Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طور پر گیا ہوا شخص

سلمی صنم

طور پر گیا ہوا شخص

سلمی صنم

MORE BYسلمی صنم

    آسائشوں کی آگ لینے بے وطنی کے کوہ طور پر گیا تھا وہ شخص اور شہر کے نامور پارک میں یکا و تنہا اس کی بیوی گمراہ ہو رہی تھی۔ اس کے خیالات بھٹک رہے تھے، اس کی سوچیں لڑکھڑا رہیں تھیں فطری جبلتوں کے زہریلے سانپ لمحہ بہ لمحہ اس کو ڈس رہے تھے اور وہ بڑی بےبسی سے لنڈ منڈ درخت کو دیکھ رہی تھی جس کی تمام شاخیں سوکھی ہوئی تھیں، پارک میں ان گنت درخت تھے جو شادابی کا لبادہ اوڑھے کھڑے تھے ان میں وہی ایک درخت تھا بالکل برہنہ جسیے وہ تھی پارک میں بے شمار جوڑوں کے بیچ یکا وتنہا، اس کے اندر ایک گہرا سناٹا تھا۔ ایک طویل ترین ویرانی اور اس کا ظاہر بھی اجاڑ سا تھا نہ آنکھوں میں کاجل نہ لبوں پر لالی، نہ ہاتھوں میں کنگن نہ کانوں میں بالی۔

    لنڈ منڈ درخت کی جانب دیکھتے ہوئے اس کی سوچ اس درخت کے ماضی کی جانب رینگ گئی۔ پہلے یہ درخت یوں برہنہ اور بے سایہ دار نہ تھا بلکہ اس پر بے شمار پرندوں کا ہجوم رہتا تھا۔ جن کی چہکار سے پوری فضا گونج اٹھتی تھی، ان پرندوں میں خوبصورت پنکھوں والا پرندہ بھی تھا جو ہجرت کر کے جانے کہاں سے آیا تھا۔ وہ پرندہ اس درخت سے بہت مانوس ہو گیا تھا، وہ پرندہ اس کی ہری بھری شاخوں پر بیٹھا میٹھے میٹھے گیت گاتا اور اس کے نغموں کی لے پر درخت اور بھی ہرا بھرا ہو جاتا تھا۔ پھررت بدلی، موسم بدلا، مہاجر خوبصورت پنکھوں والا درخت سے جدا ہوکر نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں جانے کہاں کھو گیا، اس کے جانے کے بعد یہ ہرا بھرا درخت مرجھا گیا۔ اس خوبصورت پنکھوں والے پرندے کے انتظار میں سوکھ گیا۔ لنڈ منڈ برہنہ بے سایہ دار ہو گیا۔ زینت کو یقین تھا کہ جب وہ خوبصورت پنکھوں والا مہاجر پرندہ لوٹ کر آئےگا تو یہ لنڈ منڈ درخت پھر سے سرسبز و شاداب ہو جائےگا اس کے اندر زندگی جاگ اٹھے گی ٹھیک اس طرح زندگی اس کے اندر بھی جاگ اٹھتی اگر دیار غیر سے اس کا شہاب لوٹ آتا جو بے وطنی کے کوہ طور پر آگ لینے گیا تھا۔ مٹھی بھر سکوں کی آگ جو زندگی کو حرارت اور بھرپور توانائی عطا کرتی ہے۔

    کبھی زینت بھی بہت شاداب تھی مضبوط سی خوب پھیلی ہوئی۔ ان دنوں زندگی کتنی ہنگامہ خیز تھی۔ کتنی جوان، کتنی خوبصورت آنکھوں میں سپنے، ہونٹوں پہ نغمے، چال میں مستی، دل میں دھڑکنیں، وہ بہت آزاد تھی چنچل، ہنس مکھ، کالج میں پڑھتی تھی اپنے سہیلیوں کے ساتھ گپیں ہانکتی تھی، فلمیں دیکھتی تھی۔ اپنے من پسند ستاروں کی باتیں کرتی تھی۔ کلاس فیلوز سے ہنسی مذاق کرتی تھی اور خوابوں کے شہزادے کے خواب دیکتھی تھی۔

    اور ایک دن خوابوں کا شہزادہ بالکل اچانک ہی آ گیا مگر ان دنوں اسے معلوم نہ تھا کہ وہ خوابوں کا شہزادہ ہے۔ وہ تو اس بات سے ناراض تھی کہ وہ دوبئی میں ملازم ہے فقط تین ماہ کی چھٹی پر آیا ہے اور اس کو ساتھ ہی لے کر دیار غیر جائیگا۔ اس کو اپنی جڑوں پر ناز تھا۔ وہ اس سرزمین میں دور تک اترنا چاہتی تھی خوب پھیلنا چاہتی تھی اور بھی مضبوط ہوکر چھتناور درخت بننا چاہتی تھی، اس رشتے سے وہ بہت الجھ گئی بور سی ہو گئی اور اس نے ممی سے ضد کی۔

    ’’ممی! میں دوبئی نہیں جاؤنگی‘‘

    ’’تو اپنے شوہر کو چھوڑ کر یہیں رہےگی‘‘ ممی نے حیرت سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’میں اس لڑکے سے شادی ہی نہیں کروں گی‘‘

    ’’نہیں زینی‘‘ ممی نے بہت سمجھایا۔ ’’شہاب بہت اچھا لڑکا ہے ہینڈ سم بھی ہے اور کماؤ بھی، تم اس کے ساتھ بہت خوش رہوگی۔‘‘

    ’’مگر دوبئی‘‘ وہ پھر الجھ گئی۔

    ’’چند برسوں کی بات ہے زینی تو پھر لوٹ آئیگی نا‘‘

    ممی اسے پوری طرح مطمئن نہیں کر پائیں اس لئے شادی کو لے کر زینت کے دل میں کوئی رومانیت نہیں جاگی۔ ہاں البتہ ممی اور پاپا دونوں مطمئن تھے کہ ان کی لڑکی کا مستقبل شاندار ہوگا وہ دیار غیر جائیگی اور وہاں کی آسائشوں کے ہنڈولے میں جھولےگی۔ متوسط طبقے میں جانے یہ کیسی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ آسائشوں کی آگ لینے بےوطنی کے کوہ طور پر جانے والے لڑکوں سے اپنی لڑکیوں کو بیاہ کر انہیں دیار غیر دھکیلنے کی یا اپنی سرزمین پر انتظار کی تپتی ریت پر آبلہ پا بھٹکنے کی۔۔۔ جو دیار غیر سے لدے پھندے آتے کتنی سحر آفریں ہوتی تھی ان کی شخصیت، جن میں ان کا وجود کم اور ان کی چیزیں زیادہ نمایاں نظر آتی تھیں۔

    زینت نے چاہا کہ اس وبا سے بچنے کی خاطر کوئی ٹیکہ لگوالے کہ غیر ارادی طور پر شہاب سے سامنا ہو گیا اور وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی۔ واقعی وہ بہت ہینڈ سم تھا اور اس نے بود وباش بھی ایسی اختیار کر رکھی تھی۔ جیسے کسی طلسمی دنیا سے آیا ہو اور زینت اس کی طلسم میں پوری طرح گرفتار ہوتے ہوئے خود بھی اس وبا کا حصہ بننے پر راضی ہو گئی۔ وہ پھیلنے کا خواب بھول گئی۔ وہ بس اکھڑنا چاہتی تھی۔ اس پر ایک کیف سا طاری ہو گیا۔ خوابوں کے شہزادے کو پالینے کا۔ ایک نشہ سا چھا گیا اجنبی دیس کی سرزمین پر گھومنے پھرنے کا۔ وہ اپنی جڑیں سمیٹ کر کسی اور سرزمین میں پیوست کرنے پر دل وجان سے آمادہ ہو گئی۔ بڑے دھوم سے وہ بیاہی گئی اور خوابوں کے ہنڈولے میں جھولتی خوابوں کے شہزادے کی بانہوں میں آ گئی۔ پھر زندگی بہت حسین ہو گئی بے پناہ خوبصورت۔ شہاب کی ہوشربا قربت تھی اور لامتناہی سیر سپاٹے، بے شمار آؤ بھگت تھی، لاتعداد عورتیں، چھوٹی بڑی رسمیں، ڈھیر ساری قسمیں، حسین وعدے، رنگین اردے، تھرکتے دن، مہکتی راتیں، ہنسی قہقہے، دلنواز باتیں۔

    شہاب کا ساتھ کیا ملا تھا وہ تو بن پئے ہی بہکتی تھی، تھرکتی تھی، مچلتی تھی وہ سنور گئی تھی نکھر گئی تھی۔ یوں خوابوں کے ہنڈولے میں جھولتے دو ماہ کس طرح گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا، وہ تو اوندھے منہ زمین پر اس وقت گری جب شہاب نے اطلاع دی کہ اس کی روانگی کا وقت آ چکا ہے، وہ شہاب سے لپٹ کر رونے لگی۔

    ’’نہیں نہیں، آپ مجھے چھوڑ کر مت جائیے‘‘

    ’’کچھ دنوں کی ہی تو بات ہے زینی پھر میں تمھیں اپنے پاس بلا لونگا‘‘

    ’’ابھی لے چلئے‘‘۔ ’’ابھی پاسپورٹ بھی نہیں بنا ہے‘‘

    ’’مجھے نہیں پتہ، مجھے بس آپ کے ساتھ رہنا ہے‘‘

    مگر وہ شہاب کے ساتھ کہاں رہ پاتی، وہ پگلی تھی یہ نہیں جانتی تھی کہ ملکوں کی سرحدیں رشتوں کے درمیان کسی خلیج کی طرح حائل ہو جاتی ہیں جنہیں پار کرنا اتنا آسان نہیں۔

    شہاب دوبئی چلا گیا اور یکا وتنہا رہ گئی۔ اپنے ارمانوں کی دنیا میں بیگانوں کی طرح، اپنی ہی سرزمین پر اجنبی کی طرح، اپنے ہی گھر میں پرائے کی طرح۔ وہ پاسپورٹ بنوائے ویزے کی مننظر رہی مگر ویزا کبھی نہ آیا۔ شہاب ہمیشہ کسی ٹوٹے پھوٹے ریکارڈ کی طرح بجتا۔

    ’’یہاں گلف میں قانون بدل گیا ہے زینی، جن کی بھاری تنخواہ ہوتی ہے Family Status ان کو ہی ملتا ہے اور میری جان میری تنخواہ اتنی نہیں ہے کہ میں یہاں فیملی Maintain کر سکوں پھر بھی میں کوشش کررہا ہوں اگر میں کامیاب نہ ہو سکا تو خود ہی ملازمت چھوڑ کر تمھارے پاس آ جاؤنگا۔‘‘

    اور وہ ملازمت چھوڑ دے ایسا کون چاہتا تھا خصوصاً اس کے گھر والے تو بالکل نہیں چاہتے تھے۔ وہ تو ان لوگوں کی خاطر دیارِغیر گیا ہوا تھا دو بن بیاہی بہنیں، ایک تعلیم حاصل کرتا بھائی ان سب کی ذمہ داری اسی پر تھی اور ان ہی لوگوں کی خاطر دیار غیر میں مہاجر بنا، یکا و تنہا جیتا تھا۔

    زینت جب پھیلنا چاہتی تھی تب ہر کوئی اس کو اکھاڑنے کی تگ ودو میں تھا اور آج وہ جب اکھڑنا چاہتی ہے تو سب کی ایک ہی رٹ تھی اپنی ہی زمین میں پیوست ہو جاؤ، خوب پھیلو، مضبوط اور چھتناور بنو۔

    رفتہ رفتہ جب وہ شہاب کی جانب سے مایوس ہونے لگی تو اس کو شہاب سے چڑ سی ہو گئی تو کیا اس کے خوابوں کے شہزادے نے اس کو دھوکہ دیا تھا۔ نہ صرف اسے بلکہ اس کی ممی اور پاپا کے اعتماد سے بھی کھیلا تھا۔ ساتھ لے جانے کا وعدہ کر کے بیاہ رچایا تھا اور اس کو انتظار کی بھٹی میں جھونک کر چلا گیا تھا۔ جیسے وہ کوئی گڑیا ہو اور اس کو جدھر چاہے ادھر سجادو۔ رہی سہی کسر سسرال والوں نے پوری کردی انہوں نے اپنی کینچلی یوں بدلی کہ زینت حیران رہ گئی۔

    اف! ان کا یہ اصلی روپ کتنا گھناؤنا تھا۔ انہوں نے زینت پر بے جا پابندیاں عائد کر دیں۔ گھر گرہستی میں بری طرح الجھا دیا، کولہو کے بیل کی طرح سب کی خدمت پر مامور کر دیا۔

    صبح ہوتے ہی وہ بیدار ہوتی اور رات گئے تک کام وکاج میں جٹی رہتی اور پھر بستر پر یوں گرتی کہ اس کے تمام اعضاء بکھر جاتے، دوسری صبح وہ دوبارہ اپنے بکھرے ہوئے اعضاء کو یکجا کرکے اپنے اندر ایک نئی قوت جگائے اپنے کام میں جٹ جاتی۔ مگر یہ مشینی زندگی کس کو بھاتی ہے زینت بری طرح اوب گئی۔

    مائیکے جانے کے موقع بھی بہت کم ملتے تھے اور کبھی جانا بھی ہوتا تو واجبی طور پر رسمی سی ملاقات کے لئے اور اس پر بھی کوئی سسرالی عزیز اس کے سر پر سوار رہتا تھا۔ مائیکے والوں کا اس سے ملاقات کے لئے بار بار آنا بالکل منع تھا کہ اس طرح کی مداخلت اس کی جڑیں سسرال کی زمین میں پیوست ہونے کی راہ میں مانع تھی۔ شہاب فون کرتا کہ ساس نندیں سب سر پر سوار، اس کا موڈ بالکل آف ہوجاتا وہ کھل کر کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی اور ادھروہ ٹوٹے پھوٹے ریکارڈ کی طرح بجتا اور زینت بے طرح بےزار ہوکر فون رکھ دیتی۔ وہ خط لکھتا کہ اس تک پہونچنے سے پہلے ہی وہ censor ہو جاتے اور بچی کھچی عبارت وہ پڑھے بغیر ہی پھاڑ کر پھینک دیتی اور وہ جو خط لکھتی تو سسر اور دیور سارا مضمون پڑھ چکنے کے بعد پوسٹ کرتے تھے۔

    تنگ آکر زینت نے خط لکھنا بند کر دیا۔ اس کو شہاب کے گھر والوں سے زیادہ شہاب پر غصہ آتا، آخر وہی تو ذمہ دار تھا اس کو اس جہنم میں دھکیلنے کا۔

    جب زینت کے ممی پاپا نے دیکھا کہ جو وعدہ کرکے شادی کی گئی وہ وعدہ ایفا نہ ہوا تو وہ احتجاج کر بیٹھے۔ شہاب پر دباؤ ڈالا تو وہ نوکری چھوڑ کرآنے پر راضی ہو گیا اور جب اس کے ارادوں کا پتہ اس کے گھر والوں کو چلا تو انہوں نے محاذ کھڑا کر دیا کچھ اتنی توتو میں میں ہوئی، اتنا لڑائی جھگڑا ہوا اس کے مائیکے اور سسرال والوں کے درمیان کہ زینت بری طرح تنگ آ گئی۔ شہاب کی ایک ہی رٹ تھی وہ ملازمت ترک کر کے وطن واپس لوٹ آئیگا، لیکن اس کے گھر والے کبھی ایسا نہیں چاہتے تھے۔

    آخر ثالثوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک شہاب نہیں آتا زینت سسرال نہیں جائیگی۔ اپنے ممی پاپا کے پاس رہے گی اور جب سے زینت مائیکے آکر رہنے لگی تھی۔ اس کا وجود ایک کٹی پتنگ کی طرح رہ گیا تھا۔ وہ ساجن بنا سہاگن تھی۔ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ اس کے ممی پاپا جنہوں نے دیار غیرمیں ملازم لڑکے سے اس کی شادی کی تھی، اس کے سسرال والے جو اپنی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر اپنے بیٹے کو دیار غیر میں روکنا چاہتے تھے۔ شہاب جو اتنا بودا تھا کہ خود کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا تھا۔ دیار غیر کے وہ امیر لوگ جو تیسری دنیا سے خام مال کی طرح انسان امپورٹ کرتے تھے، ان انسانوں کے جذبے اور خواہشات نہیں، ان ارمان اور ان کی جبلتیں نہیں، قصور چاہے کسی کا بھی ہو انتظار کے جہنم میں تو زینت سلگ رہی تھی۔

    وہ ایک ایسا درخت بن کر رہ گئی جس پر شہاب کسی موسمی پرندے کی طرح آتا اور چلا جاتا اور اس کے آنے جانے کے درمیان جو ہوتا سو ہوتا۔

    وہ جو بےوطنی کے کوہ طور پر آگ لینے گیا تھا۔ وہ پیغمبری لے کر ضرور لوٹتا مگر اس کے بیچ اگر کوئی سامری آ جائے تو پھر کیا ہو؟

    زینت گھبرا کر سوچتی اور ہاتھ مل کر رہ جاتی!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے