ٹکڑوں میں بٹی عورت
تہمینہ کمرے میں اکیلی تھی۔ سناٹا اندر ہی نہیں باہر بھی تھا۔ نہ کوئی آہٹ، نہ کوئی آواز۔ بس اسی کے کپڑوں کی ہلکی سی سرسراہٹ تھی۔ یا اس کے اپنے دل کی آواز۔ دل کی دھڑکنوں کا شور بتدریج بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔
یہ اس کا حجلۂ عروسی تھا۔
کیا حجلۂ عروسی ایسا ہوتا ہے۔؟
یہ تو کہیں سے بھی ایک نئے بیاہے جوڑے کا کمرہ نہیں لگ رہا تھا۔ یہ ایک ایسے مرد کا رہائشی کمرہ تھا جو کئی برس سے تنہا زندگی گزار رہا تھا۔ یہاں کی ہر شئے اس کی تنہائی کا اعلان کر رہی تھی۔ بیڈ کور کے ہم رنگ تکیہ غلاف۔ نہ کہیں پھولوں کی سیج نظر آ رہی تھی، نہ دور قریب منہ بند کلیوں کی سرگوشیاں تھیں۔ دیوار کے ساتھ کپڑوں کی الماری تھی۔جس کی پالش مدھم ہو چکی تھی۔ دروازوں کے درمیانی پاکھے میں سنگھار میز رکھی تھی۔ جس کا شیشہ دھندھلا، دھندھلا سا تھا۔ کھڑکی کے نیچے لکھنے کی میز تھی جس پر چند کتابیں اور رسائل ترتیب سے رکھے تھے اور ٹیبل لیمپ کی موجودگی سے پتہ چلتا تھا تھا کہ طارق حسن کو پڑھنے کا شوق ہے۔ تنہا انسان عموماً خالی اوقات میں مطالعہ کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جب کوئی بات کرنے والا نہ ہو وقت گزاری کے لئے کتابیں ہی بہترین ساتھی ثابت ہوتی ہیں۔
طارق حسن اس کے شوہر کا نام تھا۔ ایک اجنبی مرد کو حالات نے اس کا شریک سفر بنا دیا تھا اور وہ جس نے اس سے پیار کیا تھا اور ساری زندی ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا۔ اچانک موت کے اندھیروں میں گم ہو گیا تھا۔ حارث سے اس کی شادی ہوئی تو ہر لڑکی کی طرح اس کے دل میں بھی ارمان تھے۔ نئی زندگی کی ابتدا بڑے ہی خوبصورت انداز میں ہوئی تھی۔ حارث کی والہانہ محبت تھی۔ اس کی ہر صبح حارث کی دلنواز مسکراہٹ سے شروع ہوتی تھی اور رات کے پچھلے پہر تک اس کی پیار بھری سرگوشیاں سماعتوں میں رس گھولتیں۔ وہ اس کی رفاقت میں سرشار رہتی اور جدائی کا ہر لمحہ اس کے انتظا رمیں گزارتی اور پھر ان کی زندگی میں زین آ گیا۔ ان کا بیٹا، جس نے ان کے وجود کو اور ان کی زندگی کو مکمل کر کے خوابوں کو حقیقت میں بدل دیا۔
زین کی پہلی سالگرہ انہوں نے بڑی دھوم دھام سے منائی اس رات پہلی بار حارث کے پیٹ میں درد اٹھا۔ پھر اکثر تکلیف رہنے لگی۔ ابتدا میں ہاضمے کی دواؤں اور پین کلر (Pain Killer) سے کام چلایا۔ لیکن جب مستقل تکلیف رہنے لگی اور درد میں اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر کو دکھایا۔ ڈاکٹر بدلتے رہے۔ لیکن فائدے کے آثار نظر نہیں آئے۔ ٹیسٹ ہوئے، الٹراساؤنڈ ہوا۔ تب یہ انکشاف ہوا کہ اسے کینسر ہے۔ ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ آپریشن کر کے کینسر سے متاثرہ حصہ نکال دیا جائے۔ تو مرض جڑ سے ختم ہو جائےگا۔ اسے حارث کی زندگی عزیز تھی۔ وہ آپریشن کے لئے راضی ہو گئی۔ آپریشن بہت کامیاب رہا۔ ڈاکٹروں نے اطمینان دلایا تو اس نے بھی سکھ کی سانس لی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ یہ اطمینان وقتی ہے اور تقدیر دور کھڑی ہنس رہی ہے اور پھر وہ وقت بھی آ گیا۔ جب دواؤں نے بھی اثر کھو دیا اور دعائیں بھی بے تاثیر ہو گئیں۔ حارث اسے اور زین کو تنہا چھوڑ کر آخری سفرپر روانہ ہو گئے۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کا محبوب شوہر اس سے بےوفائی بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ہونی تو ہو کر رہتی ہے۔ نہ زندگی حارث کے اختیار میں تھی اور نہ موت پر کسی کا بس چل سکتا تھا۔ سو وہ بھی زندہ تھی۔ ایک ننھا سا وجود جو خود اس کے سہارے کا محتاج تھا۔ وہ اس کے سہارے عمر کی پرخار راہیں طے کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ آج نہیں توکل یہ ننھا پودہ تناور درخت بن جائےگا اور وہ اس کی چھاؤں میں باقی ماندہ زندگی گزار دےگی۔ زین بھی تو حارث ہی کے وجود کا حصہ ہے۔ لیکن گھر والے ایک کمزور سہارے پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور پھر اب گھر میں رہا ہی کون تھا۔ ابا اس کے بچپن میں ہی گزر گئے تھے۔اماں بھی ان کے پیچھے چلی گئیں۔ ایک بس بڑے بھیا تھے۔ جنہوں نے اسے گلے سے لگا کر تسلی دی اور ہاں بھابھی نے بھی اس کی دلجوئی میں کوئی کمی نہیں کی۔ اپنے بچوں سے زیادہ زین کا خیال رکھا۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ زندگی کا طویل سفر محض زین کے سہارے تو گزرنا مشکل ہوگا۔ وہ اس کا گھر بسانا چاہتے تھے۔ اس نے دبی زبان سے انکار کیا۔ ملازمت کر کے اپنا اور زین کا بوجھ اٹھانے کا وعدہ کیا۔ اسے بھیا اور اور بھابھی کی نیت اور خلوص پر شک نہیں تھا۔ معاشرہ کا رنگ کسی سے چھپا نہیں تھا۔ ہر گھر میں دو ایک کنواری لڑکیاں مناسب ’بر‘ کے انتظار میں بیٹھی۔ سر میں چاندی اترتے دیکھ رہی تھیں۔ ایسے میں کون فرشتہ آسمان سے اتر کر اسے اور زین کو قبول کرتا۔ لیکن بڑے بھیا کی لگن سچی تھی۔ انہوں نے طارق حسن کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ وہ ان کے آفس میں کام کرتے تھے۔سنجیدہ شریف اور سلجھی ہوئی طبیعت کے انسان تھے۔ کسی وجہ سے ان کی شادی ناکام ہو گئی تھی۔ بیوی کو طلاق دے چکے تھے اور شاید مناسب رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے تنہا زندگی گزار رہے تھے۔ بڑے بھیا نے ان سے تہمینہ کے رشتے کی بات چلائی تو وہ راضی ہو گئے۔فی الحال بڑے بھیا نے زین کو مسئلہ نہیں بنایا اور نہ ہی طارق حس نے زین کو لے کر کسی شرط کا اعادہ کیا۔ لیکن تہمینہ کے سامنے سب سے اہم سوال یہی تھا۔ وہ زین کے بغیر رہنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ بڑے بھیا نے اسے سمجھایا۔
’’طارق حسن جانتے ہیں کہ تم ایک بیٹے کی ماں ہو اور ماں اپنی اولاد کے بغیر نہیں رہ سکتی۔‘‘
’’بھیا! آپ کو ان سے صاف صاف بات کر لینا چاہئے۔ اگر انہوں نے زین کو قبول نہیں کیا۔ تو۔ کیا ہوگا؟‘‘
’’کچھ نہیں ہوگا۔ زین ہمارا بیٹا بن کر ہمارے پاس رہےگا اور تمہیں بھی حالات سے سمجھوتا کرنا ہوگا‘‘۔
بڑے بھیا نے اسے تسلی دی۔
’’لیکن بھیا! میں کیسے جیوں گی؟۔ انہیں زین کو اپنانا ہی ہوگا۔ ورنہ میں۔ میں‘‘۔ تہمینہ رو دی۔
’’صبر سے کام لو میری بہن۔ مجھے یقین ہے کہ طارق حسن بھی تمہارے درد کو سمجھیں گے۔‘‘ پھر ہم کون سا دور ہیں۔ تم آتی جاتی رہنا اور میرے خیال میں ابھی زین کو ساتھ لے جانا مناسب نہیں ہوگا۔ شروع کے کچھ دن طارق حسن کو بھی ازدواجی زندی کی خوشیاں سمیٹنے کا موقع دو۔ انشاء اللہ رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہو جائےگا‘‘۔
بھابھی نے بھی سمجھایا۔ وہ بھیا کی خوشامد ہی کر سکتی تھی۔ زور زبردستی، یا ضد بحث تو کر نہیں سکتی تھی۔
والدین زندہ ہوتے تو وہ پورے حق سے میکے میں رہ سکتی تھی۔ اپنے ڈھب سے زندگی گزار سکتی تھی مجبوراً اسے بھیا کی بات ماننا پڑی۔ وہ جب طارق حسن کے ساتھ رخصت ہوئی تو زین سو رہا تھا۔ سوئے ہوئے زین کو پیار کرکے وہ بہت روئی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی روح جسم سے نکل کر زین کے پاس رہ گئی ہے اور وہ ایک بے روح جسم لے کر طارق حسن کے ساتھ جا رہی ہے۔ یہ بھی سماج کا ایک المیہ ہے کہ ایک کنواری لڑکی کو بڑی آسانی سے پلے پلائے بچوں کی ماں بنا دیا جاتا ہے۔ لیکن مرد غیر کے بچے کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہ مجبور نہیں ہوتا اور عورت مجبور ہوتی ہے یا بنا دی جاتی ہے۔ لیکن ممتا تو مجبور نہیں ہوتی۔ وہ بھی اس وقت طارق حسن کے گھر میں بیٹھ کر زین کو یاد کر رہی تھی۔
دروازہ کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز سن کر وہ چک گئی۔ طارق حسن اندر آ گئے تھے۔ ان کے سوا اس گھر میں کوئی تھا بھی نہیں۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ ان کی آمد کا یقین ہونے کے باوجود نہ تو اس کے دل کی دھڑکنیں ہی بے ترتیب ہوئیں اور نہ آنکھوں میں شوق دید کے چراغ روشن ہوئے۔ اس کا جسم و جان لطیف جذبوں سے یکسر خالی تھے۔ یہ گھڑیاں آرزوؤں سے بےنیاز تھیں۔ بس ایک سمجھوتہ تھا اور سمجھوتہ وہیں ہوتا ہے، جہاں مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اسے ان کا انتظار بھی نہیں تھا۔ کیوں کہ انہیں تو آنا ہی تھا۔ اس نے ان کی گفتگو سنی۔ طارق حسن نے بھی اسے رنگین سپنے نہیں دکھائے۔ کم از کم وہ حارث سے ان کا مواز نہ کرنے کے تکلیف دہ عمل سے بچ گئی۔ حارث جیسا تو کوئی ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ پھر مواز نہ کیسا؟‘‘۔
یہ رات بغیر کسی جذباتی ہلچل کے گزر گئی۔ اس نے اندازہ لگایا کہ طارق حسن اچھے انسان ہیں۔ سلجھی ہوئی نرم طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل نہیں ہوگا۔ اس رات نہ انہوں نے اپنی بیوی نغمہ کا تذکرہ کیا اور نہ ہی حارث کے بارے میں کچھ پوچھا۔ اس طرح وہ ایک کڑے امتحان سے بچ گئی۔ اس کے لئے وہ طارق حسن کی ممنون تھی۔ ان کی ذراسی لاپرواہی سے اس کے زخموں کے منہ کھل سکتے تھے۔ ان کی احتیاط پسندی سے ان زخموں کے کھرنڈ جیوں کے تیوں رہے۔ بڑے بھیا نے مشورہ دیا تھا کہ وہ فی الحال طارق حسن کے پاس ہی رہے۔ گھر آنے سے کچھ دن احتراز کرے۔ ایسا انہوں نے زین کے خیال سے کہا تھا۔ معصوم بچہ ماں سے الگ ہونا پسند نہ کرتا اور اسے بھی روتے ہلکتے ہوئے بچے کو چھوڑ کر واپس جاتے ہوئے تکلیف ہوتی۔ اگر بار بار یہ عمل دہرایا جاتا تو ان دونوں کے لئے مشکل پیدا ہو جاتیں۔ خود وہ بھی اس سخت امتحان سے بار بار گزرنے کے حق میں نہیں تھی۔ اپنی کمزوریوں سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔ اب جکہپ ایک فیصلہ ہو ہی گیا تھا۔ تو اس سے انحراف کرنے سے نقصان ہی تھا، لیکن وہ بڑے بھیایا بھابھی کو فون کر کے زین کی خیریت تو معلوم ہی کر سکتی تھی۔ گھر میں فون نہیں تھا۔ طارق حسن کے پاس موبائل تھا۔ لیکن وہ ان سے مانگنا نہیں چاہتی تھی۔ حالانکہ اگر وہ ان سے اجازت لے کر ان کا موبائل استعمال کرتی تو وہ منع نہ کرتے۔ لیکن وہ ان پر اپنی کمزوری ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کہ وہ ان کے پاس آ تو گئی ہے۔ لیکن اپنی روح وہیں چھوڑ آئی ہے۔ زین کو مسئلہ بنانا اسے پسند نہیں تھا۔ زین اس کا ذاتی مسئلہ تھا اور اسے امید تھی کہ ایک دن یہ مسئلہ ضرور حل ہو جائےگا۔
طارق حسن نے چند دن کی چھٹی لے رکھی تھی۔ چھٹی ختم ہو گئی تو وہ آفس جانے لگے۔ ابھی تک وہ گھر سے باہر نہیں نکلی تھی۔ اس دن وہ پہلی بار گھر سے باہر نکلی اور قریبی پی سی او سے گھر فون کیا۔ فون بھابھی نے اٹھایا تھا۔ بھابھی کے ’ہیلو‘ کہتے ہی اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ کمزور آواز میں کہا۔
’’بھابھی۔ میں تہمینہ بول رہی ہوں۔‘‘
’’ارے تہمینہ تم! شکر ہے کہ اتنے دن کے بعد سہی، تمہیں فون کرنے کا خیال تو آیا۔؟‘‘ بھابھی نے شکوہ کیا۔
’’سوری بھابھی۔ دراصل گھر میں فون نہیں ہے۔ آج طارق کے آفس جانے کے بعد میں قریبی پی سی اوسے فون کر رہی ہوں‘‘۔
’’اوہ یہ بات ہے۔ وہی تو میں سوچ رہی تھی کہ تم نے فون کیوں نہیں کیا۔‘‘
’’بھابھی! زین کیسا ہے؟‘‘۔
’’مزے میں ہے‘‘۔
’’روتا تو نہیں ہے؟‘‘۔
’’بھئی رونا تو فطری بات ہے‘‘۔ لیکن بس کسی کسی وقت جب کوئی بات اس کی مرضی کے خلاف ہوتی ہے‘‘۔
’’آپ کو تنگ تو نہیں کرتا بھابھی؟‘‘۔
’’خوب تنگ کرتا ہے۔‘‘ بھابھی کی ہنسی کی آواز سن کر اس کا دل بھر آیا۔ پھر اس نے ڈرتے ڈرتے وہ سوال کیا۔ جو وہ سب سے پہلے کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
’’کیا وہ مجھے یاد کرتا ہے بھابھی؟‘‘۔
’’ہاں۔ بہت یاد کرتا ہے‘‘۔ بھابھی کی آواز دھیمی ہو گئی۔
’’لیکن ہم اسے بہلا لیتے ہیں۔ بچہ ہی تو ہے فوراً بہل جاتا ہے‘‘
’’میں آنا چاہتی ہوں‘‘۔ لیکن۔‘‘
’’جب چاہو آ سکتی ہو۔ تمہیں منع کس نے کیا ہے؟‘‘۔
’’شکریہ بھابھی۔ لیکن بھیا شاید اجازت نہ دیں‘‘
’’ارے پگلی! یہ تمہارا گھر ہے اور اپنے گھر آنے کی اجازت کیسی؟
میں تمہارے بھیا کو سمجھاؤں گی۔ لیکن ایک شرط ہے‘‘۔
’’کیسی شرط؟‘‘۔ وہ الجھ گئی۔
’’تم زین کے لیے پریشان نہیں ہوگی‘‘۔
’’جی‘‘۔ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔
’’پھر کب آؤگی؟‘‘۔
’’کل جب طارق آفس جائیں گے تو ان سے کہوں گی کہ مجھے گھر چھوڑتے ہوئے جائیں اور واپسی میں لے آئیں‘‘۔
’’ہاں یہ ٹھیک رہےگا۔ تم اطمینان سے پورے دن رہ سکتی ہو‘‘
’’اچھا بھابھی۔ پھر کل ملاقات ہوگی۔ بھیا کو سلام کہئےگا‘‘۔
’’خدا حافظ‘‘۔ بھابھی نے فون بند کر دیا۔
تہمینہ گھر واپس آئی تو بہت خوش تھی۔ زین کو دیکھنے اور اسے چھاتی سے لگا کر پیار کرنے کا خیال اسے سرشار کر رہا تھا۔ گھر کے روز مرہ کے کام نمٹاتے ہوئے وہ زین ہی کے بارے میں سوچتی رہی۔
اگلے دن جب طارق حسن آفس جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے تو اس نے دبی زبان سے کہا۔
’’آفس جاتے ہوئے مجھے گھر چھوڑ دیں‘‘
’’ٹھیک ہے تم تیار ہو جاؤ اور ہاں واپس کیسے آؤگی؟‘‘۔
آفس سے واپسی میں لے لیجئےگا‘‘۔
’’یہ بھی ٹھیک ہے‘‘۔
طارق حسن نے کسی بحث کے بغیر اس کی بات مان لی تو اسے خوشی ہوئی۔ وہ جھٹ پٹ تیار ہو گئی۔ پھر تو یہ اس کا معمول ہو گیا کہ وہ طارق کے ساتھ گھر جاتی اور دفتر سے واپسی میں وہ اسے ساتھ لے کر آتے۔ تہمینہ بہت خوش رہتی تھی۔ زین کے ساتھ چند گھنٹے گزارنا اس کے لئے کسی بیش بہا خزانے کے حصول جیسی مسرت بخشنا تھا اور اب تو زین بھی اس کے آنے جانے کا عادی ہو گیا تھا اور اس کی واپسی پر زیادہ ضد نہیں کرتا تھا۔ وہ کچھ کھوئی، کھوئی سی تھی۔آفس کی چھٹی کی وجہ سے وہ زین کے پاس نہیں جا سکتی تھی اور اس کے لئے اسے کل تک انتظار کرنا تھا۔ طارق حسن نے کسی کام کے لئے اسے آواز دی تو وہ خیالوں میں ایسا گم تھی کہ سن نہ سکی۔ طارق کو اٹھ کر آنا پڑا۔ ان کے مخاطب کرنے پر وہ چونک گئی۔
’’میں یہ کہہ رہا تھا کہ آج آپ ذرا فرصت نکال کر میرے کپرے چیک کر لیجئے۔ کئی قمیضوں کے بٹن ٹوٹ گئے ہیں اور لانڈری میں دینے والے کپڑے لانڈری بیگ میں ڈال دیجئے، میں دھلنے کے لئے دے دوں گا۔‘‘
’’جی بہتر ہے‘‘ تہمینہ شرمندہ ہو گئی۔ کہ اس نے کب سے ان کے کپڑوں پر توجہ نہیں دی اور انہیں اسے یاد دلانا پڑا۔
’’آج ذرا آپ کام والی سے اپنی نگرانی میں صفائی کرائیےگا۔ خاص طور سے ڈرائینگ روم کی۔ کافی گندہ ہو رہا ہے‘‘۔
طارق حسن نے ساری باتیں بہت نرم لہجے میں کہی تھیں، نہ غصہ، نہ شکایت، لیکن کہیں نہ کہیں اس کی لاپرواہی کا احساس ضرور دلایا تھا۔ ورنہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اس کے روز روز جانے کی وجہ سے گھر چوپٹ ہو رہا ہے۔ اگر وہ شکایت کرتے تو کچھ ایسا غلط نہیں ہوتا۔ اس رات پہلی بار انہوں نے اپنی بیوی نغمہ کے بارے میں بتایا۔ خاص طور پر اس کے پھوہڑ پن اور لاپرواہی کا ذکر بڑے تلخ لہجے میں کیا اور بہت حلیمی سے مشورہ دیا۔
’’تہمینہ! مجھے آپ کے میکے جانے پر اعتراض نہیں ہے۔ لیکن روز کا یہ معمول اس لحاظ سے مناسب نںیب ہے کہ آپ گھر کو نظر انداز کر کے وہاں جائیں، میرا خیال ہے کہ آپ میری بات سمجھ گئی ہوں گی۔
’’جی‘‘! تہمینہ نے بھاری آواز میں کہا۔ دل میں شکوہ کیا کہ وہ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ وہ صرف زین کی وجہ سے دوڑ دوڑ کر جاتی ہے۔ پھر بھی شکایت کرنے سے باز نہیں رہ سکے۔ اگر زین ان کا اپنا بچہ ہوتا۔ تو وہ کبھی ایسا نہ کہتے۔ لیکن زین تو اس کا اور حارث کا بیٹا ہے اس لئے وہ بڑی بے رحمی سے اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ انہیں اس کی ممتا کی تڑپ کا بھی احساس نہیں ہے۔ اسے نہیں لگتا کہ وہ کبھی زین کو اپنائیں گے۔
دوسرے دن وہ گھر کے کاموں میں مصروف رہی۔ طارق حسن آفس چلے گئے اور اس سے ایک بار بھی ساتھ چلنے کے لئے نہیں کہا۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ اس کا روز کا آنا جانا پسند نہیں کرتے۔ ورنہ وہ جھوٹوں کہہ سکتے تھے کہ وہ کیوں نہیں جا رہی ہے۔؟
اس روز وہ الجھی الجھی سی رہی۔ زین کا خیال اسے تڑپا رہا تھا۔ یہ سوچ کر اسے رونا آ گیا کہ وہ اس کا انتظار کر رہا ہوگا اور جب اسے نہیں پائےگا تو اس کا ننھا سا دل ٹوٹ جائےگا۔ دوپہر میں وہ قریبی ’پی سی او‘ گئی اور بھابھی سے بات کی۔ اس کا پہلا سوال یہی تھا ‘‘زین کیسا ہے مجھے یاد کرکے رویا تو نہیں؟‘‘، ’’یاد بھی کیا اور رویا بھی۔ لیکن ہم نے اسے بہلا لیا‘‘۔
بھابھی نے اسے تسلی دی۔
’’کیا بات ہے آج تم آئیں کیوں نہیں؟۔‘‘
بھابھی سے سوال کیا۔
’’گھر میں کام زیادہ تھا اس لئے۔‘‘ اس نے بہانہ کیا۔
’’طارق حسن نے تو کچھ نہیں کہا؟۔‘‘
’’ارے نہیں بھابھی۔ ایسی بات نہیں ہے وہ تو میں خود ہی‘‘۔
دو چار باتیں کر کے اس نے فون بند کر دیا۔ لیکن اس کا دل بھاری ہو رہا تھا۔ پھر کئی دن اس کی یہی کیفیت رہی۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہو رہا تھا آخر ایک دن طاری حسن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور سخت لہجے میں اسے سرزنش کی۔
’’یہ آپ کہاں کھوئی رہتی ہیں تہمینہ؟۔ کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا اور آپ۔۔۔؟‘‘
’’سوری‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’کیا سوری؟۔ دراصل غلطی میری ہے۔ مجھے یہ بات پہلے ہی سمجھ لینا چاہئے تھی کہ آپ اپنے بیٹے کے بغیر خوش نہیں رہ سکتیں۔‘‘
’’ایسی بات نہیں ہے‘‘۔
اس نے صفائی میں کچھ کہنا چاہا۔ لیکن طارق حسن نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’آپ ٹکڑوں میں بٹی عورت ہیں اور میں ایک مکمل بیوی چاہتا ہوں۔ ایسی شریک حیات جو سرتاپا میری ہو۔
جو اس گھر کو اپنا گھر سمجھے۔ لیکن آپ؟ ۔۔خیر ہم ابھی آپ کے گھر چل رہے ہیں۔‘‘
طارق حسن نے اس کی بانہہ تھام لی۔ اس نے گھبرا کر طارق حسن کی صور ت دیکھی۔
’’زین کو لینے۔ اب وہ یہیں ہمارے پاس رہےگا‘‘۔
طارق حسن نے اسے اپنا فیصلہ سنا دیا اور تہمینہ ان کے بازو سے لپٹ کر رودی۔ آج وہ مکمل ہو گئی تھی۔ طارق حسن مسکرا رہے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.