وانگ چو
تبھی دور سے وانگ چو آتا دکھائی دیا۔
ندی کے کنارے، لال منڈی کی سڑک پر دھیرے دھیرے ڈولتا چلا آ رہا تھا۔ دھوسر (زرد) رنگ کا چوغہ پہنے تھا اور دور سے لگتا تھا کہ بودھ بھکشوؤں ہی کی طرح اس کا بھی سر گھٹا ہوا ہے۔ پیچھے شنکر آچاریہ کی اونچی پہاڑی تھی اور اوپر صاف نیلا آسمان۔ سڑک کے دونوں جانب اونچے اونچے سفیدے کے پیڑوں کی قطاریں۔ لمحے بھر کے لیے مجھے لگا جیسے وانگ چوتاریخ کے صفحات میں سے نکل کر آ گیا ہے۔ پراچین کال میں اسی طرح دیس بدیس سے آنے والے چیور دھاری بھکشو پہاڑوں اور گھاٹیوں کو پار کرکے بھارت میں آیا کرتے ہوں گے۔ ماضی کے ایسی رومانی دھندلکے میں مجھے وانگ چو بھی چلتا ہوا نظر آیا۔ جب سے سری نگر میں آیا تھا، بودھ وہاروں کے کھنڈروں اور سنگر ہالیوں (عجائب خانوں) میں گھوم رہا تھا۔ اس وقت بھی وہ لال منڈی کے سنگر ہالے سے نکل کر آ رہا تھا، جہاں بودھ زمانے کے کئی آثار رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے لگتا تھا کہ وہ سچ مچ حال سے کٹ کر ماضی کے ہی کسی زمانے میں چل پھر رہا تھا۔
’’بدھستو سے ملاقات ہو گئی؟‘‘ پاس آنے پر میں نے چٹکی لی۔ وہ مسکرا دیا، ہلکی ٹیڑھی سی مسکان، جسے میری خالہ زاد بہن ڈیڑھ دانت کی مسکان کہا کرتی تھی، کیوں کہ مسکراتے وقت وانگ چوکا اوپر کاہونٹ صرف ایک جانب سے تھوڑا سا اوپر کو اٹھتا تھا۔
’’سنگر ہالے کے باہر بہت سی مورتیاں رکھی ہیں۔ میں وہی دیکھتا رہا۔‘‘ اس نے دھیمے سے کہا۔ پھر اچانک جذباتی ہوکر بولا، ’’ایک مورتی کے صرف پیر ہی بچے ہیں۔‘‘ میں نے سوچا آگے کہے گا، مگر وہ جذبے سے اتنا مغلوب ہو گیا تھا کہ اس کا گلا رندھ گیا اور اس کے لیے بولنا نا ممکن ہو گیا۔
ہم ایک ساتھ گھر کی طرف لوٹنے لگے۔
’’مہا پران (بدھ) کے بھی پیر ہی پہلے دکھائے جاتے تھے۔‘‘ اس نے کانپتی سی آواز میں کہا اور اپنا ہاتھ میری کہنی پر رکھ دیا۔ اس کے ہاتھ کی ہلکی سی کپکپاہٹ دھڑکتے دل کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔
’’شروع میں مہاپران کی مورتیاں نہیں بنائی جاتی تھیں نا۔۔۔ تم تو جانتے ہی ہو۔۔۔ پہلے استوپ کے نیچے صرف پیر ہی دکھائے جاتے تھے۔ مورتیاں تو بعد میں بنائی جانے لگی تھیں۔‘‘ ظاہر ہے بدھستو کے پیر دیکھ کر اسے مہا پران کے پیر یاد آ گئے تھے اور وہ جذباتی ہو اٹھا تھا۔ کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کون سی بات کس وقت وانگ چو کو پلکانے لگے اور کس وقت وہ خوشی سے کھل اٹھے۔
’’تم نے بہت دیر کر دی۔ سب لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ میں چناروں کے نیچے بھی تمہیں دیکھ آیا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میں سنگر ہالے میں تھا۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے، پر دو بجے تک ہمیں ہبا کدل پہنچ جانا چاہیے ورنہ جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
اس نے چھوٹے چھوٹے جھٹکوں کے ساتھ دو تین بار سر ہلایا اور قدم بڑھا دیے۔
وانگ چو بھارت میں متوالا بنا گھوم رہا تھا۔ وہ مہا پران کے جنم استھان لمبنی کی یاترا ننگے پاؤں کر چکا تھا، سارا راستہ ہاتھ جوڑے ہوئے۔ جس جس سمت میں مہا پران کے قدم اٹھے تھے، وانگ چو سحر زدہ سا اسی سمت میں گھوم آیا تھا۔ سارناتھ میں، جہاں مہا پران نے اپنا پہلا پروچن (وعظ) کیا تھا اور دو مرگشا وک ہیبت زدہ سے جھاڑیوں میں سے نکل کر ان کی طرف دیکھتے رہ گئے تھے۔ وانگ چو ایک پیپل کے پیڑ کے نیچے گھنٹوں محو ہو کر بیٹھا رہا تھا، یہاں تک کہ اس کے کہنے کے مطابق اس کے ذہن میں لفظ صاف صاف گونجنے لگے تھے اور اسے لگا تھا جیسے وہ مہاپران کا پہلا پروچن سن رہا ہے۔ وہ بھکتی کے اس تصور میں اتنا ڈوب گیا تھا کہ سارناتھ میں ہی رہنے لگا تھا۔ گنگا کی دھارا کو وہ دسیوں صدیوں کے دھندلکے میں بہتے مقدس پانی کے رو پ میں دیکھتا۔
جب سے وہ سری نگر میں آیا تھا، برف سے ڈھکے پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف دیکھتے ہوئے اکثر مجھ سے کہتا، ’’وہ راستہ لہاسا کو جاتا ہے نا۔۔۔؟ اسی رستے سے بودھ گرنتھ تبت بھیجے گئے تھے۔‘‘ وہ اس پہاڑی سلسلے کو بھی متبرک مانتا تھا، کیونکہ اس پر بچھی پگڈنڈیوں کے راستے بودھ بھکشوتبت کی طرف گئے تھے۔
وانگ چو کچھ برس پہلے بودھ پروفیسر تان شان کے ساتھ بھارت آیا تھا۔ کچھ دنوں تک وہ انہیں کے ساتھ رہا اور ہندی اور انگریزی زبانیں سیکھتا رہا، پھر پروفیسر شان چین لوٹ گئے اور وہ یہیں لگا رہا اور کسی بودھ سوسائٹی سے وظیفہ حاصل کرکے سارناتھ میں آکر بیٹھ گیا۔ جذباتی، شاعرانہ مزاج کا شخص، جو قدیم زمانوں کے سحرانگیز ماحول میں سانس لیتے رہنا چاہتا تھا۔ وہ یہاں حقائق کی کھوج کرنے نہیں آیا تھا۔ وہ تو بدھستو کی مورتیوں کو دیکھ کر مسرت حاصل کرنے آیا تھا۔ مہینے بھر سے سنگر ہالیوں کے چکر کاٹ رہا تھا لیکن اس نے کبھی نہیں بتایا کہ بودھ دھرم کی کون سی تعلیم اسے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ نہ تو وہ کسی حقیقت کو دریافت کرکے مسرت سے کھل اٹھتا نہ اسے کوئی شک پریشان کرتا۔ وہ بھگت زیادہ اور حق جوکم تھا۔
مجھے یاد نہیں کہ اس نے ہمارے ساتھ کبھی کھل کر بات کی ہو یا کسی موضوع پر اپنی رائے پیش کی ہو۔ ان دنوں میرے اور میرے دوستوں کے بیچ گھنٹوں بحثیں چلا کرتیں، کبھی ملک کی سیاست کے بارے میں، کبھی مذہب کے بارے میں، لیکن وانگ چوان میں کبھی حصہ نہیں لیتا تھا۔ وہ سارا وقت دھیمے دھیمے مسکراتا رہتا اور کمرے کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھا رہتا۔ ان دنوں ملک میں ولولوں کا سیلاب سااٹھ رہا تھا۔ آزادی کی تحریک زوروں پر تھی اور ہمارے درمیان اسی کا ذکر رہتا۔ کانگریس کون سی پالیسی اپنائےگی، تحریک کون سا رخ لےگی۔ عملی طور پر ہم لوگ کچھ کرتے کراتے نہیں تھے، لیکن جذبات کی سطح پر اس سے بہت زیادہ وابستہ تھے۔ اس پر وانگ چوکی بےنیازی کبھی ہمیں اکھرنے لگتی تو کبھی اچنبھے میں ڈال دیتی۔
وہ ہمارے ہی ملک کے معاملات میں نہیں، اپنے ملک کے معاملات میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ اس کے اپنے ملک کے بارے میں بھی پوچھو تو مسکراتا سر ہلاتا رہتا تھا۔ کچھ دنوں سے سری نگر کی ہوا بھی بدلی ہوئی تھی۔ کچھ مہینے پہلے یہاں گولی چلی تھی۔ کشمیر کے لوگ مہاراجا کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور اب کچھ دنوں سے شہر میں ایک نیا جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ نہروجی سری نگر آنے والے تھے اور ان کا استقبال کرنے کے لیے شہر کو دلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا۔ آج دوپہر کو نہروجی سری نگر پہنچ رہے تھے۔ ندی کے کنارے کشتیوں کے جلوس کی شکل میں انہیں لانے کا پروگرام تھا اور اسی وجہ سے میں وانگ چوکو کھوجتا ہوا اس طرف آ نکلا تھا۔
ہم گھر کی طرف بڑھے جا رہے تھے کہ اچانک وانگ چو ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔
’’کیا میرا جانا بہت ضروری ہے؟ جیسا تم کہو۔۔۔‘‘
مجھے دھکا سا لگا۔ ایسے وقت میں جب لاکھوں لوگ نہروجی کے استقبال کے لیے اکٹھے ہو رہے تھے، وانگ چو کا یہ کہنا کہ اگر وہ ساتھ میں نہ جائے تو کیسا رہے، مجھے سچ مچ برا لگا۔ لیکن پھر خود ہی کچھ سوچ کر اس نے اپنی تجویز کو دہرایا نہیں اور ہم گھر کی طرف ساتھ ساتھ جانے لگے۔
کچھ دیر بعد ہم لوگ ہبا کدل کے پل کے قریب لاکھوں کی بھیڑ میں کھڑے تھے۔ میں، وانگ چو اور میرے دوتین دوست۔ چاروں طرف جہاں تک نظر جاتی لوگ ہی لوگ تھے، مکانوں کی چھتوں پر، ندی کے ڈھلواں کناروں پر۔ میں بار بار کنکھیوں سے وانگ چوکے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اس کا کیا ردعمل ہے، کہ ہمارے دل میں اٹھنے والے ولولوں کا اس پر کیا اثر ہے۔ یوں بھی یہ میری عادت سی بن گئی ہے کہ جب بھی کوئی بدیسی ساتھ میں ہو، میں اس کے چہرے کا تاثر پڑھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں کہ ہمارے ریت رواج، ہمارے رہنے سہنے کے بارے میں اس کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔
وانگ چو ادھ مندی آنکھوں سے سامنے کا منظر دیکھے جا رہا تھا۔ جس وقت نہروجی کی ناوسامنے آئی تو جیسے مکانوں کی چھتیں بھی ہل اٹھیں۔ راج ہنس کی شکل کی سفید کشتی میں نہروجی مقامی لیڈروں کے ساتھ کھڑے ہاتھ ہلاہلاکر لوگوں کے استقبال کا جواب دے رہے تھے۔ ہوا میں پھول ہی پھول بکھر گئے۔ میں نے پلٹ کر وانگ چوکے چہرے کی طرف دیکھا، وہ پہلے کی طرح بےحس سا سامنے کا منظر دیکھ رہا تھا۔
’’آپ کو نہرو جی کیسے لگے؟‘‘ میرے ایک ساتھی نے وانگ چوسے پوچھا۔ وانگ چونے اپنی ٹیڑھی سی آنکھیں اٹھاکر اس کے چہرے کی طرف دیکھا، پھر اپنی ڈیڑھ دانت کی مسکان کے ساتھ کہا، ’’اچا، بھوت اچا۔‘‘ وانگ چو معمولی سی ہندی اور انگریزی جانتا تھا۔ اگر تیز بولیں تو اس کے پلے کچھ نہیں پڑتا تھا۔
نہروجی کی کشتی دور جا چکی تھی لیکن کشتیوں کا جلوس اب بھی چلتا جا رہا تھا، جب وانگ چوا چانک مجھ سے بولا، ’’میں تھوڑی دیر کے لیے سنگر ہالے جانا چاہتا ہوں۔ ادھر سے راستہ جاتا ہے، میں خود ہی چلا جاؤں گا۔‘‘ اور وہ کچھ کہے بغیر ایک بار ادھ مچی آنکھوں سے مسکرایا اور ہلکے سے ہاتھ ہلاکر مڑ گیا۔ ہم سب حیران رہ گئے۔ اسے سچ مچ جلوس سے دلچسپی نہیں رہی ہوگی جو اتنی جلدی سنگر ہالے کے طرف اکیلا چل دیا۔
’’یار، کس بودم کو اٹھا لائے ہو؟ یہ کیا چیز ہے؟ کہاں سے پکڑ لائے ہو اسے؟‘‘ میرے ایک دوست نے کہا۔
’’باہر کا رہنے والا ہے، اسے ہماری باتوں میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔۔۔‘‘ میں نے صفائی دیتے ہوئے کہا۔
’’واہ، ملک میں اتنا کچھ ہو رہا ہو اورا سے دل چسپی ہی نہ ہو!‘‘
وانگ چو جب تک دور جا چکا تھا اور بھیڑ میں سے نکل کر پیڑوں کی قطار کے نیچے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا رہا تھا۔
’’مگر یہ ہے کون؟‘‘ دوسرا دوست بولا، ’’نہ یہ بولتا ہے نہ چہکتا ہے۔ کچھ پتا ہی نہیں چلتا ہنس رہا ہے یارو رہا ہے۔ سارا وقت ایک کونے میں دبک کر بیٹھا رہتا ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں، بڑا سمجھ دار آدمی ہے۔ پچھلے پانچ سال سے یہاں پر رہ رہاہے۔ بڑا پڑھا لکھا آدمی ہے۔ بودھ دھرم کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے، ‘‘ میں نے پھر اس کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔ میری نظر میں اس بات کی بڑی اہمیت تھی کہ وہ بودھ کتابیں پڑھتا ہے اور انہیں پڑھنے کے لیے اتنی دور سے آیا ہے۔
’’ارے بھاڑ میں جائے ایسی پڑھائی! واہ جی، جلوس کو چھوڑ کر میوزیم کی طرف چل دیا!‘‘
’’سیدھی سی بات ہے یار!‘‘ میں نے جوڑا، ’’اسے یہاں بھارت کا حال کھینچ کر نہیں لایا، بھارت کا ماضی لایا ہے۔ ہیون سانگ بھی تو یہاں بودھ کتابیں پڑھنے ہی آیا تھا۔ یہ بھی عالم آدمی ہے۔ بودھ مت ہی سے اس کو دلچسپی ہے۔‘‘
گھر لوٹتے ہوئے ہم لوگ سارا راستہ وانگ چوہی کی باتیں کرتے رہے۔ اجے کی رائے تھی کہ اگر وہ پانچ سال بھارت میں کاٹ گیا ہے تو اب زندگی بھر یہیں پر رہےگا۔
’’اب آ گیا ہے تو لوٹ کر نہیں جائےگا۔ بھارت میں ایک بار پردیسی آجائے تو لوٹنے کا نام نہیں لیتا۔‘‘
’’بھارت دیش وہ دلدل ہے جس میں ایک بار باہر کے آدمی کا پاؤں پڑ جائے تو وہ دھنستا ہی چلا جاتا ہے، نکلنا چاہے بھی تو نہیں نکل سکتا۔‘‘ دلیپ نے مذاق میں کہا، ’’نہ جانے کون سے کنول پھول توڑنے کے لیے اس دلدل میں گھسا ہے!‘‘
’’ہمارا دیس ہم ہندوستانیوں کو پسند نہیں، باہر کے لوگوں کو تو بہت پسند ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’پسند کیوں نہ ہوگا۔ یہاں تھوڑے میں گزر ہو جاتی ہے، سارا وقت دھوپ کھلی رہتی ہے، پھر باہر کے آدمی کو لوگ پریشان نہیں کرتے، جہاں بیٹھا ہے وہیں بیٹھا رہنے دیتے ہیں۔ اس پر انہیں تم جیسے احمق بھی مل جاتے ہیں جو ان کے گن گاتے اور آؤ بھگت کرتے رہتے ہیں! تمہارا وانگ چو بھی یہیں پر مرےگا۔‘‘
ہمارے یہاں ان دنوں میری چھوٹی خالہ زاد بہن ٹھہری ہوئی تھی، وہی جو وانگ چو کی مسکان کو ڈیڑھ دانت کی مسکان کہا کرتی تھی۔ چلبلی سی لڑکی، بات بات پر ٹھٹھول کرتی رہتی تھی۔ میں نے دوایک بار وانگ چوکو کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پایا تھا لیکن کوئی خاص دھیان نہیں دیا کیوں کہ وہ سب کو کنکھیوں ہی سے دیکھتا تھا۔ پر اس شام نیلم میرے پاس آئی اور بولی، ’’آپ کے دوست نے مجھے تحفہ دیا ہے۔ پریم اپہار!‘‘
میرے کان کھڑے ہوئے، ’’کیا دیا ہے؟‘‘
’’جھومروں کی جوڑی!‘‘ اور اس نے دونوں مٹھیاں کھول دیں جن میں چاندی کے کشمیری چلن کے دو سفید جھومر چمک رہے تھے اور پھر دونوں جھومر اپنے کانوں کے پاس لے جاکر بولی، ’’کیسے لگتے ہیں؟‘‘
میں ہکا بکا نیلم کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’اس کے اپنے کان کیسے بھورے بھورے ہیں!‘‘ نیلم نے ہنس کر کہا۔
’’کس کے؟‘‘
’’میرے اس پریمی کے!‘‘
’’تمہیں اس کے بھورے کان پسند ہیں؟‘‘
’’بہت! جب شرماتا ہے تو براؤن ہو جاتے ہیں، گہرے براؤن!‘‘ اور نیلم کھلکھلاکر ہنس پڑی۔
لڑکیاں کیسے اس آدمی کے پریم کا مذاق اڑا سکتی ہیں جو انہیں پسند نہ ہو! یا کہیں نیلم مجھے بنا تو نہیں رہی ہے؟ پر میں اس اطلاع سے زیادہ پریشان نہیں ہوا تھا۔ نیلم لاہور میں پڑھتی تھی اور وانگ چو سارناتھ میں رہتا تھا اور اب ہفتے بھر میں سری نگر سے واپس جانے والا تھا۔ اس پریم کی کونپل اپنے آپ ہی جل جائےگی۔
’’نیلم، یہ جھومر تو تم نے اس سے لے لیے ہیں مگر اس طرح کی دوستی آخر میں اس کے لیے تکلیف دہ ہوگی۔ بنے بنائےگی کچھ نہیں۔‘‘
’’واہ بھیا، تم بھی کیسے دقیانوسی ہو! میں نے بھی چمڑے کا ایک رائٹنگ پیڈ اسے تحفے میں دیا ہے۔ میرے پاس پہلے سے پڑا تھا، میں نے اسے دے دیا۔ جب لوٹےگا تو اسے پریم پتر لکھنے میں آسانی ہوگی!‘‘
’’وہ کیا کہتا تھا؟‘‘
’’کہتا کیا تھا، سارا وقت اس کے ہاتھ کانپتے رہے اور چہرہ کبھی لال ہوتا رہا کبھی پیلا۔ کہتا تھا مجھے خط لکھنا، میرے خطوں کاجواب دینا اور کیا کہےگا بےچارہ، بھورے کانوں والا!‘‘
میں نے غور سے نیلم کی طرف دیکھا، پر اس کی آنکھوں میں مجھے ہنسی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ لڑکیاں دل کی بات چھپانا خوب جانتی ہیں۔ مجھے لگا نیلم اسے بڑھاوا دے رہی ہے۔ اس کے لیے یہ کھیل تھا لیکن وانگ چو ضرور اس کا دوسرا ہی مطلب نکالےگا۔
اس کے بعد مجھے لگا کہ وانگ چواپنا سکون کھو رہا ہے۔ اس رات میں اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا باہر میدان میں چناروں کی قطار کی طرف دیکھ رہا تھا کہ چاندنی میں کچھ دوری پر پیڑوں کے نیچے مجھے وانگ چو ٹہلتا دکھائی دیا۔ وہ اکثر رات کو دیر تک پیڑوں کے نیچے ٹہلتا رہتا تھا مگر آج وہ اکیلا نہیں تھا۔ نیلم بھی اس کے ساتھ ٹھمک ٹھمک چلی جاری تھی۔ مجھے نیلم پر غصہ آیا۔ لڑکیاں کتنی ظالم ہوتی ہیں! یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کھلواڑ سے وانگ چو کی بےچینی بڑھےگی، وہ اسے بڑھاوا دیے جا رہی تھی۔
دوسرے روز کھانے کی میز پر نیلم پھر اس کے ساتھ ٹھٹھول کرنے لگی۔ کچن میں سے ایک چوڑا سا المیونیم کا ڈبا اٹھا لائی۔ اس کا چہرہ تپے تانبے جیسا لال ہو رہا تھا۔
’’آپ کے لیے روٹیاں اور آلو بنا لائی ہوں۔ آم کے اچار کی پھانک بھی رکھی ہے۔ آپ جانتے ہیں پھانک کسے کہتے ہیں؟ ایک بار کہو تو پھانک! کہو وانگ چو جی، پھانک!‘‘ اس نے نیلم کی طرف کھوئی کھوئی آنکھوں سے دیکھا اور بولا، ’’بانک!‘‘ ہم سب کھلکھلاکر ہنس پڑے۔
’’بانک نہیں، پھانک!‘‘
’’بانک!‘‘
پھر ہنسی کا فوراہ چھوٹ پڑا۔
نیلم نے ڈبا کھولا۔ اس میں سے آم کے اچار کا ٹکڑا نکال کر اسے دکھاتے ہوئے بولی، ’’یہ ہے پھانک۔ پھانک اسے کہتے ہیں!‘‘ اور اسے وانگ چوکی ناک کے پاس لے جاکر بولی، ’’اسے سونگھنے پر منھ میں پانی بھر آتا ہے۔ آیا منھ میں پانی۔ اب کہو پھانک!‘‘
’’نیلم، کیا فضول باتیں کر رہی ہو۔۔۔ بیٹھو آرام سے!‘‘ میں نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ نیلم بیٹھ گئی مگر اس کی حرکتیں بند نہیں ہوئیں۔ بڑی اپنائیت سے وانگ چو سے کہنے لگی، ’’بنارس جاکر ہمیں بھول نہیں جائیےگا۔ ہمیں خط ضرور لکھیےگا اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو تکلف نہ کیجیےگا۔‘‘
وانگ چو لفظوں کا مطلب تو سمجھ لیتا تھا لیکن ان کے پیچھے طنز کی لہر کو نہیں پکڑ پاتا تھا۔ وہ بہت مشکل میں محسوس ہوتا تھا۔
’’بھیڑ کی کھال کی ضرورت ہو یا کوئی نمدہ، یا اخروٹ۔۔۔‘‘
’’نیلم!‘‘
’’کیوں بھیا، بھیڑ کی کھال پر بیٹھ کر گرنتھ پڑھیں گے۔‘‘
وانگ چوکے کان لال ہونے لگے۔ شاید پہلی بار اسے احساس ہونے لگا تھا کہ نیلم ٹھٹھول کر رہی ہے۔ اس کے کان سچ مچ بھورے رنگ کے تھے، جن کا نیلم مذاق اڑایا کرتی تھی۔
’’نیلم جی، آپ لوگوں نے میرا بہت خیال رکھا ہے۔ میں بہت شکرگزار ہوں۔‘‘
ہم سب چپ ہو گئے۔ نیلم بھی جھینپ سی گئی۔ وانگ چونے ضرور اس کے مذاق کو سمجھ لیا ہوگا۔ اس کے دل کو ضرور ٹھیس لگی ہوگی۔ پر میرے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہے کہ نیلم کے بارے میں اس کے جذبات بدلیں، ورنہ اسی کو سب سے زیادہ پریشانی ہوگی۔ شاید وانگ چو اپنی صورت حال کو جانتے سمجھتے ہوئے بھی ایک فطری کشش کے اثر میں آ گیا تھا۔ جذباتی انسان کا اپنے پر کوئی قابو نہیں ہوتا۔ وہ پچھاڑ کھاکر گرتا ہے تبھی اپنی بھول کو سمجھ پاتا ہے۔
ہفتے کے آخری دنوں میں وہ روز کوئی نہ کوئی تحفہ لے کر آنے لگا۔ ایک بار میرے لیے بھی ایک چوغہ لے آیا اور بچوں کی طرح ضد کرنے لگا کہ میں اور وہ اپنا اپنا چوغہ پہن کر ایک ساتھ گھومنے جائیں۔ سنگر ہالے میں وہ اب بھی جاتا تھا۔ دو ایک بار نیلم کو بھی اپنے ساتھ لے گیا تھا اور لوٹنے پر ساری شام نیلم بدھستو کا مذاق اڑاتی رہی تھی۔ میں دل ہی دل میں نیلم کے اس برتاؤ کا خیرمقدم کرتا رہا، کیوں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ وانگ چو کا کوئی جذبہ ہمارے گھر میں جڑجماپائے۔ ہفتہ گزر گیا اور وانگ چو سارناتھ واپس لوٹ گیا۔
وانگ چو کے چلے جانے کے بعد اس کے ساتھ میرا رابطہ ویسا ہی رہا جیسا عام طور پر جان پہچان کے کسی شخص کے ساتھ رہتا ہے۔ کبھی خط آ جاتا، کبھی کسی آنے جانے والے سے اس کی خبر مل جاتی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو برسوں تک رسمی تعارف کی دہلیز پر ہی ڈگمگاتے رہتے ہیں، نہ دہلیز لانگھ کر اندر آتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ کر آنکھ سے اوجھل ہوتے ہیں۔ مجھے بس اتنا علم رہا کہ اس کے بندھے ٹکے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کچھ عرصے تک مجھے تجسس سا رہا کہ نیلم اور وانگ چو کے بیچ کی بات آگے بڑھی یا نہیں، لیکن لگا کہ وہ پریم بھی وانگ چو کی زندگی پر حاوی نہیں ہو پایا۔
سال بیتتے گئے۔ ہمارے ملک میں ان دنوں بہت واقعات پیش آ رہے تھے۔ آئے دن ستیہ گرہ ہوتا، بنگال میں قحط پڑا، ’’ہندوستان چھوڑدو‘‘ کی تحریک چلی، سڑکوں پر گولیاں چلیں، بمبئی میں جہازیوں کی بغاوت ہوئی، ملک میں خوں ریزی ہوئی، پھر ملک کا بٹوارا ہوا اور اس تمام وقت وانگ چو سارناتھ ہی میں رہا۔ وہ اپنے ہی آپ میں مگن معلوم ہوتا تھا۔ کبھی لکھتا کہ تنترک فلسفے کامطالعہ کر رہا ہے، کبھی پتا چلتا کہ کوئی کتاب لکھنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
اس کے بعد میری ملاقات وانگ چو سے دلی میں ہوئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب چینی وزیر اعظم چواین لائی بھارت کے دورے پر آنے والے تھے۔ وانگ چو اچانک سڑک پر مجھے مل گیا اور میں اسے اپنے گھر لے آیا۔ مجھے اچھا لگا کہ چینی وزیراعظم کی آمد پر وہ سارناتھ سے دلی چلا آیا ہے۔ پر جب اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے وظیفے کے سلسلے میں آیا ہے اور یہاں پہنچنے پر اسے چواین لائی کے دورے کی خبر ملی ہے تو مجھے اس رویے پر تعجب ہوا۔ اس کا سبھاؤ ویسے کا ویسا تھا۔ پہلے کی طرح ہولے ہولے اپنی ڈیڑھ دانت کی مسکان مسکراتا رہا۔ ویسی ہی بے نیازی اور اطمینان۔ اس دوران اس نے کوئی کتاب یا مضمون وغیرہ بھی نہیں لکھے تھے۔ میرے پوچھنے پر اس نے اس کام میں کوئی خاص دلچسپی بھی ظاہر نہیں کی۔ تنترک فلسفے کی باتیں کرتے ہوئے بھی وہ بہت پرجوش نہیں ہوا۔ دو ایک کتابوں کے بارے میں بتاتا رہا جن میں سے وہ کچھ نوٹس لیتا رہا تھا۔ اپنے کسی مضمون کا بھی ذکر نہیں کیا جس پر وہ ان دنوں کام کر رہا ہو۔
نیلم کے ساتھ اس کی خط و کتابت چلتی رہی تھی، اس نے بتایا۔ حالانکہ نیلم کب کی بیاہی جا چکی تھی اور دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ وقت کی رفتار کے ساتھ ہمارے بنیادی تصورات چاہے نہ بدلیں لیکن ان کی شدت میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اپنی تعلیم وغیرہ کا بھی اس نے تذکرہ کیا، اس کی شدت اور اشتیاق میں بھی ٹھہراؤ سا آ گیا تھا۔ پہلے جیسا جذباتی ولولہ نہیں تھا۔ بدھستوں کے پیروں پر اپنے پران نچھاور نہیں کرتا پھرتا تھا۔ لیکن اپنی زندگی سے مطمئن تھا۔ پہلے کی طرح تھوڑا کھاتا، تھوڑا پڑھتا، تھوڑا ٹہلتا اور تھوڑا سوتا تھا اور دور لڑکپن کے جھٹ پٹے میں کسی جذباتی لمحے میں چنی اپنی زندگی کی راہ پر کچھوے کی چال مزے سے چلتا آ رہا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد ہمارے درمیان بحث چھڑ گئی۔ ’’سماجی قوتوں کو سمجھے بغیر تم بودھ دھرم کو کیسے سمجھ پاؤگے؟ ہر علم کا میدان ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ کوئی چیز زندگی سے الگ نہیں ہے۔ تم جیون سے الگ ہوکر دھرم کو بھی کیسے سمجھ سکتے ہو؟‘‘
کبھی وہ مسکراتا کبھی سر ہلاتا اور سارا وقت فلسفیوں کی طرح میرے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میرے کہے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا، کہ میں چکنے گھڑے پر پانی انڈیلے جا رہا ہوں۔
’’ہمارے ملک سے نہ سہی، اپنے ملک سے تو دلچسپی لو۔ اتنا تو جانو سمجھو کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘‘
اس پر بھی وہ سرہلاتا اور مسکراتا رہا۔ میں جانتا تھا کہ ایک بھائی کو چھوڑ کر چین میں اس کا کوئی نہیں ہے۔ ۱۹۲۹ء میں وہاں کوئی سیاسی اتھل پتھل ہوئی تھی، اس میں اس کا گاؤں جلا ڈالا گیا تھا اور سب سگے رشتے دار مر گئے تھے یا بھاگ گئے تھے۔ لے دے کر ایک بھائی بچا تھا اور وہ پیکنگ کے قریب کسی گاؤں میں رہتا تھا۔ برسوں سے وانگ چو کا رابطہ اس کے ساتھ ٹوٹ چکا تھا۔ وانگ چو پہلے اپنے گاؤں کے اسکول میں پڑھتا رہا تھا، بعد میں پیکنگ کے ایک کالج میں پڑھنے لگا۔ وہیں سے وہ پروفیسر شان کے ساتھ بھارت چلا آیا تھا۔
’’سنو وانگ چو، بھارت اور چین کے بیچ بند دروازے اب کھل رہے ہیں۔ اب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات قائم ہو رہے ہیں اور اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یہی مطالعہ جو تم الگ تھلگ کرتے رہے ہو، اب اپنے ملک کے باعزت نمائندے کے طور پر کر سکتے ہو۔ تمہاری حکومت تمہارے وظیفے کا بندوبست کرےگی۔ اب تمہیں الگ تھلگ پڑے نہیں رہنا پڑےگا۔ تم پندرہ سال سے زیادہ عرصے سے بھارت میں رہ رہے ہو، انگریزی اور ہندی زبانیں جانتے ہو، بودھ گرنتھوں پر کام کرتے رہے ہو، تم دونوں ملکوں کے تہذیبی تعلقات میں بہت قیمتی کڑی بن سکتے ہو۔۔۔‘‘
اس کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی۔ سچ مچ اسے کچھ سہولتیں مل سکتی تھیں۔ کیوں نہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے! دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی یگانگت سے وہ بھی متاثر ہواتھا۔ اس نے بتایا کہ کچھ ہی دنوں پہلے جب وہ وظیفے کی رقم وصول کرنے بنارس گیا تو راہ چلتے لوگ سڑکوں پر اس سے گلے مل رہے تھے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ کچھ عرصے کے لیے ضرور اپنے ملک لوٹ کر جائے اور وہاں ہونے والی عظیم تبدیلیوں کو دیکھے اور سمجھے کہ سارناتھ میں الگ تھلگ بیٹھے رہنے سے اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔
وہ سنتا رہا، سرہلاتا اور مسکراتا رہا لیکن مجھے کچھ معلوم نہ ہوسکا کہ میری باتوں کا اس پر کچھ اثر ہوا ہے یا نہیں۔
لگ بھگ چھ مہینے بعد اس کا خط آیاکہ وہ چین جارہا ہے۔ مجھے بڑا اطمینان ہوا۔ اپنے ملک میں جائے گا تو دھوبی کے کتے والی اس کی حالت بدلے گی، کہیں کا تو ہوکر رہے گا۔ اس کی زندگی میں نیاولولہ پیدا ہوگا۔ اس نے لکھا کہ وہ اپنا ایک ٹرنک سارناتھ میں چھوڑے جارہا ہے، جس میں اس کی کچھ کتابیں اور تحقیقی کاغذ وغیرہ رکھے ہیں، کہ برسوں تک بھارت میں رہ چکنے کے بعد وہ اپنے کو بھارت ہی کا باشندہ سمجھتا ہے اور یہ کہ وہ جلد ہی لوٹ آئے گا اور اپنا مطالعہ پھر سے شروع کرے گا۔ میں دل ہی دل میں ہنس دیا، ایک بار اپنے ملک میں گیا تو لوٹ کر نہیں آنے کا۔
چین میں وہ لگ بھگ دوبرس رہا۔ وہاں سے اس نے مجھے پیکنگ کے قدیم راج محل کی تصویری کارڈ بھیجا۔ دو ایک خط بھی لکھے مگر ان سے اس کے خیالات کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں ملی۔
ان دنوں چین میں بھی بڑے ولولے اٹھ رہے تھے، بڑا جوش تھا اور اس جوش کی لپیٹ میں تقریباً سبھی لوگ تھے۔ زندگی نئی کروٹ لے رہی تھی۔ لوگ کام کرنے جاتے تو ٹولیاں بناکر، گاتے ہوئے، لال جھنڈا ہاتھ میں اٹھائے ہوئے۔ وانگ چو سڑک کے کنارے کھڑا انہیں دیکھتا رہ جاتا۔ اپنی شکی طبیعت کی وجہ سے وہ ٹولیوں کے ساتھ گاتے ہوئے جاتو نہیں سکتا تھا لیکن انہیں جاتے دیکھ کر حیران سا کھڑا رہتا جیسے کسی دوسری دنیا میں پہنچ گیا ہو۔
اسے اپنا بھائی تو نہیں ملالیکن ایک پرانا استاد، دور کی ایک خالہ اور دو ایک واقف کار ضرور مل گئے۔ وہ اپنے گاؤں گیا۔ گاؤں میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ اسٹیشن سے گھر کی طرف جاتے ہوئے اس کا ایک ہم سفر اسے بتانے لگا کہ وہاں، اس پیڑ کے نیچے، زمیندار کے سب کاغذ، ساری دستاویزیں جلا ڈالی گئی تھیں اور زمیندار ہاتھ باندھے کھڑا رہا تھا۔
وانگ چو نے بچپن میں زمیندار کا بڑا گھر دیکھا تھا، اس کی رنگین کھڑکیاں اسے اب بھی یاد تھیں۔ اس نے دو ایک بار زمیندار کی بگھی کو بھی قصبے کی سڑک پر جاتے دیکھا تھا۔ اب وہ گھر گاؤں کا انتظامی مرکز بنا ہوا تھا اور بھی بہت کچھ بدل گیا تھا مگر اس کی حالت یہاں بھی ویسی ہی تھی جیسی بھارت میں رہی تھی۔ اس کے دل میں امنگ نہیں اٹھتی تھی، دوسروں کی امنگیں اس کے دل سے پھسل پھسل جاتی تھیں۔ وہ یہاں بھی تماشائی ہی بنا گھومتا تھا۔ شروع شروع کے دنوں میں اس کی آؤ بھگت بھی ہوئی۔ اس کے پرانے استاد کی پہل قدمی پر اسے اسکول میں مدعو کیا گیا۔ وہاں وانگ چو دیر تک لوگوں کو بھارت کے بارے میں بتاتا رہا۔ لوگوں نے طرح طرح کے سوال پوچھے، ریت رواج کے بارے میں، تیرتھوں میلوں کے بارے میں۔ وانگ چو صرف انہیں سوالوں کا تسلی بخش جواب دے پاتا تھا، جن کے بارے میں وہ اپنے تجربے سے کچھ جانتا تھا لیکن بہت کچھ ایسا تھا جس کے بارے میں بھارت میں رہتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔
کچھ دنوں بعد چین میں ’’بڑی چھلانگ‘‘ کی مہم زور پکڑنے لگی۔ اس کے گاؤں میں بھی لوگ لوہا اکٹھا کر رہے تھے۔ ایک دن صبح اسے بھی ردی لوہا بٹورنے کے لے ایک ٹولی کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ دن بھر وہ لوگوں کے ساتھ رہا۔ ایک نیا جوش چاروں طرف لہریں لے رہا تھا۔ لوگ ایک ایک لوہے کا ٹکڑا بڑے فخر سے دکھا دکھا کر لا رہے تھے اور ساجھے ڈھیر پر ڈال رہے تھے۔ رات کے وقت آگ سے لپلپاتے شعلوں میں اس ڈھیر کو پگھلایا جانے لگا۔ آگ کے گرد بیٹھے لوگ انقلابی گیت گا رہے تھے۔ سب لوگ ایک آواز ہوکر گیت میں حصہ لے رہے تھے۔ اکیلا وانگ چو منھ بنائے بیٹھا تھا۔
چین میں رہتے رہتے دھیرے دھیرے ماحول میں تناؤ سا آنے لگا اور ایک جھٹ پٹا سا گھر نے لگا۔ ایک روز ایک آدمی نیلے رنگ کا کوٹ اور نیلے ہی رنگ کی پتلون پہنے اس کے پاس آیا اور اسے اپنے ساتھ گاؤں کے انتظامی مرکز میں لوا لے گیا۔ راستے بھر وہ آدمی چپ چاپ رہا۔ مرکز میں پہنچنے پر اس نے پایا کہ ایک بڑے سے کمرے میں پانچ افراد کا ایک گروپ میز کے پیچھے بیٹھا اس کی راہ دیکھ رہا ہے۔
جب وانگ چو ان کے سامنے بیٹھ گیا تو وہ باری باری سے اس کے بھارت کے قیام کے بارے میں سوال پوچھنے لگے، ’’تم بھارت میں کتنے برسوں تک رہے؟ وہاں کیا کرتے رہے؟ کہاں کہاں گھومے؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ پھر بودھ دھرم سے وانگ چو کی دلچسپی کے بارے میں جان کر ان میں سے ایک شخص بولا، ’’تمہارے خیال میں بودھ دھرم کی مادی بنیاد کیا ہے؟‘‘
سوال وانگ چو کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس نے آنکھیں مچمچائیں۔
’’جدلیاتی مادیت کے نقطہ نظر سے تم بودھ دھرم کو کیسا سمجھتے ہو؟‘‘
سوال پھر بھی وانگ چو کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن اس نے بدبداتے ہوئے جواب دیا، ’’انسان کی روحانی ترقی میں، اس کے سکھ اور شانتی کے لیے، بودھ دھرم کے آٹھ راستے بہت اہم ہیں۔ مہاپران کا کہنا تھا۔۔۔‘‘ اور وانگ چو بودھ دھرم کے آٹھ احکام کی تفصیل بتانے لگا۔ ابھی وہ اپنی بات ختم نہیں کر پایا تھا کہ صدارتی کرسی پر بیٹھے، چھوٹی چھوٹی ترچھی آنکھوں والے شخص نے بات کاٹ کر کہا، ’’بھارت کی خارجہ پالیسی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
وانگ چو مسکرایا، اپنی ڈیڑھ دانت کی مسکان۔ پھر بولا، ’’آپ صاحبان اس بارے میں بہتر جانتے ہیں۔ میں تو ایک سیدھا سادھا بودھ کا متلاشی ہوں۔ مگر بھارت بہت قدیم ملک ہے۔ اس کی تہذیب امن اور انسان دوستی کی تہذیب ہے۔۔۔‘‘
’’نہرو کے بارے میں تم کیا سوچتے ہو؟‘‘
’’نہرو کو میں نے تین بار دیکھا ہے۔ ایک بار تو ان سے باتیں بھی کی ہیں۔ ان پر کچھ مغربی خیالات کا اثر زیادہ ہے مگر پرانی تہذیب کے وہ بھی بڑے پرستار ہیں۔‘‘
اس کے جواب سنتے ہوئے کچھ افراد تو سر ہلانے لگے، کچھ کا چہرہ تمتمانے لگا۔ پھر طرح طرح کے ٹیڑھے سوال پوچھے جانے لگے۔ انہیں احساس ہوا کہ جہاں تک حقائق کا، بھارت کی موجودہ زندگی کا تعلق ہے، وانگ چو کی معلومات ادھوری بلکہ مضحکہ خیز ہیں۔
’’سیاسی لحاظ سے تو تم صفر ہو۔ بودھ دھرم کی تعلیمات کو بھی سماجی علوم کے اعتبار سے پرکھ نہیں سکتے۔ جانے وہاں بیٹھے کیا کرتے رہے ہو۔۔۔ مگر ہم تمہاری مدد کریں گے۔‘‘
پوچھ گچھ گھنٹوں چلتی رہی۔ پارٹی کے کارکنوں نے اسے ہندی پڑھانے کا کام دے دیا، ساتھ ہی پیکنگ کے میوزیم میں دودن کام کرنے کی بھی اجازت دے دی۔
جب وانگ چو وہاں سے لوٹا تو تھکا ہوا تھا۔ اس کا سر بھنا رہا تھا۔ اپنے ملک میں اس کا دل لگ ہی نہیں پایا تھا۔ آج وہ اور بھی زیادہ اجڑا اجڑا محسوس کر رہا تھا۔ چھپر کے نیچے لیٹا تو اسے اچانک ہی بھارت کی یاد ستانے لگی۔ اسے سارناتھ کی اپنی کوٹھری یاد آئی جس میں دن بھر بیٹھا پوتھیاں پڑھا کرتا تھا۔ نیم کا گھنا پیڑ یاد آیا جس کے نیچے کبھی کبھی سستایا کرتا تھا۔ یادوں کی قطار لمبی ہوتی گئی۔ اسے سارناتھ کی کینٹین کا رسوئیا یاد آیا جو سدا پیار سے ملتا تھا، سدا ہاتھ جوڑ کر، ’’کہو بھگوان!‘‘ کہہ کر استقبال کرتا تھا۔
ایک بار وانگ چو بیمار پڑ گیا تھا تو دوسرے روز کینٹین کا باورچی اپنے آپ اس کی کوٹھری میں چلا آیا تھا، ’’میں بھی کہوں چینی بابو چائے پینے نہیں آئے، دو دن ہو گئے! پہلے آتے تھے تو درشن ہو جاتے تھے۔ ہمیں خبر کی ہوتی بھگوان، تو ہم ڈاکٹر بابو کو بلا لاتے۔۔۔ میں بھی کہوں بات کیا ہے۔‘‘ پھر اس کی آنکھوں کے سامنے گنگا کاتٹ آ گیا جس پر وہ گھٹنوں گھوما کرتا تھا۔ پھر اچانک منظر بدل گیا اور کشمیر کی جھیل آنکھوں کے سامنے آ گئی اور اس کے پیچھے برف سے ڈھکے پہاڑ۔ پھر نیلم سامنے آئی، اس کی کھلی کھلی آنکھیں، موتیوں کی سی جھلملاہٹ والے دانت۔۔۔ اس کا دل بےچین ہوا ٹھا۔
جوں جوں دن بیتتے گئے، بھارت کی یاد اسے زیادہ پریشان کرنے لگی۔ وہ جل سے باہر پھینکی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔ سارناتھ کے وہار میں سوال جواب نہیں ہوتے تھے۔ جہاں پڑے رہو پڑے رہو۔ رہنے کے لیے کوٹھری اور کھانے کا انتظام وہار کی طرف سے تھا۔ یہاں نئے نقطہ نظر سے دھرم گرنتھوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی نہ اس میں طاقت تھی نہ خواہش۔ برسوں سے ایک ہی ڈھرے پر چلتے رہنے کی وجہ سے وہ تبدیلی سے کتراتا تھا۔ اس طلبی اور پوچھ گچھ کے بعد وہ پھر سے سکڑنے سمٹنے لگا تھا۔ کہیں کہیں اسے بھارتی حکومت کے خلاف باتیں بھی سننی پڑتی تھیں۔ اچانک وانگ چو بےحد اکیلا محسوس کرنے لگا اور اسے لگا کہ زندہ رہ پانے کے لیے اسے اپنے لڑکپن کے اس خواب میں پھر سے لوٹ جانا ہوگا جب وہ بودھ بھکشو بن کر بھارت میں گھومنے کا تصور کیا کرتا تھا۔
اس نے ایک دم بھارت لوٹنے کی ٹھان لی۔ لوٹنا آسان نہیں تھا۔ بھارتی سفارت خانے سے تو ویزا ملنے میں مشکل نہیں ہوئی لیکن چین کی سرکار نے بہت سے اعتراض اٹھائے۔ وانگ چو کی شہریت کا سوال تھا اور کئی سوال تھے مگر بھارت اور چین کے تعلقات ابھی بہت بگڑے نہیں تھے، اس لیے آخر وانگ چو کو بھارت لوٹنے کی اجازت مل گئی۔ اس نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ زندگی کے باقی دن اب بھارت ہی میں کاٹےگا۔ بودھ بھکشو ہی بنے رہنا اس کی نیتی تھی۔
جس روز وہ کلکتے پہنچا، اسی روز سرحد پر چینی اور بھارتی فوجوں میں جھڑپ ہوئی تھی اور دس بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ اس نے پایا کہ لوگ گھور گھور کر اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ اسٹیشن کے باہر ابھی نکلا ہی تھا کہ دو سپاہی آکر اسے پولیس کے دفتر میں لے گئے اور وہاں ایک اہلکار گھنٹے بھر تک اس کے پاسپورٹ اور کاغذوں کی چھان بین کرتا رہا۔
’’دو سال پہلے آپ چین گئے تھے۔ وہاں جانے کا کیا مقصد تھا؟‘‘
’’میں بہت برسوں تک یہاں رہتا رہا تھا، کچھ وقت کے لیے اپنے ملک جانا چاہتا تھا۔‘‘
پولس افسر نے اسے سر سے پیر تک دیکھا۔ وانگ چو پرسکون تھا اور مسکرا رہا تھا، وہی ٹیڑھی سی مسکان۔
’’آپ وہاں کیا کرتے رہے؟‘‘
’’وہاں میں ایک کمیون میں کھیتی باڑی کی ٹولی میں کام کرتا تھا۔‘‘
’’مگر آپ تو کہتے تھے کہ آپ بودھ گرنتھ پڑھتے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔ پیکنگ میں ایک ادارے میں ہندی پڑھانے لگا تھا اور مجھے پیکنگ میوزیم میں کام کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔‘‘
’’اگر اجازت مل گئی تھی تو آپ اپنے ملک سے بھاگ کیوں آئے؟‘‘ پولس افسر نے غصے سے کہا۔
وانگ چو کیا جواب دے؟ کیا کہے؟
’’میں کچھ وقت کے لیے ہی وہاں گیا تھا، اب لوٹ آیا ہوں۔۔۔‘‘
پولیس افسر نے ایک بار پھر اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شک اتر آیا تھا۔ وانگ چو کچھ عجیب سا محسوس کرنے لگا۔ بھارت میں پولیس اہلکاروں کے سامنے کھڑے ہونے کا اس کا پہلا تجربہ تھا۔ اس سے ضامنی کے لیے پوچھا گیا تو اس نے پروفیسر تان شان کا نام لکھا، پھر گرودیو کا مگر دونوں مرچکے تھے۔ اس نے سارناتھ کے ادارے کے منتری کا نام لیا، شانتی نکیتن کے دو ایک پرانے ساتھیوں کے نام لیے جو اسے یاد تھے۔ سپرنٹنڈنٹ نے سب نام اور پتے نوٹ کرلیے۔ اس کے کپڑوں کی تین بار تلاشی لی گئی۔ اس کی ڈائری کو رکھ لیا گیا جس میں اس نے کئی اقتباس اور نوٹس لکھ رکھے تھے اور سپرنٹنڈنٹ نے اس کے نام کے آگے ہدایت لکھ دی کہ اس آدمی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ریل کے ڈبے میں بیٹھا تو مسافر فائرنگ کا تذکرہ کر رہے تھے۔ اسے بیٹھتے دیکھ کر سب چپ ہو گئے اور اس کی طرف گھورنے لگے۔
کچھ دیر بعد جب مسافروں نے دیکھا کہ وہ تھوڑی بہت بنگالی اور ہندی بول لیتا ہے تو ایک بنگالی بابو اچک کر کھڑے ہوئے اور ہاتھ جھٹک جھٹک کر کہنے لگے، ’’یا تو کہو کہ تمہارے ملک نے دغابازی کی ہے، نہیں تو ہمارے ملک سے نکل جاؤ۔۔۔ نکل جاؤ۔۔نکل جاؤ۔۔۔‘‘
ڈیڑھ دانت کی مسکان جانے کہاں اوجھل ہو چکی تھی۔ اس کی جگہ چہرے پر مایوسی اتر آئی تھی۔ بےچین اور خاموش وانگ چو چپ چاپ بیٹھا رہا۔ کہے بھی تو کیا کہے! فائرنگ کے بارے میں جان کر اسے بھی گہرا صدمہ ہوا تھا۔ اس جھگڑے کی وجہ کے بارے میں اسے کچھ بھی علم نہیں تھا اور وہ جاننا چاہتا بھی نہیں تھا۔
ہاں، سارناتھ پہنچ کر وہ سچ مچ جذبات سے مغلوب ہو گیا۔ اپنا تھیلا رکشا میں رکھے جب وہ آشرم کے قریب پہنچا تو کینٹین کا باورچی سچ مچ لپک کر باہر آیا۔ ’’آگئے بھگوان! آ گئے میرے چینی بابو! بہت دن بعد درشن دیے۔ ہم بھی کہیں، اتنا عرصہ ہو گیا چینی بابو نہیں لوٹے! آپ یہاں نہیں تھے۔ ہم کہیں، جانے کب لوٹیں گے! یہاں پر تھے، دن میں دو باتیں ہو جایا کرتی تھیں، بھلے آدمی کے درشن ہو جاتے تھے۔ اس میں بڑی بھلائی ہوتی ہے۔‘‘ اور اس نے ہاتھ بڑھا کر تھیلا اٹھا لیا، ’’ہم دیں پیسے، چینی بابو؟‘‘
وانگ چو کو لگا جیسے وہ اپنے گھر پہنچ گیا ہو۔
’’آپ کا ٹرنک، چینی بابو، ہمارے پاس رکھا ہے۔ منتری جی سے ہم نے لے لیا۔ آپ کی کوٹھری میں ایک دوسرے سجن رہنے آئے تو ہم نے کہا کہ کوئی فکر نہیں، یہ ٹرنک ہمارے پاس رکھ جائیے اور چینی بابو، آپ اپنا لوٹا باہر ہی بھول گئے تھے؟ ہم نے منتری بابو سے کہا یہ لوٹا چینی بابو کا ہے، ہم جانتے ہیں، ہمارے پاس چھوڑ جائیے۔‘‘
وانگ چو کا دل بھر آیا۔ اسے لگا کہ اس کی ڈانواڈول زندگی میں ٹھہراؤ آ گیا ہے، جیون کی ڈگمگاتی نوکا پھر ہموار رفتار سے چلنے لگی ہے۔
منتری جی بھی خلوص سے ملے۔ پرانی جان پہچان کے آدمی تھے۔ انہوں نے ایک کوٹھری بھی کھول کر دے دی مگر وظیفے کے بارے میں کہا کہ اس کے لیے پھر سے کوشش کرنی ہوگی۔ وانگ چو نے کوٹھری کے بیچوں بیچ چٹائی دوبارہ بچھالی، کھڑکی کے باہر وہی منظر پھر سے ابھر آیا۔ کھوئی ہوئی روح اپنے مقام پر لوٹ آئی۔
تبھی مجھے اس کا خط ملا کہ وہ بھارت لوٹ آیا ہے اور پھر سے جم کر بودھ گرنتھوں کا مطالعہ کرنے لگا ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ اسے ماہوار وظیفے کے بارے میں کچھ فکر ہے اور اگر اس سلسلے میں بنارس میں فلاں صاحب کو خط لکھ دوں تو وظیفہ ملنے میں سہولت ہوگی۔
خط پاکر مجھے کھٹکا ہوا۔ کون سی مرگ ترشنا اسے واپس کھینچ لائی ہے؟ یہ لوٹ کیوں آیا ہے؟ اگر کچھ دن اور وہیں ٹکا رہتا تو اپنے لوگوں میں اس کا دل لگنے لگتا۔ پر کسی کی سنک کا کیا علاج! اب جو لوٹ آیا ہے تو کیا چارہ ہے۔ میں نے فلاں صاحب کو خط لکھ دیا اور وانگ چو کے وظیفے کا چھوٹا موٹا بندوبست ہو گیا۔
لوٹنے کے دس ایک دن بعد وانگ چو ایک صبح چٹائی پر بیٹھا ایک گرنتھ پڑھ رہا تھا اور بار بار مست ہو رہا تھا کہ اس کی کتاب پر کسی کا سایہ پڑا۔ اس نے نظر اٹھاکر دیکھا تو پولیس کا تھانےدار کھڑا تھا، ہاتھ میں ایک پرچہ اٹھائے ہوئے تھا۔ وانگ چو کو بنارس کے بڑے پولیس اسٹیشن میں بلایا گیا تھا۔ وانگ چو کا دل وسوسوں سے بھر گیا۔
تین دن بعد وانگ چو بنارس کے پولیس اسٹیشن کے برآمدے میں بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ بنچ پر بڑی عمر کا ایک اور چینی شخص تھا جو جوتے بنانے کا کام کرتا تھا۔ آخر بلاوا آیا اور وانگ چوچق اٹھاکر افسر کی میز کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
’’تم چین سے کب لوٹے؟‘‘
وانگ چونے بتا دیا۔
’’کلکتے میں تم نے اپنے بیان میں کہا کہ تم شانتی نکیتن جا رہے ہو، پھر یہاں کیوں چلے آئے؟ پولیس کو پتا لگانے میں بڑی پریشانی اٹھانی پڑی ہے۔‘‘
’’میں نے دونوں جگہوں کے بارے میں کہا تھا۔ شانتی نکیتن تو میں صرف دو ایک دن کے لیے جانا چاہتا تھا۔‘‘
’’تم چین سے کیوں لوٹ آئے؟‘‘
’’میں بھارت میں رہنا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘ اس نے پہلے کا جواب دہرا دیا۔
’’لوٹ آنا تھا تو گئے کیوں تھے؟‘‘
یہ سوال وہ بہت بار پہلے بھی سن چکا تھا۔ جواب میں بودھ گرنتھوں کا حوالہ دینے کے سوا اسے کوئی اور جواب نہیں سوجھ پاتا تھا۔ بہت لمبا انٹرویو نہیں ہوا۔ وانگ چو کو ہدایت کی گئی کہ اسے ہر مہینے کے پہلے سوموار کو بنارس کے بڑے پولیس اسٹیشن میں آنا ہوگا اور اپنی حاضری دکھانی ہوگی۔
وانگ چو باہر آ گیا مگر خود کو مضطرب سا محسوس کرنے لگا۔ مہینے میں ایک بار آنا کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن اس سے اس کی پرسکون زندگی میں خلل پڑتا تھا۔ وانگ چو دل میں اتنا اضطراب محسوس کر رہا تھا کہ بنارس سے لوٹنے کے بعد کوٹھری میں جانے بجائے سب سے پہلے اس خاموش متبرک مقام پر جاکر بیٹھ گیا جہاں صدیوں پہلے مہاپران نے اپنا وعظ کیا تھا اور دیر تک وہاں بیٹھا مراقبہ کرتا رہا۔ بہت دیر بعد اس کا دل پھر سے ٹھکانے پر آنے لگا اور دل میں پھر جذبے کی ترنگیں اٹھنے لگیں۔
پروانگ چو کو چین نصیب نہیں ہوا۔ کچھ ہی دن بعد اچانک چین اور بھارت میں جنگ چھڑ گئی۔ ملک بھر میں جیسے طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس روز شام کو پولیس کے کچھ لوگ ایک جیپ میں آئے اور وانگ چو کو حراست میں لے کر بنارس چلے گئے۔ سرکار یہ نہ کرتی تو اور کیا کرتی؟ حکومت کرنے والوں کو اتنی فرصت کہاں کہ ہنگامی حالت میں ہمدردی اور نیک نیتی کے ساتھ دشمن کے ایک ایک شہری کی جانچ کرتے پھریں۔
دودن تک دونوں چینیوں کو پولیس اسٹیشن کی ایک کوٹھری میں رکھا گیا۔ دونوں میں کوئی بات بھی مشترک نہیں تھی۔ جوتے بنانے والا چینی سارا وقت سگریٹ پھونکتا رہتا اور گھٹنوں پر کہنیاں ٹکائے بڑبڑاتا رہتا، جب کہ وانگ چو ساکت اور نڈھال سا دیوار سے پیٹھ لگائے بیٹھا خلا میں دیکھتا رہتا۔
جس وقت وانگ چو اپنی صورت حال کوسمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، اسی وقت دوتین کمرے چھوڑ کر سپرنٹنڈنٹ کی میز پر اس کی پوٹلی کی تلاشی لی جا رہی تھی۔ اس کی غیرموجودگی میں پولیس کے سپاہی کوٹھری میں سے اس کا ٹرنک اٹھا لائے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ کے سامنے کاغذوں کا پلندا رکھا تھا جس پر کہیں پالی میں تو کہیں سنسکرت میں اقتباسات درج تھے، لیکن بہت سا حصہ چینی زبان میں تھا۔ صاحب کچھ دیر تک تو کاغذوں کو الٹتے پلٹتے رہے، روشنی کے سامنے رکھ کر اس میں کسی خفیہ زبان کو ڈھونڈھتے بھی رہے، آخر میں انہوں نے حکم دیا کہ کاغذوں کے پلندے کو باندھ کر دلی کے اہلکاروں کے پاس بھیج دیا جائے کیوں کہ بنارس میں کوئی آدمی چینی زبان نہیں جانتا تھا۔
پانچویں دن لڑائی بند ہو گئی، لیکن وانگ چو کو سارناتھ لوٹنے کی اجازت ایک مہینے بعد ملی۔ چلتے وقت جب ٹرنک اس کے حوالے کیا گیا اور اس نے اسے کھول کر دیکھا تو سکتے میں آ گیا۔ اس کے کاغذ اس میں نہیں تھے، جن پر وہ برسوں سے نوٹس اور مضامین وغیرہ لکھتا رہا تھا اور ایک طرح سے اس کے لیے سب کچھ تھے۔ پولیس افسر کے کہنے پر کہ انہیں دلی بھیج دیا گیا ہے، وہ سر سے پاؤں تک کانپ اٹھا۔
’’وہ میرے کاغذ آپ مجھے دے دیجیے۔ ان پر میں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ بہت ضروری ہیں۔‘‘
اس پر افسر رکھائی سے بولا، ’’مجھے ان کاغذوں کا کیا کرنا ہے؟ آپ کے ہیں، آپ کو مل جائیں گے۔‘‘ اور اس نے وانگ چو کو چلتا کیا۔ وانگ چو اپنی کوٹھری میں لوٹ آیا۔ اپنے کاغذوں کے بغیر وہ ادھر مرا سا ہو رہا تھا۔ نہ پڑھنے میں دل لگتا نہ کاغذوں پر نئے اقتباس اتارنے میں اور پھر اس کی کڑی نگرانی کی جانے لگی تھی۔ کھڑکی سے تھوڑا ہٹ کر نیم ے پیڑ کے نیچے ایک آدمی روز بیٹھا نظر آنے لگا۔ ڈنڈا ہاتھ میں لیے وہ کبھی ایک کروٹ بیٹھتا کبھی دوسری کروٹ۔ کبھی اٹھ کر ڈولنے لگتا، کبھی کنویں کی منڈیر پر جا بیٹھتا، کبھی کینٹین کی بنچ پر آ بیٹھتا، کبھی گیٹ پر جاکر کھڑا ہوتا۔ اس کے علاوہ اب وانگ چو کو مہینے میں ایک بار کے بجائے ہفتے میں ایک بار بنارس میں حاضری لگوانے جانا پڑتا تھا۔
تب مجھے وانگ چوکی چٹھی ملی۔ ساری تفصیل بتانے کے بعد اس نے لکھا کہ بودھ وہار کا منتری بدل گیا ہے، نئے منتری کوچین سے نفرت ہے اور وانگ چو کو ڈر ہے کہ وظیفہ ملنا بند ہو جائےگا۔ دوسرے، جیسے بھی بن پڑے میں اس کے کاغذوں کو بچالوں، جیسے بھی بن پڑے انہیں پولیس کے ہاتھوں سے نکلوا کر سارناتھ میں اس کے پاس بھجوا دوں اور اگر بنارس کے پولیس اسٹیشن میں ہر ہفتے پیش ہونے کے بجائے اسے مہینے میں ایک بار جانا پڑے تو اسے سہولت ہوگی، کیوں کہ اس طرح مہینے میں لگ بھگ دس روپے آنے جانے میں لگ جاتے ہیں اور پھر کام میں جی ہی نہیں لگتا، سر پر تلوار ٹنگی رہتی ہے۔
وانگ چو نے خط تو لکھ دیا، لیکن یہ نہیں سوچا کہ مجھ جیسے آدمی سے یہ کام نہیں ہو پائےگا۔ ہمارے یہاں کوئی کام بغیر جان پہچان یا سفارش کے نہیں ہو سکتا اور میرے جاننے والوں میں بڑے سے بڑا آدمی میرے کالج کا پرنسپل تھا۔ پھر بھی میں کچھ اسمبلی ممبروں کے پاس گیا۔ ایک نے دوسرے کی طرف بھیجا، دوسرے نے تیسرے کی طرف۔ میں بھٹک بھٹک کر لوٹ آیا۔ یقین دہانیاں تو بہت ملیں مگر سب یہی کہتے، ’’وہ چین جو گیا تھا، وہاں سے لوٹ کیوں آیا؟‘‘ یا پھر پوچھتے ’’پچھلے بیس سال سے مطالعہ ہی کر رہا ہے؟‘‘
لیکن جب میں اس کے مسودوں کا ذکر کرتا تو سب یہی کہتے، ’’ہاں، یہ تو مشکل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ اور سامنے رکھے کاغذ پر کچھ نوٹ کرلیتے۔ پر سرکاری کام کے راستے بھول بھلیوں کی طرح ہوتے ہیں اور ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی آدمی تمہیں تمہاری حیثیت کی پہچان کراتا رہتا ہے۔ میں جواب میں اسے اپنی کوششوں کی تفصیل لکھی، یہ بھی تسلی دی کہ میں پھر لوگوں سے ملوں گا، لیکن ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیا کہ جب حالات بہتر ہو جائیں تو وہ اپنے ملک لوٹ جائے کیوں کہ اس کے لیے یہی بہتر ہے۔
خط سے اس کے دل پر کیا اثر ہوا، میں نہیں جانتا۔ اس نے کیا سوچا ہوگا؟ مگر ان تناؤ بھرے دنوں میں جب مجھے خود چین کے رویے پر غصہ آ رہا تھا، میں وانگ چو کی صورت حال کو زیادہ ہمدردی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اس کا پھر ایک خط آیا۔ اس میں چین لوٹ جانے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس میں صرف وظیفے کا ذکر کیا گیا تھا۔ وظیفے کی رقم اب بھی چالیس روپے ہی تھی لیکن اسے اطلاع دے دی گئی تھی کہ سال ختم ہونے پر پھر غور کیا جائے گا کہ وہ ملتا رہےگا یا بند کر دیا جائےگا۔
لگ بھگ سال بھر بعد وانگ چو کو ایک پرزہ ملا کہ تمہارے کاغذ واپس کیے جا چکے ہیں اور تم پولیس اسٹیشن آکر انہیں لے جا سکتے ہو۔ ان دنوں وہ بیمار پڑا تھا، لیکن بیماری کی حالت میں بھی وہ گرتا پڑتا بنارس پہنچا مگر اس کے ہاتھ صرف ایک تہائ کاغذ لگے۔ پوٹلی اب بھی کھلی ہوئی تھی۔ وانگ چو کو پہلے تو یقین نہیں آیا، پھر اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور ہاتھ پیر کانپنے لگے۔ اس پر تھانے دار رکھائی کے ساتھ بولا، ’’ہم کچھ نہیں جانتے۔ انہیں اٹھاؤ اور یہاں سے لے جاؤ۔ ورنہ لکھ دو کہ ہم انہیں لینے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘
وانگ چو پلندا بغل میں دبائے کانپتی ٹانگوں سے لوٹ آیا۔ کاغذوں میں صرف ایک پورا مضمون اور کچھ نوٹس بچے تھے۔
اس دن سے وانگ چو کی آنکھوں کے سامنے دھول اڑنے لگی۔
وانگ چوکی موت کی خبر مجھے مہینے بھر بعد ملی، وہ بھی بودھ وہار کے منتری کی طرف سے کہ مرنے سے پہلے وانگ چو نے درخواست کی تھی کہ اس کا چھوٹا ساٹرنک اور گنی چنی کتابیں مجھے پہنچوا دی جائیں۔
عمر کے اس حصے میں پہنچ کر انسان بری خبریں سننے کا عادی ہو جاتا ہے اور وہ دل پر گہرا اثر نہیں کرتیں۔
میں فوراً سارناتھ نہیں جا پایا۔ جانے کی کوئی تک بھی نہیں تھی کیوں کہ وہاں وانگ چو کا کون بیٹھا تھا جس کے سامنے افسوس کرتا۔ وہاں تو صرف ٹرنک ہی رکھا تھا۔ پر کچھ دن بعد موقع ملنے پر میں گیا۔ منتری جی نے وانگ چو کی بابت کچھ اچھے الفاظ کہے، ’’بڑا نیک دل آدمی تھا، سچے معنوں میں بودھ بھکشو تھا۔۔۔ ’’وغیرہ۔ میرے دستخط لے کر انہوں نے ٹرنک میرے حوالے کیا۔ ٹرنک میں وانگ چو کے کپڑے تھے، وہ پھٹا پرانا چوغہ تھا جو کسی زمانے میں اس نے سری نگر میں خریدا تھا۔ چھوٹا سا چمڑے کا پیڈ تھا جو نیلم نے تحفے میں دیا تھا۔ تین چار کتابیں تھیں، پالی اور سنسکرت کی۔ چٹھیاں تھیں، کچھ میری، کچھ نیلم کی، کچھ اور لوگوں کی۔
ٹرنک اٹھائے میں باہر کی طرف جا رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ ملی۔ میں نے مڑکر دیکھا، کینٹین کار سوئیا بھاگا چلا آ رہا تھا۔ اپنے خطوں میں وانگ چو اکثر اس کا ذکر کیا کرتا تھا۔
’’بابو آپ کو بہت یاد کرتے تھے۔ مجھ سے آپ کا بہت ذکر کرتے تھے۔ بہت بھلے آدمی تھے۔۔۔‘‘ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ سارے سنسار میں شاید یہی اکیلا انسان تھا جس نے وانگ چو کی موت پر دو آنسو بہائے تھے۔
’’بڑی بھولی طبیعت تھی۔ بےچارے کو پولیس والوں نے بہت پریشان کیا۔ شروع شروع میں تو چوبیس گھنٹے نگرانی رہتی تھی۔ میں اس حوالدار سے کہوں، بھیا، تو کیوں اس بے چارے کو پریشان کرتا ہے؟ وہ کہے، میں تو ڈیوٹی کر رہا ہوں۔۔۔‘‘
میں ٹرنک اور کاغذوں کا پلندا لے آیا ہوں۔ اس پلندے کا کیا کروں؟ کبھی سوچتا ہوں اسے چھپوا ڈالوں مگر ادھورا مسودہ کون چھاپےگا؟ بیوی روز بگڑتی ہے کہ میں گھر میں کچرا بھرتا رہتا ہوں۔ دو تین بار اسے پھینکنے کی دھمکی بھی دے چکی ہے، پر میں اسے چھپاتا رہتا ہوں۔ کبھی کسی تختے پر رکھ دیتا ہوں، کبھی پلنگ کے نیچے چھپا دیتا ہوں۔ پر میں جانتا ہوں، کسی دن یہ بھی گلی میں پھینک دیے جائیں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.