تم آؤگے نا؟
پونے پانچ بجے کی ٹرام میں، میں نے تمہیں اکثر دیکھا ہے۔ خصوصاً سردیوں کے موسم میں۔ سردیوں میں یہ ٹرامیں قریب قریب خالی ہی ہوتی ہیں۔ تم مشن روڈ سے ٹرام میں سوار ہوتے ہو، جس میں کبھی کبھی دوڑ کر چڑھنا پڑتا ہے۔ اسپلے نیڈ پر اترپڑتے، تم نے مجھے نہیں دیکھا ہوگا۔ یا شاید دیکھا ہو لیکن پہچانا نہیں ہوگا۔ کیوں کہ صبح تم عینک نہیں لگاتے اور میں سیکنڈ کلاس میں ہوتا ہوں۔ میرے تین نئے پیسے بچ جاتے ہیں اور جمائیاں لیتے ہوئے دودھ والوں کی وجہ سے بند کھڑکیوں کا ڈبہ گرم رہتا ہے۔ تم ہنس رہے ہو؟ بات یہ ہے کہ جب کوئی میرے قریب جمائی لیتاہے تو میرے جسم میں گرمی آجاتی ہے، پتہ نہیں کیوں؟
تم نے مجھے دیکھا نہیں؟ خیر۔ کوئی بات نہیں۔ دو سال سے ہر موسم سرما میں میں اسی ٹرام میں سوار ہوکر آتاہوں اور کہرمیں دوڑلگاتا ہوں۔ اپنی توند کم کرنے کے لیے نہیں۔ میرا پیٹ بڑا نہیں ہے۔ وہ تو جب بھوک لگتی ہے۔ تب ہی پتہ چلتا ہے کہ بھگوان نے مجھے ایک پیٹ بھی دیا ہے لیکن مجھے دوڑ لگانے کا شوق ہے۔ برسوں تک دوڑا ہوں۔ بالکل اسی طرح جس طرح تمہیں میموریل کے قریب والی دیوار پر بیٹھنے کا شوق ہے۔ تم بیٹھتے ہو، کہر میں ٹیکسیاں کھڑی ہوتی ہیں، ہوا میں خنکی ہوتی ہے، اس کی وجہ سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور جو تھوڑے بہت سایے نظر آتے ہیں، ان سب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے۔
رنگ بدلتے ہیں، سورج کی کرنیں نیچے اترآنے کے بعد پتوں اور گھاس کو چمکانے لگتی ہیں اور کانپتے ہوئے کتے پارک کی ہوئی کاروں کے نیچے سے نکل آتے ہیں اور لوگ سر اور کانوں پر لپٹے ہوئے مفلر کھول کر گلے پر لپیٹ لیتے ہیں اور میری کمزور آنکھوں میں سے بہتا ہوا پانی خشک ہونے لگتا ہے۔ تم تو یہ سب کچھ جانتے ہو۔۔۔
اچھا تو اٹھاجائے پھر؟ ریڈ روڈ تک چلیں۔ جس طرح ڈلہوزی اسکوائر کی دنیا دوپہر کو گرم ہوتی ہے، یوں ریڈ روڈ صبح کو گرم ہوتاہے۔ میم عورتیں کارچلانا سیکھنے یہاں آتی ہیں۔ یوگا کی مشق کرنے والے لوگ کچنراور آڈٹرم کے گن میٹل مجسموں کے نیچے کی سیڑھیوں پر ’’شیش آسن‘‘ کرتے ہیں، سیٹھ لوگ کانپتے ہاتھوں سے اخبار کھول کر شئیر بازار کی خبریں دیکھتے ہیں، ایک بے حد موٹا ٹرک ڈرائیور، ’’لوڈ‘‘ کی ہوئی ٹرک روک کر اترتا ہے، میدان میں ریلنگ کی طرف جارہا ہو، ایسا منہ بنا کر ٹرک کے دوسری طرف پیشاب کرنے بیٹھ جاتا ہے۔
میں نت نئے مناظر دیکھنے کے لیے یہاں نہیں آتا۔ پہلے تو یہ تھاکہ شارٹ پہن کر ہاکی کھیلنے آتی ہوئی ایک اینگلو انڈین لڑکی مجھے روزانہ یہاں ملا کرتی تھی، لیکن مجھے اب اس کا چہرہ یاد نہیں۔ تمہارا چہرہ مجھے یاد ہے کیوں کہ اس لڑکی کے چہرے سے زیادہ دلچسپ ہے۔ انسانوں کے ہی چہروں میں اتنا بہت سا اختلاف کیوں ہے؟ مجھے تمام شیر ایک ہی جیسے لگتے ہیں، تصویروں کے، سرکس کے، چڑیا گھر کے۔ نارنگیاں بھی سب کی سب ایک سی لگتی ہیں اور بچوں کے چہرے بھی۔ میں سمجھتاہوں چہروں کی تبدیلی کا انحصار خیالات پر ہے۔ انسان بڑا ہونے لگتا ہے تو چہرہ بدلنے لگتاہے۔ ہے نا؟ شیر، نارنگی، گلاب کے کھلے ہوئے پھول، یہ سب سوچ نہیں سکتے اسی لیے ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ تمہارا کیا خیال ہے؟
میں نفسیات کا پروفیسر نہیں ہوں، مصور بھی نہیں ہوں جو ہرشے میں حسن دیکھ سکے وہ؟ دیکھو، حسن میں مجھے ہمیشہ بیدردی اور ظلم نظرآیا ہے۔ کسی لڑکی کی ناک ذرا کم لمبی ہے، اس لیے وہ چپٹی ناک والی بن جائے، بدصورت سمجھی جائے۔ اسے دیکھوتو کوئی خیال نہ آئے۔ نہ آورد ہو نہ آمد۔ اب تم ہی کہو کیا یہ بے دردی نہیں؟ ظلم نہیں؟ لیکن مجھے بے دردی اور ظلم پر کوئی خاص اعتراض نہیں ہے۔
مجھے بہت سی چیزوں پر اعتراض نہیں ہوتا۔ اچھا! تم اکتاتو نہیں رہے ہو، میری باتوں سے؟
اکتاہٹ یعنی ڈھکاچھپا اعتراض، اخلاقی اعتراض، نرم اعتراض، نرم یااخلاقی؟ اخلاقی یا بداخلاقی؟ بات ایک ہی ہے اور الگ الگ بھی ہے۔ اکتاہٹ صحت مندی کی علامت ہے یا بیماری کی؟ عقلمندی کی یا بیوقوفی کی؟ اس چیز سے تمہیں فائدہ ہے کہ نقصان؟ یہ کیوں ہوتی ہے اور کیوں نہیں ہوتی ہے؟ میرا مطلب اکتاہٹ سے ہے اور کیوں نہیں ہوتی؟ اس کی وجہ ہمارے ’’نروس سسٹم‘‘ کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ پالتو جانور بھی اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں؟ جنگلی جانور؟ بچے؟
تم اکتاتو نہیں رہے نا؟ بہت خوب۔ میں خود اکتاہٹ کو سمجھ نہیں سکا اور اس کی کوئی سائنسی تشریح اب تک تو نظر سے گزری نہیں، لیکن یہ ہے مزے کی چیز، متوجہ کرنے والی، مضحکہ خیز، دلچسپ لیکن اس صورت میں جب اس کا حملہ دوسرے پر ہو، ہم پر نہیں۔
دو دنوں سے بارشوں کا سماں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہیں بارش ہوئی ضرورہے، یا نہیں ہوئی تو اب ہوگی۔ اس موسم میں تو عموماً بارش ہوتی نہیں مگر بے موسم کی برسات کا لطف کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ دوسرے اکتا جاتے ہیں اور میں۔۔۔۔
سنو! ایک دوست تھا میرا۔ ہاسٹل میں میرے ساتھ رہتا تھا۔ روزانہ صبح اٹھ کر میں اسے اپنا، رات کو دیکھا ہوا خواب سناتا۔۔۔ ہر رات مجھے خواب نظر آتے ہیں۔ خراب بھی اور اچھے بھی، لیکن خراب زیادہ اور اچھے کم۔ تم خواب نہیں دیکھتے؟ واقعی، ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ پاگل آدمی ہی خواب نہیں دیکھتا۔ خیر۔ لیکن یہ سچ ہے کہ پاگلوں کو خواب نہیں آتے یعنی سونے میں نہیں آتے۔ شاید یہ لوگ جاگتے میں خواب دیکھتے ہوں گے۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔
خراب خواب دماغی صحت کے لیے بے حدضروری ہیں۔ خراب یعنی جن سے تمہیں ڈر معلوم ہو۔ مرجانے کا، ڈوب جانے کا، یا جل جانے کا ڈر لگے۔ کسی عزیز کو تڑپتے دیکھو، یا اپنے آپ کو غلاظت میں پھنسا دیکھویا پھر ایسے خواب کہ جب تمہاری آنکھ کھلے توتمہیں شرم آئے۔ شرماؤ نہیں۔ یہ تو بھئی ’’پروسیس‘‘ ہے۔ قریب قریب سبھی کو ایسے خواب آتے ہیں۔ ’’رفلیکس کومپلیکس۔۔۔‘‘، یہ دنیا ایسی ہی ہے۔
ہاں تو ہم کا ہے کی بات کررہے تھے؟ خراب خوابوں کی۔ ٹھیک ہے۔ میرے دوست کو بھی خواب نظر نہ آتے تھے اور میں اس کا مذاق اڑاتا کہ تو پاگل ہوجائے گا۔ تم نہیں مانو گے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ پاگل ہوگیاتھا۔
پھر ایک دفعہ میں اس سے پاگل خانے میں ملنے گیا۔ وہ دھینگا مشتی اور مارپیٹ نہ کرتا تھا۔ میں خاص اجازت حاصل کرکے اس سے ملنے گیا اور اس سے مل کر مجھے دکھ ہوا۔ باہر آیا تو سپرنٹندنٹ نے مجھے بتایا کہ تمہارا دوست، نارمل، بنتا جارہا ہے لیکن اب بھی بیچ بیچ میں توازن کھوبیٹھتا ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ اس نے بتایا کہ ایک دن وہ اپنے سارے کپڑے اتار کر اور بالکل ننگا ہوکر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ کپڑے کیوں اتار دیے تو اس نے جواب دیا کہ بھگوان کی بنائی ہوئی دنیا دیکھ رہا ہوں۔ پرندے، درخت، گائیں، گھاس، آسمان، پتھر سب ننگے ہیں اور میں نے کپڑے پہن رکھے ہیں، مجھے ان سب کی طرح ’’نارمل‘‘ بننا ہے۔
سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ مجھے بھی ہنسنا پڑا۔ دنیا میں ہنسنا پڑتا ہے۔ ہنسی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے، کیا کیا جائے؟
تم، معلوم ہوتا ہے، تھک گئے ہو۔ اچھا آؤ اس دیوار پر بیٹھ جائیں۔ ٹرام کا اسٹاپ دور ہے اور یہ دیوار تونم ہوگی۔ لیکن وہ موٹے آدمی ابھی ابھی اٹھ کر گئے ہیں، یہ جگہ گرم ہوگی۔ بیٹھو تمہیں میری باتوں میں لطف آنے لگا ہے۔ یہ ایک نئی بات ہے۔ یہ بات بڑی خطرناک ہے۔
فطرتاً تو میں کسی کے ساتھ بات کرہی نہیں سکتا۔ سننے والا تھوڑی سی بات سن کر چلتا بنتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ میں کھلے طور پر تسلسل میں بات کرہی نہیں سکتا۔ باتیں کرنا بھی ایک فن ہے اور باتیں سننا تو میرے خیال میں خدا کی دین ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم پھر اکتاہٹ کے موضوع کی طرف آرہے ہیں۔ ہے نا؟ تو ہٹاؤ اس بحث کو۔
میں نے تھوڑی سی تعلیم حاصل کی ہے۔ تھوڑی یعنی بہت۔ سب شروع کیا اور ترک کردیا۔ سات سال تک تعلیم حاصل کی لیکن ڈگری ایک بھی نہیں ملی۔ علم بے کنار سمندر ہی ہے نا؟ اور علم کا کام کیا؟ انسان کو اپنی کم مائیگی کا احساس دلانا اور مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوگیا۔ چنانچہ میں نے تعلیم ترک کردی۔ پھر آوارہ گردی شروع کردی۔ برہم چاریہ آشرم اور گرہستی آشرم کے درمیان ایک اور آشرم کی ضرورت ہے، ایسا میں ہمیشہ محسوس کیا کرتا ہوں۔ اس میں آوارہ گردی آجاتی ہے، عورتوں کو تاکنا بھی آجاتا ہے، خیر، میں بہت بھٹکا، بہت یعنی کم۔ تم میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو۔ مجھ میں کوئی عجیب بات نظر آرہی ہے تمہیں؟ بہت یعنی کم ہی سہی؟ اتنی وسیع و عریض دنیا میں ’’وقت‘‘ جسے بہت شمار کرتا ہوں وہ کس قدر کم ہے؟ لائٹ اِئیرس کے سامنے میرے چند سال کس شمار و قطار میں؟
میں تھوڑا سا بھٹکا اور تھک گیا، عقل استعمال کرکے۔ لیکن تھکن کا عقل سے کیا تعلق؟ گلدان کے پانی اور اس میں رکھے ہوئے پھولوں کی خوشبو میں جو تعلق ہوتا ہے ایسا ہی تعلق! یہ میرا نظریہ ہے۔ دنیا میں سب کچھ انفرادی بھی ہے اور ریلیٹو بھی! آئنسٹائن نے لطف کا کام تو یہ کیا کہ اس نے ’’ریلیٹو‘‘ لفظ کو اچھی طرح سمجھایا۔ لیکن سائنسی نقطہ نظر سے میں ’’ریلیٹو‘‘ لفظ کو نفسیاتی اصلاح کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔
تویہ ’’ریلیٹو‘‘ سمجھا دوں تمہیں بھی؟ زیادہ وقت نہ لوں گا۔ کوئی سی بھی ایک مثال لو۔ کالی لڑکی، ۔ لیونا رڈوونچی اوربوٹی شیلی سے لے کر ریویرا یا نیروتک، سارے مصوروں میں کالی لڑکیاں تلاش کرو۔ کہیں کالی ہوگی کہیں نیلی کہیں لال۔۔۔ کہیں لڑکی ہوگی کہیں نہ ہوگی۔ کہیں صرف لکیریں ہوں گی، ٹکڑے، داغ، دھبے، رنگین، بے رنگ، کالی لڑکی تلاش کے باوجود تمہیں نہ ملے گی۔ مصوروں نے دیکھ کر جو اثر لیا تھا وہی تمہارے دیکھنے کا ہوگا۔ ہر ایک کی اپنی انفرادی اور ’’ریلیٹو‘‘ نظر۔ ماڈل ایک ہی ہوتا ہے۔ مگر نظریہ میں فرق ہوتا ہے، اگر چہ مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔
میں نے کہا نہیں تم سے کہ میں تسلسل سے باتیں کرنا نہیں جانتا۔۔۔ یہ بہت اور کم، افراط و تفریط، یہ سب ریلیٹو ہے۔ فاصلے، روپیہ، جنس، جمال سب ریلیٹو انسان کو الو بنانے کے لیے۔ راجر بنیسٹر کے لیے ایک میل کا فاصلہ صرف چارمنٹ کا اور کسی بیمار بڈھے کے لیے آدھے گھنٹے کا۔ ایک روپیہ یعنی؟ میرے جیسے بیکار آدمی کے لیے تین سو نئے پیسے، تمہارے لیے پچاس اور ڈاج موٹر کار میں گھومنے والوں کے لیے دس نئے پیسے، اب یہ ایک روپیہ میں سو نئے پیسے کا تصور الو بنانے کے لیے ہی کیاگیا ہے نا؟ رکشا والوں کے لیے تو ہزار نئے پیسوں سے بھی ایک روپیہ نہیں بنتا۔ ایک سال یعنی تین سو پینسٹھ دن نہیں، ایک منٹ یعنی ساٹھ سکنڈ نہیں۔ سورج چاند، سیارے اور کروڑوں ستاروں پر برس اورگھنٹے مختلف ہیں۔ ان کی الگ الگ تعریف ہے۔
ارے سب چھوڑو، حسن جیسی سیدھی چیز کو ہی لے لو، پورب میں کالے بال اور ہمارے یہاں سنہری، امریکہ میں لمبی ٹانگیں اور چین میں گٹھی ہوئی، جاپان میں گردن اورلاطینی امریکہ میں سینہ ہمارے یہاں آنکھیں۔۔۔ عورت کے حسن کے متعلق بھی کتنے مختلف خیالات ہیں۔ حسن، ادب، اخلاق، تہذیب اور شرم وحیا کی حدود۔ سب کچھ ریلیٹو نظریہ سے ہی دیکھاجاسکتا ہے۔ میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ آدمی اپنے ہوش و حواس میں ہے یا پاگل ہے، یہ بھی یقین سے کیسے کہا جاسکتا ہے؟ اسے بھی ریلیٹو۔۔۔
تم ہنس سکتے ہو، یہ اچھا ہے لیکن ہنسی جیسی بے ضرر چیزمیں بھی نقصانات ہوسکتے ہیں۔ فیشن کی دنیا کے ماہر کہتے ہیں کہ زیادہ ہنسنے سے آنکھوں کے کناروں پر اور رخساروں کے آس پاس سلوٹیں پڑجاتی ہیں اور ان سے چہرے کے ستھرے پن میں فرق آجاتا ہے۔ چہرے پرکشش اور جوانی نہیں رہتی، بڑھاپا چھا جاتا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟
اچھا تو اب میں اپنی اصلی بات کی طرف آتا ہوں۔ میں سیدھا نہیں چلتا، بھٹک جاتا ہوں۔ ٹھیک ہے نا؟ اس کا بھی ایک سبب ہے۔ میں تین چار قسم کے خیالات یکجا کرسکتا ہوں ا ور بہ یک وقت کئی چیزوں کے متعلق سوچ سکتا ہوں۔ میں یکسو نہیں ہوں، اس لیے سو تو کیا، ایک وقت میں، میں ایک کام بھی نہیں کرسکتا۔ اب یہی دیکھو۔ اپنی بات بھی مجھے کہنی نہیں آتی لیکن مختلف قسم کے خیالات بہ یک وقت ذہن میں لاسکتا ہوں، مختلف موضوعات پر بیک وقت سوچ سکتا ہوں۔ اس میں مجھے کوئی دقت کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ تم کوشش کرکے دیکھو۔ تھک جاؤگے۔ تم سوچتے رہوگے کہ ایسا ہوہی کیسے سکتا ہے۔
اچھا تو سنو! ایک ترکیب بتاتا ہوں اس کی۔ پہلے تم سیدھے بیٹھ جاؤ۔۔۔ خاموش، اور پھر دماغ میں سے سب کچھ جھٹک دو، یعنی سارے خیالات نکال دو۔ اسے ’’یوگ‘‘ کہو یا ’’جین مت‘‘ یا ’’بدھ ازم‘‘، غرض کچھ بھی کہو، لیکن خاص مقصد اس کا یہ ہے کہ کوئی مقصد پیش نظر نہ ہو۔ کسی چیز کے متعلق کچھ بھی نہیں سوچنے کا، لیکن جاگتے رہنا، سب کچھ دیکھنا، محسوس کرنا، برداشت کرنا لیکن سوچنا کچھ نہیں یعنی خالی الذہن رہنا۔ کتنی بڑی بات ہے یہ۔ کچھ سوچنا ہی نہیں۔ یہ تو خون کے دوران کو روک دینا جتنا مشکل ہے لیکن یہ تجربہ کرنے کی بھی تو کوشش کرو۔
خیرتو میں نے تعلیم حاصل کی، پھر آوارہ گردی کی، لیکن شادی نہیں کی۔ شادی نہیں کی یعنی میری سگائی تو زبردستی کردی گئی تھی، ایک بے حد گوری لڑکی کے ساتھ۔ ریس کے گھوڑے خریدنے کی یا کسی کمپنی کو ’’کارنر‘‘ کرنے کی سی احتیاط لڑکی پسند کرنے میں نہ برتنی چاہیے۔ کمپنی کے روح نہیں ہوتی اور گھوڑے کے عقل نہیں ہوتی۔ لڑکی کے پاس دونوں چیزیں ہوتی ہیں، روح بھی اور عقل بھی۔ لیکن میری سگائی جس لڑکی کے ساتھ کی گئی اس کے پاس روح تو تھی، عقل نہ تھی۔
ایک ہی دفعہ مجھے ایسا لگا تھا کہ اسے ذرا سی عقل آگئی تھی۔ یوں آئی اور یوں گئی بجلی کی طرح۔ ہماری سگائی تین سال تک قائم رہی، پھر اس نے مجھ سے کہا کہ میں تمہارے ساتھ شادی کرنا نہیں چاہتی۔ پھر میں نے شادی نہیں کی اور میری حالت، کھایا پیا اور راج کیا، کی سی ہوگئی۔
تم سگریٹ پیتے ہو؟ میں پیتا ہوں۔ میں ایک سلگالوں، بشرطیکہ تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو۔ اور اعتراض کیوں ہونے لگا۔ کروڑوں انسان پیتے ہیں۔ ان میں ایک کا اضافہ ہوگیاتو اس کا اثر نہ دنیا پر پڑے گا اور نہ تم پر۔ ہائیڈروجن بم کا دھواں تو برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن سگریٹ کا دھواں اب بھی برداشت نہیں کیاجاسکتا۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔
آج موسم کچھ برسات جیسا ہے لیکن بارش ہوگی نہیں، ایسا کہتے ہو تم؟ میں کہتا ہوں کہ ہوگی۔ میدان میں وہ بچے کھیل رہے ہیں، وہ دیکھ رہے ہو تم، وہ سب بہت خوش ہیں۔ خوب ہنس رہے ہیں۔ بس اسی لیے کہ بارش ہوگی۔ بچوں کو بارش بہت پسند ہے۔
تم بارشوں میں بھی تفریح کو آتے ہو؟ تم بھی کمال ہو۔ تم کیوں آتے ہو تفریح کو؟ طبیعت سدھارنے، جس طرح خراب عادتوں سے طبیعت خراب ہوئی ہے، اسی طرح اچھی عادتوں سے سدھرتی ہے۔ لیکن عادتیں ڈالنا جسم کے لیے اچھا نہیں۔ تفریح کے لیے علی الصبح بیدار ہونے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔ میں کسی بھی بات کا عادی ہونا اچھا نہیں سمجھتا۔ اسی طرح آدمی عادت کا غلام بن جاتا ہے۔
لیکن میں دو سال سے باقاعدہ تفریح کو آتا ہوں اور کسی سے بھی بات نہیں کرتا۔ تفریح کرکے چلا جاتا ہوں۔ سکھ، دکھ، خوشی، غم، اکتاہٹ کچھ بھی محسوس نہیں کرتا۔ اکتاہٹ، یہ خوشی اور غم کے درمیان کی ذہنی حالت ہے، دماغ کا نارمل ٹمپریچر۔
آج بہت دیر ہوگی تمہیں۔ ابھی تو چائے بھی نہیں پی ہوگی۔ گھر جاؤگے، کیوں، اخبار دیکھ لیا؟ مجھے تو گزشتہ شام کے اور آج صبح کے اخبار میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ اچھا تو اب ہم باتیں ختم کریں۔ واپس لوٹنے کا تمہارا اور میرا راستہ الگ ہے۔ میں تو روز آتا ہوں۔ مجھ جیسی ہی طبیعت کے آدمی سے مل کر آج لطف آگیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم جدا ہوں، ایک بات کہہ دوں۔ ایک بات میں نے تم سے غلط کہہ دی۔ جھوٹ بول گیا۔ اپنے دوست کے پاگل ہوجانے کا قصہ میں نے تمہیں سنایاتھا، وہ جھوٹ تھا۔ وہ دراصل میرے دوست کا نہیں، خود میرا قصہ ہے۔ اسی لیے اس گوری گوری لڑکی نے، جس سے میری سگائی ہوئی تھی، مجھ سے شادی کرنے سے انکار کردیاتھا۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔۔۔
ارے تم ایک دم سے کھڑے ہوگئے۔ لیکن سنو تو سہی۔ کل میں ٹھیک اسی جگہ تمہارا انتظار کروں گا۔
تم آؤگے نا؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.