Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تریاق

ایم مبین

تریاق

ایم مبین

MORE BYایم مبین

    رات بارہ بجے کےقریب میٹنگ سےجب وہ گھر آئے تو انھوں نے شاکرہ کو بےچینی سے ڈرائنگ روم میں ٹہلتا ہوا پایا۔ اس کی حالت دیکھ کر ان کا دل دھک سے رہ گیا اور ذہن میں ہزاروں طرح کے وسوسے سر اٹھانے لگے۔ شاکرہ کی بےچینی سے انھوں نےاندازہ لگایا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہوا ہے جس کی وجہ سے شاکرہ اتنی بے چین ہے۔

    وہ کمرےمیں داخل ہوتے تو شاکرہ نےسر اٹھا کر ان کو دیکھا، اس کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ ابھری اور پھر اس نےاپنا سر جھکا لیا۔

    جیسےوہ بہت کچھ ان سے چھپانا چاہتی ہو۔ اگر نظریں مل گئیں تو اسے ڈر ہے کہ وہ اس کی آنکھوں سےسب کچھ پڑھ لیں گے۔

    ‘’کیا بات ہے، تم ابھی تک سوئی نہیں؟’‘ انھوں نےشاکرہ سے پوچھا۔

    ‘’نہیں، نیند نہیں آ رہی ہے۔“ شاکرہ نے جواب دیا۔

    ”سب ٹھیک تو ہے؟’‘ انھوں نے اپنے دل پر جبر کرکے پوچھا۔

    ‘’عادل کی حالت بگڑتی جا رہی ہی۔’‘ شاکرہ نے ایک ایک لفظ کو چبا کر کہا۔ ”مسلسل دو گھنٹے سے چیخ چیخ کر اس نے سارے بنگلےکو سر پر اٹھا لیا تھا۔ پڑوس کے بنگلوں تک اس کی چیخیں جا رہی تھیں اور وہ لوگ بھی انکوائری کے لئے آ رہے تھے۔ کمرے کی ہر چیز کو اس نے تہس نہس کر دیا ہے۔ مجبوراً ڈاکٹر کو بلاکر اسے نیند کا انجکشن دینا پڑا، لیکن ڈاکٹر کہتا ہے اس انجکشن سےمضبوط سے مضبوط آدمی دس گھنٹوں تک سویا رہتا ہے، لیکن عادل کی جو حالت ہے، وہ جس اسٹیج میں ہے، مجھےڈر ہےکہ دو گھنٹے بعد ہی اس انجکشن کا اثر ختم ہو جائےگا اور اِس کی حالت پھر اسی طرح سےہو جائےگی۔ میرا مشورہ ہے کہ اب اس پر اور زیادہ جبر نہ کیا جائے۔ وہ جو ڈوز لیتا ہے اسے دے دیا جائے اسی سے وہ نارمل ہو سکتا ہے ایسی حالت میں زیادہ دِنوں تک رہنے سے اُس کی جان کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہی“

    شاکرہ کی باتیں سن کر ان کا دل ڈوبنے لگا۔ انھوں نے شاکرہ کو کوئی جواب نہیں دیا اور بےاختیار عادل کےکمرے کی طرف بڑھ گئے۔

    عادل پلنگ پر بےخبر سو رہا تھا۔

    اس کی اور کمرےکی حالت دیکھ کر وہ کانپ اٹھے۔

    کمرے میں کوئی بھی چیز ٹھکانے پر نہیں تھی۔ ہر چیز بکھری یا ٹوٹی ہوئی تھی۔ عادل کےسر کےبال نچے ہوئے تھے اس کے چہرے اور جسم پر کئی مقام پر زخموں کے نشانات تھے۔

    انھیں پتہ تھا جنون کےعالم میں عادل نے اپنے آپ کو ہی زخمی کیا ہوگا۔ ایسی حالت میں خود کو اذیت پہنچانے سے ہی اسے سکون ملتا ہے۔

    زیادہ دیر وہ اور عادل کو دیکھ نہیں سکے اور تیزی سے کمرے کے باہر آ گئے۔ شاکرہ کےضبط کا باندھ ٹوٹ گیا تھا۔ اچانک وہ پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی۔ اس نے اپنےدونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا۔

    ‘’خدا کے لئے اب عادل پر اور کوئی جبر مت کیجئے۔ وہ جس حالت میں جیتا ہے اسے اسی حالت میں زندہ رہنے دیجئے۔ کم سے کم وہ ہماری آنکھوں کے سامنے تو رہےگا۔ ورنہ ایسی حالت میں وہ ایک دِن مر جائےگا۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو میرا کیا ہوگا؟ میری ایک ہی تو اولاد ہے۔ یہ ہماری زمین، جائداد، دھن، دولت سب عادل ہی کا تو ہے۔ وہ اکیلا ہی ان سب کا وارث ہے، جب وہی نہیں ہوگا تو پھر ان چیزوں کا کیا فائدہ؟ آپ نےکس کے لئے یہ سب کمایا ہے، عادل کےلئےہی نا؟ پھر عادل کی زندگی کےدُشمن کیوں بن رہےہیں، وہ جو چاہتا ہے اسے دے دیجئے۔’‘

    ‘’تم مجھے عادل کی زندگی کا دشمن کہہ رہی ہو؟’‘

    شاکرہ کی بات سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    ‘’عادل میری اکلوتی اولاد ہے۔ یہ سب کچھ میں نے اُسی کے لئے تو کمایا ہے۔ مجھ سے اپنی اولاد کا پل پل مرنا دیکھا نہیں جاتا۔ اس کی پل پل موت میرے لئے اتنی بڑی سزا ہے جسے میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھ سے اس کی تڑپ دیکھی نہیں جاتی اور بس اسی لئے اپنے آپ پر جبر کرتا ہوں، باپ ہوں نا۔ سوچتا ہوں وہ اسی طرح تل تل مرنے کے بجائےایک بار مر جائے تو اسے بھی اس عذاب سےنجات مل جائے اور ہم بھی صبر کر لیں گے۔’‘

    ‘’آپ ایسا کیوں سوچتےہیں؟ خدا ہمارے بچے کو شفا دےگا۔’‘

    ان کی بات سن کر شاکرہ تڑپ اٹھی۔

    ‘’اگر خدا ہمارےبچےکو کوئی بیماری دیتا تو اس کی ذات سےہمیں شفایابی کی امید ہوتی۔ لیکن یہ روگ تو ہمارے بیٹے نےخود پالا ہے اور میں سمجھتا ہوں، اس کا ذمہ دار ہے تمہارا بےجا لاڈ و پیار اور میری کاروباری مصروفیات میرے کاروبار نے مجھے اتنا وقت نہیں دیا کہ میں اپنے کاروبار کےساتھ ساتھ اپنی توجہ اپنے بیٹے پر بھی دے سکوں اور تمہارے لئےتو وہ تمہاری اکلوتی اولاد تھی۔ اس کی ہر جائز، ناجائز فرمائش تمہارےسر آنکھوں پر تھی۔ بس یہی زہر تھا جو اُس کی شریانوں میں بہتا گیا اور اس کے وجود کا ایک حصہ بن گیا۔’‘

    شاکرہ نے کوئی جواب نہیں دیا وہ سسکتی رہی۔

    انھوں نے اندازہ لگا لیا تھا عادل کی کیا حالت ہوگی۔

    ڈوز کا وقت پورا ہو گیا تھا اور اسے اس کی سخت ضرورت تھی۔

    وہ ٹال رہےتھے، چاہ رہےتھےکہ عادل خود میں قوت ارادی پیدا کرے اور وہ اس نشےکی گرفت سے باہر نکلنے کی کوشش کرے۔

    دو دن سےعادل ان کے سامنے گڑگڑا رہا تھا۔

    ”ڈیڈی! مجھے پیسے چاہیے، مجھے پانچ ہزار روپیوں کی سخت ضرورت ہے۔ پلیز مجھے پانچ ہزار روپے دے دیجئے، میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں، میں مہینہ بھر آپ سے پیسہ نہیں مانگوں گا۔’‘

    لیکن اُنھوں نے پیسہ نہیں دیا۔

    اس بار انھوں نے اس بات کا بھی خاص خیال رکھا تھا کہ عادل کےپاس کوئی قیمتی چیز نہ رہے، جسے فروخت کرکے وہ پانچ ہزار روپے حاصل کر لے اور اس سے اپنی من چاہی مراد حاصل کرلے۔

    انھوں نے شاکرہ کو بھی سخت تاکید دے رکھی تھی۔

    ‘’خبردار! اگر تم نے اسے پیسے دئے تو۔ اگر مجھے پتہ چلا کہ تم نے اسے پیسے دئے تو میں تمہیں گھر میں نہیں رکھوں گا۔’‘

    وہ دیکھنا چاہتے تھےکہ عادل اس زہر کے بنا کتنے دنوں تک رہ سکتا ہے۔

    لیکن ایک دن میں ہی عادل کی وہ حالت ہو گئی تھی کہ اسے دیکھ کر وہ خود بھی گھبرا گئے تھے۔

    انھوں نے ڈاکٹر کو فون کرکے اس سلسلے میں گفتگو کی۔

    ‘’باقر صاحب! آپ کی کوشش بےکار ہے، عادل آخری حدوں کو پار کرنچکا ہے۔ اب وہ زہر ہی اسے زندہ رکھےگا۔ آپ اپنے بیٹے کی زندگی چاہتے ہیں تو اسے وہ زہر دے دیجئے۔ اس کی زندگی بڑھ جائےگی۔ آپ جتنے دنوں تک اسے اس زہر سے دور رکھیں گے، اس کی زندگی کم سےکم ہوتی جائےگی۔’‘

    ‘’ڈاکٹر! قیمتی سےقیمتی نشہ آور شراب، گرد، چرس، افیم اور اسمیک، کیا کسی سے بھی کام نہیں چل پائےگا؟’‘

    ‘’باقر صاحب! ناگ کےزہر میں جو نشہ ہوتا ہے وہ ایک ہزار شراب کی بوتلوں میں بھی نہیں ہوتا اور جو شخص ناگ کے زہر کےنشےکا عادی ہو آپ اسے شراب کی بوتل سے بہلانے کی کوشش کر رہےہیں؟ آپ کی یہ کوشش بےکار ہے باقر صاحب! اپنے بیٹےکی زندگی سے مت کھیلئے۔ اگر آپ اسے زندہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اسے زہر دیجئے زہر ناگ کا زہر!’‘

    عادل کے لئے اُنھوں نےدُنیا کےبڑے بڑے ڈاکٹروں سے رابطہ قائم کیا تھا۔

    لیکن انھیں ہر طرف مایوسی ہی ملی تھی۔ ایک دو ڈاکٹروں نے دلاسہ دیا تھا مگر اس بات کی امید نہیں دلائی تھی کہ عادل اچھا ہو جائےگا۔

    اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ کمرے میں ٹہلنے لگے۔

    نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ شاکرہ بستر پر لیٹی تھی، نیند اُس کی آنکھوں میں بھی نہیں تھی۔

    انھیں پتا تھا سوکر کوئی فائدہ نہیں۔

    تھوڑی دیر بعد ہی انھیں اٹھنا پڑےگا۔

    نیند سے جاگنے کے بعد عادل وہ ہنگامہ مچائےگا کہ سارا محلہ جاگ جائےگا۔

    سب کچھ کیسے ہو گیا۔ اب سوچتے ہیں تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہےکہ عادل کو ٢١، ٥١ سال کی عمر سے نشہ کی لت ہے۔

    وہ باقاعدگی سےاسکول اور کالج جاتا تھا۔ دن، دن بھر گھر سے غائب رہتا تھا اور رات دیر سےگھر آتا تھا، ماں پوچھتی تو بتا دیتا تھا کہ اس دوست کے ساتھ تھا یا اس دوست کےساتھ تھا۔ شاکرہ عادل کی یہ آوارگیاں ان سے چھپاتی رہتی تھی۔

    عادل کو خرچ کے لئے وہ بھی پیسے دیتے تھے اور شاکرہ بھی۔ بس ان ہی پیسوں کی وجہ سے وہ غلط صحبت میں پڑ گیا۔

    پہلے دوستوں نے اُسے بیئر پلائی پھر وہسکی۔

    پھر اسے چرس، افیون، گانجا، اسمیک اور گرد کا چسکہ لگایا۔ ایل۔ ایس۔ ڈی اور دوسری نشہ آور چیزوں کے ٹیکے وہ لینے لگا۔

    اور انھیں اِس کا پتہ ہی نہیں چل سکا۔

    اسکول میں کبھی فیل ہوتا تو کبھی ان کے رسوخ، وسیلے سے پاس ہو جاتا۔

    کالج میں بھی یہی حال تھا۔ انھوں نے اسے کوئی ٹیکنیکل یا بڑے کورس میں داخل نہیں کیا تھا۔

    وہ اس کی ذہنی سطح سے اچھی طرح واقف تھے۔

    ان کا خیال تھا اگر عادل گریجویشن بھی کرلے اور ان کا کاروبار اگر سنبھال نہ سکے تو کم از کم اس میں ان کا ہاتھ ہی بٹائے تو کافی ہے۔ انھوں نے اسےاچھے کالج میں داخل کیا تھا۔

    لیکن اس کی کارکردگی مایوس کن ہی رہی۔ ایک ہی کلاس میں دو دو تین تین سالوں کا قیام اس کا معمول بن گیا۔

    جب وہ اُس کے بارےمیں اپنےدوستوں سے بات کرتے تو دوست اسے تسلی دیتے تھے۔

    ‘’بچوں میں جب تک ذمہ داری کا احساس نہ ہو وہ دل سے کوئی کام نہیں کر پاتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو پتہ ہے کہ پڑھنے کے بعد کچھ کرکےہی وہ اپنا اور ہمارا پیٹ بھر پائیں گے۔ اس لئے وہ پڑھائی میں دھیان لگاتے ہیں۔ عادل کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہے، اسے پتہ ہےکہ اس کے باپ نے اس کے لئے اتنا کمایا ہے کہ اس کی سات پشتیں بھی بیٹھ کر کھائیں گی۔ اس لئے لاپرواہ ہو گیا ہے۔ پڑھائی میں دھیان نہیں دیتا۔ کاروبار میں لگادو سب ٹھیک ہو جائےگا۔

    لیکن انھیں عادل کو کاروبار میں لگانےکی نوبت نہیں آ سکی۔

    اس دوران انھیں پتا چلا کہ عادل ڈرگس لیتا ہے اور نشےکا عادی ہو گیا ہے۔

    کئی بار نشےکی وجہ سے یا نشہ نہ ملنے کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہوئی۔

    ڈاکٹروں کو بتایا گیا۔ کئی بار اسے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ لیکن ڈاکٹروں نےصاف جواب دے دیا تھا۔

    ‘’عادل نشےکی آخری حد پار کر چکا ہے، اس سے نشہ چھڑانا بہت مشکل ہے۔ اب اگر یہ کوشش کی گئی تو اس کی زندگی کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

    ایک دو بار مہنگے اسپتالوں میں رکھ کر عادل کےنشے کی لت چھڑانے کی کوشش کی گئی۔

    جب تک وہ اسپتال میں رہا، نشے سے دور رہا، لیکن گھر آتے ہی سب کی نظریں بچاکر آخر نشے کے اڈے پر وہ پہنچ ہی گیا اور سارے کئے کرائے پر پانی پھیر گیا۔

    وہ بڑی الجھن میں تھے۔

    عادل پر توجہ دیتےتو کاروبار بدنظمی کا شکار ہوتا۔

    کاروبار پر توجہ دیتےتو عادل کی حالت بگڑتی جاتی تھی۔

    شاکرہ کو تو وہ بالکل خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ کئی بار وہ اس پر ہاتھ اٹھا کر جانوروں کی طرح مار چکا تھا۔ یہ بات شاکرہ نے ان سے چھپائی تھی۔ نشےمیں اسےکچھ ہوش نہیں رہتا تھا۔ کہ سامنے اس کی ماں ہےیا باپ ہے اور نشہ نہ ملنے پر بھی وہ پاگل سا ہو جاتا تھا۔

    شاکرہ سےوہ نشہ کے لئے پیسہ لیا کرتا تھا۔ شاکرہ بھی ترس کھاکر اس کو پیسے دے دیتی تھی۔ کم سےکم نشے میں تو وہ سکون سے رہے، لیکن آخر وہ نشے کی آخری حد کو پہونچ گیا۔

    نشہ حاصل کرنے کے لئے وہ اپنے آپ کو ناگ سے ڈسوانے لگا۔

    ناگ سے ڈسوانے کے بعد ایک ماہ تک وہ بالکل نارمل رہتا۔ ناگ کے زہر کا نشہ ایک ماہ تک اسے مسرور رکھتا ہے لیکن زہر کا اثر ختم ہوتے ہی اس کی حالت پاگلوں سی ہونے لگتی اور جب تک وہ اپنے آپ کو ناگ سے ڈسوا نہیں لیتا اسے سکون نہیں ملتا تھا۔

    اور خود کو ناگ سےڈسوانے کے لئے وہ پانچ پانچ ہزار روپیہ تک دیتا تھا۔

    پچھلی بار اس نےجب خود کو ناگ سے ڈسوایا ہوگا اسے شاید ایک ماہ ہو گیا ہوگا۔ نشہ اتر گیا تھا اس لئے اس کی حالت پاگلوں سی ہو رہی تھی۔ دو گھنٹے بعد انجکشن کا اثر ختم ہو گیا تھا۔

    عادل پھر جاگ اٹھا تھا اور اس نے ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔

    انھوں نے اسے کمرے میں ہی بند کرکے رکھا۔

    وہ جانتے تھےکہ اکیلا کمرے میں بند ہونے پر وہ اپنے آپ کو مار مار کر زخمی کر لےگا۔

    لیکن اسے کھلا چھوڑنا اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔ وہ سویرا ہونے کی راہ دیکھنے لگے۔

    دن نکلتے ہی جیسے ہی انھوں نے عادل کے کمرے کا دروازہ کھولا، عادل ان کا گلا دبانے کے لئے دوڑا۔

    ‘’عادل! چلو میں تمھیں ناگ سے ڈسوانے لے چلتا ہوں۔’‘

    یہ سنتے ہی عادل کا سارا غصہ، جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔

    وہ اسے کار میں بٹھا کر چل پڑے۔ عادل انھیں راستہ بتاتا رہا۔

    ایک جھونپڑپٹی کے پاس تنگ و تاریک گلیوں سے ہوکر وہ ایک ٹوٹے جھونپڑے کے پاس پہونچے۔

    ‘’ارے عادل سیٹھ! اِس بار لیٹ ہو گیا؟’‘

    ‘’چلو جلدی لاؤ! مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ہے۔’‘ عادل چیخا۔

    ‘’پہلےمال نکال!’‘ وہ آدمی بولا۔ عادل نے ان کی طرف دیکھا۔ انھوں نے پانچ ہزار روپے اس آدمی کی طرف بڑھا دئے۔

    وہ آدمی اندر گیا، واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں ایک سانپ کی پٹاری تھی۔ عادل زبان باہر نکال کر کھڑا ہو گیا۔

    اس آدمی نے پٹاری کا ڈھکن کھولا۔ اس میں سےایک کالے ناگ نے پھن اٹھایا، اس نےچاروں طرف دیکھا اور پھر عادل کی زبان پر ڈس لیا۔

    ان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔

    عادل کے منہ سےبھی چیخ نکلی مگر یہ مسرت اور لذت بھری چیخ تھی، وہ سر سے پیر تک پسینے میں نہا گیا اور پھر لہراتا ہوا ان کےساتھ چل دیا۔

    انھوں نے جاتے ہوئے مڑکر اس آدمی اور پٹاری کے ناگ کو دیکھا۔

    جس کا زہر ان کے بیٹے کے لئے تریاق تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے