جونہی غلام نبی نے واسدیو کو اپنے گھر کے دروازے پر سجدہ کرتے ہوئے پایا تو اس کے ہوش فاختہ ہوئے۔ چہرے کا رنگ ایسے فق ہو گیا جیسے اسے بجلی کا گہرا جھٹکا لگا ہو۔ اس کی آواز حلق میں جا کر پھنس گئی۔ جب واسدیو دروازے کی چوکھٹ کو چوم کر کھڑا ہو گیا تو غلام نبی بمشکل تمام واسدیو سے پھسپھسا کر بولا۔
”سلام واسہ کاکا“
”تم یہاں میرے گھر میں کیا کر رہے ہو“ واسدیو نے قدرے برہمی سے پوچھا۔
”وہ۔۔۔وہ“ وہ گڑبڑانے لگا۔
”ارے اب دروازے پر سنتری بن کے کیوں کھڑے ہو۔ ایک طرف ہٹتے کیوں نہیں؟“
”ہاں ہاں ہٹ جاتا ہوں“ وہ ایکدم دروازے سے ہٹ گیا۔ واسدیو گھر کے اندر داخل ہوا۔
اصل میں کرن نگر کایہ مکان واسدیو کا پشتنی گھر تھا۔ جب وہ سن نوے میں نقل مکانی کرکے چلے گئے تو یہ مکان خالی پڑا تھا۔ کئی سارے خواہش مند اس مکان کو خریدنے کی کوشش میں لگے رہے مگر بازی غلام نبی نے ماری۔ غلام نبی نے واسدیو کے بچوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرکے یہ مکان اونے پونے داموں میں خرید لیا۔ بچوں نے باپ کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ دراصل واسدیو کو اس مکان کے ساتھ ایک جذباتی لگاو تھا۔ جب بھی بچے اس سے مکان کو بیچنے کی بات کرتے تھے تو واسدیو سیخ پا ہو اٹھتا تھا۔ وہ ہفتوں بچوں سے بات نہیں کرتا تھا۔ مکان بیچنے کی بات سن کر اسے ایسے لگتا تھا جیسے کوئی اُسکے ماں باپ کا سودا کرنے آیا ہو۔ اسے یہ گھر اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا تھا۔ بچوں کے لئے یہ سیمنٹ گارے کا مکان تھا مگر واسدیو کے لئے یہ کسی تیرتھ استھان سے کم نہ تھا۔ اس گھر کے ساتھ اُسکی زندگی بھر کی یادیں وابستہ تھیں۔ اس نے اسی گھر میں جنم لیا تھا۔ اسی گھر میں وہ پلا بڑھا تھا۔ اسی گھر سے اُسکی برات نکلی تھی اور وہ جانکی کو بیاہ کر اس گھر میں لے آیا تھا۔ اسی گھر میں اس کے بچوں نے جنم لیا تھا۔ اسی گھر میں اس نے زندگی کے حسین پل گزارے تھے۔ وہ بھلا اس گھر کو بیچنے کی بات کیسے گوارہ کر لیتا۔
واسدیو کا گھر کرن نگر کے جس علاقے میں تھا وہاں زیادہ تر کشمیری پنڈت رہا کرتے تھے۔ چند مسلم گھر بھی تھے۔ یہ سب لوگ آپس میں شیر و شکر بن کے رہ رہے تھے۔ کبھی آپسمیں کوئی جھگڑا، کوئی چپقلش نہ ہوئی۔ مسلم پڑوسی ہندوں کے گھر میں بلا روک ٹوک آیا جایا کرتے تھے۔ یہی حال ہندوں کا تھا۔ سکھ دکھ میں دونوں فرقے ایک ساتھ دیکھے جاتے تھے، جب کوئی ہندو شادی ہوتی تھی تو سب سے آگے مسلم عورتیں ہوتی تھیں جو اپنے روایتی ناچ گانے سے سماں باندھتی تھیں۔ یہ بھائی چارہ، یہ رواداری صدیوں سے اس وادی کا خاصا رہا تھا۔ یہاں پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کون ہندو کون مسلمان۔ سب بھائیوں کی طرح مل جل کر رہتے تھے۔
جب ہوا میں زہر پھیل جاتا ہے تو ہوا زہر آلودہ ہوجاتی ہے۔ کشمیر کی وادی میں بھی نفرت کی باد سموم ایسے چلی کہ محبت، رفاقت اور بھائی چارے کی فضاایک دم زہر آلودہ ہو گئی۔ لوگو ں کا انخلا شروع ہو گیا۔ واسدیو کا پریوار بھی شورش کی وجہ سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گیا۔ واسدیو تو اپنا گھر چھوڑنے کے لئے کسی بھی قیمت پر تیار نہ تھا مگر بچے تو طے کرکے بیٹھے تھے کہ وہ یہاں سے نکل جائیں گے۔ انہوں نے ماں باپ کو زبردستی گاڑی میں ڈال کر جموں پہونچا دیا۔ واسدیو کو لگا جیسے بچوں نے اسے دار پر چڑھا لیا ہو۔ اس نے کئی ہفتوں بچوں کی طرف دیکھا تک نہیں۔ اتنا بیزار تھا وہ بچوں سے۔ پر حالات کا کیا جائے جو بہتر ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ آئے دن مؑصوم اور بےگناہ لوگ موت کا نوالہ بنتے جا رہے تھے ۔ٍ
واسدیو جموں میں خوش نہیں تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اسے جیتے جی ہی جہنم میں ڈال دیا گیا ہو۔ اس سے سب کچھ چھن گیا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں، شدھ اور میٹھا پانی، چناروں کے خنک سایے، پھولوں کی مہک، چڑیوں کی چہچہاہٹ، کوئلوں کی کوک، برف پوش چوٹیاں، ڈل کے کنول، ولر کے ندرو، وتستا کی مچھلیاں، اس کا اڑوس پڑوس، اس کے یار دوست۔ یہاں اس کا کوئی اپنا نہیں تھا کیونکہ یہاں اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ گھنٹوں سڑک کے کنارے بیٹھا رہتا اور نم ناک آنکھوں سے اس سمت دیکھتا تھا جہاں اس کا گھر تھا، اس کا شہر تھا، اس کا کشمیر تھا۔ باقی کا وقت وہ کرایے کے مکان کی چار دیواری میں ایک قیدی کی طرح رہ رہا تھا۔
اس نے غلام نبی کو جموں کے گھر میں کئی بار آتے جاتے دیکھا۔ ایک بار اس نے غلام نبی سے پوچھا۔
”بیٹا تم بار بار یہاں آ رہے ہو۔ بات کیا ہے۔ کہیں میرے بچوں نے تم سے کوئی رقم ادھار تو نہیں لی ہے؟“
اس کے منہ سے بےساختہ نکل گیا۔
”نہیں نہیں انہوں نے مجھ سے کوئی قرض نہیں لیا ہے۔ در اصل میں یہاں آپ کے مکان کا سودا کرنے آیا ہوں“
سودا کی بات سنتے ہی واسدیو غصے سے آگ بگولہ ہو گیا۔ وہ غلام نبی پر برس پڑا۔
”تم نے میرے گھر کو خریدنے کی بات سوچی کیسے۔؟وہ میرا گھر نہیں میری زندگی ہے، میرا روح ہے۔ تم مجھ سے میری زندگی چھین لو گے تو میں جئیوں گا کیسے؟ دوبارہ ایسی بات منہ پر لانا بھی مت۔ نہیں تومجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ ایکطرف تم لوگ کہتے ہو کہ ہم لوگ آپ کے بنا اُدھورے ہیں۔ اپنے اپنے گھروں میں لوٹ کے آ جاو۔ جس دن ہم لوٹ کے آ جائیں گے تو پھر ہم رہیں گے کہاں؟کرن نگر کے شمشان میں کیا؟ آج نہیں تو کل حالات سدھر جائیں گے۔ تم گھر لے لوگے تو ہم کہاں جائیں گے؟“
غلام نبی جل کر بولا۔
”واسہ کاکا حالات جلدی سدھرنے والے نہیں۔ جب تب حالات سدھر جائیں گے تب تک تمہارا مکان کہیں نظر بھی نہیں آئےگا۔ ابھی کھڑکیاں دروازے چور اکھاڑ کے لے گئے ہیں۔ کل وہ اینٹیں بھی نکال کر لے جائیں گے تب کیا کرو گے؟ ابھی تو میں مکان کے پیسے دے رہا ہوں۔ کل زمین کے پیسے بھی نہیں ملیں گے۔ یہ ہٹ دھرمی چھوڑ دو اور میرے ساتھ مکان کا سودا کر لو۔ بخدا فائدے میں رہو گے۔“
واسدیو کے کلیجے میں آگ لگی۔ ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہو۔ جی میں آیا کہ غلام نبی کو کھڑے ہی کھڑے باہر کا راستہ دکھا دے تاہم اس نے اپنے غصے کو پی لیا اور غلام نبی کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”گھر میرا ہے۔ چاہے وہ رہے یا ڈھ جائے تم کیوں غم خواربنے پھرتے ہو؟اپنی عزت پیاری ہے تو جن قدموں سے آئے ہو ان ہی قدموں سے لوٹ جاو۔ دوبارہ مجھے اپنی یہ منحوس صورت مت دکھانا۔“
غلام نبی پیچ و تاب کھانے لگا۔ عمر کا لحاظ نہ ہوتا نہیں تو وہ بھی واسدیو کو اسی کے گھر میں کھری کھوٹی سنا ڈالتا۔ وہ وہاں سے چپ چاپ چلا تو گیا مگر یہ عہد کرکے گیا کہ جب تک وہ یہ مکان خریدےگا نہیں تب تک چین سے بیٹھےگا نہیں۔ اس نے واسدیو کو چھوڑ کے اس کے دونوں بیٹوں کو شیشے میں اتارا۔ وہ اس مکان کو کب سے بیچنے کے درپے تھے۔ ایک باپ تھا جو انکے راستے میں روڑے اٹکا رہا تھا۔ اُن کی مجبوری یہ تھی کہ مکان باپ کے نام پر تھااور وہ ابھی حیات تھا اس لئے اس کی رضا کے بنا وہ اس مکان کا سودا نہیں کر سکتے تھے۔ وہ اگر ایسی حماقت کر لیتے تو ان کو لینے کے دینے پڑ سکتے تھے اس لئے وہ باپ کو منانے کی مسلسل کوشش کرتے رہے مگر انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ واسدیو کسی بھی قیمت پر اس مکان کو بیچنے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا۔ چونکہ وہ کافی تنگی ترشی میں تھے اور ایک پلاٹ خریدنے کے لئے انہیں پیسے کی اشد ضرورت تھی۔ ان کے لئے اس مکان کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ وہ یہ مکان بیچ کر جموں میں اپنا گھر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس مکان کو کیسے بیچیں انہیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ان کی یہ مشکل غلام نبی نے آسان کر دی۔ اس نے جگرا دکھا کر بیٹوں کے ساتھ مکان کا سودا کر ڈالا۔ اس نے سوچا کہ واسدیو کتنے دن اور جی لےگا۔ اس کے پاوں شمشان میں لٹک رہے ہیں۔ آج مرا تو کل دوسرا دن۔ بیٹوں نے غلام نبی کے ساتھ اونے پونے داموں میں مکان کا سودا کر لیا۔ غلام نبی نے عدالت میں جاکر کاغذ بنوا لئے اوردونوں بیٹوں سے اس کاغذ پر دستخط لئے۔ یہ سب کچھ اتنی رازداری سے ہوا کہ واسدیو تو کیا اس کے فرشتوں کو بھی اس کی بھنک نہیں لگی۔
واسدیو کی حیرت کا اس دن کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب اس نے دونوں بیٹوں کو نیا گھر تعمیر کراتے دیکھا۔ من میں کئی طرح کے شک و شبہات پیدا ہوئے۔ اس نے دونوں بیٹوں کو اپنے پاس بلایا اور پھر ان سے باری باری پوچھا۔
”اس مکان کو بنوانے کے لئے پیسے کہاں سے آ گئے؟“
بڑا آئیں بائیں شائیں کرنے لگا مگر چھوٹے نے معاملے کو سنبھالا۔ وہ باپ سے آنکھ ملائے بغیر بولا۔
”ہم نے کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا ہے۔ بنک سے قرض لیا ہے۔ اسنے دس لاکھ اور میں نے دس لاکھ۔“
”بیس لاکھ قرض لیاہے تو چکاوگے کیسے؟“
”کیوں۔ ہم دونوں اتنی نکمے ہیں کیا کہ ہم اس قرض کو چکا نہیں پائیں گے۔ آج نہیں تو کل ہم دونوں کو نوکریاں مل جائیں گی۔“
”بیٹا جب دادا جی مریں گے تب بیل بٹیں گے۔ ابھی تو تم دونوں گھر میں بےکار پڑے ہو۔ ایسے شیخ چلی کے خواب مت دیکھا کرو“
وہ کچھ نہیں بولے۔ جان چھڑا کر جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئے۔ باہر آکے دونوں نے چین کی سانس لی۔
مکان بن گیا۔ پورا پریوار نئے مکان میں منتقل ہو گیا۔ واسدیو بھی نئے مکان میں آ گیا مگر اس نے اس مکان کو کبھی اپنا نہیں سمجھا۔ اس کے لئے یہ مکان ایک سرائے کی طرح تھا جہاں کوئی تھکا ماندہ مسافر رات دو رات کے لئے رک جاتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے۔ واسدیو بھی اس گھڑی کا انتظار کر رہا تھا جب وادی کے حالات سدھر جائیں اور ڈار سے بچھڑے پنچھی اپنے اپنے آشیانوں کو لوٹ آئیں گے۔
ایک دہائی بیت گئی، وادی کے حالات میں کوئی سدھار نہیں آیا۔ واسدیو جس امید فردا پر جی رہا تھا، دھیرے دھیرے اس کی امیدیں مایوسیوں میں بدلتی چلی گئیں۔ وادی کے حالات دن بہ دن ابتر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ اب اسے ہر طرف اندھیکار ہی اندھیکار نظر آ رہا تھا۔ پہاڑوں کو تکتے تکتے اب اس کی آنکھیں پتھرانے لگی تھیں۔ کہیں سے امید کی ایک رمق دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ اندر ہی اندر سے ٹوٹتا چلا جا رہا تھا۔ گھر کو ایک بار دیکھنے کی تڑپ اُسکے دل و جگر کو برما رہی تھی۔ وہ اُس چوکھٹ کو ایک بار چومنا چاہتا تھا جسے چھوڑے ہوئے اسے ایک دہائی سے بھی زیادہ وقت ہو گیا تھا۔
انتظار کرتے کرتے اس کی آنکھیں تھک گئیں۔ دل کے ارمان آہستہ آہستہ راکھ ہوتے چلے گئے۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اسے کسی زندا ن میں ڈال دیا گیا ہو۔
وہ اس زندان میں گھٹن اور حبس محسوس کر رہاتھا۔ وہ اس زندان خانے کی ساری دیواروں کو توڑکر اسے منہدم کرکے یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا اور اپنا آخری وقت اپنے اس آشیانے میں گزارنا چاہتا تھا جہاں وہ اپنی روح چھوڑ کے آیا تھا۔ ادھر واسدیو کی یہ حالت تھی اُدھر غلام نبی کو ہر دم یہ کھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں واسدیو کے کانوں تک یہ خبر نہ پہونچ جا ئے کہ اس کا مکان بک گیا ہے تووہ اس کے لئے آفت کھڑی کر دےگا۔ اگر وہ پولیس میں شکایت درج کرالے تو اسے مکان سے بے دخل کیا جا سکتا تھا۔ اُسنے دستاویزات تو بنوا لئے تھے مگر ان دستاویزات کی کوئی قانونی حثیت نہ تھی۔ بیٹے مکان بیچنے کے مختار نہ تھے۔ وہ مالک مکان کی حثیت سے اس مکان پر کبھی بھی دعوی ٹھونک سکتا تھا۔
اُسکا اندیشہ اب کے سچ ثابت ہوا تھا۔ واسدیو اس کے سامنے بہ نفس نفیس کھڑا تھا۔ غلام نبی اس قدر بوکھلایا ہوا تھا کہ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ اس کے سامنے ساری سچائی رکھ دے یا خاموشی اختیار کر لے۔ اس کے دل و ماغ میں ایک تلاطم مچا تھا۔ ادھر وہ سوچ کے بھنور میں الجھا ہوا تھا، ادھر واسدیو پاگلوں کی طرحدر و دیوار کو چومتا جا رہا تھا اور روئے جا رہا تھا۔ اسے جیسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا وہ اپنے گھر میں آ گیا ہے اور ان در و دیواروں کو چھو رہا ہے جن میں اس کی زندگی بسی تھی۔
غلام نبی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس بڑھے کا کیا کرے۔ اس گھر میں بیٹھنے دے یا اس کا ٹیٹوا دبا دے۔ وہ تو اس کے لئے آفت بن کے آ گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اسے اس بات کا پتا لگ جائے کہ اسکا مکان بک چکا ہے اس نے سوچا کہ بہتر یہی ہوگا کہ اس کو الجھا کے رکھ دے۔ یہی سوچ کر اس نے اوپری دل سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے واسدیو کے لئے ایک چھوٹا سا غالیچہ بچھا دیا اور پھر واسدیو کو بیٹھنے کے لئے کہا۔
”کاکا آو یہاں بیٹھ جاو۔“
واسدیو چپ چاپ نیچے بیٹھ گیا۔ غلام نبی نے ایک مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھیرتے ہوئے کہا۔
”واسہ کاکا کون سی چائے پیو گے۔ میٹھی یا نمکین؟“
”اتنے سالوں کے بعد اپنے گھر آیا ہوں۔ نمکین چائے ہی پیوں گا“
”ابھی لے کر آتا ہوں“
کہہ کر وہ کچن میں چلا گیا۔ اس کی بیوی حاجرہ جو کہ دروازے کی اوٹ میں کھڑی تھی سرگوشی کے انداز میں شوہر سے بولی۔
”اب اس کا کیا کرو گے۔ یہ تو ابھی بھی اس گھر کو اپنا ہی گھر سمجھ رہا ہے“
”تم پریشان مت ہو جاو۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ سب ٹھیک ہو جائےگا۔ تم جلدی سے ایک دو کپ چائے بجھوادو میں تب تک اس بڑھے کو الجھا کے رکھتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ واسدیو کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ واسدیو نے غلام نبی سے پوچھا۔
”اس دیوار پر میرے دیوی دیوتاوں اور میرے ماں باپ کی تصویریں آویزاں تھی وہ سب کہاں ہیں؟“
غلام نبی کا رنگ ایک بار پھر اڑ گیا۔ تھوڑے توقف کے بعد اُسنے اپنے آپ کو سنبھالتے وہئے کہا۔
”وہ تصویریں۔ ان میں دیمک لگ گئی تھی۔ پوری طرح انہوں نے ان تصویروں کا چاٹ لیا تھا۔ میں نے بچے کھچے ٹکڑوں کو جہلم میں بہا لیا۔“
”اچھا کیا۔ اچھا کیا“
غلام نبی کی جان میں جان آ گئی۔ اس نے راحت کی سانس لی۔ اس سے پہلے کہ واسدیو مزید کوئی استفسار کرے اس نے اس کا دھیان ہٹانے کے لئے جونہی اپنا منہ کھولنا چاہا واسدیو نے پوچھا۔
”اس کمرے میں میری پوجا کی سامگری تھی وہ کہاں رکھ دی ہے؟“
اب کے غلام نبی کو کچھ سوجھا نہیں۔ وہ اسے ٹالتے ہوئے بولا۔
”کاکا رات کو کیا کھاو گے؟“
”اتنے سالوں بعد گھر لوٹا ہوں۔ خانیاری ساگ اور ولر کے ندرو ضرور کھاوں گا۔ برسوں سے ان چیزوں کو کھانے کے لئے ترس گیا ہوں۔ اور ہاں کل ڈل سے میرے لئے پمپوش کے ایک دو پھول ضرور لے کر آ جانا۔ برسوں سے میں نے شو جی کو پھول نہیں چڑھائے۔“
”ارے کاکا تمہارے لئے جان حاظر ہے۔ کل کیا میں آج ہی یہ ساری چیزیں لے کر آوں گا۔ ایک بات پوچھوں برا مت ماننا۔ تم یہاں آئے کیسے اور یہاں کتنے دنرکنے کا ارادہ ہے؟“
غلام نبی کی بات سے واسدیو کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔ اس نے تیکھی نظروں سے غلام نبی کی طرف دیکھا اور پھر ترش روئی کے ساتھ پوچھا۔
”تم نے یہ سوال کیا کیوں؟میں اپنے گھر میں آیا ہوں۔ کیا اپنے گھر میں آنے کے لئے مجھے تم سے اجازت لینی ہوگی۔ میرا دل جب تک کرے تب تک میں یہاں رہوں گا۔ تم بتاو تم کب یہاں سے دفا ہو رہے ہو۔ چوکیداری کے بہانے تم نے میرے گھر کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔“
غلام نبی کا چہرہ اتر گیا۔ اس نے سوچا کہ یہ بڑھا یہاں سے جلدی ٹلنے والا نہیں ہے۔ اس نے مصلحت سے کام لے کر اپنا منہ بند رکھا اور واسدیو کی آڑی ترچھی چپ چاپ سن لی۔ اس سے اُلجھتا تو وہ ہنگامہ کھڑا کر دیتا۔ اس نے بہتر یہی سمجھا کہ بڑھے کی دل کھول کے خاطرداری کی جائے۔ دونوں میاں بیوی اس کے سامنے ہاتھ باندھے ایسے کھڑے رہتے تھے جیسے وہ اس کے غلام ہوں۔ وہ جس چیز کی فرمائش کرتا وہ دوڑ کر وہ چیز اس کے سامنے رکھ دیتے تھے۔ دو دن اور دو راتیں ان کے سروں پر ننگی تلوار لٹکی رہی۔ تیسرے دن واسدیو نے اپنی پوٹلی اُٹھائی اور غلام نبی سے کہا۔
”میں شادی پور جا رہا ہوں۔ وہاں میرے بچے میرا انتظار کر رہے ہونگے۔“
غلام نبی کو لگا جیسے واسدیو نے انہیں مژدہ جانفزا سنا دیا ہو۔ وہ بلیوں اچھل پڑا۔ اس نے اس سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ شادی پور کس لئے جا رہے ہو؟ وہاں تمہارے بچے تمہارا انتظار کس لئے کر رہے ہیں۔ اس نے خوش ہوکر واسدیو سے کہا۔
”ہاں ہاں خوشی خوشی جاو۔ یہاں کی بالکل فکر مت کرنا۔ میں تمہارے گھر کا پورا پورا خیال رکھوں گا۔ کہو تو میں ٹیکسی لے کر آجاوں؟“
”زندگی بھر سرکاری بسوں میں سفر کیا۔ ٹیکسیوں میں سفر کرنے کی عادت نہیں رہی۔ میں بس میں بیٹھ کر چلا جاوں گا“
کہہ کر وہ اپنی پوٹلی لے کر گھر سے نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد حاجرہ اور غلام نبی نے چین کی سانس لی۔
چوتھے روز واسدیو کے دونوں لڑکے غلام نبی سے ملنے آئے۔ ان دونوں کے سر منڈھے ہوئے تھے۔ غلام نبی انہیں دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ وہ آکے غلام نبی کے گلے ملے۔ گلے ملنے کے بعد غلام نبی نے ان سے کہا۔
”میں جانتا ہوں تم یہاں کیوں آئے ہو۔ وہ یہاں آیا تھا۔ دو دن یہاں رہاپر مکان کے سودے کے بارے میں اس نے کوئی سوال نہیں کیا۔ کل صبح وہ شادی پور کے لئے نکل گیا۔ کہا میرے بچے وہاں میرا انتظار کر رہے ہونگے“
دونوں نے غلام نبی کی طرف حیرت سے دیکھ کے کہا۔
”تم کس کی بات کر رہے ہو؟“
”تمہارے باپ واسہ کاک کی“
”کیا بات کرتے ہو تم۔ وہ یہاں کیسے آ سکتا ہے۔ چار دن پہلے تو اس کا سورگباش ہوا۔ کل ہی ہم اس کی استھیاں شادی پور میں بہا کر آئے ہیں“
غلام نبی دھم سے نیچے بیٹھ گیا اور پھر اپنا سر پکڑ کر یوں رونے لگا جیسے اس کا باپ آج ہی مر گیا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.