تلا دان
دھوبی کے گھر کہیں گورا چٹا چھوکرا پیدا ہو جائے تواس کا نام بابو رکھ دیتے ہیں۔ سادھورام کے گھر بابو نے جنم لیا اور یہ صرف بابو کی شکل و صورت پر ہی موقوف نہیں تھا، جب وہ بڑا ہوا تو اس کی تمام عادتیں بابوؤں جیسی تھیں۔ ماں کو حقارت سے ’اے یو‘ اور باپ کو ’چل بے‘ کہنا اس نے نہ جانے کہاں سے سیکھ لیا تھا۔ وہ اس کی رعونت سے بھری ہوئی آواز، پھونک پھونک کر پاؤں رکھنا، جوتوں سمیت چوکے میں چلے جانا، دودھ کے ساتھ بالائی نہ کھانا، سبھی صفات بابوؤں والی ہی تو تھیں۔ جب وہ تحکمانہ انداز سے بولتا اور چل بے کہتا۔ تو سادھورام۔’’خی خی۔بالکل بابو، کہہ کر اپنے زرد دانت نکال دیتا اور پھر خاموش ہو جاتا۔
بابو جب سکھ نندن، امرت اور دوسرے امیر زادوں میں کھیلتا تو کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ یہ اس مالا کا منکا نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایشور نے سب جیو جنتو کو ننگا کر کے اس دنیا بھیج دیا ہے۔ کوئی بولی ٹھولی نہیں دی۔ یہ نادار لکھ پتی، مہا براہمن، بھنوٹ، ہریجن، لنگوا فرنیکا سب کچھ بعد میں لوگوں نے خود ہی ایجاد کیا ہے۔
بدھئی کے پُروا میں سکھ نندن کے ماں باپ کھاتے پیتے آدمی تھے اور سادھورام اور دوسرے آدمی انھیں کھاتے پیتے دیکھنے والے۔سکھ نندن کا جنم دن آیا تو پُروا کے بڑے بڑے نیتا گگن دیو بھنڈاری، ڈال چند، گنپت مہا براہمن وغیرہ کھانے پر مدعو کیے گئے۔ ڈال چند اور گنپت مہا براہمن دونوں موٹے آدمی تھے اور قریب قریب ہر ایک دعوت میں دیکھے جاتے تھے۔ ان کی ابھری ہوئی توند کے نیچے پتلی سی دھوتی میں لنگوٹ، بھاری بھرکم جسم پر ہلکا سا جنیؤ، لمبی چوٹی، چندن کا ٹیکا دیکھ کر بابو جلتا تھا، اور بھلا یہ بھی کوئی جلنے کی بات تھی۔ شاید ایک ننّھا سا نازک بدن بابو بننے کے بعد انسان ایک بد زیب بے ڈول سا پنڈت بننا چاہتا ہے۔ اور پنڈت بننے کے بعد ایک پست ضمیر گناہ گار انسان اور اچھوت۔ ڈال چند اور گنپت مہا براہمن کے چلن کے متعلق بہت سی باتیں مشہور تھیں۔ یہ انسانی فطرت کی نیرنگی ہر جگہ کرشمے دکھاتی ہے۔
بابو نے دیکھا، جہاں بھنڈاری اور مہا براہمن، بھنوٹ آئے ہوئے تھے، وہاں عمداں مراثن، ہرکھُو، جڑئی دادا کارندے اور دو تین جھوٹی پتّلیں اور دونے اٹھانے والے جھیور بھی دکھائی دے رہے تھے۔ جب دس پندرہ آدمی کھانے سے فارغ ہو جاتے تو جھیور پتّلوں اور دونوں سے بچی کھچی چیزیں ایک جگہ اکٹھی کرتے۔ جمعدارنی صحن میں ایک جگہ چادر کا ایک پلّو بچھائے بیٹھی تھی۔ وہ سب بچی کھچی چیزیں، حلوہ، دال، توڑے ہوئے لقمے، پکوڑیاں، ملے ہوئے آلو مٹر اور چاول اس بچھی ہوئی چادر یا ایلومینیم کے ایک بڑے سے زنگ آلودہ تسلّے میں ڈال دیتے۔ اس کے سامنے سب چیزیں کھچڑی دیکھ کر بابو نہ رہ سکا۔ بولا، ’’جمعدارنی۔ کیسے کھاؤ گی یہ سب چیزیں؟‘‘ جمعدارنی ہنس پڑی، ناک سکیڑتی ہوئی بولی۔ ’’جیسے تم روٹی کھاتے ہو۔‘‘
اس عجیب اور سادہ سے جواب سے بابو کی رعونت کو ٹھیس لگی۔ بولا ’’کتنی ناسمجھ ہو تم۔ اتنی سی بات نہ سمجھیں۔ تبھی تو تم لوگ جوتوں میں بیٹھنے کے لائق ہو۔‘‘ حلال خوری کی اکڑ زبان زد عوام ہے۔ ماتھے پر تیور چڑھاتے ہوئے جمعدارنی بولی، ’’اور تم تو عرش پر بیٹھنے کے لائق ہو۔ہے نا؟‘‘
’’یوں ہی خفا ہو گئیں تم تو۔‘‘ بابو بولا، ’’میرا مطلب تھا۔ سالن میں حلوہ، پکوڑیوں میں آلومٹر، پلاؤ میں فرنی، یہ تمام چیزیں کھچڑی نہیں بن گئیں کیا؟‘‘
جمعدارنی نے کوئی جواب نہ دیا۔
بھنڈاری اور مہا براہمن کو اچھی جگہ پر بٹھایا گیا۔ وہ سادھوؤں کی سی رودرکش کی مالا گلے میں ڈالے کنکھیوں سے بار بار عمداں اور جمعدارنی کی طرف دیکھتے رہے۔ عمداں، جمعدارنی کے قریب ہی بیٹھی تھی۔ ہرکھُو، جڑئی، دادا دھوپ میں بیٹھے ہوئے کھاتے پیتے آدمیوں کا منھ دیکھ رہے تھے۔ کب وہ سب کھاچکیں تو انھیں بھی کچھ میسّر ہو۔ بابو نے دیکھا، عمداں کے قریب ہی ایندھن کی اوٹ میں اس کی اپنی ماں بیٹھی تھی۔ اس کے قریب برتن مانجھنے کے لیے راکھ اور نیم سوختہ اوپلے پڑے تھے اور راکھ سے اس کا لہنگا خراب ہو رہا تھا۔ قمیص بھی خراب ہو رہی تھی۔ خیر! قمیص کی تو کوئی بات نہ تھی۔ وہ تو کسی کی تھی اور دھلنے کے لیے آئی تھی۔ ایک دفعہ دھوکر بابو کی ماں نے پہن لی، تو کچھ بگڑ نہیں گیا۔ پرماتما بھلا کرے بادلوں کا کہ ان ہی کی مہربانی سے ایسا موقع میسّر ہوا۔
جب اپنے دوست سکھی نندن کو ملنے کے لیے بابو نے آگے بڑھنا چاہا تو ایک شخص نے اسے چپت دکھا کر وہیں روک دیا۔ اور کہا۔ ’’خبردار! دھوبی کے بچے۔دیکھتا نہیں کدھر جا رہا ہے۔‘‘ بابو تھم گیا۔ سوچنے لگا ۔ کہ اس کے ساتھ لڑے یا نہ لڑے۔ جھیور کا تنومند جسم دیکھ کر دب گیا اور یوں بھی وہ ابھی بچہ تھا۔ بھلا اتنے بڑے آدمی کا کیا مقابلہ کرے گا۔ اس نے ایک اداس اچٹتی ہوئی نظر سے اچھی جگہ بیٹھ کر کھانے والوں اور نیم سوختہ اوپلوں کی راکھ اور جوتوں میں پڑے ہوئے انسانوں کو دیکھا۔ اور دل میں کہا، اگرچہ سب ننگے پیدا ہوئے ہیں، مگر ایک کارندے اور براہمن میں کتنا فرق ہے۔
پھر دل میں کہنے لگا۔ سکھ نندن اور بابو میں کتنا فرق ہے، اور ہلکی سی ایک ٹیس اس کے کلیجہ میں اٹھی۔ حقیقت تو بابو کے سامنے تھی۔ مگر اتنی مکروہ شکل میں کہ وہ خود اسے دیکھنے سے گھبراتا تھا۔ بابو دل ہی دل میں کہنے لگا۔ ہم لوگوں کے وجود ہی سے تو یہ لوگ جیتے ہیں۔ دن کی طرح اجلے اجلے کپڑے پہنتے ہیں۔‘‘ دراصل بابو کو بھوک لگ رہی تھی۔ وہی پکوڑیوں، حلوہ مانڈے کے خیال میں۔ مکروہ حقیقت تو کیا وہ اپنے وجود سے بھی بے نیاز ہو گیا۔ گرم گرم پوریوں کی صبر آزما خوشبو اس کے دماغ میں بسی جا رہی تھی۔ اچانک اس کی نظر عمداں پر پڑی۔ عمداں کی نظر بھی ٹوکری میں گھی میں بسی ہوئی پوریوں کے ساتھ ساتھ جاتی تھی۔ جب سکھ نندن کی ماں قریب سے گزری تو اس کو متوجہ کرنے کے لیے عمداں بولی، ’’ججمانی۔ ذرا حلوائی کو ڈانٹو تو۔اے دیکھتیں نہیں۔ کتنا گھی بہہ رہا ہے جمین (زمین) پر۔‘‘ ججمانی کڑک کر بولی، ’’ارے او کشنو۔ حلوائی کو کہنا۔ ذرا پوریاں کڑاہی میں دبائے رکھے۔‘‘
بابو ہنسنے لگا۔ عمداں کچھ شرمندہ سی ہو گئی۔ بابو جانتا تھا کہ عمداں وہ سب باتیں محض اس وجہ سے کہہ رہی ہے کہ اس کا اپنا جی پوریاں کھانے کو بہت چاہتا ہے۔ گو ججمانی کی توجہ کو کھینچنے والے فقرے سے اس کی خواہش کا پتہ نہیں چلتا۔ وہ متعجب تھا اور سوچ رہا تھا کہ جس طرح اس نے عمداں کے ان غیر متعلق لفظوں میں چھپے ہوئے اصلی مطلب کو پالیا ہے، کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ اس کی خاموشی میں کوئی اس کی بات کو پالے۔ آخر خاموشی گفتگو سے زیادہ معنی خیز ہوتی ہے۔
اس وقت سکھ نندن تل رہا تھا۔ خوبصورت ترازو کے ایک پلڑے میں چاروں طرف دیکھ مسکراتا جا رہا تھا۔ دوسری طرف گندم کا انبار لگا تھا۔ گندم کے علاوہ چاول باسمتی، چنے، اڑد، موٹے ماش اور دوسری اس قسم کی اجناس بھی موجود تھیں۔ سکھ نندن کو تول تول کر لوگوں میں اجناس بانٹی جا رہی تھیں۔ بابو کی ماں نے بھی پلّو بچھایا۔ اسے گندم کی دھڑی مل گئی۔ وہ سکھ نندن کی درازیِ عمر کی دعائیں مانگتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔ بابو نے نفرت سے اپنی ماں کی طرف دیکھا ۔گویا کہہ رہا ہو، چھی! تمھیں کپڑوں کی دھلائی پر قناعت ہی نہیں، تبھی تو ہر ایک کی میل نکالنے کا کام ایشور نے تمھارے سپرد کر دیا ہے، اور تم بھی جمعدارنی کی طرح جوتوں میں بیٹھنے کے لائق ہو۔ تمھاری کوکھ سے پیدا ہو جانے والے بابو کو چلچلاتی دھوپ میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ آگے بڑھنے پر لوگ اسے چپت دکھاتے ہیں۔ ہائے! تیری یہ پھٹی ہوئی، بے قناعت آنکھیں، گندم سے نہیں قبر کی مٹی سے پُر ہوں گی۔ قریب سے ماں گزری تو بابو بولا۔ ’’اے بُو!‘‘
پھر سوچنے لگا۔ رام جانے میرا جنم دن کیوں نہیں آتا۔ میری ماں مجھے کبھی نہیں تولتی۔ جب سُکھ نندن کو اس کے جنم دن کے موقع پر تول کر اجناس کا دان کیا جاتا ہے، تو اس کی سبھی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔ اسے سردی میں برف سے زیادہ ٹھنڈے پانی اور گرمیوں میں بھیجا جلا دینے والی دھوپ میں کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔ بالوں میں لگانے کے لیے خاص لکھنؤ سے منگوایا ہوا آملے کا تیل ملتا ہے۔ جیب پیسوں سے بھری رہتی ہے۔ بخلاف اس کے میں تمام دن صابن کی جھاگ بناتا رہتا ہوں۔ سُکھ نندن اس لیے صابن کے بلبلوں کو پسند کرتا ہے کہ وہ بلبلے اور ان میں چمکنے والے رنگ اسے ہر روز نہیں دیکھنے پڑتے، یوں کپڑے نہیں دھونے ہوتے۔سکھی کی دنیا کو کتنی ضرورت ہے۔ خاص کر اس کے ماں باپ کو۔ میرے ماں باپ کو میری ذرا بھی ضرورت نہیں ۔ورنہ وہ مجھے بھی جنم دن کے موقع پر یوں ہی تولتے۔ اور جب سے ننھی پیدا ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں بلا ضرورت دنیا میں بھی کوئی پیدا نہیں ہوا۔ یہ باتھو، جو نالی کے کنارے اگ رہا ہے، بظاہر ایک فضول سا پودا ہے۔ جب اس کی بھجیا بنتی ہے تو مزا ہی آ جاتا ہے۔ اور پوریاں! بابو کی ماں نے آواز دی، ’’بابو۔ارے او بابو۔‘‘
اس وقت سکھ نندن، بابو کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اب بابو کو امید بندھی کہ وہ خوب ضیافت اڑا سکے گا۔ بابو اس چبھنے والی دھوپ کو بھی بھول گیا جو برسات کے بعد تھوڑے عرصہ کے لیے نکلتی ہے اور اسی عرصہ میں اپنی تب و تاب ختم کر دینا چاہتی ہے۔ اس نے ماں کی آواز پر کان نہ دھرا اور کان دھرتا بھی کیوں؟ ماں کو اس کی کیا ضرورت تھی۔ ضرورت ہوتی تو وہ اس کا جنم دن نہ مناتی۔ وہ تو شاید اس دن کو کوستی ہو گی جس دن وہ پیدا ہو گیا۔ اگرچہ باتھو کی بھجیا بڑی ذائقہ دار ہوتی ہے۔
’’بابو۔ ارے او بابو کے بچے۔ آتا کیوں نہیں؟‘‘ بابو کی ماں کی آواز آئی۔ ’’بابو جاؤ۔ابھی میں نہیں آسکتا۔‘‘ سکھ نندن نے کہا۔ اور پھر ایک مغرورانہ انداز سے اپنے زر دو خستہ کوٹ اور بابو کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ ’’کل آنا بھائی۔دیکھتے نہیں ہو، آج مجھے فرصت ہے؟ جاؤ۔‘‘
عمداں کو پوریاں مل گئی تھیں۔ وہ ججمانی کو فرشی سلام کر رہی تھی۔ بابو نے سوچا تھا کہ شاید مسکراتا ہوا سکھی نندن اس کی خاموشی میں اس کے من کی بات پالے گا۔ مگر سکھ نندن کو آج بابو کا خیال کہاں آتا تھا۔ آج ہر چھوٹے بڑے کو سکھی کی ضرورت تھی۔ لیکن سکھی کو کسی کی ضرورت نہ تھی۔ اپنی عظمت اور بابو کے سادہ اور بوسیدہ، ٹاٹ کے سے کپڑوں کو دیکھ کر وہ شاید اس سے نفرت کرنے لگا تھا۔ اپنی عدیم الفرصتی کا اظہار کرتے ہوئے اس نے گویا بابو کی رہی سہی رعونت کو مٹی میں ملادیا۔ پھر بابو کی ماں کی کرخت آواز آئی، ’’بابو۔تیرا ستیا ناس، طون (طاعون) مارے۔ گھُس جائے تیرے پیٹ میں ماتا کالی۔ آتا کیوں نہیں۔ دو سو کپڑے پڑے ہیں۔ لمبر گیر نے دالے۔ میں تو رو رہی ہوں تیری جان کو۔‘‘
بابو کو یہ محسوس ہوا کہ نہ صرف سکھ نندن نے اس کے جذبات کو ٹھیس لگائی ہے اور وہ اس کے ساتھ کبھی نہیں کھیلے گا، بلکہ اس کی ماں ،جس کے پیٹ سے وہ ناحق پیدا ہوا تھا، وہی عورت جس سے اسے دنیا میں سب سے زیادہ پیار کی توقع ہے، وہ اس سے ایسا سلوک کرتی ہے۔ کاش! میں اس دنیا میں پیدا ہی نہ ہوتا۔ اگر ہوتا تو یوں بابو نہ ہوتا۔ میری مٹی یوں خراب نہ ہوتی۔ آخر میں سکھی سے شکل اور عقل میں بڑھ چڑھ کر نہیں؟
سکھ نندن کے جنم دن کو ایک مہینہ ہو گیا۔ تُلا دان کو آئی ہوئی گندم پسی۔ پس کر اس کی روٹی بنی۔ بابو کے ماں باپ نے کھائی۔ مگر بابو نے وہ روٹی کھانے سے انکار کر دیا۔ جتنی دیر تلا دان کا آٹا گھر میں رہا، وہ روٹی اپنے چچا کے ہاں کھاتا رہا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ جس طرح مانگے تانگے کی چیزیں کھا کھا کر اس کے ماں باپ کی ذہنیت غلامانہ ہو گئی ہے، وہ روٹی کھا کر اس میں بھی وہ بات آ جائے۔ گاڑھے پسینہ کی کمائی ہوئی روٹی سے تو دودھ ٹپکتا ہے۔ مگر حرام کی کمائی سے خون۔ اور غلامی خون بن کر اس کے رگ و ریشہ میں سما جائے، یہ کبھی نہ ہو گا۔ سادھو رام حیران تھا۔ بابو کی ماں حیران تھی۔ چچا جس پر اس کی روٹی کا بوجھ جبراً پڑ گیا تھا، حیران تھے۔ چچی ناک بھوں چڑھاتی تھی، اور جب گھر میں اس انوکھے بائیکاٹ کا چرچا ہوتا تو سادھورام یکدم کپڑوں پر ’’لمبرگیر نے‘ چھوڑ دیتا اور زرد زرد دانت نکالتے ہوئے کہتا، ’’خی خی۔ بابو ہے نا۔‘‘
سکھ نندن نے اب بابو میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھی۔ بابو جس کا کام سے جی اچاٹ رہتا تھا، اب دن بھر گھاٹ پر اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا۔ بابو اب اس کے ساتھ نہیں کھیلتا تھا۔ ہریا کے تالاب کے کنارے ایک بڑی سی کروٹن چپل پر وہ اور اس کے دو ایک ساتھی اسکول کے وقت کے بعد ’کان پتہ‘ کھیلا کرتے تھے۔ اب وہ جگہ بالکل سونی پڑی رہتی تھی۔ قریب بیٹھے ہوئے ایک سادھو جن کی کٹیا میں بچے اپنے بستے رکھ دیتے تھے۔ کبھی کبھی چرس کا ایک لمبا کش لگاتے ہوئے پوچھ لیتے۔ ’’بیٹا! اب کیوں نہیں آتے کھیلنے کو۔‘‘ اور سکھی نندن کہتا ۔ ’’بابو ناراض ہو گیا ہے باوا۔‘‘ پھر مہاتما جی ہنستے اور چرس کا ایک دم الٹا دینے والا کش لگاتے اور کھانستے ہوئے کہتے، ’’اوہوں۔ہوں۔ واہ رے پٹھے۔آخر بابو جو ہوا تُو!‘‘ اس وقت سکھی نندن غرور سے کہتا، ’’اکڑتا ہے بابو تو اکڑا کرے۔اس کی اوقات کیا ہے۔ دھوبی کے بچّے کی؟‘‘
مگر بچوں کو اپنے ساتھ کھیلنے کے لیے کوئی نہ کوئی چاہیے۔ کھیل میں کسی طرح کی ذات پات اور درجہ کی تمیز نہیں رہتی۔ حقیقت میں چند ہی سال کی تو بات تھی، جب کہ وہ یکساں ننگے پیدا ہوئے تھے اور اس وقت تک ان میں نادار، لکھ پتی، مہا براہمن، بھنوٹ، ہریجن۔اور اس قسم کی فضول باتوں کے متعلق خیال آرائی کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی۔
سکھ نندن اپنی تمام مصنوعی عظمت کو کینچلی کی طرح اتار پھینک بابو کے ہاں گیا۔ بابو اس وقت دن بھر کام کر کے تھک کر سو رہا تھا۔ ماں نے جھنجوڑ کر جگایا۔ ’’اٹھ بیٹا!۔اب کھیلنے کبھی نہ جاؤ گے کیا؟ سُکھی آیا ہے۔‘‘ بابو آنکھیں ملتا ہوا اٹھا۔ چارپائی کے نیچے اس نے بہت سے میلے کچیلے اور اجلے اجلے کپڑے دیکھے۔ کپڑے جو کہ پیدائش ہی سے ایک سکھی نندن اور بابو میں امتیاز و تفرقہ پیدا کر دیتے ہیں۔ بابو چارپائی پر سے فرش پر بکھرے ہوئے کپڑوں پر کود پڑا۔ دل میں ایک لطیف گدگدی سی پیدا ہوئی۔ کئی دنوں سے وہ کھیلا نہیں تھا اور اب شاید اپنی اکتسابی رعونت پر پچھتا رہا تھا۔ بابو کا جی چاہتا تھا کہ پھلانگ کر برآمدے سے باہر چلا جائے اور سکھی سے بغل گیر۔۔۔ اور کیا انسان کی انسان کے لیے محبت کپڑوں کی حد سے نہیں بڑھ جاتی؟ کیا سکھی کینچلی نہیں اتار آیا تھا؟ بابو چاہتا تھا کہ دونوں بھائی رہے سہے کپڑے اتار کر ایک سے ہو جائیں اور خوب کھیلیں، خوب۔برآمدے میں کبوتروں کے کابک کے پیچھے جالی کے درمیان میں سے بابو کی نظر سکھی پر پڑی، جو پُر امید نظریں اس کے گھر کے دروازے پر گاڑے کھڑا تھا۔ یکایک بابو کو سکھی کے جنم دن کی بات یاد آ گئی۔ وہ دل مسوس کر رہ گیا۔ کبوتروں کی جالی میں اسے بہت سی بیٹیں نظر آ رہی تھیں اور بہت سے سراج، لقَہ اور دیسی قسم کے کبوتر ’گھوں گھوں‘ کرتے ہوئے اپنی گردنوں کو پھُلا رہے تھے۔ ایک نر پھُول پھُول کر مادہ کو اپنی طرف مائل کر رہا تھا۔ بابو نے بھی اپنی گردن کو پھُلایا اور گھوں گھوں کی سی آواز پیدا کرتا ہوا چارپائی پر واپس جا لیٹا۔ پھر اسے خیال آیا۔ سکھی دھوپ میں کھڑا جل رہا ہے۔ مگر پھر وہ ایک فیصلہ کن لائحہ عمل مرتب کرتے ہوئے چارپائی پر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔ آخر وہ بھی تو کتنا ہی عرصہ اس کے گھر کے صحن میں برسات کی چلچلاتی دھوپ میں کھڑا رہا تھا اور اس نے اس کی کوئی پروا نہ کی تھی۔امیر ہو گا تو اپنے گھر میں۔
’’اسے کہہ دو۔وہ نہیں آئے گا ماں۔کہو اسے فرصت نہیں ہے فرصت‘‘ بابو نے کہا، ’’شرم تو نہیں آتی ہے۔‘‘ ماں نے کہا۔ ’’اتنے بڑے سیٹھوں کا لڑکا آوے تجھے بلانے کے لیے اور تو یوں پڑ رہے۔گدھا!‘‘ بابو نے کہنیاں ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’میں نہیں جانے کا، ماں۔‘‘ ماں نے برا بھلا کہا۔ تو بابو بولا۔ ’’سچ سچ کہہ دوں ماں۔ میں جانتا ہوں، میری کسی کو بھی ضرورت نہیں۔واویلا کرو گی، تو میں کہیں چلا جاؤں گا۔‘‘ ماں کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس وقت ننھی بلند آواز سے رونے لگی اور ماں اسے دودھ پلانے میں مشغول ہو گئی۔
بدھئی کے پُروا میں سیتلا (چیچک) کا زور تھا۔ پُروا کی عورتیں بندریوں کی طرح اپنے اپنے بچوں کو کلیجوں سے لگائے پھرتی تھیں۔ پڑوسن کی دہلیز تک نہیں پھاندتی تھیں۔کہیں بُو، نہ پکڑ لیں اور سیتلا ماتا تو یوں بھی بڑی غصیلی ہیں۔ ڈال چند کی لڑکی، مہا براہمن کے دو بھتیجے ،سب کو سیتلا ماتا نے درشن دیا۔ ان کی مائیں گھنٹوں ان کے سرہانے بیٹھ کر سچے موتیا کے ہار رکھ کر گوری میّا گاتی رہیں اور دیوی ماتا سے پرارتھنا کرتی رہیں کہ ان پر اپنا غصّہ نہ نکالے۔ جب بچیّ راضی ہو جاتے، تو مندر میں ما تھا ٹیکنے کے لیے لے جاتیں۔ ماتا تو ہر ایک قسم کی خواہش پوری کرتی تھی۔ جب سیتلا کا غصہ ٹلا اور بُو کچھ کم ہوئی، تو پُروا والوں نے سیتلا کی مورتی بنائی۔ اسے خوب سجایا۔ سکھی نندن کے باپ نے مونگے کی مالا سیتلا ماتا کے گلے میں ڈالی۔ سب نے مل کر عزت و تکریم سے ماتا کو مندر سے نکالا اور سجی ہوئی بہلی میں براجمان کیا اور بہلی کو گھسیٹتے ہوئے گاؤں سے باہر چھوڑنے کے لیے لے گئے۔ پُروا کے سب بوڑھے بچے جلوس میں اکٹھے ہوئے، پیتل کی کھڑتالیں، ڈھول ڈھمکے بجتے جا رہے تھے۔ لوگ چاہتے تھے کہ کرودھی ماتا کو ہریا کے تالاب کے پاس مہاتما جی کی کُیا کے قریب ان ہی کی نگہبانی میں چھوڑ دیا جائے، تاکہ ماتا اس گاؤں سے کسی دوسرے گاؤں کا رخ کرے۔ وہ ماتا کو خوشی خوشی روانہ کرنا چاہتے تھے، تاکہ ان پر الٹی نہ برس پڑے۔ سکھی بھی جلوس کے ساتھ گیا۔ بابو بھی شامل ہوا۔ نہ بابو کو سکھی کے بلانے کی جرأت پیدا ہوئی، نہ سکھی کو بابو کے بلانے کی۔ ہاں کبھی کبھی وہ کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ لیتے تھے۔
ہریا کے تالاب کے پاس ہی دھوبی گھاٹ تھا۔ ایک چھوٹی سی نہر کے ذریعہ تالاب کا پانی گھاٹ کی طرف کھینچ لیا جاتا تھا۔ گھاٹ تھا بہت لمبا چوڑا۔ قریب کے قصبوں میں سے دھوبی کپڑے دھونے آیا کرتے تھے۔ اسی گھاٹ پر بابو اور اس کے بھائی بند، باپ دادا وہی ایک گانا، اسی پرانی سرتال سے گاتے ہوئے کپڑے دھوئے جاتے۔ ایک دن گھاٹ پر سارا دن بابو، سکھی کے بغیر شدت کی تنہائی محسوس کرتا رہا۔ کبھی کبھی اکیلا ہی کروٹن چیل کے بل کھاتے ہوئے تنوں پر چڑھ جاتا اور اتر آتا۔ گویا سکھی کے ساتھ کان پتہ کھیل رہا ہو۔ کھیل میں لطف نہ آیا تو وہ اینٹوں کے ڈھیر میں رکھی ہوئی سیتلا ماتا کی مورتی کو دیکھنے لگا اور پوچھنے لگا۔ آیا وہ اس گاؤں سے چلی گئی ہیں یا نہیں۔ ماتا کچھ کروپ (بد شکل) ناراض، دکھائی دیتی تھیں۔ شام کو بابو گھر آیا تو اسے ہلکا ہلکا تپ تھا، جو کہ بڑھتا گیا۔ بابو کو اپنی سدھ بدھ نہ رہی۔ ایک دفعہ بابو کو ہوش آیا تو دیکھا ماں نے موتیا کا ایک ہار اس کی چارپائی پر رکھا تھا۔ قریب ہی ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا کورا گھڑا تھا۔ گھڑے کے منھ پر بھی موتیا کے ہار پڑے تھے اور ماں ایک نیا خریدا ہوا پنکھا ہلکے ہلکے ہلا ہلا کر منھ میں گوری میّا گنگنا رہی تھی۔ پنکھا مرتے ہوئے آدمی کی نبض کی طرح آہستہ آہستہ ہل رہا تھا اور الگنی پر سرخ پھلکاریوں کے پردے بابو کی بوڑھی دادی کی جھریوں کی طرح لٹک رہے تھے اور یہ سامان کچھ ماتا کی عزّت کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ بابو نے اپنی پلکوں پر منوں بوجھ محسوس کیا۔ اسے تمام بدن پر کانٹے چبھ رہے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے اسے کسی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہو۔
دو تین دن تو بابو نے پہلو تک نہ بدلا۔ ایک دن ذرا افاقہ سا ہوا۔ صرف اتنا کہ وہ آنکھیں کھول کر دیکھ سکتا تھا۔ آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا۔ سکھی اور اس کی ماں دروازے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ سیٹھانی نے ناک پر دوپٹہ لے رکھا تھا۔ دراصل وہ دروازے میں اس لیے بیٹھے تھے کہ کہیں بُو نہ پکڑ لیں۔ مگر بابو نے سمجھا، آج ان لوگوں کا غرور ٹوٹا ہے۔ اس نے دل میں ایک خوشی کی لہر محسوس کی۔ ایک جیوتشی جی سادھورام کو بہت سی باتیں بتا رہے تھے۔ انھوں نے ناریل، بتاشے، کھمنی، منگوائی۔ سادھورام کبھی کبھار اپنا ہاتھ بابو کے تپتے ہوئے ماتھے پر رکھ دیتا، اور کہتا،
’’بابو۔ او بابو۔ بیٹا بابو؟‘‘
جواب نہ ملتا۔ تو ایک مکاّ سا اس کے کلیجہ میں لگتا اور وہ گم ہو جاتا۔
بابو نے بمشکل تمام کانٹوں کے بستر پر پہلو بدلا۔ پھول ہاتھ سے سرکا کر سرہانے کی طرف رکھ دیے۔ گلے میں تلخی سی محسوس کی۔ ہاتھ بڑھایا تو ماں نے پانی دیا۔بابو نے دیکھا۔ اس کے ایک طرف گندم کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ جیوتشی جی کے کہنے پر بابو کی ماں نے اسے آہستہ سے اٹھایا اور ایک طرف لٹکتے ہوئے ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا۔ ترازو کے دوسرے پلڑے میں گندم اور دوسری اجناس ڈالنی شروع کیں۔ بابو نے اپنے آپ کو تلتا ہوا دیکھا تو دل میں ایک خاص قسم کا روحانی سکون محسوس کیا۔ چار دن کے بعد آج اس نے پہلی مرتبہ کچھ کہنے کے لیے زبان کھولی اور اتنا کہا،
’’اماں۔ کچھ گندم اور ماش کی دال دے دو۔ سکھی کی ماں کو۔کب سے بیٹھی ہے بچاری۔‘‘
سادھورام نے پھر اپنا ہاتھ بابو کے تپتے ہوئے ماتھے پر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی چند بوندیں گر کر فرش پر بکھرے ہوئے کپڑوں میں جذب ہو گئیں۔ سادھورام نے کپڑوں کو ایک طرف ہٹایا، اور بولا،
’’پنڈت جی۔ دان سے بوجھ ٹل جائے گا؟۔میں تو گھر بار بیچ دوں۔ پنڈت جی۔‘‘
بابو کی ماں نے سسکیاں لیتے ہوئے سیٹھانی جی کو کہا،
’’مالکن۔ کل نینی تال جاؤ گی؟ کل۔ نہیں تو پرسوں ملیں گے کپڑے۔ ہائے! مالکن! تمھیں کپڑوں کی پڑی ہے۔‘‘
بابو کو کچھ شک سا گزرا۔ اس نے پھر تکلیف سہ کر پہلو بدلا اور بولا،
’’امّاں۔ امّاں۔ آج میرا جنم دن ہے؟‘‘
اب سادھو رام کے سوتے پھُوٹ پڑے۔ ایک ہاتھ سے گلے کو دباتے ہوئے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا،
’’ہاں بابو بیٹا۔ آج جنم دن ہے تیرا۔بابو۔بیٹا!‘‘
بابو نے اپنے جلتے ہوئے جسم اور روح پر سے تمام کپڑے اتار دیے۔ گویا ننگا ہو کر سکھی ہو گیا اور منوں بوجھ محسوس کرتے ہوئے آنکھیں آہستہ آہستہ بند کر لیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.