ان کا ڈر
کہانی کی کہانی
اس کہانی میں امریکہ میں چند اعلی تعلیم یافتہ طبقے کے مکالموں کے ذریعے معاشرتی تضاد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اپنے ملک کی بے روزگاری، پڑھے لکھے لوگوں کی بے وقعتی، فساد اور پسماندگی سے گھبرا کر امریکہ ہجرت کرنے والے لوگ وہاں بھی اسلامی ماحول پیدا کرنے، اردو اور مشاعروں کو زندہ کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی گفتگو کا ایک ایک جملہ صرف پیسے کے ارد گرد گھومتا ہے اور پیسہ پیدا کرنے کے لیے وہ ہر ممکن حربہ آزمانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا ڈر یہ ہے کہ کہیں ان کی بیٹیاں اسکول میں سیکس ایجوکیشن کی وجہ سے اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ مباشرت نہ کرنے لگیں، اس لیے مشورہ دیا جاتا ہے کہ انہیں چودہ پندرہ سال کے بعد وطن بھیج دیا جائے لیکن وطن بھیجنے میں جو پریشانیاں اور مسائل ہیں ان کا خیال آتے ہی سب چپ ہو جاتے ہیں۔
گاڑی کی رفتار ساٹھ کے قریب تھی، سیدھے، بالکل سیدھے ہائی وے پر وہ پانی کی طرح بہی جا رہی تھی۔ اس سے پہلے اس طرح اتنا لمبا سفر میں نے نہیں کیا تھا۔ ہاں، ان انٹر اسٹیٹ ہائی ویز کے بارے میں سنا ضرور تھا۔
وہ چاروں ہندوستانی تھے یا، جیسا کہ وہ کہتے تھے، حیدرآبادی تھے۔ میری ان سے خاص جان پہچان نہیں، پھر بھی میں ان کے ساتھ ڈیٹرائٹ سے شکاگو جا رہا تھا۔ ہوا یہ کہ علی گڑھ کے میرے دوست انجم نے مجھے فون کرکے بتایا کہ ان کے بھائی شکاگو آرہے ہیں اور میں چاہوں تو ان کے ساتھ آ سکتا ہوں اور یہ کہ وہ مجھ سے پیسے نہیں لیں گے۔ انجم میرے ساتھ علی گڑھ میں تھے اور ہم دونوں نے ساتھ مل کر اردو کی خدمت کرنے کے کئی پلان بنائے تھے۔ ایک پلان کے تحت تو کئی سو روپے چندہ بھی جمع ہو گیا تھا جو خزانچی ہونے کی وجہ سے انجم کے پاس جمع تھا۔ پھر امتحان ختم ہو گئے۔ انجم حیدر آباد اور وہاں سے امریکہ آ گئے۔ اردو بیچاری وہیں علی گڑھ میں رہ گئی۔
یہ لوگ، یعنی انجم کے بھائی مسرور صاحب اور ان کے دوست، مجھے دیکھنے میں کچھ عجیب لوگ لگے تھے۔ اسد صاحب نے کالی شیروانی اور علی گڑھ کٹ پاجامہ پہن رکھا تھا۔ ان کی داڑھی خاص علی گڑھ کے جماعت اسلامی والوں کی داڑھی کی ٹکر کی تھی۔ یہ سب ہندوستان میں میں نے ہمیشہ دیکھا اور بھگتا تھا لیکن یہ توقع نہیں تھی کہ کسی ایسے آدمی سے امریکہ میں بھی ملاقات ہو جائےگی۔ تیسرے صاحب ڈاکٹر طاہر تھے اور چوتھے، موٹے اور کچھ بیوقوف سے لگنے والے صاحب کا نام احمد تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ ان میں سے تین لوگ، یعنی مسرور صاحب، اسد اور ڈاکٹر طاہر کافی پڑھے لکھے ہیں۔ مسرور صاحب نے امریکہ ہی کی کسی یونیورسٹی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی تھی، ڈاکٹر طاہر بھی وین یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر تھے، اسد صاحب کے پاس انجینئرنگ کی کوئی بڑی ڈگری تھی۔ ہاں چوتھے صاحب کے بارے میں ٹھیک سے نہیں معلوم لیکن یہ بھی بی اے پاس ضرور ہوں گے۔
سفر شروع ہوا تو ڈاکٹر طاہر گاڑی چلا رہے تھے۔ ان کوشہر سے نکل کر آئی نائنٹی فور تلاش کرنے میں کچھ مشکل ہو رہی تھی۔ مسرور صاحب آگے کی سیٹ پر، مشیگن اسٹیٹ کا نقشہ کھولے، شہر سے آئی نائنٹی فور تک پہنچنے کا راستہ بتار ہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر نے کسی غلط ایگزٹ پر گاڑی موڑلی اور کچھ دور جانے کے بعد پتا چلا کہ ہم لوگ ایک دوسرے ہائی وے سے پھر واپس شہر جا رہے ہیں۔
’’لیجیے، آ گئے نا غلط ہائی وے پر۔ اب دیکھیے کب ایگزٹ ملتا ہے۔‘‘ مسرور صاحب بولے۔
’’سات آٹھ میل تو چلنا ہی پڑےگا۔ یہ کمبخت بڑی خرابی ہے ہائی ویز کی۔‘‘ کچھ دیر کی بھاگ دوڑ کے بعد گاڑی آئی نائنٹی فور پر آ گئی، اب بس سیدھا راستہ تھا، ناک کی سیدھ میں۔
’’ہاں، تو میٹنگ کیسی رہی احمد صاحب؟‘‘ مسرور صاحب نے نقشہ بند کر دیا۔
’’اور تو سب باتیں طے ہو گئیں لیکن ٹورانٹو کی برانچ سے بات کرنے والی بات رہ گئی۔‘‘ احمد صاحب نے جواب دیا۔
’’خیر، وہ تو ہو ہی جائےگی۔ اب ایگزیکٹو کی میٹنگ تو شکاگو ہی میں ہے نا، دلی کے آخری مشاعرے والی بات پر لوگ اعتراض کر رہے تھے کہ یہ غیر اسلامی کام ہے۔‘‘ اسد صاحب بولے۔
میں اس بات پر چونک گیا۔ مجھے اتنا ہی معلوم تھا کہ یہ لوگ کسی میٹنگ میں شرکت کرکے واپس شکاگو جا رہے ہیں۔ اس میٹنگ سے اسلامی اور غیراسلامی بات کا کیا تعلق؟ خیر، میں نے بولنا ٹھیک نہیں سمجھا۔
’’لوگ اتنی آسانی سے اسلامی اور غیراسلامی لفظوں کا استعمال کر دیتے ہیں جیسے وہی سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر طاہر بولے۔
’’آسمانی کتاب ہے صاحب۔ ہم ناچیز بندے اس کے بارے میں کیسے آخری بات کہہ سکتے ہیں؟‘‘ احمد نے کہا۔
’’احمد صاحب، شکاگو میں پاکستانیوں نے قوالی کروائی تھی۔ پچیس ڈالر کا ٹکٹ تھا اور سب ٹکٹ بک گئے تھے۔ میرے خیال سے ہم فنڈ ریز کرنے کے لیے مشاعرہ کروا سکتے ہیں۔‘‘ مسرور صاحب نے کہا۔
’’مشاعرہ؟‘‘ احمد چونکے، ’’پھر وہی سوال آ جائےگا۔ اسلام میں تو مشاعرہ، نوٹنکی، ڈراما یعنی بھیس بدلنا ناجائز ہے۔‘‘
’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ مشاعرے میں لوگ بھیس بدلتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر طاہر کچھ ناراض سے ہوئے۔
’’صاحب، مشاعرہ کون سا اسلامی کام ہے؟‘‘ احمد بولے۔
’’اس طرح دیکھیں تو اسلامی کام کوئی نہیں ہے۔ صرف گھر میں بیٹھے قرآن نماز پڑھتے رہو، یہی سب سے بڑا اسلام ہے۔ پھر ہم لوگ گھر سے ہزاروں میل دور یہاں کیوں نوکری کر رہے ہیں؟ احمد صاحب، اسلام دین کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ آپ احمد صاحب، اسلام کے ’بیسکس‘ کو ذرا دل لگاکر، تشریح سمیت پڑھ ڈالیے۔ لیکن مولانا آزاد کی تشریح نہ پڑھیے۔‘‘ ڈاکٹر طاہر بولے۔
احمد چپ ہو گئے۔ پھر باتیں قرآن کی تشریحات پر چل پڑیں۔ میں عجیب چکر میں پڑ گیا تھا۔ ان لوگوں کو اس ملک میں ایسے دیکھنے کی کوئی توقع نہیں تھی۔
’’مجھے نہیں معلوم آپ کے کیا خیالات ہیں۔‘‘ اچانک مسرور صاحب نے مجھ سے کہا۔ میں پیچھے بیٹھا تھا۔ بات کرنے کے لیے انہیں اپنی گردن ذرا موڑنی پڑی۔ میں نے جلدی سے کہا، ’’جی ہاں، جی، میں اسلام میں خاصی دلچسپی لیتا ہوں۔‘‘
انہوں نے سامنے دیکھنا شروع کر دیا۔ میں اپنے جملے پر خود شرمندہ ہوا۔ اپنے آپ کو ایک موٹی سی گالی دی کہ سالے، تم کو بولنا بھی نہ آیا۔ کون سی ترکی بول رہے ہو جو الٹی سیدھی بات منھ سے نکل رہی ہے۔ اسلام میں دلچسپی لینے سے کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا اسلام بھی تمہارے لیے گھڑدوڑ، تیراکی یا مکے بازی ہے جس میں تم دلچسپی لیتے ہو؟ خیر، اب کیا ہو سکتا ہے۔
’’ہم لوگوں نے صاحب، ایک آرگنائزیشن بنائی ہے جس کا نام ہے ’ایکشن کمیٹی فاردی انڈین مسلمز۔ ‘ شارٹ فارم ہے اے سی آئی ایم۔ ہندوستان میں جب کبھی فساد ہو جاتا ہے تو ہم لوگ پریشان حال مسلمانوں کے لیے چندہ بھیجتے ہیں۔ اے سی آئی ایم نے چار مسلمان لڑکوں کو ہندوستان سے بلاکر جرنلسٹ کا کورس بھی کروایا تھا۔ سوچا تھا، وہ واپس جاکر بڑے اخباروں میں نوکری کریں گے، مسلمانوں کے بارے میں لکھیں گے لیکن ان میں سے تین نے یہاں کا امیگریشن ویزا لے لیا اور چوتھا وہاں بیکار ہے۔ کیا کریں صاحب، ہم نے تو اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی۔‘‘ اسد صاحب میرے پاس بیٹھے تھے اور ان کے لیے مجھ سے بات کرنا آسان تھا۔
’’بس یہ سمجھیے کہ یہ آرگنائزیشن ہندوستانی مسلمانوں کی امریکہ میں نمائندگی کرتی ہے۔ اس کی برانچیں شکاگو، ڈیٹرائٹ، ٹورانٹو، سان فرانسسکو اور میامی میں ہیں۔ ہم لوگوں نے حال ہی میں شکاگو میں ایک مسجد بنائی ہے۔ ہر اتوار کو گیٹ ٹوگیدر ہوتا ہے۔ ہم ہی لوگوں میں سے کوئی کسی مذہبی مسئلے پر تقریر کرتا ہے۔‘‘ مسرور صاحب نے بتایا۔
’’آپ یہاں کب آئے؟‘‘ اسد صاحب نے پوچھا۔
’’میں، کوئی ایک مہینہ ہوا۔‘‘
’’کیا ارادہ ہے؟ کچھ رشتے دار وغیرہ ہیں؟‘‘
’’جی نہیں، ایک دوست ہے، ان کی اسپانسرشپ ہے۔‘‘
’’ٹورسٹ ویزا دیا ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’خیر، وہ تو کوئی پرابلم نہیں ہے۔ آپ کے کوئی دوہزار ڈالر خرچ ہو جائیں گے۔‘‘ انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
میں سمجھ نہیں پایا۔ میں نے کہا، ’’جی؟‘‘
’’جی ہاں، امیگریشن ویزا کے لیے ٹرائی کریں گے نا؟‘‘
’’مگر میرا تو ایسا خیال نہیں ہے، میں تو جولائی میں لوٹ جاؤں گا۔‘‘
’’اچھا، لوٹ جائیں گے؟‘‘ انہیں کافی حیرت ہوئی، ’’ارے صاحب، آ گئے ہیں تو کیا ہرج ہے، ٹرائی کرلیں۔ ویسے آج کل کافی سختی ہو گئی ہے۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ ہو جائےگا۔‘‘
’’لیکن کیسے ہوگا جناب؟ میں نے تو سنا ہے کہ اب ناممکن ہے۔‘‘ میں بھی اس معاملے میں صرف تفریح کے لیے دلچسپی لینے لگا۔
’’وہ جو صاحب، اپنی طرف ہوتا ہے نا۔۔۔‘‘ انہوں نے ایک آنکھ دبائی۔ ان کے مولوی نما چہرے پر آنکھ مارنا عجیب لگا۔ یہ شاید نمبر دو والے کام کی طرف اشارہ کر رہے تھے، ’’وہ یہاں بھی چلتا ہے۔‘‘
’’کیا؟ ذرا اور بتائیے۔‘‘
’’صاحب، کچھ امریکن لڑکیاں ہیں جو ہزار ڈالر لے کر شادی کرلیتی ہیں۔ پھر امیگریشن آسانی سے مل جاتا ہے۔ پھر کچھ پیسہ لے کر طلاق دے دیتی ہیں۔ یہی سب سے آسان ترکیب ہے۔ خلیل اللہ صاحب کے بھانجے کامعاملہ اسی طرح بنا تھا۔ آج کل دوہزار ڈالر پھٹکار رہے ہیں، یعنی سولہ ہزار روپے مہینہ۔ میں پچھلی بار حیدرآباد گیا تھا تو میں نے تو سب غیرشادی شدہ پڑھے لکھے مسلمان لڑکوں سے کہا کہ امریکہ آ جاؤ۔ خوب پیسہ پیدا کرو اور جب مرضی چاہے واپس چلے جاؤ۔‘‘
’’کیا آپ کی اے سی آئی ایم بھی اس کام میں کچھ مدد کرتی ہے؟‘‘
’’نہیں۔ ذاتی طور پر آپ کی مدد ہم لوگ کر سکتے ہیں۔ کچھ وکیل امیگریشن کا ٹھیکہ لیتے ہیں۔ کوئی دوتین ہزار لیتے ہیں اور کام کروا دیتے ہیں۔‘‘ مسرور صاحب بولے۔
’’آ جائیے صاحب، یہاں پیسہ ہی پیسہ ہے۔ ہندوستان میں ہے کیا؟ فرقہ پرستی الگ ہے۔‘‘ احمد بولے۔
’’تھوڑا رسک لینا پڑےگا۔ مجھے جب یہاں آنے کا موقع ملا تو حیدر آباد میں نوکری سے چھٹی نہیں مل رہی تھی۔ میں نے دو گھنٹے کے اندر فیصلہ کیا۔ استعفیٰ ٹھونکا اور چلا آیا۔‘‘ مسرور صاحب نے بتایا۔
’’تو مشاعر کا کیا طے کیا احمد صاحب؟‘‘ ڈاکٹر طاہر بولے۔
’’بھائی، یہ معاملہ تو ایگزیکٹیو ہی میں طے ہوگا۔‘‘ مسرور صاحب نے سانس کھینچی۔
’’ڈاکٹر صاحب، مشاعرے میں کسی ایسے شاعر کو بلایا جا سکتا ہے جس کا آئیڈیل اسلام ہو۔‘‘ اسد بولے۔
’’ہاں، اگر ایسا شاعر مل جائے اور کچھ مقامی شاعر ہو جائیں تو کامیاب مشاعرہ ہو سکتا ہے۔ ٹکٹ پندرہ ڈالر سے کیا کم ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر طاہر نے جواب دیا۔
’’کیا آپ کسی ایسے شاعر کو جانتے ہیں جو اسلامی فلسفے اور اصولوں کو سامنے رکھ کر شاعری کرتا ہو؟‘‘ مسرور صاحب نے مجھ سے پوچھا۔
ذرا مشکل سوال تھا۔ میں نے کہا، ’’جانتا تو نہیں، لیکن ایسا شاعر مل ضرور جائےگا۔‘‘
نو بج رہے تھے۔ اب تک باہر کافی روشنی تھی۔ شہروں اور ہائی ویز کے ناموں کے بورڈوں کے نیچے سے گاڑی تیزی سے گزر رہی تھی۔ کبھی کبھی سڑک کے کنارے پر روشنی سے چمکتے ’فوڈ‘ اور ’گیس‘ کے بورڈ دکھ جاتے تھے۔ دس بجے کے آس پاس ڈاکٹر طاہر نے کچھ کھانے کے لیے ایک ایگزٹ پر گاڑی موڑ لی۔
’’یہاں پیسہ بہت ہے، لیکن روحانی سکون نہیں ہے۔‘‘ اسد صاحب نے مجھ سے کہا۔ میں نے ان کی طرف غور سے دیکھا۔ کیا ان کو یہاں آنے سے پہلے یہ نہیں معلوم ہوگا کہ روحانی سکون، اگر وہ کچھ ہوتا ہے تو یہاں نہیں ملےگا۔ لیکن میں نے ہاں میں ہاں ملانے کے لیے کہا، ’’ہاں صاحب، وہ اپنے انڈیا میں ہی ہے۔‘‘
’’لیکن کیا کریں، ہم تو اب انڈیا جانہیں سکتے۔‘‘ انہوں نے اس طرح کہا جیسے واقعی انڈیا جانا چاہتے ہوں۔
وہ ہنسنے لگے، ’’دس سال یہاں رہنے کے بعد وہاں عجیب لگتا ہے۔ ابھی پچھلے سال گیا تھا۔ گاؤں کی وہی حالت ہے، لوگ ویسے ہی ہیں۔ وہی دھچ دھچ کرکے چلنے والے اکے گاؤں جاتے ہیں۔ دو چار دن تو اچھا لگتا ہے، پھر مزہ نہیں آتا۔‘‘
’’آج کل مہنگائی بھی بہت ہے۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’مہنگائی تو یہاں بھی بہت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’لیکن میرے خیال سے زندگی یہاں پھر بھی بہت آسان ہے۔‘‘
’’زندگی بہت آسان تو ہے جناب لیکن یہاں بھی پرابلمز کم نہیں ہیں، خاص طور پر ہم لوگوں کے لیے۔‘‘ مسرور صاحب بولے۔
’’اور خاص طور پر ان کے لیے جو فیملی والے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر طاہر بولے۔
’’اچھا کیا میں نے جو فیملی کو نہیں بلایا۔‘‘ احمد بولے۔
’’ہاں، کیا حال ہے احمد صاحب ان لوگوں کا؟ پچھلی بار آپ نے بتایا تھا کہ بلانے والے ہیں۔ کب تک کچی پکی کھاتے رہیں گے؟ بلا ہی لیجیے بھابھی کو، اب تو آپ کو چھ سال ہو گئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر طاہر بولے۔
’’ہاں، اسلامی نظریے سے بھی ٹھیک نہیں ہے۔ آپ یہاں اور آپ کی بیوی ہندوستان میں۔ اسلام کہتا ہے کہ مرد اپنی عورت سے دور صرف چھ مہینے تک رہ سکتا ہے۔‘‘ مسرور صاحب نے کہا۔
’’اور آپ کو تو چھ سال ہو گئے۔‘‘ اسد صاحب نے وہ بات پتا نہیں کیوں دہرائی جو کہی جا چکی تھی۔
’’آپ اپنے ساتھ ہی نہیں، ان کے ساتھ بھی زیادتی کر رہے ہیں۔‘‘ مسرور صاحب نے پھر کہا۔
احمد صاحب نے کہا، ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں۔ ان گرمیوں میں سوچتا ہوں چلا جاؤں۔ حیدرآباد میں کمپنی والوں کے پاس میرا بانڈ بھی پڑا ہے، اس کا پتا نہیں کیا ہوا۔‘‘
’’کیوں؟ کیا چھٹی دینے سے پہلے بانڈ بھروایا تھا؟‘‘
’’ہاں، یہی کہ کمپنی میں کم سے کم دس سال اور کام کرنا پڑےگا یا دس ہزار دینا پڑےگا۔‘‘
’’تو کیا آپ یہاں کی نوکری چھوڑ دیں گے؟‘‘
’’وہاں آپ کو زیادہ سے زیادہ پانچ سو ملےگا۔ یہاں کیا ملتا ہے؟‘‘ اسد نے پوچھا۔
’’یہاں تو اب ڈیڑھ ہو گیا ہے۔ ڈیڑھ کا موٹا موٹا حساب دس ہزار روپے مہینے سے زیادہ ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا، ’’گھر پانچ سو ڈالر مہینہ بھیج دیتا ہوں۔ خط آتا ہے کہ سب خر چ ہو جاتا ہے۔ یعنی ساڑھے تین ہزار خرچ ہو جاتا ہے۔ اب میں وہاں پانچ سو روپے کما کے کیا ان لوگوں کا پیٹ بھروں گا اور کیا اپنا۔‘‘
’’تو آپ بلا ہی لیجیے بیوی کو۔‘‘ مسرور صاحب بولے۔
’’ارے صاحب، بلالیں تو بچوں کو بھی بلائیں۔ تین لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں خدا کے فضل سے۔ ان سب کا گزر میرے ایک کمرے والے فلیٹ میں تو ہو نہیں سکتا۔ تین سو ڈالر مہینے کا فلیٹ لینا پڑےگا، باقی بچوں کی تعلیم اور ادھر ادھر میں خرچ ہو جائےگا۔ ایک ڈالر نہیں بچےگا۔ پھر پردیس میں پڑے رہنے کا فائدہ؟‘‘
’’ارے تو فلیٹ خرید لیجیے نا۔ ابھی اچھن کے برابر والا بکا نہیں ہے۔ تیس ہزار میں سودا ہو جائےگا۔ بولیے؟‘‘ مسرور صاحب نے کہا۔
’’نہیں صاحب، کیش تو اس لیے خون پسینہ کرکے جوڑا ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد ہندوستان میں کام آئےگا۔‘‘
’’تب تو آپ کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔‘‘ مسرور صاحب نے سگریٹ سلگالی۔
’’بڑی لڑکی ماشاء اللہ سے بیس کی ہو گئی۔ اس کی شادی کا مسئلہ ہے۔ میں یہاں ہوں۔ اچھے لڑکوں کی تلاش اب کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’تو آپ جناب، یہاں سے تین مہینے کی چھٹی لیجیے۔ ایئرفرانس سے واپسی والا ٹکٹ لے کر حیدرآباد جائیے۔ لڑکی کی شادی کیجیے اور باقی بچوں اور بیوی کو لے کر آ جائیے۔ کمپنی والوں کے منھ پر ڈیڑھ ہزار ڈالر مار کر اپنا بانڈ واپس لیجیے۔‘‘ ڈاکٹر طاہر احمد صاحب کی پوری زندگی کا پروگرام طے کرنے لگے۔
’’بیوی پردہ کرتی ہے ڈاکٹر صاحب۔ دوسری لڑکی بھی ماشاء اللہ سترہ سال کی ہے۔ ایک دو سال بعد اس کی بھی شادی کا مسئلہ سامنے ہوگا۔ ایک لڑکا وہاں انٹر میں پڑھتا ہے، دوسرا ہائی اسکول میں۔ دونوں یہاں آکر کہاں پڑھیں گے؟ اور کیسے؟ یہ سب آسان نہیں ڈاکٹر صاحب۔‘‘ احمد صاحب کی آواز ڈوبتی چلی گئی۔
سامنے سے آنے والی موٹروں کی ہیڈلائٹ میں سب کے چہرے کچھ لمحوں کے لیے چمک جاتے اور پھر اندھیرے میں ڈوب جاتے۔ رات کے گیارہ بجنے والے تھے اور شاید اس لیے گاڑی کی رفتار بڑھ گئی۔ سب جلدی سے جلدی گھر پہنچنا چاہتے تھے اور احمد صاحب بھی۔ گھر، جہاں بیوی نہیں ہے، بچے نہیں ہیں، صرف ایک کمرے کا فلیٹ ہے۔
’’سوچتا ہوں، واپس ہی چلا جاؤں۔‘‘ وہ مری ہوئی آواز میں بولے۔ ڈاکٹر طاہر کو پتا نہیں اس بات پر کیوں غصہ آ گیا، ’’میں تو جناب ٹیکسی چلا لوں گا، جھاڑو دے لوں گا لیکن رہوں گا امریکہ میں۔ ہندوستان بھی سالا کوئی ملک ہے، جہاں سائنٹسٹ خودکشی کرلیتے ہیں، انجینئر بیکار گھومتے ہیں۔ دیٹ از د کنٹری آف ڈپریشن۔ یہاں کم سے کم یہ ڈر تو نہیں کہ ہندو مسلم فساد ہوگا اور مار دیے جائیں گے۔‘‘ ان کی بات کی کسی نے مخالفت نہیں کی۔
’’ہمیں تو صاحب، یہیں رہ کر حالات کو سازگار بنانا ہے۔ اب اے سی آئی ایم کی شروعات ہو چکی ہے۔ اسی کے ذریعے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔‘‘ مسرور صاحب بولے۔
’’یہ جو ہر سنڈے کو مسجد میں گیٹ ٹوگیدر ہوتا ہے، اس کو ذرا اور بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ ’انڈین مسلم‘ نام کا ایک اخبار تو نکال سکتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا اسکول اور ہاسٹل کھول سکتے ہیں جہاں ماڈرن تعلیم مسلم ماحول میں دی جایا کرے۔ یہ بہت ضروری ہے احمد صاحب۔ ہمارے بچے انہی اسکولوں میں جاتے ہیں جہاں امریکن لڑکے لڑکیاں جاتے ہیں۔ دن بھر وہیں رہتے ہیں۔ بچوں کے دماغ پر اسی ماحول کا اثر پڑےگا۔ کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ کی جوان لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ گھر چلی آئے اور آپ سے کہے کہ یہ میرا ’بوائے فرینڈ‘ ہے، جیسا کہ امریکی گھرانوں میں ہوتا ہے؟ اور جناب، ایسا ہوگا اور ضرور ہوگا۔ کیا گارنٹی ہے کہ آپ کی لڑکی آپ کے کہنے سے شادی کرےگی؟ اگر وہ اسی ماحول میں پلی بڑھی تواسی رنگ میں رنگ جائےگی۔‘‘ وہ جوش میں بولتے گئے، ’’اس لیے ایک ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے بچے انہی مذہبی قدروں کو اپنا سکیں جن میں ہم پلے بڑھے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں، اسکول والا آئیڈیا بڑا اچھا ہے۔ کم سے کم بچے اگر پندرہ سولہ برس کی عمر تک ایسے ماحول میں رہیں تو پھر امریکی ماحول کا اثر ان پر نہیں پڑےگا۔‘‘ اسد صاحب بولے۔
’’طاہر صاحب، میں اپنی بڑی بیٹی کو خود قرآن شریف پڑھاتا ہوں۔ میں خود۔۔۔‘‘
مسرور صاحب کی بات پر ڈاکٹر طاہر بولے، ’’مگر مسرور صاحب، کالج میں تو وہ سیکس ایجوکیشن پڑھتی ہی ہوگی۔ اس ملک میں لڑکیاں چودہ سال کی عمر میں ڈیٹنگ کرنے لگتی ہیں۔ پارکوں اور سڑکوں پر جو کچھ ہوتا ہے، اخباروں اور ٹیلی وژن پر جو کچھ آتا ہے، اسے دیکھ کر ہمارے بچے کیا سیکھیں گے؟‘‘ مسرور صاحب کچھ ڈری ہوئی آواز میں بولے، ’’نہیں نہیں، میں اسکول اور اسلامی ہاسٹل والے آئیڈیا سے بالکل ایگری کرتا ہوں۔ میں تو آپ کو صرف اپنی بات بتا رہا تھا۔‘‘
’’ابھی ہمارے بچے چھوٹے ہیں مسرور صاحب۔ ہم ان کو جیسا بنانا چاہیں گے ویسا وہ بنیں گے۔ لیکن میں کسی بھی صورت میں یہ گوارا نہیں کروں گا کہ میری بیٹی بغیر شادی کیے کسی کے ساتھ رہنے لگے، جیسا کہ عام طور پر امریکہ میں ہوتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر طاہر بولے۔ اسد صاحب بولے، ’’ڈاکٹر صاحب، میں سوچتا ہوں کہ شہناز گیارہ بارہ برس کی ہو جائے تو میں اسے ہندوستان نانا نانی کے پاس بھیج دوں۔‘‘
’’آئیڈیا برا نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر طاہر بولے، ’’لیکن کیا آپ کے ساس سسر اس کی تعلیم وغیرہ کا اسی طرح خیال کریں گے جیسا آپ کرتے ہیں؟ یا کیا لڑکی گیارہ سال تک یہاں رہنے کے بعد ہندوستان کے کسی چھوٹے سے قصبے کے اسکول میں پڑھنا منظور کرےگی؟ میرے خیال سے شاید یہ لڑکی کی سائیکولوجی کے لیے برا ہوگا۔ لیکن ٹھیک ہے صاحب، کرنا ہی پڑےگا۔‘‘
کچھ دیر تک گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔ لوگ تصور میں اپنی اپنی لڑکیوں کو امریکی لڑکوں کے ساتھ مباشرت کرتے دیکھ کر کافی ڈر گئے تھے۔ احمد صاحب گنگنا رہے تھے۔ ان کی لڑکی ہندوستان میں ہے۔ کسی امریکی کے ساتھ مباشرت نہیں کر سکتی۔ کیا گارنٹی ہے کہ کسی اور کے ساتھ، یعنی کسی ہندوستانی کے ساتھ مباشرت نہیں کر رہی ہوگی؟ لیکن شاید احمد صاحب اتنی دور کی کوڑی لانے میں یقین نہیں رکھتے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.