افسانہ خوانی کے لیے مجھے بہت سے مقامات پرجاناپڑتاہے۔ نئے چہرے نیاعلاقہ، نرالاماحول سب کچھ مجھے راس آگیاہے۔ افسانہ خوانی ختم ہونے کے بعد گپ بازی کی محفل، تھوڑے سے سوالات، کچھ حد تک حیرت واستعجاب اوربہت زیادہ تعریف وتحسین۔ پھرچائے اورپھلوں کامزہ لیتے لیتے ہم گھرکی عورتوں کی تعریفیں کرتے رہتے۔ مثلا کسی کے ہاتھ کاذائقہ کس طرح کاہوتاہے وغیرہ وغیرہ۔ اس گپ بازی سے کبھی کبھی براہ راست باورچی خانے میں بھی داخلہ ہوجاتاہے تو کبھی گپ بازی صرف نشست تک ہی محدود ہوکررہ جاتی ہے۔
اس روز ایساہی ہوا۔ افسانہ خوانی ختم ہوئی۔ ہم پانچ سات آدمی سامنے کے گھرمیں داخل ہوگئے۔ ملاقات کا کمرہ ٹھیک طورپرسجایاگیا تھا۔ گھر کی مالکن اپنے چہرے پرمیٹھی سی مسکراہٹ بکھیرے خیرمقدم کے لیے کھڑی تھیں۔ گھرکی شان وشوکت اور مالکن کے چہرے پرپھیلی دلنشیں مگرزیب دینے والی مسکراہٹ دیکھ کرمیں نے اندازہ لگایا کہ گھرانہ دولت مند ہے، اس لیے کافی بسکٹ اتناہی مینورہے گا۔ بہت سے مقامات پرجانے کے باوجود ایسے ماحول میں بجھ جاتی ہوں، میرا متوسط طبقے کا حامل چہرہ وہاں کی امیرانہ چیزیں دیکھ کر گنواروں کا سابن جاتاہے۔
ایسے گھروں کاایک آئین ہوتاہے۔ کس طرح بیٹھیں؟ کس طرح اٹھیں؟ کیسے بولیں؟ کیسے ہنسیں؟ سب باتوں کاخاکہ متعین ہوتاہے۔ اوبیرائے یاتاج، اس قسم کے ہوٹلوں کے صرف سامنے سے گذرتے ہوئے بھی میرے ہاتھ پیروں میں کپکپی شروع ہوجاتی ہے۔ یادآتا ہے کہ ایک بارڈاکٹر پربھوکے ساتھ ہم لوگ اوبیرائے گئے تھے توپہلی بار وہاں گئی تھی۔ چہرے کا پوسٹ آفس بناکر میں وہاں کے کئی دالان دیکھ رہی تھی اوراچانک خیال آنے پرمنہ بند کرکے بارعب طریقے سے چلنے کی کوشش کررہی تھی اورشایداسی وجہ سے بدحواس ہوکرچل رہی تھی۔
ہم ٹیبل کے پاس کھانے بیٹھے اور پھرخیال آیاکہ منہ سے شاید اونچی آواز نکل رہی تھی، اس لیے چبانے کی چیزیں ہی ترک کردیں۔ آئس کریم کا چمچہ منہ میں اتارا اور پھردھیان آیاکہ آئس کریم کی ٹھنڈک سے زبان بھاری ہوگئی ہے اورایسے کھانے کے ٹیبل کے پاس گپیں ہانکنا توایک اہم معاملہ ہوتاہے۔ اس پرطرہ یہ کہ ان کی ہدایتیں، بہت زورسے نہ ہنسیں، کتنے زور سے آپ بولتے ہیں؟ سب کچھ تکلیف دہ۔ ویسے میں سوفیصد کولہاپورکی۔۔۔ گھرکی دہلیز سے آواز لگائی تو گلی کے نکڑ پر کے آدمی کوسنائی دیتی۔ سب کچھ کھلا، ڈھکا کاروبار۔ خصوصاً دیس کا۔ ان مدھم چراغوں کے ہوٹلوں کو ہمارے گھاٹی طورطریقے ہضم نہیں ہوتے۔ پسند بھی نہیں آتے۔
میرے لیے ایک بڑی الجھن پیدا ہوگئی۔ دل لگاکرنہ بول سکتی تھی اورنہ پیٹ بھرکرکھاسکتی تھی۔ لباسی دنیامیں مجھے یہی الجھن پیش آتی ہے۔ ابھی بھی یہی ہوا۔ قیمتی کپڑوں میں ملبوس انسان صوفے پر بیٹھے تھے۔ میں نے ہینڈلوم کی ساڑی پہنی تھی۔ میں ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ اتنے میں محترمہ فرمانے لگیں، ’’آپ درمیان میں بیٹھئے نا!‘‘ درمیان میں میرے لیے ایک خصوصی آرام کرسی بچھائی گئی تھی۔ میں سمٹ کر وہاں بیٹھ گئی۔ دیگرسات آٹھ چہرے مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے، اس خیال نے مجھے اوربھی بدحواس کردیا۔ اس ماحول میں بالکل الگ ہی دکھائی دے رہی ہوں، اس کابھی مجھے احساس ہوا۔ موضوع افسانہ خوانی سے آگے بڑھ گیاتھا،
’’آج کل سردی بڑی اچھی پڑتی جارہی ہے ورنہ بمبئی کی آب وہوااتنی سرد نہیں رہتی، ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’لیکن سویرے کیسا خوشگوار لگتاہے!‘‘ میں محکمہ موسمیات کا احوال سن رہی تھی۔
’’آپ کیالیں گی؟‘‘ میں اس سوال سے چونک اٹھی۔
’’کافی۔‘‘ سب کے چہرو ں پرہنسی کے آثار دکھائی دیے۔ کافی۔۔۔ اس لفظ میں کون سامزاح چھپاتھا، میری سمجھ میں نہیں آیا۔ مجھے درحقیقت کیاکہناچاہئے تھا، وہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ اورپھر میں بھی خواہ مخواہ مسکرانے لگی۔ میری قابل رحم حالت مالک مکان کے دھیان میں آگئی ہوگی۔ مالک آگے بڑھ کرکھنکار کربولے، ’’روز! ایسا کرو، ہم مردڈرنک لیں گے، تم عورتیں کافی لے لو، ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’ٹھیک رہے گا۔‘‘ گھر کی مالکن نے دھیمی مسکراہٹ بکھیری۔ اس محترمہ کانام رجنی تھا، یہ مجھے معلوم تھا۔ اس ماحول میں یہ نام، ’’روز‘‘ میں تبدیل ہوگیاتھا۔ میں صرف سن رہی تھی، آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ مالک مکان کی انگوٹھی میں جڑا ہوا مشتری کا پتھرچم چم کر رہا تھا اورگھرمالکن کے دانتوں سے آنکھیں ملارہاتھا۔ اس کا مشاہدہ مناسب نہیں تھا اورمجھے کچھ نہ کچھ کہناچاہئے تھا، ’’آں ہاں! تم کچھ بھی لے لو، میرا کوئی اعتراض نہیں۔ مجھ اکیلی کے لیے کافی کیوں نہیں بناتی ہو؟‘‘ یہ بھی جملہ شاید پاگل پن کے اثرات لیے ہوئے تھا، اس لیے پھردوبارہ سب مسکرانے لگے اورمیں نے سب پرسے اپنی نگاہ اٹھاتے ہوئے بندٹی وی پرمرکوز کردی۔ کہانی لکھنے اورافسانہ خوانی کے سوااس عورت کوکسی بھی معاملے میں کچھ آتاجاتا نہیں، اس کا ان کوبھی اندازہ ہوگا۔
ٹیبل پر کانچ کے نازک قیمتی بھاری گلاس لائے گئے۔ شراب کی بوتلیں آئیں۔ کافی کی ٹرے ہاتھ میں لے کر گھرکانوکر دروازے تک آیا۔ محترمہ کے ہاتھ میں ٹرے دے کرالٹے قدموں واپس لوٹا۔ بسکٹ، ویفر کی پلیٹیں آئیں اورٹرے میں چھلے ہوئے سنترو ں کی قاشیں۔
’’چیرز۔۔۔‘‘ گلاس کھنکنے لگے۔ الفاظ گونجنے لگے۔ پلیٹیں رقص کرنے لگیں۔ کافی کا کپ میرے ہاتھ میں تھا لیکن اب دھیان کسی بات میں نہیں تھا۔ ان لوگوں کی بات چیت۔۔۔ بات چیت کے درمیان ہنسنا۔۔ گلاسوں کی آواز آرہی تھی مگرکسی کا بھی مطلب سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ سنترے کی قاشیں رکھی ہوئی ٹرے پرمیری نظرمرکوز تھی۔ کافی ٹھنڈی ہوچلی تھی۔ ہاتھ میں لیاہوا بسکٹ ویسے ہی ہاتھ میں رہ گیاتھا۔ کوئی توپوچھ رہاتھا،‘‘ کہاں سے لی یہ ٹرے؟ بالکل نرالی دکھائی دیتی ہے۔‘‘
’’حیدرآباد کی نمائش میں۔‘‘
’’بہت ہی خوبصورت ہے۔ جس وقت اسے خریداتھااس وقت ایسی ہی یہ غیرمعمولی تھی کیا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ میں نے نا دانستہ طور پرکہا۔ سب نے میری جانب دیکھا۔ مجھے بہت ہی تعجب خیز لگا۔ ان کی آنکھوں میں حیرت واستعجاب تھا اورنفرت بھی تھی۔ میں نے اپنے الفاظ کوٹانکے لگادیے اورجملہ کورفوکرکے اداکیا، ’’ایسی ٹرے کہیں دکھائی نہیں دیتی۔‘‘
’’جی ہاں۔۔‘‘ محترمہ نے بڑے فخر سے کہا۔
’’ایک ہی pieceتھا، ان کے پاس۔ دیکھئے نا! اس کی نقاشی اورکناروں کی جالی کتنی خوبصورت ہے! آپ اپنی کہانی میں اسے بھی کہیں پرویئے۔‘‘ میری نظر ٹرے پرجم کرہی رہ گئی تھی۔
’’سنترے لیجئے نا! مجھے سنترے بہت پسندہیں، ایساشاید ان کوگمان ہوگیاہوگا۔‘‘
’’نہیں شکریہ!‘‘ میں نے بہ مجبوری کہا اوراٹھ گئی۔
دل میں وہ ٹرے گھوم رہی تھی۔ اتنے سالوں سے گم ہوگئی تھی، اب دکھائی دی۔ اس کی خوبصورت نقاشی والی بیٹھی ساخت کی چینی مٹی کی کٹوریاں اب اس میں نہیں تھیں۔ صرف خالی خولی ٹرے تھی۔ لوہے کی سلیوں والی نقاشی سے مزین پترے کی گوٹ۔ اس کے چارکونے۔۔۔
’’حیدرآباد کی نمائش میں ملی تھی۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔
مرڈوکے بنگلے کی ایک ایک چیزراستے پرآرہی تھی۔ کشمیری غالیچہ، چاندی کا گل دان، نقاشی سے مزین اونچی قیمت کے لوٹے، ساری شان وشوکت کس قدر رذالت کا روپ لے کربنگلے کے احاطے میں پھیلی تھی۔ ہتھیلی پرٹھوڑی ٹیک کرخالی الذہن ہوکرمیں دیکھ رہی تھی۔ یہ لکڑی کاپلنگ جس کی نقاشی بہت بھلی لگتی تھی، اس لیے خصوصاً میرے کمرے میں رکھا ہواتھا۔ اس کے سرپربیٹھ کرکھڑکی کے باہرنظر ڈالتی توایک سرے پرموجیں مارتا سمندر نگاہوں میں سماجاتا۔ ان موجوں کواپنی آنکھوں میں سمیٹتی ہوئی میں گھنٹوں گذاردیتی تھی۔ سامنے کے بیدکی کرسی تومیرے سہیلی کی تھی، اسی کے تعاون سے تومیں نے کیٹس اوربائرن سے دوستی کرلی تھی۔
گھنٹوں میں نے اسے گڈکری اورکیشوسوت (مراٹھی کے دومشوہرشاعر) کاکلام سنایاتھا۔ اس کی پیٹھ پرگردن ٹیک کرآسمان میں کئی شکلیں نقش کی تھی۔ وہ کرسی مجھ سے کہہ رہی تھی، ’’بہن ابھی میں جاتی ہوں۔‘‘ ان سب باتوں کا نظارہ ناقابل برداشت ہورہا تھا اوربغیر دیکھے وہاں سے ہٹنا بھی دوبھرتھا۔ لگ رہا تھا کم از کم یہ کرسی توبچائے رکھوں۔ نہیں تووہ پلنگ، یاپھروہ کانچ کاگلاس یا کم از کم بادام پستہ رکھنے کی وہ ٹرے۔۔۔‘‘
’’بھائی صاحب!‘‘ میں نے آوازدی۔
بھائی صاحب نے آہستہ سے میری پیٹھ پرہاتھ پھیرا،‘‘ سب کچھ دوبارہ مل جائے گا اور اس سے بھی اچھا ملے گا۔ آج میرے ہاتھ ہی تھک گئے ہیں پگلی! برا کیوں مان رہی ہے؟‘‘
شطرنجیاں اورتکیے کے ریشمی کورنکالے گئے۔ ایک ایک چیز بہت زیادہ محفوظ طریقے سے قاسم میاں کے ٹرک میں جارہی تھی۔ پیتل کے برتن، ہنڈے سب چیزوں کوٹرک میں جگہ ملی۔ کہنے کے لیے ایک لکشمی کی چاندی کی تصویر رہ گئی۔ قاسم میاں بولے، ’’اسے رہنے دو۔ مجھے پاپ نہیں چاہئے۔ شاید لکشمی دوبارہ اس کے قدموں کی برکت سے آئے گی۔‘‘
کچھ تلاش کرنے کے بہانے بھائی صاحب نے پیٹھ پھیری۔
’’کیاتلاش کررہے ہیں بھائی صاحب؟‘‘
’’کچھ نہیں۔۔۔ میسورمیں لیاہوا سامان بھی دے رہاہوں۔ ایسی آرائش کی چیزیں اونچے دام بکتی ہیں اور اب خالی گھرمیں ایسی ایک دوچیزیں رکھ کر کیافائدہ؟ بلاوجہ کیوں پرانی یادیں تازہ کریں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ میں نے صرف ہنکارا۔ کیونکہ خوبصورت نقاشی کی ہوئی وہ ٹرے میں نے بیگ کی تہہ میں چھپالیاتھا اور دس پندرہ سال تک ویسے ہی حفاطت سے اسے رکھنے والی تھی۔ جھومر، ہنڈیاں، تین کرسیاں، نقش ونگار والے پلنگ، لیکن ایسی ٹرے ملے گی۔ ایساتونہیں۔ اس ٹرے میں بادام، پستہ ڈال کرشیشم کی تپائی پر میں اسے رکھنے والی تھی لیکن ان سب باتوں کامزیددس پندرہ سال تک مجھے کسی کے سامنے اظہار نہیں کرناتھا۔
گھرکھلاکھلالگنے لگا۔ گھرکی صفائی ہوئی۔ عریاں فرشی چٹائی بچھائی گئی۔ سرپرہاتھ رکھ کرلیٹی رہی۔ دل کا درداندرہی اندر اتارتی رہی اورآگے چل کریہی فطرت بن گئی۔ جوکچھ کھویا، اس کا ذکرہم نے پھرکبھی نہیں کیا اورپھروہاں درمیان کے ۶۔ ۵سال ہنڈیاں، جھومریاکشمیری غالیچے دیکھے بغیرگذرگئے۔ میری شادی ہوگئی دل میں آیا، جاتے وقت نئے گھرمیں وہ ٹرے لے جاؤں۔ شایدوہاں وہ سجائی جاسکے۔ جیسے ہی خیال آیا، ویسے ہی میں نے پرانی ٹرنک مالے سے اتاری۔ کپڑوں کے ٹکڑے کتابیں، پھوٹے برتن، ناک ٹوٹے چمچے جلدی جلدی باہرنکالے۔
’’یہ سب بے کاراشیاء کس لیے نکالیں؟‘‘ بھائی صاحب نے پوچھا۔
’’یہ کچرا پھینک دیں۔ ٹرنک صاف کرتی ہوں۔ مجھے لے جانے کے کام آئے گی۔‘‘
’’ارے کتنی پرانی ہے وہ، اس کی تہہ زنگ آلود ہوگئی ہے، کوئی نئی ٹرنک ہی خریدلو۔‘‘
’’پراناسامان خریدنے والے کویہ دے دیں، چارروپے ملے توبھی کافی ہے۔‘‘
میں ٹرنک خالی کررہی تھی۔ بالکل تہہ میں وہ پرانی ساڑی تھی۔ ٹرے لپیٹ کررکھی ہوئی۔ میں نے سرعت سے وہ باہرنکالی۔ مجھے بھائی صاحب کومتعجب بناناتھا لیکن ساڑی ہلکی لگی، یوں ہی لپیٹی ہوئی۔۔۔ میں بوراگئی۔ یہاں وہاں ایک ایک چیزاٹھاکررکھتی رہی۔
’’کیادیکھ رہی ہو؟‘‘ بھائی صاحب نے سردلہجے میں پوچھا۔
’’بھائی صاحب! اس میں ایک ٹرے تھی۔‘‘
’’ہاں تھی۔۔۔ میں نے اسے بیچا۔۔۔‘‘
’’بیچاکیوں؟ میں نے کتنے سال سے سنبھال کررکھا تھا۔۔۔‘‘
’’مجھے معلوم تھا لیکن درمیا ن میں ایک دودفعہ ویسی ہی ضرورت پیش آئی۔ راشن لاناتھا۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔‘‘
مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اس ٹرے میں بادام پستے کے بدلے چاول اوردال بھری دکھائی دے رہی تھی اوراس کے بعد سبزی ترکاری۔ وہ ٹرے سیاہ مائل اورروغنی دکھائی دے رہی تھی۔ اس میں رکھی ہوئی کٹوریاں چپٹی اورمارکھائی ہوئی تھیں۔ میراگلابھرآیا۔ میں نے خود کوسنبھالتے ہوئے کہا، ’’بیچ دیا، اچھاکیا، ورنہ اپنے گھرمیں اس کاکیا استعمال ہوتا؟‘‘
آج اس بات کواتنے سال ہوگئے اوروہم وگمان میں نہ ہوتے ہوئے وہ ٹرے آج مجھے یہاں دکھائی دی تھی۔ اس کی کٹوریاں اسی طرح مختلف سمتوں میں جاچکی ہوں گی، اس کاکسے پتہ تھا؟ ٹرے خریدنے والی محترمہ کو اس کا علم ہی نہ تھا۔ اس نے وہ حیدرآباد کی نمائش میں لی تھیاورمہمانوں کے سامنے سنتروں کی قاشیں ڈال کرسامنے رکھ دی تھی۔ وہ مجھ سے کہہ رہی تھی اس پرکہانی لکھ ڈالئے۔ اس بے چاری کویہ کیامعلوم کہ وہ ٹرے میرے میکے کی تھی۔۔۔ بہت ساری یادوں کوتازہ کرنے والی۔
’’محترمہ! اترتی ہیں نا!‘‘ پہنچانے والے آدمی نے گاڑی کا دروازہ کھول کرمجھ سے کہا۔
’’ہاں شاید گھرآگیا؟ وہ ٹرے لیانا؟‘‘ میں اپنے ہی خیال میں کہنے لگی۔
’’ٹرے؟ کیسی ٹرے؟ وہ دوتین آدمی ایک ساتھ بول اٹھے اورتب مجھے ہوش آیا۔ ایک دم میں نے ایسا کیسے کہا پتہ نہیں۔ میں نے ایک دم شرمندہ ہوکرکہا، ’’معاف کیجئے۔ میرے دماغ میں کچھ الگ ہی خیالات کلبلارہے تھے۔‘‘
’’کس بات کا خیال آتارہتاہے؟ تم ادیبوں کے دماغ میں کب کون سا خیالی آئے گا۔ یہ کہنا مشکل ہے۔ نہیں تو ہم پرہی کچھ لکھ بیٹھیں گے آپ!‘‘ بولنے والا زورسے ہنسنے لگا۔ بقیہ دوآدمیوں نے اس کا ساتھ دیا۔ خاموش رہنابرا محسوس ہونے لگا، اس لیے میں نے ہنسنے کی کوشش کی۔
رات کے دوبجے تھے۔ گھرمیں سکوت تھا۔ میں تھک گئی تھی لیکن نیند نہیں آرہی تھی۔ شاہی شان وشوکت والی وہ ٹرے میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹ نہیں رہی تھی۔ میرے گھر سے قاسم میاں کی دکان، وہاں سے حیدرآباد کی نمائش۔۔۔ وہاں سے محترمہ ’’روز‘‘ کاگھر۔ ان تین مقامات کا اس نے سفرکیاتھا۔ گھر سے نکلی ہوئی وہ خالی ٹرے کبھی میری نظروں کے سامنے آئے گی، ایسا کبھی خیال بھی نہیں آیاتھا۔ آ ج اس پرنظرپڑی اوردل بکھرکررہ گیا۔ گھرسے گئی ہوئی ہرایک چیز اس رات کے اندھیرے میں شکل وصورت لے کرمیرے سامنے کھڑی ہورہی تھی۔ ان سب کی ایسی ہی کہیں درگت بنی ہوگی۔ کسی امیر کے بنگلے میں۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ لیکن اب میں یہ کیوں سوچوں؟ ان سب میں میراپن، ایساگہرائی تک جڑپکڑچکاتھا نا؟ میں ان چیزوں کے لیے تڑپ رہی تھی یا خود اپنے لیے؟
میراسراور بھاری ہوگیا۔ اپنے دل کے سارے خیالات کومحو کرنے کے لیے میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بکریوں کی قطار کھڑی کردی۔ ایک دو۔۔۔ تین چاربکریاں آگے آگے بڑھ رہی تھیں اورمیں اعدادبھول گئی۔ المناک چہروں سے وہ بکریاں مجھ سے کہنے لگیں، ’’ہمیں مت جانے دو۔۔۔ وہ ہمیں کاٹیں گے۔۔۔ کاٹیں گے۔‘‘ میری آنکھوں کے سامنے چھرے کی آب داردھاراورخون کی سرخ لکیرابھرآئی۔ میرادم گھٹنے لگا اور میں اٹھ بیٹھی۔ چٹ پٹ کھڑکیاں کھول دیں۔ پنکھا زور سے جاری کیا۔ ذراٹھنڈا محسوس ہوا توبستر پر درازہوئی۔ لیکن سربھاری ہی تھا۔ عادت کے مطابق پیشانی پر وکس لگایااورآنکھیں بندکرکے بمشکل تمام سونے کی کوشش کی لیکن بند آنکھوں کے سامنے وہ نقش ونگار والی ٹرے گردش کررہی تھی۔ چارجانب پھینکی گئی کٹوریاں میری جانب غصے سے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھیں، ’’ہمیں کیوں الگ کردیا؟ گھرسے کیوں نکال باہر کیا؟ کیوں۔۔۔؟‘‘
میں اٹھ کربیٹھ گئی۔ آنکھوں پرپانی کے چھینٹے مارے اورسامنے کاغذ لے کرلکھنے بیٹھی۔ کٹوریاں۔۔۔ ٹرے۔۔۔ سب نے اپنی اپنی سمت ڈھونڈلی تھی۔۔۔ اورا یک کہانی میں پرونے کے لیے اندر ہی اندرمیرادم گھٹ رہاتھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.