Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ پرندہ

سلمی صنم

وہ پرندہ

سلمی صنم

MORE BYسلمی صنم

    وہ پرندہ۔۔۔ بہت ہولے سے بہت چپکے سے ہزاروں میل کا سفر طئے کرکے جب سے پرندوں بھری اس جھیل میں آیا تھا۔ بہت اکیلا تھا۔ وہ۔۔۔ پہلی ہجرت۔۔۔ اجنبی سرزمین۔۔۔ اپنا تو کوئی نہیں۔ وہ کیا کرے؟ خدایا وہ کیا کرے؟

    پرندوں بھری جھیل میں بے شمار پرندے تھے۔ جگمگاتے رنگوں والے نرم نازک، ملائم خوب چہکتے ہوئے، پھد کتے ہوئے۔ پانی کی سطح پر منڈلاتے ہوئے، آسمان کی بلندیوں میں اڑتے ہوئے جانے کس سرزمین سے آئے تھے وہ سارے اور جھیل کے کنارے ایک درخت پہ بیٹھا عجیب سی کیفیتوں میں مبتلا وہ پرندہ چپ چاپ گم سم اپنے ارد گرد سے بے خبر اپنے آپ میں ڈوبا ہزاروں میل دور بسے اپنے دیس کو سحر شا م یاد کئے جاتا۔ وہ میرا وطن۔۔۔ وہ میرا پیار وطن وہ الساتی صحبیں وہ تھرکتی شامیں، جادو، خوشبو، انوکھا لطف، انجانی لذت۔ خوبصورت کیفیت وہ مسرور کر دینے والا موسم، وہ خوشگوار نیم گرم ہوائیں۔ وہ سرسبز شاداب ملائم لباس پہنے درخت۔ وہ اس کا ننھا سا گھونسلہ۔ و ہ اس کی ٹولی۔۔۔ وہ ان کے ہمراہ ہر دم اڑتا ہوا۔ تھرکتا ہوا اپنی سحرانگیز آواز میں محبت کے میٹھے میٹھے نغمے گاتا ہوا آہ!! وہ سب جانے کیا ہوا ؟ جیسے ہی موسم بدلا ایک نئی رت نے انگڑائی لی پتہ نہیں اس کے اندر جانے کیا ہوا۔ ایک انوکھی کپکپاہٹ ایک عجیب سی پھڑ پھڑاہٹ۔ ساری ٹولی ہجرت کر گئی۔ وہ بھی ساتھ ہو لیا۔ کیوں؟ خدایا کیوں ہوتی ہے یہ ہجرت۔ وہ توسب اڑتے رہے۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا؟ وہ بچھڑ گیا۔ اس اجنبی سرزمین پہ آ گیا۔ یہ پرندوں بھری جھیل اور یہ اکیلا پن اس کا سارا جوش، شوخی، قہقہے، چہچاہٹ، وہ تو جیسے وطن میں ہی رہ گئے۔

    اور پھر تنہائی اور بیچارگی کا کربناک احسا س اداس لمحوں کا سارا عذاب اس کے نغموں در آیا۔ اس کی خونیں آنسوؤں میں بھیگی ہوئی آواز فضاؤں میں ایک درد سا جگانے لگی جس کی لپک پر کئی ایک پرندے اڑکر اس کی جانب آئے مگر وہ نہ جانے کیوں کسی کی جانب ملتفت نہ ہوا۔

    وہ میرا وطن۔۔۔ وہ میرا پیار ا وطن۔۔۔ وہ الساتی صبحیں۔ وہ تھرکتی شامیں۔ جادو۔ خوشبو، انوکھا لطف۔ انجانی لذت۔ خوبصورت کیفیت۔۔۔ وہ اس کا ننھا سا گھونسلہ اور وہ اس کی ٹولی۔۔۔ وہ کیا کرے۔ خدا کیا کرے؟

    جانے کتنے بے جان دن گزر گئے۔ کہ دفعۃ اس نے دیکھا کسی دن اس درخت پر جانے کہاں سے وہ ایک چڑیا آئی۔ مقناطیسی کشش اورمعصوم آنکھوں والی، اس نے قریبی شاخ پہ اپنا گھونسلہ بنایا اورپھر وہ جب بھی درد بھرے نغمے گاتا وہ چڑیا معصوم آنکھوں میں بےتحاشہ چمک لیے اس کی اور دیکھتی، باربار، لگاتا ر کچھ اتنے دل کش اور دل فریب انداز میں کہ پرندے کا دل ڈوبنے لگتا۔ اسے جانے کیا ہوا! اب اسے لگنے لگا جیسے تنہائی کا احساس مٹ گیا ہو۔ چڑیا سے اس کی دوستی ہو گئی اور پرندے کے نغموں کی لئے بد ل گئی۔

    وہ پیار کے انوکھے رنگ، وہ نزاکتیں، وہ لطافتیں۔ وہ حلاوتیں، وہ رفاقتیں۔ وہ نہیں جانتے تھے قسمت نے شبخوں مارا تو۔ حالات نے بدلی دھارا تو ایک قہر بھی آ سکتا ہے۔

    پھر کسی دن پتہ نہیں پرندوں بھری جھیل کو جانے کیا ہو ا۔ وہ بے شمار پرندے جگمگاتی آنکھوں والے نرم نازک، ملائم خوب چہکتے ہوئے۔ پھدکتے ہوئے پانی کی سطح پر منڈلاتے ہوئے آسمان کی بلندیوں میں اڑتے ہوئے پتہ نہیں۔ انہیں کیا ہوا وہ سارے مرنے لگے وہ جانے کیسی وباتھی کیسا قہر تھا۔ جو چڑیا کو بھی لے گیا۔

    اور وہ پرندہ اداس، اکیلا عجیب سی کیفیتوں میں مبتلا اس کو ہزاروں میل دوربسا اپنا وطن یاد آیا۔ وہ میرا وطن، وہ میرا پیار وطن، وہ الساتی صبحیں وہ تھرکتی شامیں۔ جادو، خوشبو، انوکھا لطف، انجانی لطف، خوبصورت کیفیت۔

    وہ سفر کی صعوبتیں جھیلتا بہت ہولے سے بہت چپکے ہزاروں میل کا سفر طئے کر کے جب وطن پہنچا تو اسے معلوم نہ تھا۔ وہاں کے لوگ اس سے بد گمان ہو گئے ہیں۔ انہیں یقین تھا وہ اجنبی دیس کی بیمار اپنے ساتھ لایا ہے اوریہاں کی فضاؤں میں وہ زہر پھیل جائےگا۔ ہوائیں مسموم ہو جائیں گی۔

    اور پھر اپنے ہی دیس میں اپنے شہر میں اس کی آواز کہیں گھو گئی۔ سدا کے لئے چپ ہو گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے