Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہی فاصلہ ہے کہ جو تھا

صغیر افراہیم

وہی فاصلہ ہے کہ جو تھا

صغیر افراہیم

MORE BYصغیر افراہیم

    اشرف جب بھی رسول آباد کی حویلی کا ذکر کرتا ایمن ہمہ تن گوش ہوجاتی اور اشرف کی آنکھوں میں اِس طرح جھانکنے لگتی جیسے حویلی کے دُھندلے نقش و نگار اُس کے اندر چھُپے ہیں جنھیں وہ کھوجنے کی کوشش کر رہی ہو۔ کھوجنے کی اس ادا سے اشرف لطف اندوز ہوتا اور بتاتا کہ کچی پکّی اینٹوں سے بنی دیواریں جگہ جگہ سے گرنے لگی ہیں۔جگہ جگہ پر شگاف پڑگئے ہیں۔ اس درمیان وہ اُس کے چہرے کے تغیّرات کو دیکھ کر وہ بوکھلاجاتا مگر ایمن کسی نہ کسی وسیلے سے اُسے پھر کچھ کہنے پر مجبورکرتی اور اشرف قصّہ گو کے انداز میں کہتا! جب سے قاضی نثار حسین کی اچانک موت ہوئی ، خان بہادر قاضی ستّار حسین کی حویلی پر سوگواری کی تاریکی سیاہ تر ہو گئی ہے اور اب تو اُس کے مکین کسمپرسی کی حالت سے دو چار ہیں۔

    ’’ایسا کیوں ہوا ؟ یہ ناگہانی کیونکر آئی ؟‘‘

    ’’روایت مشہور ہے کہ تباہی قاضی نثار کی اپنی لائی ہوئی تھی جنھوں نے ایک کم ذات نو مسلم عورت سے شادی کرکے قاضی خاندان کے وقار کو پامال کیا اور ان کے نام و ناموس کو چکنا چور کر دیا۔‘‘اشرف نے اظہارِ افسوس کیا۔

    ایمن کی فکر مندی اور اس کے پژمردہ چہرہ کو دیکھ کر اشرف کبھی کبھی سوچتا شاید ایمن مجھے چاہتی ہے ؟ یا یہ کہ رسول آباد کے قاضیوں کی اُس شکستہ حویلی کو جووقت کے ہاتھوں زمیں دوز ہونے پر ، افسردہ ہوتی ہے ۔یہ ایک سوالیہ نشان تھا جس کا وہ جواب جاننا چاہتاتھا ؟ اُس نے دماغ پر بہت زور ڈالا مگر ذہن میں کوئی تصویر نہیں اُبھرسکی پھر جھنجھلاہٹ، بیزاری میں تبدیل ہونے لگتی تو وہ ذہن کو جھٹک دیتا ۔ ایمن اکثر کہتی کہ مجھے تم سے محبت ہے تو تمہارے شہر سے کیوں نہ ہو ؟اس وقت خیال و خواب کی دنیا میں پہنچ جاتا اور بغیر پروں کے پرندوں کی طرح آسمان پر اڑنے لگتا۔اب رسول آباد قصبہ سے شہر میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ادھ کچّے مکانوں کی جگہ پکے مکانات اور چمچماتی عمارتوں نے لے لی ہے ۔ بجلی اور ٹیلیفون کے کھمبے قطار در قطار سینہ تانے کھڑے ہیں لیکن حویلی سے ایک عجیب بے بسی اور ویرانی عیاں ہے قصبہ نے جتنی ترقی کی حویلی نے اُتنی ہی تنزلی ۔

    ایمن اور اشرف ایم۔بی۔بی۔ایس۔ کے آخری سال کے طالب علم تھے۔ ایمن خوبصورت ہونے کے ساتھ شرمیلی اور کم گو تھی۔ اشرف کی قربت کی وجہ شاید رسول آباد تھا، جہاں کا وہ رہنے والا تھا۔ رسول آباد کے تعلق سے اُس کو صرف اتنا یاد تھا کہ بچپن میں وہ اپنے ابّو کی اُنگلی پکڑ کر مدّو کی دوکان سے مٹھائی لینے جاتی تھی یا پھر بیٹھک میں ابّو کی کرسی کے ہتّے کو پکڑے، تو تلی زبان میں کلمہ سنایا کرتی تھی۔ اُس کے علاوہ تمام حالات ماضی کے پردے میں پوشیدہ تھے۔ پانچ سال کی عمر کوئی ایسی عمربھی نہیں ہوتی جس میں بچہ تمام حالات کو بخوبی یاد رکھ سکے۔ ہاں ایک منظر ایمن کو اور بھی یاد تھا جب اُس کے ابّو ہمیشہ کے لیے اپنے اور بیگانوں سے روٹھ کر دُور کہیں دُور جارہے تھے اور وہ رو رو کر انہیں منارہی تھی۔ مت جاؤ! ابّورُک جاؤ، نہ جاؤ۔ ایمن کی فریاد پر روح افلاک کانپ کانپ اُٹھی مگر لوگوں نے کچھ نہ سنا اور نہ ہی ابُّو کے قدموں کو روک سکی ۔

    قسمت بھی کیا چیز ہے ؟ شاید مجبوری اور معذوری کا دوسرا نام ہے جس کا ایک سرا مشیتِ ایزدی سے ملتاہے اور دُوسرا سرا انسان کی نامُرادی اور ناکامی سے۔ یہ دونوں سِرے دراصل انسانوں کو زندگی گذارنے کا ایک نیا حوصلہ بخشتے ہیں۔ اگر یہ فریب پیہم نہ ہوتا تو یقیناًآدمی کا دم نکل جاتا۔ایمن کو کچھ بھی یاد نہیں۔ قصبہ، حویلی، مکین اور نہ ہی وہاں کی سوندھی سوندھی مٹی.......۔ ایمن بچپن میں ہی وہاں سے سارے ناطے توڑ کر اپنی ماں کے ساتھ چلی آئی تھی جب تمام رشتہ داروں نے اُس کی ماں کو گدھ کی طرح نوچنا شروع کردیاتھا پھر بھی لاشعوری طور پر رسول آباد سے اُس کا رشتہ ابھی باقی تھا کہ وہاں کی ایک ایک چیز اور ایک ایک فرد کے متعلق نہ چاہنے کے باوجود سوچتی رہتی اور پھر اُن تمام چیزوں کو یاد رکھنے کی کوشش کرتی ۔

    ایمن نے ابھی تک اشرف کو اپنی ماں سے متعارف نہیں کرایاتھا۔ وہ ایک عجیب کشمکش میں مبتلاتھی۔ ہر لمحہ، ہر پل احساس کا بدن چھلنی ہورہاتھا۔ اُس کی بے چینی اب ماں سے پوشیدہ نہیں رہی تھی۔ وہ اکثر پوچھ بیٹھتی! آج کل تجھے کیا ہوگیا ہے ؟ ہر وقت تو کیا سوچتی رہتی ہے ؟ مجھے بتا! ماں کی محبت بھری باتیں ایمن کو اور بھی تڑپادیتیں۔ آخر ایک دن ماں نے ایمن کو حکم دیا۔ بیٹی! دوپہر میں اشرف کو ساتھ لیتی آنا۔ وہ ہم لوگوں کے ساتھ کھانا کھائے گا۔ میں نے بہت تعریف سُنی ہے اُس کی! اشرف نے آتے ہی ماں سے شکوہ کیا کہ وہ عرصہ سے آپ سے ملنے کا خواہش مند تھا مگر ایمن نے کبھی موقع ہی نہیں دیا۔اب وہ برابر قدم بوسی کے لیے حاضر ہوتا اور ڈھیر ساری باتیں کرتا۔ ایک دن اُس نے اپنے والدین کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی تو ایمن کی ماں کو پیروں تلے زمین کھسکتی محسوس ہوئی ۔اشرف کب واپس گیا اُسے علم نہ ہوسکا۔ اُس کا ذہن چکرارہاتھا۔ دل و دماغ میں ایک عجیب ہلچل سی مچی ہوئی تھی۔ دل کا زخم جو وقت نے بھر دیا تھا۔ اچانک اس کے ٹانکے کھل گئے۔ قاضی نثار حسین کا با رعب تمتماتا ہوا چہرہ حسب و نسب کی تفاخر سے دمک رہا تھا۔ انھوں نے خاندان والوں کے سمجھانے بجھانے کے باوجود سید علی کی اکلوتی بیٹی کو حلقۂ زوجیت میں لینے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ راتوں رات نومسلم زینت سے شادی کر لی تھی۔ حویلی میں کہرام مچ گیا۔ بندوقیں تن گئیں۔ بڑی مشکلوں سے حالات معمول پر آئے تھے۔ سید علی نے اپنے بھتیجے سے اپنی بیٹی کی شادی تو کر دی مگر اس حادثے کو وہ جیتے جی بھلا نہ سکے تھے۔ اشرف اسی اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ تھا جس نے زینت کی زندگی میں تاریکی کا زہر گھول دیا تھا۔ قصبّہ کا تقریباً ہر فرد جانتا تھا کہ قاضی نثار حسین کی موت میں سید علی کا ہاتھ ہے چونکہ حویلی کے لوگ ہی اس تفتیش سے گریز کر رہے تھے تو غیروں کو مداخلت کی جرأت کیوں کر ہوتی؟ حویلی والوں کو تو محض اِس بات کی عجلت تھی کہ زینت اپنی بیٹی کو لے کر جلد سے جلد دفع ہو جائے۔ زینت نے بھی اس میں عافیت سمجھی اور ایمن کو لے کر علی گڑھ آ گئی کیونکہ یہی اس کے لیے آخری پناہ گاہ، گوشۂ عافیت تھی۔

    زینت کی تربیت اور ایمن کی ذہانت رنگ لائی۔ ایم۔ بی۔ بی۔ ایس۔ میں کامیابی حاصل کرکے اب وہ House Job کر رہی تھی۔ جلد ہی خواب حقیقت میں تبدیل ہونے والے تھے۔ کچھ دنوں بعد اسے ڈاکٹری کی سند کے ساتھ پھولوں کی سیج بھی میسر ہونے والی تھی، جس کی تمنا اشرف کو دیکھنے کے بعد اس میں بیدار ہو گئی تھی۔ اس نے اشرف کو بڑے ہی نرم لہجے میں حالات کی سنگینی سے باخبر کیا۔ ماضی کی کوتاہیوں کی نشان دہی کی۔ اشرف تین دن کی چھٹی لے کر گھر چلا گیا حالانکہ یہ چھٹیاں اسے بڑی دقتوں سے ملی تھیں۔ ٹی۔بی۔ کا ایک مریض دین محمد جس کی حالت بہت نازک تھی، اشرف اور ایمن کی نگرانی میں تھا۔ اب اس مریض کی پوری دیکھ ریکھ ایمن کے ہاتھ میں تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اشرف گھر ہو آئے۔ اشرف خلاف توقع بہت تاخیر سے آیا اور بغیر کسی تمہید کے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔ ایمن کا تعمیر کردہ کانچ کا گھر پل بھر میں ریزہ ریزہ ہو گیا ۔ اسے لگا کہ جیسے کسی نے اس کا دل مٹھی میں لے کر مسَل ڈالا ہو۔ اس رات وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ زینت نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ بیٹی! زندگی کی صعوبتوں اور الجھنوں میں رہ کر جینا ہوتا ہے۔ مرمر کر جینے کا نام ہی زندگی ہے۔ ماں کی عظیم قربانیوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے اُس نے خود کو سنبھال لیا اور زندگی سے سمجھوتہ کر لیا۔

    میڈیکل کالج کے گول گنبدوں کے نیچے اچانک اس کے قدم رک گئے۔ اسی جگہ اس نے اشرف کو پہلی بار دیکھا تھا جب میڈیکل کے سینئر طالب علموں کے سامنے جونیر طالب علم، جن کے داخلوں کو مکمل ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں گذرا تھا، سر جھکائے مؤدب کھڑے ہوئے تھے اور جب ایک سینئر انٹروڈکشن لیتے ہوئے اشرف سے کرخت لہجے میں پوچھ رہا تھا ’’کس جنگل سے آئے ہو‘‘ تو اس نے ہکلاتے ہوئے کہا تھا ’رسول آباد سے‘۔ رسول آباد کا نام سن کر ایمن کا جھکا ہوا سر نہ صرف اٹھ گیا تھا بلکہ اُس نے ایک ہی نظر میں اشرف کا پورا جائزہ لے لیا تھا اور پھر دن بدن نگاہ سے دل تک کے فاصلے کم ہوتے گئے۔ لیکن آج رکے رکے سے قدم بتا رہے تھے کہ آج بھی وہی فاصلہ ہے کہ جو تھا۔ ایمن نے خیالوں کے تانوں بانوں کو جھٹکتے ہوئے کوریڈور کو پار کیا تو ڈاکٹر رستوگی کے الفاظ اس کے کان میں گونجے:

    ’’ڈاکٹر تم نے دین محمد کیس میں لاپرواہی برتی ہے۔‘‘

    ’’جی سر‘‘ سر جھکائے اشرف کھڑا تھا۔

    ’’تم جانتے تھے اس کے مہلک مرض میں افاقہ کے آثار پیدا ہو چلے تھے۔۔۔ اگر تم توجہ دیتے تو وہ بچ سکتا تھا۔‘‘ ڈاکٹر رستوگی نے کہا۔

    ’’جی سر، جی سر۔۔۔ کی آوازیں وارڈ میں پھیلے موت کے سناٹے میں گونج رہی تھیں۔۔۔ ایمن سوچ رہی تھی۔۔۔ گھمنڈ کا سر جھکا ہے اور رسول آباد کی پرشکوہ حویلی ٹوٹ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو رہی ہے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے