طوطے کا انتظار
حویلی کافی پرانی ہو چکی تھی مگر پھر بھی اس کے در و دیوار جس پر سیاہ کائی کی تہہ سی جم گئی تھی، کافی پروقار دکھائی دیتے تھے۔ اونچے اونچے پایوں پر محراب اور محراب کے اوپربنے ہوئے کمروں میں اونچی اونچی کھڑیاں تھیں۔ نہ جانے کتنے برسوں، کتنی کہانیوں اور کتنے مالکوں کا بوجھ اُٹھائے یہ ستون خمیدہ ہو گئے تھے، جنھیں گرنے سے روکنے کے لیے پایوں کے درمیان لوہے کی سلاخیں لگا دی گئی تھیں۔ بالائی کمرے میں چھہ دروازے تھے جو زیادہ تر بند ہی رہتے تھے۔ کبھی کبھی کنڈی کی کھٹکھٹاہٹ پر ایک دروازہ کھلتا اور کوئی سایہ اس میں داخل ہو کر یوں گم ہو جاتا جیسے حال ماضی میں گم ہو رہا ہو۔ شمال کی جانب زنان خانے کے باہر ایک قد آدم پھاٹک لگا تھا جس میں بے شمار پیتل کی کیلیں جڑی ہوئی تھیں اور جسے کھولنا بھی جوکھم کا کام تھا۔ یہ پھاٹک زیادہ تر نیم وا ہی رہتا تھا۔ پہلے جب سواریاں پالکیوں میں آتیں تو جمن چاچا پھاٹک کھول کر ایک طرف ہٹ جاتے اور کہار پالکی لیے سیدھے آنگن میں چلے جاتے۔ پالکی رکھ کر کہار منہ پھیر کر یوں کھڑے ہو جاتے جیسے اپنے بوجھ سے سبکدوش ہو کر شرمسار ہوں۔ بیبیاں اتر جاتیں تو خوش نصیبن بوا کی آواز آتی ’’لے جاؤ۔‘‘ اور کہار مشین کی طرح پالکی اُٹھا کر باہر چلے جاتے۔ جمن چاچا کہاروں کے ہاتھ پر پیتل کی اکنّی رکھ کر کچھ اس انداز سے دیکھتے جیسے بڑے اَن داتا ہوں۔ مگر اب تو نہ پالکی تھی اور نہ کہار۔ سارے کہار رکشا چلانے لگے تھے اور ڈیوڑھی میں پڑی ٹوٹی ہوئی پالکی اپنے دامن میں ہزار افسانے چھپائے گم سم پڑی تھی۔ البتہ ڈیوڑھی میں لگے بانس کی الگنی پر پالکی کا سُرخ بوسیدہ اوہار، جس میں سنہرے جھالر لگے تھے، لٹکا رہتا تھا۔ گرد کی تہوں نے سُرخی کو سیاہی میں بدل دیا تھا۔ اور جھالر میں مکڑی کی جالیوں نے مزید اضافہ کر دیا تھا۔
اب نہ جمن چاچا تھے اور نہ کہار۔ پھر پھاٹک پورا کھولنے کی ضرورت بھی کیا تھی۔ پھاٹک نیم وا ہی رہتا تھا۔ جیسے باہر کی ہوا سے حویلی کی حفاظت کر رہا ہو یا اندر کی باقی ماندہ رونقوں کو باہر نکلنے سے روکنے کی ناکام کوشش...
حویلی کے باہر پائیں باغ ایک بے آب و گیاہ چٹیل میدان کی صورت پھیلا خاک اُڑاتا رہتا تھا مگر سامنے گوشت خانے کی سُرخ عمارت اب بھی اسی طرح آباد تھی۔ اوپر کا وہ ہشت پہل کمرہ جس میں وہ سویا کرتا تھا، ٹھیک گوشت خانے کے سامنے پڑتا تھا۔ گرمیوں کی راتوں میں جب وہ کمرے کی کھڑکی کھول دیتا تو باہر سے آنے والی ہوا میں گوشت کی سڑاند اور جمے ہوئے خون کی عجیب سی بو بسی ہوئی اندر آجاتی اور اسے اُبکائیاں سی آنے لگتیں۔ یہ مذبح نہ جانے کب سے وہاں قائم تھا، جس کے اِرد گرد آوارہ کتے سوکھی ہڈیوں کی تلاش میں گھومتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی دو کتے آپس میں لڑ پڑتے تو ان کی غراہٹ اور ہڈیوں کے کڑکڑ ٹوٹنے کی آواز کے ساتھ آنے والی بدبو اسے بے حد بھیانک معلوم ہوتی اور اسے اُبکائیاں سی آنے لگتی تھیں۔ حویلی کے ساتھ اس مذبح...
ریل کی رفتار دھیمی ہو رہی تھی۔ انجن کی سسکیوں کے ساتھ اس کے خیالات نے بھی دم توڑ دیا۔ اسٹیشن پر اترتے ہی اسے محسوس ہوا کہ اسٹیشن کافی بدل چکا ہے۔ جابجا مرکری ٹیوبس کی روشنی میں اسٹیشن جگمگا رہا تھا۔ سامنے لگے بورڈ اور قلیوں کی مخصوص آواز نے اسے یقین دلا دیا تھا کہ یہ اس کا اپنا ہی شہر تھا جہاں آج برسوں بعد وہ قدم رکھ رہا تھا۔
قلی نے سامان رکشے پر رکھ دیا اور وہ جب قلی کو پیسہ دینے کے لیے مڑا تو اسے ایک شدید جھٹکا سا لگا۔ رکشے کا ہنڈل پکڑے کھڑے ہوئے عزیز ماموں کو دیکھ کر وہ بھونچکا سا رہ گیا... عزیز ماموں کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں، وہ ایک بوسیدہ سی پھٹی ہوئی قمیص پہنے رکشے کا ہینڈل تھامے کھڑے تھے۔
’’سلام علیکم عزیز ماموں ... آپ یہاں کیا کر رہے ہیں‘‘؟
عزیز ماموں کی گرفت ہینڈل پر اور سخت ہو گئی تھی اور آنکھوں میں ایک عجیب سا درد جھلک آیا۔ سید شاہ امین احمد صاحب کے صاحبزادے عزیز امام کو اس حالت میں دیکھ کر وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پایا۔ وہ حیرت سے دیکھتا رہا۔ عزیز ماموں نے خاموشی توڑی۔
’’کیسے ہیں چھوٹے بابو۔ بہت دن پر گھر یاد آیا۔ بیٹھ جائیے۔ میں لے چلتا ہوں‘‘۔ وہ مشین کی طرح رِکشے پر بیٹھ گیا تھا اور عزیز ماموں رکشا چلانے لگے۔ عزیز ماموں کی دھنسی ہوئی آنکھیں، پچکے ہوئے گال اور بوسیدہ کپڑے پوری کہانی کہہ رہے تھے۔کمزور جسم سے رکشا کھینچتے ہوئے عزیز ماموں ایسے لگ رہے تھے جیسے خود زندگی کی لاش کو کھینچتے ہوئے قبرستان کی طرف لے جا رہے ہوں۔ وہ دم بخود سوچتا رہا۔ یہ بات ٹھیک تھی کہ زمینداری جانے کے بعد عزیز ماموں کی حالت خراب ہو گئی تھی اس لیے کہ دولت کا بیشتر حصہ امین صاحب نے پہلے ہی افیون اور مدک کی نذر کر دیا تھا۔ مگر عزیز ماموں نے باقی جائیداد کو بیچ کر ایک چھوٹی سی پارچون کی دکان کر لی تھی اور دال روٹی کا سہارا پیدا کر لیا تھا پھر... وہ خاموش نہ رہ سکا۔
’’عزیز ماموں۔ آپ رکشا کیوں چلانے لگے‘‘؟ اس نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا جیسے خود اپنے سوال پر شرمسار ہو۔
’’سب قسمت کا کھیل ہے میاں‘‘۔ لاش سے آواز آئی۔
’’اور آپ کی دکان‘‘؟
’’دکان...‘‘انھوں نے ٹھنڈی سانس لی۔ دکان بھی کہیں بغیر پونجی کے چلتی ہے میاں۔ آمدنی کم اس پر چھہ چھہ بچے اور وہ بھی ایسے جنھیں تر کھانے کی عادت۔ دھیرے دھیرے ساری دکان کھا گئے سالے۔ اخیر میں جو بچا کھچا تھا اسے بیچ کر یاسمین کے ہاتھ پیلے کر دےئے۔ آخر جوان بیٹی کو کب تک چھاتی پر بٹھائے رکھتا۔ اب سلیم استاد کا رکشا چلاتا ہوں‘‘۔
وہ عزیز ماموں کی نحیف آواز سنتا رہا اور اس کی نگاہوں کے سامنے یاسمین کا کتابی چہرہ گھوم گیا، جو بچپن میں اس کے ساتھ گڑیا کھیلا کرتی تھی۔ کیسی بھولی خوبصورت سی لڑکی تھی۔ خاص طور سے اس کی جھیل جیسی گہری آنکھیں اور ان پر سیاہ بھاری بھاری پلکوں کو تو وہ اکثر بڑے غور سے دیکھا کرتا تھا اور کہتا تھا۔
’’یاسمین اپنی آنکھیں مجھے دے دو‘‘۔
یاسمین ’’ہٹ‘‘ کہہ کر کھلکھلا کر ہنس دیتی تھی۔۔۔۔۔۔ تو اس کی شادی ہو گئی۔ اس کے دل پر ایک ہلکی سی چوٹ لگی جیسے اسے یہ سن کر خوشی نہیں ہوئی تھی۔ وہ بےساختہ پوچھ بیٹھا:
’’یاسمین کی شادی ہو گئی ....کہاں ہوئی شادی۔ لڑکا کیا کرتا ہے‘‘؟
عزیز ماموں تھوڑی دیر تک خاموش رہے اور زور زور سے رکشے کی گھنٹی بجانے لگی حالانکہ سڑک بالکل سنسان تھی اور رکشے کے آگے دور دور تک سڑک خالی پڑی تھی۔ اس نے پھر سوال دُہرایا تو عزیز ماموں کو کرنٹ سا لگ گیا اور وہ بول اٹھے:
محلے میں ہی کر دی ہے۔ اکلو میاں کے لڑکے سے۔ ’’سلائی کا کام کرتا ہے‘‘۔
وہ اس شدید جھٹکے کے لیے تیار نہ تھا اور بے ساختہ اس کے منہ سے ’’ایں‘‘ نکل گیا۔ سید شاہ امین احمد سابق زمیندار کی پوتی، گہری جھیل جیسی آنکھوں والی یاسمین کی شادی اکلو میاں درزی کے لڑکے سے ....اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ عزیز ماموں کو ’’ایں‘‘ کا مطلب سمجھ میں آگیا تھا۔ ان کی آواز میں شکست و فتح دونوں کا لہجہ شامل تھا۔
’’کیا کرتا خاندان کے لڑکے بھلا مجھ کنگال کی بیٹی سے کیوں شادی کرتے۔ کسی کو اِسکوٹر چاہیے تھا، کوئی پانچ ہزار نقد کا طالب تھا۔ میرے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ جوان بیٹی کو کب تک چھاتی پر بٹھائے رکھتا۔ وہ تو بھلا ہوا کلو میاں کا، کہ سید کے ماتھے کا کلنک تو دھو دیا انھوں نے‘‘۔
عزیز ماموں کی آواز تیز ہو گئی تھی اور رکشا محلے کی گلی میں مڑ چکا تھا ....محرم کی ساتویں تاریخ تھی، بڑی داہا کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ چبوترے کے کنارے کھڑے جنگلی میاں ہر سال کی طرح ڈنکا بجا رہے تھے۔
ڈنکا۔ توں۔ ڈنکا توں۔ ترر ر ر ر ، ڈنکا توں ...
اسے ایسا لگا جیسے وہ بیس سال قبل کے بچپن میں لوٹ آیا ہو۔ جب محرم کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ ریوڑیاں، اکھاڑا، مہدی، عَلَم، کربلا، تعزیہ ....اَن گنت الفاظ اس کے شعور کی سطح پر تیرنے لگے۔
رکشا پرانی حویلی کے سامنے جیسے ہی رکا وہ رکشے سے اتر پڑا اور غیر ارادی طور پر اس نے ایک روپے کا نوٹ رکشا والے کی طرف بڑھا دیا۔ عزیز ماموں کے چہرے پر دوڑتی ہوئی سرخی کو دیکھ کر اس کا ہاتھ کانپنے لگا اور اسے ایسا لگا جیسے عزیز ماموں ابھی ابھی اسے جھڑک دیں گے جیسے بچپن میں جب وہ اس کی طرف ریوڑیوں کا دونا بڑھاتے اور وہ جھجکتا تو ڈانٹ دیا کرتے تھے۔ اس نے دیکھا کہ عزیز ماموں کا ہاتھ بھی کانپا تھا اور آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوئی تھی۔
اس کی آنکھوں کے سامنے بیس سال پہلے کے عزیز ماموں کی شبیہ ابھر آئی جب وہ گھوڑے پر سوار کندھے پر بندوق لٹکائے شکار کے لیے جا رہے ہوتے اور وہ یاسمین کے ساتھ دوڑتا ہوا ان کے گھوڑے کا تعاقب کرنے کی ناکام کوشش کرتا۔ عزیز ماموں بے پناہ شفقت سے پیچھے مڑ کر آواز دیتے:
’’بیٹے گھر جاؤ۔ آج تمھارے لیے طوطے لے کر آؤں گا‘‘۔ اور اسے یقین ہو جاتا کہ آج عزیز ماموں ضرور اس کے لیے طوطے لے کر آئیں گے۔ پھر جمن چاچا پکڑ کر اسے حویلی کی طرف لے جاتے۔ ’’چھوٹے بابو گھر چلئے۔ بڑی بیگم بُلا رہی ہیں‘‘۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ جمن میاں ہمیشہ کی طرح جھوٹ ہی بڑی بیگم کا حوالہ دے رہے ہیں اس لیے کہ بڑی بیگم یعنی اس کی ماں تو حویلی کے اندر ہیں جہاں انھیں یہ خبر بھی نہ ہوگی کہ وہ عزیز ماموں کے گھوڑے کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ پھر گئی رات تک وہ عزیز ماموں کی واپسی اور طوطے کا انتظار کرتا رہتا تو اس کی ماں اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر کہتیں:
’’بیٹا سو جاؤ میں کل تمھیں طوطا منگا دوں گی‘‘۔ اور خوش نصیبن بوا کھانستے کھانستے کہتی جاتیں۔
’’عزیز میاں بھی کیسے ہیں۔ معصوم بچے کو جھوٹ موٹ کا وعدہ کر کے پریشان کرتے ہیں‘‘۔ اور اماں ہنس کر انھیں ڈانٹ دیتیں۔
’’خوش نصیبن تم بھی بوڑھی ہو کر سٹھیا گئی ہو۔ بھلا عزیز کو طوطے کہاں ملیں گے جو وہ لاتے۔ وہ تو ہرن کے شکار کے لیے گئے ہیں‘‘۔
وہ سبز طوطے کی راہ دیکھتے دیکھتے سو جاتا اور ساری رات اس کے خواب میں رنگ برنگ کے طوطے اڑتے رہتے۔ دوسری صبح جب وہ عزیز ماموں کے گھر جا دھمکتا اور ان سے شکایت کرتا تو وہ ہنسنے لگتے۔ یاسمین بھی کھل کھلا کر ہنس دیتی۔
’’بیٹے میں تمھارے لیے طوطے لایا تھا مگر اس فضلو کے بچے نے اڑا دیئے‘‘۔ اور پھر وہ نوکر کو آواز دیتے:
’’ابے او فضلو کے بچے، چھوٹے میاں کو مٹھائی تو لا کر دے‘‘۔
فضلو ڈھیر ساری مٹھائیاں لا کر سامنے رکھ دیتا اور تھوڑی دیر کے لیے وہ طوطوں کو بھول جاتا۔
عزیز ماموں کی شخصیت پورے محلے پر حاوی تھی۔ ان کی وضع داری، خودداری اور بانکپن کی تو لوگ قسمیں کھایا کرتے تھے۔ عزیز ماموں اس کے دور کے رشتےدار تھے مگر جب بھی یاسمین اور اسے پیار کے ساتھ اپنے سے لپٹا لیتے تو ان کی نگاہوں میں ایک مخصوص چمک پیدا ہو جاتی اور وہ دونوں کو جی بھر کر پیار کرتے۔ یاسمین کا خیال آتے ہی اس کی نگاہوں کے سامنے اکلو میاں کے بیٹے کی شبیہ اُبھر آئی جس کے پولیو زدہ پاؤں اور پچکے ہوئے گال کا تصور کر کے اسے ایک جھرجھری سی آگئی اور جیسے وہ خواب سے چونک اٹھا۔
عزیز ماموں رکشے کے پاس کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اور چہرے پر کئی رنگ ابھر ابھر کر ڈوب رہے تھے۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ابھی ابھی عزیز ماموں فضلو کو پکار کر اس کے لیے مٹھائی لانے کا حکم دیں گے مگر عزیز ماموں کے کانپتے ہاتھوں نے دفعتہ اس کے ہاتھ سے جھٹک کر نوٹ لے لیا اور رکشا لے کر گلی کی تاریکیوں میں گم ہو گئے... اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس بار فضلو کے نہیں بلکہ خود اس کے ہاتھ سے طوطے اڑ گئے ہوں۔ وہ دم بخود کھڑا رہا۔ پرانی حویلی کا پھاٹک نیم وا تھا اور گوشت خانے کی جانب سے آنے والی تعفن بھری ہوا کے ساتھ ہڈیوں کی کڑکڑاہٹ کی آواز آ رہی تھی۔ اسے ابکائی سی آنے لگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.