Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وشال ارجانی کی محبوبہ

اقبال انصاری

وشال ارجانی کی محبوبہ

اقبال انصاری

MORE BYاقبال انصاری

    سبز رنگ کے بغیر آستینوں اور گہرے گلے (Low-Cut) بلاؤز اور کریم کلر کے نصف پنڈیوں تک اونچے اسکرٹ میں سنہرے سے باریک گھونگھرالے بالوں والی وہ بے تحاشا خوبصورت لڑکی بےحد طیش میں اپنے کیبن سے نکلی اور ماربل کے دودھ جیسے سفید فرش پر ہائی ہیل کی جارحانہ کھٹ کھٹ کے ساتھ مشتعل قدموں سے چلتی ہوئی امتیاز کی میز کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ امتیاز کو علم تھا کہ وہ لڑکی سراپا غضب بنی ہوئی اس کی میز کے سامنے کھڑی ہے، لیکن اس نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اس کی نگاہیں اس کے کمپیوٹر کے مانیٹر پر مرکوز رہیں اور انگلیاں کی بورڈ پر۔ پورے ہال میں یک لخت سناٹا چھا گیا تھا۔ ہال میں موجود تمام ساٹھ کے ساٹھ افراد کی انگلیاں اپنے اپنے کمپیوٹر کے کی بورڈ پر ٹھہر گئی تھیں اور نگاہیں مانیٹروں سے ہٹ کر امتیاز کی میز پر مرکوز ہو گئی تھیں۔ ان نگاہوں میں سہما سہما سا اضطراب تھا، ڈری ڈری سی جستجو تھی، کچھ نیا، کچھ غیر متوقع دیکھنے کا گھبرایا گھبرایا سا تجسس تھا، کچھ ناخوش گوار نا ساز گار رونما ہونے کا مضطرب سا اندیشہ تھا۔ امتیاز کی میز دوسری تمام میزوں سے بڑی تھی اور داہنی دیوار کے ساتھ درمیان میں ایسی جگہ پر پڑی تھی جہاں ہال میں موجودہ ساری نگاہیں بڑی آسانی سے پہنچ سکتی تھیں۔ ہال میں امتیاز کی ہی میز ایسی تھی جس کے دائیں اور بائیں دونوں طرف دو دو کرسیاں پڑی تھیں۔ امتیاز کی کرسی بھی ہال میں موجود تمام کرسیوں سے مختلف تھی۔ بڑی آرام دہ اور اعلیٰ درجے کی۔

    ہال میں موجود تمام لڑکے اور لڑکیوں کی عمریں بیس اور تیس کے درمیان تھیں۔ امتیاز 35 برس کا تھا۔ عمر میں ہی نہیں ملازمت کی مدت اور عہدے میں بھی سب سے سینئر تھا۔ اس نے یہ کمپنی اس وقت جوائن کی تھی جب مسٹر وشال ارجانی نے یہ کمپنی شروع کی تھی۔ تب کمپنی میں امتیاز کے علاوہ چار افراد اور تھے۔ وہ چاروں رفتہ رفتہ کمپنی چھوڑ کر جا چکے تھے۔ اس طرح کا رندوں میں اب امتیاز سب سے سینئر بھی تھا اور امتیازی حیثیت کا حامل بھی۔ چھوٹے چھوٹے بےترتیب گول گول بالوں، کشادہ پیشانی، بڑی بڑی ذہین آنکھوں، کھلی کھلی گندمی رنگت اور اپنی عمر سے کم نظر آنے والے اس میانہ قد شخص کو اس کمپنی سے عشق تھا۔ کمپنی اس کی محبوبہ تھی۔ جن بلندیوں تک کمپنی پہنچی تھی وہاں تک اسے پہنچانے میں مسٹر ارجانی سے زیادہ ہاتھ امتیاز کا تھا۔ آندھی ہو یا طوفان، وہ ہر حال میں ٹھیک صبح نو بجے آفس میں پہنچ جاتا تھا، سب سے پہلے، گو کہ آفس شروع ہونے کا وقت ساڑھے نو بجے تھا۔ مسٹر ارجانی صرف سوفٹ ویئر کی تیاری کے سلسلہ میں ہی نہیں، ٹنڈر کے انتخاب میں، ٹنڈر کی تیاری Presentation، غرض کہ ہر معاملہ میں اس سے مشورہ کرتے تھے۔ ہر پروجیکٹ کا انچارج امتیاز ہی ہوتا تھا۔ امتیاز کی رائے مسٹر ارجانی کے لئے حتمی، آخری اور قطعی ہوتی تھی۔

    لیکن ادھر گزشتہ کچھ دنوں سے ان دونوں کے درمیان ایک ٹنڈر کو لے کر کچھ نا اتفاقی ہو گئی تھی۔ اس نا اتفاقی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹنڈر مسترد ہو گیا۔ کمپنی ایک بڑے بزنس سے محروم رہ گئی۔ یہ نقصان مسٹر وشال ارجانی جیسے پکے اور تجربہ کار تاجر کو تو کھلا ہی تھا، امتیاز کو بھی کم دکھ نہیں ہوا تھا۔ دکھ سے زیادہ ناگوار گزرا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو اس نقصان کا ذمہ دار مان رہے تھے۔

    ان دنوں آفس میں چپکے چپکے ایک خبر تو یہ گشت کر رہی تھی کہ مسٹر ارجانی امتیاز کو بہت جلد کمپنی سے باہر کرنے والے ہیں۔ انہیں صرف اس پروجیکٹ کی تکمیل کا انتظار ہے جس پر امتیاز اپنی پوری ٹیم کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ دوسری خبر یہ گرم تھی کہ امتیاز خود ہی کمپنی چھوڑنے کا من بنا چکا ہے، کیونکہ ایک طرف تو کمپنی کے مالک مسٹر ارجانی سے اس کے تعلقات میں ترشی آ چکی تھی،دوسرے مسٹر ارجانی کی نئی سکریٹری انجنا گاٹیکر بہت Rude تھی، ہر ایک سے بڑی بد اخلاقی اور بدتمیزی سے پیش آتی تھی، امتیاز سے تو پہلے دن سے چڑھ گئی تھی کیونکہ امتیاز ایک تو باس کے بہت نزدیک تھا، دوسرے یہ کہ نہ اس کی ( سکریٹری کی) جی حضوری کرتا تھا نہ ہی کوئی خصوصی توجہ یا خصوصی احترام دیتا تھا۔ وہ مسٹر ارجانی کی منظور نظر تھی اس لئے اپنے آگے کسی کو گردانتی نہیں تھی، خود کو مخصوص توجہ اور اطاعت کا مستحق سمجھتی تھی۔ امتیاز کا رویہ براہ راست اس کی انا کو ضرب لگاتا تھا۔ اس لئے وہ امتیاز کو زک پہنچانے کے درپے رہتی تھی۔

    آج اس نے چپراسی کو بھیجا کہ وہ امتیاز کو بلا کر لائے۔ چپراسی نے آ کر امتیاز کو اس کا پیغام دیا۔ امتیاز نے دھیرے سے سراٹھا کر چپراسی کی طرف دیکھا اور بڑی نرمی سے بولا ’’مس گاٹیکر سے جا کر کہو کہ اگر انہیں کوئی بہت ضروری کام ہے تو آدھے گھنٹے کے بعد وہ خود آ کر مجھ سے مل سکتی ہیں۔۔۔۔۔ آدھے گھنٹے کے بعد۔۔۔اس سے پہلے نہیں۔۔۔تھینک یو۔‘‘

    چپراسی نے جاکر امتیاز کا جواب حرف بہ حرف مس گاٹیکر کو سنا دیا۔

    انجنا گاٹیکر باس کی سکریٹری ہی نہیں ’’بہت کچھ‘‘ بھی تھی۔۔۔تو انا بدنی حسن اور ایک قوی انا کی مالک تھی، اس لئے امتیاز کا جواب جیسے ایک تند شعلہ بن کر اسے چھو گیا۔ ’’ایک آر ڈی نیری امپلائی کی یہ مجال!‘‘ طیش میں لت پت اپنے شاندار کیبن سے نکل کر وہ امتیاز کی میز کے سامنے پہنچی اور خاصی گونجیلی جارحیت کے ساتھ اس کے منھ سے نکلا۔۔۔۔’’ امتیاز!‘‘

    امتیاز نے دھیرے سے سر اٹھایا اور انجنا گاٹیکر کی سرخ ہوتی ہوئی بھوری سی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا’’مسٹر امتیاز‘‘ مس گاٹیکر۔

    ’’او شٹ اپ!‘‘ انجنا گاٹیکر کی آواز بہت اونچی ہو گئی ’’تم جانتے ہو میں کون ہوں؟‘‘

    ’’باس کی سکریٹری‘‘ امتیاز نے بڑی لاپروائی سے کہا۔

    ’’اس کے باوجود تم میرے بلانے پر نہیں آئے! میں نے۔۔۔‘‘

    ’’تم‘‘ نہیں مس گاٹیکر ’’آپ‘‘ امتیاز انجنا گاٹیکر کی بات کاٹ کر بولا ’’میں ہر ایک سے تمیز سے بات کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ دوسرے بھی مجھ سے تمیز سے ہی بات کریں۔۔۔بدتمیزی مس گاٹیکر مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔۔۔اور میں نے تو کشنو’’ چپراسی‘‘ سے کہا تھا کہ آپ آدھے گھنٹے کے بعد آکر مجھ سے مل سکتی ہیں، اس سے پہلے نہیں، مگر آپ فوراً ہی آ گئیں۔ میں مصروف ہوں، آدھے گھنٹے کے بعد ہی آیئے اور آئندہ مجھے ’’شٹ اپ‘‘ نہ کہئے گا۔ تھینک یو ‘‘کہہ کر امتیاز نے نگاہیں پھر اپنے کمپیوـٹر مانیٹر پر مرکوز کر دیں۔

    کمپنی کے مالک کی دل ستاں و دل نشیں سکریٹری کی نخوت اس بری طرح مجروح ہوئی کہ وہ اپنی گرفت سے نکل گئی ’’یو بلا ڈی باسٹرڈ، لگتا ہے تیرا دل بھر گیا ہے نوکری۔۔۔‘‘

    انجنا گاٹیکر کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کب امتیاز اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا اور کب اس کا زناٹے دار چانٹا انجنا کے بائیں گال پر پڑا۔

    ہال میں سناٹا تو پہلے سے ہی تھا، اب سناٹا مزید سناٹا ہو گیا۔ انجنا گاٹیکر تو جیسے پتھرا گئی تھی۔ بڑی مشکل سے اس نے خود کو سکتے کی حالت سے نکالا، خونخوار نظریں امتیاز پر ڈالیں اور پلٹ کر تیزی سے اپنے شاندار کیبن میں چلی گئی۔

    امتیاز اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور سارے اسٹاف کو مخاطب کر کے اونچی آواز میں بولا ’’اے یو۔۔۔ آل آف یو۔۔۔بیک ٹو بزنس۔‘‘

    سب اپنے اپنے کام پر لگ گئے۔۔۔لیکن کہاں کا کام، کیسا کام؟ ایسے واقعات کے بعد کسی کا دل کام میں بھی لگتا ہے؟ کم از کم دو تین گھنٹے تو نہیں۔ شاید ہی کبھی کسی کے باس کی اتنی حسین سکریٹری کو ساٹھ افراد کے اسٹاف کے سامنے اس ہتک سے گزرنا پڑا ہو! بے عزتی سی بے عزتی ہوئی تھی! قطعی غیر متوقع، ناقابل یقین!

    اسٹاف کے سبھی لوگ امتیاز سے محبت بھی کرتے تھے، دل سے احترام بھی کرتے تھے۔ ان تمام افراد کی تقرری میں امتیاز کی حمایت اور مرضی شامل تھی۔ ہر انٹرویو میں وہ مسٹر ارجانی کے ساتھ بٹھا اور ہر انتخاب میں اس کا پورا پورا ہاتھ تھا۔ یوں بھی اس کا رویہ سبھی کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ کسی کو بھی اپنے کام میں کوئی بھی مشکل پیش آتی تھی تو امتیاز رہنمائی بھی کرتا تھا۔ اس لئے آج کے واقعہ پر سبھی کو افسوس تھا۔ سبھی امتیاز کے لئے دل گرفتہ تھے۔ اس حقیقت کا علم سبھی کو تھا کہ انجنا گاٹیکر صرف سکریٹری نہیں تھی، اس کی راتیں مسٹر ارجانی کے ساتھ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں گزرتی تھیں، گووا اور کیرالہ کے سمندری ساحلوں پر گزرتی تھیں، شملہ، منالی اور منار کی پہاڑیوں میں گزرتی تھیں۔ مسٹر ارجانی ابھی حال میں ہی اسے تھائی لینڈ کی سیر کروا کر لائے تھے۔ اس لئے کمپنی سے امتیاز کی چھٹی لازمی ٹھہری۔

    مسٹر ارجانی کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی۔ پھر بھی اکثر ایک تویہ نکتہ بحث کا موضوع رہتا تھا کہ مسٹر ارجانی زیادہ کامیاب تاجر ہیں یا زیادہ کامیاب عیاش؟ اور دوسرا نکتہ یہ زیر بحث رہتا تھا کہ وہ عیاشی کے لئے تجارت کرتے ہیں یا اتنی کامیاب تجارت کے باعث عیاشی؟ ہمیشہ ایک سے ایک خوب رو سکریٹری ان کے ساتھ دیکھی جاتی تھی۔ وہ بہت Possessive تھے۔ ایک بار ایک منچلے نے ان کی ایک سکریٹری پر بازاری فقرہ اڑا دیا تھا۔ مسٹر ارجانی نے فی الفور اس منچلے کے سامنے کے دو دانت منھ سے باہر کر دئے تھے۔ ویسے ان کی سکریٹریوں کی ملازمت کی عمر بہت طویل نہیں ہوتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ تین چار ماہ میں وہ اپنی سکریٹری سے اوب جاتے تھے اور اس کی جگہ کوئی نئی سکریٹری تین چار ماہ کے لئے آ جاتی تھی۔ مگر انجنا گاٹیکر کا معاملہ قطعی مختلف تھا۔ چھ ماہ گزر نے کے بعد بھی وہ مسٹر ارجانی کی سکریٹری تھی اور روز بروز زیادہ سکریٹری ہوتی جا رہی تھی، زیادہ اختیارات حاصل کرتی جا رہی تھی۔ مسٹر ارجانی نے اسے حکومت کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی اور خود بھی اس کا ہر مشورہ بےچوں چرا کے خوشی سے مان لینے لگے تھے۔ انجنا گاٹیکر کی مرضی ’’وشال ارجانی اینڈ کو‘‘ کا قانون ہو گئی تھی۔ اس لئے آفس کے تمام افراد امتیاز کے لئے افسردہ تھے۔ وہ ان کے لئے ایک شفیق بڑے بھائی کی حیثیت رکھتا تھا، معاون، مددگار، رہنما، امتیاز کے بغیر ان کے لئے آفس کا تصور تک ناممکن تھا۔

    سارا دن کسی ضروری میٹنگ میں مصروف رہنے کے بعد مسٹر ارجانی شام کو ساڑھے پانچ بجے آفس آئے۔ انجنا گاٹیکر فوراً ہی اپنے کیبن سے نکل کر ان کے ساؤنڈ پروف کمرے میں چلی گئی۔ کس وقت باہر آئی، کسی کو علم نہیں، کیونکہ چھ بجے دفتر کا وقت ختم ہو جاتا تھا اور سارے کارکن چلے جاتے تھے۔ اس دن بھی چھ بجے انجنا گاٹیکر کے علاوہ سب چلے گئے۔

    دوسرے دن اتوار تھا، تعطیل کا دن۔ دو شنبے کو حسب معمول ٹھیک ساڑھے نو بجے سارا اسٹاف دفتر پہنچ گیا اور اس نے دیکھا کہ امتیاز ہمیشہ کی طرح اپنی میز پر بیٹھا کام پر مشغول تھا اور مسٹر ارجانی کے کمرے سے گلابی بلاؤز اور سیاہ اسکرٹ میں ملبوس ان کی نئی سکریٹری نکل رہی تھی۔۔۔انجنا گاٹیکر کی جتنی حسین تو نہیں، مگر تھی وہ بھی بہت خوبصورت۔ جلد ہی سارے اسٹاف کو علم ہو گیا کہ دفتر سے انجنا گاٹیکر کی چھٹی ہمیشہ کے لئے ہو گئی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے