Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تنکے کا سہارا

غلام عباس

تنکے کا سہارا

غلام عباس

MORE BYغلام عباس

    کہانی کی کہانی

    خاموش طبع اور ملنسار میر صاحب کے اچانک انتقال سے اہل محلہ ان کی غربت سے واقف ہوتے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ سید کی بیوہ اور ان کے بچوں کی پرورش سب مل کر کریں گے۔ چار سال تک سب کے تعاون سے بچوں کی پرورش ہوتی رہی لیکن پھر حاجی صاحب کی حد سے بڑھی ہوئی دخل اندازی سب کو کھلنے لگی کیونکہ یہ خیال عام ہو گیا تھا کہ حاجی صاحب اپنے بیٹے کی شادی بیوہ کی خوبصورت بیٹی سے کرنا چاہتے ہیں۔ بیوہ کی بیٹیاں جو حاجی صاحب کے گھر پڑھنے جایا کرتی تھیں ان کا جانا بھی موقوف ہو گیا اور محلہ کی مسجد کے امام صاحب بچیوں کی تعلیم پر مامور ہوئے۔ امام صاحب نے ایک دن محلہ کے سنجیدہ لوگوں کے سامنے بیوہ سے شادی کی تجویز رکھی اور پھر ایک ہفتہ بعد وہ بیوہ کے گھر اپنے مختصر سامان کے ساتھ اٹھ آئے۔ اگلے دن جب حسب معمول شیر فروش کا لڑکا دودھ دینے آیا تو امام صاحب نے اس سے کہا، میاں لڑکے، اپنے استاد سے کہنا وہ اب دودھ نہ بھیجا کریں، ہمیں جتنے کی ضرورت ہوگی ہم خود مول لے آئیں گے، ہاں کوئی نذر نیاز کی چیز ہو تو مسجد بھیج دیا کریں۔

    ہمارے محلے میں ایک میر صاحب رہا کرتے تھے۔ نام سے تو ان کے شاید دو ایک آدمی ہی واقف تھے مگر رفتہ رفتہ سب کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ وہ چنگی خانے میں ملازم ہیں۔ خدا معلوم وہاں کیا کام کرتے تھے مگر شام کو جب وہ لوٹتے تو کبھی دو چار گنے، کبھی گڑ کی بھیلی، کبھی پان، کبھی کھجوریں رومال میں بندھی ہوئی ان کے ہاتھ میں ہوتیں۔ ادھیڑ عمر، دبلے پتلے منحنی سے آدمی، مگر خوش اخلاق اور وضع دار۔ کتھئی رنگ کی بوسیدہ سی شیروانی اور سفید صافہ، جاڑے گرمی یہی ان کا لباس رہتا۔ چگی داڑھی، باچھوں میں ہلکی ہلکی پیک بہی ہوئی۔ راستے میں کبھی محلے کے بچے کھیلتے ہوئے مل جاتے تو رومال سے کھجوریں یا بیر نکال نکال کے انہیں دیا کرتے اور شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے۔ وہ خود بھی کئی بچوں کے باپ تھے۔

    اس محلے میں یوں تو غریب غربا ہی بستے تھے مگر کچھ گھر کھاتے پیتے لوگوں کے بھی تھے۔ یہ ایک بڑا سا چوکور احاطہ تھا جس کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے دومنزلہ مکان تھے اور بیچ میں کھلا میدان۔ نچلی منزل میں دو دو کوٹھریوں اور ایک ایک آنگن کے مکان تھے۔ ان میں زیادہ تر گاڑی بان بسے ہوئے تھے جن کے نام سے یہ محلہ مشہور تھا۔ ان کی گاڑیاں اور مویشی رات کو اسی میدان میں پڑے رہتے تھے اور وہ خود بھی سخت جاڑے کے دو ایک مہینوں کو چھوڑ کر باقی سارے سال باہر میدان ہی میں سوتے تھے۔ میر صاحب کا خاندان بھی ان نچلے مکانوں ہی میں سے ایک میں رہتا تھا۔

    اوپر کی منزل والے مکانوں میں جن کی مکانیت نسبتاً بہتر تھی، کچھ تو دفتروں کے بابو اور منشی متصدی رہتے تھے اور کچھ بیوپاری اور دکاندار، جن کی دکانیں محلے کے قریب ہی بازار میں تھیں۔ ایک حاجی صاحب تھے جو ہیڈ کلر کی سے ریٹائر ہوکر پنشن پا رہے تھے۔ ان کا بڑا سا کنبہ تھا۔ ایک لڑکا کسی دفتر میں ٹائپسٹ تھا۔ دوسرا بیمہ کا کام کرتا تھا۔ دونوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ علاوہ ازیں ایک لڑکا اسکول میں پڑھتا تھا، اور حاجی صاحب کی بیگم بھی حیات تھیں۔ یہ سب لوگ دو ملحقہ گھروں میں رہتے تھے جن کی درمیانی دیوار کو بیچ میں سے توڑ کر آنے جانے کے لیے راستہ بنا لیا گیا تھا۔

    حاجی صاحب کے علاوہ اس احاطے میں ایک اور کھاتا پیتا گھر ٹھیکیدار غلام رسول کا تھا جس نے سرکاری عمارتوں کے ٹھیکہ میں خاصی دولت پیدا کی تھی۔ ایک گھر مہر فضل دین فروٹ مرچنٹ کا تھا۔ ایک میں چودھری فتح محمد انجینئر رہتے تھے۔ ایسے ہی دو ایک گھر اور تھے جن کو نسبتاً خوش حال کہا جا سکتا تھا۔ ایک دفعہ جاڑوں میں میر صاحب بیمار پڑ گئے۔ معمولی مرض تھا۔ انہوں نے پروا نہ کی اور برابر کام پر جاتے رہے، مگر مرض بڑھتا گیا اور دو چار ہی دن میں وہ نڈھال ہوکر چارپائی پر پڑگئے۔ محلے کے لوگوں نے دو ایک مرتبہ انہیں لاٹھی کے سہارے عطار کی دکان پر کھڑے دیکھا۔ اس کے بعد وہ کئی دن نظر نہ آئے اور آخر ایک دن اچانک یہ خبر سارے محلے میں پھیل گئی کہ چنگی والے میر صاحب چل بسے۔

    محلے والے ان کی خستہ حالی سے تو واقف تھے مگر یہ بات کسی کے گمان میں نہ تھی کہ مرنے کے بعد ان کی تجہیز و تکفین کے لیے بھی گھر سے کچھ نہیں نکلےگا۔ مرحوم کو اس محلے میں رہتے تقریباً چار برس ہو گئے تھے مگر اس عرصے میں وہ سب سے الگ تھلگ ہی رہے تھے۔ ویسے تو محلے کے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آتے رہے مگر انہوں نے کسی سے میل جول بڑھانا پسند نہیں کیا۔ نہ خود کسی کے ہاں گئے نہ کسی کو اپنے ہاں بلایا۔ ان کے بچے بھی گھر سے کم ہی باہر نکلا کرتے۔ چنانچہ ہمسایوں پر ان کے گھر کی صحیح حالت کبھی ظاہر نہ ہونے پائی تھی مگر اب اچانک میر صاحب مرحوم کی غربت کا پورا اندازہ ہو جانے پر اہل محلہ بھونچکا رہ گئے۔ پردیس میں ایک شریف سید مسلمان کے لاشے کی اس بے کسی ورسوائی پر ان کی رگ حمیت پھڑک اٹھی۔ دم بھر میں محلے کی عورتیں مرحوم کے گھر میں اور مرد باہر جمع ہو گئے۔ فوراً چندہ کیا گیا اور میر صاحب کی میت کو عزت و آبرو کے ساتھ آخری منزل تک پہنچا دیا گیا۔

    اگلے روز صبح کو محلے کی مہترانی سگو آئی تو دیکھا کہ سید کی بیوہ آنگن میں زمین پر بیٹھی ہے۔ چار بچوں کو تو اپنے گرد بٹھا رکھا ہے اور پانچواں گود میں ہے۔ ہنستی جا رہی ہے اور مٹھی میں مٹی بھر بھر کے بچوں کے سروں پر ڈالتی جا رہی ہے۔ اس واقعہ کے بعد محلے والوں نے میر صاحب مرحوم کے بیوی بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لینا اپنا فرض قرار دے لیا۔ میر صاحب مرحوم ایک زوال پذیر خاندان کے آخری فرد تھے، جنہیں فکر معاش نے ترک وطن پر مجبور کیا تھا۔ وہ برسوں دیس دیس کی خاک چھانتے پھرے۔ جہاں ذرا سا بھی سہارا ملا وہیں کے ہو رہے۔ اور بیوی بچوں کے ساتھ جیسے تیسے زندگی کے دن پورے کرتے رہے۔ وہ خود تو شہری زندگی کے پروردہ تھے مگر بیوی گاؤں کی رہنے والی سیدھی سادی عورت تھی۔ زمانے کی اونچ نیچ سے بےخبر۔ صحت اچھی تھی، شکل صورت کی بھی بری نہیں تھی۔ تھی تو وہ بھی سید زادی ہی مگر اس میں غرور نام کو نہ تھا۔ میاں کی تابع داری کرنا اور بچے پالنا یہی دوباتیں اس نے اپنی ماں سے سیکھی تھیں۔

    میر صاحب سے شادی کے نو برس میں اس کے ہاں چھ بچے ہوئے تھے۔ چار لڑکیاں اور دو لڑکے۔ ایک لڑکی شیرخواری ہی میں مر گئی تھی۔ باقی پانچ بچوں میں سب سے بڑی کبریٰ تھی۔ جس کی عمر آٹھ برس تھی۔ اس سے چھوٹی صغریٰ کی سات برس۔ پھر دو لڑکے تھے فرزند علی اور حشمت علی۔ ایک پانچ برس کا دوسرا ساڑھے تین برس کا۔ سب سے چھوٹی کلثوم تھی جو ابھی چار مہینے کی تھی۔ پردیس میں یوں اچانک شوہر کے اٹھ جانے اور خود بچوں کے ساتھ بے سہارا رہ جانے پر غریب عورت کے دماغ کو سخت صدمہ پہنچا تھا، او روہ اپنے اور بچوں کے بارے میں کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر تھی۔ ادھر بچے بھی اپنی اپنی عقل کے مطابق اس واقعہ کی اہمیت کو کچھ کچھ سمجھ کر گم سم رہ گئے تھے۔ انہوں نے نہ تو روٹی کے لیے ضد کی تھی اور نہ مٹھائی کے لیے پیسہ مانگا۔ وہ خود ہی چنگیر میں سے سوکھی روٹی کے ٹکڑے نکال نکال کر کھاتے رہے تھے۔

    اگلے روز محلے والوں کی سرپرستی عملی صورت میں ظاہر ہونی شروع ہو گئی۔ محلے میں ایک شخص رہتا تھا جس کی قریب ہی بازار میں دودھ دہی کی دکان تھی۔ علی الصباح اس کی دکان کا ایک لڑکا ایک کوزے میں پاؤ بھر تازہ تازہ دودھ لیے میر صاحب مرحوم کے مکان پر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ کبریٰ نے دروازہ کھولا تو وہ بولا، ’’استاد نے یہ دودھ بھیجا ہے چائے کے لیے۔ ہر روز ایسے ہی آیا کرےگا۔‘‘ اور وہ دودھ کا کوزہ لڑکی کو دے کر چلا گیا۔ اسی طرح تھوڑی دیر کے بعد محلے کے بڑقصاب کے ہاں سے ڈیڑھ پاؤ چربی دار گوشت آ گیا۔ کنجڑے نے سبزی بھیج دی۔ غرض دس بجتے بجتے ضرورت کی کچھ اور چیزیں بھی پہنچ گئیں۔ بارہ بجے کے قریب بھٹیارے کے ہاں سے آٹھ دس گرم گرم روٹیاں لگ کر آ گئیں۔ ان میں ایک روٹی اس نے خاص طور پر چھوٹے بچوں کے لیے روغنی لگا کر بھیجی تھی اور کہلا بھیجا تھا کہ کم پڑیں تو اور منگوا لینا۔ اس شق میں پورا محلہ شامل تھا۔ کیونکہ جن جن گھروں سے روٹیاں لگنے آئی تھیں، بیبیوں نے ایک ایک پیڑا سیدانی کے نام کا پہلے ہی الگ کر دیا تھا۔

    محلے کا ایک گاڑی بان اپنے چھکڑے میں ٹال کے لیے لکڑیاں لادا کرتا تھا۔ وہ بھرا ہوا چھکڑا لےکر بیوہ کے دروازے پہنچا اور پردہ گرا کر دومن لکڑی گھر کے اندر ڈال گیا۔ دوپہر کو حاجی صاحب کے ہاں سے پرانے کپڑوں کا ایک گٹھر سید کی بیوہ کے ہاں بھیجا گیا۔ ساتھ ہی حجن بی نے کہلوا بھیجا کہ کبریٰ اور صغریٰ کو بھیج دو، کلام پاک کا سبق پڑھ جائیں اور چٹیا بھی کرا لیں۔

    تیسرے پہر کو حاجی صاحب نے محلے کے تین چار معتبر آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور اس احاطے کے مالک کے پاس پہنچے۔ انہوں نے اس سے دین اور آخرت کی بہت سی باتیں کیں۔ سادات کی قربانیاں اور عظمتیں جتلائیں اور بالآخر اسے اس امر پر راضی کر لیا کہ وہ بیوہ سیدانی کا پچھلے چار ماہ کا واجب الادا کرایہ معاف کر دے اور آئندہ اس سے آٹھ کے بجائے چھ روپے ماہوار کرایہ لیا کرے۔ یہ رقم حاجی نے محلے کے کھاتے پیتے گھروں پر بطور ماہانہ چندہ عائد کی۔ چونکہ چار چھ آنے کی بات تھی۔ غریب بھی خوشی خوشی اس چندہ میں شامل ہو گئے اور یہ طے پایا کہ کرایہ ادا کر کے جو رقم بچ رہے، وہ بیوہ کو نقدی کی صورت میں دے دی جائے۔ تاکہ اس سے وہ اپنی دوسری ضرورتیں پوری کر سکے۔ سگو نے کہا، ’’میں اپنی آٹھ آنے مہینہ تنخواہ چھوڑ دوں گی۔‘‘ مگر اس کی اس پیشکش کو منظور نہیں کیا گیا کہ یہ کمین لوگ ہیں شاید کبھی طعنہ دے بیٹھیں۔

    نچلے مکانوں میں میر صاحب مرحوم کے مکان سے ملا ہوا ایک گھر تھا جس میں ایک نوجوان جوڑا حال ہی میں آکر بسا تھا۔ میاں کسی چھاپے خانے میں کام کرتا تھا۔ بیوی گھر کے مختصر سے کام سے فارغ ہوکر دن بھر پلنگ پر پڑی رہتی۔ جس دن محلے والوں کی طرف سے بیوہ سیدانی کے ہاں کھانے پینے کا سامان پہنچا، وہ جلد جلد میاں کو ناشتہ کرا کام پر بھیج، دروازے پر قفل ڈال کر سیدانی کے ہاں چلی آئی۔ گھر میں جھاڑو دی، بچوں کا منہ دھلایا۔ چولھے میں راکھ بھری تھی اسے صاف کر کے آگ جلائی۔ پکانے کا سامان آ ہی چکا تھا۔ جلد جلد مصالحہ پیس کر ہنڈیا چولھے پر چڑھادی۔ روٹیاں تنور سے آگئی تھیں۔ سب بچوں کو کھانا نکال کر دیا۔ سیدانی خاموش بیٹھی کھوئی کھوئی نظروں سے اسے یہ سب کام کرتے دیکھتی رہی۔ جب ہمسائی نے اس سے بھی کھانا کھانے کو کہا تو اس نے منہ پھیر لیا۔ اس پرہمسائی نے اسے سمجھایا کہ اپنی شیرخوار بچی کا خیال کرو۔ کھاؤگی نہیں تو دودھ کیسے اترےگا۔ غرص زور دے کر چند نوالے اس کو کھلا ہی دیے۔

    شام کو اس کا میاں چھاپے خانے سے سینما کے کچھ رنگدار پوسٹر لایا۔ یہ پوسٹر اس نے بیوہ کے بچوں کو دے دیے۔ پھر بڑے لڑکے فرزند علی کو سائیکل پر اپنے آگے بٹھا کر گول باغ کی سیر کرانے لے گیا۔ غرض دوچار ہی دن میں محلے کے سب لوگوں نے مل کر میر صاحب مرحوم کے پسماندگان کے رہنے سہنے کا خاطر خواہ انتظام کر دیا۔ رفتہ رفتہ بیوہ کے حواس بھی بجا ہونے لگے اور وہ گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی طرف زیادہ توجہ کرنے لگی۔ شروع شروع میں اسے محلے والوں کی امداد قبول کرتے ہوئے حجاب محسوس ہوا تھا، مگر وہ اس بےچارگی میں کر بھی کیا سکتی تھی۔ ناچار قسمت پر شاکر ہوکر بیٹھ گئی۔

    ادھر محلے والوں کو اپنی اس اجتماعی کوشش سے ایک ایسی تسکین کا احساس ہو رہا تھا، جو زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ نیکی کے جذبے نے دلوں کو گداز کر دیا تھا۔ ہرشخص اخلاقی طور پر اپنے کو پہلے سے بلند محسوس کرنے لگا تھا اور وہ لوگ جواب تک ایک دوسرے سے بےتعلق خود غرضانہ زندگی بسر کر رہے تھے، ان میں ایک باہمی رواداری پیدا ہو گئی تھی، جیسے وہ ایک ہی خاندان کے فرد ہوں۔ اس سلسلے میں سب سے پیش پیش حاجی صاحب کا گھر تھا، جہاں اس لاوارث سید خاندان کو زیادہ سے زیادہ آسائش پہنچانے کے لیے تجویزیں سوچی جاتی تھیں۔ حاجی صاحب مردوں میں اور حجن بی عورتوں میں پہروں اسی کا تذکرہ کیا کرتیں۔ بڑی بی کو سب سے زیادہ فکر کبریٰ و صغریٰ کی شادی کے لیے جہیز جمع کرنے کی تھی۔ وہ ابھی سے ان لڑکیوں کے لیے مناسب رشتوں کی کھوج میں رہنے لگیں۔

    دن گزرتے گئے، یہاں تک ایک سال ہو گیا۔ اس عرصے میں محلے والے میر صاحب مرحوم کے اہل و عیال کی پرورش کرتے رہے اور جس جس نے جو جو چیز اپنے ذمے لی تھی اسے وہ بلا ناغہ مہیا کرتا رہا۔ ادھر اب بیوہ سیدانی کو کچھ کچھ سلائی کا کام بھی ملنے لگا تھا جس میں اس کی بڑی بیٹی اس کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ دونوں لڑکوں کو اسکول میں داخل کر دیا گیا تھا۔ حاجی صاحب نے اپنے رسوخ سے ان کی فیسیں معاف کرا دی تھیں۔ بڑا لڑکا فرزند علی جسے میر صاحب مرحوم نے گھر پر پڑھانا شروع کیا تھا، دوسری میں اور چھوٹا حشمت علی پہلی جماعت میں داخل کر لیے گئے۔ لڑکیوں کو حجن بی گھر میں پڑھاتیں، ساتھ ساتھ خانہ داری کی باتیں اور سینا پرونا بھی سکھاتیں۔

    اسی طرح چار برس گزر گئے۔ سید کی بیوہ اور اس کے بچے محلے والوں کی امداد پر جو نقد یا جنس کی صورت میں انہیں ملتی گزر کرتے رہے۔ چونکہ اس امداد میں پندرہ بیس گھر شامل تھے اس لئے کسی کو بوجھ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اتنی رقم تو ہر ماہ جھوٹ موٹ کے یتیم خانے والے ہی بٹور لے جاتے تھے۔ چنانچہ ہر شخص مطمئن تھا کہ وہ صحیح معنوں میں مستحقوں کی امداد کر رہا ہے۔ اب صغریٰ اور کبریٰ تیرہ تیرہ چودہ چودہ برس کی ہوگئی تھیں۔ بلوغت کو پہنچ کر دونوں نے خوب رنگ روپ نکالا تھا۔ اگر چہ گھر میں سخت پردہ تھا، اور لڑکیاں محلے کے دو ایک گھر والوں کے سوا اور کہیں آتی جاتی نہ تھیں۔ پھر بھی محلے کے ہر گھر میں ان کے حسن و جمال کا چرچا تھا۔ خاص کر صغریٰ کا، جس کی نیلی نیلی آنکھیں اور بھورے بال اس کے سرخ و سفید چہرے پر بہت بھلے معلوم ہونے لگے تھے۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں ان کے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے اندیشے پیدا ہونے لگے تھے۔

    ایک دن مہر فضل دین فروٹ مرچنٹ سے اس کی بیوی نے کہا، ’’کچھ خبر بھی ہے۔ یہ صغریٰ کبریٰ کو حجن بی سارا سارا دن اپنے پاس کیوں بٹھا رکھتی ہیں!‘‘ مہر فضل دین نے استفسار بھری نظروں سے بیوی کی طرف دیکھا۔

    ’’وہ اپنے بیٹے الطاف سے صغریٰ کو بیاہنے کی فکر میں ہیں جبھی تو کوئی اور لڑکا ان کی نظروں میں نہیں جچتا۔ میں نے اپنے بھانجے کے لیے کوشش کی تو ٹال مٹول کرنے لگیں۔ میں کہتی ہوں ان لڑکیوں کا حجن بھی کے ہاں جانا بند کرانا چاہیے۔‘‘

    ’’مگر وہاں تو وہ حجن بی سے کلام مجید پڑھنے جاتی ہیں۔‘‘

    ’’حجن بی کو خود تو کچھ آتا جاتا نہیں دوسروں کو خاک پڑھائیں گی، میں نے سنا ہے جیسا غلط سلط کلام مجید وہ پڑھتی ہیں۔‘‘

    ادھر فتح محمد انجینئر اپنی بیوی سے کہہ رہے تھے، ’’ہمیں لڑکیوں کی ضرورت نہیں۔ ہمیں تو میر صاحب کا چھوٹا لڑکا مل جائے جسے ہم متبنیٰ بنا لیں، میں اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیج سکتا ہوں، ہمارے کوئی اولاد تو نہیں۔ بس وہی ہماری جائداد کا مالک ہوگا۔ مگر حاجی صاحب کہاں ماننے والے ہیں۔‘‘

    غرض رفتہ رفتہ اہل محلہ اس خاندان کی سرپرستی میں حاجی صاحب کے حد سے بڑھے ہوئے دخل کو ناپسند کرنے لگے تھے۔ پھر جس ڈھب سے بچوں کی پرورش ہو رہی تھی، اس سے بھی بعض لوگوں کو اختلاف تھا۔ اس پر غضب یہ ہوا کہ حاجی صاحب کا بیٹا جو بی۔ اے میں پڑھتا تھا، علانیہ صغریٰ سے اپنے عشق کا اظہار کرنے لگا۔ اس نے اپنے ’’عشق جنوں پرور‘‘ کے بارے میں ایک نظم بھی ایک ادبی رسالے میں چھپوائی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محلے کی عورتوں نے سید کی بیوہ پر دباؤ ڈال کر حاجی صاحب کے ہاں صغریٰ کبریٰ کا آنا جانا بالکل بند کرا دیا۔ رہی لڑکیوں کی تعلیم تو یہ کام محلے کی مسجد کے امام صاحب کے سپرد کر دیا گیا۔

    ان مولوی صاحب کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی۔ رنگ سانولا تھا مگرخدوخال میں جاذبیت تھی۔ آنکھوں میں سرمہ لگاتے۔ داڑھی میں بھی سفید بال کم ہی نمودار ہوئے تھے۔ خاصے خوش الحان تھے۔ ان کی اذان کی آواز محلے بھر میں سنائی دیا کرتی تھی۔ وہ کئی شہروں میں مسجدوں کے امام رہ چکے تھے، مگر طبیعت سیلانی تھی۔ اس لیے کہیں بھی پانچ چھ مہینے سے زیادہ نہیں ٹکے۔ امام صاحب صبح کی نماز کے بعد بیوہ سیدانی کے گھر آ جاتے اور دو گھنٹے تک لڑکیوں کو قرآن شریف کے ساتھ ساتھ اردو فارسی بھی پڑھاتے۔

    اسی زمانے میں میر صاحب مرحوم کے خاندان پر اچانک ایک ایسی مصیبت ٹوٹ پڑی جس سے محلے کے لوگ وقتی طور پر اپنے اختلافات بھول گئے۔ ہوا یہ کے فرزند علی نے جو اب بارہ برس کا ہو گیا تھا، اسکول میں کسی لڑکے کے پیٹ میں چاقو گھونپ دیا۔ اس لڑکے کو کسی طرح فرزند علی کے خاندان کے حالات معلوم ہو گئے تھے اور وہ اسے اکثر چھیڑا کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا، ’’تو بےغیرت ہے۔ تو محلے والوں کے ٹکڑوں پر پلا ہے۔ دیکھ لیجیو ایک دن تیری بہنیں ایکٹرسیں بنیں گی ایکٹرسیں۔‘‘

    چونکہ وہ لڑکا عمر میں فرزند علی سے بڑا تھا اور طاقتور بھی تھا، اس لیے فرزند علی طرح دے جایا کرتا لیکن آخر ایک دن تنگ آکر اس لڑکے کے چاقو مار دیا۔ وہ لڑکا تھوڑی ہی دیر میں چل بسا اور فرزند علی کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ یہ مقدمہ مہینوں چلتا رہا۔ حاجی صاحب اور محلے کے دوسرے با اثر لوگوں نے بہتیرا زور لگایا مگر فرزند علی سزا سے نہ بچ سکا اور وہ پانچ برس کے لیے بورسٹل جیل بھیج دیا گیا۔ اس واقعہ سے محلے والوں کی ہمدردی میر صاحب مرحوم کے خاندان سے پھر تازہ ہو گئی۔ کئی دن تک محلے کی عورتیں بیوہ سیدانی کے گھر آتی اور اس کی دلجوئی کرتی رہیں۔ غریب عورت ایک بار پھر قسمت کو رو کر بیٹھ رہی۔

    جس زمانے میں صغریٰ و کبریٰ حجن بی سے پڑھنے آیا کرتی تھیں تو الطاف کو کبھی کبھار ان کی ایک جھلک دیکھ لینے کا موقع مل جاتا تھا۔ مگر اب جو مہینوں صغری اس کی نظروں سے اوجھل رہی تو اس کی بے تابی حد سے بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی ماں حجن بی سے صاف کہہ دیا کہ اگر میری شادی صغریٰ سے نہ ہوئی تو میں زہر کھا لوں گا۔ اس کی اس بے تابی نے اس مسئلے کو اور بھی الجھا دیا۔ کیونکہ اس کی ان حرکات کی وجہ سے اہل محلہ اسے چھچھورا اور آوارہ مزاج سمجھنے لگے تھے، اور حاجی صاحب کو ان کی مخالفت کے ڈر سے اس رشتے کا ذکر چھیڑنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ کچھ یہ دقت بھی تھی کہ جب تک بڑی لڑکی کا بیاہ نہ ہو جائے ، چھوٹی لڑکی کا سوال کیونکر اٹھایا جائے۔

    جوں جوں دن گزرتے گئے ، محلے والے حاجی صاحب کے اور بھی زیادہ مخالف ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ معمولی معمولی دکاندار بھی ان پر آوازے کسنے لگے اور ان کے لیے بازار میں آنا جانا مشکل ہو گیا۔ بڑقصاب کہتا، ’’دیکھیں حاجی صاحب کیسے لڑکے کی شادی رچاتے ہیں۔ پہلے وہ میرا پانچ سو روپیہ تو ادا کر دیں۔ میں تو انہیں کے کہنے پر اتنے عرصے میر صاحب کے ہاں گوشت پہنچاتا رہا ہوں۔‘‘ کنجڑا کہتا، ’’اتنا ہی نانواں میرا بھی نکلتا ہے بھائی۔‘‘ شیر فروش کہتا ، ’’ہم نے بھی مفت دودھ نہیں پلایا۔‘‘ غرض محلے کے حالات اس درجہ بگڑ گئے تھے کہ اگر حاجی صاحب کی بزرگی آڑے نہ آتی تو ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی ہوتی۔

    ایک دن جب اہل محلہ مسجد میں عشاء کی نماز پڑھ کر جانے لگے تو امام مسجد نے جو میر صاحب مرحوم کی لڑکیوں کو گھر پر پڑھانے آیا کرتے تھے، حاجی صاحب اور چند دوسرے معتبر لوگوں کو یہ کہہ کر روک لیا کہ آپ سے ایک ضروری مسئلے پر بات کرنی ہے۔ جب اور لوگ چلے گئے تو امام صاحب نے بڑے سنجیدہ لہجہ میں کہا،

    ’’آپ سب حضرات نہایت ہی نیک دل اور خداترس ہیں۔ خدا شاہد ہے میں نے اتنے شریف اور ہمدرد انسان اور کسی محلے میں نہیں دیکھے۔ آپ نے میر صاحب مرحوم کے خاندان سے جو فیاضانہ سلوک کیا ہے اور اس سلسلے میں جو عملی قدم اٹھائے ہیں اس کا اجر خدا اور اس کا رسول آپ کو دےگا۔ کاش میرے پاس بھی پیسہ ہوتا اور میں بھی اس کارخیر میں آپ کا شریک ہوتا لیکن اب میں آپ کے سامنے ایک تجویز پیش کرتا ہوں جو فرمان خدا اور سنت رسول ہے۔ یعنی میں سید کی بیوہ سے عقد کا خواہاں ہوں۔ مجھے آپ لوگوں پر پورا اعتماد ہے کہ اس لاوارث سید خاندان کی بہتری کے لیے آپ اس کار خیر میں میری امداد کریں گے۔‘‘

    حاجی صاحب اور دوسرے لوگ امام صاحب کی اس تجویز کو سن کر دم بخود رہ گئے۔

    ’’بہتر ہے۔‘‘ آخر حاجی صاحب بولے، ’’اس امر میں بیوہ سیدانی کی رائے بھی لے لی جائے۔‘‘ دوسرے دن دوپہر کے بعد محلے کی کچھ عورتیں بیوہ سیدانی کے ہاں پہنچیں اور اس سے عقدثانی کی بات چھیڑی۔ سیدانی بی دیر تک خاموش سر جھکائے بیٹھی رہیں۔ پھر یک لخت ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ جب محلے کی عورتوں نے بار بار اپنا سوال دہرایا تو وہ رک رک کر اتنا کہہ سکیں، ’’جب اللہ اور رسول کا یہی حکم ہے تو مجھے کیا عذر ہو سکتا ہے۔‘‘ یہ کہتے کہتے سیدانی کے رخساروں پر جن میں ابھی تک خون کی چند بوندیں باقی تھیں، ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔

    اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد امام مسجد جو قاری نورالہدیٰ کے نام سے یاد کیے جاتے تھے، اپنا مختصر سامان جس میں ایک صندوقچہ، ایک چھوٹی دری اور مسئلے مسائل کی چند کتابیں شامل تھیں، لےکر مسجد کے حجرے سے سید کی بیوہ کے گھر اٹھ آئے۔ صبح صبح شیر فروش کا لڑکا حسب معمول میر صاحب مرحوم کے بیوی بچوں کے لیے کوزے میں دودھ لے کر آیا۔ اس کی آواز سن کر امام صاحب خود دروازے پر آ گئے۔

    ’’میاں لڑکے۔‘‘ انہوں نے پروقار لہجے میں کہا، ’’اپنے استاد سے کہنا وہ اب دودھ نہ بھیجا کریں۔ ہمیں جتنے کی ضرورت ہوگی ہم خود مول لے آئیں گے۔ ہاں کوئی نذر نیاز کی چیز ہو تو مسجد میں بھیج دی جایا کرے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے