الٹی قبر
عائشہ تو یہ چاہتی تھی کہ زمین پھٹ پڑے اور وہ زمین میں ہمیشہ کے لیے سما جائے، مگر ہوائی جہاز عائشہ کو زمین سے بہت اوپر لے اڑا۔
عائشہ زندگی میں پہلی بار ہوائی جہاز میں بیٹھی تھی، اس لیے جیسے ہی ہوائی جہاز کھٹمنڈو کے ہوائی اڈے سے اڑا تو وہ گھبرا کر چیخنے چلانے لگی۔ دوایئر ہوسٹز دوڑ کر اس کے پاس گئیں اور سمجھانے اور تسلی دینے لگیں۔ مگر عائشہ کا ہم سفر جوان نور المومن اپنے مخصوص بنگلہ آمیز اردو لہجے میں ائیرہوسٹس سے بولا، ’’آپ تکلیف نہ کیجیے بی بی لوگ۔۔۔ میں اسے ڈھاکہ سے کھٹمنڈو تک جگہ جگہ خود کشی سے بچاتا لایا ہوں۔ اب یہ ہوائی جہاز میں آکر پھر نخرے کر رہی ہے۔ آپ ہٹ جائیے، میں اسے ایک ہی بات میں چپ کرادوں۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر نور المومن نے بنگلہ زبان میں واقعی صرف ایک ہی جملہ ایسا کہا کہ عائشہ ایک دم چپ اور شانت ہوکر ہوائی جہاز کی کھڑکی سے باہر نیچے زمین پر سبزے کے قالینوں، سفید موتی مالاؤں جیسے ندی نالوں اور شاہراہوں اور کھلونوں جیسی موٹروں، بسوں کو بڑی حیرت سے پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتے ہوئے شاید یہ سوچنے لگی ہو کہ آدمی بھی عجیب ہے۔ زندگی سے کتنا ہی بیزار اور موت کا کتنا ہی طلب گار۔۔۔ مگر جب موت سامنے آجائے تو اس کی گھگھی بندھ جاتی ہے اور وہ موت سے بچنے کے لیے پھر زندگی ہی کی چوڑی چکلی پیٹھ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔
بے چاری عائشہ بھی دنیا کے ان لاکھوں کروڑوں مجبور اورمظلوم انسانوں میں سے ایک تھی جو اس دنیا میں اپنی پیدائش سے لے کر موت تک نہ تو زندگی چاہتے ہیں اور نہ موت۔
زندگی سے بھی بیزار۔۔۔
اور موت سے بھی خوف زدہ۔۔۔
کراچی سے دہلی، دہلی سے ڈھاکہ، ڈھاکہ سے ٹوکیو، ٹوکیو سے واشنگٹن اور واشنگٹن سے سڈنی تک ساری دنیا کے لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں انسان نہ جینا چاہتے ہیں اورنہ مرنا چاہتے ہیں۔ ویسے یہ بدنصیب لوگ جب تک زندہ رہتے ہیں تب تک بھی قبر ہی میں رہتے ہیں۔ دنیا کی سطح زمین پر ان کے چھوٹے سے مکان کی چار دیواری الٹی قبر ہی کی طرح تو ہوتی ہے اور جب وہ سچ مچ مرجاتے ہیں تو ان کی گھر نما قبر پھر سے سیدھی ہوکر اپنی اصلی شکل میں آکر زمین میں دھنس جاتی ہے۔ اور ہمیشہ کے لیے قبر بن جاتی ہے۔
عائشہ بنگالن نہ تھی، بہاری تھی۔ پٹنہ شہر کے ایک موٹر مکینک حمود الرحمن کی اکلوتی بیٹی اور ٹیکسی ڈرائیور عبد الوحید کی بیوی جسے کوئی سیاسی عقیدہ یا نظریہء پاکستان ڈھاکہ نہیں لے گیا تھا، بلکہ اس کا شوہر عبد الوحید اسے ڈھاکہ لے گیا تھا۔ اور مرد کی اس دنیا میں، عورت کی قومیت بھی مرد کی قومیت کی محتاج ہوتی ہے۔ اس لیے قومیت اور شہریت کے دفترو ں کی فائلوں میں عائشہ بھی ’’سٹیزن آف پاکستان‘‘ بن گئی تھی مگر اس کے محلے تانتی بازارکی ساری بنگالن پڑوسنیں ۲۴ سال گزرنے کے باوجود بھی اسے ’’عائشہ بہاری‘‘ ہی کہا کرتی تھیں۔ حالانکہ عائشہ کی آخری شلوار قمیض تو پٹنہ شہر میں اس کے ماں باپ کے گھر کی ایک کھونٹی پر لٹکی رہ گئی تھی اور اس کے بعد سے وہ ساڑی ایسی باندھنے لگی تھی کہ بنگالن بھی کیا باندھیں!
جب بھی وہ کمر تک لمبی زلفیں لہراتی اور خوب کس کر ساڑی باندھے سودا سلف خریدنے محلے کی بازار کی بڑی سڑک سے گزرتی تو کریسنٹ جنرل اسٹور کے پنجابی پرو پرائٹر چودھری خوشی محمد کے منہ میں بہت سا پانی ڈبڈبا آتا اور وہ عائشہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بے اختیار بول اٹھتا، بھئی بلے بلے ٹور بنگالن دی۔
ہائے رے سحر بنگالہ!
اوئے عالی جی تیرا بیڑہ غرق۔
سچ ہی کہیا تو نے کہ، جس نے بنگلہ نار نہ دیکھی وہ نہیں پاکستانی۔
لمبے بال، بڑی بڑی سیاہ آنکھوں اور ٹپیکل بنگالی ساڑی کے علاوہ وہ ۲۴سال سے بولتے بولتے بنگلہ زبان بھی ایسی فرفرانے لگی تھی کہ اس کے پاس پڑوسنیں کھسر پھسر میں شرطیں کرتی کہ،
چلو دس کے بیس۔۔۔ عاشو بہاری نہیں ہے۔۔۔ بنگالی کا تخم ہے۔۔۔
مگر ۲۴ سال آرام سے ہنستے بولتے او ربالکل بنگالن کی طرح رہتے رہتے اچانک ایک دن عائشہ کو یاد دلایا گیاکہ وہ بنگالن نہیں، بہاری ہے۔ وہ ڈاٹر آف سوائیل نہیں۔۔ چوبیس سال گزر جانے کے باوجود بھی غیر ملکی ہے۔
بڑی جوشیلی آوازیں پلٹن میدان، ریس کورس، موتی جھیل اور بیت المکرم کے مائیکرو فونوں سے گونج رہی تھیں۔ نوجوان جوشیلے مقرر غصے اور جوش میں اتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ اسلام پھر سے تیرہ سو برس پیچھے چلا گیا تھا تو پاکستان بھی تیرہ سو میل دور پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اور بنگالیوں اور بہاریوں نے ایک دوسرے کے خلاف نیزے، چھرے اور ہاکی اسٹکیں اٹھالیں اور دونوں طرف کے سیاسی غنڈوں نے بنگالیوں اور بہاریوں دونوں کو قتل کرنا اور دونوں کے گھر بار اور عورتوں کے پاک شفاف جسم لوٹنے اور آلودہ کرنے شروع کردیے، مگر اس وقت سے بھی بنگلہ زبان نے تانتی بازار میں اور اردو زبان نے محمد پور میں عائشہ کی جان اور آن دونوں بچالی تھیں۔
اور اب پھر ہوائی جہاز میں بھی بنگلہ زبان کے ایک ہی جملے نے عائشہ کو جیسے پھر سے زندہ رہنے کے لیے راضی کرلیا تھا۔
ایک ایئر ہوسٹس نے دوسری سے پوچھا، ’’رباب ڈارلنگ!تم تو بنگلہ زبان اچھی طرح جانتی ہو، اس بنگلہ جملے کی اردو تو بتاؤ جس نے اس چیختی چنگھاڑتی جنگلی بھینس کو ایک دم خاموش کرا دیا تھا۔‘‘
رباب ڈارلنگ نے اس بنگلہ فقرے کاا ردو ترجمہ یہ بتایا تھا، اس بنگالی جوان نے اس عورت سے صرف اتنا کہا تھا، ’’زمین پر تو جگہ جگہ موت مانگتی پھرتی تھی، اب ہوائی جہاز میں موت ممکن ہے تو اس سے ڈرنے لگتی ہے حرام زادی۔‘‘
پہلی ائیر ہوسٹس نے ہوسٹس رباب ڈارلنگ پر اپنا شبہ ظاہر کیا، ’’مجھے یوں لگتا ہے یہ عورت اس بنگالی کی بیوی نہیں ہے اور یہ اسے ڈھاکہ سے زبرستی اٹھاکر لایا ہے جبھی تو یہ اس کے ساتھ جانے سے شور مچاتی ہے۔‘‘
نورالمومن عائشہ کو زبردستی اغوا کرکے نہیں لے جارہا تھا۔ البتہ اس کی اجڑی کوکھ کو پھر سے ہری کرنے کا بہت بڑا جھوٹ بول کر اسے ڈھاکہ سے کھٹمنڈ واور اب کھٹمنڈ و سے کراچی لے جارہا تھا۔
عائشہ نور المومن پر بھائی جیسا بھروسہ کرتی تھی کیونکہ وہ تانتی بازار میں مشترکہ دیوار والا پڑوسی تھا۔ اس کی بیوی آمنہ اس کی ہم راز سہیلی تھی۔ دونوں کے شوہر ہمسائے ہونے کے علاوہ ہم پیشہ بھی تھے۔ یعنی دونوں ٹیکسی ڈرائیور تھے۔
محلے کا ایک غنڈہ حسن اللہ، نور المومن اور آمنہ کی شادی سے بہت پہلے آمنہ پر بری آنکھ رکھتاتھا اور اس سے شادی کا طلب گار تھا۔ لیکن آمنہ کے باپ نے حسن اللہ کو دھتکارکر اپنی آمنہ کو نورالمومن سے بیاہ دیا تھا۔ حسن اللہ کو اس شادی کی بڑی خار تھی اور وہ آمنہ کے جسم کا رس پی جانے کے لیے ہر وقت موقع کا متلاشی رہتا تھا۔ اور اسی لیے جب کبھی نور المومن اور حسن اللہ کا سرِ بازار جھگڑا ہوتا، عائشہ کے شوہر عبد الوحید نے نورُل کی طرف سے حسن اللہ کی ہمیشہ پٹائی کی تھی۔
اور پھر جب بنگلہ والوں اور اردو والوں کا فساد تانتی بازار میں بھی دھم سے کود پڑا تو جیسے آمنہ کا چھینکا عین حسن اللہ کے سر پر ٹوٹا۔ حسن اللہ نے مکتی باہنی کے ایک جوان کے جسم سے زبردستی اتاری ہوئی وردی خود پہن لی اور ایک بہاری تاجر کی لوٹی ہوئی جیپ میں اپنے پالتو غنڈوں کے ساتھ نورل کے گھر چڑھ دوڑا۔ اور گھر میں اکیلی آمنہ کو مادر زاد ننگی کر کے باہر جیپ پر ڈالنے کے لیے گھر سے باہر آیاتو سامنے مسجد کے محراب سے چھپ کر دیکھنے والے پیش امام مولوی شمس الحق نے لاحول پڑھتے ہوئے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا اور تیز تیز دعائیں مانگنے لگا تھا۔
’’یا الہ! ہم مسلمانوں کو نیک رفیق عطا فرما۔‘‘
’’یا اللہ! ہم پاکستانیوں کو راہ راست پر گامزن کر۔‘‘
’’یا اللہ! اگر یہی سب کچھ دکھاناتھا تو پاکستان کیوں بنایا تھا مالک؟‘‘
رات جب نور المومن اور عبد الوحید کو آمنہ کے اغوا کی خبر ملی تو عبد الوحید نے بھی صندوق سے اپنا پرانا چھرا نکال لیا۔ لیکن عائشہ نے صرف اپنے سہاگ کوبچانے کے لیے تعصب کا سہارا لیا۔
’’تم کیوں بیچ میں پڑتے ہو رضیہ کے ابو! مت بھولو کی تم بہاری ہو۔۔۔ حسن اللہ بھی بنگالی اور نورل بھی بنگالی۔۔۔ وہ لائے اپنی بیوی اپنے دشمن کے پنجے سے۔۔۔ تمھیں کیا پڑی ہے؟‘‘
مگر عبد الوحید اس وقت بہاری نہیں تھا۔۔۔ اور نورل اس کے لیے بنگالی نہیں تھا، وہ صرف دوست تھا، وہ صرف پیار تھا۔۔۔ اور دوست کی کوئی قومیت اورپیار کی کوئی جغرافیائی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس لیے عبد الوحید غصے سے باہر نکل گیا۔
پھر وہی ہوا جس کا عائشہ کو ڈر تھا۔ عائشہ بھی دوڑی دوڑی اپنے شوہر اور نورل کے پیچھے پیچھے گئی تھی۔۔۔ مگر وہ حسن اللہ کے باڑے پر اس وقت پہنچی، جب کہ حسن اللہ کے پستول کی گولی کبھی کے اس کے شوہر وحید کے سینے سے پار ہوچکی تھی، اور مشکیں کسے ہوئے نور المومن کے لمبے لمبے بال پکڑ کر زور زور سے کھینچتے ہوئے حسن اللہ نشے میں دھت نورل سے کہہ رہا تھا، ’’شالا۔۔۔ پاکستانی جاشوش۔۔۔ تیری آمنہ۔۔۔ نئیں میری آمنہ۔۔۔ نائیں تیری ہی آمنہ کا نچلا دھڑ۔۔۔ تو ایسی سندر بھاشا بولتا ہے۔۔۔ کہ ہم کو جنت کا مزہ آتا ہے۔۔۔‘‘
اس کے آگے عائشہ کچھ نہ سن سکی تھی کیونکہ وہ بے ہوش ہوکر عبد الوحید کی لاش پر گرپڑی تھی۔
اور اسے جب ہوش آیا تو اس کے پاس زخمی نورل بیٹھا تھا اور بیچاری کی تیرہ سالہ بیٹی رضیہ بھی اغوا ہوچکی تھی۔ رضیہ کو نہ پایا تو عائشہ نے پہلے تو اپنا سر پیٹ لیا اور اپنے آپ کو ختم کرنا چاہتی تھی کہ نورل بولا، ’’عاشو بہن۔۔۔ اب تجھے رضیہ کے لیے جینا ہے۔ رضیہ زندہ ہے اورقاضی کبیر الدین کے گھر میں بالکل محفوظ ہے۔ چل آ میرے ساتھ۔‘‘
قاضی کبیر الدین بہاری تھے۔ مگر بہت بڑے مل مالک ہونے کے علاوہ شیخ مجیب اور تاج الدین کے اچھے دوست تھے۔ عوامی لیگ کو بڑے بڑے چندے عطیے دیتے تھے۔ اس لیے وہ پاکستانی فوج کے جاشوش نہیں تھے۔ صرف ٹیکسی ڈرائیور عبد الوحید ہی پاکستانی فوج کا جاشوش تھا۔
رضیہ بیٹی کے لیے عائشہ اپنے آپ کو سنبھالتی نورل کے ساتھ قاضی کبیر الدین کے گھر جانے کے لیے نکلی۔ نورل نے تو صرف عائشہ کو زندہ رکھنے کے لیے جھوٹ کہا تھا۔ نورل دراصل عائشہ سے دل ہی دل میں بڑا شرمندہ تھا کہ اس کی وجہ سے عائشہ کے سر سے سہاگ کی مانگ ہمیشہ کے لیے مٹ گئی اور اس کی مامتا بھری کوکھ اجڑ گئی۔ نورل نہ اس کا سہاگ واپس لاسکتا تھا اور نہ اسے پتہ تھا کہ عائشہ کی اکلوتی جوان نوخیز بیٹی رضیہ کو کون اور کہاں اغوا کر کے لے گیا ہے۔ مگر مظلوم عائشہ بڑی معصومیت کے ساتھ جھوٹے کو گھر پہنچانا چاہتی تھی۔ اور جب نورل ٹال مٹول کرنے لگا، تو عائشہ، ’’رضیہ۔۔۔ رضیہ میری بیٹی۔۔۔ میری رجّو۔۔۔ ’’پکارتی سڑک پر قاضی کبیر الدین کی عالی شان کوٹھی کی طرف دوڑنے لگی۔ نورل بھی اس کے پیچھے دوڑا،
’’رضیہ۔۔۔ رضیہ۔۔۔ رضیہ۔۔۔‘‘
مگر کہاں ایک سہاگ لُٹی، کوکھ اجڑی، بھوکی بیمار عورت کی باریک نسوانی چیخ اور کہاں لاکھوں کروڑوں جوشیلے مردوں کے گھن گرج دار نعرے۔۔۔
’’جوائے بانگلہ۔۔۔ جمائے بنگ بندھو۔۔۔‘‘
’امار دیش۔۔۔ تو مار دیش۔۔۔‘‘
’’بانگلہ دیش۔۔۔ بانگلہ دیش۔۔۔‘‘
’’امارنیتا۔۔۔ تومار نیتا۔۔۔‘‘
’’شیخ مجیب۔۔۔ شیخ مجیب۔۔۔‘‘
ریس کورس کے لان کے بیچوں بیچ بانگلہ دیش کا پہلا جھنڈا بلند ہوا تھا۔ سارا ڈھاکہ ریس کورس کی طرف بھاگا جارہا تھا جہاں پاکستان کا آخری فوجی جرنیل مشرقی پاکستان کا آخری پستول بانگلہ دیش کے پہلے فوجی جرنیل کے حوالے کرنے والا تھا۔۔۔ اور مائیکرو فون سے ایک جوشیلے نوجوان لیڈر کی آواز گونج رہی تھی،
’’بانگلہ دیش آج سے ایک آزاد اور سوتنتر دیش ہے۔ اس میں رہنے والے بنگالی ہوں یا بہاری، ہندو ہوں یا عیسائی سب آزاد ہیں۔۔۔ آج سے ان سب کو اچھی زندگی ملے گی۔۔۔‘‘
مگر اس وقت عائشہ کو اچھی زندگی نہیں، صرف رضیہ چاہیے تھی۔۔۔ اور وہ قاضی کبیر الدین کے پھاٹک تک پہنچ گئی تھی لیکن نورل کے اشارے پر دربان نے اسے روک لیا تھا اورنورل عائشہ کو جھوٹی تسلی دے کر خود اندر گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اندر سے بہلا پھسلا کر قاضی کبیر الدین کی پھوپی کو بھی جھوٹ بولنے باہر بلا لایا۔ اس سکھائی پڑھائی بڑھیا نے بھی دروغ مصلحت آمیز کو راستی شرانگیز پر ترجیح دیتے ہوئے عائشہ کے سر پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے جھوٹی ڈھارس دی کہ ’’تیری بیٹی رضیہ کبیر الدین کے چھوٹے بھائی، قاضی بشیر الدین کے بیوی بچوں کے ساتھ بڑی حفاظت سے کراچی بھیج دی گئی ہے۔‘‘ اور جب نورل نے بھی بیت المکرم کے مقدس میناروں کی طرف شہادت کا پنجہ اٹھاکر پھوپی کے جھوٹ پر اپنا جھوٹ چسپاں کردیا تو سیدوں کی بیٹی عائشہ کو یقین آگیا اور وہ پھوپی کے مشورے پر نورل کے ساتھ کراچی جانے پر آمادہ ہوگئی۔
دلوں کا حال کون جانے! نورل سچ مچ عائشہ کا بھائی بن گیا تھا یا پھر وہ عائشہ کو اس لیے پاکستان لے جارہا ہو کہ حسن اللہ اسے ڈھاکے میں جینے نہیں دے گا۔ عائشہ کو بھی نہیں چھوڑے گا—شاید یہ بھی کہ اگر پاکستان میں اسے ٹیکسی چلانے کو نہ ملی تو یہ ٹیکسی سہی۔۔۔ آدمی پر تین وقت کا فاقہ ہو تو سور بھی حلال ہو جاتا ہے۔۔۔ اور سور ایسا جانور ہے جس میں جنسی شرم و حیا نام کو نہیں ہوتی۔۔ واللہ اعلم۔ نورل کے دل کا حال نورل ہی جانے، البتہ وہ آمنہ کے زیور اور بچا کھچا سارا روپیہ لے کر رضیہ بیٹی کے نام کے مقناطیس سے عائشہ کو کھینچتا کھینچتا ڈھاکہ سے کلکتہ اور کلکتہ سے کھٹمنڈو پہنچ گیا۔ اور کھٹمنڈ و سے پی آئی اے ان دونوں کو لے کر کراچی کی طرف اڑ گیا۔ اس ہجرت میں کوئی سیاسی عقیدہ یا نظریہ پاکستان عائشہ کو مغربی پاکستان نہیں لے جارہا تھا، بلکہ اس دنیا میں اس کا واحد ہمدرد یا نیا مرد نورل اسے نئی زندگی دلانے مغربی پاکستان لے جارہا تھا۔
پہلی ہجرت میں جب عائشہ مشرقی پاکستان جارہی تھی تو کسی نے پوچھا تھا، ’’مشرقی پاکستان کیوں جارہی ہو؟‘‘
عائشہ بلکہ لاکھوں عائشاؤں نے یہی ایک جواب دیا تھا، ’’رجّو کے ابّا سے پوچھو۔۔۔‘‘
اب پھر ۲۶ سال بعد پھر ایک اور ہجرت اور پھر وہی سوال؟
’’مغربی پاکستان کیوں جارہی ہو؟‘‘
جواب بھی وہی۔
’’نورل سے پوچھو۔‘‘
عائشہ تو ریل میں بھی ایک ہی بار بیٹھی تھی۔
پہلی ہجرت کے وقت، جب ۱۹۴۷ء کے فسادات میں پٹنہ شہر سے بھی امیر مسلمان، ان کے اہل و عیال، نوکر چاکر حتی کہ داشتائیں ہوائی جہازوں کے ذریعے صحیح سلامت پاکستان کی طرف اڑ گئے تھے اور عبد الوحید اور عائشہ جیسے غریب مسلمان ٹیکسی ڈرائیور، چھوٹے دکان دار، لوہار، چمار، باربر، دھوبی، مستری وغیرہ جیسے محنت کش لٹتے کٹتے چھپتے چھپاتے، دھکے کھاتے، کھچا کھچ بھری ہوئی ریل گاڑیوں میں ٹھنس ٹھنساتے مشرقی اور مغربی پاکستان کی طرف رینگ رہے تھے۔ ایک ایسی ہی ٹرین میں عائشہ اور اس کا شوہر عبد الوحید بھی سینڈوچ کی طرح ٹھنسے ہوئے تھے اور عبد الوحید اپنی حاملہ بیوی عائشہ کو تسلی دے رہا تھا،
’’بس اب ڈھاکہ پہنچنے کی دیر ہے عاشو!پھر ہمیں نئی زندگی ملے گی۔ قائد اعظم نے کہا ہے کہ پاکستان صرف غریب مسلمانوں کی خوش حالی کے لیے بنایا گیا ہے۔ اب پاکستان میں کوئی مسلمان بھی غریب یا تنگ دست نہیں ہوگا۔ وہاں ڈھاکہ میں ہمارا ذاتی مکان ہوگا، جہاں سے پٹنہ کے مالک مکان گھنشیام داس کی طرح کوئی دوسرا سنگ دل ظالم بنیا ہمیں اپنے مکان سے ہرگز کبھی بھی نکال نہیں سکے گا۔‘‘
اب پھر عائشہ کی دوسری ہجرت تھی۔
آخری ہجرت نہیں۔
کیونکہ دنیا میں غریب آدمی کی آخری ہجرت کا کوئی ٹھیک سے پتہ ہی نہیں ہوتا۔ یا پھر اس کی آخری ہجرت آسمانوں کی طرف ہی ہوتی ہے۔
پہلی ہجرت میں عائشہ ٹرین کے ڈبے میں ٹھنسی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ اس کا خاوند عبد الوحید بیٹھا ہوا عائشہ کی جاگتی آنکھوں کے سامنے مشرقی پاکستان کے ڈھاکہ شہر میں ایک نئی اور نہایت خوش حال زندگی کے دل فریب تانے بانے بُن رہاتھا۔
اور اب دوسری ہجرت میں عائشہ ہوائی جہاز میں بیٹھی تھی اور اب کے اس کے شوہر کے بجائے اس کا ہونے والا شوہر یا پھر سچ مچ کا منہ بولا بھائی نور المومن عائشہ کی جاگتی آنکھوں کے سامنے مغربی پاکستان کے کراچی شہر میں ایک نئی اور نہایت خوشحال زندگی کے دل فریب تانے بانے بن رہا تھا۔
نورل بھی عائشہ کو بالکل اس کے شوہر عبد الوحید جیسے ہی تسلی دے رہا تھا۔
’’بس اب کراچی پہنچنے کی دیر ہے عاشو!تجھے وہاں تیری جان رضیہ بیٹی بھی ملے گی اور سچ مچ کی نئی زندگی بھی۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان صرف غریب مسلمانوں کی خوش حالی کے لیے بنایا گیا ہے۔ اب پاکستان میں کوئی مسلمان غریب یا تنگ دست نہیں ہوگا۔ وہاں کراچی میں ہمارا ذاتی مکان ہوگا، جہاں سے حسن اللہ جیسا کوئی غنڈہ بدمعاس ہمیں بے دخل نہیں کرسکے گا۔ پاکستان سے آئے ہوئے بہت سے بنگالی خانسامانوں نے مجھے بتایا کہ وہاں پاکستان میں کوئی غریب آدمی نہیں ہے۔ سب امیر کھاتا پیتا لوگ ہے۔ سارا دنیا کا غریب لوگ تو سالا ادھر اپنے بنگال میں رہتاہے۔ فکر نہ کر، کراچی پہنچتے ہی رضیہ بھی ملے گی اور اچھی زندگی بھی۔‘‘
عائشہ جیسے خواب میں بڑبڑا رہی تھی۔
’’رضیہ کا ابو بھی یہی بولتا تھا نورل۔۔۔‘‘
پھر کچھ سوچ کر عائشہ نے نورل سے پوچھا، ’’نورل!قاضی بشیر الدین میری رضیہ کو اپنے ساتھ لے گیا، مگر وہ اپنے بھائی قاضی کبیر الدین کو پاکستان کیوں نہیں لے گیا؟‘‘
نورل اس غیر متوقع سوال سے ایک دم سٹپٹاسا گیا اور پھر فوراً ہی سنبھل کر بولا، ’’اری مورکھ!قاضی کبیر الدین ڈھاکہ میں اتنے بہت سے دکان، جوٹ مل، سنیما، پیٹرول پمپ اورامپورٹ اکسپورٹ چھوڑ کر کراچی کیسے جاسکتا ہے!اتنا پراپرٹی اور اتنا پیسہ والا آدمی ڈھاکہ نہیں چھوڑ سکتا۔ اوروہ تو اپنے شیخ مجیب اور تاج الدین کا تو بڑا گہرا دوست ہے۔ عوامی لیگ کو بہت بڑا بڑا چندہ دیا ہے۔ اس لیے اس نے شیخ صاحب سے اجازت لے کراپنے بھائی قاضی بشیر کو پاکستان بھجوادیا۔ قاضی بشیر کا ڈرائیور ہم کو بولتا تھا کہ پاکستان میں بھی قاضی بشیر ایسا ہی خوب سیٹ SET ہوگیا ہے جیسے اس کا بھائی قاضی کبیر بانگلہ دیش میں سیٹ ہے۔ کراچی میں بہت بڑا بنگلہ۔ کوئی مل بھی لگا لیا شاید، پٹرول پمپ بھی ہے۔ میں تو وہاں پاکستان میں قاضی بشیر ہی کی کوٹھی پر ڈرائیوری کروں۔۔۔‘‘
عائشہ نے ویسے ہی ایک اندیشہ ظاہر کیا، ’’نورل، اگر کراچی میں قاضی بشیر کا بنگلہ نہ ملا تو ہم وہاں کہاں رہیں گے؟‘‘
نورل کے پاس اس سوال کا فوری کوئی جواب نہ تھا، اس لیے اس نے ٹالنے کے لیے ہوائی جہاز کی کھڑکی سے نیچے زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’دیکھو عاشو، اولا (اللہ) میاں کا کتنا زمین نیچے خالی پڑا ہے۔ ادھر سالا ہم غریبوں کو ایک کمرہ کھولی بنانے کا زمین نہیں ملتا۔ صرف سالا دو گز زمین قبر کے لیے فری ملتا ہے اور ادھر امیر لوگ کو۔۔۔ بنگلہ دیش میں قاضی کبیر کو بڑا بنگلہ تو ادھر پاکستان میں قاضی بشیر کو بڑا بنگلہ۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ گورنمنٹ بولتا ہے زمین بالکل نہیں ہے۔ نیچے دیکھ۔۔۔ کتنا زمین خالی پڑا ہے!‘‘
ہوائی جہاز میں اُڑ کر زمین کو دیکھو تو سچ مچ بہت بڑی زمین خالی نظر آتی ہے۔ ابھی کروڑوں اربوں انسان اس خالی زمین پر آباد کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن بے چارے نورل کو کیا پتہ کہ دنیا کے سارے بڑے بڑے پیسے والوں نے اس زمین پر اپنی اپنی ملکیت کی سرحدیں کھینچ کھینچ کر ساری زمین آپس میں بانٹ رکھی ہے۔ ساری زمین پانچ بر اعظموں اور سینکڑوں ملکوں میں بٹی ہوئی ہے۔
وہاں بنگلہ دیش کی زمین ختم ہوئی۔
وہاں سے بھارت کی زمین پیچھے رہ گئی۔
اب پاکستان کی زمین شروع ہونے والی ہے۔
اس کے آگے عربوں کی زمین ہے۔
اس سے بھی آگے انگریزوں کی زمین ہے۔
فرانسیسیوں کی زمین ہے۔
جرمنوں کی زمین ہے۔
اطالویوں کی زمین ہے۔
امریکیوں کی زمین ہے۔
یا پھر یہ زمین دولت خاں کی زمین ہے۔
یہ زمین کروڑی مل کی زمین ہے۔
میونسپل کارپوریشن کی زمین ہے۔
ٹاون پلاننگ اتھاریٹی کی زمین ہے۔
گورنمنٹ لینڈ ڈپارٹمنٹ کی زمین ہے۔
نہ اللہ میاں کی زمین ہے نہ عوام کی زمین۔
نہ نورل کی زمین۔
نہ عائشہ کی زمین۔
لینڈ ڈپارٹمنٹ کی زمین۔۔۔!
عائشہ کی بیٹی، جوان ہوتی ہوئی رضیہ، بیرر چیک (BEARER CHEQUE) جیسی رضیہ کو غنڈے ہاتھ سے کیسے جانے دیتے۔ وہ تو رضیہ کو وہیں بنگلہ دیش میں کیش CHSH کرا رہے ہوں ہوگے۔ اس لیے رضیہ پاکستان میں عائشہ کو کہاں ملتی! اور قاضی بشیر کے بُل ٹریر عائشہ اور نورل کو عالی شان کوٹھی کے پھاٹک میں کیسے گھسنے دیتے۔ البتہ قاضی بشیر کا پرانا وفادار بنگالی ملازم ابو الہاشم جو قاضی بشیر ہی کے ساتھ بڑے آرام سے ہوائی جہاز میں اڑ کر کراچی آیا تھا، کتوں کے بھونکنے کی آواز پر باہر آیا تو نورل کو پہچان کر چمٹ گیا۔ پھر کچھ دیر کی باتو ں کے بعد ابو الہاشم نے نورل کو مشورہ دیا کہ قاضی بشیر سے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہترہے کہ اپنے ہی جیسے غریب بنگالیوں سے مل، جو ان دونوں نووارد مصیبت زدوں کو پناہ دے سکتے ہیں۔ چنانچہ ابوالہاشم نے ان نووارد بنگالیوں کے پتے دیے۔
جعفر، محمد حسین، نو رالاسلام، سید احمد، شہامت اللہ، ابو الحسنات وغیرہ سب وہاں کنٹری کلب کے قبرستان کے باجو میں فضلو دادا کے باڑے میں اپنی اپنی جھونپڑی ڈال کر رہتے ہیں۔ تو بھی وہاں اپنی ایک جھونپڑی ڈال لے۔ میں تیری ڈرائیوری کے لیے صاحب سے بات کروں گا۔ اسے ایک ڈرائیور کی جرورت ہے نااور تو تو بھروسے کا آدمی ہے۔ اتوار کے اتوار میں بھی فضلو دادا کے باڑے میں آتا ہوں۔ انشاء اللہ تیرے لیے خوش خبری لاؤں گا۔ تیرے کو اب کچھ پیسہ کی ضرورت ہے تو بول؟‘‘
نورل نے تشکر کے لہجے میں کہا، ’’ابو الہاشم بھائی!میرے پاس ابھی کوئی ڈھائی تین سو روپیہ پاکستانی بچا ہوا ہے۔ اس میں جھونپڑی بھی ڈال لوں گا۔ کچھ کھانے پینے کا برتن، چارپائی وغیرہ بھی خرید لوں گا۔ مگر تو میری نوکری کا ضرور کوئی بندوبست کر، ورنہ یہ ڈھائی سو ٹکہ کب تک پکڑ کر کھاسکوں گا۔‘‘
ابو الہاشم نے عائشہ کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’ہاں ہاں، دو جنے کا ساتھ۔ تو اور تیری۔۔۔‘‘
نورل تیزی سے بات کاٹ کر بولا، ’’میری بہن۔۔۔ اپنے وحید کی بیوہ۔۔۔‘‘
ابو الہاشم نے ایک دم سنبھل کر وحید کو یاد کرتے، اور عائشہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا، ’’بے چارہ وحید!‘‘
نورل عائشہ کو ساتھ لے کر جب کنٹری کلب کے قبرستان کی طرف لوٹنے لگا تو ایک دیوار پر تار کول سے کسی انسان نمابندے کے ہاتھ سے لکھا ہوا یہ نفرت نامہ بھی چھٹی جماعت پاس عائشہ نے چپکے سے پڑھ لیا، ’’بہاریو۔۔۔ واپس جاؤ۔۔۔‘‘
راستے میں جب وہ قائد اعظم کے مزار کے پاس پہنچے تو اس کا سنگ مر مر اور اس کی خوب صورتی دیکھ کر بڑی دیر تک کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔۔۔ اور جیسے جیسے وہ دور جانے لگے قائد اعظم کا مزار ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوسکا۔
عائشہ نے کچھ پوچھنا چاہا،
’’نورل! قائد اعظم نے کہا تھا۔۔۔‘‘
نورل جلدی سے بات کاٹ کر بولا، ’’عاشو۔۔۔ دیکھتی نہیں کہ قائد اعظم کو اس مقبرے میں چھپا دیا گیا ہے۔ بس چُپ کر۔۔۔‘‘
کیا یہ جواب کافی تھا کہ عائشہ مطمئن ہوکر چپ ہوگئی؟
کنٹری کلب کے قبرستان سے متصل بنگالی پاڑے کی جھونپڑیاں ابھری ہوئی تھیں۔ قبرستان سے اس لیے قریب کہ جنازہ اٹھانے کی ضرورت نہ پڑے۔ جھونپڑی سے نکلے تو قبر میں۔۔۔ بلکہ ایک قبر سے نکلے تو دوسری قبر میں۔
قبرستان میں۔۔۔ سیدھی قبرمیں۔۔۔
بنگالی پاڑے میں۔۔۔ الٹی قبرمیں۔۔۔
فضلو دادا اور بنگالی پاڑے کے ساتھ باسیوں نے نورل اور عائشہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پاڑے میں ابھی ایک جھونپڑی یا ایک اُلٹی قبر کی جگہ ابھی باقی تھی۔ نورل شہامت اللہ کے ساتھ جاکر لالو کھیت مارکٹ سے جھونپڑ ڈالنے کے لیے بانس، چٹائی، چھپر، دو چارپائیاں، کچھ المونیم کے برتن، ایک لالٹین، ٹین کا چولھا اور آٹا چاول وغیرہ لے آیا۔ شام تک ایک جھونپڑی بھی ڈال لی اور بڑا خوش تھا کہ وہ زندگی میں پھر ایک بار نئی زندگی شروع کر رہا ہے۔
مگر سر شام دو منڈے مسٹنڈے کارندے آگئے۔ انھوں نے اپنے آپ کو گورنمنٹ لینڈ ڈپارٹمنٹ کے بابو ظاہر کیا اور پھر ایک بابو نورل کو دھکے ٹھڈے مارتا تھانے کی طرف لے گیا کہ اس نے گورنمنٹ کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہے اور دوسرا بابو عائشہ کی جھونپڑی میں لڑکھڑاتا ہوا اور گورنمنٹ کی زمین پرناجائز قبضہ کرنے کے جرم کی سزا دینے کے لیے عائشہ کے جسم کی زمین پر خود بھی ناجائز قبضہ کرنا شروع کردیا۔
بے چاری عائشہ کی چیخیں سن کر جھونپڑیوں کی عورتوں نے مارے شرم کے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ دو ایک مردوں میں غیرت کا خون کھولا تو ان کی بیویاں ان کے آگے ہاتھ جوڑنے لگیں، ’’عائشہ تو بیوہ ہے ہی—ہمیں کیوں بیوہ کرنے چلے ہو۔۔۔؟‘‘
یہ التجا سن کر غیرت اورمردانگی کے قدم بھی لڑکھڑا کر رہ گئے۔
صبح ہوئی تو فضلو دادا اور سارے جھونپڑی والو ں نے عائشہ کی جھونپڑی میں جھانک کر دیکھا تو عائشہ ننگے فرش پر مادر زاد ننگی پڑی ہے۔ سب عائشہ کی آبرو کو پس مرگ بھی ڈھانکنے کے لیے جھوٹ بولنے لگے، ’’ہے ہے بے چاری عائشہ کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔‘‘
عائشہ کو واقعی سانپ نے ڈس لیا تھا کیونکہ سانپ اپنا ’انڈرویر‘ وہیں بھول گیا تھا۔ وہ عجب سانپ تھا۔ سانپ تو ’دورویر‘‘ یعنی کینچلی پہنتے ہیں۔ یہ کیسا سانپ تھا جو انڈر ویر پہنتا تھا!
بالآخر فضلو دادا نے اپنے سارے چیلوں کو حکم دیا، ’’عائشہ کی جھونپڑی الٹا دو۔۔۔‘‘
سب نے مل کر عائشہ کی جھونپڑی کو اس طرح الٹا دیا کہ وہ الٹی جھونپڑی بالکل سیدھی قبر کی طرح زمین میں دھنس گئی۔
جب سب لوگ اس پر مٹی ڈالنے لگے تو فضلو دادا نے بھی ایک مٹی بھر مٹی لے کر بڑے جلتے ہوئے لہجے میں کہا، ’’کہاں پٹنہ، کہاں ڈھاکہ، کہاں کھٹمنڈو۔۔۔ کہاں کراچی۔۔۔ سچ ہے۔۔۔ بے چاری کی مٹی اسے یہاں کھینچ لائی تھی۔۔۔‘‘
فضلو دادا ٹھیک ہی کہتا ہے۔ عائشہ جیسے غریبوں کو صرف مٹی ہی کھینچ لاتی ہے۔
ان بے چاروں کو کوئی سنگِ مرمر تو نہیں کھینچ لاتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.