تھیٹر والا
حالانکہ اسے پچاسوں بار پہلے بھی دیکھ چکا ہوں لیکن اس دن اسے دیکھ کر چونک سا اٹھا۔ لگا جیسے بنا موسم کا کوئی پھول یا پھل دیکھ رہا ہوں۔ ساون بھادوں کی کچ کچ میں لگاتار بارش کہاں سے آ گئی؟ کیوں؟
میں ہی نہیں، اسے دیکھ کر سبھی جاننے والے، انجان حیران ہوکر رک جاتے ہیں۔ کوئی کوئی اس کے ٹیبل کے نزدیک جاکر کچھ پوچھ بھی لیتا ہے اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ وہ بہت ہی غیرڈرامائی اندز میں چھوٹا سا جواب بھی دے دیتا ہے۔
مجھے یہ سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی کہ لوگ اسے فاربس گنج کی اس چھوٹی سی چائے ی دکان کی ایک بانہہ والی کرسی پر بیٹھا دیکھ کر کیوں کچھ دیر کے یے ٹھٹک کر رہ جاتے ہیں۔
میں نے اندازہ لگایا۔۔۔ تیس اکتیس سال پہلے اس شخص کو پہلی بار دیکھا تھا، سنہ انیس سو انتیس میں۔ اسی سال پہلے پہل گلاب باغ میلے میں اتنا سٹ کر ہوائی جہاز دیکھا تھا کہ وہ سال ابھی تک یاد ہے۔ 1929 میں میں آٹھ نو سال کا تھا۔ اسی سال گلاب باغ میلے میں کلکتہ کی مشہور تھیٹر کمپنی آئی تھی اور لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوا تھا۔ تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ اسٹیج پر ہی گاڑی آتی جاتی تھی۔۔۔ انجن سمیت چیختی چنگھاڑتی، دھواں اگلتی ہوئی۔۔۔ اور لال پیلی روشنی میں ان گنت پریاں ناچتی ہوئیں۔
زندگی میں پہلی بار تھیٹر دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی تھی۔ آج تک وہ دن یاد ہے! کتنی خوشی بھری حیرت! لیکن جب اسکول کھلا تو ہم جماعت بکل بنرجی نے میرے جی کو چھوٹا کر دیا تھا۔ گوکہ وہ بھی ان دنوں آٹھ نو سال کا ہی تھا لیکن بہت ہی تیز۔۔۔ پیدائشی آرٹ کریٹک! اس کے کہنے کے مطابق اس نقلی کمپنی میں پچھلے سال ناگیسر باغ میلے میں آئی اصلی کمپنی کے نکالے ہوئے سب لوگ تھے۔ بکل نے کہا تھا کہ ناگیسر باغ میلے میں آئی کمپنی کی باتیں ہر کوئی جانتا ہے۔۔۔ چوبیس گھنٹے کے اندر کمپنی کو میلہ چھوڑ کر چلے جانے کا حکم کلکٹر صاحب نے دیا تھا۔ کلکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ اگر دو دن بھی یہ کمپنی میلے میں رہ گئی تو سارا ضلع کنگال ہو جائےگا۔ لیکن بَکل مجھے اداس دیکھ کر بولا تھا، ’’تب بھی ایک بات ہے اس کمپنی میں۔ جس آدمی نے ریلوے پورٹر کا پارٹ کیا ہے، وہ ناگیسر باغ میلے میں آئی ہوئی کمپنی میں بھی یہی پارٹ کرتا تھا، یعنی ویٹنگ روم میں سوئے ہوئے لڑکے کو مارتا تھا، چھرے سے۔۔۔ اس کو تو نقلی نہیں کہہ سکتے۔‘‘
آج بھی مجھے اس وقت کی سبھی باتیں یاد ہیں۔۔۔ گلاب باغ میلہ۔۔۔ پنجاب میل کاریلوے پورٹر۔۔۔ لڑکے کا خون۔۔۔ بکل کی باتیں۔۔۔
قریب چار یا پانچ سال بعد سنہیشور میلے میں آئی ہوئی اماکانت جھا کمپنی میں اس آدمی کو پھر دیکھا تھا۔۔۔ ایک ناٹک میں چنا بائی کی محفل میں بھوتھیا کے بابا جی کے بھیس میں۔ ’’کایا کا پنجرہ ڈولے رے، سانس کا پنچھی بولے‘‘ گاتا ہوا، بڑی ہی سریلی آواز میں۔ گلاب باغ والی کمپنی میں لڑکے کا قتل کرنے والا، یعنی قاتل کا کردار ادا کرنے والا، بابا جی کے گیروا لباس میں۔ اپنی بولی وہ زیادہ دیر نہیں چھپا سکا۔ میں جھٹ پہچان گیا۔ جب وہ پارسی نوٹنکی کے ایک سین میں کویتا پڑھ رہا تھا، مردنگ کہے دِھک ہے، دھک ہے۔۔۔ منجیر کہے کن کو، کن کو۔۔۔ تب ہاتھ نچاکر گایکا کہتی، ان کو، ان کو۔۔۔ ! تب مجھے ذرا بھی شک نہیں رہ گیا۔
میں پہچان گیا تھا باباجی کو۔ وہی تھا، جو گلاب باغ میلہ کمپنی میں ویٹنگ روم میں دبلے پتلے لڑکے کو چھرا بھونکنے کے پہلے کانپتے ہاتھ اور تھرتھراتے چھرے کو دیکھ کر پاگلوں جیسا بڑبڑا اٹھا تھا، ’’کیوں میرے ہاتھ، تو کیوں تھرتھرا رہا ہے؟ تو تو صرف اپنے مالک کے حکم پر عمل کر رہا ہے۔ مت کانپ میرے خنجر۔ وقت برباد مت کر! شکار سویا ہے چادر تان کر! لے تو بھی اپنا کام کر!‘‘
بس کی ڈگی پر بڑی زور سے چوٹ پڑی تھی، سبھی ہڑبڑا گئے تھے۔ یہ سب مجھے یاد ہے۔
اس کے بعد پھر تیسری بار۔ آکھیا پرساد کی ناٹک کمپنی کے شریمتی منجری کھیل میں انگریز جج کا بھیس بناکر ٹیبل پر ہتھوڑا ٹھونک کر لوگوں کو خاموش رہنے کی تنبیہ کرتا ہوا یہ شخص بولا تھا، ’’ویل مونجری بائی! ہاٹ ہم کو سڑی مٹی مونجری (شریمتی منجری) کا خطاب ڈیٹا ہائے۔ آج سے تم کو سڑی مٹی منجری بولےگا۔ ہم بولےگا، سب بولےگا، سمجھا؟‘‘ اور اس منظر کے کچھ لمحوں بعد وہ وہی گیت گاتا ہوا اسٹیج پر آیا تھا، ’’کایا کا پنجرہ ڈولے رے۔۔۔ ‘‘ اپنی اسی پرانی طرز میں۔
مجھے اسے پہچاننے میں ہیں غلطی نہیں ہوئی۔ سب جگہ اسے پہچان گیا۔
کتنی بار اسے دیکھا ہے لیکن ایسے بےموسم میں نہیں۔ بے وقت نہیں اور جھرتے ہوئے ساون بھادوں میں نہیں۔ عام طور سے اسے میلے کے موسم میں دیکھا تھا، یعنی کار تک سے چڑھتے بیساکھ تک، اس لیے آج اچانک اسے اس چائے کی دکان پر بیٹھا دیکھ کر میں چونک گیا۔
ایک اندازہ لگایا۔۔۔ دس گیارہ سال بعد اسے اس علاقے میں دیکھ رہا ہوں، اسی وجہ سے تجسس بھی ہوا اور حیرانی بھی۔ وہ دکان کی کرسی پر بیٹھا تھا ضرور، لیکن تھا اداس، اکھڑا ہوا، اپنے میں کھویا ہوا۔ بارش کی جھڑی کووہ بہت دیر سے ایک ٹک دیکھ رہا تھا۔
وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ قاتل پورٹر، بابا جی۔۔۔ انگریز جج۔۔۔ اپدیشک۔۔۔ سپاہی۔۔۔ ڈاکو۔۔۔ اندھا۔۔۔ فقیر۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ سب ایک ہی شخص۔۔۔ ایک ہی آدمی۔
بہت زور سے بجلی چمکی، بارش اور تیز ہو گئی اور بہت دیر کے بعد اس نے وہی انداز اپنایا جس انداز میں وہ ’’کایا کا پنجرہ‘‘ والا گیت گاتا تھا، اسٹیج پر!
اتنی دیر کے بعد میری نظر اس کی پہنی بش شرٹ پر پڑی۔ کارٹون کی چھاپ مٹ رہی تھی، میل جم رہا تھا۔ نئی ڈیزائن کی ٹوٹی چپل۔ وہ اچک کر گمبھیر نظر سے چائے والے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ’’ایک ادھر بھی۔۔۔ ‘‘
اس کی بولی سن کر یہ سمجھنے میں ذرا بھی شک نہیں رہا کہ جو قاتل پورٹر یاد ہلا دینے والا بھینکر ڈاکو تھا، یا رعب دار انگریز جج، یا شانت اپدیشک وغیرہ کا رول کرتا تھا، اب بوڑھا ہو گیا ہے۔
چائے اسے بھی ملی اور مجھے بھی۔
ایک گھونٹ چائے پیتے پیتے مجھے ایک بات یاد آئی کہ ان دنوں رات کے اسٹیج کے اداکاروں کو دن کے اجالے میں سڑک پر یا میلے میں چلتا دیکھ کر کتنا عجیب سا لگتا تھا۔ کس طرح ان لوگوں کا بولنا، بات کرنا انوکھا اور عجیب لگتا تھا۔۔۔ لیکن اچھا۔
یاد آیا۔۔۔ فاربس گنج میلے کی ایک تھیٹر کمپنی کے کچھ اداکاروں کے پیچھے بہت دیر سے گھوم رہا تھا۔ ایک پان کی دکان پر سب کھڑے ہوئے۔ پیچھے میں بھی کھڑا ہوا۔ اس پارٹی میں کافی لوگ تھے۔۔۔ لیلیٰ، مجنوں اور فرہاد، راجہ، ڈکیت کے ہاتھ سے راجکماری کو چھڑانے والا راجکمار، جلاد بننے والا اور سب کے ساتھ ’’کایا کا پنجرہ‘‘ گانے والا۔ مجھے پیچھے کھڑا دیکھ کر وہ بولا تھا، ’’کیوں بےچھوکرے، اس طرح کیوں گھوم رہا ہے پیچھے پیچھے؟ پاکٹ مارےگا کیا؟‘‘
اس چھوٹی عمر میں بھی میں سمجھ گیا تھا کہ عزت نفس پر چوٹ پڑی ہے۔ انا جاگ پڑی۔ کڑاکے کا جواب دیا، ’’آپ کی پاکٹ میں ہے ہی کیا جو کوئی مارےگا!‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ حیران ہوکر بولا تھا، ’’تو یہ کیسے جانتا ہے کہ میری پاکٹ خالی ہے؟‘‘
گوکہ ان دنوں میں اپنے اسکول کی سب سے اوپر کی کلاس میں پڑھتا تھا اور ماسٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق اجنبی لوگوں سے انگریزی میں بات کرنے کی مشق ہو چکی تھی، پھر بھی میں نے کھڑی بولی میں ہی جواب دیا، ’’کیوں! رات جو بھیک مانگ رہے تھے، داتا تیرا بھلا ہو۔‘‘ سب زوروں سے ہنس پڑے تھے اور بولے تھے، ’’چھوکرا تیز ہے۔‘‘ اب مجھے انگریزی جھاڑنی پڑی تھی، ’’یوسی مسٹر ریلوے پورٹر، ایکٹر، ڈونٹ کال میں چھوکرا! آئی ایم میٹرک اسٹوڈنٹ، یونو؟‘‘
اتنی پرانی بات یاد آنے سے میرے ہونٹوں پر ہنسی پھیل گئی۔ ذہن میں سوال اٹھا کہ اب یہ کس کمپنی میں کام کرتا ہے؟ کیا آج بھی یہ اسی طرح رعب دار ڈائیلاگ بولتا ہے؟ ویسے ہی ویٹنگ روم کے لڑکے پر خنجر چلاتا ہے؟ ویسے ہی۔۔۔ ویسے ہی۔۔۔
میرا دھیان ٹوٹ گیا۔ اس کی چائے ختم ہو گئی تھی۔ وہ میری ٹیبل سے ہٹ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ پوچھا، ’’آپ مجھے پہچانتے ہو سیٹھ؟‘‘ اس کی بانہہ پکڑ کر بٹھاتے ہوئے میں بولا، ’’میں سیٹھ نہیں ہوں۔ خالص آدمی ہوں۔ کہیے، آج کل کس کمپنی میں ہیں؟ اس بے موسم میں آپ اس کو اس علاقے میں دیکھ کر مجھے کافی تعجب ہو رہا ہے۔‘‘
’’صاحب، اب کہا ں کی کمپنی اور کیسا تھیٹر! سب کو فلم کھا گیا۔‘‘ اس نے ہنسنے کی ناکام کوشش کی۔
’’آپ نے کتنی کمپنیوں میں کام کیا ہے؟‘‘
’’صاحب، پندرہ۔‘‘
لگا جیسے اس کے ذہن میں سب کچھ سب سنجو کر رکھا ہوا ہو۔ چند لمحوں بعد میری طرف خالی نظروں سے تاکتا ہوا بولا، ’’نوسال کی عمر میں پہلی بار اسٹیج پر آیا تھا۔ کشن کے رول میں۔‘‘ مجھے محسوس ہوا کہ میرے سامنے گزرے وقتوں کی ایک باقیات بیٹھی ہوئی ہے۔۔۔ ’پارسی تھیٹر‘ کا ایک ٹوٹا ہوا اداکار۔
سگریٹ بڑھاتے ہوئے پوچھا، ’’تو آج کل کیا کرتے ہیں آپ؟‘‘
وہ لمحہ بھر چپ چاپ میری طرف دیکھتا رہا، پھر سگریٹ سلگاتا ہوا بولا، ’’کیا کروں گا صاحب! وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے کہ عشق نے نکما کر دیا۔۔۔ ‘‘ اس نے ہنسنے کی ناکام اداکاری کی۔ ’’دس سال بعد اس علاقے میں آیا ہوں۔ کیا نام بتایا لوگوں نے۔۔۔ میتھلا دیش۔ صاحب، اس علاقے میں ناٹک کے کافی شوقین لوگ ہیں۔۔۔ جانے کو تو فلم میں بھی گیا، پر جی نہیں لگا۔‘‘
اتنا کہہ کر کنکھیوں سے ایک بار ادھر ادھر نظر ڈالتے ہوئے پھر میری طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتا، آہستہ سے کچھ جھجکتا ہوا بولا، ’’صاحب، ایکسکیوز می۔۔۔ فار دی لاسٹ ٹو ڈیز آئی ایم ہنگری، ویری ہنگری۔۔۔ مانگنے کی ہمت نہیں ہوتی کسی سے۔۔۔ ‘‘
اس نے یہ انگریزی ڈائیلاگ بہت ہی ڈرامائی انداز میں بولا تھا۔ میں کچھ کہنے کو ہی تھا کہ وہ چہرے پر حکم ماننے کا تاثر پیدا کرتے ہوئے گڑگڑاتے لہجے میں بول اٹھا، ’’حکم ہو تو کچھ پیش کروں۔۔۔ اب تو یہی ایک سہارا بچا ہے۔ ڈرامے کے پرانے شوقین ملتے ہیں، سنا دیتا ہوں۔ جی ہلکا ہوجاتا ہے اور کچھ۔۔۔ ‘‘
وہ اپنے جملے کو ادھورا چھوڑ کر کونے میں رکھی اٹیچی کود کر لے آیا۔ ایک کالی لنگی باہر نکال کر منھ ڈھانپ لیا۔ پھر لنگی کا پردہ اٹھایا، تلوار کٹ مونچھ والاایک عجیب چہرہ باہر آیا۔ مدھم آواز میں وہ بولا، ’’یہ ایک اداس نراش نوجوان پریمی کا ڈئیلاگ ہے۔‘‘ ایک بار وہ کھانسا، پھر بولنا شروع کیا، ’’ظالم چپلا! یہ کیا کیا؟ تم نے میرے دل کے ہزار ٹکڑے کر دیے! ظالم، تو نے یہ کیا کر ڈالا! کیا کر ڈالا چپلا۔۔۔ چپلا۔۔۔ چلی گئی تو چیلا! چلی گئی تو مجھے تڑپتا چھوڑ کر۔۔۔ ‘‘
اس کے بعد ہچکیوں کے بیچ اس نے جو مکالمے ادا کیے، وہ میں نہیں کہہ سکوں گا۔
دکان میں لوگوں کی بھیڑ لگ گئی تھی۔ چاروں طرف سے لوگ جھک جھک کر دیکھ رہے تھے۔ سب کے چہرے پر ایک عجیب چپ او رحیرت کا تاثر تھا۔ باہر بادل رہ رہ کر گرج اٹھتا تھا۔ اس نے پھر اپنے چہرے پر لنگی کا پردہ گرا لیا، جیسے خود کو گرین روم میں لے گیا ہو۔ اس بار بڑی بڑی مونچھوں والا سردار بن کر باہر آیا۔ پردہ اٹھا۔ وہ گرجا، ’’کیوں بےبدکار! بتا کہاں ہے راجکمار؟ کہاں ہے، مکار کی اولاد۔۔۔ ‘‘
اس جوشیلے ڈائیلاگ کی اٹھاپٹک میں نقلی دانتوں کا سیٹ چھٹک کر منھ سے باہر آ گیا۔
اسی طرح اس نے درجنوں مکھڑے بنائے، کتنی ہی طرح کی کیفیتوں کے مکالمے سنائے اور آخر میں ٹوپی کو بھیک کا پیالہ بناکر لوگوں کی طرف دیکھتا ہوا بولا، ’’داتا تیرا لاکھ لاکھ بھلا ہو! آنہ دو آنہ۔۔۔ دو پیسے ہی سہی۔۔۔ ‘‘
میرا پیر ز مین سے مس ہو گیا۔ جیسے کہیں تھوڑی چوٹ لگی ہو، ایک جھٹکا لگا ہو۔ اس شخص نے اپنی کلا کے جادو سے کتنے برس پیچھے دھکیل دیا تھا۔ میں دوبارہ حال میں لوٹ آیا۔ دیکھا، بکل بنرجی ایک ٹک تاک رہا ہے۔۔۔ تھوڑا تھوڑا ہونٹوں کے کناروں سے مسکراتا ہوا۔ بکل اس سے تیز لہجے میں پوچھ بیٹھا، ’’کیوں ایکٹر موشائے، کل اتنی محنت سے چندہ کر دیا، سو سب ایک ہی رات میں بھٹی میں پھونک دیا؟ واہ رے موشائے!‘‘
پیدائشی آرٹ کریٹک میرا ہم جماعت بکل بنرجی آج بھی کلا اور کلاکار کو پہچاننے کا دھندا اسی طرح کرتا ہے۔ سب دن ایک جیسا ہی رہا وہ۔ میری طرف دیکھتا ہوا بکل بولا، ’’تم بھی اس کی بات میں پھنس گئے۔ مجھ سے کل ہی کہہ رہا تھا، فار ٹو ڈیز آئی ایم ہنگری۔۔۔ ‘‘
نہیں جانتا کیوں، مجھے اس وقت بکل کی یہ بات اچھی نہیں لگی۔ اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور سرگوشی میں پوچھا، ’’بکل، اس کے ڈولتے ہوئے جسم کے پنجرے میں جو پنچھی بول رہا ہے، اس کی بولی کو سن کر تم کو کچھ نہیں لگا؟ ٹھیک ٹھیک بتانا!‘‘
بکل ایک دم خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر ساکت رہا، پھر دھیرے سے بولا، ’’کچھ نہیں لگتا تو کل سارا دن کیوں اس کے ساتھ بھیک مانگتا! چندہ تو بھیک ہی ہوئی۔‘‘ اس نے ایک لمبی سانس لی، پھر کہنے لگا، ’’کیا بتائیں کیسا لگا۔۔۔ ؟ تمہارے اور دوسرے دوستوں کے ساتھ بھاگ کر رات بھر تھیٹر دیکھنے گیا ہوں، ہاسٹل سے۔‘‘
میں نے کہا، ’’ہاں بکل، مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگا۔‘‘
اسی بیچ بوڑھے ایکٹر نے اپنے دوسرے، پرانے مشہور گیت کا مکھڑا گانا شروع کر دیا تھا،
صبح ہوئی، نکل گئے تارے
مجھے چھوڑو، چلو میرے پیارے
اچانک پھر ہم لوگوں کی نظروں کے سامنے میلے کا موسم جگمگ کرنے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.