Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اجلا انسان، میلی روحیں

افسر آذر

اجلا انسان، میلی روحیں

افسر آذر

MORE BYافسر آذر

    اس نے ایک مرتبہ پھر انسانوں کے اس سیلاب کو دیکھا جو سڑک پر مسلسل امڈ رہا تھا۔

    ہر شخص کے چہرے پر اس کو آسودگی اور اطمینان کی لہریں نظر آئیں۔۔۔ ہر شخص کے چہرے پر، جن میں شام کے اخبار بیچنے والے لڑکے تھے، فٹ پاتھ پر معمولی اشیاء بیچنے والے دکاندار تھے، وہ بوڑھا تھا جس کے چہرے کے نقوش بڑھاپے کی جھریوں نے چھپا لیے تھے اور جو اپنی گدلائی ہوئی آنکھوں کے سامنے پان سگریٹ کا چھوٹا سا خوانچہ لیے بیٹھا تھا۔ وہ ٹوٹا پھوٹا بھکاری تھا جو اپنے بدن کو زمین پر گھسیٹ گھسیٹ کر آگے بڑھاتا تھا۔ وہ پاگل عورت تھی جو سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں کو گالیاں دے رہی تھی۔ صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس وہ جوان لڑکے اور لڑکیاں تھیں جن کے دل و دماغ میں ہر روز نئی محبتوں کے جوالا مکھی پھٹے رہتے تھے اور ہر روز ایک نئی محبت کی تلاش میں رہتے ہوئے ان کی روحوں میں بےچینی اور اضطراب کروٹیں لیتے رہتے تھے۔

    اور جب اس کا یہ احساس کہ ہر شخص آسودہ اور مطمئن ہے، شدید تر ہو گیا تو ایک دم اسے اپنے وجود کا خیال آیا اور پر صرف تنہائی کا احساس ہی اس کے ذہن پر باقی رہ گیا۔۔۔ دنیا میں وہی اکیلا ایسا ہے جس کو یہ آسودگی اور اطمینان میسر نہیں۔ پتھر کے بنچ پر بیٹھے ہوئے اس نے ایک مرتبہ پھر آس پا س نظریں دوڑائیں لیکن اطمینان اور آسودگی کی لہر نے جو ہر شخص کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی اسے پھر شدید احساس تنہائی میں مبتلا کر دیا۔

    لیکن سب سے بڑی مصیبت تو اس کے لیے شرافت اور پاکیزگی کے وہ تاثرات تھے جو اس کو لوگوں کے چہروں پر نظر آ رہے تھے!

    وہ صرف ایک آدمی چاہتا تھا۔ صرف ایک! جس کے چہرے پر شرافت اور پاکیزگی کی علامات نہ ہوں۔ لیکن اس کے سامنے تو معصوم، پاکباز اور فرشتہ صفت لوگوں کا گروہ تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا گویا وہ زمین کو چھوڑ کر جہاں ہر طرف دھوکہ ریا اور کمینگی پائی جاتی ہے، فرشتوں کی دنیا میں نکل آیا ہے جہاں روحوں میں نفاست اور پاکیزگی۔۔۔ ہوتی تھی۔ اس خیال کے ساتھ اس کو پھر احساس تنہائی نے آ دبوچا۔ فرشتوں کی آسمانی دنیا میں ایک زمینی انسان کا وجود۔ غلاظت سے بھری ہوئی روح کے ساتھ اس کا اپنا وجود۔

    پھر اس کی آنکھوں میں ایک سیاہ دھبہ جم گیا۔ جس میں اس کا اپنا وجود مقید تھا۔ اس کے چاروں طرف دوڑتی بھاگتی زندگی کے مختلف روپ تھے۔ ہر شخص کا اپنا ایک جاذب نظر رنگ تھا۔ ہر شے خوبصورت رنگوں کے حسین امتزاج کا مظہر تھی۔ اس رنگ برنگی قوس و قزح کے حسین اور دل پذیر رنگوں کی دنیا میں ایک سیاہ دھبہ اکیلا اور تنہا اس رنگ برنگے ماحول کے درمیان بے چارگی سے بےحس و حرکت مہمان ناپسندیدہ کی طرح پڑا ہوا۔ پھر اچانک وہ رنگوں کی دنیا سے نکل آیا۔

    انتہائی غلیظ، انتہائی مکروہ میل کی چادر میں لپٹا ہوا ننگا جسم لیے ایک ہٹا کٹا فقیر ایک آنکھ سے اندھا کریہہ آواز میں بھیک مانگ رہا تھا۔ ’’اللہ ہی دےگا‘‘۔ لیکن اس کریہہ آواز میں بھی اس کو عجیب سی پاکیزگی کا احساس ہوا۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی ٹانگوں سے اٹھا اور وہ اکنی جس کو بڑی دیر مٹھی میں مسلنے کی وجہ سے اس کے ہاتھ پسیج گئے تھے۔ اس فقیر کو دے دی۔

    یہ اکنی اس کو کسی شخص نے بھکاری سمجھ کر دی تھی۔ جس کے چہرے پر بڑے بڑے بال بکھرے ہوئے تھے۔ گلے میں سرخ رومال بدن پر گہرے رنگوں کی چارخانے کی قمیض، کھلا ہوا گریبان جس میں سے پیلے رنگ کا بنیان جھانک رہا تھا جس پر کیوپڈ کی تصویر چھپی ہوئی تھی اور ٹانگوں میں گہرے نیلے رنگوں کی پتلون جس کے پائنچے چڑھے ہوئے تھے۔

    نہ معلوم فٹ پاتھ سے وہ کیا چیز خرید رہا تھا۔ اس نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ اس کی نظر تو دس دس کے نوٹوں پر جم کر رہ گئی تھی جو اس نے پتلون کی ایک جیب سے نکالے تھے اور جس میں سے ایک نوٹ دکاندار کو دیا تھا۔ یہ شخص اس کے معیار پر پور ا اترا تھا۔ اس دکان سے جب وہ ایک بنڈل بغل میں دبا کر آگے بڑھا تو اس کے قدم لاشعوری طور پر اس کے پیچھے اٹھنے لگے۔

    اس شخص کی چال میں لاابالی پن تھا جب کبھی کوئی لڑکی سامنے سے آتی تو وہ ہونٹوں کو سکیڑ کر سیٹی بجاتا اور جب لڑکی اس کے قریب سے گزر جاتی تو وہ دو ایک مرتبہ پیچھے مڑ مڑکر شاید اپنی سیٹی کے اثر کو دیکھتا۔ لیکن ہر مرتبہ اس کو مایوسی ہوئی کسی بھی لڑکی نے اس کی ہمت افزائی نہیں کی تھی۔ اس کی سیٹی کی آواز کو کسی نے بھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔

    ’’یہی ٹھیک ہے‘‘۔ اس نے دل میں سوچا۔ وہ ایسے ہی شخص کی تلاش میں تھا۔ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اس شخص نے ایک جوان پٹھان لڑکی کو جو ہر راہ گیر سے پیسے مانگتی تھی ایک روپیہ دیا تھا اور کچھ دیر تک اس سے نہ معلوم کیا کیا باتیں کرتا رہا تھا اور اتنی دیر تک وہ اس سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا اس کا انتظار کرتا رہا۔

    یہ شخص اس معیار پر پورا اترا تھا جو اس نے اپنے نزدیک کسی بدمعاش کے لیے قائم کیا تھا اس کی چال اس کے اطوار، عادات، لباس اوروہ عامیانہ پن جو اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا۔ ’’یہی ٹھیک ہے‘‘۔ اس نے پھر اپنے دل میں سوچا اور تیزی سے بڑھ کر اپنے اور اس کے درمیان فاصلے کو طے کر لیا۔

    ’’بابو‘‘۔ اس نے کہا۔ وہ شخص ٹھہر گیا۔ ’’بابو۔۔۔‘‘ اس کے علاوہ وہ اور کچھ نہ کہہ سکا۔ وہ اس جملہ کو نہ دہرا سکا جو اس نے بڑی مشکل سے تلاش کیا تھا۔ ’’بابو۔۔۔ میری بیوی ہے۔۔۔‘‘ اور پھر سوچنے لگا۔ باوجود لاکھ کوشش کے وہ ایک جملہ، وہ چند الفاظ اس کے منہ سے نہ نکل سکے جو اس نے بڑی محنت سے منتخب کیے تھے۔ پھر وہ خجالت سے اپنے ہونٹ کاٹنے لگا۔

    اس شخص نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں مایوسیاں اور بھوک سمٹ آئی تھی اور شاید اسی احساس سے اس شخص نے اس کے ہاتھ پر ایک آنہ رکھ دیا اور آگے بڑھ گیا۔

    ’’ایک آنہ۔ بیوی کی قیمت، مگر وہ تو۔۔۔ وہ تو’’۔ اس نے بے ربطگی سے سوچا۔ ’’تو یہ بھی شریف نکلا‘‘ اور گہری سرد سانس ہوا میں بکھر گئی۔

    یہی ایک آنہ تھا جو اس غلیظ میلے کچیلے فقیر کو دے چکا تھا۔ ’’اللہ ہی دےگا۔۔۔‘‘ کی صدا بھاگتی دوڑتی ہوئی دنیا کی پرشور آواز میں معدوم ہو گئی تھی۔ آدمیوں سے پر، اس پرشور ماحول میں بھی اس کو تنہائی کا احساس تھا۔ تنہائی، اکیلا پن، سناٹا جو اس کے گرد پھیل گیا تھا۔ سناٹا جس میں اس کو کوئی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔

    بہرحال مطلوبہ آدمی، باوجود کوشش کے ابھی تک اس کو نہ ملا تھا۔ طویل تلاش اور جستجو میں ناکام ہونے کے بعد پانچ بجے سے وہ پتھر کی اسی بنچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ دوپہر کی تمام دھوپ اس کے سر پر گزری تھی اور جب اس کے پیروں نے بالکل ہی جواب دے دیا اور پیٹ میں دوزخ کے دہانے کھل گئے تووہ لڑکھڑا کر اسی بنچ پر گر گیا تھا۔ حالانکہ اس وقت بنچ پر دھوپ تھی اور چندہی قدم کے فاصلے پر دوسری بنچ پیڑ کے سائے تلے خالی پڑی تھی ! لیکن اس کی ٹانگوں کی قوت ختم ہوچکی تھی۔ وہ لڑکھڑا کر اسی تپتی ہوئی بنچ پر تپش کی وجہ سے دو تین مرتبہ پہلو بدل کر ساکن ہو گیا تھا۔

    اور اب ہر طرح بجلی کی روشنی تھی سورج نہ معلوم کب کا ڈوب چکا تھا اور سڑک پر چراغاں ہو رہا تھا۔

    پھر اس کو یاد آیا ابھی اسے آدمی تلاش کر نا ہے۔بھی تو اس کو وہ جملہ کہنا ہے جو وہ اس شریف آدمی سے نہ کہہ سکا تھا، جس نے اس کو ایک آنہ دیا تھا۔ یہ جملہ اس نے کتنی تحقیق و تجسس کے بعد معلوم کیا تھا جس کا انتخاب کرنے میں اس کو کتنی مصیبت محسوس ہوئی تھی۔ پھر اچانک یہ جملہ اس کے ذہن میں یوں اتر گیا گویا وحی اور پھر اس کو نروان حاصل ہوا۔ لیکن اس نروان نے اس کی روح کو شکستی نہ دی۔ بلکہ اس کے دل کی تاریکیوں اور ذہن کے گوشوں میں جالوں کا جمگھٹا ہو گیا۔

    دوسرا مرحلہ اور بھی کربناک تھا۔

    اس جملہ کو کسی اور شخص سے کہنے کے لیے خود کو تیار کرنے تک وہ کتنی روحانی اور ذہنی اذیتوں اور تکلیفوں سے گزرا تھا وہ خود ہی جان سکتا تھا۔ اس کی روح اس کا دماغ اس کا وجود، اس کے تصورات جھلس رہے تھے اور اب وہ ساکن وساکت اور خاموش بیٹھا تھا۔ مضطرب اور بےچین انسانوں کے اس سیلاب سے علیحدہ جو چاروں طرف سے امڈ رہا تھا۔ آج دنیا میں سب شریف تھے، سب فرشتے تھے۔ جن کی روح گناہوں سے پاک تھی۔ جن کے چہروں پر تقدس اور پاکیزگی کی ضیاء تھی اور آنکھوں میں عظمت و وقار کا جلال اور وہ خود کیا تھا! ذلیل، مکروہ اور گناہگار نہ اس کی روح میں پاکیزگی تھی نہ جسم میں کوئی احساس تصور میں نہ تخیل میں۔

    پھر اس نے اس پہلو پر دوسرے زاویوں سے سوچنا شروع کیا۔

    یہی تو فرشتے ہیں۔ یہی تو وہ پاکباز ہیں جنہوں نے آج اس حد تک مجبور کر دیا ہے۔ ہونہہ سب کمینے ہیں۔ سب شریف بنتے ہیں۔۔۔ سب اور پھر اس کے دل کی گہرائیوں سے ایک غلیظ گالی ان فرشتہ صورت انسانوں کے لیے نکلی لیکن نہ معلوم کیوں اندر ہی اندر گھٹ کر رہ گئی۔

    لیکن اس طور سوچنے کے باوجود بھی اس کو کسی آدمی کا انتخاب کرنا آسان نہ ہوا۔ ہر شخص جو اس کے قریب کھڑا ہوتا یا گزرتا تو وہ اس کو بہت غور سے دیکھتا اور مایوس ہو جاتا اور جب کوئی دوسرا آدمی اس کی نظر کے اس انداز کو تعجب اور حیرانی سے دیکھتا تو وہ خجل اور شرمندہ سا ہو جاتا۔

    ’’تو سالا یہ بھی شریف ہے!‘‘ وہ سوچتا اور پھر کسی دوسرے آدمی کو تاکنے لگتا۔ اس کے انداز میں کسی فاحشہ کی نظروں کا سا انداز تھا۔ ایک حریصانہ جذبہ جو ابھی تک محض جذبہ ہی تھا۔

    اس نے ایک مرتبہ پھر صبح سے گزری ہوئی باتیں دل میں دہرائیں جن کو وہ کئی مرتبہ دل میں دہرا چکا تھا اور ہر مرتبہ اس نے روح کے لیے ایک نیا جہنم پایا تھا۔۔۔ ہر مرتبہ اس کے ذہن پر زہریلے بچھو یلغار کرتے۔ بھوک کے باوجود اس کا چہرہ آگ میں جھلس رہا تھا۔ سرخ ہو رہا تھا، پھر سرخی مدھم پڑتی گئی۔ ایک تاریک سایہ اسکے چہرے پر پھیل گیا جس طرح جلتے ہوئے انگاروں پر بتدریج راکھ کی تہہ جم جاتی ہے۔

    پھر اسنے اپنے پیٹ سے آواز ٹھتی محسوس کی۔ آج پیٹ بھی باتیں کر رہا تھا اس نے قمیض کے نیچے ہاتھ ڈال کر اپنے پیٹ کو سہلایا جو کمرسے لگ چکا تھا، مگر وہ خاموش نہ ہوا۔ بھوکے بچے کی طرح بلکتا ہی رہا۔ چیختا ہی رہا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا بلکتے ہوئے بچے کی چیخیں اس کے لیے ناقابل برداشت تھیں۔

    شہر کی بارونق سڑک پر فٹ پاتھ کے کنارے وہ کھڑا ہوا تھا کہ کسی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا، اس نے مڑ کر دیکھا۔ اس کا ایک دوست جو مل میں اس کے ساتھ کام کرتا تھا، کھڑا تھا اور اچانک وہ ماضی میں کھو گیا۔ جب طویل بیماری کے بعد وہ مل میں کام پر گیا تو اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ منیجر نے کہا تھا کہ تمہاری صحت اس قابل نہیں کہ ہم تمہیں دوبارہ کام پر رکھ سکیں۔ اس نے بہت منت سماجت کی تھی۔ بہت کچھ یقین دلایا تھا کہ وہ کام کر سکتا ہے۔ لیکن کان بہرے ہو چکے تھے پھر وہ وہیں بیٹھ گیا تھا۔۔۔ اور جب ملازمت اور اچھی کارکردگی کا سرٹیفکیٹ اسے دیا گیا تو وہ چونکا۔ اس نے پھر کچھ کہنا چاہا لیکن احساس کی شدت سے زبان گنگ ہو گئی تھی۔ اس کے ذہن میں صرف ایک ہی خیال تھا۔ اب وہ بیکار ہو گیا ہے، اب وہ بیکار ہو گیا ہے، پھر اس کی صحت ہر جگہ آڑے آئی۔ وہ صرف ایک ہی کام کر سکتا تھا۔ مختلف ملوں میں اس نے اسی کام کے لیے کوشش کی لیکن اس صحت کو کیا کرتا جو طویل بیماری نے اس سے چھین لی تھی۔ اس کھال کو کیا کرتا جو ہڈیوں سے چمٹ گئی تھی۔ ان پسلیوں کو کیا کرتا جو اس پتنگ کے کانپ ٹھڈے معلوم ہوتے تھے جس کا کاغذ گل گیا ہو، ان آنکھوں کو کیا کرتا جو سیاہ حلقوں میں دھنسی ہوئی تھیں، ان گالوں کو کیا کرتا جن میں اتنے گہرے گڑھے تھے کہ ہر طرف ایک ایک انڈا آسانی سے سما سکتا تھا، ان نسوں کو کیا کرتا جن میں خون کے محض سانس کی وجہ سے دھڑکن معلوم ہوتی تھی! جب کہ مل خون چاہتی ہے، گوشت چاہتی ہے،محض ہڈیاں، محض سانس، محض کانپ ٹھڈے تو وہ کچرا ہیں جو روزانہ بھنگی جھاڑو سے جمع کر کے باہر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتا ہے۔

    اس کا دوست کہہ رہا تھا ’’یار اب تو کھانسی نے ناک میں دم کر دیا ہے۔ ہر دم کھوں کھوں۔ منیجر نے کہا ہے کہ اسپتال جا کر دکھاؤں۔ وہ نہیں چاہتا کہ ٹی۔ بی۔ کے جراثیم دوسرے مزدوروں میں پھیلیں۔ مگر تم یہ بتاؤ کہ یہ جراثیم مجھ میں کیسے داخل ہوئے۔ میں تو مل میں سب سے زیادہ صحت مند تھا۔ ان سے کہو کہ مل میں وہ مشینیں لگائیں جو روئی کے اڑتے ہوئے ریشوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں تو کان پر جوں نہیں رینگتی۔ بھیا روئی کا ریشہ پہننے کے لیے ہوتا ہے! کھانے کے لیے نہیں اور جب تم انہیں سانس کے ذریعے کھاؤگے تو یہ پھیپھڑوں کے گرد جالا نہیں بنےگی تو اور کیا کرےگی‘‘

    وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ تنہائی کا احساس کچھ کم ہو گیا تھا۔ ’’تو کیا اب وہ تمہیں بھی علیحدہ کر دیں گے؟

    ’’دیکھو! کیا پتہ کیا ہو‘‘۔

    ’’ہاں تمہیں نوکری بھی ملی یا نہیں؟‘‘

    ’’نہیں حالانکہ مجھے دق نہیں ہے۔ لیکن کمزوری۔۔۔‘‘ پھر وہ خاموش ہو گیا۔ اس کا دوست سڑک کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا تھا۔

    مل میں جہاں وہ کسی زمانے میں ملازم تھا وہ تمام دن لوگوں کی باتیں سنتا۔ جن میں شدید جنسی بھوک کے علاوہ کچھ نہ ہوتا۔ آوارہ عورتوں کے قصے وہ یوں مزے لے لے کر بیان کرتے گویا کوئی لذیذ چیز کھا رہے ہوں۔ اس ماحول کی اسی فضا کو سوچ کر اس نے سمجھا تھا کہ ایسے لوگ اس کو آسانی سے مل جائیں گے لیکن اب تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ ایسے لوگ تو غائب ہی ہو گئے تھے۔ اپنی اس بے چارگی پر وہ اس وقت رونا چاہتا تھا، لیکن معدے کی آگ نے آنسوؤں کے سوتوں کو خشک کر دیا تھا۔

    ایک مرتبہ پھر اس نے سر کو جھٹکا۔ نفی کے انداز میں سرکو ہلایا۔ ’’نہیں۔ نہیں! میں یہ نہیں کر سکتا۔ مجھ سے یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا۔ میں یہ نہیں کر سکوں گا‘‘۔ سر کو تیزی سے جھٹکنے کی وجہ سے سر میں دھماکے سے ہونے لگے۔ بچہ زور زور سے رونے چیخنے لگا۔ وہ ایک مرتبہ پھر دورخ میں جل رہا تھا۔ وہ تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا سڑک میں گم ہو گیا۔ ایک آدمی کی تلاش میں جس سے وہ یہ کہہ سکے۔

    ’’صاحب مال چاہیے ایک دم فرسٹ کلاس‘‘۔ یہ جملہ وہ شریف آدمی سے نہ کہہ سکا تھا۔

    پھر رات کے سائے گہرے ہو گئے۔ سڑکیں خاموش ہو گئیں۔ انسانوں کا سیلاب کہیں گم ہو گیا۔ آسمان سے تیزی سے شبنم گرنے لگی اس خنک نمی میں اس کو یوں محسوس ہوا گویا تارے اور بھی نکھر گئے ہیں۔ ان کو روشنی اور بھی تیز ہو گئی ہے۔ حالات تبدیل ہونے کے ساتھ ماحول کتنی تیزی سے بد ل جاتا ہے۔ اس نے سوچا فضا میں اس کو آسودگی اور اطمینان کی لہروں کی آوازیں ابھرتی محسوس ہوئیں۔ اس کا دل مطمئن تھا، ذہن آسودہ اور روح پرنور کی بارشیں ہو رہی تھیں۔

    جب وہ اپنے مکان میں داخل ہوا تو کمرے میں پیلی پیلی اداس سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔

    ’’دروازہ بند کرو‘‘۔ اس نے بیوی سے کہا۔

    ’’کیوں کوئی اور نہیں ہے؟‘‘ بیوی نے اٹکتے ہوئے پوچھا۔

    اس کے سر پر گویا ایک ہتھوڑا پڑا۔ ’’نہیں کوئی اور نہیں ہے‘‘۔ اس نے جواب دیا اس کی بیوی دروازہ بند کرنے چلی گئی اور وہ ایک مرتبہ پھر صبح کی باتیں دل میں دہراتا رہا۔ صبح جب وہ دونوں اٹھے تھے توایک دوسرے کی طرف دیکھ کر انہیں معلوم ہوا کہ رات بھر بھوک کی شدت سے وہ نہیں سو سکے ہیں۔ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ باوجود لاکھ کوشش کے اس کو نوکری نہیں ملی تھی۔ باوجود لاکھ خوشامد کے اس کو قرض نہ ملا تھا۔ دکان سے سودا ادھار نہ ملا تھا۔ تو مجبور ہو کر اس نے بیوی کے سامنے ایک نہایت گھناؤنی تدبیر رکھی تھی اس کی بیوی نے بھی کوئی مخالفت نہ کی۔ شاید وہ بھی اسی پہلو پر سوچ رہی تھی۔ اس نے صرف اتنا کہا تھا۔

    ’’لیکن آدمی؟‘‘

    ’’وہ میں لایا کروں گا۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل آیا تھا۔

    اس کی بیوی دروازہ بند کر چکی تھی۔ اس نے تیزی سے کہا، ’’خدا نے ہمیں بچا لیا۔ مجھے نوکری مل گئی ہے لو یہ کھانا میں نے بھی ابھی تک نہیں کھایا ۔ بھلا میں تمہارے بغیر کھا سکتا تھا! پھر اس نے بیوی کو زور سے بھینچ لیا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ آہستگی سے اس کے ہاتھ اپنے جسم سے علیحدہ کر دئیے۔ اس کے چہرے پرمردنی چھائی ہوئی تھی! ایسی مردنی جو فاقہ کی زردی سے بالکل علیحدہ تھی۔ وہ پلنگ پر گر پڑی اور سسکیوں اور آہوں کے درمیان اٹکتے ہوئے ہذیانی انداز میں کہا۔

    ’’مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ ہم نہیں بچ سکے۔ میں نے کھانے کا انتظام کر لیا تھا‘‘۔

    اس کو اچانک یوں محسوس ہوا گویا وہ پھر پستیوں میں گرا ہے۔ سیاہ دھبے نے پھیل کر اس کے وجود کو ڈھانپ لیا۔ ایک گمبھیر احساس تنہائی۔ وہ کرب و اذیت۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے