صاحب پہلے بیچ کا اور پھر پہلا اور آخری صفحہ انھیں تھما دیتے اور وہ کھڑے کھڑے پڑھتے رہتے۔ ننوا کی آواز پہ مختار صاحب خاموشی سے اخبار چارپائی پر رکھتے اور سلام و دعا کیے بغیر وہاں سے سرک جاتے۔ آتے وقت ضرور علیک سلیک ہوتی تھی۔ باقی رہی گفتگو تو اگر اخباروں کے صفحوں کے تبادلے کو گفتگو کہا جاسکتا ہے تو اس میں گفتگو ضرور ہوتی تھی۔ ایک آدھ دفعہ مختار صاحب خود ہی بے دھیانی میں مونڈھے پہ بیٹھ گئے۔ پوسٹ ماسٹر صاحب نے کبھی ان سے بیٹھ جانے کی درخواست نہیں کی تھی، مگر ان کے بیٹھ جانے پر کسی بے کلی کا اظہار بھی نہیں کیا اور نہ کسی قسم کی خوشی ظاہر کی۔
مختار صاحب مونڈھے پر بیٹھ کراخبار پڑھنے کے خود ہی عادی بن گئے۔ رفتہ رفتہ یہ خاموش تعلق خود اپنے زور پر زیادہ گہرا اور زیادہ پختہ ہوتا چلا گیا۔ اس تعلق سے زیادہ گہرے اور پختہ ہونے کااظہار دوطریقوں سے ہوا۔ ایک تو اس طرح کہ آتے ہی جو رسمی علیک سلیک ہوتی تھی وہ ختم ہوگئی۔ دوسرے اس طرح کہ جلیبیوں کا دونا اب چبوترے پہ ہی آجاتا تھا۔ مختار صاحب آتے ہی دکان پہ ایک نظر ڈالتے۔ اس وقت بالعموم چولہے پر گھی کڑکڑا رہاہوتا تھا۔ ننوا کو وہ ایک نظر اس اندازسے دیکھتے گویا کہہ رہے ہوں کہ بھئی میں آگیا ہوں اور ننوا کی نظر اسی لہجے میں اس نظر کا جواب دیتی۔ مختار صاحب خاموشی سے چبوترے پر پہنچتے اور مونڈھے پر ڈٹ جاتے۔ پوسٹ ماسٹر صاحب کے چہرے پہ بشاشت کی ایک خفیف سی لہر دور جاتی اور پھر اخبار کا پہلا صفحہ ان کے ہاتھ میں تھمادیتے۔ اخبار پڑھنے کے دوران ہی میں دکان سے ننواکی آواز آتی۔ مختیار صاحب اپنی جلیبیاں لے لو۔ اور مختار صاحب مونڈھے سے اٹھ کر دونالے آتے۔ مونڈھے پہ پھر آبیٹھتے۔ دونے سے جلیبیاں کھاتے اور دونا چبوترے سےباہر پھینک کر جہاں بالعموم ایک بدرنگ کالا کتا اس کا منتظر ہوتا۔ وہ پھر اخبار کا صفحہ اٹھالیتے۔ پھر اتنے میں اندر سے منی نکل کر آتی اور کہتی، ’’ماموں جان امی جان کہہ رئی ایں ناشتہ کرلیجیے۔‘‘ پوسٹ ماسٹر صاحب خوشی سے اٹھ کھڑے ہوتے، اندر جاکر ناشتہ کرتے اورپھر آبیٹھتے۔
اخبار پڑھتے پڑھتے بالعموم دونوں کی آنکھیں بیک وقت تھکتیں۔ پوسٹ ماسٹر صاحب عینک اتار کے سامنے کھڑی چارپائی پہ رکھ دیتے اور آسمان کو تکنے لگتے۔ تانبا سا آسمان، دھوپ سے چمکتے ہوئے سفید سفید بادل جو آہستہ آہستہ تیرتےرہتے۔ اتنی آہستہ گویا اب رکے اور اب تھمے اور پھر ہولے ہولے ان کی شکلیں بدلتیں۔ افریقہ کاجنوبی حصہ، خلیج کا بنگال، لومڑی۔ پوسٹ ماسٹرصاحب بڑی آہستگی سے گویا اپنےآپ سے کہہ رہےہوں۔ کہنے لگتے، ’’بڑی گھمس ہے۔ مینہ پڑے گا۔‘‘
اور مختار صاحب ہولے سےگویا اپنے آپ کو جواب دے رہے ہوں بول اٹھتے۔ ’’اس وقت بارش ہوگئی تو فصل بڑی اچھی ہوجائے گی۔‘‘
پھر خاموشی چھا جاتی۔ پوسٹ ماسٹر صاحب اسی طرح آسمان کو تکتے رہتے۔ اور مختار صاحب اونگھنے لگتے۔ آنکھیں بند ہونےلگتیں، سر جھکنے لگتا اور پھر اچانک چونک پڑتے۔ ان کا ہاتھ چہرے کی طرف اٹھ جاتا۔ ’’اس دفعہ اتنی مکھیاں نہ جانے کہاں سے آگئی ہیں۔‘‘
اور جواب میں پوسٹ ماسٹر صاحب بڑبڑانےلگتے۔ ’’دن کو مکھیاں، رات کو مچھر۔ ایک پل کو نیند نہیں آتی۔۔۔ جان ضیق میں ہے۔‘‘
دھوپ رینگتی رینگتی چارپائی کی پائنتی سے آلگتی۔ مختار صاحب بڑبڑاتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے، ’’طپش ہوگئی۔‘‘
پوسٹ ماسٹر صاحب مونڈھے اٹھاکر دالان میں ڈالتے، پھر چارپائی اور حقہ اٹھاکر دالان کے اندر والی کوٹھری میں لے جاتے، پھر اندر جاتے۔ بیوہ بہن کھانا سامنے لاکر رکھ دیتی۔ خاموشی سے کھاناکھاتے اور کوٹھری میں جاکے سورہتے۔
مختارصاحب خالی ہاتھ ہی آتے تھے اور خالی ہاتھ ہی جاتے تھے مگر بھٹوں کے زمانے میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ وہ چلتے چلتے کھیت سے تین چار بھٹے توڑلاتے اور جب منی باہر آتی تو اس کے ہاتھ میں تھمادیتے۔ پھر جاڑوں میں ایک دومرتبہ انھوں نے رس کے گھڑے بھی بھجوائے تھے۔ شاید اس کی کھیر کی تقریب ہی سےانھیں اندر جانے کا اتفاق ہواتھا۔ مختار صاحب ایسے بزرگ نہ سہی مگر بزرگوں والی سنجیدگی چہرے پہ آچلی تھی۔ کنپٹی کے آس پاس کے بال خاصی تعدادمیں سفید ہوگئے تھے۔ سر کے آگے کے بال اڑجانے کی وجہ سے پیشانی خاصی کشادہ ہوگئی تھی اور ہوتی چلی جارہی تھی۔ مختصر یہ کہ وہ بوڑھے تو نہیں ہوئے تھے مگر بڈھاپے کا دوراہا ہی کہنا چاہیے۔ اس عمر میں برادری کے مردوں سے بالعموم پردہ اٹھ جایا کرتا ہے۔ پھر بھی مختار صاحب جب بھی اندر آئے، رقیہ اک ذرا گھونگھٹ نکال لیتی تھی۔ اس وقت وہ مشین پر کپڑے سی رہی تھی۔ مختار صاحب کو آتے دیکھ کر اس نے ہاتھ روکا اور آہستہ سے گھونگھٹ نکال لیا۔
’’اجی آپ کو مبارک ہو۔ اکیلے ہی اکیلے بیٹی کا بیاہ کرآئے۔ ہمیں جھوٹوں بھی نہ پوچھا۔‘‘
رقیہ نے شادی کا ذکر بڑی گرم جوشی سے چھیڑا تھا۔ مگرمختار صاحب نے بڑی مردہ دلی سے جواب دیا۔ ’’اجی بیاہ ویاہ کا ہے کا ہے۔ چار بول نکاح کے پڑھ گئے۔ بس ٹھیک ہے۔‘‘
’’اے واہ! یہ بچنےکااچھا بہانہ ہے۔‘‘ رقیہ نےاسی جوش سے بات کی۔ ’’نامختار صاحب ہم نہ مانیں گے۔ بیاہ میں نہ بلایا تو اب منھ میٹھا بھی نہ کروگے۔‘‘ اور منھ میٹھا کرنے کی بات کرتے ہوئے انہوں نے یکایک سوال کیا۔ ’’اجی جہیز میں کیا کیا دیا؟‘‘
’’جہیز؟ کیا تھا جہیز وہیز۔۔۔ کون سا چھکڑا بھر کے سونا دے دیا؟‘‘
’’اے ہے یہ کیا بات ہوئی۔ چھکڑا بھر کے سونا تو راجہ مہاراجہ بھی نہیں دیتے۔ اللہ رکھے باپ صاحب جاداد ہے۔ بھیا بھی کما رہا ہے۔ جہیز کیا ایسا ویسا ہوگا۔۔۔ اور ہاں مہر کتنے کا بندھا؟‘‘ رقیہ نے جہیز کی بات کرتے کرتے ایک اورسوال کرڈالا۔
’’جہیز؟‘‘ مختار صاحب سٹ پٹائے اور پھر اسی بے اعتنائی سے بولے۔ ’’بی بی مجھے تو مہر وہر کا پتہ نہیں۔‘‘
’’اے لو کیسے بیٹی کے باپ ہیں۔ آپ کومہر کا پتہ نہیں ہے؟‘‘ رقیہ نے تعجب کا اظہار ضرور کیا لیکن اسے کوئی خاص تعجب نہیں ہوا تھا۔ بیوی بچوں سے مختار صاحب کی بےاعتنائی کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں تھی۔ یہ بے اعتنائی کوئی نئی نہ تھی۔ ان کی عمر اتنی ہی تھی جتنی ان کی شادی کی۔ ماں باپ نے شادی کردی۔ انھوں نے شادی کرلی۔ شادی کے خلاف نہ تو انہوں نے احتجاج کیا اور نہ اس کے بارے میں گرمجوشی دکھائی۔ سہرابندھ گیا، دلہن گھر میں آگئی اور بے اعتنائی برقرار رہی۔ شادی کے شروع کے زمانے میں بیوی بے شک گھر ہی میں رہی تھی مگرجب بچوں نے ہوش سنبھالا تو انہوں نے اپنے آپ کو ناناکے گھر میں پایا۔ البتہ بڑے لڑکے زاہد کے ذہن میں باپ کے گھر کا ایک دھندلا سانقشہ ضرور موجود تھا۔ مختار صاحب کو نہ تو بیوی سے کوئی خاص رغبت تھی نہ اولاد کا چاؤ پیدا ہوا۔ ہرمہینے باقاعدگی سے خرچ ضرور بھیج دیتے تھے۔ مگر خود کبھی مہینوں بھی جاکے نہیں بھٹکتے تھے۔ تیج تیوہار کے موقعہ پر جاتے بھی تو بطور مہمان۔ اپنی اولاد کی تقریبوں میں ہمیشہ اس انداز سے شرکت کی جیسے رشتہ داروں کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں اور اولاد بلکہ خود بیوی بھی کچھ یہی سمجھتی کہ کوئی رشتہ دار آیا ہوا ہے۔ دوچار دن ٹکتے اور بغیر کسی وجہ کے چل کھڑے ہوتے۔ بیوی سے زور شور کی لڑائی کبھی نہیں ہوئی۔ باہمی کشیدگی خفگی کی حد سے کبھی آگے نہیں بڑھی اور اب وہ بے اعتنائی کی شکل میں مستقل ہوکر رہ گئی تھی۔ بیوی باپ کے گھر کو اپنا گھر سمجھتی تھی اور جوان اولاد کے ساتھ خوش تھی۔ مختار صاحب بیوی سے کوسوں دور اپنے شہر میں اکیلے مکان میں مطمئن تھے اور کسی دوسرے وجود کی ضرورت محسوس نہیں کرتےتھے۔ گاڑی کےدونوں پہیے اپنی اپنی راہ چل رہے تھے اور بغیر کسی حادثے کے خدشے کے جب کوئی کاج ہوتا تو مختارنی، زاہد سے کہہ دیتیں کہ ’’بیٹااپنے باپ کو بھی خط لکھ دے اور ہاں یہ بھی لکھ دیجو کہ اب کے روپے زیادہ بھیجیں۔‘‘
بیٹی کی شادی کے رقعہ پر بھی یہی ہوا۔ زاہد نے شادی کی تاریخوں سے اطلاع دے دی تھی۔ مختار صاحب شادی سے دو دن پہلے پہنچ گئے تھے، یہ الگ بات ہے کہ باہر والوں نے بیاہ کے گھر میں سب کو چلتے پھرتے لپکتے جھپکتے دیکھا، اور نہیں دیکھا تو مختار صاحب کو۔ بارات کا استقبال کرنے والوں کی قیادت دلہن کے نانا کر رہے تھے۔ دولہا کے باپ نے کئی مرتبہ مختارنی سے تقاضا بھی کیا کہ ’’اجی ہمارے سمدھی کہاں ہیں۔‘‘ مختارنی نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ ’’یہیں کہیں ہوں گے۔‘‘ مگر ایک مرتبہ جل کر کہہ ہی دیا کہ ’’اجی وہ تو مانس گند ہیں، کہیں کونے بچالے میں الگ پڑے ہوں گے۔‘‘ مگر دراصل وہ اس وقت کسی کونے بچالے میں نہیں تھے۔ جس کسی کا باورچی خانہ میں گزر ہوا، اس نے ایک سنجیدہ صورت ادھیڑ عمر کے شخص کو مونڈھے پہ گم متھان بنے حصے کی نےہونٹوں میں دبائے دیکھا۔ یہ انھیں نکاح کے وقت پتہ چلا کہ یہ بیٹی کے باپ ہیں۔ نکاح کے بعد مختار صاحب پھر غائب ہوگئے اور رخصتی کے وقت تک کسی کو نظر نہیں آئے۔ مختصر یہ کہ مختار صاحب نے شادی خود نہیں دیکھی، رقیہ کو کیا بتاتے اور کیا حال سناتے۔ اس کا ذوقِ جستجو پیاسا ہی رہا۔ اس نے ہار کر شادی کے متعلق پوچھ گچھ ہی ختم کردی اور دوسری بات شروع کردی۔
’’مختار صاحب اب بیٹی کا بوجھ اتر گیا ہے۔ اب بیٹے کا بھی بیاہ کرڈالیے۔ بہت کمائی کھائی آپ نے اس کی۔‘‘ دراصل یہ ذکر رقیہ کو شادی کا تمام احوال سننے کے بعد چھیڑنا چاہیے تھا، مگر مختار صاحب کی طرف سے مایوس ہوکر اسے چند باتوں کے بعد ہی یہ ذکر چھیڑ دینا پڑا۔ مختار صاحب نے اس پر بھی ایسی گرمی کا اظہار نہیں کیا۔ قدرے بیزاری سے بولے، ’’اجی ہم کون بیاہ کرنے والے، خود بیاہ کریں گے۔‘‘
رقیہ نے بات کو دوسرا ہی رنگ دے دیا۔ کہنے لگی۔ ’’ہاں۔۔۔ اصلی بوجھ تو بیٹی کاہوتا ہے۔ بیٹوں کا کیا ہے۔ لڑکا لائق ہوا اچھی لڑکی ہر وقت مل جاتی ہے۔‘‘
رقیہ نے مختار صاحب کے اس افسردگی آمیز بیزارکن انداز کو مواقف مطلب نہیں پایا تھا۔ لیکن بعد میں وہ اس سے ایسی مانوس ہوئی کہ مختار صاحب جب بھی اندر آتے۔ وہ ادبدا کے ان کے بیوی بچوں کا ذکر چھیڑتی۔ کبھی کہنے لگتی ’’اجی اب آپ بیٹی کو کب بلوارہے ہیں۔ سسرال میں اس کا جی نہ گھبراتا ہوگا۔ پہلی دفعہ چھٹی ہے۔‘‘
مختار صاحب بڑی سرد مہری کے ساتھ آہستہ سے کہتے، ’’آجائے گی۔‘‘ اور پھر چپ ہوجاتے۔
پھر رقیہ زاہد کی شادی کاذکر چھیڑدیتی۔ ’’اجی ہم نےسنا ہے کہ آپ کےزاہد کی منگنی ہو رہی ہے۔‘‘
’’ہو رہی ہوگی، اس کی ماں جانے،‘‘ مختار صاحب اسی سرد مہری کے ساتھ آہستہ سےکہتے اور پھر اونگھنے لگتے۔
رقیہ فوراً بولتی۔ ’’اجی یہ کیا بات کہی آپ نے کہ اس کی ماں جانے۔ آخر آپ بھی تو باپ ہیں۔ باپ کیوں نہ جانے۔‘‘
مختار صاحب ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہتے۔ ’’اجی کون باپ واپ۔ نہ ہم کسی کے باپ نہ ہماری کوئی اولاد۔‘‘
’’اے لو یہ اچھی رہی۔‘‘ اور رقیہ کو ایک عجیب سی نامعلوم قسم کی آسودگی محسوس ہوتی۔
مختار صاحب کا اندر کا آنا جانا روز بڑھتا ہی گیا۔ لیکن اتنی آہستگی سے کہ اس کا احساس نہ تو پوسٹ ماسٹر صاحب کو ہوا نہ رقیہ کو اور نہ خود انھیں۔ اخبار پڑھتے پڑھتے وہ آہستگی سے حقے کی نے ہونٹوں میں دبالیتے۔ نگاہیں اخبار سے ہٹ کر سامنے والی دیوار پر جم جاتیں، آہستہ آہستہ حقے کا گھونٹ لیتے، دیوار پہ نظریں جمی رہتیں اور کسی گہری سوچ میں ڈوب جاتے۔ اچانک منی کسی طرف سےکھیلتی ہوئی آنکلتی اور وہ خیالات کی روکو ایک طرف جھٹک کر سوال کرتے، ’’بیٹی تیری ماں کیا کر رہی ہے۔‘‘ اورجواب کاانتظار کیے بغیر اسی طرح ہاتھ میں اخبار لیے ہوئے اٹھتے اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے اندر چلےجاتے۔ رقیہ کا وہ پہلے والا حجاب ختم ہوچکاتھا۔ گھونگھٹ چھوٹا ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوچکا تھا۔ ہاں سر کھلا ہوتا اور وہ اکثر کھلا ہوتا تھاتو مختار صاحب کو دیکھ کر ڈھک لیا جاتا۔ پھر رفتہ رفتہ احتیاط سینےتک محدود ہو کر رہ گئی۔ رقیہ کاجسم ڈھل گیا تھا۔ لیکن ڈھلتا ہوا دن بھی اپنا الگ حسن رکھتا ہے۔ روٹی پکاتے ہوئے جب اس کے نیم برہنہ بازو گردش کرتے تھے تو صاف پتہ چلتا تھا کہ ان کی گولائی زائل ہوچکی ہے۔ مگر ان ڈھلتے ہوئے گورے بازوؤں سےایک عجب حلاوت کی کیفیت پیدا ہوتی تھی۔ مختارصاحب کی نگاہیں کبھی کبھی بے دھیانی سے ان پر جاپڑتی تھیں مگر فوراً ہی جھک جاتی تھیں۔
مختار صاحب نے اس حدتک احتیاط ہمیشہ برتی کہ چوکھٹ میں قدم رکھنے سے پہلے کھنکاردیتے تھے۔ رقیہ چولہے پر روٹی پکانے اس انداز سے بیٹھتی تھی کہ دوپٹہ سامنے والی کھونٹی پر ٹانگا، آستینیں کہنی سے اوپر بازوؤں تک چڑھائیں اور پھر آٹے کے پیڑے بنانے شروع کردیے۔ چولہے کے سامنے ذرادیر بیٹھنے سے چہرہ تمتمانے لگتا۔ کوئی لٹ بکھر کر رخسار پہ آپڑتی۔ اور پسینے سے چپک جاتی۔ بھری بھری پشت ایسی بھیگ جاتی کہ کرتا اس پہ چپکنے لگتا۔ مختار صاحب کی کھنکار سن کر وہ جلدی سے کھونٹی سے دوپٹہ اتارتی اور برائے نام سر پر ڈال لیتی مگر اس احتیاط سے کہ کم از کم سینہ ضرور ڈھک جائے۔ مختار صاحب اندر داخل ہوتے ہی یہ سوال کرتے۔
منی کی ماں! کیا پکالیا۔
’’اجی اردکی دال پکائی ہے۔‘‘
’’ارد کی دال۔ بی بی یہ دالوں کا موسم نہیں ہے۔۔۔ اچھا کل ہم کریلے لاکے دیں گے۔‘‘
اور دوسرے دن جب مختار صاحب آتے تو ساتھ میں سیر ڈیڑھ سیر ہرے ہرے کریلے لاتے۔ دراصل اب ہر دوسرے تیسرے دن مختار صاحب کے کھیتوں سے کوئی ہری گیلی چیز پوسٹ ماسٹر صاحب کے یہاں پہنچنے لگی تھی۔ پوسٹ ماسٹر صاحب جیسے خشک تھے ویسے ہی خشک ان کا صحن نظر آتا تھا۔ لیکن اب کبھی خربوزوں کے بیچ اور چھلکے بکھرے نظر آتے۔ کبھی بھنڈیوں کی پھرکنی جیسی جڑیں، کبھی ترئی کی چھیلن، کبھی بھوٹوں کے چھلکے اور کبھی کبھی آموں کی زرد زرد گٹھلیاں۔
مختار صاحب اور پوسٹ ماسٹر صاحب چبوترے پر اب بھی اسی طرح گم متھان بنے بیٹھے رہتے۔ پوسٹ ماسٹر صاحب اخبار پڑھتے پڑھتے تھک جاتے او رعینک اتارتے ہوئے زور سے جماہی لیتے اور مختار صاحب اخبار ہاتھ میں لیے لیے اونگھنے لگتے۔ لیکن پھر کھٹ سے اخبار ان کے ہاتھ سے گرپڑتا اور وہ چونک پڑتے۔ کبھی کبھی یوں لگتا کہ مختار صاحب اور پوسٹ ماسٹر صاحب کی جگہ ان کے دوبت رکھے ہیں۔ پھر ایک بت کر حرکت ہوتی اور حقے کی نے کی طرف ہاتھ بڑھتا۔ چلم ٹھنڈی ہوگئی۔ پوسٹ ماسٹر صاحب بڑبڑاتے اور مختار صاحب چلم اٹھاکر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے اندر چلے جاتے۔
اندر پہنچ کر مختار صاحب کا انداز اب بدل بھی جایا کرتا تھا۔ وہ ہوں ہاں کرتے کرتے اچانک باتیں کرنی شروع کردیتے اور کرتے چلے جاتے، فصلوں کی خرابی، بارش کی کمی، کسانوں کی شرارتیں، گیہوں کی مہنگائی۔۔۔ نہ جانے کس کس موضوع پر وہ گفتگو کرتے اور رقیہ ہر گفتگو کو پوری یکسوئی سے سنتی۔ جس شوق سےوہ یہ خبر سنتی کہ اس مرتبہ خربوزوں کی فصل اچھی ہے، اسی انہماک سےیہ بات سنتی کہ اگلے برس مختار صاحب کے رہٹ کے لیے بیلو ں کی نئی جوڑی خریدی جائے گی۔ واقعہ یوں ہے کہ اب رقیہ کی ویران مزاجی میں بھی فرق آچلا تھا۔ گھر کے درودیوار اب بھائیں بھائیں نہیں کرتے تھے اور آنگن خالی خالی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ محض اس وجہ سے نہیں کہ مختار صاحب کے کھیتوں سےآئی ہوئی ترکاریوں کے چھلکے جابجا بکھرے رہتے تھے بلکہ اس وجہ سے بھی کہ مختار صاحب اکثر اوقات خود اس آنگن میں چولہے کے قریب ہی مونڈھے پہ بیٹھے نظر آتے تھے۔ ’’ارے مہترانی تیری بیٹی کاگونا کب ہو رہاہے۔‘‘
’’بتولن تیرا دھوبی اب تجھ سے لڑتا تو نہیں ہے۔‘‘
’’بی بی ذرا دو گھڑی بیٹھ جا میں اکیلی ہوں۔ کمبخت اکیلے گھر میں دم الٹنے لگتاہے۔‘‘
اب اس انداز کی باتیں کرنے کی ضرورت خاصے دنوں سے پیش نہیں آئی تھی۔ ایک ہاتھ مشین کے ہتھے پہ ہے۔ منی کے فراک پہ بخیہ ہو رہی ہے، نگاہیں سوئی پہ جمی ہوئی، اور زبان زاہد کی متوقع شادی کے ذکر میں مصروف ہے۔ فراک کا کپڑا دیکھ کر مختار صاحب کو اس کپڑے کا بھاؤ پوچھنے کا خیال آتا اورپھر وہ کپڑے کی مہنگائی پر تفصیل سے گفتگو کرنی شروع کردیتے۔ چولہے پہ بیٹھے بیٹھے رقیہ کو کسی اجنبی سی ترکاری بہت کم استعمال ہونے والے ساگ کے متعلق خیال آجاتا کہ اب کے برس اس کی صورت نہیں دیکھی۔ مختار صاحب سنتے اور دوسرے دن اس ترکاری کا ڈھیر کا ڈھیر لاکے رکھ دیتے۔ ارویوں کے پتیوں کا رقیہ کواسی انداز سے خیال آیا تھا اور دوسرے دن چولہے کے برابر سینی میں اروی کےابلے کے سبز پتوں کی تھئی کی تھئی رکھی ہوئی تھی۔
مختار صاحب کو اروی کے تلے ہوئے پتوں سے کیا،کسی بھی کھانے کی چیز سے ایسی وابستگی نہ تھی لیکن چونکہ رقیہ نے اپنے ہاتھ سے تلے ہوئے پتوں کی تعریف کی تھی او رخاص طور پر انھیں چکھنے کی دعوت دی تھی اور پھر کچھ نہ سہی اندر جانے اور باتیں کرنے کا ایک بہانہ تو تھا ہی، اس لیے انھوں نےاچھی طرح حقہ بھی تو نہیں پیا اور اٹھ کر اندر چلے آئے۔ رقیہ کو ان کی آہٹ کی ایسی پہچان ہوئی تھی کہ ان کی کھنکار سنتے ہی اسے پتہ چل جاتا تھا کہ مختار صاحب آرہے ہیں۔ سینی میں اروی کے پتے پھیلے رکھے تھے۔ کونڈے میں متھا ہوا بیسن رکھا تھا۔ چولہے میں آگ تیز تھی اور کڑھائی میں تیل کڑکڑ بول رہا تھا۔ رقیہ نے حسب دستور دوپٹہ اتار چولہے کے پیچھے والی کھنٹی پہ ڈال رکھا تھا۔ مختار صاحب کی آہٹ پر وہ چونکی اور ہڑبڑاکر کھنٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ چولہے کی آگ تیز تھی۔ اٹھتے ہوئے شعلوں نے لٹکتی ہوئی آستین کو چھولیا۔ رقیہ کے اوسان خطا ہوگئے۔ اور منھ سے ایک چیخ نکلی۔ مختار صاحب کھنکارناوکھارنا بھول، جلدی سے اندر چلے آئے۔ ترت پھرت انہوں نے آگ بجھائی۔ آگ ایسی زیادہ تو نہیں لگی تھی۔ بس آستین جلی تھی اور پورے بازو پہ سرخ سرخ آبلے پڑگئے تھے۔ مگر رقیہ کے حواس ایسے گم ہوئے تھے کہ سدھ بدھ کی خبر نہ رہی۔ مختار صاحب کہنے لگے ’’کوئی بات نہیں ہے۔ ابھی ٹھیک ہوجائے گا۔ چولہے سے اٹھ جاؤ۔‘‘ رقیہ چولہے سے اٹھ کر چارپائی پہ آبیٹھی، پاس ہی پاندان رکھا تھا۔ مختار صاحب نے جلدی سے پاندان کھول ہتھیلی پہ سارا چونا الٹ رقیہ کے بازوں پہ مل دیا۔ جہاں جہاں آبلے نظر آئے وہاں وہاں خوب لیپ کر دیا اور پھر بولے کہ بس اب آرام کرو۔ اللہ نے چاہا تو تھوڑی دیر میں بازو بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ اور مختار صاحب خود اٹھ کر باہر چلے گئے۔ مختار صاحب دوسرے دن حسب دستور اپنے وقت پہ آئے، جلیبیاں کھائیں، اخبار پڑھنے لگے، حقے کے دو ایک گھونٹ لیے۔ پھر انہیں خیال آیا کہ کل رقیہ کا بازو جل گیا تھا اور اس خیال کے ساتھ وہ اٹھ کر ہمیشہ کی طرح آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے زنانخانے کی طرف چلے گئے۔
رقیہ اس وقت چوکی پر بیٹھی سینے کی مشین چلا رہی تھی۔ مختار صاحب کی آہٹ سن کر اس نے شانے پر باقاعدگی سے دوپٹے کو سرکا کر سینے تک نیچا کیا اور پھر مشین چلانے میں مصروف ہوگئی۔ الٹے ہاتھ کی آستین بغل کے قریب تک چڑھی ہوئی تھی اور اس پر چونے کا لیپ جو اب خوشک ہوچکا تھا۔ اسی طرح چڑھا ہوا تھا۔ مختارصاحب پوچھنے لگے، ’’کوئی تکلیف تو نہیں ہوتی اب؟‘‘
’’نہیں،‘‘ رقیہ نے مشین چلاتے چلاتے کہا۔
’’اجی یہ تو تیز بہدف علاج ہے۔ کیسا ہی آدمی جل جائے چونا لگائیے بس فوراً ٹھنڈک پڑجاتی ہے۔‘‘
’’اجی اللہ نے خیر ہی کردی۔‘‘ رقیہ کہنے لگی۔ ’’میں تو سمجھی کہ بس میں جل ہی گئی۔‘‘
’’ہاں برا وقت آتے دیر نہیں لگتی۔ خیر آج بازو کو دھوڈالنا، کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔‘‘
رقیہ نے سوئی کا الجھا ہوا دھاگہ درست کیا اور پھر مشین چلانی شروع کردی۔
منی بہت دیر سے چپکی بیٹھی باتیں سن رہی تھی۔ بازو کے سفید لیپ کو دیکھ کر پوچھنے لگی، ’’امی جی آپ کے یہ بھبھوت ملا کس نے ہے؟‘‘
رقیہ اس سوال پر کچھ چونک سی پڑی۔ مشین کے ہتھے کو گھماتا ہوا ہاتھ رک گیا۔ اس نے بازو کو دیکھا اور جلدی سے دوپٹہ کاآنچل اس پہ ڈال لیا۔ مختار صاحب کی اخبار پہ جمی ہوئی آنکھیں اوپر اٹھ گئیں۔ رقیہ کی گھبرائی ہوئی آنکھیں مختار صاحب کی آنکھو ں سے بس ایک لمحہ کے لیے لڑی ہوں گی اور پھر مشین کی سوئی پر جھک گئیں۔ مشین تیزی سے چلنے لگی۔ کانوں کی لویں لال پڑگئیں۔ ایک لٹ سرخ ہوتے ہوئے رخسار پر آپڑی اور چونے سے لپے ہوئے پورے بازو میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ مختار صاحب کی نظریں پھر اخبار پر جم گئیں تھیں۔ مگر شاید وہ کوئی خاص خبر نہیں پڑھ رہے تھے۔ چونے کے لیپ کرنے کا پورا عمل ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور ان کی انگلیوں میں ایک نرم اور شیریں سی کیفیت منمناتی ہوئی سی محسوس ہوئی۔ وہ چند منٹ تک اخبار پہ نظریں جمائے بیٹھے رہے اور پھر کھنکار کے آہستگی سےاٹھے اور ادھر ادھر دیکھے بغیر باہر چلے گئے۔
ایک سرور کی کیفیت ،کچھ شرمندگی سی، ایک ندامت کا سا احساس، اسی کے ساتھ ایک عجیب قسم کی مسرت، طبیعت میں آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہوئی ایک مہک، انگلیوں اور مٹھیوں میں شیرینی سی گھلتی ہوئی، پوروں میں نرمی اور گرمی کےکسی عجیب سے امتزاج کو چھونےکا احساس، مختار صاحب عجب عالم میں گھر پہنچے۔ رستہ کیسے کٹا، کن کن گلیو ں سے وہ نکل کر آئے، کس دکاندار نے انھیں سلام کیا، کسی بات کا انھیں پتہ نہ چلا۔ ہاں مگر گھر پہنچ کر یہ پوری کیفیت پل بھر میں زائل ہوگئی۔ زاہد بالکل غیرمتوقع طور پر آیا تھا۔ بیٹے کو دیکھ کر وہ خوش ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں۔ حیران بہت ہوئے۔
’’میرا تبادلہ ہوگیا ہے۔ بواجی بیمار ہیں، گھر پہ ان کی کوئی خبر لینے والا نہیں ہے۔ آپ تھوڑے دنوں کو وہاں چلے چلیں۔‘‘
’’میں۔۔۔ مگر میں تو۔۔۔‘‘ مختار صاحب سے جواب نہ بن پڑا۔ ’’گھر اکیلا۔۔۔ ہاں فصل تیار کھڑی ہے۔‘‘
زاہد بگڑ کر بولا۔ ’’دیکھا جائے گا فصل وسل کا۔۔۔ آخر گھر پہ کوئی تو دیکھ بھال کرنے والا ہو۔‘‘
رقیہ رات کر کھری چارپائی پہ بہت دیر تک کروٹیں بدلتی رہی۔ ایک عجب سا اضطراب ایک مبہم خوف اور اس خوف اور اضطراب کی تہہ سےابھرتی ہوئی حسرتیں جسم میں سلگنے کی دھیمی دھیمی کیفیت بیدار ہوچلی تھی۔ جسم جو سوچکا تھا اس جسم کو سلانے کے لیے اسے کس کس کرب سے گزرنا پڑتا تھا اور ترستی ہوئی طبیعت پہ کیسے کیسے جبر کرنے پڑتے تھے اور جب جسم سوگیا تو اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ کبھی بیدار بھی تھا۔ چولہے کی آگ بالکل ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی، راکھ اندر سے گرم نکلی۔ اسے دس سال پہلے کی بیتی باتیں پھر یاد آرہی تھیں، مگر ایک دھندلا ساخواب بن کر۔ کئی مرتبہ اس کا جی چاہا یہ خواب، اس خواب کا کوئی منظر پھر زندہ ہو جائے مگرپھر اس کا جی ڈوبنے لگا اور ایک ملال اور افسردگی کی کیفیت اس کے عود کرتے ہوئے جذبے پر چھاتی چلی جاتی۔
صبح کو جب وہ سوکر اٹھی تو اس پہ خود ملامتی کی کیفیت طاری تھی۔ رات کے پراگندہ خیالات کاجب اسے دھیان آتا تو شرم سے پانی پانی ہوجاتی اور اپنےآپ پر نفرین بھیجنے لگتی۔ اس نے پوری کوشش سے ان خیالات کو اپنے ذہن سے خارج کیا، الٹے بازو کو جسے وہ کل بھی دھوچکی تھی، ایک مرتبہ پھر دھویا۔ بازو ٹھیک ہوگیا تھا۔ بس کہیں کہیں دکھن باقی تھی۔ گھڑونچی پہ سے کل کی خریدی ہوئی ترئیاں اٹھائیں اور ہنڈیا کے لیے انہیں چھیلنے بیٹھ گئی۔ اس وقت اس کی ذہنی حالت تقریباً معمول پر آگئی تھی۔ ایک دفعہ یونہی بے دھیانی میں اسے خیال آیا بھی کہ مختار صاحب اب بیٹھے ہوں گے اور اخبار پڑھ رہے ہوں گے، مگر پھر فوراً ہی اس نے اس خیال کو ذہن سے خارج کردیا اور ترئیاں زیادہ انہماک سے چھیلنے لگی۔
اتنے میں پوسٹ ماسٹر صاحب ایک چھوٹی سی گٹھڑی لیے اندر آئے اور چارپائی پہ رکھتے ہوئے بولے۔ ’’یہ امبیاں مختار صاحب کے گھر سے آئی ہیں اور وہ تو گئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’گئے ہوئے ہیں؟ ۔۔۔ کہاں؟‘‘ رقیہ نے ترئی چھیلتے چھیلتے پوسٹ ماسٹر صاحب کی طر ف نظر اٹھائی۔
پوسٹ ماسٹر صاحب آہستہ سے بولے۔ ’’مختار صاحب کی اہلیہ بیمار ہے۔ ان کا بیٹا آیا تھا۔ ساتھ لے گیا ہے۔ تھوڑے دن وہ وہیں رہیں گے۔‘‘
چاقوترئی پہ چلتے چلتے رک گیا۔ رقیہ پوسٹ ماسٹر صاحب کو تکنے لگی۔ پھر فوراً ہی اس کی نظریں اپنے ہاتھ کی ترئی پہ اترآئیں اور چاقوآہستہ آہستہ چلنےلگا۔۔۔ ’’منی‘‘ وہ آہستہ سے بولی۔۔۔ ’’جی امی جی۔‘‘
’’منی۔۔۔ یہ ابییں اندر دالان میں رکھ دو۔ رقیہ کی آواز میں اداسی کی ایک خفیف سی دھاری شامل تھی۔
ترئیاں پھر چھیلنے لگیں۔ چاقو آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔
پوسٹ ماسٹر صاحب باہر آکر پھر مونڈھے پہ بیٹھ گئے۔ دوسرا مونڈھا خالی پڑاتھا۔ انہوں نےاخبار خالی مونڈھے پہ رکھ دیا اور حقے کی نےہونٹوں میں لے لی مگر چلم ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ حقے کی نے انھوں نے ایک طرف کی، عینک کی ڈبیا سے عینک نکال کرلگائی، مونڈھے پہ رکھے ہوئے اخبار کے پیج کا صفحہ آہستہ سے نکالا اور پڑھی ہوئی خبروں کو ایک بار پھر دیکھنا شروع کردیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.